"علی بن موسی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(2 صارفین 21 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:
[[فائل:ضریح امام رضا.jpg|250px|بدون_چوکھٹا|بائیں]]
{{خانہ معلومات ائمہ
'''علی بن موسیٰ بن جعفر علیہ السلام''' جو امام رضا (148-203ھ) کے نام سے مشہور ہیں، 12ویں صدی کے آٹھویں شیعہ امام ہیں۔ امام رضا علیہ السلام کی امامت ہارون الرشید، محمد امین اور مامون کی 20 سالہ مدت خلافت کے ساتھ موافق ہوئی۔ امام جواد علیہ السلام کی ایک روایت میں مذکور ہے کہ خدا نے ان کے والد کو رضا کا لقب دیا تھا۔ انہیں آل محمد عالم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ امام رضا علیہ السلام کو مامون عباسی نے زبردستی خراسان لایا اور ہچکچاتے ہوئے مامون کے ولی عہد بن گئے۔ سونے کی زنجیر کی حدیث جو نیشابور میں ان سے مروی ہے، مشہور ہے۔ مامون اپنے اور دوسرے مذاہب کے عمائدین کے درمیان مباحثے کی نشستیں منعقد کیا کرتا تھا، جس سے وہ سب اس کی برتری اور علم کا اعتراف کرتے تھے۔ انہیں طوس میں مامون نے شہید کیا۔ مشہد میں ان کا مزار مسلمانوں کے لیے زیارت گاہ ہے۔
| عنوان =
| تصویر = علی بن موسی الرضا.jpg
| تصویر کی وضاحت =
| نام =
| تاریخ ولادت =  11 ذی‌القعده، 148ق
| جائے ولادت = مدینه
| شهادت = صفر کا آخری دن، 202 ق
| القاب = امام رضا،عالم آل محمد، ثامن الحجج
| کنیت =
|والد ماجد = [[موسی بن جعفر]]
|والدہ ماجدہ = نجمه خاتون
|ہمسر = سبیکه
|اولاد = [[محمد بن علی بن موسی|محمد بن علی الجواد]]
|امامت کی مدت = 20 سال
|عمر = 55
|مدفن = مشهد، [[ایران]]
}}
 
'''علی بن موسیٰ بن جعفر علیہ السلام''' جو امام رضا (148-203ھ) کے نام سے مشہور ہیں، 12ویں صدی کے آٹھویں [[شیعہ]] امام ہیں۔ امام رضا علیہ السلام کی امامت ہارون الرشید، محمد امین اور مامون کی 20 سالہ مدت خلافت کے ساتھ موافق ہوئی۔ [[امام جواد علیہ السلام]] کی ایک روایت میں مذکور ہے کہ خدا نے ان کے والد کو رضا کا لقب دیا تھا۔ انہیں آل محمد عالم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ امام رضا علیہ السلام کو مامون عباسی نے زبردستی خراسان لایا اور ہچکچاتے ہوئے مامون کے ولی عہد بن گئے۔ سونے کی زنجیر کی حدیث جو نیشابور میں ان سے مروی ہے، مشہور ہے۔ مامون اپنے اور دوسرے مذاہب کے عمائدین کے درمیان مباحثے کی نشستیں منعقد کیا کرتا تھا، جس سے وہ سب اس کی برتری اور علم کا اعتراف کرتے تھے۔ انہیں طوس میں مامون نے شہید کیا۔ مشہد میں ان کا مزار مسلمانوں کے لیے زیارت گاہ ہے۔
== رضا ==
== رضا ==
علی بن موسیٰ بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب، ان کی کنیت ابو الحسن اور سب سے مشہور لقب رضا ہے۔ [[امام جواد علیہ السلام]] کی ایک روایت میں ہے کہ یہ لقب ان کے والد کو خدا نے دیا تھا۔ <ref>ایون اخبار الرضا، 1378ھ، جلد 1، صفحہ 13</ref> لیکن بعض ذرائع نے کہا ہے کہ مامون نے اسے رضا کا خطاب دیا۔ صابر ، صدیق، رازی اور وفی اس نبی کے دوسرے القاب ہیں  <ref>ابن شہراشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ھ، جلد 4، صفحہ 366 اور 367؛ امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، 1418ھ، ج2، ص545</ref>
