"محمد امین شہیدی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(2 صارفین 3 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 19: سطر 19:
}}
}}


'''محمد امین شہدی''' امت واحدہ کا سربراہ، [[مجلس وحدت المسلمین پاکستان]] کا سابقہ نائب صدر، اتحاد بین المسلمین کا داعی، مشہور مناظر اور سیاسی و اجتماعی مسائل کا  تجزیہ کار ہیں۔
'''محمد امین شہیدی''' امت واحدہ کا سربراہ، [[مجلس وحدت المسلمین پاکستان]] کا سابقہ نائب صدر، اتحاد بین المسلمین کا داعی، مشہور مناظر اور سیاسی و اجتماعی مسائل کا  تجزیہ کار ہیں۔
== سوانح عمری ==
== سوانح عمری ==
شیخ محمد امین شہدی کاشغری 1966ء کو گلگت میں پیدا ہوئے اور آپ کے والد کا نام محمد یوسف ہے۔ آپ کے دادا احمد خان کشمیر سے یارقند، کاشغر گئے کچھ عرصے کے بعد ان کے صاحب زادے محمد یوسف گلگت تشریف لے آئے۔
شیخ محمد امین شہدی کاشغری 1966ء کو گلگت میں پیدا ہوئے اور آپ کے والد کا نام محمد یوسف ہے۔ آپ کے دادا احمد خان کشمیر سے یارقند، کاشغر گئے کچھ عرصے کے بعد ان کے صاحب زادے محمد یوسف گلگت تشریف لے آئے۔
سطر 89: سطر 89:


آپ جیسی ہمہ جہت شخصیت تاریخ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ اگرچہ دشمنوں نے آپ کو بہیمانہ طریقہ سے قتل کیا لیکن آپ کی شہادت نے ایرانی، عراقی، شامی، لبنانی، یمنی، فلسطینی، بحرینی، حجازی، پاکستانی اور افغان عوام کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر جدوجہد اور استعمار ستیزی کے جذبہ کو مزید فروغ دیا۔ ان کی شخصیت تمام مظلوم انسانوں کو تاریکی سے نکالنے اور معاشرتی ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے بہترین نمونہ عمل ہے۔ وہ ایک فرد نہیں، اپنی ذات میں جامع شخصیت تھے۔ ان کی زندگی کے ہر پہلو پر غور و فکر، مطالعہ اور تحقیق کے ساتھ اسے نئی نسل تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو پتہ چلنا چاہیے کہ آلِ محمؐد کی تعلیمات پر عمل کے نتیجہ میں شہید جنرل قاسم سلیمانی جیسے مجاہدین جنم لیتے ہیں جو دنیا کی تمام ظالم اور سرکش حکومتوں اور طاقتوں کو ذلیل و خوار کرنے کے بعد عوام کو ان کے سامنے کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ شہید حاج قاسم اس حوالہ سے انسانی معاشرہ کے عظیم ہیرو ہیں <ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1913977/%D8%B4%DB%81%DB%8C%D8%AF-%D9%82%D8%A7%D8%B3%D9%85-%D8%B3%D9%84%DB%8C%D9%85%D8%A7%D9%86%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%B4%DB%81%D8%A7%D8%AF%D8%AA-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D8%AA%D9%85-%D8%AF%DB%8C%D8%AF%DB%81-%D8%A7%D9%82%D9%88%D8%A7%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%D8%AF%D9%88%D8%AC%DB%81%D8%AF-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D8%B9%D9%85%D8%A7%D8%B1 شہید قاسم سلیمانی کی شہادت نے ستم دیدہ اقوام میں جدوجہد اور استعمار ستیزی کے جذبہ کو مزید فروغ دیا]-ur.mehrnews.com-شائع شدہ از:3جنوری 2023ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:1مئی 2024ء۔</ref>۔
آپ جیسی ہمہ جہت شخصیت تاریخ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ اگرچہ دشمنوں نے آپ کو بہیمانہ طریقہ سے قتل کیا لیکن آپ کی شہادت نے ایرانی، عراقی، شامی، لبنانی، یمنی، فلسطینی، بحرینی، حجازی، پاکستانی اور افغان عوام کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر جدوجہد اور استعمار ستیزی کے جذبہ کو مزید فروغ دیا۔ ان کی شخصیت تمام مظلوم انسانوں کو تاریکی سے نکالنے اور معاشرتی ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے بہترین نمونہ عمل ہے۔ وہ ایک فرد نہیں، اپنی ذات میں جامع شخصیت تھے۔ ان کی زندگی کے ہر پہلو پر غور و فکر، مطالعہ اور تحقیق کے ساتھ اسے نئی نسل تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو پتہ چلنا چاہیے کہ آلِ محمؐد کی تعلیمات پر عمل کے نتیجہ میں شہید جنرل قاسم سلیمانی جیسے مجاہدین جنم لیتے ہیں جو دنیا کی تمام ظالم اور سرکش حکومتوں اور طاقتوں کو ذلیل و خوار کرنے کے بعد عوام کو ان کے سامنے کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ شہید حاج قاسم اس حوالہ سے انسانی معاشرہ کے عظیم ہیرو ہیں <ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1913977/%D8%B4%DB%81%DB%8C%D8%AF-%D9%82%D8%A7%D8%B3%D9%85-%D8%B3%D9%84%DB%8C%D9%85%D8%A7%D9%86%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%B4%DB%81%D8%A7%D8%AF%D8%AA-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D8%AA%D9%85-%D8%AF%DB%8C%D8%AF%DB%81-%D8%A7%D9%82%D9%88%D8%A7%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%D8%AF%D9%88%D8%AC%DB%81%D8%AF-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D8%B9%D9%85%D8%A7%D8%B1 شہید قاسم سلیمانی کی شہادت نے ستم دیدہ اقوام میں جدوجہد اور استعمار ستیزی کے جذبہ کو مزید فروغ دیا]-ur.mehrnews.com-شائع شدہ از:3جنوری 2023ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:1مئی 2024ء۔</ref>۔
== مغربی دنیا کا فلسطین کی حمایت میں قیام مذہبی نہیں،بلکہ نظریاتی ہے ==
امت  واحدہ پاکستان کے سربراہ نے '''یومِ نکبہ''' کے حوالے سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ مغربی دنیا کا فلسطین کی حمایت میں قیام مذہبی نہیں، بلکہ نظریاتی ہے۔ یہ قیام اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہے، جس کی بنیاد غیر منصفانہ پالیسیز پر رکھی گئی ہے۔
محمد امین شہیدی نے یومِ نکبہ کے حوالہ سے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ میڈیا کی آزادی نے بالعموم اقوامِ عالم اور بالخصوص نوجوان نسل میں فکری و نظریاتی تبدیلی کو جنم دیا ہے۔ فلسطین کے مسئلہ پر مغربی اقدار اور حکمرانوں کے طرزِ عمل میں واضح ٹکراؤ نے وہاں کے عوام کو حق کی شناخت کا شعور بخشا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مغرب کی نصابی کتب میں پڑھائی جانے والی اخلاقی اقدار کے برخلاف مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و بربریت کی کوئی توجیہ پیش نہیں کی جا سکتی۔ غزہ میں گزشتہ سات ماہ سے ہونے والی حیوانیت اور انسان سوزی شرمناک ہے۔ اسی لئے آج کے میڈیا سے استفادہ کرتے ہوئے [[اسرائیل]] اور اس کے حمایتی ممالک کے مظالم دیکھنے کے بعد مغربی نوجوانوں کے اذہان میں سوال اٹھنا شروع ہوا کہ ان کے حکمرانوں کا طرزِ عمل، نصاب میں شامل اخلاقی اقدار سے مختلف کیوں ہے؟ نتیجتًا یہ لوگ اس درندگی اور بربریت کے خلاف میدانِ عمل میں اترے ہیں۔
شہیدی نے مزید کہا : کہ مغربی دنیا کا فلسطین کی حمایت میں قیام مذہبی نہیں، نظریاتی ہے۔  یہ قیام اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہے جس کی بنیاد غیر منصفانہ پالیسیز پر رکھی گئی ہے۔ اہلِ مغرب کی بیداری اِس چیز کی علامت ہے کہ جب انسان کا شعور بلند ہوتا ہے تو پھر اسے کسی ہادی کے بغیر بھی سچائی کا راستہ نظر آتا ہے۔ [[علی ابن ابی طالب|امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ الصلوۃ والسلام]] نے [[نہج البلاغہ]] میں فرمایا کہ اللہ تعالی نے [[انبیاء علیہم السلام]] کو مقروض کیا ہے۔ کیوں؟  کیونکہ انسان کی ہدایت کے لئے ایک نبی باہر اور دوسرا نبی اُس کے اندر موجود ہوتا ہے۔ باہر والے نبی کو خداوند متعال مبعوث فرماتا ہے تاکہ وہ انسان کے اندر موجود باطنی نبی کو بیدار کرے۔ باطنی نبی سے مراد  [[فطرتِ سلیم]] ہے جسے  ہم ضمیر کہتے ہیں۔ اگر ضمیر جاگا ہوا ہو اور انسان خدا کو قبول نہ بھی کرے، تب بھی وہ ضمیر کی آواز کی مخالفت نہیں کر سکتا۔ غزہ کی جنگ نے اسی شعور میں اضافہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا: کہ  کہ [[سید علی خامنہ ای|حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای]] نے ابتدا میں ایک جملہ کہا تھا کہ غزہ کی جنگ حق اور باطل کے درمیان وہ لکیر ہے جو اس بات کی وضاحت اور تصدیق کرے گی کہ [[حسن بن علی|امام مہدی آخر الزماں عجل اللہ فرج]] کی سپاہ اور ان کے مقابلہ میں کون لوگ ہوں گے۔  ہم  شیعہ سنی دونوں روایات میں پڑھتے ہیں کہ امام زماں علیہ الصلوۃ والسلام کے ظہور کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام تشریف لائیں گے<ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/398904/%D9%85%D8%BA%D8%B1%D8%A8%DB%8C-%D8%AF%D9%86%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D9%81%D9%84%D8%B3%D8%B7%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%AD%D9%85%D8%A7%DB%8C%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%82%DB%8C%D8%A7%D9%85-%D9%85%D8%B0%DB%81%D8%A8%DB%8C-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%D9%84%DA%A9%DB%81-%D9%86%D8%B8%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C مغربی دنیا کا فلسطین کی حمایت میں قیام مذہبی نہیں،بلکہ نظریاتی ہے: علامہ امین شہیدی]-ur.hawzahnews.com-شائع شدہ از: 16 مئی 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 17 مئی 2024ء۔</ref>۔
== امام خمینیؒ کاہدف معاشرہ کو [[قرآن]] و [[اہل بیت|اہل بیتؑ]] کے دیے ہوئےمعارف کی روشنی میں چلانا تھا ==
[[سید روح اللہ موسوی خمینی|امام  خمینیؒ]] کاہدف معاشرہ کو قرآن و اہل بیتؑ کے دیے ہوئےمعارف کی روشنی میں چلانا تھا۔
امت واحدہ پاکستان کے سربراہ امام خمینیؒ کے انقلاب کو پہچاننے کے لئے ان اہداف اور نعروں کا جائزہ لینا ضروری ہے جن کے ساتھ وہ میدان میں اترے۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے بانی انقلاب اسلامی ایران، سید روح اللہ خمینی رحمة اللہ علیہ کی برسی کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ امام خمینیؒ کے انقلاب کو پہچاننے کے لئے ان اہداف اور نعروں کا جائزہ لینا ضروری ہے جن کے ساتھ وہ میدان میں اترے۔ ان میں سے ایک '''لا شرقیہ و لا غربیہ، جمہوریہ اسلامیہ'''، دوسرا مستضعفین کا دفاع، تیسرا مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونا اور ظالم کی مخالفت میں اپنی قوت کا اظہار، چوتھا اپنے معاشرہ کو ظلم اور استبدادی نظام سے آزادی دلا کر اس معاشرہ کو [[اسلام]]، قرآن اور اہل بیت علیہم السلام کے دیے ہوئے معارف کی روشنی میں چلانا اور ایک ایسا نظام متعارف کرانا جو دنیا پر حاکم سرمایہ دارانہ نظام کے مقابل کھڑا ہو سکے۔
ان اہداف اور نعروں کے پس منظر میں وہ حالات تھے جس میں ایک تاریخی اور نظریاتی قوم، شہنشاہ ایران جیسے ایک مغربی غلام کے جوتوں تلے پس کر رہ گئی تھی۔ ایسی قوم جسے اپنی حیثیت، آبرو اور روشن ماضی ختم ہوتا ہوا نظر آئے تو یقینا اس کے لوگ صف آرا ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف امام خمینیؒ خود ایک اسلامی محقق تھے، لہذا وہ اپنی قوم کو بھی اپنی آئیڈیالوجی اور فکر کے مطابق منزل مراد تک پہنچانا چاہتے تھے جو کہ اسلام کا منشا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینیؒ نے یہ نعرے دیے لیکن ان کی حدود کا تعین نہیں کیا بلکہ یہ فرمایا کہ جب تک آخری ظالم موجود ہے، ہماری جنگ جاری ہے۔
