"سید علی خامنہ ای" کے نسخوں کے درمیان فرق

 
(3 صارفین 23 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 18: سطر 18:
| website =  
| website =  
}}
}}
'''سید علی حسینی خامنہ‌ای''' [[شیعہ]] [[مرجع تقلید]] اور اسلامی انقلاب کے دوسرے رہبر ہیں۔ سنہ 1989ء میں رہبر انقلاب کے طور پر منتخب ہونے سے پہلے دو بار [[اسلامی جمہوریہ ایران]] کے صدر اور اس سے قبل کچھ عرصے تک مجلس شورائے اسلامی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ [[امام خمینی]] نے انہیں تہران کے [[امام جمعہ]] کے طور پر مقرر کیا اور یہ ان کے شرعی مناصب میں سے ایک ہے۔ وہ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے [[مشہد مقدس]] کے مؤثر ترین علمائے دین میں شمار ہوتے تھے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ‌ای کے افکار و آراء کو حدیث ولایت نامی مجموعے میں اکٹھا کیا گیا ہے۔ ان کے اقوال اور مکتوب  پیغامات کو حسب موضوع مختلف کتب کی صورت میں مرتب کرکے شائع کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے کئی کتابیں تالیف کی ہیں اور کئی کتب کا ترجمہ کیا ہے اور یہ کتب شائع ہوچکی ہیں۔ ان کی مفصل ترین کاوش طرح کلی اندیشہ اسلامی در قرآن اور مشہور ترین ترجمہ کتاب صلح [[حسن بن علی|امام حسن]] ہے۔
'''سید علی حسینی خامنہ‌ای''' [[شیعہ]] [[مرجع تقلید]] اور اسلامی انقلاب کے دوسرے رہبر ہیں۔ سنہ 1989ء میں رہبر انقلاب کے طور پر منتخب ہونے سے پہلے دو بار [[ایران]] کے صدر اور اس سے قبل کچھ عرصے تک مجلس شورائے اسلامی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ [[امام خمینی]] نے انہیں تہران کے امام جمعہ کے طور پر مقرر کیا اور یہ ان کے شرعی مناصب میں سے ایک ہے۔ وہ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے مشہد مقدس کے مؤثر ترین علمائے دین میں شمار ہوتے تھے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ‌ای کے افکار و آراء کو حدیث ولایت نامی مجموعے میں اکٹھا کیا گیا ہے۔ ان کے اقوال اور مکتوب  پیغامات کو حسب موضوع مختلف کتب کی صورت میں مرتب کرکے شائع کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے کئی کتابیں تالیف کی ہیں اور کئی کتب کا ترجمہ کیا ہے اور یہ کتب شائع ہوچکی ہیں۔ ان کی مفصل ترین کاوش طرح کلی اندیشہ اسلامی در قرآن اور مشہور ترین ترجمہ کتاب صلح [[حسن بن علی|امام حسن]] ہے۔


قمہ زنی اور عزاداری کی بعض رسومات کی صریح مخالفت اور اہل سنت کے مقدسات کی توہین کی تحریم ان کے مشہور اور مؤثر فتوؤں میں سے ہیں۔ ثقافتی یلغار اور اسلامی بیداری ان کی خاص تخلیقی اصطلاحات ہیں جو ان کی تقریروں  اور پیغامات کے توسط سے سیاسی ادب کا حصہ بن چکی ہیں۔
قمہ زنی اور عزاداری کی بعض رسومات کی صریح مخالفت اور اہل سنت کے مقدسات کی توہین کی تحریم ان کے مشہور اور مؤثر فتوؤں میں سے ہیں۔ ثقافتی یلغار اور اسلامی بیداری ان کی خاص تخلیقی اصطلاحات ہیں جو ان کی تقریروں  اور پیغامات کے توسط سے سیاسی ادب کا حصہ بن چکی ہیں۔
سطر 234: سطر 234:
دوسرے چار سالہ دور میں، پہلے دور کے پروگراموں کے تسلسل کے علاوہ، جن میں مسلط کردہ جنگ سرفہرست تھی، صدارتی اختیارات کے بل کا مسودہ تیار کرنا، حکومتی مدت میں تخفیف اور معاملات کو عوام کے سپرد کرنا، حکومت میں  با صلاحیت ،انقلابی اور کارآمد عہدہ داروں کا تقرر،  معاشرے اور لوگوں کی زندگیوں پر  مدتوں سے  چھائی ہوئی غربت کا خاتمہا، زرعی زمین کو لوگوں کے حوالے کرنا، ریاستی صنعتوں کو کوآپریٹو سیکٹر کے حوالے کرنا، کارخانوں میں مزدوروں کو حصہ دار بنانا، تیل کے علاوہ دیگر  برآمدات کو توسیع اور ترقی دینا، اور تیل کی آمدنی پر ملک کے انحصار کو کم کرنا، حکومت کی نگرانی میں ملک کے اقتصادی اور ثقافتی امور میں عوام کی شرکت، ملک کی ثقافتی پالیسی کو ثقافتی آزادی کی طرف لے جان،ا آیت اللہ خامنہ ای کے اہم ترین پروگراموں میں سے  تھا۔
دوسرے چار سالہ دور میں، پہلے دور کے پروگراموں کے تسلسل کے علاوہ، جن میں مسلط کردہ جنگ سرفہرست تھی، صدارتی اختیارات کے بل کا مسودہ تیار کرنا، حکومتی مدت میں تخفیف اور معاملات کو عوام کے سپرد کرنا، حکومت میں  با صلاحیت ،انقلابی اور کارآمد عہدہ داروں کا تقرر،  معاشرے اور لوگوں کی زندگیوں پر  مدتوں سے  چھائی ہوئی غربت کا خاتمہا، زرعی زمین کو لوگوں کے حوالے کرنا، ریاستی صنعتوں کو کوآپریٹو سیکٹر کے حوالے کرنا، کارخانوں میں مزدوروں کو حصہ دار بنانا، تیل کے علاوہ دیگر  برآمدات کو توسیع اور ترقی دینا، اور تیل کی آمدنی پر ملک کے انحصار کو کم کرنا، حکومت کی نگرانی میں ملک کے اقتصادی اور ثقافتی امور میں عوام کی شرکت، ملک کی ثقافتی پالیسی کو ثقافتی آزادی کی طرف لے جان،ا آیت اللہ خامنہ ای کے اہم ترین پروگراموں میں سے  تھا۔


سیاست اور خارجہ تعلقات کے میدان میں ان کے منصوبوں میں ،دنیا کے ہر ملک کے بارے میں ایک آزاد اور متوازن پالیسی اپنانا اور فیصلہ کن انداز میں  اور صراحت  کے ساتھ نظام اور ملک کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنا، مشرق و مغرب  کسی پر انحصار  نہ کرنا، دنیا بھر کے مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو اہمیت دینا،عالمی طاقتوں سے دنیا کے مسلمانوں کے حقوق کی واپسی  کے لئے سنجیدہ کوشش کرنا،خطے میں سپر پاورز کے تسلط کے لیے کسی بھی اقدام اور تحریک کا مسلسل  مقابلہ کرنا، قدس کے  مسئلے  اور  دیگر غصب شدہ فلسطینی اراضی کے مسئلے پر توجہ  اور  صیہونی دشمن کے خلاف ہمہ جہت لڑائی کی تیاری،  بین الاقوامی میدان میں  اسلام دشمنوں اور لٹیروں کے لیے رکاوٹ بنتے ہوئے مالامال اور اصلی  اسلامی ثقافت کی طرف لوٹنااور بین الاقوامی منظرناموں میں  بااثر موجودگی  شامل ہے۔
سیاست اور خارجہ تعلقات کے میدان میں ان کے منصوبوں میں ،دنیا کے ہر ملک کے بارے میں ایک آزاد اور متوازن پالیسی اپنانا اور فیصلہ کن انداز میں  اور صراحت  کے ساتھ نظام اور ملک کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنا، مشرق و مغرب  کسی پر انحصار  نہ کرنا، دنیا بھر کے مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو اہمیت دینا،عالمی طاقتوں سے مسلمانوں کے حقوق کی واپسی  کے لئے سنجیدہ کوشش کرنا،خطے میں سپر پاورز کے تسلط کے لیے کسی بھی اقدام اور تحریک کا مسلسل  مقابلہ کرنا، قدس کے  مسئلے  اور  دیگر غصب شدہ فلسطینی اراضی کے مسئلے پر توجہ  اور  صیہونی دشمن کے خلاف ہمہ جہت لڑائی کی تیاری،  بین الاقوامی میدان میں  اسلام دشمنوں اور لٹیروں کے لیے رکاوٹ بنتے ہوئے مالامال اور اصلی  اسلامی ثقافت کی طرف لوٹنااور بین الاقوامی منظرناموں میں  بااثر موجودگی درج کرانا شامل ہے۔


اپنے دور صدارت کے پہلے چار سالوں میں وزیر اعظم اور حکومت کے بعض ارکان کے ساتھ مسائل اور اختلافات  کی وجہ سے وہ دوسری بار صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہتے تھے لیکن امام خمینی نے اسے ان کا  شرعی فریضہ قرار دیا تو انہوں نے چوتھی صدارتی مدت کے لیے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا اور امام خمینی سے کہا کہ وہ وزیراعظم کے انتخاب میں خودمختار ہوں گے۔ امام خمینی نے یہ بات مان لی ۔ دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد، وزیر اعظم کے انتخاب کے وقت ، جب یہ واضح ہو گیا کہ آیت اللہ خامنہ ای انتظامیہ کی حالت پر عدم اطمینان کی وجہ سے کسی اور شخص کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو بعض فوجی اہلکاروں نے امام خمینی  سے اظہار خیال کیا کہ محاذ جنگ میں پیشرفت  اس بات پر منحصر ہے کہ ایک بار پھر مہندس موسوی کو وزیراعظم  بنایا جائے۔ امام خمینی نے جنگ کی مصلحت کے  پیش نظر اس رائے کو قبول کر لیا اور آیت اللہ خامنہ ای کو حکم دیا کہ مہندس موسوی کو وزیر اعظم کے طور پر متعارف کروائیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے امام کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے  اختلاف رائے  کے باوجود انہیں  پارلیمنٹ میں بطور وزیر اعظم پیش کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای کی صدارت کے دوسرے دور میں صدر اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات برقرار رہے اور کابینہ کے ارکان کے تعارف جیسے معاملات میں شدت اختیار کر گئے۔
اپنے دور صدارت کے پہلے چار سالوں میں وزیر اعظم اور حکومت کے بعض ارکان کے ساتھ مسائل اور اختلافات  کی وجہ سے وہ دوسری بار صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہتے تھے لیکن امام خمینی نے اسے ان کا  شرعی فریضہ قرار دیا تو انہوں نے چوتھی صدارتی مدت کے لیے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا اور امام خمینی سے کہا کہ وہ وزیراعظم کے انتخاب میں خودمختار ہوں گے۔ امام خمینی نے یہ بات مان لی ۔ دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد، وزیر اعظم کے انتخاب کے وقت ، جب یہ واضح ہو گیا کہ آیت اللہ خامنہ ای انتظامیہ کی حالت پر عدم اطمینان کی وجہ سے کسی اور شخص کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو بعض فوجی اہلکاروں نے امام خمینی  سے اظہار خیال کیا کہ محاذ جنگ میں پیشرفت  اس بات پر منحصر ہے کہ ایک بار پھر مہندس موسوی کو وزیراعظم  بنایا جائے۔ امام خمینی نے جنگ کی مصلحت کے  پیش نظر اس رائے کو قبول کر لیا اور آیت اللہ خامنہ ای کو حکم دیا کہ مہندس موسوی کو وزیر اعظم کے طور پر متعارف کروائیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے امام کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے  اختلاف رائے  کے باوجود انہیں  پارلیمنٹ میں بطور وزیر اعظم پیش کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای کی صدارت کے دوسرے دور میں صدر اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات برقرار رہے اور کابینہ کے ارکان کے تعارف جیسے معاملات میں شدت اختیار کر گئے۔
سطر 244: سطر 244:
31 شہریور 1366 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 42ویں اجلاس میں شرکت کی اور اپنی تقریر میں عالمی حکومتوں کے سربراہوں کے سامنے اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی نظریات اور موقف کی وضاحت کی۔ یہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایران کے اسلامی صدر کی پہلی حاضری تھی۔ ان کے اقوام متحدہ کے دورے کا اہم نکتہ نیویارک میں مقیم ایرانیوں اور مسلمانوں اور بین الاقوامی پریس کے اراکین کی جانب سے ان کا شاندار استقبال تھا اور انقلاب اسلامی کے حالات، مسلط کردہ جنگ اورایران کے سلسلے میں  عالمی سامراج کی پالیسیوں کو بیان کرنے کے لیے ان کی سرگرمیاں تھیں۔
31 شہریور 1366 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 42ویں اجلاس میں شرکت کی اور اپنی تقریر میں عالمی حکومتوں کے سربراہوں کے سامنے اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی نظریات اور موقف کی وضاحت کی۔ یہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایران کے اسلامی صدر کی پہلی حاضری تھی۔ ان کے اقوام متحدہ کے دورے کا اہم نکتہ نیویارک میں مقیم ایرانیوں اور مسلمانوں اور بین الاقوامی پریس کے اراکین کی جانب سے ان کا شاندار استقبال تھا اور انقلاب اسلامی کے حالات، مسلط کردہ جنگ اورایران کے سلسلے میں  عالمی سامراج کی پالیسیوں کو بیان کرنے کے لیے ان کی سرگرمیاں تھیں۔