علی بن [[موسی بن جعفر|موسیٰ بن جعفر]] بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب، ان کی کنیت ابو الحسن اور سب سے مشہور لقب رضا ہے۔ [[امام جواد علیہ السلام]] کی ایک روایت میں ہے کہ یہ لقب ان کے والد کو خدا نے دیا تھا۔ <ref>ایون اخبار الرضا، 1378ھ، جلد 1، صفحہ 13</ref> لیکن بعض ذرائع نے کہا ہے کہ مامون نے اسے رضا کا خطاب دیا۔ صابر ، صدیق، رازی اور وفی اس نبی کے دوسرے القاب ہیں  <ref>ابن شہراشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ھ، جلد 4، صفحہ 366 اور 367؛ امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، 1418ھ، ج2، ص545</ref>
۔ بعض روایات میں انہیں آل محمد کا عالم کہا گیا ہے۔  <ref>مجلسی، بہار الانوار، 1403ھ، جلد 49، ص100</ref>
۔ بعض روایات میں انہیں آل محمد کا عالم کہا گیا ہے۔  <ref>مجلسی، بہار الانوار، 1403ھ، جلد 49، ص100</ref>
روایت کی گئی ہے کہ امام کاظم علیہ السلام اپنے بچوں سے فرمایا کرتے تھے: تمہارا بھائی علی بن موسی آل محمد کا عالم ہے۔ نیز امام جواد علیہ السلام نے اپنی زیارت کے دوران امام رضا علیہ السلام کو امام رؤف کہہ کر مخاطب کیا۔  <ref>مجلسی، بہار الانوار، ج 99، ص 55</ref>
روایت کی گئی ہے کہ امام کاظم علیہ السلام اپنے بچوں سے فرمایا کرتے تھے: تمہارا بھائی علی بن موسی آل محمد کا عالم ہے۔ نیز امام جواد علیہ السلام نے اپنی زیارت کے دوران امام رضا علیہ السلام کو امام رؤف کہہ کر مخاطب کیا۔  <ref>مجلسی، بہار الانوار، ج 99، ص 55</ref>
امام رؤف کا لقب شیعوں میں بہت مشہور ہے
امام رؤف کا لقب شیعوں میں بہت مشہور ہے
== پیدائش ==
== پیدائش ==
آپ کا یوم ولادت جمعرات یا جمعہ 11 ذی القعدہ، یا ذی الحجہ، یا ربیع الاول 148 یا 153 ہجری کو ہے۔  کلینی اور اکثر علماء اور مورخین  ک<ref>لینی، الکافی، 1363، جلد 1، صفحہ 486</ref>  نے ان کی پیدائش کا سال 148 ہجری بتایا ہے۔
آپ کا یوم ولادت جمعرات یا جمعہ 11 ذی القعدہ، یا ذی الحجہ، یا ربیع الاول 148 یا 153 ہجری کو ہے۔  کلینی اور اکثر علماء اور مورخین  ک<ref>لینی، الکافی، 1363، جلد 1، صفحہ 486</ref>  نے ان کی پیدائش کا سال 148 ہجری بتایا ہے۔
سطر 13: سطر 32:
ایک روایت میں آیا ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی والدہ نجمہ نامی ایک پاکیزہ اور پرہیزگار خادمہ تھیں، جنہیں امام کاظم علیہ السلام کی والدہ حمیدہ نے خرید کر اپنے بیٹے کو دیا تھا، اور حضرت کی ولادت کے بعد رضا علیہ السلام کا نام طاہرہ رکھا گیا۔<ref>صدوق، ایون اخبار الرضا، 1378ھ، جلد 1، صفحہ 16</ref>
ایک روایت میں آیا ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی والدہ نجمہ نامی ایک پاکیزہ اور پرہیزگار خادمہ تھیں، جنہیں امام کاظم علیہ السلام کی والدہ حمیدہ نے خرید کر اپنے بیٹے کو دیا تھا، اور حضرت کی ولادت کے بعد رضا علیہ السلام کا نام طاہرہ رکھا گیا۔<ref>صدوق، ایون اخبار الرضا، 1378ھ، جلد 1، صفحہ 16</ref>
== میاں بیوی اور بچے ==
== میاں بیوی اور بچے ==
