"ایران" کے نسخوں کے درمیان فرق

 
(2 صارفین 22 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 12: سطر 12:
| کرنسی = ریال
| کرنسی = ریال
}}
}}
'''اسلامی جمہوریہ ایران''' جنوب مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے، جو مشرق وسطی میں واقع ہے۔ ایران کی سرحدیں شمال میں آرمینیا، آذربائیجان اور ترکمانستان، مشرق میں پاکستان اور افغانستان اور مغرب میں ترکی اور عراق سے ملتی ہیں۔ مزید برآں خلیج فارس اور خلیج عمان واقع ہیں۔ [[اسلام]] ملک کا سرکاری مذہب اور فارسی ملک کی قومی اور بین النسلی زبان ہے اور اس کے سکے کو ریال کہتے ہیں۔ فارس، آذربائیجانی ترک، کرد (کردستانی)، لر (لرستانی)، بلوچی، گیلکی مازندرانی، خوزستانی عرب اور ترکمان  اس ملک کے سب سے زیادہ اہم نسلی گروہ ہیں ۔ ایران کا سیاسی نظام جمہوری  اسلامی ہے جو ایران میں فروری 1357 سے قائم  ہے۔ یہ نظام دو  رکن  مشروعیت اور  مقبولیت پر قائم ہے جو حکومت ولی فقیہ کی بنیاد ہے۔یہ نظام ایران میں امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب (22 بہمن 1357) کی کامیابی کے بعد وجود میں آیا۔ 1357 کے انقلاب کے بعد اس سیاسی نظام کو، مطلق العنان سامراجی اور شاہی نظام کے جانشین کے طور پر ، 12 اپریل 1358 کو ہونے والے ریفرنڈم میں باضابطہ شکل دی گئی جس میں ووٹ دینے کے اہل افراد میں سے 98.2 فیصد نے حصہ لیا جن میں سے 97 فیصد سے زائدافراد جمہوری اسلامی کے حق میں ووٹ دیا۔ اس ریفرنڈم میں کل438 ،20،422 افراد  نے  ہاں میں اور 367،604نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ اس ریفرنڈم کے اختتام کے ساتھ ہی رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) نے 1 اپریل1979 کو 24:00 بجے اپنے ایک پیغام میں اس دن کو زمین پر خدا کی حکومت کا دن قرار دیا اور باضابطہ اسلامیہ جہوریہ کے قیام کا اعلان فرمایا۔ تہران ایران کا دار الحکومت ہے۔
'''اسلامی جمہوریہ ایران''' جنوب مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے، جو مشرق وسطی میں واقع ہے۔ ایران کی سرحدیں شمال میں آرمینیا، آذربائیجان اور ترکمانستان، مشرق میں پاکستان اور افغانستان اور مغرب میں ترکی اور عراق سے ملتی ہیں۔ ملک کا سرکاری مذہب اسلام  اور قومی اور بین النسلی زبان فارسی ہے اور اس کے سکے کو ریال کہتے ہیں۔ فارس، آذربائیجانی ترک، کرد (کردستانی)، لر (لرستانی)، بلوچی، گیلکی مازندرانی، خوزستانی عرب اور ترکمان  اس ملک کے سب سے زیادہ اہم نسلی گروہ ہیں۔
 
ایران کا سیاسی نظام جمہوری  اسلامی ہے جو فروری 1357 سے قائم  ہے۔ یہ نظام دو  رکن  مشروعیت اور  مقبولیت پر قائم ہے جو حکومت ولی فقیہ کی بنیاد ہے۔یہ نظام ایران میں امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب (22 بہمن 1357) کی کامیابی کے بعد وجود میں آیا۔اس سیاسی نظام کو یکم اپریل 1979 کو ایک ریفرنڈم کے ذریعے باضابطہ طور پر تسلیم کیا گیا۔ اس ریفرنڈم میں کل ووٹرز کے 98.2% نے حصہ لیا جن میں سے 97% سے زیادہ افراد نے جمہوری اسلامی کے حق میں ووٹ دیا۔ ریفرنڈم میں کل20422438ووٹوں میں سے 20054834 ووٹ موافق اور367604 ووٹ مخالف تھے۔
 
ریفرنڈم کے خاتمے پر، یکم اپریل 1979کو رات 12 بجے، رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) نے اپنے ایک پیغام میں اس دن کو زمین پر خدا کی حکومت کا دن قرار دیا اور باضابطہ اسلامیہ جمہوریہ کے قیام کا اعلان فرمایا۔ تہران ایران کا دار الحکومت ہے۔
 
== جغرافیا ==
== جغرافیا ==
عرف عام میں ایران اور موجودہ فارسی نام: جمهوری اسلامی ایران جو جنوب مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے، جو مشرق وسطی میں واقع ہے۔ ایران کی سرحدیں شمال میں آرمینیا، آذربائیجان اور ترکمانستان، مشرق میں پاکستان اور افغانستان اور مغرب میں ترکی اور عراق سے ملتی ہیں۔ مزید برآں خلیج فارس اور خلیج عمان واقع ہیں۔
عرف عام میں ایران اور موجودہ فارسی نام جمهوری اسلامی ایران جنوب مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے جو مشرق وسطی میں واقع ہے۔ ایران کی سرحدیں شمال میں آرمینیا، آذربائیجان اور ترکمانستان، مشرق میں پاکستان اور افغانستان اور مغرب میں ترکی اور عراق سے ملتی ہیں۔ مزید برآں خلیج فارس اور خلیج عمان واقع ہیں۔


اس ملک کا سرکاری مذہب اسلام اور فارسی ملک کی قومی اور بین النسلی زبان ہے۔ فارس، آذربائیجانی ترک، کرد (کردستانی)، لر(لرستانی)، بلوچی، گیلکی مازندرانی، خوزستانی عرب اور ترکمان ملک کے سب سے زیادہ اہم نسلی گروہ ہیں جو اس ملک میں زںدگی کرتے ہیں۔
اس ملک کا سرکاری مذہب اسلام اور فارسی ملک کی قومی اور بین النسلی زبان ہے۔ فارس، آذربائیجانی ترک، کرد (کردستانی)، لر(لرستانی)، بلوچی، گیلکی مازندرانی، خوزستانی عرب اور ترکمان ملک کے سب سے زیادہ اہم نسلی گروہ ہیں جو اس ملک میں زںدگی کرتے ہیں۔
سطر 20: سطر 25:
ایران جغرافیائی اعتبار سے اہم ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ قدرتی گیس، تیل اور قیمتی معدنیات اس کےدامن میں پوشیدہ ہیں۔ رقبہ کے اعتبار سے ایران دنیا میں 17ویں نمر پر ہے یہ ملک دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ اس ملک کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہےجو مدائن سلطنت 678 ق۔م سے لے کرصفوی سلطنت و پہلوی سلطنت تک پھیلی ہوئی ہے۔ ایران اپنے تہذیب وتمدن کے اعتبار سے ایشیا میں تیسرے اور دنیا میں گیارہویں درجے  پر ہے۔ یورپ اور ایشیا کے وسط میں ہونے کے باعث اس کی تاریخی اہمیت ہے۔ یہ ملک اقوام متحدہ، غیر وابستہ ممالک کی تحریک (نام)، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم (اوپیک) کا بانی رکن ہے۔ تیل کے عظیم ذخائر کی بدولت بین الاقوامی سیاست میں یہ  ملک اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ لفظ ایران کا مطلب آریاؤں کی سرزمین ہے۔ ریاست ایران 1648195 مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔ ایران کی کل آبادی 85 ملین ہے۔ آبادی کے لحاظ سے ایران دنیا میں سترہویں نمبر پر ہے۔
ایران جغرافیائی اعتبار سے اہم ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ قدرتی گیس، تیل اور قیمتی معدنیات اس کےدامن میں پوشیدہ ہیں۔ رقبہ کے اعتبار سے ایران دنیا میں 17ویں نمر پر ہے یہ ملک دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ اس ملک کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہےجو مدائن سلطنت 678 ق۔م سے لے کرصفوی سلطنت و پہلوی سلطنت تک پھیلی ہوئی ہے۔ ایران اپنے تہذیب وتمدن کے اعتبار سے ایشیا میں تیسرے اور دنیا میں گیارہویں درجے  پر ہے۔ یورپ اور ایشیا کے وسط میں ہونے کے باعث اس کی تاریخی اہمیت ہے۔ یہ ملک اقوام متحدہ، غیر وابستہ ممالک کی تحریک (نام)، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم (اوپیک) کا بانی رکن ہے۔ تیل کے عظیم ذخائر کی بدولت بین الاقوامی سیاست میں یہ  ملک اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ لفظ ایران کا مطلب آریاؤں کی سرزمین ہے۔ ریاست ایران 1648195 مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔ ایران کی کل آبادی 85 ملین ہے۔ آبادی کے لحاظ سے ایران دنیا میں سترہویں نمبر پر ہے۔
== انتظامی تقسیم ==
== انتظامی تقسیم ==
ایران کو انتظامی طور پر اکتیس صوبوں یا استان میں تقسیم کیا گیا ہے۔
ایران کو انتظامی طور پر اکتیس صوبوں یا استان میں تقسیم کیا گیا ہے:
{{کالم کی فہرست|2}}
* صوبہ اردبیل
* صوبہ اردبیل
* صوبہ البرز
* صوبہ البرز
سطر 52: سطر 58:
* صوبہ یزد
* صوبہ یزد
* صوبہ زنجان
* صوبہ زنجان
{{اختتام}}


== ایران ترقی کے راستے پر ==
== ایران ترقی کے راستے پر ==
سطر 206: سطر 213:
مذکورہ کونسل نے 7 مئی کو نظرثانی کا کام شروع کیا اور جون 1368 میں امام خمینی کی وفات کے بعد اس نے اپنا مشن جاری رکھا اور نظر ثانی شدہ اور ترمیم شدہ آئین کو اگست 1368 میں ایک ریفرنڈم میں قوم سے منظور کیا گیا <ref>«متن کامل پیشنهادی پیش‌نویس قانون اساسی»، ص‌۵۶</ref>۔
مذکورہ کونسل نے 7 مئی کو نظرثانی کا کام شروع کیا اور جون 1368 میں امام خمینی کی وفات کے بعد اس نے اپنا مشن جاری رکھا اور نظر ثانی شدہ اور ترمیم شدہ آئین کو اگست 1368 میں ایک ریفرنڈم میں قوم سے منظور کیا گیا <ref>«متن کامل پیشنهادی پیش‌نویس قانون اساسی»، ص‌۵۶</ref>۔
== اسلامی جمہوریہ کے مبانی ==
== اسلامی جمہوریہ کے مبانی ==
جمہوری نظام کے اصولوں میں چار اجزاء شامل ہیں:
جمہوری نظام کے اصولوں میں چار اجزاء شامل ہوتے ہیں:


* براہ راست یا بالواسطہ (پارلیمنٹ کے ذریعے) لوگوں پر حاکم کا انتخاب۔
* حکمراں کا انتخاب براہ راست یا بالواسطہ (پارلیمنٹ کے ذریعے)خود عوام کرتی ہے۔
* حکمران کی حکمرانی کی محدود مدت، جس کی وجہ سے اس کا دوبارہ انتخاب ایک یا دو بار سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔
* حکمران کی حکمرانی کی محدود مدت ہوتی ہے اور  اس کا دوبارہ انتخاب ایک یا دو بار سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔
* ملک کے دوسرے لوگوں کے ساتھ قانون کے سامنے حکمران کا برابر ہونا :وہ قانون کا تابع بھی ہے اور اپنے تمام اعمال کا ذمہ دار بھی ہے۔
* قانون کے سامنے حکمران  کی حیثیت ملک کے دوسرے لوگوں کے مساوی ہوتی ہے اور وہ قانون کا تابع اور اپنے تمام اعمال کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
* حکمران پر قانونی اور سیاسی نقطہ نظر سے دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے <ref>هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۱، ص‌۵۳۵۴</ref>۔
* حکمران پر قانونی اور سیاسی نقطہ نظر سے دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے <ref>هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۱، ص‌۵۳۵۴</ref>۔


مذکورہ اجزاء کے نفاذ کے نتیجہ میں  مندرجہ ذیل  چیزیں سامنے آتی ہیں:
اسلامی جمہوریہ ایران کا نظام مذکورہ چاروں  اجزاء کا حامل ہے کیونکہ:


ملک کی حکمرانی اور نظم و نسق، خواہ رہنما کے انتخاب میں ہو (بالواسطہ ووٹ کے ذریعے) یا صدر کے انتخاب میں (براہ راست ووٹ کے ذریعے) نیز حکومت کی تشکیل (اسلامی کونسل کے اعتماد کا ووٹ)، عوامی ووٹوں کی بنیاد پر مبنی ہے۔صدر کے عہدے کی مدت (ایک بار دوبارہ انتخاب کے امکان کے ساتھ) چار سال ہے؛رہبر، صدر اور اقتدار میں موجود دیگر افراد قانون کے سامنے ملک کے  دیگر افراد کے برابر ہیں۔رہبری کے عہدے اور صدر اور وزراء کے لیے قانونی ذمہ داری مقدمہ اور سزا کی حد تک اور سیاسی ذمہ داری مواخذے کی حد تک ہے <ref>ایران‌. قانون اساسی‌، اصول‌۶، ۸۷، ۱۰۷، ۱۱۱، ۱۱۴، ۱۳۳،</ref>۔
* ملک کی حکمرانی اور نظم و نسق، خواہ رہبر کے انتخاب میں ہو (بالواسطہ ووٹ کے ذریعے) یا صدر کے انتخاب میں (براہ راست ووٹ کے ذریعے) نیز حکومت کی تشکیل (اسلامی پارلیمنٹ کے اعتماد کے ووٹ کے ذریعہ)، عوامی ووٹوں کی بنیاد پر مبنی ہے۔
* صدر کے عہدے کی مدت (ایک بار دوبارہ انتخاب کے امکان کے ساتھ) چار سال ہے۔
* رہبر، صدر اور دیگر ارباب  اقتدار قانون کے سامنے ملک کے  دیگر افراد کے برابر حیثیت رکھتے ہیں۔
* رہبر معظم ، صدر جمہوریہ  اور دیگر وزراء کے لیے قانونی ذمہ داری مقدمہ اور سزا کی حد تک اور سیاسی ذمہ داری معزولی  کی حد تک ہے <ref>ایران‌. قانون اساسی‌، اصول‌۶، ۸۷، ۱۰۷، ۱۱۱، ۱۱۴، ۱۳۳،</ref>۔
== اسلامی جمہوریہ میں اسلام اور شیعیت کا مقام ==
== اسلامی جمہوریہ میں اسلام اور شیعیت کا مقام ==
دیگر عام جمہوری نظاموں کے مقابلے اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کی امتیازی خصوصیت، اس نظام کا اسلامی اور مذہبی ہونا ہے، یعنی ایرانی عوام کی اکثریت نے ملک کے سیاسی نظام کا تعین کرنے کے لیے ریفرنڈم کے ذریعے، اسلام اور اسکی تعلیمات کو حکومت کے مواد اور بنیاد کے طور پر انتخاب کیا ہے۔
دیگر عام جمہوری نظاموں کے مقابلے اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کی امتیازی خصوصیت، اس نظام کا اسلامی اور مذہبی ہونا ہے، یعنی ایرانی عوام کی اکثریت نے ملک کے سیاسی نظام کا تعین کرنے کے لیے ریفرنڈم کے ذریعے، اسلام اور اسکی تعلیمات کو حکومت کے مواد اور بنیاد کے طور پر انتخاب کیا ہے۔


[[شیعہ]] اسلامی عقائد کے اصول (توحید، رسالت، قیامت، عدل اور امامت)اور کرامت انسانی اور آزادی، خدا کے سامنے جوابدہی کے ساتھ مل کر اسلامی جمہوریہ ایران کے قیام اور تسلسل کے ستون ہیں ۔
اسلامی  [[شیعہ]] اصول عقائد (توحید، رسالت، قیامت، عدل اور امامت)اورانسانی کرامت اور آزادی،انسانی  مسئولیت کے ساتھ مل کر اسلامی جمہوریہ ایران کے قیام اور بقا  کے ستون ہیں ۔


عدل و انصاف، آزادی اور قومی یکجہتی نظام کے اعلیٰ مقاصد ہیں، اور ان کے حصول کے لیے اسلامی جمہوریہ کے آئین میں طریقے اور عمومی احکامات فراہم کیے گئے ہیں جن میں جامع الشرائط فقہاء کا مسلسل<ref>رجوع کریں، هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۱، ص‌۶۳۷۵</ref> اجتہاد، جدید انسانی علوم و تکنیک کا استعمال، ظلم کرنے اور ظلم سہنے (ملکی سطح پر ) اور مسلط ہونے اور دوسروں کے تسلط کو قبول کرنے  کی نفی (غیر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ) شامل ہے (اصول 2 اور 152)
عدل و انصاف، آزادی اور قومی یکجہتی نظام کے مقاصد عالیہ میں شامل ہیں اور ان کے حصول کے لیے اسلامی جمہوریہ کے آئین میں مختلف طریقے اور عمومی احکامات مقرر کیے گئے ہیں جن میں جامع الشرائط فقہاء کا مسلسل اجتہاد، جدید ترقی یافتہ انسانی علوم و فنون اور تجربات  کا استعمال اور انہیں ترقی دینے کی کوشش،(ملکی سطح پر) ظلم کرنے اور ظلم سہنے اور(بین الاقوامی سطح پر)  مسلط ہونے اور دوسروں کے تسلط کو قبول کرنے  کی نفی شامل ہے (اصول 2 اور 152)


اسلامی جمہوریہ کے نظام میں اسلام اور شیعہ اثناعشری مذہب کی  حاکمیت کا تقاضا ہے کہ اس مذہب کے معیارات، قانونی، عدالتی، سیاسی اور سماجی معاملات میں غالب اور موثر ہوں۔ اس کے باوجود دیگر اسلامی مکاتب فکر (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور زیدی) کے پیروکاروں کے حقوق شیعوں کے برابر ہیں <ref>آئین کے ان شقوں کا مطالعہ کریں: ۴۵، ۸، ۱۲، ۱۹۲۰، ۲۶، ۶۱، ۶۴، ۶۷، ۷۲، ۹۱، ۹۴، ۱۰۹، ۱۱۵، ۱۵۷، ۱۶۲۱۶۳، ۱۶۷</ref>۔
اسلامی جمہوریہ کے نظام میں اسلام اور شیعہ اثناعشری مذہب کی  حاکمیت کا تقاضا ہے کہ قانونی، عدالتی، سیاسی اور سماجی معاملات میں اس دین اور مذہب کے معیارات اور تعلیمات غالب اور موثر ہوں۔ اس کے باوجود دیگر اسلامی مکاتب فکر (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور زیدی) کے پیروکاروں کے حقوق شیعوں کے برابر ہوں گے<ref>آئین کے ان شقوں کا مطالعہ کریں: ۴۵، ۸، ۱۲، ۱۹۲۰، ۲۶، ۶۱، ۶۴، ۶۷، ۷۲، ۹۱، ۹۴، ۱۰۹، ۱۱۵، ۱۵۷، ۱۶۲۱۶۳، ۱۶۷</ref>۔


دوسرے مذاہب کے پیروکار جن میں زرتشتی، کلیمی اور عیسائی شامل ہیں  ان  کے بھی  مندرجہ ذیل  حقوق ہیں:
دوسرے مذاہب کے پیروکار جن میں زرتشتی، کلیمی اور عیسائی شامل ہیں  اور جو اہل کتاب کے نام سے جانے جاتے ہیں ان  کے بھی  مندرجہ ذیل  حقوق ہیں:


قانون کے حدود میں مذہبی تقریبات انجام دینے کی آزادی،ذاتی احوال اور دینی تعلیمات میں  اپنے مذہب کے مطابق  عمل کرنے کی آزادی ، مذہبی، ثقافتی، سماجی اور فلاحی تنظمیں بنانا، اسلامی کونسل میں نمائندگی، اور سماجی، انتظامی اور روزگار کے حقوق <ref>اصول ۳، ۱۳، ۱۹۲۰، ۲۶</ref>۔
قانون کے حدود میں مذہبی تقریبات انجام دینے کی آزادی،ذاتی احوال اور دینی تعلیمات میں  اپنے مذہب کے مطابق  عمل کرنے کی آزادی ، مذہبی، ثقافتی، سماجی اور فلاحی تنظمیں بنانے کی آزادی، اسلامی پارلیمنٹ میں نمائندگی، اور سماجی، انتظامی اور روزگار کے حقوق <ref>اصول ۳، ۱۳، ۱۹۲۰، ۲۶</ref>۔


غیر الہی مذہبی اقلیتیں، بشرطیکہ وہ اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف سازش نہ کریں، بعض حقوق  <ref>اصول ۱۹۴۲</ref>کے ساتھ ساتھ اچھے اخلاق اور اسلامی انصاف سے بھی لطف اندوز ہوں گی <ref>مطالعہ کریں، هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۱، ص‌۱۶۱۱۶۶</ref>۔
غیر الہی مذہبی اقلیتیں بھی ، بشرطیکہ وہ اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف سازش نہ کریں،معینہ حقوق  کےساتھ ساتھ اخلاق حسنہ اور اسلامی عدل و انصاف سے مستفید  ہوں گی <ref>مطالعہ کریں، هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۱، ص‌۱۶۱۱۶۶</ref>۔
== امر بالمعروف و نہی عن المنکر ==
== امر بالمعروف و نہی عن المنکر ==
اسلامی جمہوری  نظام میں، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا، حکومت اور قوم کا عمومی وظیفہ ہے جس کا نفاذ خوبیوں کے فروغ اور بدعنوانی کے رد کی بنیاد بن سکتا ہے۔ بورڈ آف گورنرز (قیادت اور تین حکمران طاقتیں) اس اصول کے نفاذ کے لیے ذمہ دار ہے، قیادت کی نگرانی اور سماجی اصلاحات کی پالیسیوں اور قوانین کی تشکیل، انتظامی نگرانی اور عدالتی کارروائی کے ذریعے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس اصول کو حکومت پر لوگوں کی نگرانی کے طریقہ کار کے ذریعے لاگو کیا جانا چاہیے (بشمول پریس اور ذرائع ابلاغ، سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں، اور اجتماعات اور مارچ)۔ اسلامی جمہوریہ نظام میں حکمرانوں کی اخلاقی قابلیت اور اپنی تقدیر کے تعین میں عوام کی حاکمیت کے مفروضے کے ساتھ آٹھویں اصول میں نیکی کا حکم اور برائی سے روکنا عوام کا باہمی فریضہ ہے۔ اس کا طریقہ باہمی نصیحت ہے، لیکن عملی اقدام اور سزا حکمران کا کام ہے، عوام کا نہیں <ref>مطالعہ کریں: هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۱، ص‌۲۲۲۲۲۶، ۲۲۸۲۳۴</ref>۔
اسلامی جمہوری  نظام میں، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کو  متقابل ہمہ گیر نگرانی  کی روش کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔ریاست اور عوام کے ذریعہ اس روش کا مسلسل نفاذ اچھائیوں کے فروغ اور برائیوں کے سد باب کا باعث  بن سکتا ہے ۔
 
حکومتی ادارے (رہبری اور تینوں حکومتی قوتیں) اس اصول کو اس طرح نافذ کرتے ہیں کہ:
 
* رہبر معظم مجموعی نگرانی کرتے ہیں اور سماجی اصلاح کے لیے پالیسیاں اور قوانین بناتے ہیں۔
* انتظامیہ ان پالیسیوں اور قوانین کو نافذ کرتی ہے۔
* عدلیہ ان پالیسیوں اور قوانین کی خلاف ورزیوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے۔
 
اس کے علاوہ، عوام کے ذریعے حکومت پر نظر رکھنے کے طریقہ کار (جس میں پریس اور میڈیا، سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں، اور اجتماعات اور جلوس شامل ہیں) کے ذریعے بھی اس اصول کو نافذ کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
 
جمہوری اسلامی نظام میں، یہ فرض کرتے ہوئے کہ حکمران اخلاقی طور پر اہل ہیں اور یہ کہ عوام  اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے خودمختار ہیں، اصل ہشتم میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر  کو عوام کا باہمی فریضہ قرار دیا گیا ہے
 
اسے انجام دینے کا طریقہ ایک دوسرے کو نصیحت اور یاد دہانی ہے، لیکن عملی کارروائی اور سزا دینا حکمرانوں کی ذمہ داری ہے، عوام کی نہیں۔ <ref>مطالعہ کریں: هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۱، ص‌۲۲۲۲۲۶، ۲۲۸۲۳۴</ref>۔
== خارجہ پالیسی ==
== خارجہ پالیسی ==
اسلامی جمہوریہ کی خارجہ پالیسی کے اصول یہ ہیں:  
اسلامی جمہوریہ کی خارجہ پالیسی کے اصول یہ ہیں:
خارجہ پالیسی کے نفاذ میں قومی خودمختاری کی بالادستی (ملک کی آزادی اور علاقائی سالمیت کے تحفظ اور تسلط جویی اور تسلط پذیری کو مسترد کرنے کی پالیسیوں پر عمل کرنے سے ممکن ہوسکتا ہے)
 
دبنگ طاقتوں کے خلاف عدم عزم اور غیر متحارب ریاستوں کے ساتھ پرامن تعلقات کے ذریعے بین الاقوامی اتحاد اور بقائے باہمی؛ اسلامی ممالک کا اتحاد جس کا مقصد عالم اسلام کے سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی اتحاد (اسلامی دنیا کی امت) کو حاصل کرنا ہے
* خارجہ پالیسی کے نفاذ میں قومی خودمختاری کی بالادستی۔اس کے لئے ملک کی آزادی اور علاقائی سالمیت کے تحفظ اور تسلط جوئی اور تسلط پذیری کو مسترد کرنے کی پالیسیوں پر عمل کیاجاتا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر انسانی امداد، بشمول مسلمانوں، مظلوموں، پسماندہوں اور پناہ گزینوں کی حمایت <ref>مطالعہ کریں: ایران‌. قانون اساسی‌، اصول‌۳، ۱۱، ۱۵۲، ۱۵۴،۱۵۵</ref>۔
* تسلط پسند طاقتوں کے سے عدم وابستگی اور غیر متحارب ریاستوں کے ساتھ پرامن تعلقات کے ذریعے بین الاقوامی اتحاد اور ہم آہنگی۔
خارجہ پالیسی کا اعلیٰ انتظام قیادت کی ذمہ داری ہے، جو خارجہ امور میں نظام کی عمومی پالیسیوں کا تعین کرنے، جنگ اور امن کا اعلان کرنے، افواج کو متحرک کرنے، اور ملک کے خارجہ امور کی قیادت کی نگرانی کے ذریعے کیا جاتا ہے سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کی منظوری اور اہم امور پر رہنمائی فراہم کرنا)۔ قیادت کے بعد، صدر، قومی خودمختاری کے مجسم اور ملک کی اعلیٰ ترین سیاسی اتھارٹی کے طور پر اور خارجہ تعلقات قائم کرنے کا ذمہ دار ہے (سفیروں کو بھیجنے اور وصول کرنے اور بین الاقوامی معاہدوں کے ذریعے)، ملک کی خارجہ پالیسی کا انچارج ہے۔ اسلامی کونسل، بین الاقوامی معاہدوں کی نگرانی، خارجہ پالیسی کے قوانین کے قیام، خارجہ پالیسی کمیشن، اور نمائندوں کے ذریعے (خارجہ پالیسی کے مسائل پر تبصرہ، یاد دہانیوں، سوالات اور صدر اور وزیر سے خارجہ پالیسی کے میدان میں مواخذے کے ذریعے۔ خارجہ پالیسی میں ملک کی رائے کا اطلاق ہوتا ہے <ref>مطالعہ کریں: هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۱، ص‌۴۱۲-۴۳۳؛ شفیعی‌فر، ص‌۸۴-۸۶</ref>۔
* اسلامی ممالک کا اتحاد جس کا مقصد عالم اسلام کے سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی اتحادتک پہنچنا ہے۔
* بین الاقوامی سطح پر انسانی امداد، جس میں مسلمانوں، مظلوموں، محروموں اور پناہ گزینوں کی حمایت شامل ہے <ref>مطالعہ کریں: ایران‌. قانون اساسی‌، اصول‌۳، ۱۱، ۱۵۲، ۱۵۴،۱۵۵</ref>۔
 
