"مقاومتی بلاک" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 16: سطر 16:
اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای نے اگست 1372ش میں پہلی بار لبنان کی حزب اللہ تحریک کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ سے ملاقات میں اسلامی مزاحمتی محاذ کے بارے میں بات کی اور اس پر غور کیا۔ اسرائیل کی جارحیت کا نتیجہ ہے کہ لبنان کے خلاف اس کی جارحیت سے نہ صرف مطلوبہ سیاسی اور عسکری اہداف حاصل نہیں ہوسکے ہیں بلکہ یہ عوام کی یکجہتی اور اتحاد کا سبب بنی ہے <ref>[https://farsi.khamenei.ir/news-content?id=9122 دیدار دبیر کل‌ جنبش‌ حزب‌الله‌ لبنان‌ با رهبر انقلاب](حزب اللہ لبنان کے سیکٹری جنرل کی رہبر انقلاب سے ملاقات)-farsi.khamenei.ir/news(فارسی زبان)- شائع شدہ از: 23 جولائی 1993ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 نومبر 2024ء۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای نے اگست 1372ش میں پہلی بار لبنان کی حزب اللہ تحریک کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ سے ملاقات میں اسلامی مزاحمتی محاذ کے بارے میں بات کی اور اس پر غور کیا۔ اسرائیل کی جارحیت کا نتیجہ ہے کہ لبنان کے خلاف اس کی جارحیت سے نہ صرف مطلوبہ سیاسی اور عسکری اہداف حاصل نہیں ہوسکے ہیں بلکہ یہ عوام کی یکجہتی اور اتحاد کا سبب بنی ہے <ref>[https://farsi.khamenei.ir/news-content?id=9122 دیدار دبیر کل‌ جنبش‌ حزب‌الله‌ لبنان‌ با رهبر انقلاب](حزب اللہ لبنان کے سیکٹری جنرل کی رہبر انقلاب سے ملاقات)-farsi.khamenei.ir/news(فارسی زبان)- شائع شدہ از: 23 جولائی 1993ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 نومبر 2024ء۔
</ref>۔
</ref>۔
== مزاحمتی محاذ کی تشکیل کا جواز ==
اگر ہم  [[طوفان  الاقصی]] کے بعد غزہ میں پیش آنے والے واقعات کو ایک اور زاویے سے دیکھیں تو اس حادثہ  نے مزاحمتی محاذ کی تشکیل کا جواز ظاہر کیا۔ کچھ لوگوں نے یہ سوال اٹھایا کہ مغربی ایشیا میں اس مزاحمتی محاذ کی کیا ضرورت تھی؟ اب سب پر واضح ہو کیا کہ اس خطے میں مزاحمتی محاذ کی موجودگی سب سے اہم مسائل میں سے ایک ہے۔ اس مزاحمتی محاذ کو دن بدن مضبوط کیا جانا چاہے۔


اس خطے میں بیدار ضمیر رکھنے والے لوگ جب صیہونیوں کے ظلم و ستم کو دیکھتے ہیں - جو ستر سال سے جاری ہے - خاموش نہیں بیٹھنا چاہے۔ مزاحمت کے لیے سوچنا فطری بات ہے۔ مزاحمتی محاذ کی تشکیل اس کے لیے ہے۔ فلسطینی قوم اور فلسطین کے حامیوں کے خلاف صیہونی مجرموں کے اس جاری ظلم کا سامنا کرنا ہے۔
== تاریخی پس منظر ==
6 روزہ جنگ سے داعش کے خلاف لڑائی تک مزاحمت کے محور کا تصور گزشتہ چند دہائیوں کے تاریخی واقعات کے تناظر میں تشکیل دیا گیا ہے اور اس کی پیروی اسرائیل، داعش (شام اور عراق میں) اور شام میں امریکہ کی موجودگی کے تناظر میں کی جا سکتی ہے۔ مشرق وسطی کا علاقہ۔
=== حماس ===
اسرائیل کا غاصبانہ تشخص اور 1948ء میں قائم کی گئی سرحدوں کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے فلسطینیوں بشمول اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کا ہمیشہ اسرائیل کے بارے میں مخالفانہ نظریہ ہے اور اس کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
=== حزب اللہ ===
[[غزہ]] میں 22 روزہ جنگ، جو جنوری 2007ء میں ہوئی، اسلامی مزاحمتی قوتوں کی طرف سے اسرائیل کی قومی سلامتی کو لاحق خطرات کی ایک مثال ہے۔ مزید برآں، لبنان کی سیاسی عسکری تنظیم حزب اللہ، جو ایک شیعہ تنطیم ہے، جون 1379ء میں جنوبی لبنان کے علاقوں پر اسرائیل کے 18 سالہ فوجی تسلط کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئی۔ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان 33 روزہ جنگ جاری رہی جو جولائی 2005 کے آخر سے اسی سال اگست کے آخر تک جاری رہی۔
=== شام ===