امام رضا علیہ السلام کی اہلیہ کا نام سبیکا تھا، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ماریہ قبطیہ کے خاندان سے پیغمبر اکرم (ص) کی زوجہ تھیں۔ بعض تاریخی منابع میں امام رضا  کے لیے ایک اور بیوی کا بھی ذکر ملتا ہے: مامون نے امام رضا کو اپنی بیٹی "ام حبیبہ" یا "ام حبیبہ" سے شادی کی تجویز پیش کی اور امام نے قبول کر لی۔ طبری نے 202 ہجری کے واقعات میں اس شادی کا ذکر کیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ مامون کا مقصد امام رضا علیہ السلام کے قریب جانا اور ان کے گھر میں گھس کر ان کے منصوبوں کے بارے میں جاننا تھا۔  سیوطی نے امام رضا علیہ السلام کے ساتھ مامون کی بیٹی کی شادی کا بھی ذکر کیا ہے۔ لیکن اس نے اس لڑکی کا نام نہیں بتایا۔  <ref>یافی، مرایا الجنان، 1417ھ، جلد 2، صفحہ 10</ref>
امام رضا علیہ السلام کی اہلیہ کا نام سبیکا تھا، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ماریہ قبطیہ کے خاندان سے [[پیغمبر اکرم]] (ص) کی زوجہ تھیں۔ بعض تاریخی منابع میں امام رضا  کے لیے ایک اور بیوی کا بھی ذکر ملتا ہے: مامون نے امام رضا کو اپنی بیٹی "ام حبیبہ" یا "ام حبیبہ" سے شادی کی تجویز پیش کی اور امام نے قبول کر لی۔ طبری نے 202 ہجری کے واقعات میں اس شادی کا ذکر کیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ مامون کا مقصد امام رضا علیہ السلام کے قریب جانا اور ان کے گھر میں گھس کر ان کے منصوبوں کے بارے میں جاننا تھا۔  سیوطی نے امام رضا علیہ السلام کے ساتھ مامون کی بیٹی کی شادی کا بھی ذکر کیا ہے۔ لیکن اس نے اس لڑکی کا نام نہیں بتایا۔  <ref>یافی، مرایا الجنان، 1417ھ، جلد 2، صفحہ 10</ref>


امام رضا علیہ السلام کی اولاد کی تعداد اور ناموں میں اختلاف ہے۔ شیخ مفید اپنے لیے محمد بن علی کے علاوہ کوئی اولاد نہیں جانتے۔ ابن شہراشوب اور طبرسی بھی اسی رائے کے ہیں۔بعض نے ان کے لیے فاطمہ نامی لڑکی کا ذکر کیا ہے۔  بعض نے ان کی اولاد کو پانچ بیٹے اور ایک بیٹی لکھا ہے، جن کے نام محمد قانی، حسن، جعفر، ابراہیم، حسین اور عائشہ ہیں۔ سبط بن جوزی نے نام لیے بغیر چار بیٹوں کا ذکر کیا جن کا نام محمد (ابو جعفر ثانی)، جعفر، ابو محمد حسن، ابراہیم اور ایک بیٹی ہے۔  <ref>فضل اللہ، امام رضا علیہ السلام کی زندگی کا تجزیہ، 1377، ص 44</ref> کہا جاتا ہے کہ اس پیغمبر کا ایک بچہ جس کی عمر دو سال یا اس سے کم تھی قزوین میں دفن ہوئی اور کہا جاتا ہے کہ قزوین کے امام زادہ حسین بھی وہی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق امام نے 1933 میں اس شہر کا سفر کیا۔  <ref>ابن جوزی کا قبیلہ، تذکرہ الخواص، الشریف الرازی کا منشور، ص 123</ref>
امام رضا علیہ السلام کی اولاد کی تعداد اور ناموں میں اختلاف ہے۔ [[شیخ مفید]] اپنے لیے محمد بن علی کے علاوہ کوئی اولاد نہیں جانتے۔ ابن شہراشوب اور طبرسی بھی اسی رائے کے ہیں۔بعض نے ان کے لیے فاطمہ نامی لڑکی کا ذکر کیا ہے۔  بعض نے ان کی اولاد کو پانچ بیٹے اور ایک بیٹی لکھا ہے، جن کے نام محمد قانی، حسن، جعفر، ابراہیم، حسین اور عائشہ ہیں۔ سبط بن جوزی نے نام لیے بغیر چار بیٹوں کا ذکر کیا جن کا نام محمد (ابو جعفر ثانی)، جعفر، ابو محمد حسن، ابراہیم اور ایک بیٹی ہے۔  <ref>فضل اللہ، امام رضا علیہ السلام کی زندگی کا تجزیہ، 1377، ص 44</ref> کہا جاتا ہے کہ اس پیغمبر کا ایک بچہ جس کی عمر دو سال یا اس سے کم تھی قزوین میں دفن ہوئی اور کہا جاتا ہے کہ قزوین کے امام زادہ حسین بھی وہی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق امام نے 1933 میں اس شہر کا سفر کیا۔  <ref>ابن جوزی کا قبیلہ، تذکرہ الخواص، الشریف الرازی کا منشور، ص 123</ref>