خارجہ پالیسی کا اعلیٰ ترین انتظام رہبر کے پاس ہوتا ہے، جو ملک کے خارجہ امور کے بارے میں عام پالیسیوں کا تعین کرتا ہے، جنگ اور صلح کا اعلان کرتا ہے، افواج کو متحرک کرتا ہے اور ملک کے خارجہ امور کی نگرانی کرتا ہے جیسے  قومی سلامتی کونسل کی منظوریوں کی توثیق کرنا اور اہم مسائل پر رہنمائی فراہم کرنا۔
 
رہبر کے بعد، صدر جمہوریہ ، قومی خودمختاری کی علامت اور ملک کی اعلیٰ ترین سیاسی اتھارٹی کے طور پر اورسفیروں کو بھیجنے اور وصول کرنے اور بین الاقوامی معاہدوں پردستخط کے ذریعے، خارجہ تعلقات قائم کرنے کے ذمہ دار  کی حیثیت سے  ملک کی خارجہ پالیسی کے انچارج کا کردار ادا کرتا ہے۔
 
اسلامی کونسل ، بین الاقوامی معاہدوں کی نگرانی، خارجہ پالیسی کے قوانین بنانے، خارجہ پالیسی کمیشن، اور نمائندوں کے ذریعےملک کی خارجہ پالیسی میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔نمائندے خارجہ پالیسی کے مسائل پر رائے دیتے ہیں، یاد دہانی کراتے ہیں، اور  وزیر خارجہ اور صدر جمہوریہ سے  سوال کرتے ہیں اور وضاحت طلب کرتے ہیں۔  <ref>مطالعہ کریں: هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۱، ص‌۴۱۲-۴۳۳؛ شفیعی‌فر، ص‌۸۴-۸۶</ref>۔
== سرکاری ادارے اور ڈھانچے ==
== سرکاری ادارے اور ڈھانچے ==
اسلامی جمہوریہ کے آئین میں حاکمیت الٰہی اور انسانی ہے۔ خدائی حاکمیت اس تعلیم سے ماخوذ ہے کہ حاکمیت اور قانون سازی صرف خدا کے لئے مخصوص ہے اور کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ خدا کی اجازت کے بغیر جائیداد اور لوگوں اور قانون سازی پر قبضہ کرے۔ مذہبی اور فقہی بحثوں کے مطابق، [[امام عصر (ع)]] کی غیبت کے دوران، امام معصوم کے لیے دین کے اہم ماخذ کی بنیاد پر قانونی احکام کا استنباط کرنا، اور شریعت کی طرف سے اجازت یافتہ امور میں مداخلت کرنا جائز ہے۔ اس بنیاد کے ساتھ، ولایت فقیہ کی نگرانی میں اسلامی معیارات پر مبنی تمام ضوابط کا قیام، الہی حاکمیت کا ضامن ہے۔
اسلامی جمہوریہ کے آئین میں حاکمیت الٰہی اور انسانی ہے۔ خدائی حاکمیت اس تعلیم سے ماخوذ ہے کہ حاکمیت اور قانون سازی صرف خدا کے لئے مخصوص ہے اور کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ خدا کی اجازت کے بغیر لوگوں کے جان و مال میں تصرف کرے اور ان  کے لئے قانون وضع کرے۔کلامی اور فقہی مباحث کے مطابق، امام مہدی(عج) کی غیبت کے دوران، فقیہ جامع الشرائط امام معصوم(ع) کی طرف سے مجاز ہے کہ وہ دین کے بنیادی ذرائع سے احکام شرعیہ کا استنباط کرے اور ان امور میں مداخلت کرے جن کی اسلام نے اجازت دی ہے۔اس بنیاد پر ، ولی فقیہ کی نگرانی میں اسلامی معیارات کو سامنے رکھتے ہوئے  قوانین کی تدوین، الہی حاکمیت کی ضامن ہے۔
حاکمیت کا انسانی پہلو خدا پر ایمان اور دنیا اور انسان پر اس کی مکمل حاکمیت پر یقین سے پیدا ہوتا ہے، اور یہ کہ اس نے انسان کو اپنی تقدیر پر خود مختار بنایا ہے۔ لہٰذا لوگوں کی اپنی سماجی اور سیاسی تقدیر پر حاکمیت ایک الٰہی حق ہے اور اس میں ان کی عملی اور ہمہ گیر شرکت کی ضرورت ہے۔ خودمختاری کے اس پہلو کے ضامن متعدد قانونی (صدر، اسلامی کونسل کے نمائندوں اور دیگر کے انتخاب میں عوام کی براہ راست اور بالواسطہ شرکت) اور سیاسی (تنظیموں اور جماعتوں اور سیاسی و تجارتی یونینوں کی آزادی کا حق) ہیں <ref>هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۲، ص‌۱۷</ref>۔
 
حاکمیت کا انسانی پہلو خدا پر ایمان اور دنیا اور انسان پر اس کی مکمل حاکمیت پر یقین سے پیدا ہوتا ہے، اور یہ کہ اس نے انسان کو اپنی تقدیر بنانے کا اختیار دیا ہے۔ لہٰذا اپنی سماجی اور سیاسی تقدیر پر لوگوں کی  حاکمیت ایک الٰہی حق ہے اور اس میں ان کی عملی اور ہمہ گیر شرکت کی ضرورت ہے۔ متعدد قانونی  اور سیاسی راہیں خود مختاری کے اس پہلو کی ضامن ہیں جیسے صدر اور اسلامی کونسل کے نمائندوں و غیرہ کے انتخاب میں عوام کی براہ راست اور بالواسطہ شرکت اور سیاسی جماعتوں اور تنظموں اور تجارتی یونینوں کا حق آزادی<ref>هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۲، ص‌۱۷</ref>۔
== حکومت کی شکل ==
== حکومت کی شکل ==
اسلامی جمہوریہ کے نظام میں حکومت کی شکل تین شاخیں (مجلس شورای اسلامی، (قانون ساز اسمبلی انتظامیہ) اور عدلیہ) ایک دوسرے سے آزاد اور رہبر (ولی فقیہ) کی نگرانی میں ہیں، اس لیے اس میں اختیارات کی علیحدگی کا طریقہ بنیادی طور پر مختلف ہے۔اسی لحاظ سے روایتی نظاموں میں اختیارات کی علیحدگی کے لحاظ بنیادی اختلافات رکھتے ہیں۔ انداز سے حکومت نیم صدارتی اور نیم پارلیمانی ہے۔ یہ نیم صدارتی ہے کیونکہ عوام صدر کا انتخاب کرتے ہیں اور یہ نیم پارلیمانی ہے کیونکہ صدر حکومت کے ارکان کو پارلیمنٹ میں تجویز کرتا ہے اور پارلیمنٹ ان کی منظوری دیتی ہے۔ نظام کی جامعیت اور دیانت داری کا تقاضا ہے کہ اختیارات کی علیحدگی کے باوجود تینوں طاقتوں کے درمیان ہم آہنگی ہو۔ اس مقصد کے لیے تینوں شاخوں کے تعلقات اور ان کی آزادی کی حدود کو واضح کیا گیا ہے اور ملازمتوں کی وصولی پر پابندی کے اصول کی پیشین گوئی کی گئی ہے <ref>ہاشمی، 1925، جلد 2، ص1217</ref>۔
اسلامی جمہوری  نظام میں حکومت کی شکل تین قوتوں (مقننہ، مجریہ اور قضائیہ) پر مشتمل ہے جو ایک دوسرے سے آزاد ہیں اور رہبر معظم (ولی فقیہ) کی نگرانی میں کام کرتی ہیں۔ اس لیے تقسیم کار  کا یہ نمونہ روایتی نظاموں میں تقسیم کار کے نمونے سے بہت مختلف ہے۔حکومت نیم صدارتی اور نیم پارلیمانی ہے۔ یہ نیم صدارتی ہے کیونکہ صدر کو عوام منتخب کرتے ہیں اور نیم پارلیمانی ہے کیونکہ وزراء اور کابینہ کے دیگر ارکان کو صدر نامزد کرتا ہے اور پارلیمنٹ ان کی منظوری دیتی ہے۔
رہبر کی نگرانی میں تین طاقتوں کے علاوہ، اسلامی جمہوریہ کی خودمختاری کے نفاذ میں خصوصی ادارے ہیں؛ ادارے جیسے اسلامی کونسلز، ریڈیو اور ٹیلی ویژن، سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل، سپریم کونسل آف کلچرل ریوولوشن، اور ایکسپیڈینسی کونسل۔
 
== حکومت کے ستون ==
نظام کی جامعیت اور انسجام  کا تقاضا ہے کہ اختیارات کی علیحدگی کے باوجود تینوں طاقتوں کے درمیان ہم آہنگی قائم رہے۔اس مقصد کے لیے، تینوں قوتوں کے درمیان تعلقات اور ان کی آزادی کی حدود کو واضح کیا گیا ہے اور ایک سے زیادہ عہدوں پر فائز ہونے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔<ref>ہاشمی، 1925، جلد 2، ص1217</ref>۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے ستون یہ ہیں:
 
== ولایت فقیہ اور قیادت ==
تینوں قوتوں کے علاوہ، جو رہبر معظم کی نگرانی میں کام کرتی ہیں، جمہوری اسلامی کی حاکمیت کو نافذ کرنے کے لیے کچھ مخصوص ادارے بھی موجود ہیں۔ ان اداروں میں اسلامی کونسلز،ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا ادارہ، قومی سلامتی کونسل، ثقافتی انقلاب کونسل، اور مجمع تشخیص مصلحت نظام شامل ہیں۔
اسلامی جمہوریہ کی حکومت کا پہلا ستون ولایت اور قیادت ہے۔
== ارکان حکومت ==
آئین کے دیباچے اور اس کے اصول 5 اور 57 کے مطابق فقیہ کا مکمل اختیار اسلامی جمہوریہ کی اسلامی حکومت کی بنیاد ہے۔ حکومت کی اسلامییت کا مطلب یہ ہے کہ اس میں موجودہ قوانین، ہر لحاظ سے، اسلامی معیارات پر مبنی ہیں، اور آئین کی قانونی حیثیت اس کی شریعت کے ساتھ مشروط ہے <ref>اصول 4؛ شعبانی، ص 7983</ref>۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے مندرجہ ذیل ارکان  ہیں:
ولایت فقیہ کا تصور آئین (اصول 5) میں ادارہ جاتی طریقے سے فراہم کیا گیا ہے۔ ایک فقیہ میں درج ذیل خصوصیات کا ہونا ضروری ہے:
== ولایت فقیہ اور رہبری ==
فقہ کے مختلف ابواب میں بیان کرنے کے لیے درکار فقہی قابلیت، عدل و تقویٰ، صحیح سیاسی اور سماجی بصیرت، وسائل کی مہارت، جرأت، انتظام اور قیادت کے لیے کافی طاقت <ref>اصول 109؛ ہاشمی، 1994، جلد 2، صفحہ 45</ref>۔ ماہرین کی کونسل (ایران۔ آئین، اصول 107 اور 109) کے ذریعہ رہنما کے انتخاب کے لیے فقہی اور سیاسی مسائل کا علم اور عام لوگوں کی طرف سے قبولیت ایک اہم شرط ہے۔
اسلامی جمہوریہ کی حکومت کا پہلا ستون ولایت اور رہبری ہے۔آئین کے دیباچے اور اس کے اصول 5 اور 57 کے مطابق ولایت مطلقہ فقیہ اسلامی جمہوریہ کی حکومت کی اسلامیت کی بنیاد ہے۔ حکومت کی اسلامییت کا مطلب یہ ہے کہ اس میں موجود قوانین، ہر لحاظ سے، اسلامی معیارات پر مبنی ہیں اور آئین کی قانونی حیثیت شریعت کے ساتھ اس کی مطابقت سے وابستہ ہے <ref>اصول 4؛ شعبانی، ص 7983</ref>۔ولایت فقیہ کا تصور آئین (اصول 5) میں ادارہ جاتی طریقے سے فراہم کیا گیا ہے۔ فقیہ میں درج ذیل خصوصیات کا ہونا ضروری ہے:
== قیادت کے اختیارات اور فرائض ==
 
