"محمد امین شہیدی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 23: سطر 23:
امت کے درمیان اتحاد کا قیام قرآن اور نبی کریم کی دعوت پر لبیک کہنا ہے اسی لئے اسلامی معاشروں کے اندر وہ علماء اور اہل دانش جو حکمت دین اور فلسفہ نزول قرآن کو سمجھتے ہیں وہ افتراق امت کو لعنت اور اتحاد امت کو رحمت سمجھتے ہیں، اگر توحید اور رسالت کی بنیاد پر انسان کو یکجا کیا جائے اور اس میں جہاں دین خدا کی سربلندی وقوع پذیر ہوتی ہے وہی پر دین خدا کو ماننے والوں کی عزت، شرف، سربلندی اور دشمنان اسلام کے مقابلے میں فتح و کامرانی نصیب ہوتی ہے۔
امت کے درمیان اتحاد کا قیام قرآن اور نبی کریم کی دعوت پر لبیک کہنا ہے اسی لئے اسلامی معاشروں کے اندر وہ علماء اور اہل دانش جو حکمت دین اور فلسفہ نزول قرآن کو سمجھتے ہیں وہ افتراق امت کو لعنت اور اتحاد امت کو رحمت سمجھتے ہیں، اگر توحید اور رسالت کی بنیاد پر انسان کو یکجا کیا جائے اور اس میں جہاں دین خدا کی سربلندی وقوع پذیر ہوتی ہے وہی پر دین خدا کو ماننے والوں کی عزت، شرف، سربلندی اور دشمنان اسلام کے مقابلے میں فتح و کامرانی نصیب ہوتی ہے۔


امت کی سربلندی اور کامیابی کی بنیاد، امت کے تمام فرقوں اور گروپوں کے درمیان فکری اور عملی اتحاد ہے لیکن اس فلسفے کو سمجھنے کے لئے روح کی بلندی اور فکر کی وسعت کے ساتھ قرآن اور سنت کا وسیع مطالعہ بھی درکار ہے۔  اسی امت کے درمیان جو ان نعمتوں سے محروم ہیں وہ اپنی دکانوں کو آباد کرنے کے لئے امت کو تقسیم کرتے ہیں، لڑاتے ہیں اور لڑانے کے ذریعے گویا وہ جنت حاصل کرنا چاہتے ہیں یا اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ وہ امت کو لڑا کر اپنی دکانیں آباد کرکے اپنی دنیا بنانا چاہتے ہیں، لیکن امت اسلام کے مفادات کی حفاظت اتحاد و یکجہتی میں مضمر ہے اور دشمنان دین کو بھی اس چیز کا خوف ہے.
امت کی سربلندی اور کامیابی کی بنیاد، امت کے تمام فرقوں اور گروپوں کے درمیان فکری اور عملی اتحاد ہے لیکن اس فلسفے کو سمجھنے کے لئے روح کی بلندی اور فکر کی وسعت کے ساتھ قرآن اور سنت کا وسیع مطالعہ بھی درکار ہے۔  اسی امت کے درمیان جو ان نعمتوں سے محروم ہیں وہ اپنی دکانوں کو آباد کرنے کے لئے امت کو تقسیم کرتے ہیں، لڑاتے ہیں اور لڑانے کے ذریعے گویا وہ جنت حاصل کرنا چاہتے ہیں یا اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ وہ امت کو لڑا کر اپنی دکانیں آباد کرکے اپنی دنیا بنانا چاہتے ہیں، لیکن امت اسلام کے مفادات کی حفاظت اتحاد و یکجہتی میں مضمر ہے اور دشمنان دین کو بھی اس چیز کا خوف ہے۔
 
ہمارے دشمن  تب امت پر غلبہ حاصل کرسکتا ہے کہ  جب امت کے درمیان اتحاد پیدا نہ ہو اور افتراق اپنے عروج کو پہنچے،  اسی لئے امت کے درمیان اتحاد، تقریب فکر اور تقریب عمل ہر دور کی ضرورت تھی اور آج سب سے زیادہ اس چیز کی ضرورت ہے اور اس موضوع کو تمام معاشروں میں زندہ رہنا چاہئے اور ہمیشہ اس پر بحث کے ذریعے غلط فہمیاں دور ہونی چاہیں، ہمیں مل بیٹھ کر ان نکات پر جو ہمیں ایک دوسرے کو نزدیک کرسکتے ہیں سوچنا اور تقریب کے لئے کوشش کرنی چاہے۔