انقلاب اسلامی کے اوائل میں اس بات کے خلاف خوب پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہ انقلاب برآمد کیا جائے گا۔ اس سے یہ مراد لی گئی کہ [[ایران]] دنیا پر حملہ کرے گا۔ لیکن آج ہم سب ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ ”لا شرقیہ و لا غربیہ“ کی فکر پوری دنیا میں اپنی حقانیت ثابت کر کے برآمد ہو چکی ہے۔  یعنی یہ کہ ایسی بیداری جس سے انسانوں کے اندر انسانیت پیدا کرنا، ہر کمزور قوم کو یقین دلانا کہ تم کمزور نہیں ہو بلکہ تمہیں کمزور ہونے کی غلط فہمی کا شکار کر دیا گیا ہے۔
انسان میں جب یہ شعور بیدار ہو جائے تو اسے اپنی طاقت کا احساس ہوتا ہے اور وہ بڑے بڑوں سے بھڑ جاتا ہے۔ لیکن جب اسے اپنی طاقت کا احساس نہ ہو تو پھر وہ کمزور سے بھی ڈرنے لگتا ہے۔ یہ وہی شعور ہے جو اولا [[حسین بن علی|امام حسین علیہ السلام]] سے تمام انسانیت کو برآمد ہوا۔ آج [[غزہ]] کی حمایت میں حتی مسیحی، ایتھسٹ اور یہودی بھی سڑکوں پہ نکلے ہیں، تو کیا یہ وہی احساس اور شعور نہیں ہے کہ سب مل کر ظالم نظام کے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں۔
ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ امریکہ، کینیڈا اور یورپ کی بڑی بڑی جامعات کے اندر وہ بچیاں جو حجاب کی رعایت نہیں کرتیں لیکن ظلم کے نظام کے مقابلہ میں کھڑی ہو گئی ہیں۔ پولیس کے بوٹ کی ضربیں کھانے کے باوجود کہتی ہیں کہ ہم [[فلسطین]] کے ساتھ ہیں۔ کیا یہ وہی شعور نہیں ہے جو اس وقت یمن جیسی کمزور قوم جس کا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے، جب وہ امریکہ و اسرائیل کو للکارتی ہے اور باب المندب اور خلیج کے مختلف علاقوں میں اسرائیل کی مدد کے لیے آنے والے جہازوں کو غرق کرتی ہے۔
کیا یہ وہی امام خمینیؒ کا دیا ہوا شعور نہیں ہے کہ اب صرف ایرانی قوم نہیں بلکہ دنیا بھر میں موجود انسانوں کے اندر یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ ہم کمزور نہیں ہیں، ہم دشمن کو اپنی سرزمین سے پاک کر سکتے ہیں۔ حزب اللہ جیسی چھوٹی سی جماعت [[اسرائیل]]، امریکہ اور یورپ کے مقابلہ میں ڈٹی ہوئی ہے اور اسرائیل کو نکیل ڈال رکھی ہے۔ کیا یہ وہی شعور نہیں ہے کہ لبنان کی چھوٹی سی آبادی کے اندر ایک چھوٹا سا گروہ اسرائیل کی ناک میں دم کر دے جبکہ یہی اسرائیل جس نے سن 60 کی دہائی کی جنگ میں مصر، اردن اور شام کے ممالک کو چھ دن میں ناکوں چنے چبوائے تھے۔
اس وقت اہل غزہ اور حماس جس فکر و شعور کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اس نے فلسطین کے بچہ بچہ کو شعلہ ور کر دیا ہے۔ اب یہ بچے بھوکے رہتے ہیں لیکن ان کی زبان پر الموت امریکہ، الموت اسرائیل جیسے الفاظ ورد کرتے ہیں۔ ان دنوں [[سید علی خامنہ ای|آیت اللہ سید علی خامنہ ای]] کے خط کا بڑا چرچا ہے جو انہوں نے یورپ اور امریکہ کے نوجوانوں کے نام لکھا ہے۔ رہبر معظم نے اس خط کے ذریعہ لوگوں میں ایک نیا شعور پیدا کیا ہے۔ انقلاب اسلامی نے ثابت کیا ہے کہ فکر کی سرحد نہیں ہوتی۔ آج بھی امام خمینیؒ کا نعرہ زندہ ہے اور بڑی تیزی کے ساتھ مقبول ہو رہا ہے <ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1924510/%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%AE%D9%85%DB%8C%D9%86%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%DB%81%D8%AF%D9%81-%D9%85%D8%B9%D8%A7%D8%B4%D8%B1%DB%81-%DA%A9%D9%88-%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86-%D9%88-%D8%A7%DB%81%D9%84-%D8%A8%DB%8C%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%DB%8C%DB%92-%DB%81%D9%88%D8%A6%DB%92%D9%85%D8%B9%D8%A7%D8%B1%D9%81 امام خمینیؒ کاہدف معاشرہ کو قرآن و اہل بیتؑ کے دیے ہوئےمعارف کی روشنی میں چلانا تھا،علامہ امین شہیدی]-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 5 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 5 جون 2024ء۔</ref>۔
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
confirmed
2,783

ترامیم