اسلامی جمہوریہ ایران میں حکومتی افواج قیادت کی نگرانی میں کام کرتی ہیں اور درحقیقت قیادت ہی حکومت کی اعلیٰ ترین اتھارٹی اور اختیار ہے۔ اس کو تفویض کردہ اہم اختیارات اور فرائض اس عہدے کی اہمیت کی نشاندہی کرتے ہیں۔
* مختلف فقہی ابواب میں افتاء کی علمی صلاحیت
قیادت کے کچھ فرائض نظام کے اسلام کو برقرار رکھنے سے متعلق ہیں، جیسے نظام کی عمومی پالیسیوں کا تعین، ان پالیسیوں کے اچھے نفاذ کی نگرانی، برطرف اور نصب کرنا اور فقہا کے استعفیٰ کو قبول یا مسترد کرنا۔
* عدالت اور تقویٰ
قیادت کے کچھ فرائض کا تینوں طاقتوں سے بہت کم تعلق ہے، جیسے مسلح اور قانون نافذ کرنے والی افواج کے کمانڈروں اور سربراہان یا نشریاتی ادارے کے سربراہ کے استعفیٰ کو برطرف کرنا اور ان کو نصب کرنا اور قبول کرنا، کیونکہ بنیادی طور پر ان اختیارات کا ہونا کسی ایک طاقت کا ہاتھ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
* صحیح سیاسی اور سماجی بصیرت
قیادت کے کچھ اور فرائض جنگ کا اعلان اور افواج کو متحرک کرنا، ریفرنڈم کا حکم جاری کرنا اور تینوں افواج کے اختلافات کو دور کرنا اور ان کے تعلقات کو منظم کرنا ہیں۔
* تدبیر، شجاعت، اور انتظامی صلاحیت
اس طرح قیادت حکومتی افواج کی نگرانی کرتے ہوئے ان کی میکرو پالیسیوں کا تعین کرتی ہے اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں ان کے مسائل حل کرتی ہے۔
* قیادت کی  ضروری اہلیت (اصل 109؛ ہاشمی، 1374ش، ج 2، ص 45) <ref>اصول 109؛ ہاشمی، 1994، جلد 2، صفحہ 45</ref>
== تینوں افواج کی قیادت کی نگرانی ==
 
ایگزیکٹو برانچ پر قیادت کی نگرانی صدارتی حکم نامے پر دستخط کے ذریعے کی جاتی ہے اور سپریم کورٹ کی جانب سے ان کی نااہلی کے فیصلے یا پارلیمنٹ کے عدم اعتماد کے ووٹ کی صورت میں اسے ہٹانے کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ مقننہ کی نگرانی اور اس کے قوانین اور منظوریوں کی اسلامییت کی ضمانت گارڈین کونسل کے فقہاء کی تنصیب کے ذریعے ہے۔ گارڈین کونسل میں فقہاء کا فیصلہ شرعی معیارات کی پاسداری کے حوالے سے فیصلہ کن ہے۔ عدالتی شاخ کی نگرانی بھی اس شاخ کے اعلیٰ ترین اتھارٹی کی تنصیب اور برطرفی کے ذریعے کی جاتی ہے <ref>اصول 91، 96، 110</ref>۔
فقہی اور سیاسی مسائل میں اعلمیت اور عوام الناس میں مقبولیت مجلس خبرگان کے ذریعے رہبر کے انتخاب کے بنیادی شرائط ہیں۔
اپنے فرائض کی انجام دہی میں، اپنے مشیروں کے علاوہ، رہنما ایکسپیڈنسی کونسل کی دانشورانہ مدد اور ماہرین کی رائے سے بھی مستفید ہوتا ہے۔ یہ اسمبلی، جس کے تمام ارکان قائد کے ذریعے مقرر کیے جاتے ہیں، نظام کی عمومی پالیسیوں کے تعین کے لیے قیادت کو مشورہ دینے کے علاوہ، گارڈین کونسل اور اسلامی کونسل کے درمیان تنازعات کو حل کرنے کا اختیار بھی ہے۔ نیز، اسمبلی آئینی نظرثانی کونسل اور لیڈر شپ سلیکشن کونسل میں حصہ لیتی ہے۔
 
== رہبر کے اختیارات اور فرائض ==
جمہوری اسلامی ایران میں حکومتی ادارے رہبری کی نگرانی میں کام کرتے ہیں ۔ رہبر  درحقیقت حکومت کا سب سے اعلیٰ مقام اور مرجع ہے۔ اس کو تفویض کردہ اہم اختیارات اور فرائض اس عہدے کی اہمیت کی نشاندہی کرتے ہیں۔
 
رہبرکے کچھ فرائض نظام کی اسلامی حیثیت کو برقرار رکھنے سے متعلق ہیں، جیسے نظام کی بنیادی پالیسیوں کا تعین، ان پالیسیوں کے نفاذ کی نگرانی، شورای نگهبان کے فقہا اورچیف جسٹس کی تقرری اور برطرفی، اور ان کے استعفے کو منظور یا مسترد کرنا۔
 
رہبر کے بعض فرائض تینوں قوتوں سے براہ راست کوئی تعلق نہیں  رکھتے، جیسے مسلح افواج اور انتظامی  فورس کے کمانڈروں اور سربراہوں کی تقرری اور برطرفی، یا نشریاتی ادارے کے سربراہ کی تقرری۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان اختیارات کا کسی ایک قوت کے پاس ہونا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
 
رہبر کے دیگر فرائض میں جنگ کا اعلان اور افواج کو متحرک کرنا، ریفرنڈم کا انعقاد، اور تینوں قوتوں کے درمیان اختلافات کو حل کرنا اور ان کے تعلقات کو منظم کرنا شامل ہے۔
 
اس طرح، رہبر حکومتی اختیارات کی نگرانی کے ساتھ ساتھ ان کی بنیادی پالیسیوں کا تعین کرتا ہے اور ان کے فرائض کی انجام دہی میں پیش آنے والی مشکلات کو حل کرتا ہے۔
 
== رہبر : تینوں قوتوں کا نگراں ==
رہبر  انتظامیہ  کی نگرانی دو طریقوں سے  کرتا ہے:
 
# عوام کے ذریعہ صدر  جمہوریہ کے انتخاب کے بعد، رہبر ان کے حکم نامے پر  پر دستخط کرتا ہے۔
# رہبر کو ر سپریم کورٹ کی جانب سے صدر جمہوریہ  کی نااہلی کے فیصلے یا پارلیمنٹ کے عدم اعتماد کے ووٹ کی صورت میں اسے ہٹانے کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔
 
رہبر ،مقننہ  اور اس کے قوانین و مصوبات کی اسلامیت کی نگرانی اس طرح کرتے ہیں کہ وہ  گارڈین کونسل میں  فقہاکا تقرر  کرتے ہیں۔گارڈین کونسل میں فقہاء کا فیصلہ شرعی معیارات کی پاسداری کے حوالے سے فیصلہ کن ہے۔رہبر عدلیہ کی نگرانی اس کی اعلیٰ ترین اتھارٹی کی تنصیب اور بر طرفی کے ذریعہ کرتا ہے۔<ref>اصول 91، 96، 110</ref>۔
 
اپنے فرائض انجام دینے کے لیے، رہبر اپنے مشیروں کے علاوہ مجمع تشخیص مصلحت نظام کے فکری تعاون اور ماہرین کی رائے سے بھی استفادہ کرتے ہیں۔ اس کونسل کے تمام ارکان کو رہبر مقرر کرتاہے۔یہ کونسل رہبر کو نظام کی بنیادی پالیسیوں کا تعین کرنے کے لیے مشورہ دینے کے ساتھ ساتھ گارڈین کونسل اور پارلیمنٹ کے درمیان اختلافات کو حل کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ، قانون اساسی کی نظر ثانی اور رہبر کے انتخاب کی کونسل میں بھی حصہ لیتی ہے۔
 
== رہبر کا انتخاب ==
== رہبر کا انتخاب ==
قائد کا انتخاب قائدانہ ماہرین کی کونسل کی ذمہ داری ہے۔ یہ اسمبلی ملک بھر کے اول درجے کے علماء پر مشتمل ہے۔ وہ اس کی قیادت اور اس کی حالت پر نظر رکھتے ہیں اور اس کی نااہلی کی صورت میں اسے ہٹا دیتے ہیں۔ رہنما کی برطرفی یا اس کے استعفیٰ یا موت کی صورت میں ماہرین کی اسمبلی کے ذریعے نئے رہنما کے انتخاب تک اس کی ذمہ داریاں عبوری قیادت کونسل کو سونپ دی جائیں گی۔ یہ کونسل صدر، عدلیہ کے سربراہ اور گارڈین کونسل کے ایک فقیہ پر مشتمل ہے۔
رہبرکا انتخاب مجلس خبرگان  کی ذمہ داری ہے۔ یہ مجلس  ملک بھر کے اول درجے کے علماء(مجتہدین) پر مشتمل ہے۔ وہ رہبر کے اعمال کی نگرانی  اور س میں قیادت کی شرط کی بقا  پر نظر رکھتے ہیں اور نااہلی کی صورت میں اسے ہٹا دیتے ہیں۔ رہبر کی برطرفی یا اس کے استعفیٰ یا موت کی صورت میں مجلس خبرگان کے ذریعے نئے رہبر کے انتخاب تک اس کی ذمہ داریاں عبوری قیادت کونسل کو سونپ دی جائیں گی۔ یہ کونسل صدر، چیف جسٹس اور گارڈین کونسل کے ایک فقیہ پر مشتمل ہے۔
== مقننہ ==
== مقننہ ==
اسلامی جمہوریہ کا دوسرا ستون مقننہ ہے۔ یہ اتھارٹی ایک ایوانی نظام پر مبنی ہے اور دو الگ الگ ستونوں پر مشتمل ہے: اسلامی کونسل اور گارڈین کونسل۔ ان عناصر میں سے ہر ایک کے فرائض ہیں۔ اسلامی کونسل ایسے نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے جو چار سال کے لیے عوام کے براہ راست اور خفیہ ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں۔ اپنی اسناد کی منظوری اور حلف لینے کے بعد وہ کام شروع کر سکتے ہی۔
اسلامی جمہوریہ کا دوسرا ستون مقننہ ہے۔ مقننہ ایک ایوانی نظام پر مبنی ہے اور دو الگ الگ ارکان  پر مشتمل ہے: اسلامی کونسل(پارلیمنٹ) اور گارڈین کونسل۔ ان ارکان میں سے ہر ایک کے اپنے اپنے فرائض ہیں۔ اسلامی کونسل ایسے نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے جو چار سال کے لیے عوام کے براہ راست اور خفیہ ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں۔ اپنے اعتبار نامہ کی توثیق اور حلف قرآن مجید کے سامنے حلف لینے کے بعد وہ کام شروع کر سکتے ہی۔
پارلیمنٹ کا بنیادی فریضہ آئین کے دائرہ کار میں تمام معاملات اور معاملات میں قانون سازی کرنا ہے۔ یہ حدود سرکاری مذہب اور آئین میں شرعی معیارات سے متصادم نہیں ہیں، اور یہ آئین کی گارڈین کونسل کی ذمہ داری ہے۔
 
قوانین اور ضوابط کی منظوری کے علاوہ، اسلامی کونسل کا ایک نگران کردار بھی ہے، جس میں یہ چیزیں شامل ہیں:
پارلیمنٹ کا بنیادی کام آئین کی حدود میں تمام امور اور مسائل پر قوانین بنانا ہے۔ یہ حدود سرکاری مذہب اور آئین کے شرعی اصولوں سے مطابقت رکھنا ہیں اور اس کی تشخیص گارڈین کونسل کی ذمہ داری ہے۔قوانین بنانے کے علاوہ، اسلامی کونسل کا ایک نگراں  کردار بھی ہے، جس میں یہ چیزیں شامل ہیں:
اسٹیبلشمنٹ کی نگرانی (حکومت کی تشکیل کی نگرانی، حکومت میں تبدیلیوں کی نگرانی اور حکومتی تنازعات کے حل
 