نیویارک میں مسلمانوں کی نماز جمعہ کی امامت اور اس کے خطبات میں خطاب بھی اس سفر کے دلچسپ اور اہم نکات تھے۔ خارجہ پالیسی کے میدان میں آیت اللہ خامنہ ای کے دیگر اقدامات کے علاوہ، [[افغانستان]]، عراق اور [[لبنان]] میں [[شیعہ]] سیاسی گروہوں کے ساتھ مربوط رابطے کے قیام اور ان کے درمیان افہام و تفہیم پیدا کرنے اور سپریم کونسل کی تشکیل کا ذکر  بھی کیا جا سکتاہے۔ عراق کا اسلامی انقلاب۔  تاکہ ان کے درمیان اختلاف ان کے مشترکہ دشمن کے خلاف اتحاد و اتفاق میں بدل جائے۔ افغانستان کی آٹھ جماعتوں سے اسلامی اتحاد پارٹی کی تشکیل، جس نے ان کے مؤثر مقابلے کو ختم کر دیا، اور عراق کے اسلامی انقلاب کی سپریم اسمبلی کی تشکیل اس نقطہ نظر کی اہم مثالیں ہیں۔ اس عرصے میں لبنان، فلسطین، عراق اور افغانستان میں اسلامی جنگجوؤں کے لیے ایران کی حمایت کا دائرہ بڑھایا گیا اور ایران کی حمایت نے ان ممالک میں اسلامی جماعتوں اور گروہوں کو ایک اہم علاقائی اور بین الاقوامی حیثیت عطا کی۔
نیویارک میں نماز جمعہ کی امامت اور خطبات بھی اس سفر کے دلچسپ اور اہم نکات تھے۔ خارجہ پالیسی کے میدان میں آیت اللہ خامنہ ای کے دیگر اقدامات میں ، [[افغانستان]]، عراق اور [[لبنان]] میں [[شیعہ]] سیاسی گروہوں کے ساتھ مربوط رابطے کے قیام اور ان کے درمیان افہام و تفہیم پیدا کرنے اور عراق  کے اسلامی انقلاب  کی سپریم کونسل کی تشکیل کا ذکر  بھی کیا جا سکتاہے۔   تاکہ ان کے درمیان اختلاف ان کے مشترکہ دشمن کے خلاف اتحاد و اتفاق میں بدل جائے۔ افغانستان کی آٹھ پارٹیوں سے وحدت  اسلامی پارٹی کی تشکیل، جس نے ان کی نقصان دہ  مقابلہ آرائی کو ختم کر دیا، اور عراق کے اسلامی انقلاب کی سپریم کونسل  کی تشکیل اس نقطہ نظر کی اہم مثالیں ہیں۔ اس عرصے میں لبنان، فلسطین، عراق اور افغانستان میں اسلامی مجاہدین کے لیے ایران کی حمایت کا دائرہ بڑھایا گیا ۔ایران کی حمایت نے ان ممالک میں اسلامی جماعتوں اور گروہوں کو ایک اہم علاقائی اور بین الاقوامی حیثیت عطا کی۔


مختلف طبقوں کے لوگوں سے ملاقاتیں، مختلف اداروں اور تنظیموں کا دورہ، پراجیکٹس کی افتتاحی تقریب میں شرکت، کانفرنسوں میں شرکت اور صوبائی دورے ان کے دور صدارت کے دیگر پروگراموں اور اقدامات میں شامل تھے۔ عوام بالخصوص شہداء کے خاندانوں سے رابطہ برقرار رکھنا ان کے دور صدارت میں بنیادی حکمت عملیوں میں شامل تھا۔ اسی بنیاد پر عوامی جلسے‘ مختلف مواقع پر‘ شہداء کے اہل خانہ سے ملاقاتیں، خاص طور پر ان کے گھروں پر جانا ان کے باقاعدہ پروگراموں میں سے ایک اور حکمرانوں اور عوام کے درمیان تعلقات کی نوعیت میں ایک اہم اقدام تصور کیا جاتا ہے۔
مختلف طبقات کے لوگوں سے ملاقاتیں، مختلف اداروں اور تنظیموں کا دورہ، پراجیکٹس کی افتتاحی تقریب میں شرکت، کانفرنسوں میں شرکت اور صوبائی دورے ان کے دور صدارت کے دیگر پروگراموں اور اقدامات میں شامل تھے۔ عوام بالخصوص شہداء کے خاندانوں سے رابطہ برقرار رکھنا ان کے دور صدارت میں بنیادی حکمت عملی میں شامل تھا۔ اسی بنیاد پر عوامی جلسے‘ مختلف مواقع پر‘ شہداء کے اہل خانہ سے ملاقاتیں، خاص طور پر ان کے گھر جانا ،ان کے باقاعدہ پروگراموں میں سے ایک اور حکمرانوں اور عوام کے درمیان تعلقات کی نوعیت میں ایک اہم اقدام تصور کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ مختلف طبقوں کے لوگوں خصوصاً پسماندہ طبقے سے ملنے  اور نزدیک سے  ان کے مسائل جاننے، مقامی حکام کے اختلافات کو دور کرنے، جنگ سے متعلق مسائل کی پیروی کرنے اور آئی آر جی سی اور فوج کا تعاون کرنے، علماء سے ملاقات، اور شہروں اور دیہاتوں کے عمائدین سے ملاقات اور اقتصادی مسائل کا جائزہ لینے کے مقصد سے  ملک کے مختلف صوبوں اور علاقوں کا سفر کرنا ان کی مسلسل اور موثر سرگرمیوں میں شامل تھا۔
اس کے علاوہ ملک کے مختلف صوبوں اور علاقوں کا سفر کرنے کا مقصد مختلف طبقوں کے لوگوں خصوصاً پسماندہ طبقے سے ملاقات کرنا اور ان کے مسائل اور مسائل کو قریب سے جاننا، مقامی حکام کے اختلافات کو دور کرنا، جنگ سے متعلق مسائل کی پیروی کرنا۔ اور آئی آر جی سی اور فوج کا تعاون، علماء سے ملاقاتیں، اور شہروں اور دیہاتوں کے عمائدین سے ملاقاتیں، اقتصادی مسائل اور مسائل کی تحقیق اور اس طرح کے اقدامات ان کے اقدامات، مسلسل اور موثر سرگرمیوں میں سے تھے۔
=== امام خمینی کا خط ===
=== امام خمینی کا خط ===
16 جنوری 1366 کو امام خمینی نے ان کے نام ایک خط میں اور تہران میں نماز جمعہ کے خطبوں میں اسلامی حکومت کی حدود اور فقیہ کے اختیارات کے بارے میں ان کے بیانات کو دیکھتے ہوئے اسلامی حکومت پر غور کیا۔ اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے اور تمام ثانوی اصولوں پر مقدم ہے اور فقہ مطلق ہے۔ امام کے خط کے جواب میں انہوں نے اپنی نظریاتی اور عملی طور پر امام کے نقطہ نظر کی پاسداری کا اعلان کیا۔
16 دیماہ  1366 کو امام خمینی نے ، تہران میں نماز جمعہ کے خطبوں میں اسلامی حکومت کے حدود اور فقیہ کے اختیارات کے بارے میں ان کے بیانات کے مد نظر  ان کے نام ایک خط میں  اسلامی حکومت کو  اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک قرار دیا جو  دیگر  تمام فرعی  احکام پر مقدم ہے نیز ولایت  فقیہ کو  مطلق قرر دیا۔ امام خمینی  کے خط کے جواب میں آیت اللہ خامنہ ای نے ان کے نقطہ نظر کے سلسلے میں  اپنی نظریاتی اور عملی تائید  کا اعلان کیا۔


اس کے علاوہ، آمنے سامنے ملاقات میں، انہوں نے امام خمینی سے نماز جمعہ کے خطبوں میں بیانات کے بارے میں اپنے ارادے پر تبادلہ خیال کیا۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی دن اس خط کا فوراً جواب دیا اور اس کی تعریف کرتے ہوئے اس کے ایک حصے میں لکھا: میرا آپ کے ساتھ انقلاب سے پہلے کے برسوں سے گہرا تعلق رہا ہے اور اب تک یہی رشتہ قائم ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ اس کے بازوؤں میں سے ایک ہیں، میں اسلامی جمہوریہ کی طاقت کو جانتا ہوں، اور میں آپ کو ایک ایسے بھائی کے طور پر جانتا ہوں جو فقہی مسائل سے واقف ہے اور ان پر کاربند ہے، اور جو مطلق العنانیت سے متعلق فقہی اصولوں کی حمایت کرتا ہے۔ فقیہ، سورج کے طور پر، آپ روشنی دیتے ہیں.
اس کے علاوہ، آمنے سامنے ملاقات میں، انہوں نے امام خمینی سے نماز جمعہ کے خطبوں میں اپنے  بیانات کے مقصد کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی دن اس خط کا فوراً جواب دیا اور ان  کی تعریف و تمجید  کرتے ہوئے لکھا: ”میرا آپ کے ساتھ انقلاب سے برسوں پہلے سے گہرا تعلق رہا ہے اور حمد اللہ اب تک یہی رشتہ قائم ہے۔ میری  نظر میں  آپ جمہوری اسلامی کے تواناباز کی حیثیت رکھتے  ہیں، اور میں آپ کو ایک ایسے بھائی کے طور پر جانتا ہوں جو فقہی مسائل سے واقف ہیں اور ان پر کاربند ہیں، اور جو ولایت فقیہ  مطلقہ سے مربوط فقہی اصولوں کی حمایت کرتا ہے۔ آپ اسلام اور اسلامی اصول و مبانی پر کاربند ان نادر افراد میں سے ہیں جو مثل خورشدید روشنی بکھیرتے ہیں۔“


مختلف بلوں کی منظوری میں اسلامی کونسل اور گارڈین کونسل کے اختلاف کے بعد، امام خمینی نے ملک کے رہنماؤں (بشمول آیت اللہ خامنہ ای) کے خط کے جواب میں 17 فروری 1366 کو کونسل آف ایکسپیڈینسی کی تشکیل پر اتفاق کیا۔ اسی بنا پر آیت اللہ خامنہ ای شناخت کونسل کے پہلے صدر بنے۔ وہ صدارتی مدت کے اختتام تک اس عہدے پر فائز رہے۔
مختلف بلوں کی منظوری میں پارلیمنٹ اور گارڈین کونسل کے اختلاف کے بعد، امام خمینی نے ملک کے رہنماؤں (بشمول آیت اللہ خامنہ ای) کے خط کے جواب میں 17 بہمن  1366 کو کونسل آف ایکسپیڈینسی(مجمع تشخیص مصلحت نظام) کی تشکیل پر اتفاق کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای اس کونسل کے پہلے صدر بنے۔ وہ صدارتی مدت کے اختتام تک اس عہدے پر فائز رہے۔


اپنی آٹھ سالہ صدارت کے دوران، جیسا کہ انقلاب کی فتح کے بعد کے سالوں میں، وہ امام خمینی کے رشتہ داروں، مشیروں اور قابل اعتماد افراد میں سے تھے۔ اسی وجہ سے امام خمینی نے بہت سے معاملات میں انہیں صدارت کے فرائض سے بڑھ کر مشن سونپے یا مختلف مسائل میں ان کی تجاویز کو قبول کیا۔
انقلاب کی کامیابی کے بعد کے سالوں کی طرح ،اپنی آٹھ سالہ صدارت کے دوران بھی  وہ امام خمینی کے قریبیوں، مشیروں اور قابل اعتماد افراد میں سے تھے۔ اسی وجہ سے امام خمینی نے بہت سے معاملات میں انہیں صدارت کے فرائض سے بڑھ کر مشن سونپے یا مختلف مسائل میں ان کی تجاویز کو قبول کیا۔


