"سید روح اللہ موسوی خمینی" کے نسخوں کے درمیان فرق

 
(2 صارفین 43 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:
{{Infobox person
{{Infobox person
| title = سید روح اللہ موسوی خمینی
| title = سید روح اللہ موسوی خمینی
| image =  سید روح الله خمینی.jpg
| image =  امام خمینی 3.jpg
| name = سید روح اللہ موسوی خمینی
| name = سید روح اللہ موسوی خمینی
| other names = امام خمینی
| other names = امام خمینی
سطر 17: سطر 17:
| known for = {{hlist|مرجع تقلید |بانی انقلاب اسلامی}}
| known for = {{hlist|مرجع تقلید |بانی انقلاب اسلامی}}
}}
}}
'''سید روح اللہ موسوی خمینی''' (1281ء تا 1368ء) جو کہ امام خمینی کے نام سے جانے جاتے ہیں، [[ ایران|اسلامی جمہوریہ ایران]] کے بانی، فقیہ، اصولی اور عصر حاضر کے شیعہ مراجع میں سے ایک تھے،آپ 20 جمادی الآخرہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اسلام]] کی پیاری بیٹی [[حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا|حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا]] کا یوم ولادت سنہ 1320 ہجری بمطابق یکم مہر 1281 ہجری اور 24 ستمبر 1902 ہجری کو پیدا ہوئے۔ آپ کے جد اعلی سید حیدر علی موسوی اردبیلی اپنے سسر میر سید علی ہمدانی کے ساتھ دین اسلام اور تشیع کی تبلیغ کے لیے آٹھویں ھجری کو ایران سے کشمیر ہجرت کی <ref>علی قادری، «خمینی روح‌الله: زندگی‌نامه امام خمینی بر اساس اسناد و خاطرات و خیال»، چاپ دوم، تهران: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)، ص78</ref>۔ ان کے دادا سید احمد دینی تعلیم حاصل کرنے نجف گئے تھے، اہل خمین کی دعوت پر ایران میں واپس آئے اور خمین میں سکونت اختیار کی <ref>ایضا، ص79</ref>۔ آپ 1902 میں خمین میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، سید مصطفی، خمین کے ممتاز علماء میں سے تھے، جو قاجار دور کے آخری سالوں کے کشیدہ سیاسی حالات میں لوگوں کے لیے پناہ گاہ اور ان کے امان کی جگہ تھے۔
'''سید روح اللہ موسوی خمینی''' (1902-1989ء) جو کہ امام خمینی کے نام سے جانے جاتے ہیں، [[ ایران|اسلامی جمہوریہ ایران]] کے بانی، فقیہ، اصولی اور عصر حاضر کے شیعہ مراجع میں سے ایک تھے،آپ 20 جمادی الآخر [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اسلام]] کی پیاری بیٹی [[حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا|حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا]] کی ولادت کے دن، 24 ستمبر 1902ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے جد اعلی سید حیدر علی موسوی اردبیلی اپنے سسر میر سید علی ہمدانی کے ساتھ دین [[اسلام]] اور تشیع کی تبلیغ کے لیے آٹھویں ھجری کو ایران سے کشمیر ہجرت کی <ref>علی قادری، «خمینی روح‌الله: زندگی‌نامه امام خمینی بر اساس اسناد و خاطرات و خیال»، چاپ دوم، تهران: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)، ص78</ref>۔ ان کے دادا سید احمد دینی تعلیم حاصل کرنے نجف گئے تھے، اہل خمین کی دعوت پر ایران میں واپس آئے اور خمین میں سکونت اختیار کی <ref>ایضا، ص79</ref>۔ ان کے والد، سید مصطفی، خمین کے ممتاز علماء میں سے تھے، جو قاجار دور کے آخری سالوں کے سیاسی کشیدہ حالات میں لوگوں کے لیے پناہ گاہ اور ان کے امان کی جگہ تھے۔
امام نے اپنے آبائی شہر میں ابتدائی تعلیم حاصل کی، پھر مذہبی کتابوں کا مطالعہ کیا اور اپنے بھائی آیت اللہ پسندیدہ سے بنیادی علوم سیکھے۔ آیت اللہ عبد الکریم حائری یزدی کے ذریعہ اراک اور پھر قم میں مدرسہ کے قیام کے ساتھ ہی آپ ان شہروں میں گئے اورفقہ واصول کے درس خارج پڑھنے کے بعد اجتہاد کی ڈگری حاصل کی اور حوزہ قم میں مدرس  منتخب ہوئے۔
امام نے اپنے آبائی شہر میں ابتدائی تعلیم حاصل کی، پھر مذہبی کتابوں کا مطالعہ کیا اور اپنے بھائی آیت اللہ پسندیدہ سے بنیادی علوم سیکھے۔ آیت اللہ عبد الکریم حائری یزدی کے ذریعہ اراک اور پھر قم میں حوزہ کے قیام کے ساتھ ہی آپ ان شہروں میں گئے اورفقہ واصول کے درس خارج پڑھنے کے بعد اجتہاد کی ڈگری حاصل کی اور حوزہ قم میں مدرس  منتخب ہوئے۔
آپ نے اپنی سیاسی جدوجہد رضا شاہ کے دور حکومت اورحجاب کے تحفظ کے دوران شروع کی۔ تیل کی صنعت کو قومیانے کے دوران انہوں نے اس کی حمایت کی اوراس کے بعد حوزہ قم کے امور کی اصلاح کی تھی۔
آپ نے اپنی سیاسی جدوجہد،  رضا شاہ کے دور حکومت اورحجاب کے تحفظ کے دوران شروع کی۔ تیل کی صنعت کو قومیانے کے دوران انہوں نے اس کی حمایت کی اوراس کے بعد حوزہ قم کے امور کی اصلاح کی تھی۔
1341 میں شاہ کے سفید انقلاب پر ریفرنڈم کرانے کے سنجیدہ فیصلے کا امام نے بائیکاٹ کیا۔ 1342 کے شروع میں [[جعفر بن محمد|امام جعفر صادق]] کی شہادت کی مناسبت سے قم میں مجالس منعقد ہوئیں۔ 2اپریل کو، حکومت نے اسی موقع پرمدرسہ فیضیہ میں منعقد ہونے والی ایک تقریب پر حملہ کیا اور علماء کو زدوکوب کیا۔ واقعہ فیضیہ کے چالیس دن بعد، انہوں نے محمد رضا شاہ کے خلاف سخت تقریر کی، جس کی وجہ سے جون 1963 میں گرفتار ہوئے۔ نومبر 1964 میں کیپٹلیشن ایکٹ کے نفاذ کے دوران، انہوں نے شاہ کے خلاف ایک اور سخت تنقیدی تقریر کی، جس کی وجہ سے انہیں گرفتار کر کے ترکی اور پھر نجف اشرف بھیج دیا گیا۔
1341 میں شاہ کے سفید انقلاب پر ریفرنڈم کرانے کے فیصلے کا امام نے بائیکاٹ کیا۔ 1342 کے شروع میں [[جعفر بن محمد|امام جعفر صادق]] کی شہادت کی مناسبت سے قم میں مجالس منعقد ہوئیں۔ 2اپریل کو، حکومت نے اسی موقع پرمدرسہ فیضیہ میں منعقد ہونے والی ایک تقریب پر حملہ کیا اور علماء کو زدوکوب کیا۔ واقعہ فیضیہ کے چالیس دن بعد، انہوں نے محمد رضا شاہ کے خلاف سخت تقریر کی، جس کی وجہ سے جون 1963 میں گرفتار ہوئے۔ نومبر 1964 میں کیپٹلیشن ایکٹ کے نفاذ کے دوران، انہوں نے شاہ کے خلاف ایک اور سخت تنقیدی تقریر کی، جس کی وجہ سے انہیں گرفتار کر کے ترکی اور پھر نجف اشرف بھیج دیا گیا۔
1977 میں ان کے بڑے بیٹے سید مصطفیٰ کو شہید کردیا گیا اورملک بھرمیں لوگوں نے پہلوی حکومت پرحملہ کرنے کے بہانے سوگ کی تقریبات منعقد کیں۔ ان مظاہروں کے پھیلاؤ نے پہلوی حکومت کو امام کو بے دخل کرنے کا فیصلہ کرنے کے لیے عراق کی بعثی حکومت کے ساتھ ہم آہنگی کرنے پرمجبورکیا۔ چنانچہ آپ نے کویت جانے کا فیصلہ کیا جسے حکومت نے روک دیا تھا۔ اس کے بعد وہ فرانس چلا گیا اورنوول لوساتو میں سکونت اختیار کی۔ ایران میں عوام کے احتجاج کا سلسلہ جاری رہنے اور شاہ کے 17 دسمبر 1978 کو ملک چھوڑنے کے بعد آپ  3 فروری 1979 کو شاندار استقبال اور لاکھوں لوگوں کے درمیان وطن واپس تشریف لائے۔
1977ء میں ان کے بڑے بیٹے سید مصطفیٰ کو شہید کردیا گیا اورملک بھرمیں لوگوں نے پہلوی حکومت پرحملہ کرنے کے بہانے سوگ کی تقریبات منعقد کیں۔ ان مظاہروں کے پھیلاؤ نے پہلوی حکومت کو امام کو بے دخل کرنے کا فیصلہ کرنے کے لیے [[عراق]] کی بعثی حکومت کے ساتھ ہم آہنگی کرنے پرمجبورکیا۔ چنانچہ آپ نے کویت جانے کا فیصلہ کیا جسے حکومت نے روک دیا تھا۔ اس کے بعد آپ فرانس چلے گئے اورنوول لوساتو میں سکونت اختیار کی۔ ایران میں عوام کے احتجاج کا سلسلہ جاری رہنے اور شاہ کے 17 دسمبر 1978 کو ملک چھوڑنے کے بعد آپ  3 فروری 1979 کو شاندار استقبال اور لاکھوں لوگوں کے درمیان وطن واپس تشریف لائے۔
امام کا انتقال 3 جون 1989 کو ہوا۔ ان کے جسد خاکی کو تہران میں بہشت زہرا میں پورے ملک کے لوگوں کے شاندار جنازے کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔
امام کا انتقال 3 جون 1989 کو ہوا۔ ان کے جسد خاکی کو تہران میں بہشت زہرا میں پورے ملک کے لوگوں کے شاندار جنازے کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔
<ref>امام خمینی، [https://ur.icro.ir/%D9%85%D8%B4%DB%81%D9%88%D8%B1-%D8%B4%D8%AE%D8%B5%DB%8C%D8%A7%D8%AA/%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%AE%D9%85%DB%8C%D9%86%DB%8C icro.ir]</ref>۔
<ref>امام خمینی، [https://ur.icro.ir/%D9%85%D8%B4%DB%81%D9%88%D8%B1-%D8%B4%D8%AE%D8%B5%DB%8C%D8%A7%D8%AA/%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%AE%D9%85%DB%8C%D9%86%DB%8C icro.ir]</ref>۔
== پہلا دور (1281 سے 1300 تک) ==
== پہلا دور (1281 سے 1300 تک) ==
=== خاندان ===
=== خاندان ===
آپ کے والد آغا مصطفٰی کا شمار علاقہ خمین کی علمی اور ممتاژ شخصیات میں ہوتا تھا۔ انہوں نے نجف اور سامرہ میں دینی علوم کی اعلیٰ تعلیم مکمل کی اور خمینی واپس آنے کے بعد [[اسلام]] کے احکام کی اشاعت کی، لوگوں کے مطالبات پر توجہ دی اور بعض ظالم حکمرانوں کے خلاف مظلوموں کی حمایت کی۔ آخر کار آپ 1281 ہجری بمطابق 12 ذوالقعدہ 1320 ہجری کے موسم سرما میں خمین اراک کی سڑک پر مقامی ظالموں کے ہاتھوں شہید ہوئے <ref>ایضا، ص88، 90 و 122</ref>۔ ان کے پاکیزہ جسم کو نجف اشرف لے جایا گیا اور [[علی ابن ابی طالب|حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام]] کے مزار پاک کے قریب دفنایا گیا۔ سید روح اللہ، جو اس وقت صرف پانچ ماہ کے تھے، بعد میں اپنے والد کی کہانی سن کر ان سے محبت کرتے تھے اور ہمیشہ ان کا ذکر کرتے تھے۔ بالغ ہونے کے بعد انہوں نے اپنا تخلص مصطفوی رکھا <ref>ایضا، ص105</ref>۔ اور جوانی میں وہ اپنی بعض تحریروں کا اختتام ابن الشہید سے کرتے تھے <ref>خاطرات آیت‌اللّه پسندیده (گفته‌ها و نوشته‌ها) - یادها، 9</ref>۔
آپ کے والد آغا مصطفٰی کا شمار علاقہ خمین کی علمی اور ممتاژ شخصیات میں ہوتا تھا۔ انہوں نے نجف اور سامرہ میں دینی علوم کی اعلیٰ تعلیم مکمل کی اور خمین واپس آنے کے بعد [[اسلام]] کے احکام کی اشاعت کی، لوگوں کے مطالبات پر توجہ دی اور بعض ظالم حکمرانوں کے خلاف مظلوموں کی حمایت کی۔ آخر کار آپ 1281 ہجری بمطابق 12 ذوالقعدہ 1320 ہجری کے موسم سرما میں خمین اراک کی سڑک پر مقامی ظالموں کے ہاتھوں شہید ہوئے <ref>ایضا، ص88، 90 و 122</ref>۔ ان کے پاکیزہ جسم کو نجف اشرف لے جایا گیا اور [[علی ابن ابی طالب|حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام]] کے مزار پاک کے قریب دفنایا گیا۔ سید روح اللہ، جو اس وقت صرف پانچ ماہ کے تھے، بعد میں اپنے والد کی کہانی سن کر ان سے محبت کرتے تھے اور ہمیشہ ان کا ذکر کرتے تھے۔ بالغ ہونے کے بعد انہوں نے اپنا تخلص مصطفوی رکھا <ref>ایضا، ص105</ref>۔ اور جوانی میں وہ اپنی بعض تحریروں کا اختتام ابن الشہید سے کرتے تھے <ref>خاطرات آیت‌اللّه پسندیده (گفته‌ها و نوشته‌ها) - یادها، 9</ref>۔


== بچپن اور جوانی ==
== بچپن اور جوانی ==
اپنے والد کے وفات کے بعد، روح اللہ کی پرورش ایک مہربان ماں (بانو ھاجر) کی گود میں ہوئی اور ایک دلسوز خالہ (صاحب خانم) اور ایک نیک دایہ کی دیکھ بھال میں ہوئی۔ آپ کا بچپن اور جوانی ایک ساتھ ایران کے سیاسی اور سماجی بحرانوں میں گزری۔ آپ اپنی زندگی کے آغاز سے ہی لوگوں کے دکھ درد اور معاشرے کے مسائل سے واقف تھے اور پینٹنگز کی شکل میں لکیریں کھینچ کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے تھے۔ دفاعی مورچہ میں اپنے خاندان اور آس پاس کے لوگوں کے ساتھ اس کی کردار سازی اور آبیاری کی گئی، اور آپ نے گھوڑا سواری، گولہ باری اور شوٹنگ کی بنیادی تربیت حاصل کی، اور آپ واقعات کا سامنا کرتے ہوئے ایک مکمل مجاہد بن گیا <ref>علی قادری، «خمینی روح‌الله: زندگی‌نامه امام خمینی بر اساس اسناد و خاطرات و خیال»، چاپ دوم، تهران: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)،، ص131</ref>۔ اس دور کے کچھ متاثر کن واقعات، جیسے مجلس پر بم دھماکے، ان کی پینٹنگز  اور خطاطی کی مشقیں ان کے بچپن اور نوجوانی میں جھلکتی ہیں۔ جس کی ایک مثال نوعمری (9-10 سال کی عمر) میں شاعر کا ایک ٹکڑا ہے جس میں ایرانی قوم کو مخاطب ہو کر کہا تھا "دینی غیرت اور قومی تحریک کہاں ہے" کے عنوان سے ہے <ref>کوثر(مجموعه سخنرانی‌های حضرت امام...)، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام... ، چاپ اول: 1371، جلد اول، ص615</ref>۔
اپنے والد کے وفات کے بعد، روح اللہ کی پرورش ایک مہربان ماں (بانو ھاجر) کی گود میں ہوئی اور ایک دلسوز خالہ (صاحب خانم) اور ایک نیک دایہ کی دیکھ بھال میں ہوئی۔ آپ کا بچپن اور جوانی ایک ساتھ ایران کے سیاسی اور سماجی بحرانوں میں گزری۔ آپ اپنی زندگی کے آغاز سے ہی لوگوں کے دکھ درد اور معاشرے کے مسائل سے واقف تھے اور پینٹنگز کی شکل میں لکیریں کھینچ کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے تھے۔ دفاعی مورچہ میں اپنے خاندان اور آس پاس کے لوگوں کے ساتھ اس کی کردار سازی اور آبیاری کی گئی، اور آپ نے گھوڑا سواری، گولہ باری اور شوٹنگ کی بنیادی تربیت حاصل کی، اور آپ واقعات کا سامنا کرتے ہوئے ایک مکمل مجاہد بن گیا <ref>علی قادری، «خمینی روح‌الله: زندگی‌نامه امام خمینی بر اساس اسناد و خاطرات و خیال»، چاپ دوم، تهران: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)،، ص131</ref>۔ اس دور کے کچھ متاثر کن واقعات، جیسے مجلس پر بم دھماکے، ان کی پینٹنگز  اور خطاطی کی مشقیں ان کے بچپن اور نوجوانی میں جھلکتی ہیں۔ جس کی ایک مثال نوعمری (9-10 سال کی عمر) میں شاعر کا ایک ٹکڑا ہے جس میں ایرانی قوم کو مخاطب ہو کر کہا تھا "دینی غیرت اور قومی تحریک کہاں ہے" کے عنوان سے ہے <ref>کوثر(مجموعه سخنرانی‌های حضرت امام...)، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام... ، چاپ اول: 1371، جلد اول، ص615</ref>۔
اہل ایران سے خطاب، اس تحریر کو آپ کے نوعمری کے پہلے سیاسی بیان کے طور پر ذکر کیا جا سکتا ہے اور ملکی مسائل کے بارے میں ان کی فکری اور نظریاتی سوچ کا مطالعہ کیا سکتا ہے۔ان کا جھکاؤ ہیروز اور جنگجوؤں کی طرف اس حد تک تھا کہ وہ جنگل کی تحریک میں مرزا کے بیان میں شاعری کے اظہار اور لکھنے کی حد سے آگے نکل گیا، اس نے جنگل کی تحریک میں شمولیت اختیار کرنا چاہی اور جب یہ ممکن نہ ہو سکا تو آپ کے پاس اس کی درخواست پر کچھ کھانے کی چیزوں کا انتظام کیا خود اور اپنے بھائی کے نام پر جنگل کو بھیجا گیا <ref>علی قادری، «خمینی روح‌الله: زندگی‌نامه امام خمینی بر اساس اسناد و خاطرات و خیال»، چاپ دوم، تهران: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)، ص232.</ref>۔ ایک دفعہ انہیں مشہد سے واپسی پر جنگل کا سفر کرنے کا موقع ملا اور مرزا کے اڈے کو قریب سے دیکھا۔
 
اہل ایران سے خطاب، اس تحریر کو آپ کے نوعمری کے پہلے سیاسی بیان کے طور پر ذکر کیا جا سکتا ہے اور ملکی مسائل کے بارے میں ان کی فکری اور نظریاتی سوچ کا مطالعہ کیا سکتا ہے۔ان کا جھکاؤ ہیروز اور جنگجوؤں کی طرف اس حد تک تھا کہ آپ جنگل کی تحریک میں مرزا کے بیان میں شاعری کے اظہار اور لکھنے کی حد سے آگے نکل گیا، اآپ نے جنگل کی تحریک میں شمولیت اختیار کرنا چاہی اور جب یہ ممکن نہ ہو سکا تو آپ کے پاس اس کی درخواست پر کچھ کھانے کی چیزوں کا انتظام کیا خود اور اپنے بھائی کے نام پر جنگل کو بھیجا گیا <ref>علی قادری، «خمینی روح‌الله: زندگی‌نامه امام خمینی بر اساس اسناد و خاطرات و خیال»، چاپ دوم، تهران: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)، ص232.</ref>۔ ایک دفعہ انہیں مشہد سے واپسی پر جنگل کا سفر کرنے کا موقع ملا اور مرزا کے اڈے کو قریب سے دیکھا۔
=== تعلیم ===
=== تعلیم ===
آپ نے بچپن ہی سے تعلیم کا آغاز کیا۔ میرزا محمود اور میرزا محمد مہدی نام کے اساتذہ ان کے گھر آئے اور انہیں پڑھایا۔ اس کے بعد انہوں نے ملا ابوالقاسم نامی ایک اور استاد سے گلستان اور بوستان سعدی کی تعلیم حاصل کی۔ پھر نئے علوم سے مستفید ہونے کے لیے اسکول گئے۔ کچھ عرصے تک آپ نے اپنے بڑے بھائی (آقا مرتضی) کے ساتھ خطاطی اور ابتدائی علوم (سیوطی، منطق اور مطول) کا درس پڑھا <ref>ایضا،ص192 و 193</ref>۔
آپ نے بچپن ہی سے تعلیم کا آغاز کیا۔ میرزا محمود اور میرزا محمد مہدی نام کے اساتذہ ان کے گھر آئے اور انہیں پڑھایا۔ اس کے بعد انہوں نے ملا ابوالقاسم نامی ایک اور استاد سے گلستان اور بوستان سعدی کی تعلیم حاصل کی۔ پھر نئے علوم سے مستفید ہونے کے لیے اسکول گئے۔ کچھ عرصے تک آپ نے اپنے بڑے بھائی (آقا مرتضی) کے ساتھ خطاطی اور ابتدائی علوم (سیوطی، منطق اور مطول) کا درس پڑھا <ref>ایضا،ص192 و 193</ref>۔
سطر 45: سطر 46:


== علمی شخصیت ==
== علمی شخصیت ==
آپ  اپنی غیر معمولی صلاحیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے علوم کے مختلف شعبوں میں تیزی سے ترقی کی، اور فقہ اور اصول کے علاوہ آپ نے فلسفہ اور عرفان کی اعلیٰ ترین سطح پر اس زمانے کے ممتاز اساتذہ جیسے (آیت اللہ حاج سید ابوالحسن رفیع قزوینی اور آیت اللہ مرزا محمد علی شاہ آبادی) سے قم میں تعلیم حاصل کی اور 6 سال کے عرصے میں آپ نے علم و عرفان کی تعلیم حاصل کی۔ سنہ 1315ھ (1355ھ) میں جب حضرت آیت اللہ حائری کی وفات ہوئی تو حاج آغا روح اللہ حوزہ علمیہ قم کی مشہور علمی شخصیات میں شمار ہوتے تھے۔
آپ  اپنی غیر معمولی صلاحیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے علوم کے مختلف شعبوں میں تیزی سے ترقی کی، اور [[فقہ]] اور اصول کے علاوہ آپ نے فلسفہ اور عرفان کی اعلیٰ ترین سطح پر اس زمانے کے ممتاز اساتذہ جیسے (آیت اللہ حاج سید ابوالحسن رفیع قزوینی اور آیت اللہ مرزا محمد علی شاہ آبادی) سے قم میں تعلیم حاصل کی اور 6 سال کے عرصے میں آپ نے علم و عرفان کی تعلیم حاصل کی۔ سنہ 1315ھ (1355ھ) میں جب حضرت آیت اللہ حائری کی وفات ہوئی تو حاج آغا روح اللہ حوزہ علمیہ قم کی مشہور علمی شخصیات میں شمار ہوتے تھے۔
=== فلسفہ کی تدریس ===
=== فلسفہ کی تدریس ===
آپ کے فلسفے کے درس 28 سال کی عمر سے پہلے 1308 (1348ھ) میں شروع ہو چکے تھے۔ اس وقت آپ مدرسہ دارالشفاء میں رہتے تھے اور ان کا شمار فلسفہ اور حکمت الہی کے عظیم استادوں میں ہوتا تھا۔ ان کے شاگردوں کا شمار حوزہ علمیہ قم کی دانشمند اور فکر انگیز شخصیات میں ہوتا تھا۔ انہوں نے خود ان کا انتخاب کیا اور باقاعدہ تحریری اور زبانی طور پر ان سے امتحان لیا۔
آپ کے فلسفے کے درس 28 سال کی عمر سے پہلے 1308 (1348ھ) میں شروع ہو چکے تھے۔ اس وقت آپ مدرسہ دارالشفاء میں رہتے تھے اور ان کا شمار فلسفہ اور حکمت الہی کے عظیم استادوں میں ہوتا تھا۔ ان کے شاگردوں کا شمار حوزہ علمیہ قم کی دانشمند اور فکر انگیز شخصیات میں ہوتا تھا۔ انہوں نے خود ان کا انتخاب کیا اور باقاعدہ تحریری اور زبانی طور پر ان سے امتحان لیا۔
سطر 55: سطر 56:
== زندگی کا تیسرا دور (1320 سے 1340 تک) ==
== زندگی کا تیسرا دور (1320 سے 1340 تک) ==
آپ کی زندگی کا یہ دور چالیس سال کی عمر میں شروع ہوتا ہے۔ ان کے عقلی اور فلسفیانہ علوم و تحقیق کے وسیع علم نے انہیں حوزہ علمیہ قم کے فلسفہ کے پہلے اساتذہ میں سے ایک بنا دیا۔ آپ مکتب [[اسلام]] پر فکری شکوک و شبہات اور اعتراضات کا جواب دیتے تھے۔ جیسا کہ آپ نے کتاب '''کشف الاسرار''' کی کتاب '''اسرار ہزار سالہ''' کے جواب میں تصنیف کی۔
آپ کی زندگی کا یہ دور چالیس سال کی عمر میں شروع ہوتا ہے۔ ان کے عقلی اور فلسفیانہ علوم و تحقیق کے وسیع علم نے انہیں حوزہ علمیہ قم کے فلسفہ کے پہلے اساتذہ میں سے ایک بنا دیا۔ آپ مکتب [[اسلام]] پر فکری شکوک و شبہات اور اعتراضات کا جواب دیتے تھے۔ جیسا کہ آپ نے کتاب '''کشف الاسرار''' کی کتاب '''اسرار ہزار سالہ''' کے جواب میں تصنیف کی۔
حوزہ علمیہ قم آیت اللہ حائری کی وفات (1315ھ) اور پہلوی حکومت کے بڑھتے ہوئے دباؤ سے مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔ 20 کی دہائی کے آغاز اور رضا خان کے زوال کے ساتھ ہی مرجع عظمی کےحصول کا راہ ہموار ہو گیا۔ آیت اللہ بروجردی ایک ممتاز علمی شخصیت تھے جو مرحوم حائری اور حوزہ کی حفاظت کے مناسب جانشین ہوسکتے تھے۔ اس تجویز پر جلد ہی آیت اللہ حائری کے طلباء بشمول امام خمینی نے عمل کیا۔ آپ نے آیت اللہ بروجردی کو قم کی طرف ہجرت کی دعوت دینے اور حوزہ کی قیادت کی اہم ذمہ داری قبول کرنے میں بھرپور کوشش کی۔ اپنے گرانقدر اہداف کے حصول کے لیے 1328ھ میں آیت اللہ مرتضی حائری کے تعاون سے مدرسہ علمیہ کے ڈھانچے پر نظر ثانی کا منصوبہ تیار کیا۔ تاہم اسے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔
 
حوزہ علمیہ قم آیت اللہ حائری کی وفات (1315ھ) اور پہلوی حکومت کے بڑھتے ہوئے دباؤ سے مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔ 20 کی دہائی کے آغاز اور رضا خان کے زوال کے ساتھ ہی مرجع عظمی کےحصول کا راہ ہموار ہو گیا۔ آیت اللہ بروجردی ایک ممتاز علمی شخصیت تھے جو مرحوم حائری اور حوزہ کی حفاظت کے مناسب جانشین ہوسکتے تھے۔ اس تجویز پر جلد ہی آیت اللہ حائری کے طلباء بشمول امام خمینی نے عمل کیا۔ آپ نے آیت اللہ بروجردی کو قم کی طرف ہجرت کی دعوت دینے اور حوزہ کی قیادت کی اہم ذمہ داری قبول کرنے میں بھرپور کوشش کی۔ اپنے گرانقدر اہداف کے حصول کے لیے 1328ھ میں آیت اللہ مرتضی حائری کے تعاون سے حوزہ علمیہ کے ڈھانچے پر نظر ثانی کا منصوبہ تیار کیا۔ تاہم اسے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔


== فقہ اور اصول کا درس خارج ==
== فقہ اور اصول کا درس خارج ==
آپ نے 44 سال کی عمر میں (1364 ہجری) میں فقہ و اصول کا تدریس شروع کیا، جو آیت اللہ بروجردی کی قم میں آمد کے موقع پر ہوا۔ ان کے درس خارج کی کچھ خصوصیات اور فوائد یہ تھے کہ ہر مسئلے کا حل اور اس کے موضوعات کی مکمل وضاحت اور نشوونما، بنیادی موضوعات کو فلسفیانہ موضوعات کے ساتھ نہ ملانا، نئے اور اختراعی نظریات پیش کرنا اور سابقہ علماء کی تقلید نہ کرنا۔ یہاں پر ان کے اساتذہ ، روایی مشایخ  کے بزرگوں اور ان کے کاموں (کورس کے شیڈول) کی فہرست دینا مناسب ہے۔
آپ نے 44 سال کی عمر میں (1364 ہجری) میں فقہ و اصول کا تدریس شروع کیا، جو آیت اللہ بروجردی کی قم میں آمد کے موقع پر ہوا۔ ان کے درس خارج کی کچھ خصوصیات اور فوائد یہ تھے کہ ہر مسئلے کا حل اور اس کے موضوعات کی مکمل وضاحت اور نشوونما، بنیادی موضوعات کو فلسفیانہ موضوعات کے ساتھ نہ ملانا، نئے اور اختراعی نظریات پیش کرنا اور سابقہ علماء کی تقلید نہ کرنا۔ یہاں پر ان کے اساتذہ، روایی مشایخ  کے بزرگوں اور ان کے کاموں (کورس کے شیڈول) کی فہرست دینا مناسب ہے۔
=== اساتذہ ===
=== اساتذہ ===
امام  خمینی نے علوم کے مختلف شعبوں جیسے فارسی اور عربی ادب، [[فقہ]] و اصول، منطق، مغربی اور مشرقی فلسفہ، عرفان، کلام وغیرہ میں بہت سے اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ بعض ذرائع کے مطابق <ref>علی قادری، «خمینی روح‌الله: زندگی‌نامه امام خمینی بر اساس اسناد و خاطرات و خیال»، چاپ دوم، تهران: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)، ص143، 180، 190، 192، 246، 259، 384، 385، 388 و 393؛ زمزم نور: زندگی‌نامه، آثار و... امام خمینی، مؤسسه فرهنگی قدر ولایت، تهران، چاپ نهم، ص9 و 10؛ رضا بابایی، کارنامه نور (زندگی‌نامه امام خمینی)</ref>۔، ان کے بعض اساتذہ کی تفصیل اس طرح ہے:
امام  خمینی نے علوم کے مختلف شعبوں جیسے فارسی اور عربی ادب، [[فقہ]] و اصول، منطق، مغربی اور مشرقی فلسفہ، عرفان، کلام وغیرہ میں بہت سے اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ بعض ذرائع کے مطابق <ref>علی قادری، «خمینی روح‌الله: زندگی‌نامه امام خمینی بر اساس اسناد و خاطرات و خیال»، چاپ دوم، تهران: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)، ص143، 180، 190، 192، 246، 259، 384، 385، 388 و 393؛ زمزم نور: زندگی‌نامه، آثار و... امام خمینی، مؤسسه فرهنگی قدر ولایت، تهران، چاپ نهم، ص9 و 10؛ رضا بابایی، کارنامه نور (زندگی‌نامه امام خمینی)</ref>۔ ان کے بعض اساتذہ کی تفصیل اس طرح ہے:
# آقا میرزا محمود افتخار العلماء؛
{{کالم کی فہرست|3}}
# میرزا رضا نجفی خمینی؛
* آقا میرزا محمود افتخار العلماء؛
# آیت‌الله پسندیده؛
* میرزا رضا نجفی خمینی؛
# شیخ محمد گلپایگانی؛
* آیت‌الله پسندیده؛
# آقا میرزا محمدعلی بروجردی؛
* شیخ محمد گلپایگانی؛
# شیخ عباس اراکی؛
* آقا میرزا محمدعلی بروجردی؛
# میرزا محمدعلی ادیب تهرانی؛
* شیخ عباس اراکی؛
# آیت‌الله سید محمدتقی خوانساری؛
* میرزا محمدعلی ادیب تهرانی؛
# شیخ محمدرضا مسجدشاهی اصفهانی؛
* آیت‌الله سید محمدتقی خوانساری؛
# آیت‌الله سیدعلی یثربی کاشانی؛
* شیخ محمدرضا مسجدشاهی اصفهانی؛
# آیت‌الله سیدابوالحسن رفیعی قزوینی؛
* آیت‌الله سیدعلی یثربی کاشانی؛
# آیت‌الله عبدالکریم حائری؛
* آیت‌الله سیدابوالحسن رفیعی قزوینی؛
# آیت‌الله محمدحسین بروجردی؛
* آیت‌الله عبدالکریم حائری؛
# آیت‌الله میرزا علی‌اکبر حکمی یزدی؛
* آیت‌الله محمدحسین بروجردی؛
# آیت‌الله میرزا محمدعلی شاه‌آبادی؛
* آیت‌الله میرزا علی‌اکبر حکمی یزدی؛
# آیت‌الله میرزا جواد ملکی تبریزی.
* آیت‌الله میرزا محمدعلی شاه‌آبادی؛
* آیت‌الله میرزا جواد ملکی تبریزی.
{{اختتام}}
 
=== روایی مشایخ ===
=== روایی مشایخ ===
# شیخ محمدرضا اصفهانی نجفی، آل شیخ محمدتقی اصفهانی، محدث نوری سے ، شیخ انصاری سے ؛
* شیخ محمدرضا اصفهانی نجفی، آل شیخ محمدتقی اصفهانی، محدث نوری سے، شیخ انصاری سے ؛
# سید محسن امین، سید محمدهاشم موسوی رضوی هندی سے ، از شیخ انصاری سے ؛
* سید محسن امین، سید محمدهاشم موسوی رضوی هندی سے، شیخ انصاری سے ؛
# شیخ عباس قمی،  محدث نوری سے ، از شیخ انصاری سے؛
* شیخ عباس قمی،  محدث نوری سے ، از شیخ انصاری سے؛
# سید ابوالقاسم دهکردی اصفهانی، میرزا محمدهاشم اصفهانی سے ، از شیخ انصاری سے.
* سید ابوالقاسم دهکردی اصفهانی، میرزا محمدهاشم اصفهانی سے ، از شیخ انصاری سے.


== علمی آثار ==
== علمی آثار ==
# مصباح الهدایة إلی الخلافة و الولایة؛
{{کالم کی فہرست|4}}
# شرح دعای سحر؛
* مصباح الهدایة إلی الخلافة و الولایة؛
# شرح اربعین حدیث؛
* شرح دعای سحر؛
# حاشیه بر فصوص الحکم قیصری و مصباح الأنس؛
* شرح اربعین حدیث؛
# حاشیه بر مفتاح الغیب؛
* حاشیه بر فصوص الحکم قیصری و مصباح الأنس؛
# أسرار الصلوة یا معراج السالکین؛
* حاشیه بر مفتاح الغیب؛
# رساله‌ای در طلب و اراده؛
* أسرار الصلوة یا معراج السالکین؛
# حاشیه بر رساله شرح حدیث رأس الجالوت، قاضی سعید و شرح مستقلی بر حدیث؛
* رساله‌ای در طلب و اراده؛
# کشف الأسرار؛
* حاشیه بر رساله شرح حدیث رأس الجالوت، قاضی سعید و شرح مستقلی بر حدیث؛
# شرح حدیث جنود عقل و جهل؛
* کشف الأسرار؛
# آداب الصلاة؛
* شرح حدیث جنود عقل و جهل؛
# الرسائل؛
* آداب الصلاة؛
# کتاب البیع؛
* الرسائل؛
# کتاب الطهارة؛
* کتاب البیع؛
# أنوار الهدایة فی التعلیقة علی الکفایة؛
* کتاب الطهارة؛
# مناهج الوصول إلی علم الأصول؛
* أنوار الهدایة فی التعلیقة علی الکفایة؛
# رسالة فی الاجتهاد و التقلید؛
* مناهج الوصول إلی علم الأصول؛
# زبدة الأحکام؛
* رسالة فی الاجتهاد و التقلید؛
# المکاسب المحرمة؛
* زبدة الأحکام؛
# تحریر الوسیلة؛
* المکاسب المحرمة؛
# جهاد النفس یا جهاد اکبر؛
* تحریر الوسیلة؛
# حکومت اسلامی یا ولایت فقیه؛
* جهاد النفس یا جهاد اکبر؛
# تفسیر سوره حمد؛
* حکومت اسلامی یا ولایت فقیه؛
# مناسک حج؛
* تفسیر سوره حمد؛
# لمحات الأصول؛
* مناسک حج؛
# دیوان اشعار.
* لمحات الأصول؛
* دیوان اشعار.
{{اختتام}}
=== شاگرد ===
=== شاگرد ===
# آیت‌الله سید جلال‌الدین آشتیانی؛
{{کالم کی فہرست|4}}
# آیت‌الله حسین تقوی اشتهاردی؛
* آیت‌الله سید جلال‌الدین آشتیانی؛
# آیت‌الله عبدالله جوادی آملی؛
* آیت‌الله حسین تقوی اشتهاردی؛
# آیت‌الله مرتضی حائری یزدی؛
* آیت‌الله عبدالله جوادی آملی؛
# آیت‌الله مهدی حائری یزدی؛
* آیت‌الله مرتضی حائری یزدی؛
# [[سید علی خامنہ ای|آیت‌الله سید علی خامنه‌ای]]؛
* آیت‌الله مهدی حائری یزدی؛
# آیت‌الله سید مصطفی خمینی؛
* [[سید علی خامنہ ای|آیت‌الله سید علی خامنه‌ای]]؛
# آیت‌الله جعفر سبحانی؛
* آیت‌الله سید مصطفی خمینی؛
# آیت‌الله سید موسی شبیری زنجانی؛
* آیت‌الله جعفر سبحانی؛
# آیت‌الله یوسف صانعی؛
* آیت‌الله سید موسی شبیری زنجانی؛
# آیت‌الله حسن طاهری خرم‌آبادی؛
* آیت‌الله یوسف صانعی؛
# آیت‌الله محمد فاضل لنکرانی؛
* آیت‌الله حسن طاهری خرم‌آبادی؛
# آیت‌الله محمدعلی گرامی؛
* آیت‌الله محمد فاضل لنکرانی؛
# آیت‌الله عباس محفوظی گیلانی؛
* آیت‌الله محمدعلی گرامی؛
# آیت‌الله محمد محمدی گیلانی؛
* آیت‌الله عباس محفوظی گیلانی؛
# آیت‌الله حسین مظاهری؛
* آیت‌الله محمد محمدی گیلانی؛
# آیت‌الله محمدهادی معرفت؛
* آیت‌الله حسین مظاهری؛
# آیت‌الله حسینعلی منتظری؛
* آیت‌الله محمدهادی معرفت؛
# آیت‌الله سید عبدالغنی موسوی اردبیلی؛
* آیت‌الله حسینعلی منتظری؛
# آیت‌الله سید عبدالکریم موسوی اردبیلی؛
* آیت‌الله سید عبدالغنی موسوی اردبیلی؛
# آیت‌الله محمدرضا مهدوی کنی؛
* آیت‌الله سید عبدالکریم موسوی اردبیلی؛
# آیت‌الله حسین نوری همدانی.
* آیت‌الله محمدرضا مهدوی کنی؛
ان کی زندگی کا تیسرا دور دو اہم واقعات سے ملتا ہے: ایک، دوسری جنگ عظیم کا آغاز اور دوسرا، ایران پر قبضہ، رضا خان کا ایران سے نکل جانا اور محمد رضا کے دور حکومت کا آغاز۔ حاج آغا روح اللہ کے عقیدے کے مطابق یہ وقت اصلاحی قیام کا اچھا موقع تھا۔ روح اللہ کی تمام تر امیدوں کے باوجود مطلوبہ قیام نہیں ہوا۔ اس دور میں وہ ایک مکمل اور جامع عالم، علم اور سیاسی بصیرت کے سہارے ایک بیدار مصلح، رضا خانی کے 20 سالہ تجربے کے ساتھ ایران اور دنیا کے حالات کا مکمل ادراک رکھتے تھے۔ لہذا، 3/13/1323، (11 جمادی الثانی 1363ھ) کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے، وہ بنیادی تبدیلی کے صحیح وقت کی یاد دہانی کراتے ہیں: آج وہ دن ہے جب روحانی ہوا چلی ہے اور یہ دن فیام کے لیے بہترین دن ہے۔  اگر آپ نے موقع گنوا دیا اور خدا کے لیے کھڑے نہ ہوئے اور مذہبی تقریب میں واپس نہ آئے تو کل مٹھی بھر لغو اور ہوس پرست لوگ آپ پر غلبہ حاصل کر لیں گے اور آپ کے تمام دین اور عزت کو اپنے باطل کے نیچے لے جائیں گے۔
* آیت‌الله حسین نوری همدانی.
{{اختتام}}
ان کی زندگی کا تیسرا دور دو اہم واقعات سے ملتا ہے: ایک، دوسری جنگ عظیم کا آغاز اور دوسرا، ایران پر قبضہ، رضا خان کا ایران سے نکل جانا اور محمد رضا کے دور حکومت کا آغاز۔ حاج آغا روح اللہ کے عقیدے کے مطابق یہ وقت اصلاحی قیام کا اچھا موقع تھا۔ روح اللہ کی تمام تر امیدوں کے باوجود مطلوبہ قیام نہیں ہوا۔ اس دور میں وہ ایک مکمل اور جامع عالم، علم اور سیاسی بصیرت کے سہارے ایک بیدار مصلح، رضا خانی کے 20 سالہ تجربے کے ساتھ ایران اور دنیا کے حالات کا مکمل ادراک رکھتے تھے۔  
 
لہذا، 3/13/1323، (11 جمادی الثانی 1363ھ) کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے، وہ بنیادی تبدیلی کے صحیح وقت کی یاد دہانی کراتے ہیں: آج وہ دن ہے جب روحانی ہوا چلی ہے اور یہ دن فیام کے لیے بہترین دن ہے۔  اگر آپ نے موقع گنوا دیا اور خدا کے لیے کھڑے نہ ہوئے اور مذہبی تقریب میں واپس نہ آئے تو کل مٹھی بھر لغو اور ہوس پرست لوگ آپ پر غلبہ حاصل کر لیں گے اور آپ کے تمام دین اور عزت کو اپنے باطل کے نیچے لے جائیں گے۔


== زندگی کا چوتھا دور (1340 تا 1368) ==
== زندگی کا چوتھا دور (1340 تا 1368) ==
=== مرجعیت ===
=== مرجعیت ===
یہ دور آیت اللہ بروجردی کی وفات (10 اپریل 1340) کے ساتھ مربوط ہے۔ اس وقت علمائے کرام اور اہل علم کی ایک بڑی تعداد نے آپ سے اصرار کیا کہ ان کا رسالہ عملیہ( توضیح المسائل) شائع کیا جائے، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ چنانچہ ان کا فتویٰ سید ابوالحسن اصفہانی کی کتاب '''وسیلۂ النجاۂ''' اور '''عروۃ الوثقی''' پر حاشیہ سے حاصل کیا گیا۔  آیت اللہ حکیم کی وفات (134ھ) تک لوگوں کا ایک حصہ آیت اللہ حاج آغا روح اللہ موسوی خمینی کی تقلید کرنے والا بن گیا۔
یہ دور آیت اللہ بروجردی کی وفات (10 اپریل 1340) کے ساتھ مربوط ہے۔ اس وقت علمائے کرام اور اہل علم کی ایک بڑی تعداد نے آپ سے اصرار کیا کہ ان کا رسالہ عملیہ( توضیح المسائل) شائع کیا جائے، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ چنانچہ ان کا فتویٰ سید ابوالحسن اصفہانی کی کتاب '''وسیلۂ النجاۂ''' اور '''عروۃ الوثقی''' پر حاشیہ سے حاصل کیا گیا۔  آیت اللہ حکیم کی وفات (134ھ) تک لوگوں کا ایک حصہ آیت اللہ حاج آغا روح اللہ موسوی خمینی کی تقلید کرنے والا بن گیا۔
=== 15 خرداد کا قیام ===
=== 15 خرداد کا قیام ===
یہ دور ایران اور اسلام کے دشمنوں کے لیے رکاوٹوں کو دور کرنے کا آغاز تھا۔ اسی وقت جب ملک کے معاملات پر امریکہ کا غلبہ تھا، حکومت پر امریکی اصلاحات کے نفاذ کے لیے دباؤ بڑھتا گیا اور یہ زمینی اصلاحات اور ریاستی اور صوبائی انجمنوں کے بل کی صورت میں سامنے آیا جس میں بظاہر فریب نظر آیا۔ لیکن اندر سے یہ ایک منحوس اتحاد کا اعلان کر رہا تھا اور ملک کے تمام معاملات پر امریکہ، [[اسرائیل]] اور ان کے ایجنٹوں کو تسلط فراہم کر رہا تھا۔ اس وقت آپ امریکی اصلاحات کے خلاف سختی سے کھڑے ہوئے اور شاہ کی حکومت نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے 2 اپریل 1342 کو [[جعفر بن محمد|امام جعفر صادق علیہ السلام]] کی شہادت کے موقع پر مدرسہ فیضیہ پر حملہ کر دیا۔ اس واقعے میں متعدد افراد شہید اور زخمی ہوئے۔ اس واقعہ کے بعد حاج آغا روح اللہ نے نجف اور قم کے عوام اور علماء سے خطاب کرتے ہوئے کہا: آج خاموشی ظالم نظام کے ساتھ تعاون اور ہمکاری کے مترادف ہے اور شاہ دوستی کے عنوان سے اپنے مشہور اعلامیہ میں کہا: یعنی لوٹ مار اور اپنی جدوجہد کی سمت کا تعین کیا۔ آپ کے پیغام اور کلام کے لوگوں کے ذہنوں پر جو حیرت انگیز اثر ہوا، اس کا راز شہادت کی حد تک جا پہنچا، اس کا راز ان کی فکر کی اصلیت، قول کی پختگی اور ان کے ساتھ بے مثال دیانت میں تلاش کرنا چاہیے۔
یہ دور ایران اور اسلام کے دشمنوں کے لیے رکاوٹوں کو دور کرنے کا آغاز تھا۔ اسی وقت جب ملک کے معاملات پر امریکہ کا غلبہ تھا، حکومت پر امریکی اصلاحات کے نفاذ کے لیے دباؤ بڑھتا گیا اور یہ زمینی اصلاحات اور ریاستی اور صوبائی انجمنوں کے بل کی صورت میں سامنے آیا جس میں بظاہر فریب نظر آیا۔ لیکن اندر سے یہ ایک منحوس اتحاد کا اعلان کر رہا تھا اور ملک کے تمام معاملات پر امریکہ، [[اسرائیل]] اور ان کے ایجنٹوں کو تسلط فراہم کر رہا تھا۔
آپ نے سانحہ فیضیہ کی 40ویں برسی کے موقع پر اپنے ایک پیغام میں انکشاف کیا: انہوں نے 13 جون 1342 کو مدرسہ فیضیہ  میں اپنی تاریخی تقریر کی، بادشاہ کو مخاطب کرتے ہوئے اس نے کہا،  اے شاہ صاحب! اے بادشاہ! میں تمہیں مشورہ دیتا ہوں؛ یہ باتیں چھوڑ دیں۔ وہ آپ کو خواب غقلت میں ڈال رہے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ اگر ہر کوئی ایک دن آپ چلے جائیں تو سب شکر ادا کریں۔ بادشاہ نے اس کی پکار کو خاموش کرنے کا حکم دیا۔ 14 جون کی شام کو آیت اللہ خمینی کو گرفتار کر کے قصر جیل لے جایا گیا۔
 