اطلاعات کی نگرانی (تینوں قوتوں کے کام کے بارے میں لوگوں کی شکایات، وزیر یا صدر کے کام کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے نمائندوں کی پہل، معلومات حاصل کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی پہل (تمام میں تحقیق اور تفتیش) ملک کے معاملات.
# تاسیساتی نگرانی :حکومت کی تشکیل کی نگرانی، حکومت میں تبدیلیوں کی نگرانی اور حکومتی تنازعات کا حل و فصل۔
جان بوجھ کر نگرانی، جس کا مطلب ہے کہ پارلیمنٹ حکومت کے اہم اقدامات جیسے کہ بین الاقوامی معاہدوں کو ختم کرنا، سرحدی لائنوں کو تبدیل کرنا، ہنگامی حالت کا اعلان کرنا، مالی تنازعات کو حل کرنا یا انہیں ثالثی کے حوالے کرنا، غیر ملکیوں کو کمپنیاں بنانے کا استحقاق دینا۔ اور ادارے، اور کچھ دوسرے۔ یہ حکومتی اقدامات کی نگرانی کرتا ہے جیسے قرض لینے اور گرانٹ اور غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کرنا۔
# اطلاعاتی  نگرانی :تینوں قوتوں کے کام کے بارے میں لوگوں کی شکایات، وزیر یا صدر جمہوریہ کے طرز عمل  کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے نمائندوں کی پہل، معلومات حاصل کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی پہل ، ملک کےتمام امور کی تحقیق اور تفتیش ۔
مالیاتی نگرانی (ملک کے سالانہ بجٹ کی تالیف، تیاری اور منظوری اور ملک کی احتساب عدالت کے ذریعے بجٹ خرچ کرنے کی نگرانی)۔
# استصوابی کر نگرانی: جس کا مطلب ہے کہ پارلیمنٹ حکومت کے اہم اقدامات جیسے بین الاقوامی معاہدے کرنا، سرحدی لائنوں کو تبدیل کرنا، ہنگامی حالت کا اعلان کرنا، مالی تنازعات کو حل کرنا یا انہیں ثالث کے حوالے کرنا، غیر ملکیوں کو کمپنیاں اور ادارے  بنانے کا پروانہ عطا کرنا اور بعض دوسرے  حکومتی اقدامات کی نگرانی کرتا ہے جن میں  قرض اور گرانٹ حاصل کرنااور غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کرنا شامل ہے۔
سیاسی نگرانی کیونکہ پارلیمنٹ کو تمام معاملات میں قوانین بنانے کا حق حاصل ہے، اس لیے اسے عام قوانین میں تبدیلی کا اختیار حاصل ہے، اور اسی لیے اسے عام قوانین کی تشریح کا اختیار بھی حاصل ہے
# مالیاتی نگرانی: ملک کا سالانہ بجٹ تیار کرنا، مرتب کرنا اور منظور کرنا اور دیوان محاسبات کے ذریعے بجٹ کے اخراجات پر نظر رکھنا۔
پارلیمنٹ کی اندرونی تنظیم، جس کا تعین اس کے داخلی ضوابط سے ہوتا ہے، اس میں مختلف کمیشن اور بورڈ آف ڈائریکٹرز شامل ہیں، جن کا انتخاب سالانہ ہوتا ہے۔ شروع میں پارلیمنٹ کے ارکان کی تعداد 270 تھی جو کہ آئین کی دفعات کے مطابق آبادی میں اضافے کے ساتھ ہر دس سال بعد بیس ارکان تک بڑھنا ممکن ہے
# سیاسی نگرانی : وزرا اور صدر جمہوریہ کا استیضاح ۔مزید برآں، چونکہ پارلیمنٹ کو تمام امور میں قوانین بنانے کا حق ہے، اس لیے اس کے پاس عام قوانین میں تبدیلی اور عام قوانین کی تشریح کا اختیار بھی ہے۔ پارلیمنٹ کا اندرونی نظام، جسے اس کے اندرونی ضوابط طے کرتے ہیں، مختلف کمیشنوں اور ایک صدارتی بورڈ پر مشتمل ہے جن کا انتخاب سالانہ ہوتا ہے۔ شروع میں پارلیمنٹ کے ارکان کی تعداد 270 تھی جس میں  آئین کی پیش گوئی کے مطابق آبادی میں اضافے کے ساتھ ہر دس سال میں زیادہ سے زیادہ بیس نمائندوں کے اضافے کا امکان ہے۔
گارڈین کونسل چھ قانون دانوں اور چھ فقہا پر مشتمل ہے، جن کے فقہا کا تقرر لیڈر کرتا ہے، اور جن کے فقہاء کا انتخاب عدلیہ کے سربراہ کی تجویز اور پارلیمنٹ کی منظوری سے کیا جاتا ہے۔ شریعت اور آئین کے ساتھ متعلقہ قوانین کی مطابقت کو جانچنے کے علاوہ، یہ کونسل آئین کی تشریح اور انتخابات اور ریفرنڈم کی نگرانی کے لیے بھی ذمہ دار ہے <ref>ایران۔ آئین، اصول 91، 9899؛ مدنی، 13601369ش</ref>۔
 
مجلس اسلامی کونسل کے منظور شدہ قوانین، عمومی اور مخصوص سیاسی فیصلوں، انتظامی اداروں کے درمیان تنازعات کو حل کرنے، قانونی چارہ جوئی کی منظوری یا ثالثی کے حوالے سے انتظامی ضوابط کی تالیف ہے۔
گارڈین کونسل چھ فقہاء اور چھ قانون دانوں پر مشتمل ہے جن میں سے فقہاء کو رہبر  مقرر کرتاہے اور قانون دانوں کو چیف جسٹس کی تجویز پر پارلیمنٹ کے نمائندوں کی رائے سے منتخب کیا جاتا ہے۔ یہ کونسل وضع شدہ قوانین کے شرع اور آئین کے مطابق ہونے کی جانچ کے علاوہ، آئین کی تشریح اور انتخابات اور ریفرنڈم کی نگرانی کا کام بھی انجام دیتی ہے۔<ref>ایران۔ آئین، اصول 91، 9899؛ مدنی، 13601369ش</ref>۔
مسلح افواج میں فوج شامل ہے، جس کا مقصد ملک کی آزادی اور علاقائی سالمیت کی حفاظت کرنا ہے۔ اسلامی انقلابی گارڈ کور، ایک کثیر المقاصد ادارے (فوجی، قانون نافذ کرنے والے، سیاسی اور سماجی) کے طور پر اور انقلاب سے ابھرنے والے، انقلاب اور اس کی کامیابیوں کی حفاظت کے مقصد کے ساتھ؛ اور پولیس فورس، نظم و نسق قائم کرنے، عوامی اور انفرادی سکون فراہم کرنے اور انقلاب اسلامی کی کامیابیوں کی حفاظت کے مقصد سے۔ ملک کی مسلح افواج کی جنرل کمان قیادت کا انچارج ہے۔
 
== عدلیہ ==
== عدلیہ ==
اسلامی جمہوریہ کا چوتھا ستون عدلیہ ہے۔ یہ شاخ عدالتی امور اور انصاف کی انتظامیہ کے لیے ذمہ دار ہے، اور جرائم سے نمٹنے اور افراد اور معاشرے کے حقوق کے تحفظ کا اختیار ہے۔ اس شاخ کی تنظیم کے سربراہ عدلیہ کا سربراہ ہے، جس کا مجتہد ہونا ضروری ہے۔ وہ قیادت کی طرف سے پانچ سال کی مدت کے لیے مقرر کیا جاتا ہے۔ وزیر انصاف انتظامی، قانون سازی اور عدالتی شاخوں کے درمیان تعلقات کو منظم کرتا ہے۔
جمہوری اسلامی ایران کا چوتھا رکن  عدلیہ ہے۔ یہ ادارہ  عدالتی امور اور انصاف کی فراہمی کا ذمہ دار ہے، اور جرائم سے نمٹنے اور افراد اور معاشرے کے حقوق کی حمایت کرنے کا مرجع ہے۔
اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے عدلیہ کے پاس تنظیمیں اور ادارے ہیں، بشمول:
وزارت انصاف، جو لوگوں کی شکایات اور شکایات کا اختیار ہے اور عام اور عام جرائم سے نمٹتی ہے
انتظامی انصاف کی عدالت، جو سرکاری اہلکاروں اور اکائیوں کے بارے میں شکایات اور اعتراضات کا جائزہ لینے کے لیے قائم کی گئی تھی، اور وہ حکومتی ضوابط کو بھی باطل کر سکتی ہے جو اسلامی قوانین کے خلاف ہوں یا ایگزیکٹو کے اختیارات سے باہر ہوں۔
پراسیکیوٹر کا دفتر اور فوجی عدالتیں، جو مسلح افواج کے فوجی یا تادیبی جرائم سے نمٹنے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔
ملک کی جنرل انسپیکشن آرگنائزیشن، جو کہ انتظامی اداروں میں قوانین کے درست نفاذ پر محکمہ کے سربراہ کی نگرانی کے لیے بنائی گئی تھی۔
ملک کی سپریم کورٹ، جو عدالتوں میں قوانین کے درست نفاذ کی نگرانی کرتی ہے اور ملک کے عدالتی طریقہ کار میں اتحاد پیدا کرتی ہے، اور اس کا صدر عدلیہ کے سربراہ کے ذریعے مقرر کیا جاتا ہے
جنرل پراسیکیوٹر کا دفتر، جو عوامی جرائم کے خلاف معاشرے کے حقوق کا دفاع کرتا ہے۔ جج عدلیہ کے اہم عناصر ہیں اور ان کی صفات اور شرائط فقہ سے اخذ کی گئی ہیں۔ جج عام اور میثاق شدہ قوانین کا ترجمان ہوتا ہے، اور اس مسئلے پر کوئی حکم نہ ملنے کی صورت میں، اسے فقہی نصوص سے رجوع کرنا چاہیے۔ پریشان ہونا۔
اسلامی جمہوریہ کی طرز حکمرانی میں بعض اداروں کا ڈھانچہ ایسا ہے کہ کام کی نوعیت اور تنظیم کے لحاظ سے ان کو قیادت کے ادارے یا تین طاقتوں میں سے کسی ایک کا حصہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ خصوصی ادارے ہیں: اسلامی کونسلز، ریڈیو اور ٹیلی ویژن، سپریم کونسل آف نیشنل سیکورٹی، سپریم کونسل آف کلچرل ریوولوشن، اور نظام کی اصلاح کی کونسل۔
== عام انتخابات کے کامیاب انعقاد پر ایرانی سفیر کی پاکستانی قوم کو مبارکباد ==
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رضا امیری مقدم  نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ انتخابی عمل کے اختتام پر، میں پاکستانی قوم اورحکومت پاکستان کوملک گیر انتخابات کے کامیاب اور محفوظ انعقاد کے حصول پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا  ہوں۔


اپنی ٹویٹ میں ایرانی سفیر نے مزید کہا کہ یہ پڑوسی، دوست اور برادر ملک کی تاریخ میں ایک اور کارنامہ ہے <ref>عام انتخابات کے کامیاب انعقاد پر ایرانی سفیر کی پاکستانی قوم کو مبارکباد، [https://ur.mehrnews.com/news/1921758/%D8%B9%D8%A7%D9%85-%D8%A7%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A7%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%DA%A9%D8%A7%D9%85%DB%8C%D8%A7%D8%A8-%D8%A7%D9%86%D8%B9%D9%82%D8%A7%D8%AF-%D9%BE%D8%B1-%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%B3%D9%81% mehrnews.com]
عدلیہ کا سربراہ چیف جسٹس ہوتا ہے جس کا مجتہد ہونا ضروری۔ اسے رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران پانچ سال کے لیے مقرر کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کام عدالتی قوانین تیار کرنا اور ججوں کی تقرری اور برطرفی کرنا ہے۔ وہ اپنے کچھ اختیارات وزیر  انصاف کو تفویض کر سکتا ہے۔ وزیر انصاف مجریہ، مقننہ اور عدلیہ کے درمیان تعلقات کو مربوط کرنے کا کام کرتا ہے۔
</ref>۔
 
== پاکستان میں انتخابی عمل کے دوران بم دھماکہ، ایرانی وزارت خارجہ کی مذمت ==
اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے عدلیہ کے پاس تنظیمیں اور ادارے ہیں  جن میں شامل ہیں:
ترجمان ناصر کنعانی نے کہا ہے کہ شرپسند عناصر انتخابات کے دوران بم دھماکوں کے ذریعے جمہوری عمل کو متاثر کرنا چاہتے ہیں۔
 
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے پاکستان میں عام انتخابات کے دوران بم دھماکے پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے واقعے کی مذمت کی ہے۔
* وزارت انصاف  جو عوام کی شکایات اور مظالم کا مرجع ہے اور عام اور عمومی جرائم کی سماعت کرتی ہے۔
* دیوان عدالت انتظامی جو سرکاری ملازمین اور اداروں کے خلاف شکایات اور اعتراضات کی جانچ پڑتال کے لیے قائم کیا گیا ہے اور وہ ان سرکاری ضوابط کو بھی کالعدم قرار دے سکتا ہے جو اسلامی قوانین کے خلاف یا مجریہ کے اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں۔
* پراسیکیوٹر کا دفتر اور فوجی عدالتیں جو فوجی یا انتظامی جرائم کی سماعت کے لیے تشکیل دی گئی ہیں۔
* لک کی جنرل انسپیکشن آرگنائزیشن جو کہ انتظامی اداروں میں قوانین کے درست نفاذ پر محکمہ کے سربراہ کی نگرانی کے لیے بنائی گئی ہے۔
* ملک کی عدالت عالیہ جو عدالتوں میں قوانین کے درست نفاذ کی نگرانی کرتی ہے اور ملک کے عدالتی طریقہ کار میں اتحاد پیدا کرتی ہے۔ اس کا صدر عدلیہ کے سربراہ کے ذریعے مقرر کیا جاتا ہے۔
* پراسیکیوشن جنرل: یہ ادارہ عوامی جرائم کے خلاف معاشرے کے حقوق کے دفاع کا کام کرتا ہے۔
 
جج عدلیہ کے اہم عناصر ہیں اور ان کے صفات اور شرائط فقہ سے اخذ کی گئی ہیں۔ جج عام اور  تدوین شدہ قوانین کا ترجمان ہوتا ہے، اورکسی  مسئلے پر کوئی حکم نہ ملنے کی صورت میں اسے فقہی نصوص سے رجوع کرنا چاہیے۔ جج عدالتی نظام کے اہم ترین عناصر ہیں اور ان کی صفات اور شرائط فقہ سے ماخوذ ہیں۔ جج عام اور مدون قوانین کا مفسر ہے اور اگر کسی مسئلے کا حکم نہ ملے تو اسے فقہی متون سے رجوع کرنا چاہیے۔محاکمات علنی ہو سکتے ہیں، سوائے اس کے کہ مقدمے کے فریقین  محاکمے کے علنی نہ کرنے کی درخواست  کرے یا عوامی عفت کے متاثر ہونے کا خدشہ ہو۔
 