[[شام]] اور اسرائیل کے درمیان معاندانہ تعلقات بھی قائم ہیں اور یہ دسمبر 1345 میں چھ روزہ جنگ کے بعد سے شروع ہوا ہے، جس کے دوران اسرائیل نے شام کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تھا جسے گولان کی پہاڑیوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔ شام اور اسرائیل کے تعلقات ایرانی اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد اور خاص طور پر شام میں بشار الاسد کی صدارت کے بعد مزید دشمنی کا شکار ہو گئے اور ایران، شام، فلسطینی جہادی قوتوں کے درمیان قریبی اتحاد کی تشکیل کا باعث بنے۔۔
=== شام اور عراق ===
سلفی اسلامی  تنظیم داعش کے ہاتھوں شام اور عراق کے ممالک کے اہم حصوں پر قبضے نے ایک بار پھر مزاحمت کا محور متعلقہ ممالک کے فوجی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی خطرات کے خلاف لڑنے کے لیے ایک اتحاد بنا دیا۔ چنانچہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت نے عراق اور شام میں اپنی فوجی اور مشاورتی موجودگی کے ساتھ داعش کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے اپنی کوششیں شروع کر دیں۔
حضرت زینب بنت علی سلام اللہ علیہا کے مزار سمیت عراق اور شام میں مقدس مقامات کی حفاظت ایران کی موجودگی کے دیگر مقاصد میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ داعش کے خلاف شام اور عراق کی حکومت کی حمایت میں روس اور چین سے مشاورت بھی مزاحمتی محور کی کوششوں کا ایک اور حصہ رہی ہے۔
== مزاحمتی گروہ اور ممالک ==
ایران اور شام کے ممالک نیز حزب اللہ  کو مزاحمتی محور کے ستون کے طور پر جانا جاتا ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کو اس کا رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ مزاحمتی محور کے درمیان تعاون کی چوٹی 2000 میں بشار الاسد کی صدارت اور پھر 2006 (2006) میں جنوبی لبنان پر اسرائیل کے حملے اور 2008 میں غزہ پر حملے کے بعد ہوئی۔ اور غزہ، محور کی مقبولیت کا باعث بنا۔
مسلمانوں میں مزاحمت فلسطین اور عراق میں اسلامی مزاحمتی گروہ حماس کو مشترکہ تاریخی اور ثقافتی عناصر کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف مشترکہ خطرات کی وجہ سے مزاحمت کے محور کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
ایک لفظ میں، مزاحمتی محاذ کے رکن گروپوں میں شامل ہیں:
* لبنان کی حزب اللہ
* یمن کی [[انصار اللہ]]
* [[افغانستان]] کی فاطمیون بریگیڈ
* آذربائیجان کی حسینیون بریگیڈ
* لشکر زینبیون [[پاکستان]]
* عالمی مزاحمتی محاذ
* عراق کی حشد الشعبی
* شام کی قومی دفاعی افواج،
* حماس اور فلسطین
* اسلامی جمہوریہ ایران کے [[سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی]]
== محور مقاومت کا پھیلاٶ ==
== محور مقاومت کا پھیلاٶ ==
اسرائیل کے خلاف مقاومتی محور کے داٸرے میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور کئی ایسے نئے گروہ وجود میں آچکے ہیں، جنہوں نے غاصب حکومت کے خلاف نئے محاذ کھول دیئے ہیں۔ اس سلسلے میں بحرین کے ایک جہادی گروہ ”سرایا الاشتر“ کا نام بین الاقوامی ذراٸع ابلاغ میں گونج رہا ہے۔ ”سرایا الاشتر“ نے گذشتہ ہفتے کو اپنے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ اس نے مقبوضہ فلسطین کے شہر ”ام الرشراش“ میں ایک اہم صیہونی مرکز پر ڈرون حملہ کیا ہے۔  
اسرائیل کے خلاف مقاومتی محور کے داٸرے میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور کئی ایسے نئے گروہ وجود میں آچکے ہیں، جنہوں نے غاصب حکومت کے خلاف نئے محاذ کھول دیئے ہیں۔ اس سلسلے میں بحرین کے ایک جہادی گروہ ”سرایا الاشتر“ کا نام بین الاقوامی ذراٸع ابلاغ میں گونج رہا ہے۔ ”سرایا الاشتر“ نے گذشتہ ہفتے کو اپنے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ اس نے مقبوضہ فلسطین کے شہر ”ام الرشراش“ میں ایک اہم صیہونی مرکز پر ڈرون حملہ کیا ہے۔