یکم نومبر 1362 کو انہیں امریکہ اور دیگر ممالک سے ایران کے مطالبات پر عمل کرنے کا کام سونپا گیا۔ یکم دسمبر کو انہوں نے آرمی انفارمیشن پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے قیام پر اتفاق کیا۔
یکم آبان  1362 کو انہیں امریکہ اور دیگر ممالک سے ایران کے مطالبات کی پیروی نے کا کام سونپا گیا۔ یکم آذر کو انہوں نے آرمی انفارمیشن پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے قیام پر اتفاق کیا۔9 دیماہ 1362 کو ان کا تقرر تعزیرات  بل کی دوبارہ جانچ کے لیے کیا گیا۔ 23 بہمن 1367 کو امام خمینی نے انہیں اس بات پر مومور کیا کہ  سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبران کو تینوں محکموں کے سربراہان کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دےجہاں وہ لوگ  اس کونسل کے بہتر انتظام کے لیے تقسیم وظائف  کے متعلق اپنے منصوبے پیش کرسکے۔ آخر میں انہوں نے تینوں محکموں کے سربراہان کی ملاقات میں زیر بحث لائحہ عمل سے اتفاق کیا۔ 19 اسفند 1367 کو امام خمینی نے  ایک خط میں انہیں ایران میں مقیم عراقیوں کے مسائل سے نمٹنے کی ذمہ داری سونپی۔
9 جنوری 1362 کو ان کا تقرر طریقت بل کی دوبارہ جانچ کے لیے کیا گیا۔ 23 بہمن 1367 کو امام نے انہیں سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبران کو تینوں طاقتوں کے سربراہان کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دینے اور اس کونسل کے بہتر انتظام کے لیے محنت کی تقسیم کے میدان میں اپنے منصوبے پیش کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ آخر میں انہوں نے تینوں طاقتوں کے سربراہان کی ملاقات میں زیر بحث لائحہ عمل سے اتفاق کیا۔ 19 مارچ 1367 کو ایک خط میں اس نے انہیں ایران میں مقیم عراقیوں کے مسائل سے نمٹنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔


امام خمینی نے 4 مئی 1368 کو اپنے نام ایک فرمان میں آیت اللہ خامنہ ای سمیت بیس افراد پر مشتمل ایک وفد مقرر کیا جو اسلامی کونسل کے پانچ نمائندوں کے ساتھ مل کر آئینی نظرثانی کونسل تشکیل دے، جسے اسلامی کونسل نے منتخب کیا، اور پانچ مضامین میں آئین میں ترمیم، نظر ثانی اور مکمل۔ مذکورہ کونسل کی تشکیل کے بعد آیت اللہ مشکینی صدر منتخب ہوئے اور وہ اور اکبر ہاشمی رفسنجانی کونسل کے پہلے اور دوسرے نائب صدر منتخب ہوئے۔ اکتالیس اجلاسوں کے دوران، کونسل نے پانچ اہم امور پر تبادلہ خیال کیا اور فیصلہ کیا: قیادت کے حالات، انتظامی اور عدلیہ میں ارتکاز، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے انتظام میں ارتکاز، مستقبل میں آئین پر نظر ثانی کیسے کی جائے اور اسلامی کونسل کے نمائندوں کی تعداد۔ . یہ ملاقاتیں امام خمینی کی وفات تک جاری رہیں۔
امام خمینی نے 4 اردیبہشت 1368 کو آیت اللہ خامنہ ای کے نام ایک فرمان میں آیت اللہ خامنہ ای سمیت بیس افراد پر مشتمل ایک وفد مقرر کیا جو پارلیمنٹ کے پانچ نمائندوں کے ساتھ مل کر جنہیں خود پارلیمنٹ نے منتخب کیا ہو ،آئینی نظرثانی کونسل تشکیل دے اور پانچوں  موضوعات میں آئین میں ترمیم، نظر ثانی اور تکمیل کا کام انجام دے۔ مذکورہ کونسل کی تشکیل کے بعد آیت اللہ مشکینی صدر منتخب ہوئے اور آیت اللہ خامنہ ای اور اکبر ہاشمی رفسنجانی کونسل کے پہلے اور دوسرے نائب صدر منتخب ہوئے۔ اکتالیس نشستوں کے دوران، کونسل نے پانچ اہم امور پر تبادلہ خیال کیا اور فیصلہ کیا: قیادت کے شرائط، انتظامیہ اور عدلیہ میں تمرکز، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے انتظام و انصرام میں تمرکز، مستقبل میں آئین پر امکانی  نظر ثانی کی نوعیت اورپارلیمنٹ کے نمائندوں کی تعداد کے متعلق بحث و گفتگو  کرکے فیصلے لئے۔ . یہ نشستیں امام خمینی کی وفات کے بعد تک  تک جاری رہیں۔
== ایران کی قیادت ==
== ایران کی قیادت ==
14 جون 1368 کو جب عوام اور حکام امام خمینی  کے مقدس جسم کو دفنانے کی تیاری کر رہے تھے، ایک اجلاس میں جس میں قومی اور فوجی حکام نے شرکت کی، صدر آیت اللہ خامنہ ای نے امام خمینی (رہ) کا سیاسی الہی وصیت پڑھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے نئے لیڈر یا لیڈر شپ کونسل کے انتخاب کے لیے اسی دن کی شام کو قائدین کی کونسل کا اجلاس ہوا۔ 1358 میں منظور شدہ آئین کے آرٹیکل 107 کے مطابق قیادت کا انتخاب ماہرین کی اسمبلی کے ارکان کی ذمہ داری ہے۔
14 خرداد  1368 کو جب عوام اور حکام امام خمینی  کے مقدس جسم کو دفنانے کی تیاری کر رہے تھے، ایک اجلاس میں جس میں قومی اور فوجی حکام نے شرکت کی، صدر آیت اللہ خامنہ ای نے امام خمینی (رہ) کا سیاسی- الہی وصیت نامہ  پڑھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے نئے لیڈر یا لیڈر شپ کونسل کے انتخاب کے لیے اسی دن شام کو   مجلس خبرگان رہبری کا اجلاس ہوا۔ 1358 میں منظور شدہ آئین کے آرٹیکل 107 کے مطابق قیادت کا انتخاب مجلس خبرگان کے ارکان کی ذمہ داری ہے۔


کونسل یا انفرادی قیادت کی بحث میں ماہرین کی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت نے کونسل کی قیادت کو ووٹ نہیں دیا اور جب ووٹنگ کے لیے قیادت کا سوال آیا تو ان کا نام لیا گیا۔ بعض نمائندوں نے جو امام خمینی کی امامت کے بعد نظام کی قیادت کرنے کی اہلیت کے بارے میں مختصر علم رکھتے تھے، جس کا اظہار انہوں نے افواج کے سربراہان اور رہبر معظم و حاج سید احمد خمینی کی موجودگی میں کئی ملاقاتوں میں کیا تھا، نے ان سے وضاحت طلب کی۔ گواہوں
کونسل یا انفرادی لیڈر شپ کی بحث میں مجلس خرگان  کی اکثریت نے کونسل کی قیادت کو ووٹ نہیں دیا اور جب ووٹنگ کے لئے  قیادت کے  مصداق کا سوال آیا تو آیت اللہ خامنہ ای  کا نام لیا گیا۔ بعض نمائندوں نے ،جو امام خمینی کی وفات کے بعد آیت اللہ خامنہ  کے اندر نظام کی قیادت کی صلاحیت کے بارے میں امام خمینی  کے نظریے کا اجمالی  علم رکھتے تھے، جس کا اظہار انہوں نے تینوں محکموں  کے سربراہان ،وزیر اعظم  اور حاج سید احمد خمینی کی موجودگی میں ؐمختلف  جلسات میں کیا تھا، ان جلسات کے عینی گواہوں سے وضاحت کا مطالبہ کیا۔


امام خمینی کی روایت کے دو گواہوں نے جو خود بھی ماہرین کی مجلس کے رکن تھے، امام کی طرف اس قول کے منسوب ہونے کی تصدیق کی۔ اسی ملاقات میں آیت اللہ خامنہ ای کی اہلیت کے حوالے سے امام کا ایک اور بیان بھی بیان کیا گیا جس کا اظہار انہوں نے اپنے حالیہ دورہ چین اور شمالی کوریا کے دوران کیا تھا۔ اس کے بعد رائے شماری ہوئی اور ماہرین کی اسمبلی کے نمائندوں کی بھاری اکثریت نے امام راحل کی رائے اور آیت اللہ خامنہ ای کی مذہبی، سائنسی اور سیاسی قابلیت کی بنیاد پر تقدس کو اسلامی جمہوریہ ایران کا قائد منتخب کیا۔
امام خمینی کی روایت کے دو گواہوں نے جو خود بھی مجلس خبرگان کے رکن تھے، امام کی طرف اس قول کے منسوب ہونے کی تصدیق کی۔ اسی جلسے میں آیت اللہ خامنہ ای کی اہلیت کے حوالے سے امام خمینی کا ایک اور بیان بھی سامنے آٰیا جس کا اظہار انہوں نے آیت اللہ خامنہ ای کے  حالیہ دورہ چین اور شمالی کوریا کے دوران کیا تھا۔ اس کے بعد رائے شماری ہوئی اور مجلس خبرگان  کے نمائندوں کی بھاری اکثریت نے امام راحل کی رائے اور آیت اللہ خامنہ ای کی مذہبی، علمی اور سیاسی قابلیت کی بنیاد پران  کو اسلامی جمہوریہ ایران کا قائد منتخب کیا۔


اس مسئلے کا ذکر انہوں نے خود کیا، وہ کہتے ہیں کہ جب تک میں سلیکشن کے معاملے پر فیصلہ نہ کر لیتا، میں اس عہدے کو قبول کرنے سے انکار کر دیتا۔ آئین کا جائزہ لینے اور ریفرنڈم کے انعقاد کے بعد قائدانہ ماہرین کی اسمبلی نے ایک بار پھر تقدس مآب کی قیادت کے حوالے سے نئے آئین پر ووٹ دیا اور بھاری اکثریت نے تقدس کو دوبارہ نظام کے رہنما کے طور پر منتخب کیا۔
اس مسئلے کا ذکر انہوں نے خود کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اس وقت تک اس ذمہ داری کو قبول کرنے سے انکار کرتا رہا جب تک یہ انتخاب  حتمی نہیں ہو گیا۔ آئین میں نظر ثانی  اور ریفرنڈم کے انعقاد کے بعد مجلس خبرگان  نے ایک بار پھر آیت اللہ خامنہ کی قیادت کے حوالے سے نئے آئین کے مطابق ووٹنگ کرائی ا اور بھاری اکثریت نے انہیں  دوبارہ نظام کے رہنما کے طور پر منتخب کیا۔


اپنی قیادت کے بارے میں امام راحل کی رائے کے چند اہم پہلو یہ ہیں: اسلامی حکومت کے حصول کے لیے طویل المدتی جدوجہد، اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ نظام پر پختہ اور واضح یقین، ایک دہائی سے زیادہ ہمہ جہت۔ اسلامی جمہوری نظام کے قیام کے لیے سیاسی، انتظامی اور ثقافتی سرگرمیاں، مذہبی روشن خیالی سائنسی مہارت کا انحصار مذہبی بنیادوں، انفرادی اور سماجی رویے، سنت اور تقویٰ پر ہے۔ امام خمینی  نے مختلف مواقع پر اسلامی جمہوریہ کی خدمت کے سلسلے میں آیت اللہ خامنہ ای کی خوبیوں، عزم اور خدمات کی تصدیق کی تھی۔
آیت اللہ خامنہ کی  قیادت کے بارے میں امام راحل کی رائے کے چند اہم پہلو یہ ہیں: اسلامی حکومت کے حصول کے لیے طویل المدتی جدوجہد، اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام پر پختہ اور واضح یقین، اسلامی جمہوری نظام کے قیام کے لیے ایک دہائی سے زیادہ ہمہ جہت  سیاسی، انتظامی اور ثقافتی سرگرمیاں، مذہبی روشن خیالی، دینی اصول و مبانی پر  علمی تسلط، انفرادی اور سماجی رویے، زہد اور پاکدامنی۔ امام خمینی  نے مختلف مواقع پر اسلامی جمہوریہ کی خدمت کے سلسلے میں آیت اللہ خامنہ ای کی خوبیوں، عزم اور خدمات کی تصدیق کی تھی۔


'''سید احمد خمینی'''، امام خمینی کے قریب ترین شخص، جو ان کے مشیر اور معتمد تھے، نے کہا کہ ان کے غیر ملکی سفر کے بعد، امام نے فرمایا: "انہیں قیادت کا حق حاصل ہے۔" امام خمینی  کی بیٹی زہرہ مصطفوی نے بیان کیا کہ جب انہوں نے امام سے نظام کی مستقبل کی قیادت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ان کا نام بتایا، اور جب انہوں نے ان کی علمی حیثیت پوچھی تو انہوں نے ان کے اجتہاد کی تصدیق کی۔ آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ جب امام آیت اللہ منتظری کو مستقبل کی قیادت سے ہٹانے کی کوشش کر رہے تھے، تینوں طاقتوں کے سربراہان، وزیر اعظم (میر حسین موسوی) اور حاج سید احمد خمینی کی موجودگی میں ہونے والی ملاقات میں۔ قیادت کی تبدیلی کے بارے میں بات چیت ہوئی، آیت اللہ خامنہ ای کو نظام کے مستقبل کے رہنما کے طور پر نامزد کیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امام راحل کے ساتھ اپنی نجی ملاقات میں انہوں نے مستقبل میں قیادت کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا، جس کے جواب میں امام نے آیت اللہ خامنہ ای کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: "تمہارا انجام ختم نہیں ہوگا، ایک ایسا شخص موجود ہے۔ تمہارے درمیان۔" تم کیوں نہیں جانتے؟
'''سید احمد خمینی'''، امام خمینی کے قریب ترین شخص، جو ان کے مشیر اور معتمد تھے، نے کہا کہ ان کے غیر ملکی سفر کے بعد، امام نے فرمایا: "بے شک ان کے اندر  قیادت کی صلاحیت ہے۔" امام خمینی  کی بیٹی زہرہ مصطفوی نے بیان کیا کہ جب انہوں نے امام سے نظام کی مستقبل کی قیادت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ان کا نام بتایا، اور جب انہوں نے ان کی علمی حیثیت پوچھی تو انہوں نے ان کے اجتہاد کی تصدیق کی۔ آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ جب امام آیت اللہ منتظری کو مستقبل کی قیادت سے ہٹانا چاہ ر رہے تھے، تو  تینوں محکموں کے سربراہان، وزیر اعظم (میر حسین موسوی) اور حاج سید احمد خمینی کی موجودگی میں ہونے والی نشست میں قیادت کی تبدیلی کے بارے میں بات چیت ہوئی تو  انہوں نے  نظام کے مستقبل کے رہنما کے طور پر آیت اللہ خامنہ ای کا نام لیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امام راحل کے ساتھ اپنی نجی ملاقات میں انہوں نے مستقبل میں قیادت کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا، جس کے جواب میں امام نے آیت اللہ خامنہ ای کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہوئے فرمایا: "تم بن بست کا شکار نہیں ہوگے جبکہ تمہارے درمیان  ایک ایسا شخص موجود ہے۔تم خود  کیوں نہیں جانتے؟“