اسلامی جمہوریہ کے طرز حکمرانی میں بعض اداروں کا ڈھانچہ ایسا ہے کہ کام کی نوعیت اور تنظیم کے لحاظ سے انہیں رہبری کے ادارے یا تین محکموں میں سے کسی ایک کا حصہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ خصوصی ادارے ہیں: اسلامی کونسلز، ریڈیو اور ٹیلی ویژن، سپریم کونسل آف نیشنل سیکورٹی، سپریم کونسل آف کلچرل ریوولوشن، اور مجمع تشخیص مصلحت نظام۔


ترجمان نے واقعے کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کہا کہ شرپسند عناصر انتخابات کے دوران بم دھماکوں کے ذریعے جمہوری عمل کو متاثر کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوری ایران جمہوری عمل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے دوست اور ہمسایہ ملک پاکستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ ہے <ref>پاکستان میں انتخابی عمل کے دوران بم دھماکہ، ایرانی وزارت خارجہ کی مذمت، [https://ur.mehrnews.com/news/1921755/%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A7%D8%A8%DB%8C-%D8%B9%D9%85%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D8%A8%D9%85-%D8%AF%DA%BE%D9%85%D8%A7%DA%A9%DB%81- mehrnews.com]</ref>۔
== اسلامی انقلاب کے سائے میں ایران کی شاندار ترقی ==
== اسلامی انقلاب کے سائے میں ایران کی شاندار ترقی ==
اسلامی انقلاب نے ایرانی قوم کے اندر خود اعتمادی اور قومی وقار کا احساس جگایا جس کی وجہ سے ایران نے مختلف میدانوں میں شاندار بلکہ حیرت انگیز ترقی کی۔
اسلامی انقلاب نے ایرانی قوم کے اندر خود اعتمادی اور قومی وقار کا احساس جگایا جس کی وجہ سے ایران نے مختلف میدانوں میں شاندار بلکہ حیرت انگیز ترقی کی۔
مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک: اسلامی انقلاب نے ایرانی عوام کو  مختلف شعبوں میں عظیم کامیابیاں عطا کی ہیں۔ جن کا دائرہ خود اعتمادی، قومی وقار اور آزادی سے لے کر سول، عسکری، طبی، صنعتی اور تکنیکی شعبوں میں مادی ترقی تک پھیلا ہوا ہے۔
 
مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک: اسلامی انقلاب نے ایرانی عوام کو  مختلف شعبوں میں عظیم کامیابیاں عطا کی ہیں جن کا دائرہ خود اعتمادی، قومی وقار اور آزادی سے لے کر سول، عسکری، طبی، صنعتی اور تکنیکی شعبوں میں مادی ترقی تک پھیلا ہوا ہے۔


غور طلب ہے کہ یہ تمام تر پیش رفت اور حیرت انگیز ترقی امریکہ اور اس کے لے پالک ملکوں کی طرف سے عائد کردہ ہمہ جانبہ پابندیوں اور پیچیدہ اقتصادی دہشت گردی کے باوجود  حاصل کی گئی ہے۔ ایرانی عوام کے اسلامی انقلاب کو ابھی ایک سال مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ ایرانی قوم کے خلاف امریکی حکومت کی ظالمانہ پابندیوں کا آغاز کر دیا گیا اور یہ سلسلہ ہر سال مزید شدت اختیار کر گیا۔ اس کے علاوہ امریکہ نے دیگر یورپی حکومتوں کے ساتھ مل کر، ایرانی عوام پر 8 سالہ جنگ مسلط کرنے کے لیے صدام کو اکسایا اور اسے بھاری اسلحہ اور فوجی امداد فراہم کی۔
غور طلب ہے کہ یہ تمام تر پیش رفت اور حیرت انگیز ترقی امریکہ اور اس کے لے پالک ملکوں کی طرف سے عائد کردہ ہمہ جانبہ پابندیوں اور پیچیدہ اقتصادی دہشت گردی کے باوجود  حاصل کی گئی ہے۔ ایرانی عوام کے اسلامی انقلاب کو ابھی ایک سال مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ ایرانی قوم کے خلاف امریکی حکومت کی ظالمانہ پابندیوں کا آغاز کر دیا گیا اور یہ سلسلہ ہر سال مزید شدت اختیار کر گیا۔ اس کے علاوہ امریکہ نے دیگر یورپی حکومتوں کے ساتھ مل کر، ایرانی عوام پر 8 سالہ جنگ مسلط کرنے کے لیے صدام کو اکسایا اور اسے بھاری اسلحہ اور فوجی امداد فراہم کی۔
امریکیوں اور ان کے کاسہ لیس اتحادیوں کے ایرانی قوم اور نظام پر قابو پانے کے لیے سخت جنگ اور اقتصادی پابندیوں کے ساتھ ہائبرڈ یا ترکیبی جنگ کا محاذ کھولا جس کے لئے ہزاروں میڈیا چینلز کو نفسیاتی پروپیگنڈے اور ڈس انفارمیشن مہم کے لیے استعمال کیا گیا اور ایرانی عوام کی نفسیاتی میدان میں زیر کرنے کے لئے افراتفری اور انتشار کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا لیکن انہیں منہ کی کھانی پڑی۔


دشمن کی اس مشترکہ سخت اور نرم جنگ کے حربے کو ایرانی قوم اور اسلامی نظام نے بھرپور شکست دی
امریکیوں اور ان کے کاسہ لیس اتحادیوں نے ایرانی قوم اور نظام پر قابو پانے کے لیے سخت جنگ اور اقتصادی پابندیوں کے ساتھ ہائبرڈ یا ترکیبی جنگ کا محاذ کھولا جس کے لئے ہزاروں میڈیا چینلز کو نفسیاتی پروپیگنڈے اور ڈس انفارمیشن مہم کے لیے استعمال کیا گیا اور ایرانی عوام کو نفسیاتی میدان میں زیر کرنے کے لئے افراتفری اور انتشار کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا لیکن انہیں منہ کی کھانی پڑی۔دشمن کی اس مشترکہ سخت اور نرم جنگ کے حربے کو ایرانی قوم اور اسلامی نظام نے بھرپور شکست دی۔
لیکن ان تمام مسلط کردہ جنگوں میں ایرانی قوم اور اسلامی نظام کی سب سے اہم کامیابی اسلامی ایران کی قومی خود مختاری اور ارضی سالمیت کا استحکام ہے۔  
 
درحقیقت دشمنوں کا اصل خواب اسلامی ایران کی تقسیم تھا۔ ایک سازش جو اسلامی انقلاب کے پہلے دنوں سے شروع ہوئی اور آخری فسادات تک دشمنوں نے سنجیدگی سے پیروی کی۔ دشمن کی اس مذموم سازش کو اسلامی انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والے قومی اتحاد و اتفاق، نیز قائدین انقلاب کی رہنمائی اور ایران کے مومن اور انقلابی عوام کی بصیرت نے ناکام بنا دیا۔
لیکن ان تمام مسلط کردہ جنگوں میں ایرانی قوم اور اسلامی نظام کی سب سے اہم کامیابی اسلامی ایران کی قومی خود مختاری اور ارضی سالمیت کا استحکام ہے۔
 
درحقیقت دشمنوں کا اصل خواب اسلامی ایران کی تقسیم تھا۔ ایک سازش جو اسلامی انقلاب کے پہلے دنوں سے شروع ہوئی اورجس کی حالیہ  فسادات تک دشمنوں نے سنجیدگی سے پیروی کی۔ دشمن کی اس مذموم سازش کو اسلامی انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والے قومی اتحاد و اتفاق، نیز قائدین انقلاب کی رہنمائی اور ایران کے مومن اور انقلابی عوام کی بصیرت نے ناکام بنا دیا۔


اسلامی انقلاب نے جو قومی خود اعتمادی اور وقار پیدا کیا اس کی وجہ سے ایران کی دفاعی اور عسکری قوت بلندیوں کو چھونے لگی۔ آج دنیا کی کوئی طاقت ایران کو فوجی حملے کی دھمکی دینے کی جرأت تک نہیں کر پا رہی ہے اور "تمام آپشن میز پر ہیں" جیسی مضحکہ خیز گیدڑ بھبکیوں کو ایران کے خلاف امریکی لیڈروں کے لٹریچر سے حذف کر دیا گیا ہے۔
اسلامی انقلاب نے جو قومی خود اعتمادی اور وقار پیدا کیا اس کی وجہ سے ایران کی دفاعی اور عسکری قوت بلندیوں کو چھونے لگی۔ آج دنیا کی کوئی طاقت ایران کو فوجی حملے کی دھمکی دینے کی جرأت تک نہیں کر پا رہی ہے اور "تمام آپشن میز پر ہیں" جیسی مضحکہ خیز گیدڑ بھبکیوں کو ایران کے خلاف امریکی لیڈروں کے لٹریچر سے حذف کر دیا گیا ہے۔


ایران کی دفاعی اور فوجی طاقت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مزاحمت ایسی ہے کہ اس نے دشمنوں کو ان کی تعریف کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ صہیونی میزائل انڈسٹری کے باپ کے طور پر جانے جانے والے یوزی رابن ایرانی انجینئروں کی میزائل بنانے کی صلاحیت کے بارے میں کہتے ہیں: "میں ایران کی میزائل پاور کے احترام میں اپنی ٹوپی اتارتا ہوں۔
ایران کی دفاعی اور فوجی طاقت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مزاحمت ایسی ہے کہ اس نے دشمنوں کو ان کی تعریف کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ صہیونی میزائل انڈسٹری کے باپ کے طور پر جانے جانے والے یوزی رابن ایرانی انجینئروں کی میزائل بنانے کی صلاحیت کے بارے میں کہتے ہیں: "میں ایران کی میزائل پاور کے احترام میں اپنی ٹوپی اتارتا ہوں۔"


امریکی افواج کی مرکزی کمان سینٹکام کے کمانڈر "Michael Coryla" نے حال ہی میں امریکی سینیٹ میں ایک تقریر کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کی دفاعی طاقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا: "ایران کے پاس سب سے بڑی اور متنوع میزائل ٹیکنالوجی اور ہزاروں بیلسٹک اور کروز میزائل ہیں جو اس قابل ہیں کہ وہ پورے مشرق وسطیٰ بلکہ مشرق کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ایرانی حکومت کے پاس اس وقت خطے کی سب سے بڑی ڈرون فورسز ہیں۔ گزشتہ 40 سالوں میں ایران کی فوجی طاقت میں جو پیش رفت ہوئی ہے وہ بے مثال ہے۔ آج کی سپاہ پاسداران انقلاب کو پانچ سال پہلے کی سپاہ پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
امریکی افواج کی مرکزی کمان سینٹکام کے کمانڈر "Michael Coryla" نے حال ہی میں امریکی سینیٹ میں ایک تقریر کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کی دفاعی طاقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا: "ایران کے پاس سب سے بڑی اور متنوع میزائل ٹیکنالوجی اور ہزاروں بیلسٹک اور کروز میزائل ہیں جو اس قابل ہیں کہ وہ پورے مشرق وسطیٰ بلکہ مشرق کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ایرانی حکومت کے پاس اس وقت خطے کی سب سے بڑی ڈرون فورسز ہیں۔ گزشتہ 40 سالوں میں ایران کی فوجی طاقت میں جو پیش رفت ہوئی ہے وہ بے مثال ہے۔ آج کی سپاہ پاسداران انقلاب کو پانچ سال پہلے کی سپاہ پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔


ہم دفاعی میدان کامیابیوں کے علاوہ، اسلامی ایران کی دیگر شعبوں میں بھی زبردست پیشرفت دیکھ رہے ہیں۔ وہ پیشرفت جو اسلامی انقلاب کی بدولت حاصل ہوئی ہیں اور بین الاقوامی سطح پر ایرانی قوم کی سطح میں بہتری اور نوجوانوں کے خود اعتمادی کو تقویت دینے اور ان کی الہی صلاحیتوں کو نکھارنے کا باعث بنی ہیں۔
ہم دفاعی میدان کامیابیوں کے علاوہ، اسلامی ایران کی دیگر شعبوں میں بھی زبردست پیشرفت دیکھ رہے ہیں۔ وہ پیشرفت جو اسلامی انقلاب کی بدولت حاصل ہوئی ہیں اور بین الاقوامی سطح پر ایرانی قوم کی ساکھ میں بہتری اور نوجوانوں کے خود اعتمادی کو تقویت دینے اور ان کی الہی صلاحیتوں کو نکھارنے کا باعث بنی ہیں۔


اسلامی ایران نے جن میدانوں میں بہت ترقی کی ہے ان میں سے ایک خلائی میدان ہے۔ ایران نے حالیہ برسوں میں کامیابی کے ساتھ کئی سیٹلائٹ تیار اور لانچ کیے ہیں۔ خلائی ٹیکنالوجی کے شعبے میں ملک کا پہلا قدم مختلف پیمائش اور ٹیلی کمیونیکیشن ایپلی کیشنز کے ساتھ سیٹلائٹس کی تعمیر تک محدود تھا، لیکن اب ملک کے انجینئر بنیادی خلائی ٹیکنالوجیز کی ترقی کے ساتھ، ان علوم کو جنگلات کی آگ کی نگرانی جیسے شعبوں میں استعمال کر رہے ہیں۔ گیلی زمینوں کی حالت کے ساتھ ساتھ کھیتوں اور گرین ہاؤسز کے دور سے کنٹرول کو بھی انہوں نے ممکن بنایا ہے۔
اسلامی ایران نے جن میدانوں میں بہت ترقی کی ہے ان میں سے ایک خلائی میدان ہے۔ ایران نے حالیہ برسوں میں کامیابی کے ساتھ کئی سیٹلائٹ تیار اور لانچ کیے ہیں۔ خلائی ٹیکنالوجی کے شعبے میں ملک کا پہلا قدم مختلف پیمائش اور ٹیلی کمیونیکیشن ایپلی کیشنز کے ساتھ سیٹلائٹس کی تعمیر تک محدود تھا، لیکن اب ملک کے انجینئر بنیادی خلائی ٹیکنالوجیز کی ترقی کے ساتھ، ان علوم کو جنگلات کی آگ کی نگرانی جیسے شعبوں میں استعمال کر رہے ہیں۔ گیلی زمینوں کی حالت کے ساتھ ساتھ کھیتوں اور گرین ہاؤسز کے دور سے کنٹرول کو بھی انہوں نے ممکن بنایا ہے۔
سطر 321: سطر 371:


ایران میں جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے کی سب سے اہم خصوصیات میں سے ایک اس علم کی لوکلائزیشن ہے۔ اس لحاظ سے کہ ہمارے نیوکلیئر پاور پلانٹ کے منتظمین اور چلانے والے ایرانی ماہرین ہیں اور یہ مسئلہ ملک کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز اور قومی خوداعتمادی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور دوسری طرف یہ گھریلو تعلیمی اور سائنسی ڈھانچے کی ترقی کا واضح ثبوت ہے۔
ایران میں جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے کی سب سے اہم خصوصیات میں سے ایک اس علم کی لوکلائزیشن ہے۔ اس لحاظ سے کہ ہمارے نیوکلیئر پاور پلانٹ کے منتظمین اور چلانے والے ایرانی ماہرین ہیں اور یہ مسئلہ ملک کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز اور قومی خوداعتمادی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور دوسری طرف یہ گھریلو تعلیمی اور سائنسی ڈھانچے کی ترقی کا واضح ثبوت ہے۔
ٹیلوریم 130 آئسوٹوپ جوہری صنعت کے نوجوان سائنسدانوں کی کامیابیوں میں سے ایک ہے، جو 20 سینٹری فیوج مشینوں کی مربع زنجیر کو ڈیزائن، تعمیر اور چلانے کے ذریعے حاصل کیا گیا تھا، اور طبی میدان میں، خاص طور پر ریڈیو فارماسیوٹیکل کے لیے خام مال کی تیاری اور تشخیص، کینسر اور لاعلاج بیماریوں کی مختلف اقسام، دواسازی، صنعتی شعبوں، ارضیات، زراعت اور نیوکلیئر سائنسز میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتے ہیں۔
ٹیلوریم 130 آئسوٹوپ جوہری صنعت کے نوجوان سائنسدانوں کی کامیابیوں میں سے ایک ہے، جو 20 سینٹری فیوج مشینوں کی مربع زنجیر کو ڈیزائن، تعمیر اور چلانے کے ذریعے حاصل کیا گیا تھا، اور طبی میدان میں، خاص طور پر ریڈیو فارماسیوٹیکل کے لیے خام مال کی تیاری اور تشخیص، کینسر اور لاعلاج بیماریوں کی مختلف اقسام، دواسازی، صنعتی شعبوں، ارضیات، زراعت اور نیوکلیئر سائنسز میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتے ہیں۔


آج ایرانی محققین جوہری علم کا استعمال کرتے ہوئے 50 سے زیادہ  فالج اور علاج سے متعلق تشخیصی ریڈیو فارماسیوٹیکل تیار کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
آج ایرانی محققین جوہری علم کا استعمال کرتے ہوئے 50 سے زیادہ  فالج اور علاج سے متعلق تشخیصی ریڈیو فارماسیوٹیکل تیار کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
ہیموسٹیٹ (Hemostat) یا "خون جمانے والا پاؤڈر" طب کے میدان میں جوہری سائنس کی دوسری کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ ایک ایسی پڑودکٹ جو خون کو روکنے کے لیے سرجریوں میں بہت زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ آج ایران ان 5 ممالک میں شامل ہے جو اس میڈیکل پروڈکٹ کو تیار کرنے کا تکنیکی علم رکھتے ہیں۔
نینو ٹیکنالوجی کے میدان میں اسلامی ایران کی ترقی حیرت انگیز رہی ہے۔


آج اسلامی ایران نینو سائنس کی پیداوار میں دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے اور نینو ٹیکنالوجی کے میدان میں اسٹریٹجک پلان کی اشاعت میں دنیا کا تیسرا ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، ملک میں نینو سائنس کے 40,000 ماہرین کو تربیت دی گئی ہے۔
ہیموسٹیٹ (Hemostat) یا "خون جمانے والا پاؤڈر" طب کے میدان میں جوہری سائنس کی دوسری کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ ایک ایسا پڑودکٹ جو خون کو روکنے کے لیے سرجریوں میں بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ آج ایران ان 5 ممالک میں شامل ہے جو اس میڈیکل پروڈکٹ کو تیار کرنے کا تکنیکی علم رکھتے ہیں۔
مذکورہ بالا اشارئے مختلف شعبوں میں ایران کی پیشرفت کے بہت ہی چھوٹے گوشے ہیں۔


جو پیشرفت اسلامی انقلاب کی بدولت حاصل ہوئی ہے اور ان کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ "مقامی" اور "انڈوجینس" ہے۔
نینو ٹیکنالوجی کے میدان میں اسلامی ایران کی ترقی حیرت انگیز رہی ہے۔آج اسلامی ایران نینو سائنس کی پیداوار میں دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے اور نینو ٹیکنالوجی کے میدان میں اسٹریٹجک پلان کی اشاعت میں دنیا کا تیسرا ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، ملک میں نینو سائنس کے 40,000 ماہرین کو تربیت دی گئی ہے۔
 
مذکورہ بالا اشارئے مختلف شعبوں میں ایران کی پیشرفت کے بہت ہی چھوٹے گوشے ہیں۔جو پیشرفت اسلامی انقلاب کی بدولت حاصل ہوئی ہے اور ان کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ "مقامی" اور "انڈوجینس" ہے۔
 
اس بنا پر کہا جا سکتا ہے: "اسلامی انقلاب اپنے تاریخی افق میں "تقلید اور انحصار" کے خلاف اور "آزاد اور حقیقی پیش رفت" کے حصول کی سمت میں ایک بڑی تحریک رہا ہے۔


اس بنا پر کہا جا سکتا ہے: "اسلامی انقلاب اپنے تاریخی افق میں "تقلید اور انحصار" کے خلاف اور "آزاد اور حقیقی پیش رفت" کے حصول کی سمت میں ایک بڑی تحریک رہا ہے
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سال کے پہلے دن حرم رضوی کے زائرین کے اجتماع سے اپنے خطاب میں اسلامی انقلاب کی کامیابیوں کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ہم نے شاندار ترقی کی ہے جس کے بارے میں مختصراً تذکرہ کروں گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سال کے پہلے دن حرم رضوی کے زائرین کے اجتماع سے اپنے خطاب میں اسلامی انقلاب کی کامیابیوں کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ہم نے شاندار ترقی کی ہے جس کے بارے میں مختصراً تذکرہ کروں گا۔
یہ تمام پیش رفت ہمہ جانبہ پابندیوں اور اقتصادی ناکہ بندی کے دوران تھی اور یہ سب سے شدید معاشی دباؤ کے دوران کی ترقی تھی۔ خود  امریکیوں نے کہا کہ ہم نے ایران پر جو معاشی دباؤ ڈالا ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ وہ اپنے تمام تر جھوٹ کے باوجود اس معاملے میں سچ بول رہے ہیں۔ انہوں نے سچ کہا؛ یہ سب سے بے مثال معاشی دباؤ تھا، ایسی حالت میں ملت ایران نے ترقی کی۔
یہ تمام پیش رفت ہمہ جانبہ پابندیوں اور اقتصادی ناکہ بندی کے دوران تھی اور یہ سب سے شدید معاشی دباؤ کے دوران کی ترقی تھی۔ خود  امریکیوں نے کہا کہ ہم نے ایران پر جو معاشی دباؤ ڈالا ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ وہ اپنے تمام تر جھوٹ کے باوجود اس معاملے میں سچ بول رہے ہیں۔ انہوں نے سچ کہا؛ یہ سب سے بے مثال معاشی دباؤ تھا، ایسی حالت میں ملت ایران نے ترقی کی۔


انہوں نے مزید کہا کہ قوم نے سائنس کے میدان میں ترقی کی، ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی یہی وجہ ہے کہ ایران کو سائنس کے کچھ شعبوں میں دنیا کی پہلی صفوں میں رکھا گیا؛ ایک جگہ دنیا کے سرفہرست پانچ ممالک میں، ایک جگہ ٹاپ ٹین ممالک میں اور ایک جگہ دنیا کے تین سرفہرست ممالک میں شامل رہا۔  ہماری سائنسی اور تکنیکی ترقی کچھ اس طرح ہے؛ نینو، بائیو ٹیکنالوجی، صحت اور دیگر مختلف شعبوں میں ایران کی ترقی دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک سے بہتر رہی ہے۔ کورونا کے معاملے میں ایرانی کی سائنسی صلاحیت نمایاں طور پر سامنے آئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قوم نے سائنس کے میدان میں ترقی کی، ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کو سائنس کے کچھ شعبوں میں دنیا کی پہلی صفوں میں رکھا گیا؛ ایک جگہ دنیا کے سرفہرست پانچ ممالک میں، ایک جگہ ٹاپ ٹین ممالک میں اور ایک جگہ دنیا کے تین سرفہرست ممالک میں شامل رہا۔  ہماری سائنسی اور تکنیکی ترقی کچھ اس طرح ہے؛ نینو، بائیو ٹیکنالوجی، صحت اور دیگر مختلف شعبوں میں ایران کی ترقی دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک سے بہتر رہی ہے۔ کورونا کے معاملے میں ایرانی کی سائنسی صلاحیت نمایاں طور پر سامنے آئی ہے۔
 
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایٹمی توانائی، ایرو اسپیس اور خاص طور سے دفاعی شعبے میں تسلیم کرتے ہیں کہ ایران نے دفاعی اور ہتھیاروں کے لحاظ سے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ ہم نے بائیو ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت ترقی کی ہے۔ دنیا نے ہماری تعریف کی، دنیا کے سائنسدانوں نے ہمارے سائنسدانوں، نوجوان سائنسدانوں کی تعریف کی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایٹمی توانائی، ایرو اسپیس اور خاص طور سے دفاعی شعبے میں تسلیم کرتے ہیں کہ ایران نے دفاعی اور ہتھیاروں کے لحاظ سے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ ہم نے بائیو ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت ترقی کی ہے۔ دنیا نے ہماری تعریف کی، دنیا کے سائنسدانوں نے ہمارے سائنسدانوں، نوجوان سائنسدانوں کی تعریف کی۔
انہوں نے فرمایا تھا: "ملک کے بنیادی ڈھانچے میں پیش رفت؛ سڑک، ریلوے ٹریک، ڈیم کی تعمیر، آب رسانی خاص کر غدیر واٹر سپلائی چینل جو حال ہی میں کھولا گیا، ریفائنری اور ہسپتالوں کی تعمیر وغیرہ جو 2023 میں کی گئی۔ ان  میگا پروجیکٹس میں سے ایک جنوبی پارس ہے جو مکمل طور پر مقامی (ایرانی) ہے۔ ان شعبوں میں یہ ترقی اس وقت ہوئی جب ملک کو بہت ساری پابندیوں کا سامنا ہے۔
اسی مائع گیس کی پیداوار میں پیشرفت جو کہ ایک اہم ترین کام تھا جس نے ملک کے لئے ترقی کا نیا باب کھولا، یہ کام بھی حالیہ دور میں ہوا۔ ماضی میں اہم اور شاندار ترقیاتی کام ہو چکے ہیں۔"


آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا کہ خارجہ تعلقات کے میدان میں پیشرفت اور مغربی ممالک کا ایران کو تنہا کرنے کے لیے دباؤ؛
انہوں نے فرمایا تھا: "ملک کے بنیادی ڈھانچے میں پیش رفت؛ سڑک، ریلوے ٹریک، ڈیم کی تعمیر، آب رسانی خاص کر غدیر واٹر سپلائی چینل جو حال ہی میں کھولا گیا، ریفائنری اور ہسپتالوں کی تعمیر وغیرہ جو 2023 میں کی گئی۔ ان  میگا پروجیکٹس میں سے ایک جنوبی پارس ہے جو مکمل طور پر مقامی (ایرانی) ہے۔ ان شعبوں میں یہ ترقی اس وقت ہوئی جب ملک کو بہت ساری پابندیوں کا سامنا ہے۔  مائع گیس کی پیداوار میں پیشرفت جو کہ ایک اہم ترین کام تھا جس نے ملک کے لئے ترقی کا نیا باب کھولا، یہ کام بھی حالیہ دور میں ہوا۔ ماضی میں اہم اور شاندار ترقیاتی کام ہو چکے ہیں۔"