15تاریخ کی صبح ان کی گرفتاری کی خبر تہران اور دیگر شہروں تک پہنچ گئی۔ لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور موت یا خمینی کے نعرے لگاتے ہوئے شاہ کے محل کی طرف مارچ کیا۔ بغاوت کو سختی سے دبا دیا گیا اور خون خرابہ ہوا۔ حکومت نے مقدمے کے بعد اسے پھانسی دینے کا فیصلہ کیا۔ یہاں تک کہ ایک اعلامیہ شائع ہوا جس پر علماء اور حکام نے دستخط کیے، جس میں انہوں نے واضح طور پر ان کی مرجعیت کی تصدیق کی اور اس کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ آخر کار بہت سے احتجاج کے بعد دس ماہ کی قید و نگہداشت کے بعد 19 اپریل 1343 کی صبح حاج آغا روح اللہ کو واپس قم پہنچایا گیا۔ 15 خرداد 1342 علی الظاہر قیام جوش و خروش سے گری۔ لیکن کیپٹلیشن بل (امریکی ملازمین کو عدالتی استثنیٰ) کی منظوری کے خلاف اس کے انکشاف نے نومبر 2014 میں ایران کو ایک اور بغاوت کے دہانے پر کھڑا کر دیا۔ حاج آغا روح اللہ نے 4 نومبر 1343 کو ایک انقلابی بیان جاری کیا جس میں انہوں نے لکھا کہ دنیا جان لے کہ ہر وہ مسئلہ جس کا ایران اور مسلمان اقوام کو سامنا ہے اس میں امریکہ کا ہاتھ ہے۔اسلام کی قومیں بالعموم اغیار سے نفرت کرتی ہیں اور امریکہ سے بالخصوص نفرت کرتی ہیں... امریکہ ہی وہ ہے جو اسرائیل اور اس کے حامیوں کی حمایت کرتا ہے... حکومت ان کو 13 نومبر 1343 کو فجر کے وقت گرفتار کر کے ایک فوجی طیارے میں ترکی منتقل کیا اور پھر اس کے بعد۔ ایک سال عراق (نجف) میں جلاوطن کر دیا گیا۔ ان کی نجف منتقلی اس مقصد کے لیے تھی کہ ان کے کردار کو نجف کے عظیم علاقے کے دیگر علمائے کرام کی طرف سے زیر کیا جائے۔ لیکن وہ اس ہزار سال کے فقہی آسمان پر ایک چمکتا ہوا ستارہ بن گیا اور اس شہر کے علماء میں ان کا احترام کیا گیا۔
اس وقت آپ امریکی اصلاحات کے خلاف سختی سے کھڑے ہوئے اور شاہ کی حکومت نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے 2 اپریل 1342 کو [[جعفر بن محمد|امام جعفر صادق علیہ السلام]] کی شہادت کے موقع پر مدرسہ فیضیہ پر حملہ کر دیا۔ اس واقعے میں متعدد افراد شہید اور زخمی ہوئے۔ اس واقعہ کے بعد حاج آغا روح اللہ نے نجف اور قم کے عوام اور علماء سے خطاب کرتے ہوئے کہا: آج خاموشی ظالم نظام کے ساتھ تعاون اور ہمکاری کے مترادف ہے اور شاہ دوستی کے عنوان سے اپنے مشہور اعلامیہ میں کہا: یعنی لوٹ مار اور اپنی جدوجہد کی سمت کا تعین کیا۔ آپ کے پیغام اور کلام کے لوگوں کے ذہنوں پر جو حیرت انگیز اثر ہوا، اس کا راز شہادت کی حد تک جا پہنچا، اس کا راز ان کی فکر کی اصلیت، قول کی پختگی اور ان کے ساتھ بے مثال دیانت میں تلاش کرنا چاہیے۔
 
آپ نے سانحہ فیضیہ کی 40ویں برسی کے موقع پر اپنے ایک پیغام میں انکشاف کیا: انہوں نے 13 جون 1342 کو مدرسہ فیضیہ  میں اپنی تاریخی تقریر کی، بادشاہ کو مخاطب کرتے ہوئے آپ نے کہا،  اے شاہ صاحب! اے بادشاہ! میں تمہیں مشورہ دیتا ہوں؛ یہ باتیں چھوڑ دیں۔ وہ آپ کو خواب غقلت میں ڈال رہے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ اگر ہر کوئی ایک دن آپ چلے جائیں تو سب شکر ادا کریں۔ بادشاہ نے اس کی پکار کو خاموش کرنے کا حکم دیا۔ 14 جون کی شام کو آیت اللہ خمینی کو گرفتار کر کے قصر جیل لے جایا گیا۔
 
15تاریخ کی صبح ان کی گرفتاری کی خبر تہران اور دیگر شہروں تک پہنچ گئی۔ لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور موت یا خمینی کے نعرے لگاتے ہوئے شاہ کے محل کی طرف مارچ کیا۔ بغاوت کو سختی سے دبا دیا گیا اور خون خرابہ ہوا۔ حکومت نے مقدمے کے بعد اسے پھانسی دینے کا فیصلہ کیا۔ یہاں تک کہ ایک اعلامیہ شائع ہوا جس پر علماء اور حکام نے دستخط کیے، جس میں انہوں نے واضح طور پر ان کی مرجعیت کی تصدیق کی اور اس کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
 
آخر کار بہت سے احتجاج کے بعد دس ماہ کی قید و نگہداشت کے بعد 19 اپریل 1343 کی صبح حاج آغا روح اللہ کو واپس قم پہنچایا گیا۔ 15 خرداد 1342 علی الظاہر قیام جوش و خروش سے گری۔ لیکن کیپٹلیشن بل (امریکی ملازمین کو عدالتی استثنیٰ) کی منظوری کے خلاف اس کے انکشاف نے نومبر 2014 میں ایران کو ایک اور بغاوت کے دہانے پر کھڑا کر دیا۔ حاج آغا روح اللہ نے 4 نومبر 1343 کو ایک انقلابی بیان جاری کیا جس میں انہوں نے لکھا کہ دنیا جان لے کہ ہر وہ مسئلہ جس کا ایران اور مسلمان اقوام کو سامنا ہے اس میں امریکہ کا ہاتھ ہے۔
 
اسلام کی قومیں بالعموم اغیار سے نفرت کرتی ہیں اور امریکہ سے بالخصوص نفرت کرتی ہیں... امریکہ ہی وہ ہے جو اسرائیل اور اس کے حامیوں کی حمایت کرتا ہے... حکومت ان کو 13 نومبر 1343 کو فجر کے وقت گرفتار کر کے ایک فوجی طیارے میں ترکی منتقل کیا اور پھر اس کے بعد۔ ایک سال عراق (نجف) میں جلاوطن کر دیا گیا۔ ان کی نجف منتقلی اس مقصد کے لیے تھی کہ ان کے کردار کو نجف کے عظیم علاقے کے دیگر علمائے کرام کی طرف سے زیر کیا جائے۔ لیکن وہ اس ہزار سال کے فقہی آسمان پر ایک چمکتا ہوا ستارہ بن گیا اور اس شہر کے علماء میں ان کا احترام کیا گیا۔
 
=== نجف میں قیام ===  
=== نجف میں قیام ===  
نجف میں، انہوں نے 1344 میں شیخ انصاری مسجد میں اپنا درس خارج فقہ شروع کیا، جو اس میدان میں سب سے زیادہ مفید دروس میں شمار ہوتا تھا۔ ان کی کتاب اسلامی حکومت یا ولایت فقیہ بھی اس دور کے درس خارج فقہ کے دروس میں سے ایک متن ہے۔ آپ نے ہمیشہ [[ایران]] کے واقعات سے آگاہ رہتے تھے اور شاہ کی حکومت کے خلاف انقلابی موقف اپنایا۔ نیز نجف میں اپنی جلاوطنی کے تیرہ سال کے دوران حاج آغا روح اللہ نے بہت سے طلباء کی تربیت کی جو انقلاب اسلامی ایران کے مضبوط ستون بنے۔ نجف پہنچنے کے بعد انہوں نے خطوط اور پیغامات بھیج کر مبارزین کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھا اور انہیں ہر موقع پر قیام کے مقاصد کے حصول میں ثابت قدم رہنے کی دعوت دی۔ حکومت کے ثقافتی، سماجی، اقتصادی، فوجی اور سیاسی پروگراموں کے خلاف ان کا شدید ردعمل، جیسے: 2500 سالہ شاہی تقریبات، شیراز آرٹ فیسٹیول، رستاخیز کی پارٹی آمریت، اسلامی تاریخ کی تبدیلی کرنا، غرباء کی معیشت  کی تباہی اور حلبیوں کی آباد کاری، مغرب سے فوجی ہتھیاروں کی اندھا دھند خریداری، مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے مقاصد کے مطابق ایران کی نقل و حرکت۔
نجف میں، انہوں نے 1344 میں شیخ انصاری مسجد میں اپنا درس خارج فقہ شروع کیا، جو اس میدان میں سب سے زیادہ مفید دروس میں شمار ہوتا تھا۔ ان کی کتاب اسلامی حکومت یا ولایت فقیہ بھی اس دور کے درس خارج فقہ کے دروس میں سے ایک متن ہے۔ آپ نے ہمیشہ [[ایران]] کے واقعات سے آگاہ رہتے تھے اور شاہ کی حکومت کے خلاف انقلابی موقف اپنایا۔ نیز نجف میں اپنی جلاوطنی کے تیرہ سال کے دوران حاج آغا روح اللہ نے بہت سے طلباء کی تربیت کی جو انقلاب اسلامی ایران کے مضبوط ستون بنے۔
 
نجف پہنچنے کے بعد انہوں نے خطوط اور پیغامات بھیج کر مبارزین کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھا اور انہیں ہر موقع پر قیام کے مقاصد کے حصول میں ثابت قدم رہنے کی دعوت دی۔ حکومت کے ثقافتی، سماجی، اقتصادی، فوجی اور سیاسی پروگراموں کے خلاف ان کا شدید ردعمل، جیسے: 2500 سالہ شاہی تقریبات، شیراز آرٹ فیسٹیول، رستاخیز کی پارٹی آمریت، [[اسلامی تاریخ]] کی تبدیلی کرنا، غرباء کی معیشت  کی تباہی اور حلبیوں کی آباد کاری، مغرب سے فوجی ہتھیاروں کی اندھا دھند خریداری، مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے مقاصد کے مطابق ایران کی نقل و حرکت۔


=== 1356 میں اسلامی انقلاب کا عروج اور عوامی بغاوت ===
=== 1356 میں اسلامی انقلاب کا عروج اور عوامی بغاوت ===
اگرچہ شاہ کی حکومت 1355 میں اپنے اقتدار کے عروج پر تھی، لیکن اسے قانونی حیثیت کے بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ حزب اختلاف کے سرکوبی نے اس حقیقت کو جنم دیا کہ حکومت پر سرحدوں کے باہر سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا۔ اس الزام اور سوچ کو دور کرنے کے لیے کہ ان کی حکومت کے تسلسل اور استحکام کو کوئی خطرہ نہیں، شاہ نے سیاسی آزادی پالیسی شروع کی۔ حضرت آیت اللہ خمینی نے ایران کے واقعات اور حالات کا مشاہدہ کرتے ہوئے اگست 1356 میں اپنے ایک پیغام میں اعلان کیا تھا کہ داخلی اور خارجی حالات اور بیرونی اسمبلیوں اور پریس میں حکومت کے جرائم کی عکاسی کے باعث یہ ایک موقع ہے کہ علمی اور ثقافتی اسمبلیاں، محب وطن افراد، ملکی اور غیر ملکی طلباء، اور  اسلامی انجمنیں جہاں کہیں بھی اس کا استعمال کریں اور کسی خوف کے بغیر اٹھ کھڑے ہوں۔ عسکریت پسند گروہوں اور لوگوں نے جو شاہ کو ظلم اور انحصار کا سبب سمجھتے تھے، ان کے پیغام کا خیرمقدم کیا اور سماجی احتجاج کے موقع کا انتظار کر رہے تھے۔ یکم نومبر 1356 کو آیت اللہ سید مصطفی خمینی کی مشتبہ موت اور ایران میں منعقد ہونے والی عظیم الشان تقریب کی بحالی اور ایرانی مذہبی برادری کی بغاوت کا نقطہ آغاز تھی۔ اس واقعہ کو انہوں نے الطاف خفیہ الہی کہا۔ شاہ کی حکومت نے اخبار اطلاعات میں ان کے خلاف توہین آمیز مضمون شائع کرکے بدلہ لیا۔ اس آرٹیکل کے خلاف لوگوں کا احتجاج 19 جنوری 1356 کو قم کے قیام پر منتج ہوا اور 1957 میں احتجاج جاری رہا۔ حکومت نے لوگوں کو دھوکہ دینا شروع کر دیا، جیسے کہ بدعنوانی کے مراکز کو بند کرنا اور پریس کی آزادی؛ لیکن امام کے مزاحمت کے حکم سے لوگوں کی مرضی نہیں بدلی۔ 17 ویں شہریور مارچ کو دبانا جدوجہد کے اختتام میں ایک اہم موڑ تھا۔ امام نے اعتدال پسند مبارزین کو آئینی بادشاہت کو برقرار رکھتے ہوئے شاہ سے آئین کی تعمیل کرنے کے نعرے کے خلاف متنبہ کیا، جس کے نتیجے میں حکومت کی جانب سے امام پر دباؤ ڈالنے اور انہیں عراق سے نکالنے کی کوشش کی گئی۔ امام کی کویت روانگی اور انہیں قبول کرنے سے انکار قائد انقلاب کی فرانس کی پرواز اور نوفل لوشاتو  قیام کا باعث بنا۔ آپ انقلاب کی آواز کو ایران اور دنیا کے عوام تک براہ راست پہنچانے میں کامیاب رہے۔
اگرچہ شاہ کی حکومت 1355 میں اپنے اقتدار کے عروج پر تھی، لیکن اسے قانونی حیثیت کے بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ حزب اختلاف کے سرکوبی نے اس حقیقت کو جنم دیا کہ حکومت پر سرحدوں کے باہر سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا۔ اس الزام اور سوچ کو دور کرنے کے لیے کہ ان کی حکومت کے تسلسل اور استحکام کو کوئی خطرہ نہیں، شاہ نے سیاسی آزادی پالیسی شروع کی۔  
13 نومبر کو طلباء اور عوام کے دیگر طبقات پر تشدد کی خبروں اور 20 دسمبر کو عاشورہ مارچ نے شاہ اور اس کے مغربی حامیوں کے لیے مشکل بنا دیا۔ کابینہ کے یکے بعد دیگرے تبدیلیوں اور فوجی حکمرانی کا امام اور عوام کی مرضی پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ چار مغربی ممالک (امریکہ، فرانس، جرمنی اور برطانیہ) کے سربراہان گواڈیلوپ اجلاس میں اس نتیجے پر پہنچے کہ ایران میں بادشاہت کی بقا کی کوئی امید نہیں ہے اور یہ کہ شاہ کی رخصتی اور سویلین حکومت کا قیام، بحران کی شدت کو کم کر سکتے ہیں۔ شاہ کے جانے کے بعد امام نے انقلابی کونسل کی تشکیل کا حکم دیا اور '''12 بہمن''' کو لوگوں کی طرف سے شاندار استقبال کے ساتھ وطن واپس آئے۔ بہشت زہرا، تہران میں ایک تاریخی تقریر اور پھر ان کی طرف سے حکومت کی تقرری کے ساتھ عوامی انقلاب کامیاب اختتام کے قریب پہنچا۔ یوم الٰہی، 22 بہمن 1357، نے قوم کی زندگی میں ایک نئی صبح پھونک دی، انقلاب کی فتح کا دن اور سرزمین ایران، شیعہ مذہب اور عالم اسلام کے لیے عظیم تاریخی پیش رفت کا نقطہ آغاز ہے۔
 
حضرت آیت اللہ خمینی نے ایران کے واقعات اور حالات کا مشاہدہ کرتے ہوئے اگست 1356 میں اپنے ایک پیغام میں اعلان کیا تھا کہ داخلی اور خارجی حالات اور بیرونی اسمبلیوں اور پریس میں حکومت کے جرائم کی عکاسی کے باعث یہ ایک موقع ہے کہ علمی اور ثقافتی اسمبلیاں، محب وطن افراد، ملکی اور غیر ملکی طلباء، اور  اسلامی انجمنیں جہاں کہیں بھی اس کا استعمال کریں اور کسی خوف کے بغیر اٹھ کھڑے ہوں۔ عسکریت پسند گروہوں اور لوگوں نے جو شاہ کو ظلم اور انحصار کا سبب سمجھتے تھے، ان کے پیغام کا خیرمقدم کیا اور سماجی احتجاج کے موقع کا انتظار کر رہے تھے۔
 
یکم نومبر 1356 کو آیت اللہ سید مصطفی خمینی کی مشتبہ موت اور ایران میں منعقد ہونے والی عظیم الشان تقریب کی بحالی اور ایرانی مذہبی برادری کی بغاوت کا نقطہ آغاز تھی۔ اس واقعہ کو انہوں نے الطاف خفیہ الہی کہا۔ شاہ کی حکومت نے اخبار اطلاعات میں ان کے خلاف توہین آمیز مضمون شائع کرکے بدلہ لیا۔ اس آرٹیکل کے خلاف لوگوں کا احتجاج 19 جنوری 1356 کو قم کے قیام پر منتج ہوا اور 1957 میں احتجاج جاری رہا۔ حکومت نے لوگوں کو دھوکہ دینا شروع کر دیا، جیسے کہ بدعنوانی کے مراکز کو بند کرنا اور پریس کی آزادی؛ لیکن امام کے مزاحمت کے حکم سے لوگوں کی مرضی نہیں بدلی۔  
 
17 ویں شہریور مارچ کو دبانا جدوجہد کے اختتام میں ایک اہم موڑ تھا۔ امام نے اعتدال پسند مبارزین کو آئینی بادشاہت کو برقرار رکھتے ہوئے شاہ سے آئین کی تعمیل کرنے کے نعرے کے خلاف متنبہ کیا، جس کے نتیجے میں حکومت کی جانب سے امام پر دباؤ ڈالنے اور انہیں عراق سے نکالنے کی کوشش کی گئی۔ امام کی کویت روانگی اور انہیں قبول کرنے سے انکار قائد انقلاب کی فرانس کی پرواز اور نوفل لوشاتو  قیام کا باعث بنا۔ آپ انقلاب کی آواز کو ایران اور دنیا کے عوام تک براہ راست پہنچانے میں کامیاب رہے۔
 
13 نومبر کو طلباء اور عوام کے دیگر طبقات پر تشدد کی خبروں اور 20 دسمبر کو [[عاشورہ]] مارچ نے شاہ اور اس کے مغربی حامیوں کے لیے مشکل بنا دیا۔ کابینہ کے یکے بعد دیگرے تبدیلیوں اور فوجی حکمرانی کا امام اور عوام کی مرضی پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ چار مغربی ممالک (امریکہ، فرانس، جرمنی اور برطانیہ) کے سربراہان گواڈیلوپ اجلاس میں اس نتیجے پر پہنچے کہ ایران میں بادشاہت کی بقا کی کوئی امید نہیں ہے اور یہ کہ شاہ کی رخصتی اور سویلین حکومت کا قیام، بحران کی شدت کو کم کر سکتے ہیں۔  
 
شاہ کے جانے کے بعد امام نے انقلابی کونسل کی تشکیل کا حکم دیا اور '''12 بہمن''' کو لوگوں کی طرف سے شاندار استقبال کے ساتھ وطن واپس آئے۔ بہشت زہرا، تہران میں ایک تاریخی تقریر اور پھر ان کی طرف سے حکومت کی تقرری کے ساتھ عوامی انقلاب کامیاب اختتام کے قریب پہنچا۔ یوم الٰہی، 22 بہمن 1357، نے قوم کی زندگی میں ایک نئی صبح پھونک دی، انقلاب کی فتح کا دن اور سرزمین ایران، [[شیعہ |شیعہ مذہب]] اور عالم اسلام کے لیے عظیم تاریخی پیش رفت کا نقطہ آغاز ہے۔
آپ کی قیادت کی تدبیر، ذہانت اور اختیار بالخصوص فتح کے بعد کے ابتدائی سالوں میں بہت شاندار اور ممتاز ہیں۔
آپ کی قیادت کی تدبیر، ذہانت اور اختیار بالخصوص فتح کے بعد کے ابتدائی سالوں میں بہت شاندار اور ممتاز ہیں۔