اس میں کوئی شک نہیں کہ جس زمانے میں آیت اللہ خامنہ ای کو نظام کا رہبر منتخب کیا گیا وہ خاص اہمیت اور حساسیت کا حامل تھا۔ امام خمینی کی بیماری کے بعد پیدا ہونے والے کچھ خدشات یہ تھے:  
اس میں کوئی شک نہیں کہ جس زمانے میں آیت اللہ خامنہ ای کو نظام کا رہبر منتخب کیا گیا وہ خاص اہمیت اور حساسیت کا حامل تھا۔ امام خمینی کی بیماری کے بعد پیدا ہونے والے کچھ خدشات یہ تھے:  
* امام خمینی کے بعد کے دور میں ملک کا انتظام
* امام خمینی کے بعد کے دور میں ملک کا انتظام
* آئین کی نامکمل ترمیم اور نظرثانی  
* آئین کی ترمیم اور نظرثانی کا نامکمل رہ جانا
* عراق، امریکہ اور منافقین کے فوجی حملوں یا اشتعال انگیزیوں کی فکر؛ عراق کی بار بار جنگ بندی کی خلاف ورزیوں اور جنگ میں اس کی سمجھی جانے والی فتح کے لیے وسیع پروپیگنڈے کے پیش نظر
* عراق، امریکہ اور منافقین کے فوجی حملوں یا اشتعال انگیزیوں کی فکر؛ عراق کی بار بار جنگ بندی کی خلاف ورزی اور جنگ میں   خود کو  کامیاب قرار دینے کے لئے وسیع پروپیگنڈے کے پیش نظر
* مصنف سلمان رشدی کے ارتداد پر امام خمینی کے حکم سے پیدا ہونے والے بحران کا تسلسل، جسے مغربی ممالک کے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔
* شیطانی آیات نامی کتاب کی اشاعت  اور اس کے مصنف سلمان رشدی کے ارتداد پر مبنی  امام خمینی کے فتوے سے پیدا ہونے والے بحران کا تسلسل، جسے مغربی ممالک کے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔


لیکن جس چیز نے تمام پریشانیوں کو امید میں بدل دیا وہ یہ تھے:  
لیکن جن چیزوں  نے تمام پریشانیوں کو امید میں بدل دیا وہ یہ تھے:  
* آیت اللہ خامنہ ای کا رہبر کے عہدے پر انتخاب، جو کہ مختصر ترین وقت میں ہوا۔  
* آیت اللہ خامنہ ای کا رہبر کے عہدے پر انتخاب، جو کہ مختصر ترین وقت میں ہوا۔  
* امام خمینی  کے لاکھوں منفرد جنازے اور الوداعی اور سب سے بڑے جنازوں کی تشکیل اور ایک مقبول رہنما کے لیے الوداعی جس نے ایک بہت بڑے طوفان کی طرح دشمن کی کسی بھی سازش کے امکان کو ختم کر دیا۔  
* لاکھوں لوگوں  کا امام خمینی  کو بے مثال انداز میں وداع کرنا  اور ایک عوامی قائد کی بے مثال تشییع  جنازہ  کا تشکیل پانا جس نے ایک بہت بڑے طوفان کی طرح دشمن کی کسی بھی سازش کے امکان کو ختم کر دیا۔
* نظام کے اعلیٰ حکام اور ملک کے مختلف اداروں، ایوان ائمہ، مذہبی حکام اور علماء بشمول آیت اعظم اراکی، مرعشی نجفی، آیت اللہ مرزا ہاشم آملی، آیت اللہ العظمیٰ گولپائیگانی اور آیت اللہ کی طرف سے بیعت کی تصدیق اور بیعت۔ میشکینی، اشرافیہ، مدرسے اور یونیورسٹی کی شخصیات، شہداء کے اہل خانہ اور عوام کے مختلف طبقات  
* نظام کے اعلیٰ حکام اور ملک کے مختلف اداروں، امام خمینی کے گھر والوں ، مراجع تقید اور علماء بشمول آیت اللہ  اراکی،آیت اللہ  مرعشی نجفی، آیت اللہ میرزا ہاشم آملی، آیت اللہ العظمیٰ گلپایگانی اور آیت اللہ مشکینی ، حوزہ اور یونیورسٹی کی ممتاز شخصیات ، شہداء کے اہل خانہ اور عوام کے مختلف طبقات کی جانب سے  آیت اللہ خامنہ ای کی قیادت کی تائید
* آیت اللہ خامنہ ای کے رہبر منتخب ہونے کے چند گھنٹے بعد حاج سید احمد خمینی نے انہیں مبارکباد کا پیغام بھیجا اور کہا: [[حسین بن علی|حضرت امام حسین علیہ السلام]]! کئی بار آپ کو ایک مسلم مجتہد اور ہمارے اسلامی نظام کی رہنمائی کے لیے بہترین شخص کہا۔ میں اور امام کے گھر کے تمام اراکین معزز ماہرین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے پیارے امام کی روح اس انتخاب سے خوش اور پرسکون ہوئی ہے۔ ایک بار پھر، ایک چھوٹے بھائی کی حیثیت سے، میں اس فقیہ کے احکامات کو اپنے لیے پابند سمجھتا ہوں۔
* آیت اللہ خامنہ ای کے رہبر منتخب ہونے کے چند گھنٹے بعد حاج سید احمد خمینی نے انہیں مبارکباد کا پیغام بھیجا اور کہا: امام خمینی نے  کئی بار آپ کو ایک مسلم مجتہد اور ہمارے اسلامی نظام کی رہنمائی کے لیے بہترین شخص کہا۔ میں اور امام خمینی کے گھر کے تمام اراکین مجلس خبرگان کے معزز ماہرین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے پیارے امام کی روح اس انتخاب سے خوش اور پرسکون ہوئی ہے۔ ایک بار پھر، میں  ایک چھوٹے بھائی کی حیثیت سے، خود کو  اس ولی فقیہ کے احکامات کا پابند سمجھتا ہوں۔
== عالم اسلام کا اتحاد ==
== عالم اسلام کا اتحاد ==
وہ اسلامی امت کے اتحاد اور اسلامی مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان ہم آہنگی کے مسئلہ کے سب سے پرجوش محافظوں میں سے ایک ہیں اس طرح کہ اسلامی مذاہب کے عالمی فورم کے قیام کے بعد ان کا پہلا اقدام تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں اسلامی اتحاد کی چوتھی بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد۔
وہ اسلامی امت کے اتحاد اور اسلامی مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان ہم آہنگی کے سب سے پرجوش حامیوں میں سے ہیں ۔ یہاں تک کہ قیادت کی ذمہ داری ملنے کے بعد ان کا سب سے پہلا قدم  اسلامی جمہوریہ ایران میں چوتھی بین الاقوامی وحدت اسلامی  کانفرنس کے بعد تقریب  مذاہب اسلامی کے عالمی فورم کا قیام  تھا۔


تمام وحدت کانفرنسوں میں وہ ایک دن کانفرنس کے مہمانوں کے لیے وقف کرتے ہیں اور ہر سال ان کے لیے ایک اہم تقریر کرتے ہیں اور گزشتہ برسوں کے دوران ہونے والی ان تقاریر کا مجموعہ ایک اندازاً روڈ میپ اور ایک اہم میراث ہے جو نہ صرف اہل اسلام کے لیے ہے۔ عالم اسلام بلکہ عام مسلمانوں کو حتی الامکان اتحاد اور ہمدردی کی ترغیب دیتی ہے اور مذہب، اسلام اور روحانیت کے کھلے ہوئے دشمنوں کے خلاف فکر سے ایک مذہبی فریضہ اور اسلامی اصول کی طرف موڑ دیتی ہے۔
تمام وحدت کانفرنسوں میں وہ ایک دن کانفرنس کے مہمانوں کے لیے وقف کرتے ہیں اور ہر سال ان کے لیے ایک اہم تقریر کرتے ہیں اور گزشتہ برسوں کے دوران ہونے والی یہ  تقاریر بجائے خود ایک روڈ میپ اور ایک اہم تقریبی میراث ہے جو نہ صرف عالم اسلام کے دانشور طبقے بلکہ   عام مسلمانوں کو بھی زیادہ سے زیادہ  اتحاد اور ہمدردی کی ترغیب دیتی ہے۔
== عام عقائد پر توجہ دیں ==
== مشترک  عقائد پر توجہ دیں ==
اور مسلمانوں اور مذاہب کے پیروکاروں کے لیے ان پاکیزہ تعلیمات کے محور کے گرد دین کی ترویج و اشاعت یقیناً ان کے دلوں کو ایک دوسرے کے قریب اور قریب کر دے گی۔ انہوں نے بارہا اس نکتے پر تاکید کی اور کہا: آج ہمارا ایک ہی دشمن ہمارے سامنے ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی معاشرے میں ایک ہی کتاب، ایک سنت، ایک ہی نبی، ایک ہی قبلہ، ایک کعبہ، ایک حج، ایک ہی عبادت اور ایک ہی عقیدہ ہے۔ یقینا، اختلافات ہیں.
مسلمانوں اور مختلف فرقوں  کے پیروکاروں کے لیے اگر ان پاکیزہ تعلیمات کو محور بنا کر دین کی ترویج و اشاعت کی جائے تو یقینی طور پر  ان کے دلوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دے گی۔ انہوں نے بارہا اس نکتے پر زور دیا ہے : آج ہمارے سامنے  دشمن بھی ایک ہی ہے علاوہ اس کے کہ  اسلامی معاشرے کی ایک ہی کتاب، ایک ہی  سنت، ایک ہی نبی، ایک ہی قبلہ، ایک ہی کعبہ، ایک ہی حج، ایک ہی عبادت اور ایک ہی عقیدہ ہے۔ یقینا، اختلافات بھی ہیں۔ علمی  اختلاف ہر  دو علما کے درمیان ہو سکتا ہے۔ علاوہ بر ایں، عالم اسلام کے خلاف واحد دشمن ہے۔ مسلمانوں کے درمیان اتحاد  ایک اہم اور سنجیدہ  مسئلہ ہے۔ اسے اس طرح ہینڈل کیا جانا چاہئے۔ اس مسئلے میں ایک دن کی بھی  تاخیر ہوتی ہے تو گویا عالم اسلام نے ایک دن کھو دیا ہے اور یہ دن ایسے ہیں کہ ان میں سے کچھ اتنے حساس ہیں کہ زندگی بھر متاثر کرتے ہیں۔ تاخیر نہ ہونے دیجئے۔


سائنسی اختلافات دونوں علماء کے درمیان ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ عالم اسلام کے خلاف واحد دشمن ہے۔ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا مسئلہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اسے اس طرح ہینڈل کیا جانا چاہئے۔ ہر روز جب یہ معاملہ تاخیر کا شکار ہوتا ہے، عالم اسلام نے ایک دن کھو دیا ہے اور یہ دن ایسے ہیں کہ ان میں سے کچھ اتنے حساس ہیں کہ زندگی بھر متاثر کرتے ہیں۔ آپ کو دیر نہیں کرنی چاہیے۔
ہم تمام مسلمانوں کو - [[شیعہ]] اور [[سنی]]  -  بتانا اور یاد دلانا چاہتے ہیں کہ آپ لوگوں کے درمیان ایک نقطہ اشتراک ہے اور ایک نقطہ افتراق۔ کچھ چیزوں میں آپ ایک ہی طرح سے سوچتے ہیں اور عمل کرتے ہیں اور کچھ چیزوں میں ہر فرقے کا اپنا طریقہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ،مشترکات اختلافات سے زیادہ ہیں۔ یعنی تمام مسلمان ایک خدا، ایک قبلہ، ایک نبی، ایک  طرح کے احکام ، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج پر ایمان رکھتے ہیں۔