=== اتحاد امت کے لیے اہل سنت کی کوشش ===
=== اتحاد امت کے لیے اہل سنت کی کوشش ===
سطر 38: سطر 36:


اس بنیاد پر [[ ایران|انقلاب اسلامی ایران]] کے بعد جو جدوجہد ہوئی ہے وہ کم نظیر اور انتہائی مؤثر بھی رہی ہے، [[پاکستان]] میں سیمیناروں اور مذہبی پلیٹ فارمز پر تمام مسالک کے اہل دانش کو جمع کرکے، لبرل اور ضدِ دین کے مقابلے میں دیندار طاقتوں کو طاقتور کرکے مرزائیت اور [[احمدیہ|قادیانیوں]] کے مقابلے میں مسلمانوں کو متحد ہوکر علماء نے بڑی جدوجہد کی ہے اور اس جدوجہد نے کامیابی بھی حاصل کی ہے، قادیانیت کے مقابلے میں تشیع اور اہل سنت کا اتحاد اور اس کے نتیجے میں عظیم کامیابی انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ جب بھی شیعہ اور سنی نے مل کر جدوجہد کی ہے کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
اس بنیاد پر [[ ایران|انقلاب اسلامی ایران]] کے بعد جو جدوجہد ہوئی ہے وہ کم نظیر اور انتہائی مؤثر بھی رہی ہے، [[پاکستان]] میں سیمیناروں اور مذہبی پلیٹ فارمز پر تمام مسالک کے اہل دانش کو جمع کرکے، لبرل اور ضدِ دین کے مقابلے میں دیندار طاقتوں کو طاقتور کرکے مرزائیت اور [[احمدیہ|قادیانیوں]] کے مقابلے میں مسلمانوں کو متحد ہوکر علماء نے بڑی جدوجہد کی ہے اور اس جدوجہد نے کامیابی بھی حاصل کی ہے، قادیانیت کے مقابلے میں تشیع اور اہل سنت کا اتحاد اور اس کے نتیجے میں عظیم کامیابی انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ جب بھی شیعہ اور سنی نے مل کر جدوجہد کی ہے کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
دشمنوں کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ ہر صورت میں مشترکات کو نظرانداز اور افتراق کو ہوا دیں تاکہ مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دور رکھے۔
اب یہ علماء اور دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ تعلیمی نصاب، مساجد کے نطام اور یونیورسٹیز میں ان مشترکات کے فروغ کے لئے عملی جدوجہد کریں اور معاشرے کے پڑھے لکھے، فہیم اور دین کے ادراک رکھنے والوں کو مسلسل اس حوالے سے ترغیب دلائےاور یہی نجات کا راستہ ہے اور اس کے ذریعے سے ہم بہتر نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔
=== ہفتۃ وحدت کے ذریعہ مسلمانوں کو آپس میں متحد کرنے اور دنیائے اسلام پر اس کے کیا اثرات ===
=== ہفتۃ وحدت کے ذریعہ مسلمانوں کو آپس میں متحد کرنے اور دنیائے اسلام پر اس کے کیا اثرات ===


سطر 54: سطر 49:


امام علیہ السلام کا مقام اتنا بلند ہے کہ کسی تاریخ نے آج تک یہ نہیں لکھا کہ امام علیہ السلام نے کسی سے کچھ سیکھا ہو، اس کی وجہ یہی ہے کہ صادق آل محمد علیہم السلام، علوم آل محمد علیہم السلام کے وارث ہیں اور یہ علوم ان کے لئے کسبی نہیں بلکہ وہنی اور لدنی ہیں اور نبی کریم (ص) کی ذات اقدس سے ان تک منتقل ہوئے ہیں۔ جب ہم احادیث میں [[علی ابن ابی طالب|امیرالمومنین علی علیہ السلام]] کو بابِ علم نبی(ص) سمجھتے ہیں تو یہی علوم اس باب سے آگے آئمہ(ع)کے توسط سے امام صادق علیہ السلام تک منتقل ہوئے، یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ "حضرت ثابت ابن نعمان” یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ جو دو سال کے عرصے کو میں نے صادق آل محمد(ع) کی بارگاہ میں نہیں گزارا ہوتا تو میں ہلاک ہوتا، یہی وجہ ہے کہ محدثین اور متکلمین کی ایک بہت بڑی جماعت اپنے آپ کو امام علیہ السلام سے فیض پانے کی مرہونِ منت سمجھتی ہے۔
امام علیہ السلام کا مقام اتنا بلند ہے کہ کسی تاریخ نے آج تک یہ نہیں لکھا کہ امام علیہ السلام نے کسی سے کچھ سیکھا ہو، اس کی وجہ یہی ہے کہ صادق آل محمد علیہم السلام، علوم آل محمد علیہم السلام کے وارث ہیں اور یہ علوم ان کے لئے کسبی نہیں بلکہ وہنی اور لدنی ہیں اور نبی کریم (ص) کی ذات اقدس سے ان تک منتقل ہوئے ہیں۔ جب ہم احادیث میں [[علی ابن ابی طالب|امیرالمومنین علی علیہ السلام]] کو بابِ علم نبی(ص) سمجھتے ہیں تو یہی علوم اس باب سے آگے آئمہ(ع)کے توسط سے امام صادق علیہ السلام تک منتقل ہوئے، یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ "حضرت ثابت ابن نعمان” یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ جو دو سال کے عرصے کو میں نے صادق آل محمد(ع) کی بارگاہ میں نہیں گزارا ہوتا تو میں ہلاک ہوتا، یہی وجہ ہے کہ محدثین اور متکلمین کی ایک بہت بڑی جماعت اپنے آپ کو امام علیہ السلام سے فیض پانے کی مرہونِ منت سمجھتی ہے۔
شیعہ نیوز:امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک علمی و فکری نشست میں شرکت کی اور خطاب کیا۔
تفصیلات کے مطابق، نشست کا موضوع ”اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ“ تھا۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ امین شہیدی نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا میں اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ جاری ہے۔ اسلام پر یلغار سیکولرز اور لبرلز کے ذریعہ کی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی راہ میں جو چیز حائل ہے، وہ انسان کی معنویت ہے۔ معنویت وہ واحد نظریہ ہے جو انسان کی روح کی ضرورت اور تکمیل کا ذریعہ ہے۔ دینِ اسلام کےعلاوہ یہ نظریہ ہندو ازم، سکھ ازم، بدھ ازم، عیسائیت اور یہودیت میں بھی موجود ہے۔
یہ انسان کی فطرت کا حصہ ہے کہ وہ روحانی سکون کا خواہش مند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرکینِ مکہ کا بتوں کو سجدہ کرنا بھی ان کی معنوی ضرورت کا تقاضہ تھا۔ اس معنویت کو راہِ راست پر لانے اور درست عبودیت کا راستہ دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ درست عبودیت کے انتخاب کے نتیجہ میں انسان کی معنویت کو سکون ملتا ہے اور وہ دنیا و آخرت میں سرخرو ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں دوسرے ذرائع سے حاصل کیے جانا والا سکون عارضی اور ناپائیدار ہے۔
جیسے شراب کا نشہ وقتی طور پر انسان کو پرسکون تو کر دیتا ہے لیکن نشہ کا اثر ختم ہونے کے بعد وہ اضطراب محسوس کرتا ہے اور دوبارہ سکون حاصل کرنے کے لئے مزید شراب پیتا ہے۔ ایسے اضطراب کا شکار انسان اگر درست راستہ کا انتخاب کرے تو اس کے اندر کی بےچینی ختم ہو جاتی ہے۔ اسی لئے فرمانِ خداوندی ہے کہ اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے۔ یہاں ذکر سے مراد صرف زبان سے چند مخصوص کلمات کا ادا کرنا نہیں ہے، کلمات ذکر کا مظہر ہیں جب کہ ذکر کی اصل روح وہ سکون اور اطمینان ہے جو انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے۔
== پوری دنیا میں اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ ==
== پوری دنیا میں اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ ==
امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ محمد امین شہیدی نے دینِ اسلام کو انسان کی تسکین کا واحد ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت امریکہ، کینیڈا اور یورپ کے اہم ممالک میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے کیونکہ وہاں کے لوگ سرمایہ دارانہ نظام سے آزادی چاہتے ہیں۔ اس نظام کا حاصل یہ ہے کہ انسان پیسہ کمانے کی مشین اور یہی پیسہ سرمایہ داروں تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔
امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ محمد امین شہیدی نے دینِ اسلام کو انسان کی تسکین کا واحد ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت امریکہ، کینیڈا اور یورپ کے اہم ممالک میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے کیونکہ وہاں کے لوگ سرمایہ دارانہ نظام سے آزادی چاہتے ہیں۔ اس نظام کا حاصل یہ ہے کہ انسان پیسہ کمانے کی مشین اور یہی پیسہ سرمایہ داروں تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