=== اسلامی جمہوریہ ایران کے رہنما اور بانی ===
=== اسلامی جمہوریہ ایران کے رہنما اور بانی ===
ان کی قیادت کا دورانیہ دس سال اور چار ماہ سرکاری طور پر 22 فروری 1357 سے 14 جون 1368 تک رہا۔ آپ نے سب سے پہلے نیا سیاسی نظام قائم کیا اور اسلامی جمہوریہ کو [[شیعہ]] سیاسی اسلام کے اصولوں اور نئی دنیا کے تقاضوں کے مطابق ڈیزائن کیا۔ فتح کے فوراً بعد انہوں نے سیاسی نظام کے تعین کے لیے عوام کو ریفرنڈم میں بلا کر اور ماہرین کی ایک کونسل بنا کر اور آئین پر ریفرنڈم کر کے دنیا کو اسلامی حکومت کا ایک نیا ماڈل دکھایا۔ پہلوی آمریت کے خاتمے اور سماجی آزادیوں کے وسیع پھیلاؤ کے ساتھ، مختلف گروہوں نے اجلاس منعقد کرکے اور اپنے نظریات کی اشاعت کے ذریعے مقابلہ کرنے کے قابل ہو گئے۔ لیکن کھلے سیاسی خلا میں زندگی کے تجربے کی کمی اور تمام سماجی قوتوں کے درمیان اتفاق رائے کی کمی کی وجہ سے یہ خلا جلد ہی ایک کشمکش میں بدل گیا۔ سماجی قوتوں کا انتظام، خاص طور پر بعض گروہوں اور سیاسی جماعتوں کا جو مغرب اور مشرق کے سیاسی مکاتب فکر (لبرل ازم اور کمیونزم) سے متاثر تھے اور ان کا مکتب انقلاب اسلامی کے خلاف صف بندی، جو آپ کی سیاسی فکر سے ماخوذ تھی اور ولایت مدار کے لوگوں کی خواہشات نے تاریخ میں ان گنت تلخ واقعات کو انقلاب کا نشان بنایا۔ یہ واقعات، امریکہ کی قیادت کے لیے عالمی استکبار کے مخالفانہ انداز اور مغرب اور مشرق کی اندرونی مخالف جماعتوں کی حمایت کے ساتھ ساتھ عراق میں بعثی حکومت پر رجعتی حکمرانوں کی جانب سے فوجی حملے کے ساتھ۔ عرب دنیا نے ایک ایسی صورتحال پیدا کی جہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک انقلاب کا رخ بدل سکتا ہے۔
ان کی قیادت کا دورانیہ دس سال اور چار ماہ سرکاری طور پر 22 فروری 1357 سے 14 جون 1368 تک رہا۔ آپ نے سب سے پہلے نیا سیاسی نظام قائم کیا اور اسلامی جمہوریہ کو [[شیعہ]] سیاسی اسلام کے اصولوں اور نئی دنیا کے تقاضوں کے مطابق ڈیزائن کیا۔ فتح کے فوراً بعد انہوں نے سیاسی نظام کے تعین کے لیے عوام کو ریفرنڈم میں بلا کر اور ماہرین کی ایک کونسل بنا کر اور آئین پر ریفرنڈم کر کے دنیا کو اسلامی حکومت کا ایک نیا ماڈل دکھایا۔  
لیکن خدا کا ہاتھ، امام کی ذہانت اور مستند قیادت، ایرانی عوام کی لگن، وفاداری اور بیداری نے انقلاب کی راہ ہموار کی۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ فروری 1358 میں دل کے عارضے میں مبتلا ہونے کے بعد تہران تشریف لائے اور وہیں قیام کے بعد انقلاب کے جہاز کی قیادت سنبھالی۔ حکومتوں کی تبدیلی، تینوں قوتوں کے درمیان اختلافات، نظام کے بہت سے اہلکاروں کی شہادت، مسلط کردہ جنگ سے پیدا ہونے والے مسائل وغیرہ جیسے بحرانوں کو حل کیا گیا۔ فقیہ کی مطلق حاکمیت کے نظریہ کو پیش کرنے اور نظام کی اصلاح کی کونسل جیسے اداروں کی تشکیل میں ان کی تدبیر نے انقلاب سے پہلے بحرانوں سے نکلنے کی راہ ہموار کی۔ ملت ایران بھی اپنے امام کے عظیم ورثے کی نگہبان تھی۔ ولایت مدار لوگوں کی امام کی طرف دلچسپی ایسی تھی کہ 1368 میں برسوں کی سختیوں اور تکالیف کے بعد اپنے پاکیزہ جسم کو الوداع کرتے ہوئے وطن میں داخل ہونے کے لمحے سے کئی گنا زیادہ ہجوم کی موجودگی اور ان کی محبتیں اور استقامت زیادہ گہرا ہو گئی اور امام اور انقلاب کے راستے کو جاری رکھنے کا ان کا ارادہ زیادہ سنجیدہ ہو گیا اور ان کا نظام تمام سازشوں اور واقعات کے باوجود پہلے سے زیادہ مستحکم ہو گیا۔ اسلامی جمہوریہ امام کی زندگی کا سب سے واضح ثمر ہے۔ انہوں نے اس سیاسی نظام کو اس طرح ڈیزائن کیا کہ یہ کسی فرد پر بھروسہ نہیں کرتا اور اپنی مرضی سے قوم کو قوت اور عزم کے ساتھ آگے بڑھنے کا حکم دیتے ہیں اور جانتے ہیں کہ کسی بندے کے جانے سے اس میں کوئی خلل نہیں آئے گا۔ قوم کی آہنی رکاوٹ کہ اعلیٰ اور اعلیٰ بندے خدمت میں ہیں اور اللہ اس قوم اور دنیا کے مظلوموں کا محافظ ہے۔
 
پہلوی آمریت کے خاتمے اور سماجی آزادیوں کے وسیع پھیلاؤ کے ساتھ، مختلف گروہوں نے اجلاس منعقد کرکے اور اپنے نظریات کی اشاعت کے ذریعے مقابلہ کرنے کے قابل ہو گئے۔ لیکن کھلے سیاسی خلا میں زندگی کے تجربے کی کمی اور تمام سماجی قوتوں کے درمیان اتفاق رائے کی کمی کی وجہ سے یہ خلا جلد ہی ایک کشمکش میں بدل گیا۔ سماجی قوتوں کا انتظام، خاص طور پر بعض گروہوں اور سیاسی جماعتوں کا جو مغرب اور مشرق کے سیاسی مکاتب فکر (لبرل ازم اور کمیونزم) سے متاثر تھے اور ان کا مکتب انقلاب اسلامی کے خلاف صف بندی، جو آپ کی سیاسی فکر سے ماخوذ تھی اور ولایت مدار کے لوگوں کی خواہشات نے تاریخ میں ان گنت تلخ واقعات کو انقلاب کا نشان بنایا۔  
 
یہ واقعات، امریکہ کی قیادت کے لیے عالمی استکبار کے مخالفانہ انداز اور مغرب اور مشرق کی اندرونی مخالف جماعتوں کی حمایت کے ساتھ ساتھ عراق میں بعثی حکومت پر رجعتی حکمرانوں کی جانب سے فوجی حملے کے ساتھ۔ عرب دنیا نے ایک ایسی صورتحال پیدا کی جہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک انقلاب کا رخ بدل سکتا ہے۔
لیکن خدا کا ہاتھ، امام کی ذہانت اور مستند قیادت، ایرانی عوام کی لگن، وفاداری اور بیداری نے انقلاب کی راہ ہموار کی۔  
 
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ فروری 1358 میں دل کے عارضے میں مبتلا ہونے کے بعد تہران تشریف لائے اور وہیں قیام کے بعد انقلاب کے جہاز کی قیادت سنبھالی۔ حکومتوں کی تبدیلی، تینوں قوتوں کے درمیان اختلافات، نظام کے بہت سے اہلکاروں کی شہادت، مسلط کردہ جنگ سے پیدا ہونے والے مسائل وغیرہ جیسے بحرانوں کو حل کیا گیا۔ فقیہ کی مطلق حاکمیت کے نظریہ کو پیش کرنے اور نظام کی اصلاح کی کونسل جیسے اداروں کی تشکیل میں ان کی تدبیر نے انقلاب سے پہلے بحرانوں سے نکلنے کی راہ ہموار کی۔  
 
ملت ایران بھی اپنے امام کے عظیم ورثے کی نگہبان تھی۔ ولایت مدار لوگوں کی امام کی طرف دلچسپی ایسی تھی کہ 1368 میں برسوں کی سختیوں اور تکالیف کے بعد اپنے پاکیزہ جسم کو الوداع کرتے ہوئے وطن میں داخل ہونے کے لمحے سے کئی گنا زیادہ ہجوم کی موجودگی اور ان کی محبتیں اور استقامت زیادہ گہرا ہو گئی اور امام اور انقلاب کے راستے کو جاری رکھنے کا ان کا ارادہ زیادہ سنجیدہ ہو گیا۔
 
ان کا نظام تمام سازشوں اور واقعات کے باوجود پہلے سے زیادہ مستحکم ہو گیا۔ اسلامی جمہوریہ امام کی زندگی کا سب سے واضح ثمر ہے۔ انہوں نے اس سیاسی نظام کو اس طرح ڈیزائن کیا کہ یہ کسی فرد پر بھروسہ نہیں کرتا اور اپنی مرضی سے قوم کو قوت اور عزم کے ساتھ آگے بڑھنے کا حکم دیتے ہیں اور جانتے ہیں کہ کسی بندے کے جانے سے اس میں کوئی خلل نہیں آئے گا۔ قوم کی آہنی رکاوٹ کہ اعلیٰ اور اعلیٰ بندے خدمت میں ہیں اور اللہ اس قوم اور دنیا کے مظلوموں کا محافظ ہے۔


=== امت اسلامیہ کا اتحاد ===
=== امت اسلامیہ کا اتحاد ===
سطر 159: سطر 201:


=== اسلامی ممالک کے دو بنیادی مسائل ===
=== اسلامی ممالک کے دو بنیادی مسائل ===
ان کے نزدیک ان اسلامی ممالک کے لیے جو مسائل سب سے زیادہ ہیں ان کی بنیاد دو مسائل ہیں۔ ایک مسئلہ حکومتوں اور قوم کے درمیان مسئلہ ہے، کہ حکومتیں نام کے مطابق قوم سے الگ ہوتی ہیں، یعنی نہ حکومت خود کو قوم سے جانتی ہے، نہ قوم حکومت سے۔ اس مسئلے کی کنجی حکومتوں کے ہاتھ میں ہے، اگر حکومتیں ایسی ہوں کہ قوم محسوس کرے کہ وہ اس کے خادم ہیں تو قومیں تعاون کے لیے تیار ہیں۔ دوسرا مسئلہ جو اسلامی حکومتوں اور اقوام کے لیے بنیادی مسائل میں سے ایک ہے۔ یہ خود حکومتوں کے درمیان مسئلہ ہے۔ ایک ہی وقت میں، جب اسلام نے اتحاد کی دعوت دی ہے، اور [[قرآن|قرآن کریم]] مسلمانوں اور مومنوں کو بھائی مانتا ہے، اسی وقت، ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اسلامی ریاستوں کے درمیان اختلافات ہیں۔
ان کے نزدیک ان اسلامی ممالک کے لیے جو مسائل سب سے زیادہ ہیں ان کی بنیاد دو مسائل ہیں۔ ایک مسئلہ حکومتوں اور قوم کے درمیان مسئلہ ہے، کہ حکومتیں نام کے مطابق قوم سے الگ ہوتی ہیں، یعنی نہ حکومت خود کو قوم سے جانتی ہے، نہ قوم حکومت سے۔ اس مسئلے کی کنجی حکومتوں کے ہاتھ میں ہے، اگر حکومتیں ایسی ہوں کہ قوم محسوس کرے کہ وہ اس کے خادم ہیں تو قومیں تعاون کے لیے تیار ہیں۔  
کیوں دو حکومتیں جو دونوں اسلامی ہیں، اور دونوں ایک ہی رجحان سے تعلق رکھتی ہیں جو ایک اسلامی رجحان ہے، ایک ہی سچائی سے تعلق رکھتی ہے، ان کا قرآن ایک ہے، ان کا پیغمبر ایک ہے - وہ اسلام کی دعوت کو کیوں قبول نہ کریں؟ وہ دعوت جو ان کے اپنے مفاد میں ہو۔ اگر اس دعوت کو قبول کر لیا جائے اور اسلامی ریاستیں متحد ہو جائیں، خواہ ان کے ملکوں کی سرحدیں محفوظ ہو جائیں، لیکن وہ متحد ہیں، اگر یہ اتحاد حاصل ہو جائے تو ایک ارب مسلم آبادی ایک ایسی عظیم طاقت ہو گی جو سب سے بڑھ کر ہے۔  
 
مسلمانوں کا ایک گروہ شیعہ ہے، اور ایک گروہ سنی مسلمانوں کا، ایک گروہ حنفی مسلمانوں کا، ایک گروہ حنبلی مسلمانوں کا، اور ایک گروہ اخباری مسلمانوں کا۔ اس معنی کا ڈیزائن شروع سے درست نہیں تھا۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ہر کوئی اسلام کی خدمت کرنا چاہتا ہے، ان مسائل کو نہیں اٹھانا چاہیے۔ ہم سب بھائی بھائی ہیں اور اکٹھے ہیں۔ البتہ آپ کے علماء نے ایک بات پر فتوے دیے اور آپ نے اپنے علماء کی تقلید کی اور حنفی ہو گئے۔ ایک گروہ نے شافعی کا فتویٰ نافذ کیا اور دوسرے گروہ نے [[جعفر بن محمد|حضرت صادق]] کا فتویٰ نافذ کیا، یہ شیعہ ہوگئے، یہ اختلاف کی وجہ نہیں ہیں۔ ہم میں اختلاف یا تضاد نہیں ہونا چاہیے، ہم سب بھائی بھائی ہیں۔ شیعہ اور سنی بھائیوں کو کسی قسم کے اختلافات سے گریز کرنا چاہیے۔ آج ہمارے درمیان اختلاف صرف ان لوگوں کے فائدے کے لیے ہے جو نہ شیعہ مذہب کو مانتے ہیں، نہ حنفی مسلک کو، نہ دیگر اختلافات کو، وہ نہ یہ چاہتے ہیں نہ وہ، وہ تمہارے درمیان اختلاف پیدا کرنے کا طریقہ جانتے ہیں۔
دوسرا مسئلہ جو اسلامی حکومتوں اور اقوام کے لیے بنیادی مسائل میں سے ایک ہے۔ یہ خود حکومتوں کے درمیان مسئلہ ہے۔ ایک ہی وقت میں، جب اسلام نے اتحاد کی دعوت دی ہے، اور [[قرآن|قرآن کریم]] مسلمانوں اور مومنوں کو بھائی مانتا ہے، اسی وقت، ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اسلامی ریاستوں کے درمیان اختلافات ہیں۔
کیوں دو حکومتیں جو دونوں اسلامی ہیں، اور دونوں ایک ہی رجحان سے تعلق رکھتی ہیں جو ایک اسلامی رجحان ہے، ایک ہی سچائی سے تعلق رکھتی ہے، ان کا قرآن ایک ہے، ان کا [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر]] ایک ہے- وہ اسلام کی دعوت کو کیوں قبول نہ کریں؟  
 
وہ دعوت جو ان کے اپنے مفاد میں ہو۔ اگر اس دعوت کو قبول کر لیا جائے اور اسلامی ریاستیں متحد ہو جائیں، خواہ ان کے ملکوں کی سرحدیں محفوظ ہو جائیں، لیکن وہ متحد ہیں، اگر یہ اتحاد حاصل ہو جائے تو ایک ارب مسلم آبادی ایک ایسی عظیم طاقت ہو گی جو سب سے بڑھ کر ہے۔  
مسلمانوں کا ایک گروہ شیعہ ہے، اور ایک گروہ [[اہل السنۃ والجماعت|سنی]] مسلمانوں کا، ایک گروہ حنفی مسلمانوں کا، ایک گروہ حنبلی مسلمانوں کا، اور ایک گروہ اخباری مسلمانوں کا۔ اس معنی کا ڈیزائن شروع سے درست نہیں تھا۔  
 
ایک ایسے معاشرے میں جہاں ہر کوئی اسلام کی خدمت کرنا چاہتا ہے، ان مسائل کو نہیں اٹھانا چاہیے۔ ہم سب بھائی بھائی ہیں اور اکٹھے ہیں۔ البتہ آپ کے علماء نے ایک بات پر فتوے دیے اور آپ نے اپنے علماء کی تقلید کی اور حنفی ہو گئے۔ ایک گروہ نے شافعی کا فتویٰ نافذ کیا اور دوسرے گروہ نے [[جعفر بن محمد|حضرت صادق]] کا فتویٰ نافذ کیا، یہ شیعہ ہوگئے، یہ اختلاف کی وجہ نہیں ہیں۔ ہم میں اختلاف یا تضاد نہیں ہونا چاہیے، ہم سب بھائی بھائی ہیں۔ شیعہ اور سنی بھائیوں کو کسی قسم کے اختلافات سے گریز کرنا چاہیے۔  
 
آج ہمارے درمیان اختلاف صرف ان لوگوں کے فائدے کے لیے ہے جو نہ شیعہ مذہب کو مانتے ہیں، نہ حنفی مسلک کو، نہ دیگر اختلافات کو، وہ نہ یہ چاہتے ہیں نہ وہ، وہ تمہارے درمیان اختلاف پیدا کرنے کا طریقہ جانتے ہیں۔


=== رحلت ===
=== رحلت ===
آپ کا 28 مئی 1368 کو نظام انہضام میں خرابی کی وجہ سے طبی آپریشن ہوا۔ 13 جون 1368 (3 جون 1989 عیسوی) بروز ہفتہ 13 جون 1368 (3 جون 1989ء) کی رات 10 بج کر 20 منٹ پر 13 جون کی سہ پہر تین بجے آپ کی بیماری کے دوران جو بنیادی مسئلہ پیدا ہوا تھا 1409 ہجری کو 87 کی عمر میں ان کی روحیں اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔
آپ کا 28 مئی 1368 کو نظام انہضام میں خرابی کی وجہ سے طبی آپریشن ہوا۔ 13 جون 1368 (3 جون 1989ء) بروز ہفتہ 13 جون 1368 (3 جون 1989ء) کی رات 10 بج کر 20 منٹ پر 13 جون کی سہ پہر تین بجے آپ کی بیماری کے دوران جو بنیادی مسئلہ پیدا ہوا تھا 1409 ہجری کو 87 کی عمر میں ان کی روحیں اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔
ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی رپورٹ کے مطابق ان کے بعد مادی اثاثوں میں سے کیا بچا تھا؟آئین کے آرٹیکل 142 کے مطابق وہ قائد اور اعلیٰ عہدہ داروں کی جائیداد کی جانچ پڑتال اور جانچ پڑتال کے پابند تھے۔ ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے اور بعد میں نظام، اور امام وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے جائیداد کی گوشوارہ 24 جنوری 1359 کو سپریم کورٹ کو بھیجی - جو اس طرح ہے: امام کی واحد غیر منقولہ جائیداد قم میں ان کا پرانا گھر تھا، جو 1343 میں ان کی جلاوطنی کے بعد سے تحریک کے مقاصد اور لوگوں کے اجتماع کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ مختصراً یہ کہ گھر کی بنیادی چیزیں تھیں اور استعمال شدہ قالین کے دو ٹکڑے کسی کے نہیں ہیں اور ضرورت مند سادات کو دیے جائیں۔ اس کے پاس سے کوئی نقد رقم باقی نہیں رہی اور جو کچھ بچا ہے وہ رقم ہے جس پر ورثاء کا کوئی حق نہیں۔ اس طرح تقریباً نوے سال زندہ رہنے والے اور لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والے آدمی کے باقی ماندہ اثاثے شیشے، ناخن تراشے، کنگھی، مالا، قرآن، نمازی قالین، پگڑی، اس کے روحانی لباس اور مذہبی کتابیں تھے۔
=== جائیداد ===
جنازے کی تقریب 16 جون کو لاکھوں لوگوں کی موجودگی میں ادا کی گئی اور اسی دن ان کی تدفین تہران کے بہشت زہرا میں کی گئی جہاں اب امام خمینی کا مزار ہے۔ وہ ایک پرسکون دل، ایک پراعتماد دل، ایک خوش روح، اور خُدا کے فضل کی امید رکھنے والے ضمیر کے ساتھ خُدا سے ملنے کے لیے دوڑا۔
ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی رپورٹ کے مطابق ان کے بعد مادی اثاثوں میں سے کیا بچا تھا؟آئین کے آرٹیکل 142 کے مطابق وہ قائد اور اعلیٰ عہدہ داروں کی جائیداد کی جانچ پڑتال اور جانچ پڑتال کے پابند تھے۔ ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے اور بعد میں نظام، اور امام وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے جائیداد کی گوشوارہ 24 جنوری 1359 کو سپریم کورٹ کو بھیجی- جو اس طرح ہے: امام کی واحد غیر منقولہ جائیداد قم میں ان کا پرانا گھر تھا، جو 1343 میں ان کی جلاوطنی کے بعد سے تحریک کے مقاصد اور لوگوں کے اجتماع کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔  
 
مختصراً یہ کہ گھر کی بنیادی چیزیں تھیں اور استعمال شدہ قالین کے دو ٹکڑے کسی کے نہیں ہیں اور ضرورت مند سادات کو دیے جائیں۔ اس کے پاس سے کوئی نقد رقم باقی نہیں رہی اور جو کچھ بچا ہے وہ رقم ہے جس پر ورثاء کا کوئی حق نہیں۔ اس طرح تقریباً نوے سال زندہ رہنے والے اور لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والے آدمی کے باقی ماندہ اثاثے شیشے، ناخن تراشے، کنگھی، مالا، قرآن، نمازی قالین، عمامہ، اس کے روحانی لباس اور مذہبی کتابیں تھے۔
=== نماز جنازہ ===
جنازے کی تقریب 16 جون کو لاکھوں لوگوں کی موجودگی میں ادا کی گئی اور اسی دن ان کی تدفین تہران کے بہشت زہرا میں کی گئی جہاں اب امام خمینی کا مزار ہے۔ آپ ایک پرسکون دل، ایک پراعتماد دل، ایک خوش روح، اور خُدا کے فضل کی امید رکھنے والے ضمیر کے ساتھ خُدا سے ملنے کے لیے دوڑا۔
 
== اقبال کی پیشگوئی ==
== اقبال کی پیشگوئی ==
می رسد مردی کہ زنجیر غلامان بشکند
می رسد مردی کہ زنجیر غلامان بشکند
سطر 186: سطر 241:
آج دنیا کی نظریں تہران پر مرکوز ہیں، جہاں اسلامی نظام کی باگ ڈورجانشین خمینی، آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے طاقتور ہاتھوں میں ہے۔
آج دنیا کی نظریں تہران پر مرکوز ہیں، جہاں اسلامی نظام کی باگ ڈورجانشین خمینی، آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے طاقتور ہاتھوں میں ہے۔