اپنے والد امام کاظم (ع) کی شہادت کے بعد امام رضا (ع) نے 183 ہجری میں امامت سنبھالی۔ ان کی امامت کی مدت 20 سال تھی، جو ہارون الرشید ، محمد امین اور مامون  کی خلافت کے ساتھ موافق تھی۔
اپنے والد امام کاظم (ع) کی شہادت کے بعد امام رضا (ع) نے 183 ہجری میں امامت سنبھالی۔ ان کی امامت کی مدت 20 سال تھی، جو ہارون الرشید ، محمد امین اور مامون  کی خلافت کے ساتھ موافق تھی۔
سطر 62: سطر 81:


== اہل سنت کے ساتھ موقف ==
== اہل سنت کے ساتھ موقف ==
بعض اہل سنت بزرگوں نے اپنی تقاریر میں امام رضا کے نسب، علم اور فضل کی تعریف کی اور امام رضا کے مزار پر حاضری دی۔ تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں اہل سنت کے محدث ابن حبان کہتے ہیں کہ وہ مشہد میں علی ابن موسی ٰ کی قبر کی زیارت کے لیے گئے تھے اور ان سے اپیل کرنے سے ان کے کچھ مسائل حل ہو گئے تھے۔ ابن حجر عسقلانی نے روایت کیا ہے کہ تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں اہل سنت کے فقیہ، مفسر اور محدث ابوبکر محمد بن خزیمہ اور ابو علی ثقفی دوسرے اہل سنت کے ساتھ امام رضا علیہ السلام کی قبر کی زیارت کے لیے گئے۔ اس قصے کے راوی (جو انہوں نے خود ابن حجر سے روایت کی ہے) کہتے ہیں کہ ابو بکر بن خزیمہ اس قبر کا اتنا احترام کرتے تھے اور اس کے سامنے عاجزی اور ماتم کرتے تھے کہ ہم حیران رہ گئے۔ ابن نجار نے سائنس اور دین میں امام کے مقام کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا: وہ سائنس اور دین میں ایسا مقام رکھتے تھے کہ جب وہ بیس سال کے تھے تو انہوں نے مسجد النبی میں فتوے دیئے۔ <ref>عسقلانی، تہذیب التہذیب، دار الصدر، ج7، ص388</ref>
== شہادت ==
حضرت علی بن موسی کی شہادت جمعہ یا پیر کو ماہ صفر کے آخر میں، 17 صفر یا 21 رمضان، یا 18 جمادی الاولی، یا 23 ذی القعدہ یا اس کے اختتام پر 2022، 203 یا 206 میں بیان کی جاتی ہے۔ علینی کی وفات صفر کے مہینے میں سنہ 203 ہجری قمری میں ہوئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ۵۵ سال کی عمر میں۔ امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے سال 203 ہجری کے اکثر علماء اور مورخین کے مطابق۔ یہ ہو چکا ہے.  <ref>کلینی، الکافی، 1363، جلد 1، صفحہ 486</ref>  طبرسی نے ماہ صفر کے آخر میں شہادت کے دن کو بیان کیا ہے۔
علی بن موسیٰ کی زندگی کے سالوں کی تعداد میں ان کی تاریخ پیدائش اور شہادت میں فرق کی وجہ سے 47 سال سے 57 سال تک کہا گیا ہے۔ تاریخ ولادت کے مشہور قول کے مطابق شہادت کے وقت امام رضا علیہ السلام کی عمر 55 سال تھی۔ امام رضا(ع) کی شہادت کے بارے میں بھی مختلف اقوال نقل ہوئے ہیں:
یقدی کی تاریخ میں مامون نے 202 ہجری قمری میں عراق میں مرو کو چھوڑ دیا اور ان کے ساتھ ان کے ولی عہد رضا(ع) اور ان کے وزیر فضل بن سہل الضول الریاستان بھی تھے۔ جب وہ طوس پہنچے تو امام رضا(ع) کی وفات یکم سنہ 203 ہجری قمری کو نقان نامی گاؤں میں ہوئی اور ان کی بیماری تین دن سے زیادہ نہیں تھی اور کہا جاتا ہے کہ علی بن ہشام نے انہیں زہریلا انار دیا اور مامون نے انہیں مشکل وقت دکھایا۔ یعقوبی نے مزید کہا: اس نے مجھے ابوالحسن بن ابی عباد کی خبر دی اور کہا کہ میں نے مامون کو ایک سفید فام قبیلہ لیتے ہوئے دیکھا اور رضا سربریح کے جنازے میں دونوں قیوم کی لاشوں کے درمیان چل کر کہا: یا ابا الحسن تمہارے بعد خوش ہو جائے گا؟