ہم تمام مسلمانوں کو بتانا اور یاد دلانا چاہتے ہیں - [[شیعہ]] اور [[سنی]] سے - کہ آپ میں ایک نقطہ مشترک ہے اور ایک نقطہ فرق ہے۔ کچھ چیزوں میں آپ ایک ہی طرح سے سوچتے ہیں اور عمل کرتے ہیں اور کچھ چیزوں میں ہر فرقے کا اپنا طریقہ ہے۔ نکتہ یہ ہے کہ، سب سے پہلے، مشترکات کے وہ نکات فرق کے نکات سے زیادہ ہیں۔ یعنی تمام مسلمان ایک خدا، ایک قبلہ، ایک نبی، ایک حکم، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج پر ایمان رکھتے ہیں۔
آپ کو دو مسلمان ایسے نہیں ملیں گے جو صبح ہوتے ہی نماز کے لیے نہ اٹھیں مگر یہ کہ وہ اپنا فرض ادا نہ کرنا چاہے۔ دنیا کے تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اسے صبح، دوپہر، شام اور رات کی نماز پڑھنی چاہیے، اور مستحب ہے کہ وہ نصف شب میں نماز شب ادا کرے۔ دنیا کے تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ نماز کعبہ کی طرف اور قرآن کی زبان میں اور قرآن کی آیات سے ادا کی جانی چاہیے۔ دنیا کے تمام مسلمان جب رمضان کا مہینہ آتا ہے اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ماہ رمضان  کا پہلا دن ہے  تو روزہ رکھتے ہیں۔


آپ کو دو مسلمان ایسے نہیں ملیں گے جو صبح ہوتے ہی نماز کے لیے نہ اٹھیں۔ جب تک وہ اپنا فرض ادا نہ کرنا چاہے، دنیا کے تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اسے صبح، دوپہر، شام اور رات کی نماز پڑھنی چاہیے، اور مستحب ہے کہ وہ رات کی نماز نصف شب میں ادا کرے۔ دنیا کے تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ نماز کعبہ کی طرف اور قرآن کی زبان میں اور قرآن کی آیات سے ادا کی جانی چاہیے۔ دنیا کے تمام مسلمان جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو روزہ رکھتے ہیں جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ماہ کا پہلا دن ہے۔
بڑے اہم  مشترکات موجود  ہیں؛ سب  اس محور کے گرد جمع ہو جائیں، ایک دوسرے کوتحمل  کریں۔ اصول ہیں، محور ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ ہم  ان اصولوں میں ایک دوسرے کے ہم درد ہوجائیں۔ ممکن ہے لوگوں میں سو فروعی باتوں میں ایک دوسرے سے اختلاف ہو۔کوئی بات نہیں۔ یہ باہم جمع ہونےسے منافات نہیں رکھتا ہے۔ ان  مشترکات کو  معیار ہونا چاہئے۔ ہمیں اپنی تقریروں اور گفتگو میں محتاط رہنا چاہئے۔  ثانوی مسائل  میں ایک دوسرے کو رد کرنا قطعاً مناسب نہیں۔


بڑی مشترکات ہیں؛ سب کو اس محور کے گرد ضم کیا جانا چاہیے۔ ایک دوسرے کے ساتھ برداشت کریں۔ اصول ہیں، محور ہیں؛ اصول ان اصولوں میں ہمدرد ہونا ہے۔ سو شاخوں میں لوگوں کے لیے ایک دوسرے سے اختلاف کرنا ممکن ہے۔ یہ برادری، اجتماع، انضمام سے متصادم نہیں ہے۔ یہ معیار ہونے چاہئیں۔ ہماری تقریر میں محتاط رہیں۔ دوسروں کو رد کرنا، دوسروں کو رد کرنا، ثانوی مسائل کے لیے قطعاً مناسب نہیں۔
تمام ایرانی عوام کو ہمارے پیارے امام کے اس بامعنی اور مختصر سبق کو یاد رکھنا چاہیے اور اسلام کے محور پر  اتحاد  کو نہ بھولنا چاہیے: اللہ کی رسی  کو پکڑو اور اسلام کے محور پر متحد ہو جاؤ۔ یہ اتحاد تمام دردوں کا علاج ہے اور تمام دشمنوں کو شکست دیتا ہے۔ ایرانی قوم کی فتح کا  اکسیر اعظم یہی ایک نکتہ ہے: اسلام کی بنیاد پر  اتحاد ۔


تمام ایرانی عوام کو ہمارے پیارے امام کے اس بامعنی اور مختصر سبق کو یاد رکھنا چاہیے اور اسلام کے محور پر کلمہ کی وحدت کو نہ بھولنا چاہیے: الہی دھاگے کو پکڑو اور اسلام کے محور پر متحد ہو جاؤ۔ یہ اتحاد تمام دردوں کا علاج ہے اور تمام دشمنوں کو شکست دیتا ہے۔ ایرانی قوم کی فتح کا عظیم امر یہ ایک نکتہ ہے: اسلام کی بنیاد پر کلمہ کی وحدت
آج عالم اسلام کو پہلے سے زیادہ اتحاد و یکجہتی اور قرآن سے تمسک  کی ضرورت ہے۔ قرآن کہتا ہے:وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا (آل­ عمران، 103) حبل اللہ سے تمسک ہر مسلمان پر فرض ہے۔ لیکن قرآن ہمیں حبل اللہ سے  وابستگئ کے حکم پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ ہمیں   اجتماعی اور سماجی طور پر حبل اللہ سے وابستہ رہنے کا کا حکم دیتا ہے۔ "جمیعاً سب مل کر وابستہ رہو۔اتحاد کے بارے میں رہبر معظم کے ارشادات کے سلسلہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ اس سلسلے میں وہ کہتے ہیں: ’’مسلمان بھائیوں کو نصیحت یہ ہے کہ آج مسلمانوں کے درمیان اتحاد مسلمانوں کی ایک اہم ضرورت ہے۔ یہ کوئی مذاق یا نعرہ نہیں ہے۔ تمام  اسلامی معاشروں کو باہم  متحد ہوجانا چاہیے اور ساتھ چلنا چاہیے۔ اس تناظر میں جو عناصر  مرکز بن سکتے ہیں  ان میں سے ایک حضور صلی اللہ علیہ و الہ  وسلم کی ذات  مبارک  ہے۔
آج عالم اسلام کو پہلے سے زیادہ اتحاد و یکجہتی اور قرآن سے چمٹے رہنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کہتا ہے:
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا (آل­ عمران، 103) حبل اللہ کا روزہ ہر مسلمان پر فرض ہے۔ لیکن قرآن ہمیں حبل اللہ کا روزہ رکھنے کا حکم دینے تک محدود نہیں ہے، بلکہ ہمیں ہبل اللہ کا روزہ جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ "کل"؛ مل کر ہڑتال کریں۔
اتحاد کے بارے میں رہبر معظم کے ارشادات کے سلسلہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ اس سلسلے میں وہ کہتے ہیں: ’’مسلمان بھائیوں کو نصیحت یہ ہے کہ آج مسلمانوں کے درمیان اتحاد مسلمانوں کی ایک اہم ضرورت ہے۔ یہ کوئی مذاق یا نعرہ نہیں ہے۔ الگ الگ، اسلامی معاشروں کو اتحاد تلاش کرنا چاہیے اور ساتھ چلنا چاہیے۔ اس تناظر میں جن عوامل کا مرکز ہو سکتا ہے ان میں سے ایک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حضوری ہے۔


مسلمانوں اور اسلامی دانشوروں کو چاہیے کہ وہ اس معزز شخص کی شخصیت اور تعلیمات میں سرمایہ کاری کریں اور اسلام کے ہمہ جہت نظریہ کے ساتھ اس محترم شخصیت سے محبت کریں۔
مسلمانوں اور اسلامی دانشوروں کو چاہیے کہ وہ اسلام کے متعلق  ہمہ جہت نظر یہ کے ساتھ اس عظیم ہستی کی شخصیت اور تعلیمات اور اس سے محبت میں سرمایہ کاری کریں ۔
پیغمبر اسلام (ص) کی موجودگی تمام اسلامی ادوار میں اتحاد کا سب سے بڑا ذریعہ رہی ہے اور آج بھی ہوسکتی ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں کا اس عظیم اور مقدس وجود پر عقیدہ محبت اور محبت کے ساتھ ہے اور اسی لیے وہ عظمت تمام مسلمانوں کے جذبات اور آراء کا مرکز اور محور ہے اور یہ مرکزیت اتحاد بین المسلمین کے اسباب میں شمار ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے دل اور اسلامی فرقے کی ایک دوسرے سے قربت۔ دنیا کے تمام مسلمانوں کو ہماری نصیحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، آپ کی زندگی، آپ کے اخلاق، آپ کے اخلاق اور آپ کی کہی اور لکھی ہوئی تعلیمات کے پہلوؤں پر بہت زیادہ کام کریں۔
پیغمبر اسلام (ص) کا وجود مبارک  تمام اسلامی ادوار میں اتحاد کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے اور آج بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں کا اس عظیم اور مقدس وجود پر عقیدہ محبت اور جذبات کے ساتھ ہے ۔ اسی لیے آنحضرت ص تمام مسلمانوں کے جذبات اور عقائد  کا مرکز اور محور ہے ۔اور یہ مرکزیت مسلمانوں کے دلوں کی باہمی انسیت اور اسلامی فرقوں  کی ایک دوسرے سے قربت کا سبب بنتی ہے۔ دنیا کے تمام مسلمانوں کو ہماری نصیحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی ذات، آپ کی زندگی، آپ کے اخلاق اور آپ کی کہی اور لکھی ہوئی تعلیمات کے پہلوؤں پر بہت زیادہ کام کریں۔


ان عوامل میں سے جو اس اتحاد کا مرکز ہو سکتے ہیں اور تمام مسلمان اس پر متفق ہو سکتے ہیں، ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کی پیروی ہے۔ تمام مسلمان پیغمبر کے اہل بیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ البتہ شیعہ اپنی امامت پر یقین رکھتے ہیں۔ ایک غیر شیعہ انہیں شیعہ اصطلاح میں امامت کے معنی میں امام نہیں مانتا، لیکن وہ انہیں اسلام کے بزرگانِ اسلام سے جانتا ہے، پیغمبر کے خاندان سے، جو اسلامی تعلیمات اور احکام کو جانتے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام اور اہل بیت کے ارشادات پر عمل کریں۔
جو عوامل اس اتحاد کا مرکز ہو سکتے ہیں اور تمام مسلمان اس پر متفق ہو سکتے ہیں، ان میں سے ایک  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے اہل بیت کی پیروی ہے۔ تمام مسلمان پیغمبر کے اہل بیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ البتہ شیعہ ان کی  امامت پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن غیر شیعہ انہیں شیعہ اصطلاح کے مطابق  امام نہیں مانتے۔ لیکن وہ انہیں اسلام کے بزرگوں میں سے تو مانتے ہیں ، پیغمبر کے خاندان سے تو مانتے ہیں، اسلامی تعلیمات اور احکام سے مطلع تو مانتے  ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ائمہ معصومین علیہم السلام اور اہل بیت کے ارشادات پر عمل کے سلسلے میں متحد ہوجائیں۔


یہ اتحاد کا ایک ذریعہ ہے۔ یقیناً یہ ایک تکنیکی کام ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے اور اس کے ابتدائی مراحل ہیں۔ جو لوگ سائنس کے ماہر ہیں، حدیث کے ماہر ہیں، اور حدیث سے متعلق علوم کے ماہر ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اس کام کے لیے کیا شرائط ہیں۔
یہ اتحاد کا ایک ذریعہ ہے۔ البتہ یہ ایک فنی کام ہے۔ آسان کام نہیں ہے اور اس کےکے کچھ مقدمات ہیں۔ جو لوگ اہل فن  ہیں، حدیث کے ماہر ہیں، اور حدیث سے متعلق علوم کے ماہر ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اس کام کے مقدمات کیا ہیں۔
=== غدیر ===
=== غدیر ===
مسئلہ غدیر بھی اتحاد کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ خود غدیر کا مسئلہ، اس پہلو کے علاوہ جسے شیعوں نے عقیدہ کے طور پر قبول کیا ہے، یعنی وہ حکومت جو امیر المومنین (ع) نے پیغمبر اکرم (ص) کی طرف سے مقرر کی ہے، جو حدیث غدیر میں واضح ہے۔ سرپرستی کا مسئلہ بھی اٹھایا گیا ہے۔ اب اس میں شیعہ یا سنی نہیں ہیں۔ اگر آج پوری دنیا کے مسلمان اور اسلامی ممالک کی قومیں اسلامی ولایت کا نعرہ لگائیں تو امت اسلامیہ کی بے شمار راہیں اور حل نہ ہونے والی گرہیں کھل جائیں گی اور اسلامی ممالک کے مسائل حل ہونے کے قریب تر ہوں گے۔
مسئلہ غدیر بھی اتحاد کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ خود غدیر کا مسئلہ، اس پہلو کے سوا جسے شیعوں نے عقیدہ کے طور پر قبول کیا ہے( یعنی وہ حکومت جو امیر المومنین (ع) کو  پیغمبر اکرم (ص) کی طرف سےحاصل ہوئی ہے، جو حدیث غدیر میں واضح ہے) سرپرستی کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا ہے۔ اب اس میں شیعہ یا سنی نہیں ہیں۔ اگر آج پوری دنیا کے مسلمان اور اسلامی ممالک کی قومیں اسلامی ولایت کا نعرہ لگائیں تو امت اسلامیہ کی بے شمار حل نہ ہونے والی گرہیں کھل جائیں گی اور اسلامی ممالک کے مسائل حل ہونے کے قریب پہنچ جائیں گے