== آیت اللہ سید علی خامنہ ای  کی نظر میں ==
== امام خمینی  آیت اللہ سید علی خامنہ ای  کی نظر میں ==
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بےمثال اور ممتاز خصوصیات کے مالک تھے آپ کی شخصیت کے مختلف پہلو ؤں پر جتنا ھم غور کرتے ہیں آپ کی شخصیت اور بھی نمایاں اور بےمثال دکھائی دیتی ھے۔ اگرچہ آج انے فراق کا داغ ہمارے دلوں کو تڑپارہاہے اور غم کی سنگینی یمارے دلوں پر بوجھہ بنی ہوئی ہے انکے فقدان کا کہیں زیادہ احساس کررہاہوں
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بےمثال اور ممتاز خصوصیات کے مالک تھے آپ کی شخصیت کے مختلف پہلو ؤں پر جتنا ھم غور کرتے ہیں آپ کی شخصیت اور بھی نمایاں اور بےمثال دکھائی دیتی ھے۔ اگرچہ آج انے فراق کا داغ ہمارے دلوں کو تڑپارہاہے اور غم کی سنگینی یمارے دلوں پر بوجھہ بنی ہوئی ہے انکے فقدان کا کہیں زیادہ احساس کررہاہوں
<ref>وزیراعظم اور کابینہ سے بیعت کے موقع ہر قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 2007-6-6</ref>۔
<ref>وزیراعظم اور کابینہ سے بیعت کے موقع ہر قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 2007-6-6</ref>۔
=== ارادہ الہی اور شرعی ذمہ داریوں میں محو ===
=== ارادہ الہی اور شرعی ذمہ داریوں میں محو ===
امام کی شخصیت بڑی حد تک ان کے عظیم اہداف اور مقاصد سے وابستہ ہے۔ آپ اپنی بلند ہمتی کےباعث اعلیٰ اہداف کا انتخاب کیا کرتے تھے۔ عام لوگوں کے لیے ایسے اہداف کا تصور بھی دشوار تھا اور لوگ سمجھتے تھے کہ یہ اعلیٰ اہداف ناقابل حصول ہیں۔ لیکن آپ کی بلند ہمتی، ایمان و توکل،جہد مسلسل اور اس عظیم انسان کی ذات میں پوشیدہ بے پناہ صلاحیتیں اور توانائیاں کارفرما تھیں اور وہ اپنے مطلوبہ اہداف و مقاصد کی سمت بڑھتے چلے جاتے اور اچانک سب دیکھتے کہ وہ اعلیٰ اہداف حاصل ہوگئے ہیں۔
امام کی شخصیت بڑی حد تک ان کے عظیم اہداف اور مقاصد سے وابستہ ہے۔ آپ اپنی بلند ہمتی کےباعث اعلیٰ اہداف کا انتخاب کیا کرتے تھے۔ عام لوگوں کے لیے ایسے اہداف کا تصور بھی دشوار تھا اور لوگ سمجھتے تھے کہ یہ اعلیٰ اہداف ناقابل حصول ہیں۔ لیکن آپ کی بلند ہمتی، ایمان و توکل،جہد مسلسل اور اس عظیم انسان کی ذات میں پوشیدہ بے پناہ صلاحیتیں اور توانائیاں کارفرما تھیں اور وہ اپنے مطلوبہ اہداف و مقاصد کی سمت بڑھتے چلے جاتے اور اچانک سب دیکھتے کہ وہ اعلیٰ اہداف حاصل ہوگئے ہیں۔
آپ کے کام کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ آپ حکم الہی اور شرعی ذمہ داریوں کی ادائگی میں کھو جا یا کرتے تھے ۔ آپ کے سامنے ذمہ داریوں کی ادائگی کے سوا اور کچھ نہی ہوتا تھا۔ آپ حقیقی معنوں میں ایمان اور عمل صالح کے مصداق تھے۔ آپ کا ایمان پہاڑ کی مانند مستحکم تھا اور عمل صالح کی انجام دہی میں آپ کھبی نہ تھکنے والی حیرت انگیز شخصیت کے مالک تھے۔ (نیک) کاموں کی انجام دہی میں آپ انتہائی قوی اور باہمت شخصیت کے مالک تھے جو سبھی کے لئے حیران کن تھی۔
آپ کے کام کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ آپ حکم الہی اور شرعی ذمہ داریوں کی ادائگی میں کھو جا یا کرتے تھے ۔ آپ کے سامنے ذمہ داریوں کی ادائگی کے سوا اور کچھ نہی ہوتا تھا۔ آپ حقیقی معنوں میں ایمان اور عمل صالح کے مصداق تھے۔ آپ کا ایمان پہاڑ کی مانند مستحکم تھا اور عمل صالح کی انجام دہی میں آپ کھبی نہ تھکنے والی حیرت انگیز شخصیت کے مالک تھے۔ (نیک) کاموں کی انجام دہی میں آپ انتہائی قوی اور باہمت شخصیت کے مالک تھے جو سبھی کے لئے حیران کن تھی۔
<ref>وزیر اعظم اور کابینہ سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس
<ref>وزیر اعظم اور کابینہ سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس
1988-6-6</ref>۔
1988-6-6</ref>۔
=== جامع صفات کی حامل عظیم شخصیت ===
=== جامع صفات کی حامل عظیم شخصیت ===
ہمارے عظیم اور ہردلعزیز رہبر کبیر کی شخصیت کا در حقیقت انبیائے الہی اور آئمہ معصومین کے بعد کسی بھی اور شخصیت سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ہمارے لئے عطیہ الہی، حجت خدا اور عظمت الہی کی نشانی تھے۔ جب انسان انہیں دیکتھا تو بزرگان دین کی عظمت کا اندازہ کر لیتا۔ ہم [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول خدا]]، [[علی ابن ابی طالب|امیرالمومینین]] ، [[حسین بن علی|سید الشہداء]] [[جعفر بن محمد|امام جعفرصادق]] اور دیگر اولیاء علیہھم السلام کی عظمت کا صحیح تصور تک بھی نہی کرسکتے ۔ ہمارے ذہن اس سے کہیں چھوٹے ہیں کہ ان عظیم ہستیوں کی عظمت ذاتی کا احاطہ کر سکیں یا اسے دائرہ تصور میں لاسکیں ۔ لیکن جب کوئی شخص ہمارے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم اور ہمہ گیر شخصیت کودیکھتا ہے، قوت ایمانی، عقل سلیم، حکمت و دانا ئی، صبر و بردباری، سچائی و پاکیزگی ، تجملات دنیا سے بے اعتنائی،، زھدو تقویٰ و پرھزگاری، خوف خدا، اور اللہ تعلی کا پر خلوص عبادت کا مشاہدہ کرتا ہے تو اس عظیم انسان اور آسمان ولایت کے خورشید تابناک کے سامنے سر تعظیم خم کر دیتا ہے اور خود کو انکے سامنے ذرے سے بھی کمتر سمجھتا ہے ، انسان کو کسی حد تک اندازہ ہوتا ہے کہ انبیاء اور اولیاء معصومین کی ذات کس قدر عظیم ہے۔
ہمارے عظیم اور ہردلعزیز رہبر کبیر کی شخصیت کا در حقیقت انبیائے الہی اور آئمہ معصومین کے بعد کسی بھی اور شخصیت سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ہمارے لئے عطیہ الہی، حجت خدا اور عظمت الہی کی نشانی تھے۔ جب انسان انہیں دیکتھا تو بزرگان دین کی عظمت کا اندازہ کر لیتا۔ ہم [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول خدا]]، [[علی ابن ابی طالب|امیرالمومینین]] ، [[حسین بن علی|سید الشہداء]] [[جعفر بن محمد|امام جعفرصادق]] اور دیگر اولیاء علیہھم السلام کی عظمت کا صحیح تصور تک بھی نہی کرسکتے۔
 
ہمارے ذہن اس سے کہیں چھوٹے ہیں کہ ان عظیم ہستیوں کی عظمت ذاتی کا احاطہ کر سکیں یا اسے دائرہ تصور میں لاسکیں ۔ لیکن جب کوئی شخص ہمارے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم اور ہمہ گیر شخصیت کودیکھتا ہے، قوت ایمانی، عقل سلیم، حکمت و دانا ئی، صبر و بردباری، سچائی و پاکیزگی ، تجملات دنیا سے بے اعتنائی،، زھدو تقویٰ و پرھزگاری، خوف خدا، اور اللہ تعلی کا پر خلوص عبادت کا مشاہدہ کرتا ہے تو اس عظیم انسان اور آسمان ولایت کے خورشید تابناک کے سامنے سر تعظیم خم کر دیتا ہے اور خود کو انکے سامنے ذرے سے بھی کمتر سمجھتا ہے ، انسان کو کسی حد تک اندازہ ہوتا ہے کہ انبیاء اور اولیاء معصومین کی ذات کس قدر عظیم ہے۔
<ref>سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ارکان اور کمانڈروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1988-6-7</ref>۔
<ref>سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ارکان اور کمانڈروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1988-6-7</ref>۔
=== فاتح فتح الفتوح ===
=== فاتح فتح الفتوح ===
آپ نے محاذجنگ پر ملنے والی ایک کامیابی کے موقع پر مجاہدین سے فرمایا :فتح الفتوح کا مطلب آپ جیسے انسانوں اور جوانوں کی تربیت کرنا ہے۔ درحقیقت اس فتح الفتوح کے فاتح وہ خود تھے۔ وہ تھے جنہوں نے ایسے انسانوں کو تیار کیا تھا۔ وہ تھے جنہوں نے یہ ماحول تیار کیا تھا۔ وہ ہی تو تھے جنہوں نے یہ راستہ بنایا تھا۔ یہ آپ (رہ) ہی تھےجنہوں نے اسلامی اقدار کو زوال اور حاشئے پر چلے جانے کے بعد حیات نو بخشی۔ آپ کی میراث یہی اقدار ہیں اور اسلامی جمہوریہ ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کو چاہے وہ کسی بھی عہدے پر کیوں نہ ہوں، اسلامی جمہوری نطام اور اس کی اقدار کے تحفظ کے لئے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ اپنے عشق ومحبت کا ثبوت پیش کرنا چاہئے <ref>امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ, قائد انقلاب اسلامی کی نظر میں، [https://urdu.khamenei.ir/news/4260 khamenei.ir]</ref>۔
آپ نے محاذجنگ پر ملنے والی ایک کامیابی کے موقع پر مجاہدین سے فرمایا :فتح الفتوح کا مطلب آپ جیسے انسانوں اور جوانوں کی تربیت کرنا ہے۔ درحقیقت اس فتح الفتوح کے فاتح وہ خود تھے۔ وہ تھے جنہوں نے ایسے انسانوں کو تیار کیا تھا۔ وہ تھے جنہوں نے یہ ماحول تیار کیا تھا۔ وہ ہی تو تھے جنہوں نے یہ راستہ بنایا تھا۔ یہ آپ (رہ) ہی تھےجنہوں نے اسلامی اقدار کو زوال اور حاشئے پر چلے جانے کے بعد حیات نو بخشی۔ آپ کی میراث یہی اقدار ہیں اور اسلامی جمہوریہ ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کو چاہے وہ کسی بھی عہدے پر کیوں نہ ہوں، اسلامی جمہوری نطام اور اس کی اقدار کے تحفظ کے لئے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ اپنے عشق ومحبت کا ثبوت پیش کرنا چاہئے <ref>امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ, قائد انقلاب اسلامی کی نظر میں، [https://urdu.khamenei.ir/news/4260 khamenei.ir]</ref>۔
=== نماز شب کا گریہ ===
=== نماز شب کا گریہ ===
آپ ایسی عظیم شخصیت کے مالک تھے کہ انبیا اور آئمہ معصومین (علیم السلام ) کے علاوہ کسی اور میں ایسی خصوصیات اور پہلوؤں کا تصور بھی دشوار ہے۔ اس عظیم انسان نے قوت ایمانی کو عمل صالح کے ساتھ، آہنی ارادے کو بلند ہمتی، اخلاقی شجاعت کو حکمت و تدبیر، جرءت اظہار و بیان کو سچائی و متانت ، معنوی اور روحانی پاکیزگی کو ہوشیاری و کیاست ، تقویٰ و پرہیز گاری کو تیز رفتاری و استحکام ، قائدانہ رعب و دبدبے کو محبت و الفت کے ساتھ مختصر یہ کہ بہت سی پاکیزہ اور نادر صفات کہ جنکا صدیوں کے دوران بعض عظیم لوگوں میں جمع ہوجانا شاید ہی ممکن ہو اپنے مبارک وجود میں جمع کیا۔ یہ ساری صفات آپ کی نادر روزگار شخصیت میں موجود تھیں، آپ کی شخصیت بے نظیر تھی اور آپ کی انسانی عظمت ا تصور و تخیل سے بالا تر ہے۔
آپ ایسی عظیم شخصیت کے مالک تھے کہ انبیا اور آئمہ معصومین (علیم السلام ) کے علاوہ کسی اور میں ایسی خصوصیات اور پہلوؤں کا تصور بھی دشوار ہے۔ اس عظیم انسان نے قوت ایمانی کو عمل صالح کے ساتھ، آہنی ارادے کو بلند ہمتی، اخلاقی شجاعت کو حکمت و تدبیر، جرءت اظہار و بیان کو سچائی و متانت ، معنوی اور روحانی پاکیزگی کو ہوشیاری و کیاست ، تقویٰ و پرہیز گاری کو تیز رفتاری و استحکام ، قائدانہ رعب و دبدبے کو محبت و الفت کے ساتھ  
وہ ملت ایران کے لئے رہبر، باپ، استاد، مقصود اور محبوب اور مستضعفین عالم خاص طورپرمسلمانوں کے لئے روشن مستقبل کی نوید تھے۔ وہ خدا کے صالح و متواضع بندے، نیمہ شب میں پیش پروردگار گریہ کرنے والے ہمارے دور کی عظیم شخصیت تھے۔ وہ مسلمان کامل کے لئے سر مشق عمل اور ایک اسلامی رہنما کا بے بدل نمونہ تھے۔ انہوں نے اسلام کو عظمت دی اور [[قرآن]] کے پرچم کو پوری دنیا میں لہرایا۔ انہوں نے ملت ایران کو اغیار کی قید سے نجات دلائی اور حمیت، تشخص اور خود اعتمادی عطا کی ۔ انہوں نے خود مختاری اور آزادی کا نعرہ پوری دنیا میں عام کیا اور دنیا کی ستم رسیدہ اقوام کے دلوں امید کی شمع روشن کی ۔ ایسے دور میں جہاں طاقتور سیاسی ہاتھ دین و روحانیت اور اخلاقی اقدار کو مٹانے پر کمر بستہ تھےا نہوں نے دین و روحانیت اور اخلاقی اقدار کی بنیادوں پر نظام حکومت قائم کیا اور اسلامی سیاست اور حکومت کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے دس سال تک تیز ترین طوفانوں اور فیصلہ کن مراحل میں اسلامی جمہوریہ کی پوری طاقت سے حفاظت اور رہنمائی کی اور اسے محفوظ مقام پر لا کھڑا کیا ۔ ان کی دس سالہ قیادت کا دور ہمارے عوام اور حکام کے لئے نا قابل فراموش اور قیمتی ذخیرہ ہے<ref>ملت ایران کے نام پیغام سے اقتباس 1989-6-8</ref>۔
 
مختصر یہ کہ بہت سی پاکیزہ اور نادر صفات کہ جنکا صدیوں کے دوران بعض عظیم لوگوں میں جمع ہوجانا شاید ہی ممکن ہو اپنے مبارک وجود میں جمع کیا۔ یہ ساری صفات آپ کی نادر روزگار شخصیت میں موجود تھیں، آپ کی شخصیت بے نظیر تھی اور آپ کی انسانی عظمت ا تصور و تخیل سے بالا تر ہے۔
وہ ملت ایران کے لئے رہبر، باپ، استاد، مقصود اور محبوب اور مستضعفین عالم خاص طورپرمسلمانوں کے لئے روشن مستقبل کی نوید تھے۔ وہ خدا کے صالح و متواضع بندے، نیمہ شب میں پیش پروردگار گریہ کرنے والے ہمارے دور کی عظیم شخصیت تھے۔  
 
وہ مسلمان کامل کے لئے سر مشق عمل اور ایک اسلامی رہنما کا بے بدل نمونہ تھے۔ انہوں نے اسلام کو عظمت دی اور [[قرآن]] کے پرچم کو پوری دنیا میں لہرایا۔ انہوں نے ملت ایران کو اغیار کی قید سے نجات دلائی اور حمیت، تشخص اور خود اعتمادی عطا کی ۔ انہوں نے خود مختاری اور آزادی کا نعرہ پوری دنیا میں عام کیا اور دنیا کی ستم رسیدہ اقوام کے دلوں امید کی شمع روشن کی ۔ ایسے دور میں جہاں طاقتور سیاسی ہاتھ دین و روحانیت اور اخلاقی اقدار کو مٹانے پر کمر بستہ تھے۔
 
انہوں نے دین و روحانیت اور اخلاقی اقدار کی بنیادوں پر نظام حکومت قائم کیا اور اسلامی سیاست اور حکومت کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے دس سال تک تیز ترین طوفانوں اور فیصلہ کن مراحل میں اسلامی جمہوریہ کی پوری طاقت سے حفاظت اور رہنمائی کی اور اسے محفوظ مقام پر لا کھڑا کیا ۔ ان کی دس سالہ قیادت کا دور ہمارے عوام اور حکام کے لئے نا قابل فراموش اور قیمتی ذخیرہ ہے<ref>ملت ایران کے نام پیغام سے اقتباس 1989-6-8</ref>۔
 
=== بے مثال شخصیت ===
=== بے مثال شخصیت ===
آپ کی شخصیت کا دنیا کے کسی بھی رہنماسے موازنہ نہی کیا جاسکتا، صرف انبیاء اور آئمہ معصومین کے ساتھ موازنہ کیا جاسکتا ہے ۔ وہ ان ہی کے شاگرد تھے یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی لیڈر کے ساتھ موازنہ نہی کیا جاسکتا <ref>اسلامی انقلاب کمیٹی کے ارکان اور کمانڈروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-8</ref>۔
آپ کی شخصیت کا دنیا کے کسی بھی رہنماسے موازنہ نہی کیا جاسکتا، صرف انبیاء اور آئمہ معصومین کے ساتھ موازنہ کیا جاسکتا ہے ۔ وہ ان ہی کے شاگرد تھے یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی لیڈر کے ساتھ موازنہ نہی کیا جاسکتا <ref>اسلامی انقلاب کمیٹی کے ارکان اور کمانڈروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-8</ref>۔
سطر 207: سطر 274:
آپ انتہائی دانا، دوراندایش، انسان شناس،حکیم،تیز بین،حلیم الطبع اور مستقبل کو دیکھنے والے تھے،ان صفات میں سے کوئی ایک بھی صفت کسی بھی شخص کو اعلیٰ مرتبہ پر فائز کرنے اور دوسروں کے لئے قابل احترام بنا نے کے لیے کافی تھی۔ آپ ایسے متین، بردبار اور حلیم الطبع تھے کہ اگر کسی محفل میں سو آدمی بات کر رہے ہوں اور انکی بات سے آپ متفق نہ ہوں تب بھی اگر ضروری نہ ہوتا توآپ کوئی بات نہی کرتے اور خاموش رہتے، حالانکہ اگر معمولی لوگوں کے سامنے انکے مزاج کے خلاف کوئی بات کی جائے تو ان میں فوری جواب دینےکا جذبہ کروٹیں لینے لگتا ہے <ref>اسلامی انقلاب کمیٹی کے ارکان اور کمانڈروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-8</ref>۔
آپ انتہائی دانا، دوراندایش، انسان شناس،حکیم،تیز بین،حلیم الطبع اور مستقبل کو دیکھنے والے تھے،ان صفات میں سے کوئی ایک بھی صفت کسی بھی شخص کو اعلیٰ مرتبہ پر فائز کرنے اور دوسروں کے لئے قابل احترام بنا نے کے لیے کافی تھی۔ آپ ایسے متین، بردبار اور حلیم الطبع تھے کہ اگر کسی محفل میں سو آدمی بات کر رہے ہوں اور انکی بات سے آپ متفق نہ ہوں تب بھی اگر ضروری نہ ہوتا توآپ کوئی بات نہی کرتے اور خاموش رہتے، حالانکہ اگر معمولی لوگوں کے سامنے انکے مزاج کے خلاف کوئی بات کی جائے تو ان میں فوری جواب دینےکا جذبہ کروٹیں لینے لگتا ہے <ref>اسلامی انقلاب کمیٹی کے ارکان اور کمانڈروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-8</ref>۔
=== نفس اور خواہشات پر مسلط انسان ===
=== نفس اور خواہشات پر مسلط انسان ===
حقیقتا ہمارے ہردلعزیز امام جیسے بے نظیر اور عظیم انسان کو منتخب انسان، عظیم دماغ،پاکیزہ ترین دل نذرانہ تکریم و تعظیم پیش کرتے ہیں ۔ ظاہری عہدے اور مقام کی بنا پر جن لوگوں کا احترام کیا جاتا ہے ان میں اور ایسے شخص میں جسکا اسکی شخصیت و عظمت اسکی گہرائی اور گیرائی اور جس کی حیرت انگیز صفات، ہر محب کمال انسان کو تعظیم و احترام اور تعریف ستائیش کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں، بڑا فرق ہے ۔
حقیقتا ہمارے ہردلعزیز امام جیسے بے نظیر اور عظیم انسان کو منتخب انسان، عظیم دماغ،پاکیزہ ترین دل نذرانہ تکریم و تعظیم پیش کرتے ہیں ۔ ظاہری عہدے اور مقام کی بنا پر جن لوگوں کا احترام کیا جاتا ہے ان میں اور ایسے شخص میں جسکا اسکی شخصیت و عظمت اسکی گہرائی اور گیرائی اور جس کی حیرت انگیز صفات، ہر محب کمال انسان کو تعظیم و احترام اور تعریف ستائیش کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں، بڑا فرق ہے۔
 
 
آپ مختلف النوع صفات کے مالک تھے: آپ انتہائی خرد مند دانا منکسر المزاج ، زیرک و ہوشیار و بیدار، محکم و مہربان بردبار اور متقی انسان تھے۔ انکے سامنے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش نہی کیا جاسکتا تھا ۔ وہ آہنی ارادے کے مالک تھے اور کوئی بھی چیز انکی راہ میں رکاوٹ نہی بن سکتی تھی۔۔ وہ انتہائی رحم دل اور مہربان تھے، چاہے وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات کا وقت ہو یا انسانی زندگی کے ایسے مواقع ہوں جہاں فطری طور پر دل محبت اور مہربانی پر مجبور ہوجاتا ہے۔ نفسانی خواہشات، مادی لذات انکے وجود کی اعلی چوٹیوں کو نہی چھو سکتے تھے۔ وہ ہواء نفس اور خواہشات پر پوری طرح مسلط تھے، خواہشات ان پر غلبہ نہی کر سکتی تھیں۔ وہ صابر و برد بار تھے اور سخت سے سخت حالات میں بھی انکے بحر بے کراں میں تلاطم پیدا نہی ہوتا تھا ۔
آپ مختلف النوع صفات کے مالک تھے: آپ انتہائی خرد مند دانا منکسر المزاج ، زیرک و ہوشیار و بیدار، محکم و مہربان بردبار اور متقی انسان تھے۔ انکے سامنے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش نہی کیا جاسکتا تھا ۔ وہ آہنی ارادے کے مالک تھے اور کوئی بھی چیز انکی راہ میں رکاوٹ نہی بن سکتی تھی۔۔ وہ انتہائی رحم دل اور مہربان تھے، چاہے وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات کا وقت ہو یا انسانی زندگی کے ایسے مواقع ہوں جہاں فطری طور پر دل محبت اور مہربانی پر مجبور ہوجاتا ہے۔ نفسانی خواہشات، مادی لذات انکے وجود کی اعلی چوٹیوں کو نہی چھو سکتے تھے۔ وہ ہواء نفس اور خواہشات پر پوری طرح مسلط تھے، خواہشات ان پر غلبہ نہی کر سکتی تھیں۔ وہ صابر و برد بار تھے اور سخت سے سخت حالات میں بھی انکے بحر بے کراں میں تلاطم پیدا نہی ہوتا تھا ۔
=== افق انسانی کا سورج ===
=== افق انسانی کا سورج ===
میں تاریخ ایران میں سورج کی مانند چمکنے والے اس عظیم انسان کے اعلی انسانی کمالات کو بیان کر نے سے قاصر ہوں ۔ میں برسوں تک آپکی خدمت می رہا ہوں۔ ۱۳۳۷ میں انسے ملا اور اور انکے درس میں شریک ہونے لگا۔ زندگی کے مختلف ادوار میں اور بحرانی حالات میں نے انکے جچے تلے اقدامات کا مشاہدہ کیا ۔ وہ غیر معمولی انسان تھے ، وہ ہم ایسے با لکل نہی تھے۔ حقیقتا اس عظیم انسان کی صفات اور خصوصیات کو میں بیان نہی کرسکتا <ref>فوج میں امام خمینی کے نمائدے، وزیر دفاع اور دیگر عہدیداروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-8</ref>۔
میں تاریخ ایران میں سورج کی مانند چمکنے والے اس عظیم انسان کے اعلی انسانی کمالات کو بیان کر نے سے قاصر ہوں ۔ میں برسوں تک آپکی خدمت می رہا ہوں۔ ۱۳۳۷ میں انسے ملا اور اور انکے درس میں شریک ہونے لگا۔ زندگی کے مختلف ادوار میں اور بحرانی حالات میں نے انکے جچے تلے اقدامات کا مشاہدہ کیا ۔ وہ غیر معمولی انسان تھے ، وہ ہم ایسے با لکل نہی تھے۔ حقیقتا اس عظیم انسان کی صفات اور خصوصیات کو میں بیان نہی کرسکتا <ref>فوج میں امام خمینی کے نمائدے، وزیر دفاع اور دیگر عہدیداروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-8</ref>۔
=== مخلص اور عبادت گزار ===
=== مخلص اور عبادت گزار ===
اصل بات یہ ہے کہ اگر آپ کی روحانی شخصیت خلوص اور بندگی نہ ہوتی تو وہ یہ کامیابیاں کبھی حاصل نہ کر پاتے ۔ یہ کارنامہ اس قدر عظیم ہے کہ خدا سے رابطے کے بغیر کوئی بھی شخص،تما متر خصوصیات کے باوجود بھی انجام نہی دے سکتا
اصل بات یہ ہے کہ اگر آپ کی روحانی شخصیت خلوص اور بندگی نہ ہوتی تو وہ یہ کامیابیاں کبھی حاصل نہ کر پاتے ۔ یہ کارنامہ اس قدر عظیم ہے کہ خدا سے رابطے کے بغیر کوئی بھی شخص،تما متر خصوصیات کے باوجود بھی انجام نہی دے سکتا۔
 