اور وہ تین دن تک اپنی قبر کے پاس رہا اور ہر روز اس کے لیے ایک روٹی اور تھوڑا سا نمک لے کر آیا اور اس کا کھانا بھی وہی تھا اور پھر وہ چوتھے دن واپس آیا۔ شیخ مفید بیان کرتے ہیں کہ مامون نے عبداللہ بن بشیر کو حکم دیا کہ وہ اپنے ناخن معمول سے زیادہ لمبے نہ کریں اور پھر اپنے ہاتھوں سے آٹے میں ہندوستانی ترش جیسی چیز چھڑک دیں۔ اس کے بعد مامون امام رضا(ع) کے پاس گئے اور عبداللہ کو بلایا اور ان سے کہا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے انار کا رس لیں اور پھر اسے امام رضا(ع) کے پاس پئیں اور اس سے دو دن بعد امام رضا(ع) کی بے حرمتی ہوئی۔  <ref>یغوئی، یغوئی تاریخ، 1999ء، ج2، ص471</ref>
امام رضا(ع) کی شہادت کے بعد مامون نے انہیں ثناء آباد کے گاؤں میں حامد بن قحبہ طائی کے گھر میں دفن کیا۔ آج، رضوی کا مزار ایران اور مشہد شہر میں واقع ہے، اور ہر سال یہ مختلف ممالک کے لاکھوں مسلمانوں کا مزار ہے. <ref>مفید، الرشاد، ۱۹۹۳ء، ج۲، ص۲۷۱</ref>
== مشہد مقدس؛ مزاحمتی محاذ کے سرگرم رہنماؤں اور مجاہد علمائے کرام کا 9واں اجلاس منعقد ==
[[ ایران|انقلابِ اسلامی ایران]] نے فلسطینیوں کے جسم میں ایک نئی روح پھونکی اور مسئلہ قدس کو زندہ کیا، مقررین
مزاحمتی گروہوں کے سرگرم رہنماؤں اور مجاہد علمائے کرام کا 9 واں سالانہ اجلاس، حضرت امام علی رضا علیہ السّلام کے حرم میں منعقد ہوا، جس میں [[فلسطین]] اور [[لبنان]] کے علماء، مجاہدین اور مختلف مزاحمتی گروہوں کے سربراہان نے شرکت کی۔
فلسطین اور لبنان کے علماء، قائدین اور مجاہدین [[سید روح اللہ موسوی خمینی|امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ]] کی برسی میں شرکت کرنے آئے تھے، تاہم انہوں نے امام رضا علیہ السلام کے حرم مطہر میں حاضری دی اور آنحضرت کی زیارت سے مشرف ہوئے اور [[سید ابراہیم رئیسی|شہید آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی]] کی قبر پر نیز حاضر ہوئے اور انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔
اس موقع پر مجمع علماء کونسل لبنان کے رکن شیخ حسن قاسم نے اپنی گفتگو کا آغاز سورۂ مبارکۂ یوسف سے کیا اور کہا کہ بھائی چارہ اور اخوت، امت اسلامیہ کا شعار ہے، لیکن آج اسلامی ممالک کے بعض سربراہان دشمن کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں اور مجبوری میں ایسے ایسے بیانات دے رہے ہیں کہ ان کے بیانات میں نہ کوئی دکھ ہے، نہ کوئی درد اور نہ ہی بھائی چارگی دکھائی دے رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کے سلسلے میں اسلامی ممالک کا طریقہء کار جناب یوسف کے بھائیوں کے طریقہء کار سے ملتا جلتا ہے کہ وہ ظاہراً ہمارے ساتھ ہیں اور باطن میں وہ دشمن کا کھلم کھلا ساتھ دے رہے ہیں اور ان کی یہ منافقانہ پالیسی تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ باقی رہے گی اور اسے فراموش نہیں کیا جائے گا۔
[[بیت المقدس]] کی آزادی کے عظیم مقصد کے دفاع میں مجاہدوں کی کارکردگی اور ان کی ولولہ انگیز قیادت دشمن کے مقابلہ میں ناقابلِ تردید ہے اور مزاحمتی محاذ کے مجاہدوں کی شہادت ان کی کارکردگی کا بولتا ہوا ثبوت ہے۔