امیرالمومنین علیہ السلام اتحاد کا محور ہیں۔ تمام عالم اسلام امیر المومنین علیہ السلام کا مطیع ہے؛ نہ کوئی شیعہ ہے نہ سنی۔ نواسب نامی ایک چھوٹی سی جماعت امیر المومنین کے دشمن تھے۔ اسلام کی پوری تاریخ میں، اموی اور عباسی دونوں ادوار میں، گروہ امیر المومنین کے دشمن تھے۔ لیکن عالم اسلام کے لوگ - سنی اور شیعہ دونوں - امیر المومنین کی عزت کرتے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ سنی فقہی ائمہ کے ہاں امیر المومنین کے بارے میں تعریفی اشعار ہیں۔
امیرالمومنین علیہ السلام اتحاد کا محور ہیں۔ تمام عالم اسلام امیر المومنین علیہ السلام کا احترام کرتا ہے؛ نہ کوئی شیعہ ہے نہ سنی۔ نواصب نامی ایک چھوٹی سی جماعت امیر المومنین کے دشمن تھے۔ اسلام کی پوری تاریخ میں، اموی اور عباسی دونوں ادوار میں بعض  گروہ امیر المومنین کے دشمن تھے۔ لیکن عالم اسلام کے عام لوگ - سنی اور شیعہ دونوں - امیر المومنین کی عزت کرتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں  کہ سنی فقہی ائمہ کے ہاں امیر المومنین کے بارے میں تعریفی اشعارموجود  ہیں۔


مشہور اشعار جو کہے گئے ہیں وہ شافعی کے ہیں۔ امام شافعی کے ہاں امیر المومنین کے بارے میں حمد کے اشعار ہیں۔ صرف امیر المومنین کے بارے میں ہی نہیں بلکہ تمام یا زیادہ تر ائمہ کے بارے میں یہ فرمانبردار ہیں۔
مشہور اشعار جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ شافعی کے ہیں۔ امام شافعی کے ہاں امیر المومنین کے بارے میں مدحیہ  اشعار ہیں۔ صرف امیر المومنین کے بارے میں ہی نہیں بلکہ تمام یا زیادہ تر ائمہ کا یہ لوگ احترام کرتے ہیں۔
== رہبر کے بیان کے بعد حیفہ اور تل ابیب میں خوفناک راتیں ==
دمشق میں ایرانی سفارت خانے کے قونصلر سیکشن پر حملے کے بعد رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے ایک پیغام میں خبردار کیا: "بدمعاش حکومت کو ہمارے بہادر جوانوں کے ہاتھوں سزا دی جائے گی، ہم انہیں اس جرم پر پچھتاوا کرائیں گے۔" وہ پیغام جس نے صیہونی حکومت میں خوف و ہراس کی لہر دوڑا دی اور عبرانی اور عربی میڈیا کے مطابق تل ابیب اور حیفہ میں خطرے کی سطح بہت بلند ہو گئی۔
 
آگ سے کھیلنے اور [[شام]] میں [[ایران]] کے خلاف دہشت گردانہ حملے پر سیاسی اور عسکری حلقوں کی جانب سے متعدد تنقیدوں کے جواب میں نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ یہ حکومت ایران کے ردعمل کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ حیفہ کے میئر نے اس پر چند جملوں کے ساتھ سوال کیا اور کہا: ’’مجھے ایسی تیاری نظر نہیں آرہی، وہ ہمیں یہ کیوں نہیں بتاتا کہ کیا کرنا ہے؟
 
اسرائیلی حکومت کے تجزیہ کاروں کے مطابق شام میں جنرل زاہدی کی شہادت اور دمشق میں ایران کے کئی اعلیٰ فوجی مشیروں کی شہادت کے ساتھ ہی اس نے ایک خطرناک جوا شروع کیا جو اس کے تیزی سے زوال کا باعث بن سکتا ہے۔
 
قابضین کے خلاف ڈرونز اور میزائلوں کے استعمال سے لے کر مقبوضہ فلسطین کے اندر یا باہر صیہونی تنصیبات کو نشانہ بنانے تک مستقبل کے مختلف آپشنز کی وجہ سے ایران کے تل ابیب کو "سخت تھپڑ" کے بارے میں قیاس آرائیاں ان دنوں امریکی میڈیا اور سیاسی حلقوں کی خبروں میں سرفہرست ہیں
 
اس خبر کے اجراء کے ساتھ ہی، جب صیہونی حکومت کی کابینہ نے انتباہ اور تیاری کی سطح کو بڑھانے کے لیے عجلت میں اقدامات اٹھائے، صیہونی برادری کو یہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے شدید اضطراب اور خوف و ہراس کا سامنا کرنا پڑا کہ ایران کیا جواب دے گا اور کب کہاں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سوشل نیٹ ورکس اور مختلف میڈیا میں خبروں کو فعال طور پر فالو کر رہے ہیں۔ وہ خوف جو اسرائیل کے داخلی محاذ کی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بنا ہے اور اسرائیلی میڈیا میں اس کی واضح جھلک نظر آرہی ہے۔*
 
اسرائیلی حکومت کے ٹیلی ویژن نے اطلاع دی ہے کہ ایران کی جوابی کارروائی کے خدشے کے پیش نظر اس حکومت کی فضائیہ کو مکمل چوکس کر دیا گیا ہے اور اسرائیلی فوج کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ صورتحال کے جائزے کے حصے کے طور پر اس نے فیصلہ کیا ہے فضائی دفاعی نظام کے لیے ریزرو فورسز کو مضبوط اور طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
 
صیہونی حکومت کی ریزرو فوج کے جنرل نے کہا: [مقبوضہ فلسطین] کے عوام کو جنگ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
 
یروشلم پوسٹ نے یوم قدس کے حوالے سے خبر دی ہے کہ ایران کی دھمکیوں کی وجہ سے 28 صہیونی سفارت خانے اور قونصل خانے عارضی طور پر بند کردیئے گئے ہیں۔
 
کل رات، اسرائیل کے داخلی محاذ کی کمان نے اعلان کیا کہ وہ چاہتا ہے کہ تمام لوگ اپنے آپ کو پناہ گاہوں میں رہنے کے لیے تیار کریں اور وہاں اپنے ساتھ لے جانے کے لیے اعلان کردہ ضروری اشیا اور سامان تیار کریں
== سفارت خانے پر حملہ ایرانی سرزمین پر حملہ ہے/صہیونی حکومت کو سخت سزا دی جائے گی ==
 
[[نماز]] عیدالفطر کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے آیت اللہ سید علی خامنہ ای  نے کہا: کہ ہر ملک کا سفارت خانہ یا قونصل خانہ اس کی سرزمین کا حصہ ہوتا ہے۔ صہیونی حکومت کو اس مجرمانہ عمل پر سخت سزا دینی چاہئے اور یقینا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔
 
تہران کے مصلائے [[سید روح اللہ موسوی خمینی|امام خمینی]] میں نماز [[عید فطر|عیدالفطر]] کا اجتماع ہواجہاں رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نماز عیدالفطر کی اقتداء کی۔
انہوں نے کہا: کہ ایک مہینہ اللہ کی رحمت امت مسلمہ پر برسی۔ اس سال شمسی سال کا آغاز بھی [[رمضان|ماہ رمضان]] میں ہوا۔ ماہ رمضان کے دوران تلاوت [[قرآن|قرآن کریم]] کی محفلیں پہلے سے زیادہ بارونق تھیں۔ پورے مہینے کے دوران دعا اور ذکر کی وجہ سے خاص معنویت محسوس کی گئی۔
 
آپ  نے لوگون کو نصیحت کی کہ اس معنوی ذخیرے کی حفاظت کریں۔
 
سید علی خامنہ ای  نے ماہ رمضان کے دوران پیش آنے والے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سال ماہ رمضان کے دوران [[غزہ]] کے مسلمانوں نے تلخ واقعات کا سامنا کیا۔ [[فلسطین|فلسطینی]] مسلمانوں پر ظلم کرنے والی صہیونی حکومت پر خدا کی لعنت ہو!
 
آپ  نے مغربی ممالک پر کڑی  تنقید کرتے ہوئے کہا: کہ انہوں نے ہمیشہ صہیونی غاصب حکومت کی پشت پناہی کی ہے۔ اس سال کے واقعات اور جرائم میں بھی مغربی ممالک نے کھلم کھلا جارح صہیونی حکومت کا ساتھ دیا۔ صہیونی حکومت نے گذشتہ چھے مہینوں کے دوران 30 ہزار سے زائد فلسطینی بے گناہ مسلمانوں کو شہید کردیا۔
 
ایران کے سپریم لیڈر نے [[اسرائیل]] کی جانب سے سرحد پار دہشت گردی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہر ملک کا سفارت خانہ یا قونصل خانہ اس کی سرزمین کا حصہ ہوتا ہے۔ صہیونی حکومت کو اس مجرمانہ عمل پر سخت سزا دینی چاہئے اور یقینا خمیازہ بھگتنا پڑے گا <ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1923218/ سفارت خانے پر حملہ ایرانی سرزمین پر حملہ ہے/صہیونی حکومت کو سخت سزا دی جائے گی]mehrnews.com-شا‏ئع شدہ: 10اپریل 2024ء-اخذ شدہ: 10 اپریل 2024ء۔</ref>۔
== حالیہ واقعات میں ایرانی قوم کی طاقت ظاہر ہوگئی/ دشمن سے نمٹنے کے لئے نئے طریقے اپنانے کی ضرورت ہے ==
انہوں نے [[شام]]  میں شہید ہونے والے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے شہادت کے مرتبے پر فائز ہوکر کامیابی حاصل کی جبکہ ہم پیچھے رہ گئے۔
حضرت  آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج دوپہر کے وقت مسلح افواج کے اعلی حکام کے ساتھ ملاقات میں حالیہ واقعات میں ان کی کوششوں اور کامیابیوں کو دلی طور پر سراہتے ہوئے تاکید کی: اللہ کے فضل سے، مسلح افواج اپنی صلاحیتوں اور اختیارات کے استعمال کے لئے اچھی شہرت رکھتی ہیں، اس کے ساتھ ہی انہوں نے دنیا کو ایرانی قوم کا ایک قابل تعریف چہرہ دکھایا اور بین الاقوامی میدان میں ایرانی قوم کی قوت ارادی کے بھرپور اظہار کا ثبوت دیا۔
 
سید علی خامنہ ای  نے آرمی ڈے اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے یوم تاسیس کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مسلح افواج کی حالیہ کامیابیوں نے دنیا اور عالمی مبصرین کی نظروں میں اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں عظمت کا احساس پیدا کیا ہے۔
 
انہوں نے مزید فرمایا:  داغے گئے میزائلوں کی تعداد اور یا ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائلوں کا مسئلہ اس زبردست جوابی کاروائی میں ثانوی حیثیت کا حامل ہے۔ جب کہ بنیادی مسئلہ ایرانی قوم اور مسلح افواج کا بین الاقوامی میدان میں اپنی  قوت ارادی کا برملا اظہار ہے کہ جس پر فریق مخالف کی چیخیں نکل گئی ہیں اور وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوگیا۔
رہبر انقلاب نے مسلح افواج کے اقدامات میں کارفرما حسن تدبیر کو سراہتے ہوئے فرمایا: مختلف واقعات کا تعلق لاگت اور فائدے سے ہے اور یہ ضروری ہے کہ اخراجات کو کم کیا جائے لیکن منصوبہ بندی اور دقت عمل کے ذریعے بہترین نتائج اور ثمرات حاصل کئے جائیں۔ ملک کی مسلح افواج نے حالیہ واقعات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
 