آپ دنیا میں جو یہ عظیم تحرک پیدا کرنے میں کامیاب ہو ئے، اسکی وجہ یہ کہ آپ کا خدا سے رابطہ تھا اور آپکو اس راستے میں کسی اور چیز کی پرواہ نہیں تھی۔ آج جب وہ ہمارے درمیان نہی ہیں، ان کی تعریفوں اور لوگوں کے تاثرات کا سیلاب امنڈ آیا ہے اور پوری دنیا انکے اس عظیم کارنامے کی عظمت کا، جس نے انسانوں کے سمندر کو موجزن کر دیا ہے، اعتراف کررہی ہے۔
آپ دنیا میں جو یہ عظیم تحرک پیدا کرنے میں کامیاب ہو ئے، اسکی وجہ یہ کہ آپ کا خدا سے رابطہ تھا اور آپکو اس راستے میں کسی اور چیز کی پرواہ نہیں تھی۔ آج جب وہ ہمارے درمیان نہی ہیں، ان کی تعریفوں اور لوگوں کے تاثرات کا سیلاب امنڈ آیا ہے اور پوری دنیا انکے اس عظیم کارنامے کی عظمت کا، جس نے انسانوں کے سمندر کو موجزن کر دیا ہے، اعتراف کررہی ہے۔
یہ عظیم کارنامہ صرف اور صرف عزم ، استقامت، بہادری، ہوشیاری، باریک بینی اور مستقبل شناسی کے ذریعے ہی ممکن تھا تاہم یہ صفات جوش و ولولے کے اس عظیم طوفان کو وجود میں لانے سے قاصر تھیں ، اصل بات خدا سے رابطہ اور اس سے مدد مانگنا تھا ۔ اور اسی چیز نے امام (رہ) کے نام اور انکے کارنامے کو تاریخ میں ابدی بنا دیا ہے<ref>تعمیری جہاد کے مجاہدین سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس1989-6-10</ref>۔
یہ عظیم کارنامہ صرف اور صرف عزم ، استقامت، بہادری، ہوشیاری، باریک بینی اور مستقبل شناسی کے ذریعے ہی ممکن تھا تاہم یہ صفات جوش و ولولے کے اس عظیم طوفان کو وجود میں لانے سے قاصر تھیں ، اصل بات خدا سے رابطہ اور اس سے مدد مانگنا تھا ۔ اور اسی چیز نے امام (رہ) کے نام اور انکے کارنامے کو تاریخ میں ابدی بنا دیا ہے<ref>تعمیری جہاد کے مجاہدین سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس1989-6-10</ref>۔
=== خلوص کا پیکر ===
=== خلوص کا پیکر ===
ہمارے عظیم رہبرو رہنما اور آپ خلد آشیاں دنیا کی درخشاں شخصیت تھے۔ حقیقتا ان کے جیسا رہبر نہ اس زمانے میں ہے اور نہ اس سے پہلے کوئی گزرا ہے ۔ دنیا کی معروف شخصیات کے درمیان، انبیا اور اولیا علیھم السلام کے بعد ایسی عظیم، ہمہ جہتی اور ہمہ گیر شخصیت دکھائی نہی دیتی۔ میں اس بات پر پورا یقین رکھتاہوں کہ اگر یہ عظیم انسان، علم و یقین، دانائی و بہادری اور مضبوط اردے جیسی تمام مثبت خصوصیات کے ساتھ ساتھ ، اخلاص(عمل) اور خدا سے خاص رابطے سے بہرہ مند نہ ہوتے تو وہ کبھی کامیاب نہی ہو سکتے تھے۔ یہ کامیابی ایسے حالات میں نصیب ہوئی جب دنیا میں تمام علامتیں دین کی تنہائی اس کی فرسودگی اور شیطانی و مادی افکار کے غلبے پر دلالت کررہی تھیں <ref>نگہبان کونسل کے فقہا اور قانون دانوں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-11</ref>۔
ہمارے عظیم رہبرو رہنما اور آپ خلد آشیاں دنیا کی درخشاں شخصیت تھے۔ حقیقتا ان کے جیسا رہبر نہ اس زمانے میں ہے اور نہ اس سے پہلے کوئی گزرا ہے ۔ دنیا کی معروف شخصیات کے درمیان، انبیا اور اولیا علیھم السلام کے بعد ایسی عظیم، ہمہ جہتی اور ہمہ گیر شخصیت دکھائی نہی دیتی۔ میں اس بات پر پورا یقین رکھتاہوں کہ اگر یہ عظیم انسان، علم و یقین، دانائی و بہادری اور مضبوط اردے جیسی تمام مثبت خصوصیات کے ساتھ ساتھ ، اخلاص(عمل) اور خدا سے خاص رابطے سے بہرہ مند نہ ہوتے تو وہ کبھی کامیاب نہی ہو سکتے تھے۔ یہ کامیابی ایسے حالات میں نصیب ہوئی جب دنیا میں تمام علامتیں دین کی تنہائی اس کی فرسودگی اور شیطانی و مادی افکار کے غلبے پر دلالت کررہی تھیں <ref>نگہبان کونسل کے فقہا اور قانون دانوں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-11</ref>۔
سطر 279: سطر 352:
انھوں نے طاغوتی بتوں کو پاش پاش کردیا اور شرک آلود اعتقادات کو کاری ضرب لگائي، آپ نے پوری دنیا کو یہ سمجھا دیا کہ انسان کامل ہونا حضرت علی کے نقش قدم پر چلنا اور عصمت کی سرحدوں کے قریب تک پہنچ جانا کوئی افسانہ نہیں ہے۔ انھوں نے قوموں کو بھی یہ باور کرا دیا کہ خود اعتمادی کے ساتھ تسلط پسندوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرنا ممکن ہے ۔ قرب حق کی چمک صاحبان بصیرت نے ان کے چہرہ منور پر دیکھی ہے اور ان کی حیات و ممات کے دوران ان پر نازل ہونے والی الہی نعمات و برکات سے استفادہ کیا ہے۔ ان کی دعائیں مستجاب ہوتی تھیں آپ کہتے تھے ( الہی لم یزل برّک علیّ ایام حیاتی ، فلاتقطع برّک عنی فی مماتی ) <ref>امام خمینی کے چہلم کی مناسبت سے عوام کے نام پیغام2007-7-14</ref>
انھوں نے طاغوتی بتوں کو پاش پاش کردیا اور شرک آلود اعتقادات کو کاری ضرب لگائي، آپ نے پوری دنیا کو یہ سمجھا دیا کہ انسان کامل ہونا حضرت علی کے نقش قدم پر چلنا اور عصمت کی سرحدوں کے قریب تک پہنچ جانا کوئی افسانہ نہیں ہے۔ انھوں نے قوموں کو بھی یہ باور کرا دیا کہ خود اعتمادی کے ساتھ تسلط پسندوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرنا ممکن ہے ۔ قرب حق کی چمک صاحبان بصیرت نے ان کے چہرہ منور پر دیکھی ہے اور ان کی حیات و ممات کے دوران ان پر نازل ہونے والی الہی نعمات و برکات سے استفادہ کیا ہے۔ ان کی دعائیں مستجاب ہوتی تھیں آپ کہتے تھے ( الہی لم یزل برّک علیّ ایام حیاتی ، فلاتقطع برّک عنی فی مماتی ) <ref>امام خمینی کے چہلم کی مناسبت سے عوام کے نام پیغام2007-7-14</ref>


=== امام خمینی (رہ) کے دس عظیم کارنامے ===
=== آپ کے دس عظیم کارنامے ===
امام خمینی (رہ) کاپہلاعظیم کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے اسلام کو حیات نو عطا کی۔ گزشتہ دوسو برسوں سے سامراجی مشینریوں نے یہ کوشش کی کہ اسلام کوفراموش کردیاجائے۔ برطانیہ کے ایک وزیر اعظم نے دنیاکے سامراجی سیاستدانوں کے اجتماع میں اعلان کیا تھا کہ ہمیں چاہئے کہ اسلام کو اسلامی ملکوں میں گوشہ نشین کردیں۔ اس سے پہلے بھی اور اس کے بعد اس کام کے لئے بےپناہ پیسے خرچ کئے گئے تاکہ اسلام پہلے مرحلے میں لوگوں کی زندگی سے ختم ہوجائے اوردوسرے مرحلے میں لوگوں کے دل و دماغ و ذہن سے نکل جائے کیونکہ سامراجی طاقتوں کو یہ معلوم تھا کہ یہ دین بڑی طاقتوں کی لوٹ کھسوٹ اور اسی طرح سامراجی طاقتوں کے تسلط پسندانہ عزا‏ئم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمارے امام نے اسلام کودوبارہ زندہ کیا اسلام کوانھوں نے لوگوں کے ذہنوں اورعمل میں اوراسی طرح دنیاکے سیاسی میدان میں اتارا ۔
امام خمینی (رہ) کاپہلاعظیم کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے اسلام کو حیات نو عطا کی۔ گزشتہ دوسو برسوں سے سامراجی مشینریوں نے یہ کوشش کی کہ اسلام کوفراموش کردیاجائے۔ برطانیہ کے ایک وزیر اعظم نے دنیاکے سامراجی سیاستدانوں کے اجتماع میں اعلان کیا تھا کہ ہمیں چاہئے کہ اسلام کو اسلامی ملکوں میں گوشہ نشین کردیں۔ اس سے پہلے بھی اور اس کے بعد اس کام کے لئے بےپناہ پیسے خرچ کئے گئے تاکہ اسلام پہلے مرحلے میں لوگوں کی زندگی سے ختم ہوجائے اوردوسرے مرحلے میں لوگوں کے دل و دماغ و ذہن سے نکل جائے کیونکہ سامراجی طاقتوں کو یہ معلوم تھا کہ یہ دین بڑی طاقتوں کی لوٹ کھسوٹ اور اسی طرح سامراجی طاقتوں کے تسلط پسندانہ عزا‏ئم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمارے امام نے اسلام کودوبارہ زندہ کیا اسلام کوانھوں نے لوگوں کے ذہنوں اورعمل میں اوراسی طرح دنیاکے سیاسی میدان میں اتارا ۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا دوسرا بڑا کارنامہ مسلمانوں کے وقار کو بحال کرنا تھا امام خمینی کی تحریک کے نتیجے میں پوری دنیاکے مسلمانوں نے عزت وسربلندی کااحساس کیا اور اسلام محدود بحثوں سے نکل کر باقاعدہ سماجی اور سیاسی میدان میں وارد ہوا۔ ایک بڑے ملک کے ایک مسلمان شخص نے، جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں مجھ سے کہاکہ اسلامی انقلاب سے پہلے میں خود کو کبھی بھی دوسروں کے سامنے مسلمان ظاہر نہيں کرتا تھا ۔ اس ملک کے رسم و رواج کے مطابق سبھی لوگ وہاں کے مقامی نام رکھتے ۔ اگرچہ گھرکے اندرمسلمان اپنے بچوں کے نام اسلامی رکھتے لیکن گھرکے باہر وہاں کا مقامی نام پکاراجاتا اور اسلامی نام کوگھرکے باہرظاہرکرنے کی جرات نہ ہوتی تھی اوراس کو بتانے سے گریز کیا جاتا تھا ہم خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے احساس شرمندگی کرتے ، لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ہمارے یہاں کے لوگ بڑے فخر کے ساتھ اپنا اسلامی نام ظاہر کرتے ہيں اور اگر ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کیا ہیں اور آپ کون ہیں تو فخر کے ساتھ پہلے اسلامی نام بتاتے ہیں۔ بنابريں امام نے جوبڑاکارنامہ انجام دیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کو پوری دنیا میں عزت کا احساس ہونے لگا اوروہ اپنے مسلمان ہونے اور اسلامی کی پیروی کرنے پر فخر کرنے لگے۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا دوسرا بڑا کارنامہ مسلمانوں کے وقار کو بحال کرنا تھا امام خمینی کی تحریک کے نتیجے میں پوری دنیاکے مسلمانوں نے عزت وسربلندی کااحساس کیا اور اسلام محدود بحثوں سے نکل کر باقاعدہ سماجی اور سیاسی میدان میں وارد ہوا۔ ایک بڑے ملک کے ایک مسلمان شخص نے، جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں مجھ سے کہاکہ اسلامی انقلاب سے پہلے میں خود کو کبھی بھی دوسروں کے سامنے مسلمان ظاہر نہيں کرتا تھا ۔ اس ملک کے رسم و رواج کے مطابق سبھی لوگ وہاں کے مقامی نام رکھتے ۔ اگرچہ گھرکے اندرمسلمان اپنے بچوں کے نام اسلامی رکھتے لیکن گھرکے باہر وہاں کا مقامی نام پکاراجاتا اور اسلامی نام کوگھرکے باہرظاہرکرنے کی جرات نہ ہوتی تھی اوراس کو بتانے سے گریز کیا جاتا تھا ہم خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے احساس شرمندگی کرتے ، لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ہمارے یہاں کے لوگ بڑے فخر کے ساتھ اپنا اسلامی نام ظاہر کرتے ہيں اور اگر ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کیا ہیں اور آپ کون ہیں تو فخر کے ساتھ پہلے اسلامی نام بتاتے ہیں۔ بنابريں امام نے جوبڑاکارنامہ انجام دیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کو پوری دنیا میں عزت کا احساس ہونے لگا اوروہ اپنے مسلمان ہونے اور اسلامی کی پیروی کرنے پر فخر کرنے لگے۔
سطر 290: سطر 363:
امام کا نواں اہم کام ملت ایران کے اندر خود اعتمادی اور عزت نفس کا احیا تھا ۔ برادران گرامی ، فرد واحد کی مطلق العنان اور استبدادی حکومتوں نے سالہا سال ہماری قوم کو ایک کمزور قوم میں تبدیل کرکے رکھ دیا تھا وہ بھی ایک ایسی قوم جس کے اندر غیر معمولی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں اور صدر اسلام کے بعد سے پوری تاریخ میں اس کا شاندار علمی اورسیاسی ماضی تھا۔ غیر ملکی طاقتوں نے کافی عرصے تک جن میں کبھی انگریزوں تو کبھی روسیوں نے اور اسی طرح یورپی حکومتوں نے اور پھر اس کے بعد امریکیوں نے ہماری قوم کی تحقیر کی ہمااری قوم کو بھی یہ یقین ہوگیا تھا کہ وہ بڑے بڑے کاموں کو انجام دینے کی صلاحیت اور استعداد نہیں رکھتی۔ ملک کی تعمیر و ترقی میں وہ کچھ بھی کرنے کی توانائی نہیں رکھتی ، کچھ نیاکرنے اورخلاقیت کے لئے اس کے پاس صلاحیت نہیں ہے بلکہ دوسرے ہی آئیں اور ان کے لئے کام کریں ان پرحکومت کریں ان سے سخت لہجے میں باتیں کریں اور اس طرح ہماری قوم سے ان کا قومی وقار چھین لیا گيا تھا اور اس کی عزت نفس کا خون کر دیا گياتھا لیکن ہمارے امام نے ایران کے عوام میں قومی افتخار اور عزت نفس کو دوبارہ زندہ کر دیا۔ ہماری قوم کے اندر فرقہ پرستی اور غرور تکبر نہیں ہے لیکن اس کے اندر عزت و طاقت کا احساس ضرور پایا جاتا ہے ۔ آج ہماری قوم مشرق و مغرب کی مشترکہ سازشوں اور اپنے خلاف کسی بھی طرح کی دھونس و دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوتی اور کمزوری کا احساس نہیں کرتی۔ ہمارے جوان اس بات کا احساس کررہے ہیں کہ وہ خود اپنے ملک کی تعمیروترقی میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ لوگوں کو اب اپنی اس طاقت و توانائی کا احساس ہے کہ وہ مغرب و مشرق کی دھمکیوں اور خطرات کے مقابلے میں کھڑے ہو سکتے ہیں،عزت نفس کا یہ احساس اور یہ خود اعتمادی وحقیقی قومی افتخار امام خمینی نے قوم میں دوبارہ زندہ کیا ہے۔
امام کا نواں اہم کام ملت ایران کے اندر خود اعتمادی اور عزت نفس کا احیا تھا ۔ برادران گرامی ، فرد واحد کی مطلق العنان اور استبدادی حکومتوں نے سالہا سال ہماری قوم کو ایک کمزور قوم میں تبدیل کرکے رکھ دیا تھا وہ بھی ایک ایسی قوم جس کے اندر غیر معمولی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں اور صدر اسلام کے بعد سے پوری تاریخ میں اس کا شاندار علمی اورسیاسی ماضی تھا۔ غیر ملکی طاقتوں نے کافی عرصے تک جن میں کبھی انگریزوں تو کبھی روسیوں نے اور اسی طرح یورپی حکومتوں نے اور پھر اس کے بعد امریکیوں نے ہماری قوم کی تحقیر کی ہمااری قوم کو بھی یہ یقین ہوگیا تھا کہ وہ بڑے بڑے کاموں کو انجام دینے کی صلاحیت اور استعداد نہیں رکھتی۔ ملک کی تعمیر و ترقی میں وہ کچھ بھی کرنے کی توانائی نہیں رکھتی ، کچھ نیاکرنے اورخلاقیت کے لئے اس کے پاس صلاحیت نہیں ہے بلکہ دوسرے ہی آئیں اور ان کے لئے کام کریں ان پرحکومت کریں ان سے سخت لہجے میں باتیں کریں اور اس طرح ہماری قوم سے ان کا قومی وقار چھین لیا گيا تھا اور اس کی عزت نفس کا خون کر دیا گياتھا لیکن ہمارے امام نے ایران کے عوام میں قومی افتخار اور عزت نفس کو دوبارہ زندہ کر دیا۔ ہماری قوم کے اندر فرقہ پرستی اور غرور تکبر نہیں ہے لیکن اس کے اندر عزت و طاقت کا احساس ضرور پایا جاتا ہے ۔ آج ہماری قوم مشرق و مغرب کی مشترکہ سازشوں اور اپنے خلاف کسی بھی طرح کی دھونس و دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوتی اور کمزوری کا احساس نہیں کرتی۔ ہمارے جوان اس بات کا احساس کررہے ہیں کہ وہ خود اپنے ملک کی تعمیروترقی میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ لوگوں کو اب اپنی اس طاقت و توانائی کا احساس ہے کہ وہ مغرب و مشرق کی دھمکیوں اور خطرات کے مقابلے میں کھڑے ہو سکتے ہیں،عزت نفس کا یہ احساس اور یہ خود اعتمادی وحقیقی قومی افتخار امام خمینی نے قوم میں دوبارہ زندہ کیا ہے۔
امام خمینی کادسواں بڑاکارنامہ، اس بات کوثابت کرناتھا مشرق اور مغرب کے بلاکوں سے فاصلہ بر قرار رکھنے کی پالیسی کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے ۔ دنیا والے یہ سمجھ رہے تھے کہ یا تو مشرقی بلا ک سے وابستہ ہونا پڑےگا یاپھر مغربی بلاک سے شامل ہونا پڑے گا۔ یا تو اس طاقت کی روٹی کھانی پڑے گی یاپھر ان کی چاپلوسی اورتعریف کرنی پڑے گی یاپھر اس طاقت کا گن گانا پڑے گا اور اس کی ہاں میں ہاں ملانا پڑے گی ۔ لوگ یہ نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ کوئی قوم کیسے مشرق سے بھی خود کو الگ رکھے اور مغرب سے بھی خود کوالگ رکھے اور دونوں سے بیزاری کا اظہار کرے اور پھر اپنے پیروں پر کھڑی بھی رہ جائے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی بھی بلاک سے وابستہ نہ ہو اور کسی کے بھی پرچم تلے نہ جائے اور اس دنیامیں اپنانام روشن کرے ؟ مگرامام خمینی نے اس کارنامہ کر دکھایا اور اس نکتہ کو ثابت کر دیا کہ مشرق و مغرب کی طاقتوں پر انحصار کئے بغیر بھی زندہ رہا جا سکتا ہے اور عزت و آبرو کے ساتھ زندگی گزاری جا سکتی ہے <ref>نمازجمعہ کےخطبہ سے اقتباس 2007-7-14</ref>۔
امام خمینی کادسواں بڑاکارنامہ، اس بات کوثابت کرناتھا مشرق اور مغرب کے بلاکوں سے فاصلہ بر قرار رکھنے کی پالیسی کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے ۔ دنیا والے یہ سمجھ رہے تھے کہ یا تو مشرقی بلا ک سے وابستہ ہونا پڑےگا یاپھر مغربی بلاک سے شامل ہونا پڑے گا۔ یا تو اس طاقت کی روٹی کھانی پڑے گی یاپھر ان کی چاپلوسی اورتعریف کرنی پڑے گی یاپھر اس طاقت کا گن گانا پڑے گا اور اس کی ہاں میں ہاں ملانا پڑے گی ۔ لوگ یہ نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ کوئی قوم کیسے مشرق سے بھی خود کو الگ رکھے اور مغرب سے بھی خود کوالگ رکھے اور دونوں سے بیزاری کا اظہار کرے اور پھر اپنے پیروں پر کھڑی بھی رہ جائے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی بھی بلاک سے وابستہ نہ ہو اور کسی کے بھی پرچم تلے نہ جائے اور اس دنیامیں اپنانام روشن کرے ؟ مگرامام خمینی نے اس کارنامہ کر دکھایا اور اس نکتہ کو ثابت کر دیا کہ مشرق و مغرب کی طاقتوں پر انحصار کئے بغیر بھی زندہ رہا جا سکتا ہے اور عزت و آبرو کے ساتھ زندگی گزاری جا سکتی ہے <ref>نمازجمعہ کےخطبہ سے اقتباس 2007-7-14</ref>۔
=== بسیجی (رضاکار) ہونا ایک افتخار ===
=== بسیجی (رضاکار) ہونا ایک افتخار ===
امام خمینی بسیجی ہونے پرفخرکرتےتھے، جی ہاں امام (رہ) بسیجی ہونے پرفخرکرتے تھے رہبر کبیر انقلاب اسلامی خود کو بسیجی کہتے اور سمجھتے تھے اور اس پر فخر بھی کرتے تھے۔ انھوں نےپوری دنیا کو عالمی استکباری طاقتوں اور ظالموں کے مقابلے میں لا کھڑا کیاتھا اور لوگوں بسیجی یا رضاکاربننے کا شوق پیدا کر دیا تھا۔ یعنی سبھی رضاکارانہ طورپر اس فکرکے حامل ہورہے تھے کہ عالمی استکبار اور ظالم طاقتوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں۔ امام خمینی نے اپنے اس اقدام سے جابر طاقتوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں اور قوموں کے دلوں میں نور امید کو جو تمام کامیابیوں کی کنجی ہے روشن و منور کر دیا تھا۔ بلا شبہ تمام تر استکباری مشینریاں مل کر اس آبشار کو روک نہیں سکتی جو آپ نے جاری کر دیا اگرچہ وہ پوری قوت وقساوت کے ساتھ امام کے عظیم جہاد کے ثمرات کوختم کرنے میں لگی ہوئی ہيں <ref>رضاکارفورس بسیج کے کمانڈروں کے اجلاس سے رہبرانقلاب کے خطاب کا اقتباس 2007-11-23</ref>۔
امام خمینی بسیجی ہونے پرفخرکرتےتھے، جی ہاں امام (رہ) بسیجی ہونے پرفخرکرتے تھے رہبر کبیر انقلاب اسلامی خود کو بسیجی کہتے اور سمجھتے تھے اور اس پر فخر بھی کرتے تھے۔ انھوں نےپوری دنیا کو عالمی استکباری طاقتوں اور ظالموں کے مقابلے میں لا کھڑا کیاتھا اور لوگوں بسیجی یا رضاکاربننے کا شوق پیدا کر دیا تھا۔ یعنی سبھی رضاکارانہ طورپر اس فکرکے حامل ہورہے تھے کہ عالمی استکبار اور ظالم طاقتوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں۔ امام خمینی نے اپنے اس اقدام سے جابر طاقتوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں اور قوموں کے دلوں میں نور امید کو جو تمام کامیابیوں کی کنجی ہے روشن و منور کر دیا تھا۔ بلا شبہ تمام تر استکباری مشینریاں مل کر اس آبشار کو روک نہیں سکتی جو آپ نے جاری کر دیا اگرچہ وہ پوری قوت وقساوت کے ساتھ امام کے عظیم جہاد کے ثمرات کوختم کرنے میں لگی ہوئی ہيں <ref>رضاکارفورس بسیج کے کمانڈروں کے اجلاس سے رہبرانقلاب کے خطاب کا اقتباس 2007-11-23</ref>۔
=== انقلاب کی صورت میں امام خمینی کی حیات ابدی ===
=== انقلاب کی صورت میں آپ کی حیات ابدی ===
جی ہاں ہمارے عظیم قائد امام خمینی (رہ) اگرچہ اس وقت ہمارے درمیان نہيں ہیں جس طرح سے ہمارے شہداء ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن امام بھی اورشہداء بھی ہمارے دلوں اورذہنوں میں اورہماری زندگي وہمارے انقلاب میں زندہ و پایندہ ہیں اور سرگرم و فعال ہيں۔ اس عظیم انسان اور ان کےشہید ساتھیوں کے وجود کااثرفقط ان کے زمانۂ حیات سےہی مختص نہیں تھا اور آپ کے وجود کااثر صرف ایران تک ہی محدود نہيں تھا ۔ آج ان کے وجود اور ان کی مبارک عمر اور اسی طرح سے ان کے شہید ساتھیوں کے وجود مبارک کی بدولت اسلام روز بروز تابندہ و درخشاں ہوتا جا رہا ہے اور تحریفوں، جہالتوں ، اورفتنوں کاابرغلیظ ہر روز چھٹتاچلاجارہاہے۔ جوانقلاب امام خمینی نے برپا کیا اورشہیدوں نے اپنے خون سے جسے لالہ زار بنا دیا اور اسے بوئے گل عطا کی اس وقت پوری دنیامیں مظلوم قوموں کی بیداری، مسلم معاشروں کی حیات نو، معنویت کی بنیادوں کو استحکام بخشنے ، اور دنیا پرستی کاشیرازہ بکھیرنے الغرض حق کی سربلندی اور باطل کی نابودی میں اس نے خود کوپوری دنیا سے منوایا ہے ۔ انسان کے بام معنویت پر عروج کا پرچم جو آج دنیا کے گوشہ و کنار میں بلند ہے در اصل وہ ہمارے امام اور ان کے شہید ساتھیوں کا پرچم ہے وہ لوگ زندہ ہيں اورہر روز پہلے سے بھی موثر انداز میں اپنے معنی وجود اور زندگی کو پیش کر رہے ہیں <ref>شہداء جانبازوں اور عراق میں قید غازیان اسلام کوخراج عقیدت پیش کرنے کےلئے رہبرانقلاب اسلامی کے پیغام سے اقتباس2008-2-8</ref>۔
جی ہاں ہمارے عظیم قائد امام خمینی (رہ) اگرچہ اس وقت ہمارے درمیان نہيں ہیں جس طرح سے ہمارے شہداء ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن امام بھی اورشہداء بھی ہمارے دلوں اورذہنوں میں اورہماری زندگي وہمارے انقلاب میں زندہ و پایندہ ہیں اور سرگرم و فعال ہيں۔ اس عظیم انسان اور ان کےشہید ساتھیوں کے وجود کااثرفقط ان کے زمانۂ حیات سےہی مختص نہیں تھا اور آپ کے وجود کااثر صرف ایران تک ہی محدود نہيں تھا ۔ آج ان کے وجود اور ان کی مبارک عمر اور اسی طرح سے ان کے شہید ساتھیوں کے وجود مبارک کی بدولت اسلام روز بروز تابندہ و درخشاں ہوتا جا رہا ہے اور تحریفوں، جہالتوں ، اورفتنوں کاابرغلیظ ہر روز چھٹتاچلاجارہاہے۔ جوانقلاب امام خمینی نے برپا کیا اورشہیدوں نے اپنے خون سے جسے لالہ زار بنا دیا اور اسے بوئے گل عطا کی اس وقت پوری دنیامیں مظلوم قوموں کی بیداری، مسلم معاشروں کی حیات نو، معنویت کی بنیادوں کو استحکام بخشنے ، اور دنیا پرستی کاشیرازہ بکھیرنے الغرض حق کی سربلندی اور باطل کی نابودی میں اس نے خود کوپوری دنیا سے منوایا ہے ۔ انسان کے بام معنویت پر عروج کا پرچم جو آج دنیا کے گوشہ و کنار میں بلند ہے در اصل وہ ہمارے امام اور ان کے شہید ساتھیوں کا پرچم ہے وہ لوگ زندہ ہيں اورہر روز پہلے سے بھی موثر انداز میں اپنے معنی وجود اور زندگی کو پیش کر رہے ہیں <ref>شہداء جانبازوں اور عراق میں قید غازیان اسلام کوخراج عقیدت پیش کرنے کےلئے رہبرانقلاب اسلامی کے پیغام سے اقتباس2008-2-8</ref>۔
=== امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا منفرد فن ===
 