فلسطینی مزاحمتی گروہ کے نمائندے نے امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو زبردست الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کوششوں کے شکر گزار ہیں، کیونکہ انہوں نے قدس شریف کی حمایت اور اس کی آزادی کے لئے اعلان کیا اور نہ صرف اعلان کیا، بلکہ قدس کی آزادی کے لئے مکمل کوشش بھی کرتے رہے اور یہ عمل امام خمینی نے اس وقت انجام دیا، جب ہر کوئی بیت المقدس پر قبضے کو اپنا معمول سمجھتا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت انقلابِ اسلامی نے فلسطینیوں کے جسم میں ایک نئی روح پھونکی اور مسئلہ قدس کو زندہ کیا۔
فلسطینی مزاحمتی تحریک کے نمائندہ نے [[ قاسم سلیمانی|شہید سردار قاسم سلیمانی]] کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی مسلسل کوشش، غاصب [[اسرائیل]] کو تباہ کرنے کے لئے تھی اور ہم شہید جمہور آیت اللہ رئیسی و [[حسین امیر عبداللہیان|شہید امیر عبد اللہیان]] کہ جو حقیقی وزیر خارجہ تھے اور مزاحمت و مقاومت کے ساتھ فلسطینیوں کے لئے ہمیشہ کھڑے رہتے تھے۔ ہم ان کے جذبے کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔
اجلاس میں حرم مطہر رضوی کے ادارۂ برائے غیر ملکی زائرین کے سربراہ حجت الاسلام ڈاکٹر ذوالفقار نے تمام مہمانوں کو خؤش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ اگر چہ بعض ممالک غاصب صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے خواہاں ہیں اور بعض ممالک معمول پر لا چکے ہیں اور یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ انہیں پیش رفت ہوئی ہے، لیکن طوفان الاقصٰی نے ان کے غلط ارادوں کو تہہ و بالا کر دیا اور نتیجتاً اپنی آزادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمنوں کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملا دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ طوفان الاقصٰی کے بعد آنے والے نتائج سے یہ بات سب پر واضح ہوئی کہ دنیا کے تمام آزادی پسند انسانوں کے دل غزہ کی مظلوم عوام کے ساتھ ہیں۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مزاحمتی محاذ کے سرگرم رہنماؤں اور سربراہان سمیت مجاہدین کے نویں اجلاس کی افتتاحی تقریب آج دمشق میں منعقد ہوگی، جس میں مزاحمتی محاذ کی اہم شخصیات شریک ہوں گی <ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/399576/%D8%A7%D9%86%D9%82%D9%84%D8%A7%D8%A8-%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D9%81%D9%84%D8%B3%D8%B7%DB%8C%D9%86%DB%8C%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%AC%D8%B3%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%B1%D9%88%D8%AD-%D9%BE%DA%BE%D9%88%D9%86%DA%A9%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1 مشہد مقدس؛ مزاحمتی محاذ کے سرگرم رہنماؤں اور مجاہد علمائے کرام کا 9واں اجلاس منعقد:انقلابِ اسلامی نے فلسطینیوں کے جسم میں ایک نئی روح پھونکی اور مسئلہ قدس کو زندہ کیا، مقررین]- ur.hawzahnews.com- شائع شدہ از:7 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ:13 جون 2024ء۔</ref>۔


== حواله جات ==
== حواله جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
[[fa:علی بن موسی بن جعفر]]
[[زمرہ: شیعہ آئمہ]]
[[زمرہ: شیعہ آئمہ]]
[[زمرہ: چودہ معصومین ]]
[[زمرہ:اہل بیت ]]
confirmed
2,777

ترامیم