پاسداران انقلاب، فوج اور پولیس فورس کی کوششوں اور سرگرمیوں کو سراہتے ہوئے آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا: مسلح افواج کو نصیحت کی کہ دشمنوں اور ان کی دشمنیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جدو جہد اور عملی اقدام پر بھروسہ کرتے ہوئے جدت کے ساتھ ساتھ دشمن کے حربوں کا علم ہمیشہ ایجنڈے میں ہونا چاہیے۔
اس ملاقات میں مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف میجر جنرل باقری نے 2023ء کی اہم پیش رفت اور 2024ء کے ابتدائی ہفتے کے واقعات یعنی [[آپریشن وعدہ صادق]]  کا ذکر کرتے ہوئے مسلح افواج کی تازہ ترین تیاریوں اور صلاحیتوں کے حوالے سے مختصر رپورٹ پیش کی<ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1923463/%D8%AD%D8%A7%D9%84%DB%8C%DB%81-%D9%88%D8%A7%D9%82%D8%B9%D8%A7%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D9%82%D9%88%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D8%B7%D8%A7%D9%82%D8%AA-%D8%B8%D8%A7%DB%81%D8%B1-%DB%81%D9%88%DA%AF%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%D8%B4%D9%85%D9%86-%D8%B3%DB%92-%D9%86%D9%85%D9%B9%D9%86%DB%92 حالیہ واقعات میں ایرانی قوم کی طاقت ظاہر ہوگئی/ دشمن سے نمٹنے کے لئے نئے طریقے اپنانے کی ضرورت ہے]-ur.wikivahdat.com-شائع شدہ از:21اپریل 2024ء -اخذ شدہ بہ تاریخ:22اپریل 2024ء۔</ref>۔
== عراقی کردستان کے سربراہ کی رہبر معظم انقلاب اسلامی سے ملاقات ==
حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای سے کچھ ہی دیر پہلے عراقی کردستان کے سربراہ نیچروان بارزانی نے اعلی سطحی وفد کے ہمراہ ملاقات کی۔
بارزانی اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ تہران کے دورے پر ہیں۔
عراقی کردستان کے سربراہ نے صدر سید ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ سمیت دیگر اعلیٰ حکام سے بھی ملاقات کی ہے <ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1923788/%D8%B9%D8%B1%D8%A7%D9%82%DB%8C-%DA%A9%D8%B1%D8%AF%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%B1%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D8%B1%DB%81%D8%A8%D8%B1-%D9%85%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%A7%D9%86%D9%82%D9%84%D8%A7%D8%A8-%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D9%84%D8%A7%D9%82%D8%A7%D8%AA عراقی کردستان کے سربراہ کی رہبر معظم انقلاب اسلامی سے ملاقات]-ur.mehrnews.com-شائع شدہ از:6مئی 2024ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:6مئی 2024ء۔</ref>۔
== حج بیت اللہ کے لئے عازم قاریان قرآن کی رہبر معظم انقلاب سے ملاقات ==
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ملاقات میں متعدد قاریوں نے [[قرآن|قرآن کریم]] کی آیات کی تلاوت کی جب کہ رہبر معظم انقلاب نے اپنے خطاب میں قاریان قرآن کو تلاوت کے ذریعے آیات کے مفاہیم کو سامعین تک پہنچانے اور حج کے موقع پر قرآن مجید کی تلاوت سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں کچھ نکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ خوبصورت ترین اسلامی معنویتوں میں سے ایک مسجد النبی ص میں قرآن کی تلاوت ہے۔
 
مسجد اور قرآن کو جوڑنا، اسی طرح [[کعبہ]] اور قرآن کے درمیان تعلق جوڑنا، نہایت حسین امتزاج ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں قرآن نازل ہوا تھا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں پہلی بار یہ آیات حضور اکرم ص کے مقدس قلب پر نازل ہوئیں اور آپ نے ان آیات کو اپنی زبان مبارک سے کعبے میں تلاوت کرکے اس فضا کو منور کیا، آپ نے تکلیفیں برداشت کیں، آپ کو مارا پیٹا گیا، اذیتیں دی گئیں، دشنام طرازی کی گئی لیکن آپ ان آیات کی تلاوت کے ذریعے تاریخ کے دھارے کو مکمل طور پر بدلنے میں کامیاب ہوگئے
 
آیت اللہ خامنہ ای نے قاریان قرآن کو تلاوت کے ساتھ ساتھ آیات کے مفاہیم کو سامعین تک پہنچانے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کی تلاوت در اصل قرآنی علوم اور پیغامات کو دلوں میں بسانے کا ایک وسیلہ اور ذریعہ ہے۔ اس کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت سے اسلامی معاشرہ کو ترقی ملتی ہے۔ جس محفل میں آپ قرآن کی تلاوت کر رہے ہوں، وہاں تلاوت کے بعد کتنا اچھا ہو گا، مثلاً دس منٹ آپ کے سننے والوں کے لیے انہی آیات کے مفاہیم کو بیان کریں کہ یہ آیات جو تلاوت کی گئی ہیں ان کا مفہوم اور پیغام یہ ہے <ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1923850/%D8%AD%D8%AC-%D8%A8%DB%8C%D8%AA-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D8%A6%DB%92-%D8%B9%D8%A7%D8%B2%D9%85-%D9%82%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D9%86-%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%B1%DB%81%D8%A8%D8%B1-%D9%85%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%A7%D9%86%D9%82%D9%84%D8%A7%D8%A8-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D9%84%D8%A7%D9%82%D8%A7%D8%AA حج بیت اللہ کے لئے عازم قاریان قرآن کی رہبر معظم انقلاب سے ملاقات]-شائع شدہ از: 9 مئی 2024ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 14مئی 2024ء۔</ref>۔
== رہبر معظم کا فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنے والے امریکی طلباء کے نام پیغام ==
رہبر معظم نے فلسطین میں جاری صہیونی مظالم کے خلاف احتجاج کرنے والے امریکی طلباء کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ غزہ کے مظلوموں کی حمایت کرکے اچھا راستہ انتخاب کرلیا ہے۔
 
مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فلسطین کے حق میں احتجاج کرنے والے امریکی یونیورسٹی طلباء کے ساتھ اظہار ہمدردی و ہمبستگی کرتے ہوئے طلباء کی تحریک کو مقاومت کا حصہ قرار دیا اور مغربی ایشیا کی صورتحال اور تقدیر بدلنے کی تاکید کی۔
 
رہبر معظم کے پیغام کا متن ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
 
یہ پیغام ان جوانوں کے نام لکھ رہا ہوں جن کو ان کے بیدار ضمیروں نے غزہ کے بچوں اور خواتین کے دفاع پر مجبور کیا ہے۔
 
امریکی عزیز طلباء! یہ آپ کے ساتھ یکجہتی اور ہمبستگی کا پیغام ہے۔ آپ نے ایسا درست فیصلہ کیا ہے جو تاریخ کا ورق پلٹا سکتا ہے۔ آپ نے مقاومت کا حصہ تشکیل دیا ہے۔ آپ صہیونی بے رحم اور غاصب حکومت کی حمایت کرنے والی امریکی انتظامیہ سے شرافتمندانہ طریقے سے مبارزہ کررہے ہیں۔
 
دنیا کے اس کونے میں اسی احساس اور ادراک کے ساتھ کئی سالوں سے مقاومت جاری ہے۔ اس احتجاج کا ہدف صہیونیزم کے نام پر تشکیل پانے والے دہشت گرد نیٹ ورک کے مظالم کی روک تھام ہے۔ فلسطین پر قبضے کے بعد یہاں کے عوام سالوں سے سخت ترین حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ [[غزہ]] میں نسل کشی صہیونی حکومت کے ظالمانہ سلوک کا تسلسل ہے۔
 
[[فلسطین]] ایک خودمختار سرزمین ہے جو زمانہ قدیم سے مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں پر مشتمل ہے۔ عالمی جنگ کے بعد صہیونی سرمایہ داروں کے نیٹ ورک نے برطانیہ کی مدد سے کئی ہزار دہشت گردوں کو بتدریج فلسطین میں داخل کیا جنہوں نے فلسطین کے شہریوں اور قصبوں پر حملہ کیا اور ہزاروں افراد کو تہہ تیغ کیا۔ بازاروں، کھیتوں اور مکانات پر قبضہ کیا اور فلسطینی غصب شدہ زمین پر اسرائیل کے نام سے حکومت تشکیل دی۔
 
برطانوی ابتدائی امداد کے بعد امریکہ اس غاصب حکومت کا سب سے بڑا حامی ہے جو اس کو سیاسی، اقتصادی اور دفاعی امداد فراہم کرتا ہے یہاں تک کہ بے احتیاطی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو ایٹمی اسلحہ بنانے میں بھی مدد فراہم کی ہے۔
 
صہیونی حکومت نے ابتدا سے ہی فلسطینی نہتے عوام کے مقابلے میں سخت رویہ اختیار کیا ہے اور انسانی اور دینی اقدار کو پامال کرتے ہوئے بے رحمی کے ساتھ فلسطینیوں کو سرکوب کیا ہے۔
 
امریکہ اور اس کے ہم نوا ممالک نے [[اسرائیل]] کی اس دہشت گردی پر مکمل خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ آج بھی اگر بعض امریکی حکام غزہ کے واقعات پر بیانات دے رہے ہیں تو وہ ریاکاری ہے۔
 
اس تنگ و تاریک دور میں مقاومت نے جنم لیا اور [[ایران|انقلاب اسلامی ایران]] کے بعد اس کو وسعت اور توانائی ملی۔
عالمی صہیونزم کے رہنماوں اور امریکہ اور اس کے حامیوں کی دولت پر پلنے والے میڈیا نے مقاومت کو دہشت گردی قرار دیا۔ کیا غاصب صہیونیوں کے مقابلے میں اپنا دفاع کرنے والے دہشت گرد ہیں؟ کیا اس قوم کی مدد اور دہشت گردی کے مقابلے میں ان کی تقویت دہشت گردی ہے؟
 
دنیا پر حاکم طبقہ انسانی اقدار کی بھی پروا نہیں کرتا اور اسرائیل کی بے رحمانہ کاروائیوں اور دہشت گردی کو حق دفاع قرار دیتا ہے اور اپنی آزادی اور حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد کرنے والے فلسطینیوں کو دہشت گرد کہتا ہے!
 
میں آپ کو اطمینان دلانا چاہتا ہوں کہ حالات تبدیل ہورہے ہیں۔ مغربی ایشیا کی تقدیر بدلنے والی ہے۔ عالمی سطح پر انسانی ضمیر جاگ گیا ہے۔ مقاومتی بلاک پہلے سے زیادہ طاقتور ہوا ہے اور تاریخ کا ورق پلٹنے والا ہے۔
 
آپ امریکی یونیورسٹی طلباء کے علاوہ دنیا کے دیگر خطوں میں بھی طلباء اور عوام احتجاج کررہے ہیں۔ یونیورسٹی اساتذہ کی طرف سے طلباء کی حمایت خوش آئند اور موثر ہے اس سے پولیس کے شدت پسند رویے میں تبدیلی آسکتی ہے۔ میں آپ جوانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں اور آپ کے قیام کو سراہتا ہوں۔
 
[[قرآن]] ہم [[مسلمان|مسلمانوں]] اور دنیا کے لوگوں کو حق کی راہ میں استقامت کا حکم دیتا ہے: فَاستَقِم کَما اُمِرت۔ قرآن دوسرے انسانوں کے حوالے سے ہمیں یہی حکم دیتا ہے کہ نہ کسی پر ظلم کرو اور نہ کسی کا ظلم برداشت کرو: لا تَظلِمونَ وَ لا تُظلَمون۔
 
اللہ کے اذن سے مقاومتی بلاک ان دستورات پر عمل کرتے ہوئے کامیاب سے ہمکنار ہوگا۔
 
میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ قرآن سے آشنا ہوجائیں۔
 
سید علی خامنہ ای <ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1924393/%D8%B1%DB%81%D8%A8%D8%B1-%D9%85%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D9%81%D9%84%D8%B3%D8%B7%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%AD%D9%82-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%B8%D8%A7%DB%81%D8%B1%DB%81-%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%92-%D9%88%D8%A7%D9%84%DB%92-%D8%A7%D9%85%D8%B1%DB%8C%DA%A9%DB%8C-%D8%B7%D9%84%D8%A8%D8%A7%D8%A1-%DA%A9%DB%92 رہبر معظم کا فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنے والے امریکی طلباء کے نام پیغام]-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 30مئی 2042ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 30مئی 2024ء۔</ref>۔
=== امریکی طلباء کے نام امام خامنہ ای کے خط کے بارے میں اسکائی نیوز کا اعتراف! ===
 
ایسا لگتا ہے کہ آیت اللہ ہمارے طلباء کو ہم سے بہتر جانتے ہیں کہ ہماری یونیورسٹیوں میں سینکڑوں طلباء شہادتین پڑ کر مسلمان ہو رہے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ایک [[اہل بیت|سید آل رسول]] (رہبر معظم سید علی خامنہ ائ ) نے 9 سال پہلے مغربی جوانوں کے نام وعظ و نصیحت کا ایک خط لکھا۔ اس وقت سب نے مذاق اڑایا۔  ایک مولوی کا مغربی آزاد فکر نوجوانوں سے کیا کام؟ اس وقت ہمیں کچھ سمجھ نا آیا۔ اور آج اسی سید نے دوبارہ انہیں جوانوں کے نام خط میں لکھا کہ ہاں! اب تم لوگ تاریخ کے درست سمت میں کھڑے ہوئے ہو۔
 
بعض اوقات اولیاء خدا وہ چیزیں دیکھ رہے ہوتے ہیں جو ہمیں مذاق لگ رہی ہوتی ہیں یا ناممکن سی لگتی ہیں،  لیکن وہ ان حقائق کو دیکھ رہے ہوتے ہیں جن سے ہم نابینا ہوتے ہیں۔
== فلسطین کے بارے میں امام خمینی کی پیشنگوئی سچ ثابت ہورہی ہے ==
 
حضرت آیت اللہ خامنہ ای  نے امام خمینی کی برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا: کہ فلسطین کے بارے میں امام خمینی کی پیشنگوئی سچ ثابت ہورہی ہے، [[طوفان الاقصیٰ|طوفان الاقصی]] نے صہیونی حکومت پر فیصلہ وار کیا ہے۔
 
رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے پیر کی صبح امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پینتیسویں برسی کے پروگرام میں ایک عظیم عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امام خمینی کے افکار و نظریات میں مسئلۂ فلسطین کی اہمیت کی تشریح کی اور کہا کہ فلسطین کے بارے میں امام خمینی کی پچاس سال پہلے کی پیشگوئی رفتہ رفتہ عملی جامہ پہن رہی ہے۔
 
انہوں نے کہا کہ معجزے جیسے طوفان الاقصیٰ آپریشن نے خطے اور عالم اسلام پر تسلط کی دشمن کی بڑی سازش کو ناکام بناتے ہوئے صیہونی حکومت کو زوال کے راستے پر ڈال دیا ہے اور غزہ کے عوام کی ایمانی اور قابل تحسین مزاحمت کے سائے میں، صیہونی حکومت دنیا والوں کی نظروں کے سامنے پگھلتی جا رہی ہے۔
 
انہوں نے اسی طرح شہید صدر رئیسی کی خصوصیات اور خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اور شہیدان خدمت کے جلوس جنازہ میں قوم کی زبردست اور معنی خیز شرکت کی قدردانی کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ کے انتہائی اہم الیکشن میں عوام کی بھرپور شرکت، شہیدان خدمت کو الوداع کہنے کے قوم کے بے مثال کارنامے کا تتمہ ہوگی۔
 
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے پہلے حصے میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے افکار و نظریات میں مسئلۂ فلسطین کی اہمیت کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اسلامی تحریک کے آغاز کے پہلے دن سے ہی مسئلۂ فلسطین کو اہمیت دی اور دقت نظر اور مستقبل پر گہری نگاہ کی بنیاد پر فلسطینی قوم کے سامنے ایک راستے کی تجویز رکھی اور امام خمینی کا یہ انتہائی اہم نظریہ رفتہ رفتہ عملی جامہ پہن رہا ہے۔
 
انھوں نے اسلامی تحریک کے آغاز میں ہی ایران کی ظالم و جابر طاغوتی حکومت کی سرنگونی اور اسی طرح سوویت حکومت کی حکمرانی اور دبدبے کے دور میں کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کی پیشگوئی کو امام خمینی کی بصیرت کے دو دوسرے نمونے قرار دیا۔
 
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے صیہونی حکومت سے مفاہمت کے مذاکرات سے کوئی امید نہ رکھنے، میدان عمل میں فلسطینی قوم کے اترنے، اپنا حق حاصل کرنے اور تمام اقوام بالخصوص مسلم اقوام کی جانب سے فلسطینیوں کی حمایت کو، فلسطینی قوم کی فتحیابی کے لیے امام خمینی کے نظریات کا خلاصہ قرار دیا اور کہا کہ یہ عظیم واقعہ بھی اس وقت عملی جامہ پہن رہا ہے۔
== شہید رئیسی کی خدمات ==
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں عزیز اور محنتی صدر اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے جانگداز سانحے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ صدر کے ساتھیوں میں سے ہر ایک شخص، اپنے آپ میں ایک گرانقدر شخصیت تھا۔
 
انہوں نے شہید رئیسی کی نمایاں اور ممتاز خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سبھی نے اعتراف کیا کہ کام، عمل، خدمت اور صداقت والے انسان تھے اور انھوں نے عوام کی خدمت کا ایک نیا نصاب تیار کیا تھا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ اتنی زیادہ، اتنی مقدار میں، اس سطح کی خدمت اور ایسی صداقت و محنت ملک کے خادموں کے درمیان نہیں رہی ہے۔
 
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ خارجہ پالیسی میں بہت زیادہ اور بابرکت فعالیت، مواقع کا بہترین استعمال اور دنیا کی اہم سیاسی شخصیات کی نظر میں ایران کو نمایاں کرنا، شہید رئیسی کی کچھ دوسری خصوصیات تھیں۔ انھوں نے دشمنوں اور انقلاب کے مخالفوں کے درمیان واضح حدبندی اور دشمن کی مسکراہٹ پر بھروسہ نہ کرنے کو شہید رئیسی کی دیگر سبق آموز خصوصیات بتایا۔
== شہید امیر عبداللہیان ==
انہوں نے اسی طرح [[حسین امیر عبداللہیان|شہید امیر عبداللہیان]] کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہیں ایک فعال، محنتی اور جدت عمل والا وزیر خارجہ اور مضبوط، ذہین اور اصولوں کا پابندہ مذاکرات کار بتایا۔
 
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے شہیدان خدمت کے جلوس جنازہ میں عوام کی دسیوں لاکھ کی تعداد میں شرکت کو ایک نمایاں اور قابل تجزیہ کارنامہ بتایا اور اسے انقلاب کی تاریخ میں تلخ اور سخت حوادث کے مقابل ایرانی قوم کے تاریخ رقم کرنے والے کارناموں کا ایک نمونہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ اس کارنامے نے دکھا دیا کہ ایرانی قوم، ایک پرعزم، ثابت قدم اور زندہ قوم ہے جو مصیبت سے نہیں ہارتی بلکہ اس کی استقامت اور جوش و جذبے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
 
رہبر انقلاب اسلامی نے عوام کی زبردست شرکت کا ایک اور پیغام، انقلاب کے نعروں کی طرفداری بتایا اور کہا کہ مرحوم رئیسی صراحت کے ساتھ انقلاب کے نعروں کو بیان کرتے تھے اور وہ خود انقلاب کے نعروں کا مظہر تھے۔
== الیکشن میں شرکت کی اپیل ==
انہوں نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں آئندہ الیکشن کو ایک بڑا اور اہم نتائج والا کام بتایا اور کہا کہ اگر یہ الیکشن اچھی طرح اور پرشکوہ طریقے سے منعقد ہو جائے تو ایرانی قوم کے لیے ایک بڑا کارنامہ ہوگا اور دنیا میں اسے غیر معمولی اہمیت حاصل ہوگی۔
 
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں الیکشن میں عوام کی بھرپور شرکت کو شہیدان خدمت کو الوداع کہنے کے قوم کے بے مثال کارنامے کا تتمہ قرار دیا اور کہا کہ ایرانی قوم کو پیچیدہ بین الاقوامی معامالات میں اپنے مفادات کے تحفظ اور اپنی اسٹریٹیجک گہرائی کے استحکام کے لیے ایک فعال، آگاہ اور انقلاب کی بنیادوں پر ایمان رکھنے والے صدر کی ضرورت ہے <ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1924474/%D9%81%D9%84%D8%B3%D8%B7%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%AE%D9%85%DB%8C%D9%86%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D9%BE%DB%8C%D8%B4%D9%86%DA%AF%D9%88%D8%A6%DB%8C-%D8%B3%DA%86-%D8%AB%D8%A7%D8%A8%D8%AA-%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%81%DB%8C-%DB%81%DB%92 فلسطین کے بارے میں امام خمینی کی پیشنگوئی سچ ثابت ہورہی ہے]-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 3 جون 2024ء- 4 جون 2024ء۔</ref>۔
== غزہ کے جلادوں سے عالمی سطح پر برائت کا اعلان ہونا چاہئے ==
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس سال حج کے موقع پر صہیونی حکومت اور اس کے حامیوں مخصوصا امریکہ سے اعلان برائت حج کے مناسک تک محدود نہیں ہونا چاہئے بلکہ پوری دنیا میں جہاں جہاں مسلمان رہتے ہیں، وہاں سے یہ نعرہ بلند ہونا چاہئے۔
 
مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حج کی مناسبت سے اپنا پیغام جاری کردیا ہے۔
 
مکمل متن؛
 
بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم
 
و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی خیر البریّۃ سیّدنا محمّدٍ المصطفی و آلہ الطّیّبین و صحبہ المنتجبین و من تبعھم باحسان الی یوم الدّین.
 
دلنواز ابراہیمی آہنگ نے، جو حکم خدا سے ہر دور کے تمام انسانوں کو موسم حج میں کعبے کی جانب بلاتا ہے، اس سال بھی پوری دنیا کے بہت سے مسلمانوں کے دلوں کو توحید و اتحاد کے اس مرکز کی جانب مجذوب کر دیا ہے، انسانوں کے اس پرشکوہ اور متنوع اجتماع کو وجود میں لے آيا ہے اور اسلام کے انسانی وسائل کی وسعت اور اس کے روحانی پہلو کی طاقت کو اپنوں اور غیروں کے سامنے نمایاں کر دیا ہے۔
 
حج کے عظیم اجتماع اور اس کے پیچیدہ مناسک کو جب بھی تدبر کی نظر سے دیکھا جائے تو وہ مسلمانوں کے لیے قوت قلب اور اطمینان کا سرچشمہ ہیں اور دشمن اور بدخواہ کے لیے خوف و ہراس اور ہیبت کا سبب ہیں۔
 
اگر امت مسلمہ کے دشمن اور بدخواہ، فریضۂ حج کے ان دونوں پہلوؤں کو بگاڑنے اور انھیں مشکوک بنانے کی کوشش کریں، چاہے مذہبی اور سیاسی اختلافات کو بڑا بنا کر اور چاہے ان کے مقدس اور روحانی پہلوؤں کو کم کر کے، تو تعجب کی بات نہیں ہے۔
 
قرآن مجید، حج کو بندگي، ذکر اور خشوع کا آئینہ، انسانوں کے یکساں وقار کا مظہر، انسان کی مادی اور روحانی زندگي کی بہبودی کا نمونہ، برکت اور ہدایت کی علامت، اخلاقی سکون اور بھائيوں کے درمیان عملی اتحاد کی مثال اور دشمنوں کے مقابلے میں برائت و بیزاری اور مقتدرانہ محاذ آرائی کا مظہر بتاتا ہے۔
 
حج سے متعلق قرآنی آيات پر غوروخوض اور اس بے نظیر فریضے کے اعمال و مناسک میں تدبر ان چیزوں اور حج کے پیچیدہ اعمال کی باہمی ترکیب کے ان جیسے دیگر رموز کو ہم پر منکشف کر دیتا ہے۔
 
حج ادا کرنے والے آپ بھائي اور بہن اس وقت ان پرفروغ حقائق و تعلیمات کی مشق کے میدان میں ہیں۔ اپنی سوچ اور اپنے عمل کو اس کے قریب سے قریب تر کیجیے اور ان اعلی مفاہیم سے آمیختہ اور از سر نو حاصل ہونے والے تشخص کے ساتھ گھر لوٹیے۔ یہی آپ کے سفر حج کی گرانقدر اور حقیقی سوغات ہے۔
 
اس سال برائت کا مسئلہ، ماضی سے زیادہ نمایاں ہے۔ غزہ کا المیہ، جو ہماری معاصر تاریخ میں بے مثال ہے اور بے رحم اور سنگ دلی و درندگي کی مظہر اور ساتھ ہی زوال کی جانب گامزن صیہونی حکومت کی گستاخی نے کسی بھی مسلمان شخص، جماعت، حکومت اور فرقے کے لیے کسی بھی طرح کی رواداری کی گنجائش باقی نہیں رکھی ہے۔ اس سال کی برائت، حج کے موسم اور میقات سے آگے بڑھ کر پوری دنیا کے تمام مسلمان ملکوں اور شہروں میں جاری رہنی چاہیے اور حاجیوں سے آگے بڑھتے ہوئے ہر ایک شخص کی جانب سے انجام پانی چاہیے۔
 
صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں خاص طور پر امریکی حکومت سے یہ برائت اقوام اور حکومتوں کے قول و فعل میں نظر آنی چاہیے اور اسے جلادوں کا عرصۂ حیات تنگ کر دینا چاہیے۔
 
فلسطین اور غزہ کے صابر اور مظلوم عوام کی آہنی مزاحمت کی، جن کے صبر و استقامت نے دنیا کو ان کی تعریف و احترام پر مجبور کر دیا ہے، ہر طرف سے پشت پناہی ہونی چاہیے۔
 
خداوند عالم سے ان کے لیے مکمل اور فوری فتح کی دعا کرتا ہوں اور آپ حجاج محترم کے لیے، مقبول حج کی دعا کرتا ہوں۔ حضرت بقیۃ اللہ (روحی فداہ) کی مستجاب دعا آپ کی پشت پناہ رہے۔
 
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
 
سید علی خامنہ ای
 
4 ذی الحجہ 1445
 
22 خرداد 1403
 
11 جون 2024 <ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1924704/%D8%A7%D9%85%D8%B1%DB%8C%DA%A9%DB%81-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%BA%D8%A7%D8%B5%D8%A8-%D8%B5%DB%81%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C-%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA-%D8%B3%DB%92-%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D8%A6%D8%AA-%D8%A7%D9%82%D9%88%D8%A7%D9%85-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D9%82%D9%88%D9%84 حجاج بیت اللہ کے نام رہبر معظم انقلاب کا پیغام: غزہ کے جلادوں سے عالمی سطح پر برائت کا اعلان ہونا چاہئے]- شائع شدہ از: 15 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 جون 2024ء۔</ref>۔


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
[[زمرہ: عالم اسلام کے قائدین]]
[[زمرہ:شخصیات]]
[[fa:سید علی حسینی خامنه‌ای]]
[[زمرہ:ایران]]
confirmed
2,782

ترامیم