=== منفرد فن ===
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک بڑا ہنر و فن اور ان کی بے مثال خدمت یہ تھی کہ انھوں نے اسلام کو گوشہ نشینی سے نکالا۔ مسلمان اپنے معاشرے اپنے شہروں اور وطن میں بھی اجنبی اور بیگانے تھے دشمنان اسلام نے اپنی الحادی ثقافت اور اخلاقی برائیوں کی ترویج کے ذریعے اور طاغوتی حکومتوں کو استعمال کرکر مسلمانوں سے سوچنے سمجھنے اور اپنے بارے میں غور و فکر کرنے کا موقع بھی چھین لیاتھا۔ ان حالات میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے جو پیغمبر اسلام کی پاکیزہ نسل سے تعلق رکھتے تھے اورجن کے ہاتھوں میں خدا نے الہی قوت عطا کی تھی، اسلام کے چہرے سے اجنبیت کی گرد صاف کی اور پوری دنیامیں ایک بار پھر اسلام کا تابناک چہرہ پیش کیا <ref>امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری برسی میں شریک غیرملکی مہمانوں کے پہلے گروپ سے رہبرانقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1991-6-5</ref>۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک بڑا ہنر و فن اور ان کی بے مثال خدمت یہ تھی کہ انھوں نے اسلام کو گوشہ نشینی سے نکالا۔ مسلمان اپنے معاشرے اپنے شہروں اور وطن میں بھی اجنبی اور بیگانے تھے دشمنان اسلام نے اپنی الحادی ثقافت اور اخلاقی برائیوں کی ترویج کے ذریعے اور طاغوتی حکومتوں کو استعمال کرکر مسلمانوں سے سوچنے سمجھنے اور اپنے بارے میں غور و فکر کرنے کا موقع بھی چھین لیاتھا۔ ان حالات میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے جو پیغمبر اسلام کی پاکیزہ نسل سے تعلق رکھتے تھے اورجن کے ہاتھوں میں خدا نے الہی قوت عطا کی تھی، اسلام کے چہرے سے اجنبیت کی گرد صاف کی اور پوری دنیامیں ایک بار پھر اسلام کا تابناک چہرہ پیش کیا <ref>امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری برسی میں شریک غیرملکی مہمانوں کے پہلے گروپ سے رہبرانقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1991-6-5</ref>۔
=== امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ خود اعتمادی کے معمار ===
 
=== خود اعتمادی کے معمار ===
انقلاب سے پہلے اورانقلاب کے بعد بھی آپ کا یقین تھا کہ ہم اہم سے اہم کام انجام دے سکتے ہيں۔ آپ نے ہم کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ ہم خود اپنا کام انجام دے سکتے ہيں ہمیں خودکوشش کرنی چاہئے ہم خود اپنے ملک کی تعمیروترقی کے لئے کام کریں ہم خود تعمیروترقی اورمصنوعات کی پیداوار اور استعمال کا اصول وضع کریں کہ جو ہمارے اپنے طور طریقے کے مطابق ہو۔ ہمیں چاہئے کہ ان باتوں کو تعمیر و ترقی کے دور میں بروئے کار لائیں ہم ہرگز دوسروں کےتجربات سے انکار نہیں کرتے اوران کی اہمیت کے منکر نہيں ہیں۔ جس کے پاس جو بھی ہو علم ہو ٹکنالوجی ہو، وسائل ہوں، تکنیک ہو ، اگرہم ان سے استفادے کے لئے مجبور ہوئے اور ان سے اپنے اہداف کے تحت استفادہ کرسکیں گے تو ایک لمحے کے لئے بھی ان سے استفادے میں دریغ نہیں کریں گے ۔ ہم کو چاہئے کہ ہم ان سب چیزوں کو اپنی صلاحیتوں کو اجاگرکرنے کے لئے ایک وسیلے کے طور پر استعمال کریں اور جتنا بھی ممکن ہو ملک کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافے کے لئے ان سے استفادہ کریں اور ہميں چاہئے کہ اپنی پیداوار کو غیرملکی مصنوعات پرترجیح دیں۔ ہمارے لئے اپنی مصنوعات غیر ملکی مصنوعات سے زیادہ مبارک اور بہتر ہیں حتی یہ بھی بہتر ہے کہ دوسروں کے ہاتھوں سے اوردوسرے دروازے سے ہمارے ملک میں داخل ہوں <ref>وزارت پٹرولیم کے حکام اور ماہرین سے خطاب1991-12-3</ref>۔
انقلاب سے پہلے اورانقلاب کے بعد بھی آپ کا یقین تھا کہ ہم اہم سے اہم کام انجام دے سکتے ہيں۔ آپ نے ہم کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ ہم خود اپنا کام انجام دے سکتے ہيں ہمیں خودکوشش کرنی چاہئے ہم خود اپنے ملک کی تعمیروترقی کے لئے کام کریں ہم خود تعمیروترقی اورمصنوعات کی پیداوار اور استعمال کا اصول وضع کریں کہ جو ہمارے اپنے طور طریقے کے مطابق ہو۔ ہمیں چاہئے کہ ان باتوں کو تعمیر و ترقی کے دور میں بروئے کار لائیں ہم ہرگز دوسروں کےتجربات سے انکار نہیں کرتے اوران کی اہمیت کے منکر نہيں ہیں۔ جس کے پاس جو بھی ہو علم ہو ٹکنالوجی ہو، وسائل ہوں، تکنیک ہو ، اگرہم ان سے استفادے کے لئے مجبور ہوئے اور ان سے اپنے اہداف کے تحت استفادہ کرسکیں گے تو ایک لمحے کے لئے بھی ان سے استفادے میں دریغ نہیں کریں گے ۔ ہم کو چاہئے کہ ہم ان سب چیزوں کو اپنی صلاحیتوں کو اجاگرکرنے کے لئے ایک وسیلے کے طور پر استعمال کریں اور جتنا بھی ممکن ہو ملک کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافے کے لئے ان سے استفادہ کریں اور ہميں چاہئے کہ اپنی پیداوار کو غیرملکی مصنوعات پرترجیح دیں۔ ہمارے لئے اپنی مصنوعات غیر ملکی مصنوعات سے زیادہ مبارک اور بہتر ہیں حتی یہ بھی بہتر ہے کہ دوسروں کے ہاتھوں سے اوردوسرے دروازے سے ہمارے ملک میں داخل ہوں <ref>وزارت پٹرولیم کے حکام اور ماہرین سے خطاب1991-12-3</ref>۔
=== امام خمینی حالات کے ماہر نباض ===
 
=== ماہر نباض ===
تعمیروترقی کے محکمے، جہاد سازندگی کی جب بات ہوتی ہے تو ديگرمحکموں کے مقابلے میں یہ محکمہ آپ کی یاد کو زیادہ تازہ کردیتا ہے ۔امام کس قدر اس انقلابی ،مخلص اورکارآمد محکمے کواہمیت دیتے تھے اورکس قدرآپ خوش ہوتے تھے جب یہ سنتے تھے کہ جہادسازندگی کی وزارت نے جنگی محاذ اوردور افتادہ گاؤں دیہاتوں میں اتناکام کیا اور یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ وہ عظیم شخصیت ان کاوشوں اورکامیابیوں کودیکھ کرپرامید اورخوش و خرم ہو جایا کرتی تھی اس عظیم شخصیت کی بارکی بایں اور نکتہ سنج نگاہ کبھی غلطی نہیں کرتی تھی اورآپ جانتے تھے کہ یہ محکمہ جو مومن وانقلابی عناصر اور فرائض کی ادائگی کے شوق سے سرشار نوجوانوں سے تشکیل پایاہے کس حد تک ملک کے لئے مفید و کارآمد ہے ۔ آپ لوگ جو امام کے عاشق تھے اورآج بھی ان سے عشق کرتے ہيں اورآپ لوگوں کی رگ حیات امام سے متصل تھی اوران سے ارتبا ط کو جہاد کے اصلی تشخص میں گردانتے تھے آپ کوچاہئے کہ ان کی روح کی خوشنودی کے لئے جوملکوت اعلی کو پروازکرچکی ہے اورہمارے اعمال وافعال پر ناظرہے اپنی کوششوں کو دوگنا کریں اورملک کی ترقی وپیشرفت کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کریں <ref>وزارت جہاد سازندگی کے عہدہ دارو اور کارکنوں سے تجدید بیعت کے موقع پر خطاب1991-6-10</ref>۔
تعمیروترقی کے محکمے، جہاد سازندگی کی جب بات ہوتی ہے تو ديگرمحکموں کے مقابلے میں یہ محکمہ آپ کی یاد کو زیادہ تازہ کردیتا ہے ۔امام کس قدر اس انقلابی ،مخلص اورکارآمد محکمے کواہمیت دیتے تھے اورکس قدرآپ خوش ہوتے تھے جب یہ سنتے تھے کہ جہادسازندگی کی وزارت نے جنگی محاذ اوردور افتادہ گاؤں دیہاتوں میں اتناکام کیا اور یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ وہ عظیم شخصیت ان کاوشوں اورکامیابیوں کودیکھ کرپرامید اورخوش و خرم ہو جایا کرتی تھی اس عظیم شخصیت کی بارکی بایں اور نکتہ سنج نگاہ کبھی غلطی نہیں کرتی تھی اورآپ جانتے تھے کہ یہ محکمہ جو مومن وانقلابی عناصر اور فرائض کی ادائگی کے شوق سے سرشار نوجوانوں سے تشکیل پایاہے کس حد تک ملک کے لئے مفید و کارآمد ہے ۔ آپ لوگ جو امام کے عاشق تھے اورآج بھی ان سے عشق کرتے ہيں اورآپ لوگوں کی رگ حیات امام سے متصل تھی اوران سے ارتبا ط کو جہاد کے اصلی تشخص میں گردانتے تھے آپ کوچاہئے کہ ان کی روح کی خوشنودی کے لئے جوملکوت اعلی کو پروازکرچکی ہے اورہمارے اعمال وافعال پر ناظرہے اپنی کوششوں کو دوگنا کریں اورملک کی ترقی وپیشرفت کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کریں <ref>وزارت جہاد سازندگی کے عہدہ دارو اور کارکنوں سے تجدید بیعت کے موقع پر خطاب1991-6-10</ref>۔
=== نمازجمعہ کاقیام امام خمینی (رہ) کا دوراندیشانہ اقدام ===
 
=== نمازجمعہ کاقیام آپ کا دوراندیشانہ اقدام ===
آپ نے قوم کونمازجمعہ کاایک بہت ہی اہم معنوی تحفہ دیاہے۔ برسوں سے ہم نمازجمعہ سے محروم تھے اور اگر کہیں کسی علاقے میں کسی وقت نمازجمعہ ہوتی بھی تھی تو جو تاثیر نمازجمعہ ایک اسلامی حکومت میں رکھتی ہے اس سے وہ عاری تھی اوربعض جگہوں پر نماز جعمہ کے مہتمم افراد ایسے نامناسب افراد تھے کہ جن کا ذکربھی یہاں مناسب نہیں ہے۔ یہ نمازجمعہ کامسئلہ ہے <ref>ائمہ جمعہ و جماعت سے خطاب 1990-5-28</ref>۔
آپ نے قوم کونمازجمعہ کاایک بہت ہی اہم معنوی تحفہ دیاہے۔ برسوں سے ہم نمازجمعہ سے محروم تھے اور اگر کہیں کسی علاقے میں کسی وقت نمازجمعہ ہوتی بھی تھی تو جو تاثیر نمازجمعہ ایک اسلامی حکومت میں رکھتی ہے اس سے وہ عاری تھی اوربعض جگہوں پر نماز جعمہ کے مہتمم افراد ایسے نامناسب افراد تھے کہ جن کا ذکربھی یہاں مناسب نہیں ہے۔ یہ نمازجمعہ کامسئلہ ہے <ref>ائمہ جمعہ و جماعت سے خطاب 1990-5-28</ref>۔
=== امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مسلمانوں کی قوت وعزت ===
 
=== آپ مسلمانوں کی قوت وعزت ===
آج چند باتیں روز روشن کی طرح عیاں ہیں جنھيں میں یہاں پر عرض کرناچاہتاہوں اوراس کے بعد ایک نتیجہ اخذ کروں گا جوملت ایران اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے اہم ہے ۔
آج چند باتیں روز روشن کی طرح عیاں ہیں جنھيں میں یہاں پر عرض کرناچاہتاہوں اوراس کے بعد ایک نتیجہ اخذ کروں گا جوملت ایران اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے اہم ہے ۔
پہلی حقیقت جس کاکوئی بھی انکارنہیں کرسکتا اور ہر منصف انسان جس کا معترف ہے یہ ہے کہ ہمارے عظیم قائد نے مسلمانوں کو قوت وعزت بخشی ۔ دشمنان اسلام، اسلام کو کمزورکرنا چاہتے تھے ان کی یہ کوشش تھی کہ اسلام کومیدان عمل سے بلکہ مسلمانوں کے ذہنوں سے دور کر دیں اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دشمن اپنے اس مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہيں ۔ اس گندی سیاست میں استکباری طاقتوں سے وابستہ فاسد حکومتوں نے بھی دشمنان اسلام کا ساتھ دیا ہے اوران سے تعاون کیا ہے ۔ امام نے اپنے اس انقلاب سے مسلمانوں کوجوش وولولہ عطاکیا انھیں ہمت وجرات دی اوراسلام کوزندہ کیا۔ آج بہت سے ملکوں میں اسلام، نوجوانوں کی آرزو اور مطمح نظر میں تبدیل ہوچکاہے اوربہت سےروشن فکر افراد اسلام کوگلے لگانےکے لئے بے تاب نظر آ رہے ہيں۔ اس کی ایک مثال فلسطین ہے، برسوں فلسطین کے موضوع پرباتیں ہوتی رہیں اور جدوجہد ہوتی رہی لیکن کوئي نتیجہ حاصل نہیں ہوسکا۔ مگرآج ملت فلسطین ، اسلام کےنام پر جدوجہد اور استقامت کا مظاہرہ کر رہی ہے اس کی طرف سے اسلام کےنام پر جد و جہد کی جا رہی ہے اسی لئے اب یہ جدوجہد تنظیموں، گروہوں، شخصیتوں اورحکام کے دائرے سے نکل کرعوام تک پہنچ چکی ہے اور اس طرح کا جہاد اورجدوجہد کبھی بھی ناکام نہیں ہوگی۔ عوامی جدوجہد اگر جاری رہتی ہے تو بلاشبہ اسے ایک دن ہرحال میں کامیابی نصیب ہوگی یہ اس اسلام کی برکت کا نتیجہ ہے جسے امام نے دوبارہ زندہ کیا اور جسے آپ نے مسلمانوں کے قلوب میں سنوارا۔ آج شمالی افریقہ کے اسلامی ملکوں میں کچھ گروہ اسلام کے نام پر اورایک اسلامی حکومت کے قیام کے مقصدسے جدوجہدکررہے ہيں ،اور وہ کسی حد تک اپنے مقصد میں آگے بھی بڑھے ہیں۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک سے قبل کس کے ذہن میں یہ بات آتی تھی ؟ مشرق سے لے کرمغرب تک آج مسلمان بیدار ہو چکے ہيں۔ یورپی اورغیریورپی ملکوں میں جہاں کفر و الحاد کی حکومتیں ہیں مسلمان اپنی اہمیت کا احساس کررہے ہيں مسلمانوں کے اندر اسلامی تشخص اور شناخت پیدا ہو چکی ہے یہ سب کچھ امام اور ان کی اسی عظيم تحریک کی برکت ہے ۔
پہلی حقیقت جس کاکوئی بھی انکارنہیں کرسکتا اور ہر منصف انسان جس کا معترف ہے یہ ہے کہ ہمارے عظیم قائد نے مسلمانوں کو قوت وعزت بخشی ۔ دشمنان اسلام، اسلام کو کمزورکرنا چاہتے تھے ان کی یہ کوشش تھی کہ اسلام کومیدان عمل سے بلکہ مسلمانوں کے ذہنوں سے دور کر دیں اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دشمن اپنے اس مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہيں ۔ اس گندی سیاست میں استکباری طاقتوں سے وابستہ فاسد حکومتوں نے بھی دشمنان اسلام کا ساتھ دیا ہے اوران سے تعاون کیا ہے ۔ امام نے اپنے اس انقلاب سے مسلمانوں کوجوش وولولہ عطاکیا انھیں ہمت وجرات دی اوراسلام کوزندہ کیا۔ آج بہت سے ملکوں میں اسلام، نوجوانوں کی آرزو اور مطمح نظر میں تبدیل ہوچکاہے اوربہت سےروشن فکر افراد اسلام کوگلے لگانےکے لئے بے تاب نظر آ رہے ہيں۔ اس کی ایک مثال فلسطین ہے، برسوں فلسطین کے موضوع پرباتیں ہوتی رہیں اور جدوجہد ہوتی رہی لیکن کوئي نتیجہ حاصل نہیں ہوسکا۔ مگرآج ملت فلسطین ، اسلام کےنام پر جدوجہد اور استقامت کا مظاہرہ کر رہی ہے اس کی طرف سے اسلام کےنام پر جد و جہد کی جا رہی ہے اسی لئے اب یہ جدوجہد تنظیموں، گروہوں، شخصیتوں اورحکام کے دائرے سے نکل کرعوام تک پہنچ چکی ہے اور اس طرح کا جہاد اورجدوجہد کبھی بھی ناکام نہیں ہوگی۔ عوامی جدوجہد اگر جاری رہتی ہے تو بلاشبہ اسے ایک دن ہرحال میں کامیابی نصیب ہوگی یہ اس اسلام کی برکت کا نتیجہ ہے جسے امام نے دوبارہ زندہ کیا اور جسے آپ نے مسلمانوں کے قلوب میں سنوارا۔ آج شمالی افریقہ کے اسلامی ملکوں میں کچھ گروہ اسلام کے نام پر اورایک اسلامی حکومت کے قیام کے مقصدسے جدوجہدکررہے ہيں ،اور وہ کسی حد تک اپنے مقصد میں آگے بھی بڑھے ہیں۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک سے قبل کس کے ذہن میں یہ بات آتی تھی ؟ مشرق سے لے کرمغرب تک آج مسلمان بیدار ہو چکے ہيں۔ یورپی اورغیریورپی ملکوں میں جہاں کفر و الحاد کی حکومتیں ہیں مسلمان اپنی اہمیت کا احساس کررہے ہيں مسلمانوں کے اندر اسلامی تشخص اور شناخت پیدا ہو چکی ہے یہ سب کچھ امام اور ان کی اسی عظيم تحریک کی برکت ہے ۔
سطر 310: سطر 389:
تیسری حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران، پوری دنیا کے مسلمانوں کی عظیم تحریک کامرکز ہے ۔نہ صرف مسلمان اور محروم و ستم رسیدہ لوگ بلکہ سامراج بھی اس بات کو سمجھ گيا ہے کہ آج دنیا میں جہاں کہیں بھی اسلامی اہداف کے لئے تحریک چل رہی ہے اس کا مرکز اسلامی جمہوریۂ ایران ہے۔ اس لئے سب سے پہلے ساری دنیا میں دشمنی کا رخ ہماری طرف ہے۔ ہم میٹھی باتوں کی آڑ میں چھپی ہوئي دشمنی و کینہ کو پہچانتے ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ سامراج کواسلامی جمہوریۂ ایران ،ایرانی قوم اور ہمارے عظيم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے کتنی دشمنی ہے۔
تیسری حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران، پوری دنیا کے مسلمانوں کی عظیم تحریک کامرکز ہے ۔نہ صرف مسلمان اور محروم و ستم رسیدہ لوگ بلکہ سامراج بھی اس بات کو سمجھ گيا ہے کہ آج دنیا میں جہاں کہیں بھی اسلامی اہداف کے لئے تحریک چل رہی ہے اس کا مرکز اسلامی جمہوریۂ ایران ہے۔ اس لئے سب سے پہلے ساری دنیا میں دشمنی کا رخ ہماری طرف ہے۔ ہم میٹھی باتوں کی آڑ میں چھپی ہوئي دشمنی و کینہ کو پہچانتے ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ سامراج کواسلامی جمہوریۂ ایران ،ایرانی قوم اور ہمارے عظيم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے کتنی دشمنی ہے۔
دشمن چونکہ ان کےافکار و نظریات کو زندہ دیکھ رہا ہے اس لئے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ اس کی دشمنی میں سرمو فرق نہیں آیا ہے۔ اگر سامراج اور اس کی پروپیگنڈہ مشنری یہ سوچتے کہ وہ انتقال کرگئے اور ان کا زمانہ ختم ہوچکا ہے توکبھی بھی ان سے اور اس کے نام سے اتنی دشمنی نہ کرتے جیسا کہ آج کررہے ہیں ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کاایران ، انقلاب ایران ،اسلامی جمہوریۂ ایران ، مسلمانوں کی عالمی تحریک کا مرکز ہے اور اس لئے سب کی دشمنی کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ اس چیز سے ہم غمگین ہونے کے بجائے خوش ہوتے ہیں، ڈرنے کے بجائے ہمارے حوصلے بلند ہوتے ہیں کیوں کہ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم طاقتور ہیں اور سامراج ، چوروں و لٹیروں کے مفادات کے لئے بدستور خطرہ بنے ہوئے ہیں ۔ سامراج کی دشمنی سے ہمیں مزيد اطمینان پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے انقلاب کو آگے بڑھانے اور ملک و سماج کی تعمیر کے لئے جس راستہ کو چنا ہے وہ صحیح اور کامیابی کا راستہ ہے ۔ اگر ہم نے انسانیت کے دشمنوں کے مفادات کے خلاف اور انقلاب و ملک کی مصلحتوں کی سمت میں غلط راستے کا انتخاب کیا ہوتا، تو دشمن، ہم سے اتنی دشمنی نہیں کرتا۔ پوری دنیا میں مختلف طریقوں سے ہمارے خلاف پروپیگنڈہ ہو رہا ہے ۔ ممکن ہے کہ کچھ ذرائع ابلاغ ہمیں صراحت کے ساتھ برا بھلا نہ کہیں ، لیکن یہ ان کی دوستی کی علامت نہیں ہے ۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے صراحتا ہمیں برا بھلا کہا تو پوری دنیا کی اقوام کے دل ہماری طرف اور مائل ہو جائیں گے ۔ اس لئے وہ سیدھے طور پر برا کہنے کے بجائے ہم پر الزام لگاتے ہیں خود کو ہم سے نزدیک دکھاتے ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ہمارے بارے میں اچھے خیالات رکھتے ہیں، یہ سب ان کے ہتھکنڈے اور خباثتیں ہیں <ref>امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری برسی پر قائد انقلاب اسلامی کے بیان کا اقتباس 1991-6-4</ref>۔
دشمن چونکہ ان کےافکار و نظریات کو زندہ دیکھ رہا ہے اس لئے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ اس کی دشمنی میں سرمو فرق نہیں آیا ہے۔ اگر سامراج اور اس کی پروپیگنڈہ مشنری یہ سوچتے کہ وہ انتقال کرگئے اور ان کا زمانہ ختم ہوچکا ہے توکبھی بھی ان سے اور اس کے نام سے اتنی دشمنی نہ کرتے جیسا کہ آج کررہے ہیں ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کاایران ، انقلاب ایران ،اسلامی جمہوریۂ ایران ، مسلمانوں کی عالمی تحریک کا مرکز ہے اور اس لئے سب کی دشمنی کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ اس چیز سے ہم غمگین ہونے کے بجائے خوش ہوتے ہیں، ڈرنے کے بجائے ہمارے حوصلے بلند ہوتے ہیں کیوں کہ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم طاقتور ہیں اور سامراج ، چوروں و لٹیروں کے مفادات کے لئے بدستور خطرہ بنے ہوئے ہیں ۔ سامراج کی دشمنی سے ہمیں مزيد اطمینان پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے انقلاب کو آگے بڑھانے اور ملک و سماج کی تعمیر کے لئے جس راستہ کو چنا ہے وہ صحیح اور کامیابی کا راستہ ہے ۔ اگر ہم نے انسانیت کے دشمنوں کے مفادات کے خلاف اور انقلاب و ملک کی مصلحتوں کی سمت میں غلط راستے کا انتخاب کیا ہوتا، تو دشمن، ہم سے اتنی دشمنی نہیں کرتا۔ پوری دنیا میں مختلف طریقوں سے ہمارے خلاف پروپیگنڈہ ہو رہا ہے ۔ ممکن ہے کہ کچھ ذرائع ابلاغ ہمیں صراحت کے ساتھ برا بھلا نہ کہیں ، لیکن یہ ان کی دوستی کی علامت نہیں ہے ۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے صراحتا ہمیں برا بھلا کہا تو پوری دنیا کی اقوام کے دل ہماری طرف اور مائل ہو جائیں گے ۔ اس لئے وہ سیدھے طور پر برا کہنے کے بجائے ہم پر الزام لگاتے ہیں خود کو ہم سے نزدیک دکھاتے ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ہمارے بارے میں اچھے خیالات رکھتے ہیں، یہ سب ان کے ہتھکنڈے اور خباثتیں ہیں <ref>امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری برسی پر قائد انقلاب اسلامی کے بیان کا اقتباس 1991-6-4</ref>۔
=== آزادی و خود مختاری، اخلاقیات و روحانیت کے ہمراہ ===
=== آزادی و خود مختاری، اخلاقیات و روحانیت کے ہمراہ ===
ہمارے عظيم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کاکمال یہ تھا کہ انہوں نے اس انقلاب کے لئے ایک محکم لائحہ عمل اور اصول و ضوابط بنائے اور انہوں نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ یہ انقلاب بڑی طاقتوں کے زير اثر آجائے اور مسلط کردہ سیاسی دھاروں میں بہہ جائے ۔
ہمارے عظيم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کاکمال یہ تھا کہ انہوں نے اس انقلاب کے لئے ایک محکم لائحہ عمل اور اصول و ضوابط بنائے اور انہوں نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ یہ انقلاب بڑی طاقتوں کے زير اثر آجائے اور مسلط کردہ سیاسی دھاروں میں بہہ جائے ۔
سطر 319: سطر 399:
اے ایران کی عظيم قوم ہم نے امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) کی اس نصیحت پر منصوبہ بندی، قانون سازی، لوگوں کو منصبوں پر فائز کرنے اور انہیں معزول کرنے کے سلسلے میں جہاں جہاں عمل کیا، ہمیں کامیابی ملی عوام کے سلسلے میں امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) نے جو سب سے اہم کام کیا وہ یہ تھا کہ جمہوریت کے مفہوم کو مغربی معنی و مفہوم سے یکسر الگ کردیا ۔ مغربی منصوبہ ساز اور ان کے پٹھوؤں کی کوشش یہ تھی کہ اس بات کو عام کردیں کہ جمہوریت دین کے ساتھ سازگار نہیں ہے ۔
اے ایران کی عظيم قوم ہم نے امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) کی اس نصیحت پر منصوبہ بندی، قانون سازی، لوگوں کو منصبوں پر فائز کرنے اور انہیں معزول کرنے کے سلسلے میں جہاں جہاں عمل کیا، ہمیں کامیابی ملی عوام کے سلسلے میں امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) نے جو سب سے اہم کام کیا وہ یہ تھا کہ جمہوریت کے مفہوم کو مغربی معنی و مفہوم سے یکسر الگ کردیا ۔ مغربی منصوبہ ساز اور ان کے پٹھوؤں کی کوشش یہ تھی کہ اس بات کو عام کردیں کہ جمہوریت دین کے ساتھ سازگار نہیں ہے ۔
امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) نے اس دعوے پر خط بطلان کھینچ دیا اور دینی بنیادوں پر جمہوریت یعنی اسی اسلامی جمہوریہ کو نمونہ کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔انہوں نے صرف علمی دلیل کی حد تک نہیں بلکہ عملا اسے انجام دے کر دکھا دیا۔
امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) نے اس دعوے پر خط بطلان کھینچ دیا اور دینی بنیادوں پر جمہوریت یعنی اسی اسلامی جمہوریہ کو نمونہ کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔انہوں نے صرف علمی دلیل کی حد تک نہیں بلکہ عملا اسے انجام دے کر دکھا دیا۔
=== امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے عظیم کارنامے کے تئیں ہمارے فرائض ===
=== آپ کے عظیم کارنامے کے تئیں ہمارے فرائض ===
انقلاب کے ہاتھوں زخم کھائے اور گھات لگائے ہوئے دشمن برسوں اس موقع کی تلاش میں تھے اور آج بھی وہ سورج کے غروب کا انتظار کرنے والی چمگادڑوں کی طرح اپنے مذموم عزائم کو پورا کرنے کی کوشش میں ہیں، لیکن ایرانی قوم کے جذبات کی گرمی ایسی ہے کہ دوستوں کو اس سے راحت ملتی ہے اور دشمنوں کے پر جل جاتے ہیں، پھر وہ شیطانی پرواز کے قابل نہیں رہ جاتے۔ ہمارے رہبر کبیر انقلاب اسلامی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے عظیم ورثاء جمہوری اسلامی نظام کے خلاف کی جانے والی ہر سازش کو ناکام بنادیں گے۔ ہر مشکوک اقدام کے سلسلے میں ہم سب کو ہوشیار اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ عالمی سامراج نے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے اب تک ، اسلامی جمہوریہ کو ختم کرنے کا خیال ایک لمحے کے لئے بھی ترک نہیں کیا ہے اور اسلامی نظام کو کمزور کرنے کے لئے ہر ممکن کاروائي کر رہا ہے۔ جب تک اسلامی جمہوریہ کے حکام اور ایرانی قوم، قومی وقار، خود مختاری اور اپنے اسلامی اصولوں کے پابند رہیں گے وہ ناقابل تسخیر بنے رہیں گے۔ اب تک خدا کے فضل و کرم سے، ایرانی قوم کے عزم و ارادے کے سامنے عالمی سامراج کی سازش بے نتیجہ رہی ہے اور اس کے مکر و فریب کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اللہ نے چاہا تو آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ اس لئے میں قوم کےایک ایک فرد سے اپیل کرتا ہوں کہ دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں آمادہ و ہوشیاری کو انقلابی فریضہ سمجھیں اور دشمن کے مذموم سیاسی، تشہیراتی اور اقتصادی عزائم کو سمجھیں اور یہ جان لیں کہ آمادہ و ہوشیار رہنے سے دشمن کی سازش ناکام ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہمارے عزیز رہبر کبیر ( امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) باربار اس بات پر زوردیتے تھے اور اپنے وصیتنامہ میں بھی آپ نے اس بات پر زوردیا ہے کہ ہمارے بیچ اتحاد ہی، انقلاب کی کامیابی کا راز تھا اور یہی اس کی بقا کی کنجی ہے۔ قوم کا ایک دوسرے کے مخالف گروہوں میں بٹ جانا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر اڑجانا، ہماری پوری قوم یا کم سے کم اس کی اکثریت سے وابستہ اہم اصولوں کو فراموش کردینا، دشمن کو بھلا دینا اور اس کو بھلا دینے سے پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصان کو نظر انداز کرنا ، ایسی قوم کے لئے ایک المیہ ہے جو اپنے پائمال شدہ حقوق کی بازیابی اور دوسروں پر انحصار سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہے<ref>قائد انقلاب اسلامی کا ایران قوم سے خطاب میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی مدح سرائی کا اقتباس2007-6-8
انقلاب کے ہاتھوں زخم کھائے اور گھات لگائے ہوئے دشمن برسوں اس موقع کی تلاش میں تھے اور آج بھی وہ سورج کے غروب کا انتظار کرنے والی چمگادڑوں کی طرح اپنے مذموم عزائم کو پورا کرنے کی کوشش میں ہیں، لیکن ایرانی قوم کے جذبات کی گرمی ایسی ہے کہ دوستوں کو اس سے راحت ملتی ہے اور دشمنوں کے پر جل جاتے ہیں، پھر وہ شیطانی پرواز کے قابل نہیں رہ جاتے۔ ہمارے رہبر کبیر انقلاب اسلامی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے عظیم ورثاء جمہوری اسلامی نظام کے خلاف کی جانے والی ہر سازش کو ناکام بنادیں گے۔ ہر مشکوک اقدام کے سلسلے میں ہم سب کو ہوشیار اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ عالمی سامراج نے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے اب تک ، اسلامی جمہوریہ کو ختم کرنے کا خیال ایک لمحے کے لئے بھی ترک نہیں کیا ہے اور اسلامی نظام کو کمزور کرنے کے لئے ہر ممکن کاروائي کر رہا ہے۔ جب تک اسلامی جمہوریہ کے حکام اور ایرانی قوم، قومی وقار، خود مختاری اور اپنے اسلامی اصولوں کے پابند رہیں گے وہ ناقابل تسخیر بنے رہیں گے۔ اب تک خدا کے فضل و کرم سے، ایرانی قوم کے عزم و ارادے کے سامنے عالمی سامراج کی سازش بے نتیجہ رہی ہے اور اس کے مکر و فریب کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اللہ نے چاہا تو آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ اس لئے میں قوم کےایک ایک فرد سے اپیل کرتا ہوں کہ دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں آمادہ و ہوشیاری کو انقلابی فریضہ سمجھیں اور دشمن کے مذموم سیاسی، تشہیراتی اور اقتصادی عزائم کو سمجھیں اور یہ جان لیں کہ آمادہ و ہوشیار رہنے سے دشمن کی سازش ناکام ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہمارے عزیز رہبر کبیر ( امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) باربار اس بات پر زوردیتے تھے اور اپنے وصیتنامہ میں بھی آپ نے اس بات پر زوردیا ہے کہ ہمارے بیچ اتحاد ہی، انقلاب کی کامیابی کا راز تھا اور یہی اس کی بقا کی کنجی ہے۔ قوم کا ایک دوسرے کے مخالف گروہوں میں بٹ جانا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر اڑجانا، ہماری پوری قوم یا کم سے کم اس کی اکثریت سے وابستہ اہم اصولوں کو فراموش کردینا، دشمن کو بھلا دینا اور اس کو بھلا دینے سے پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصان کو نظر انداز کرنا ، ایسی قوم کے لئے ایک المیہ ہے جو اپنے پائمال شدہ حقوق کی بازیابی اور دوسروں پر انحصار سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہے<ref>قائد انقلاب اسلامی کا ایران قوم سے خطاب میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی مدح سرائی کا اقتباس2007-6-8
</ref>۔
</ref>۔
=== امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے مشن سے وفاداری ===
 
=== ان کے مشن سے وفاداری ===
ہم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے محبت کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے اور کوئی بھی اس بارے میں شک نہیں کرسکتا کہ ایرانی قوم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے سچی محبت کرتی ہے چنانچہ ہمیں ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا چاہئے۔ ان کے ہدف کو انقلاب کا نصب العین سمجھیں اور اس کی سمت بڑھیں۔ اپنی طرف سے کوئی نیا ہدف نہ بنا لیں۔ امام کے بتائے ہوئے اہداف و مقاصد واضح ہیں اور انہیں سمجھنے کے لئے بہت غور و فکر کی ضرورت نہیں ہے۔ کاتب تقدیر کا فیصلہ یہی تھا کہ اس کا نیک بندہ آگے بڑھتے بڑھتے یہ ذمہ داری دوسروں کو سونپ کر ملکوت اعلیٰ کی طرف پرواز کرجائے اور اس کے جوار میں پناہ لے لے تو ہم اس ذمہ داری کو یونہی نہیں چھوڑدیں گے۔ قوم کا ایک ایک فرد اور ہر سطح کے عہدہ دار و حکام اس نکتے کو ذہن نشین کرلیں اور یہ عہد کریں کہ امام خمینی کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں گے اور ان کے اہداف و مقاصد کے لئے کام کریں گے اسی صورت میں ہم امام خمینی سے اپنی سچی محبت کا ثبوت پیش کر سکیں گے اور اگر اس کے برعکس ہم ان کی جدائی میں روئیں، سروسینہ پیٹیں، لیکن ان کے بتائے ہوئے راستے پر نہ چلیں، تو ان سے ہماری محبت و عقیدت سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ وفاداری کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کے راستے پر چلیں، اس سے منحرف نہ ہوں <ref>انقلاب اسلامی کی کمیٹیوں کے حکام و ممبران سے خطاب کا اقتباس 2007-6-8</ref>۔
ہم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے محبت کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے اور کوئی بھی اس بارے میں شک نہیں کرسکتا کہ ایرانی قوم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے سچی محبت کرتی ہے چنانچہ ہمیں ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا چاہئے۔ ان کے ہدف کو انقلاب کا نصب العین سمجھیں اور اس کی سمت بڑھیں۔ اپنی طرف سے کوئی نیا ہدف نہ بنا لیں۔ امام کے بتائے ہوئے اہداف و مقاصد واضح ہیں اور انہیں سمجھنے کے لئے بہت غور و فکر کی ضرورت نہیں ہے۔ کاتب تقدیر کا فیصلہ یہی تھا کہ اس کا نیک بندہ آگے بڑھتے بڑھتے یہ ذمہ داری دوسروں کو سونپ کر ملکوت اعلیٰ کی طرف پرواز کرجائے اور اس کے جوار میں پناہ لے لے تو ہم اس ذمہ داری کو یونہی نہیں چھوڑدیں گے۔ قوم کا ایک ایک فرد اور ہر سطح کے عہدہ دار و حکام اس نکتے کو ذہن نشین کرلیں اور یہ عہد کریں کہ امام خمینی کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں گے اور ان کے اہداف و مقاصد کے لئے کام کریں گے اسی صورت میں ہم امام خمینی سے اپنی سچی محبت کا ثبوت پیش کر سکیں گے اور اگر اس کے برعکس ہم ان کی جدائی میں روئیں، سروسینہ پیٹیں، لیکن ان کے بتائے ہوئے راستے پر نہ چلیں، تو ان سے ہماری محبت و عقیدت سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ وفاداری کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کے راستے پر چلیں، اس سے منحرف نہ ہوں <ref>انقلاب اسلامی کی کمیٹیوں کے حکام و ممبران سے خطاب کا اقتباس 2007-6-8</ref>۔
=== امام خمینی کا خلوص ===
 
=== آپ کا خلوص ===
برادران گرامی! امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا خلوص اور خدا کے ساتھ ان کے تقرّب اسی طرح عوام کی پر خلوص جد و جہد کے نتیجے میں ہم آج اس مقام پر ہیں، آئندہ بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔ اگر ہمارا مقصد وہی ہے جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد تھا تو ہمارے وسائل و ذرائع بھی وہی ہونے چاہئے جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے تھے۔ خدا سے طلب نصرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا وسیلہ تھا، تو آئیے ہم بھی خدا سے مدد مانگتے ہیں۔ یہ کام صرف زبان سے نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لئے عمل میں خلوص اور ترک گناہ شرط ہے<ref>انقلاب اسلامی کی کمیٹیوں کے حکام و ممبران سے خطاب کا اقتباس 2007-6-8</ref>۔
برادران گرامی! امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا خلوص اور خدا کے ساتھ ان کے تقرّب اسی طرح عوام کی پر خلوص جد و جہد کے نتیجے میں ہم آج اس مقام پر ہیں، آئندہ بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔ اگر ہمارا مقصد وہی ہے جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد تھا تو ہمارے وسائل و ذرائع بھی وہی ہونے چاہئے جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے تھے۔ خدا سے طلب نصرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا وسیلہ تھا، تو آئیے ہم بھی خدا سے مدد مانگتے ہیں۔ یہ کام صرف زبان سے نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لئے عمل میں خلوص اور ترک گناہ شرط ہے<ref>انقلاب اسلامی کی کمیٹیوں کے حکام و ممبران سے خطاب کا اقتباس 2007-6-8</ref>۔
=== امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی راہ پر گامزن رہنے کا عہد ===
 
=== آپ کی راہ پر گامزن رہنے کا عہد ===
ہم نے خدا سے عہد کیا ہے کہ ہم آپ کے بتائے ہوئے راستے پر جو اسلام و قرآن و مسلمانوں کی سربلندی کا راستہ ہے، چلیں گے۔ نہ مشرق نہ مغرب کی سیاست ، مستضعفین و مظلومین کی حمایت، عظیم مسلمان قوم کی تحریک اور اتحاد کا تحفظ، عالمی سطح پر مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے والےعناصر پر قابو پانا، مثالی معاشرہ قائم کرنے کے لئے جد وجہد، غریب و محروم طبقے کی مدد اور ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے سبھی وسائل و امکانات سے استفادہ کرنا، ہمارا اہم ترین منصوبہ ہے اور ان سب کے پیچھے جو مقصد کارفرما ہے وہ اسلام کو دوبارہ زندہ کرنا ( اسلام کے پرچم کو دوبارہ لہرانا ) اور قرآنی اقدار کا احیاء ہے۔ ہم اس مقصد کے حصول کے لئے ذرہ برابر بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے <ref>
ہم نے خدا سے عہد کیا ہے کہ ہم آپ کے بتائے ہوئے راستے پر جو اسلام و قرآن و مسلمانوں کی سربلندی کا راستہ ہے، چلیں گے۔ نہ مشرق نہ مغرب کی سیاست ، مستضعفین و مظلومین کی حمایت، عظیم مسلمان قوم کی تحریک اور اتحاد کا تحفظ، عالمی سطح پر مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے والےعناصر پر قابو پانا، مثالی معاشرہ قائم کرنے کے لئے جد وجہد، غریب و محروم طبقے کی مدد اور ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے سبھی وسائل و امکانات سے استفادہ کرنا، ہمارا اہم ترین منصوبہ ہے اور ان سب کے پیچھے جو مقصد کارفرما ہے وہ اسلام کو دوبارہ زندہ کرنا ( اسلام کے پرچم کو دوبارہ لہرانا ) اور قرآنی اقدار کا احیاء ہے۔ ہم اس مقصد کے حصول کے لئے ذرہ برابر بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے <ref>
حاجیوں کے اجتماع سے خطاب کا اقتباس 1989-7-5</ref>۔
حاجیوں کے اجتماع سے خطاب کا اقتباس 1989-7-5</ref>۔
confirmed
2,782

ترامیم