امریکہ اور یورپ نے ایران کو تنہا کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ خارجہ پالیسی کی اصطلاح میں تنہائی کا مطلب ممالک کے ساتھ تعلقات منقطع کرنا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا کہ خارجہ تعلقات کے میدان میں پیشرفت اور مغربی ممالک کا ایران کو تنہا کرنے کے لیے دباؤ۔امریکہ اور یورپ نے ایران کو تنہا کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ خارجہ پالیسی کی اصطلاح میں تنہائی کا مطلب ممالک کے ساتھ تعلقات منقطع کرنا ہے۔جب ممالک کسی ملک کے ساتھ تعلقات نہیں رکھتے تو وہ کہتے ہیں کہ وہ الگ تھلگ ہے۔ جو ہوا اس کا الٹا نتیجہ نکلا۔ ہاں، مغربیوں کے ساتھ ہمارے تعلقات کمزور ہوئے، ہمارا امریکہ سے رشتہ نہیں رہا، یورپ سے بھی ہمارے تعلقات کمزور ہوئے، لیکن ہم نے ایشیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو سو فیصد مضبوط کیا۔ ہم ایشیائی ممالک کے اہم حصے کے ساتھ اپنے سیاسی، اقتصادی، تکنیکی اور سائنسی تعلقات کو جاری رکھیں گے۔ہم کچھ اہم معاہدوں کے رکن بنے۔ دشمن ہمیں الگ تھلگ کرنا چاہتا تھا، ایرانی قوم کی کوششوں اور صلاحیتوں نے ہمیں کچھ اہم اور موثر علاقائی معاہدوں میں شامل ہونے کے قابل بنایا۔ ہم تنہا نہیں ہوئے، بلکہ اس کے برعکس ہم آگے بڑھے اور خطے کی حکومتوں اور قوموں سے ہمارے تعلقات مضبوط ہوئے۔ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ساتھ مضبوط روابط ہمارے منصوبوں میں شامل ہیں اور انشاء اللہ ہم اس منصوبے پر عمل کریں گے۔ یقیناً ہم یورپ سے بھی ناراض نہیں ہیں۔ ہم ان تمام یورپی ممالک اور حکومتوں کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں جو امریکی پالیسیوں پر آنکھیں بند کرکے عمل نہیں کرتے۔


جب ممالک کسی ملک کے ساتھ تعلقات نہیں رکھتے تو وہ کہتے ہیں کہ وہ الگ تھلگ ہے۔ جو ہوا اس کا الٹا نتیجہ نکلا۔ ہاں، مغربیوں کے ساتھ ہمارے تعلقات کمزور ہوئے، ہمارا امریکہ سے رشتہ نہیں رہا، یورپ سے بھی ہمارے تعلقات کمزور ہوئے، لیکن ہم نے ایشیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو سو فیصد مضبوط کیا۔ ہم ایشیائی ممالک کے اہم حصے کے ساتھ اپنے سیاسی، اقتصادی، تکنیکی اور سائنسی تعلقات کو جاری رکھیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ پیش رفت ایرانی قوم اور اسلامی نظام کی مضبوط بنیاد کی علامت ہے۔  
ہم کچھ اہم معاہدوں کے رکن بنے۔ دشمن ہمیں الگ تھلگ کرنا چاہتا تھا، ایرانی قوم کی کوششوں اور صلاحیتوں نے ہمیں کچھ اہم اور موثر علاقائی معاہدوں میں شامل ہونے کے قابل بنایا؛ ہم تنہا نہیں ہوئے، بلکہ اس کے برعکس ہم آگے بڑھے اور خطے کی حکومتوں اور قوموں سے ہمارے تعلقات مضبوط ہوئے۔ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ساتھ مضبوط روابط ہمارے منصوبوں میں شامل ہیں اور انشاء اللہ ہم اس منصوبے پر عمل کریں گے۔ یقیناً ہم یورپ سے بھی ناراض نہیں ہیں۔ ہم ان تمام یورپی ممالک اور حکومتوں کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں جو امریکی پالیسیوں پر آنکھیں بند کرکے عمل نہیں کرتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ پیش رفت ایرانی قوم اور اسلامی نظام کی مضبوط بنیاد کی علامت ہے۔


یہ پیش رفت ایمان کے سائے میں، قومی فخر کے احساس کے سائے میں، اندرونی طاقت کی ضرورت کے احساس کے سائے میں ہوئی ہے۔ یعنی ہماری قوم اور ہمارے حکام نے محسوس کیا کہ انہیں اندرونی طاقت اور خود اعتمادی کی ضرورت ہے۔ پہلے وہ غیروں پر بھروسہ کرتے تھے، لیکن انہیں معلوم ہوا کہ دوسروں پر یہ بھروسہ درست نہیں ہے۔ بالاخر آپ کو ایک دن اپنی داخلی صلاحیت اور قومی خودی پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ جب ہم نے مزاحمتی معیشت کا اعلان کیا تو ہم نے کہا کہ مزاحمتی معیشت درون زا  (endogenous) اور برون گرا (exogenous) ہے؛
یہ پیش رفت ایمان کے سائے میں، قومی فخر کے احساس کے سائے میں، اندرونی طاقت کی ضرورت کے احساس کے سائے میں ہوئی ہے۔ یعنی ہماری قوم اور ہمارے حکام نے محسوس کیا کہ انہیں اندرونی طاقت اور خود اعتمادی کی ضرورت ہے۔ پہلے وہ غیروں پر بھروسہ کرتے تھے، لیکن انہیں معلوم ہوا کہ دوسروں پر یہ بھروسہ درست نہیں ہے۔ بالاخر آپ کو ایک دن اپنی داخلی صلاحیت اور قومی خودی پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ جب ہم نے مزاحمتی معیشت کا اعلان کیا تو ہم نے کہا کہ مزاحمتی معیشت درون زا  (endogenous) اور برون گرا (exogenous) ہے؛


درون زا کا مطلب یہ ہے کہ اندرونی طاقت، ہنر اور صلاحیت معیشت کی خدمت میں ہونی چاہیے، اور برون گرا  کا مطلب یہ ہے کہ ہم تمام ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کے لیے تیار ہیں۔ ہم نے یہ محسوس کیا؛ ایرانی قوم نے محسوس کیا، ہمارے نوجوانوں نے محسوس کیا، اور ہمارے حکام نے محسوس کیا کہ انہیں اپنی اندرونی طاقت اور داخلی صلاحیت پر بھروسہ کرنے  
درون زا کا مطلب یہ ہے کہ اندرونی طاقت، ہنر اور صلاحیت معیشت کی خدمت میں ہونی چاہیے، اور برون گرا  کا مطلب یہ ہے کہ ہم تمام ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کے لیے تیار ہیں۔ ہم نے یہ محسوس کیا، ایرانی قوم نے محسوس کیا، ہمارے نوجوانوں نے محسوس کیا، اور ہمارے حکام نے محسوس کیا کہ انہیں اپنی اندرونی طاقت اور داخلی صلاحیت پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے <ref>اسلامی انقلاب کے سائے میں ایران کی شاندار ترقی، [https://ur.mehrnews.com/news/1921749/%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D8%A7%D9%86%D9%82%D9%84%D8%A7%D8%A8-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%A6%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%B4%D8%A7%D9%86%D8%AF%D8%A7%D8%B1-%D8%AA mehrnews.com]</ref>۔
ضرورت ہے <ref>اسلامی انقلاب کے سائے میں ایران کی شاندار ترقی، [https://ur.mehrnews.com/news/1921749/%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D8%A7%D9%86%D9%82%D9%84%D8%A7%D8%A8-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%A6%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%B4%D8%A7%D9%86%D8%AF%D8%A7%D8%B1-%D8%AA mehrnews.com]</ref>۔
== 22 بہمن، جشن بہار انقلاب اسلامی، پورے ایران میں ریلیاں شروع ==
== 22 بہمن، جشن بہار انقلاب اسلامی، پورے ایران میں ریلیاں شروع ==
انقلاب اسلامی کی 45 ویں سالگرہ کے موقع پر آج اتوار 22 بہمن (11) فروری کو پورے ایران کے شہروں اور قصبوں میں عوام انقلاب اسلامی کا جشن منانے کے لئے سڑکوں اور شاہراہوں پر ریلیاں نکال رہے ہیں۔
انقلاب اسلامی کی 45 ویں سالگرہ کے موقع پر آج اتوار 22 بہمن (11) فروری کو پورے ایران کے شہروں اور قصبوں میں عوام انقلاب اسلامی کا جشن منانے کے لئے سڑکوں اور شاہراہوں پر ریلیاں نکال رہے ہیں۔
مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق امام خمینی رہ کی قیادت میں 1979 میں عوام کی وسیع حمایت میں اسلامی انقلاب رونما ہوا۔ آج ایرانی کلینڈر کے مطابق گیارہویں مہینے کی 22 تاریخ کو ایران کے کونے کونے میں زندگی کے ہر طبقے اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اسلامی انقلاب کی کامیابی کا جشن منانے کے لئے سڑکوں اور شاہراہوں پر نکل کر ریلیاں نکال رہے ہیں۔
مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق امام خمینی رہ کی قیادت میں 1979 میں عوام کی وسیع حمایت میں اسلامی انقلاب رونما ہوا۔ آج ایرانی کلینڈر کے مطابق گیارہویں مہینے کی 22 تاریخ کو ایران کے کونے کونے میں زندگی کے ہر طبقے اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اسلامی انقلاب کی کامیابی کا جشن منانے کے لئے سڑکوں اور شاہراہوں پر نکل کر ریلیاں نکال رہے ہیں۔


انقلاب اسلامی کی کامیابی کےسلسلے میں مرکزی ریلی تہران  میں نکلے گی۔ دارالحکومت کے مختلف حصوں سے لوگ مختلف شاہراہوں سے ہوتے ہوئے آزادی اسکوائر پر جمع ہوں گے جہاں صدر مملکت آیت اللہ رئیسی ریلی کے شرکاء سے خطاب کریں گے <ref>22 بہمن، جشن بہار انقلاب اسلامی، پورے ایران میں ریلیاں شروع، [https://ur.mehrnews.com/news/1921823/22-%D8%A8%DB%81%D9%85%D9%86-%D8%AC%D8%B4%D9%86-%D8%A8%DB%81%D8%A7%D8%B1-%D8%A7%D9%86%D9%82%D9%84%D8%A7%D8%A8-%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%92-%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA% mehrnews.com]</ref>۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی کےسلسلے میں مرکزی ریلی تہران  میں نکلے گی۔ دارالحکومت کے مختلف حصوں سے لوگ مختلف شاہراہوں سے ہوتے ہوئے آزادی اسکوائر پر جمع ہوں گے جہاں صدر مملکت آیت اللہ رئیسی ریلی کے شرکاء سے خطاب کریں گے <ref>22 بہمن، جشن بہار انقلاب اسلامی، پورے ایران میں ریلیاں شروع، [https://ur.mehrnews.com/news/1921823/22-%D8%A8%DB%81%D9%85%D9%86-%D8%AC%D8%B4%D9%86-%D8%A8%DB%81%D8%A7%D8%B1-%D8%A7%D9%86%D9%82%D9%84%D8%A7%D8%A8-%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%92-%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA% mehrnews.com]</ref>۔
== ایران کی طرح اسلامی انقلاب پاکستان کا مقدر ہے ==
== ایران کی طرح اسلامی انقلاب پاکستان کا مقدر ہے ==
علامہ مرزایوسف حسین کی زیر صدارت، مولانا محمدامین انصاری کی میزبانی میں مختلف مکاتب فکر کے علماء مشائخ کی سیمینار میں شرکت
علامہ مرزایوسف حسین کے زیر صدارت، مولانا محمدامین انصاری کی میزبانی میں مختلف مکاتب فکر کے علماء و مشائخ کی سیمینار میں شرکت
ایران کی طرح اسلامی انقلاب پاکستان کا مقدر ہے،متحدہ علماء محاذ
 
[[سید روح اللہ موسوی خمینی|امام خمینی]] نے [[فلسطین]] ،وحدت امت وجذبہ حریت کیلئے بیداری پیداکی،مقررین سیمینار
ایران کی طرح اسلامی انقلاب پاکستان کا مقدر ہے۔متحدہ علماء محاذ
متحدہ علماء محاذ پاکستان کے زیراہتمام 45ویں سالگرہ اسلامی انقلاب ایران کے موقع پرپاک ایران تعلقات و یکجہتی فلسطین سیمینار مرکزی صدر علامہ مرزایوسف حسین کی زیر صدارت ، بانی سیکریٹری جنرل مولانا محمدا مین انصاری کی میزبانی میں مرکزی سیکریٹریٹ گلشن اقبال میں منعقدہوا۔  
 
[[سید روح اللہ موسوی خمینی|امام خمینی]] نے [[فلسطین]] ،وحدت امت وجذبہ حریت کیلئے بیداری پیداکی۔مقررین سیمینار
 
متحدہ علماء محاذ پاکستان کے زیراہتمام اسلامی انقلاب ایران کی  45ویں سالگرہ کے موقع پرپاک ایران تعلقات و یکجہتی فلسطین سیمینار مرکزی صدر علامہ مرزایوسف حسین کی زیر صدارت ، بانی سیکریٹری جنرل مولانا محمدا مین انصاری کی میزبانی میں مرکزی سیکریٹریٹ گلشن اقبال میں منعقدہواجس میں مختلف مکاتب فکر کے جید علماء و مشائخ ، سیاسی زعماء سمیت مہمانا ن خصوصی ممتاز محقق و دانشور مباہلہ ونر علامہ الیاس ستار، مرکزی چیئرمین علامہ عبدالخالق فریدی سلفی، فلسطین فائونڈیشن پاکستان کے بانی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابومریم، محاذ کراچی کے صدر شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد دائود، جے یو آئی (ف) کے رہنماشیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان ترک، علامہ حسن شریفی، علامہ شیخ سکندر حسین نوربخشی،علامہ سید طاہر جمال تھانوی،مولانا منظرالحق تھانوی،علامہ سید سجادشبیر رضوی ودیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ ایران کی طرح اسلامی انقلاب پاکستان کا مقدر ہے۔امام خمینی نے فلسطین ،وحدت امت وجذبہ حریت کیلئے بیداری پیداکی۔،اسلامی انقلاب ایران نے دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں میں حریت و بیداری کا جذبہ پیدا کیا۔بانی انقلاب امام خمینی نے قبلہ اول [[بیت المقدس]] کی جدوجہد آزادی کو تقویت دینے کیلئے یوم القدس کا جرأت مندانہ اعلان کرکے اسے دنیائے انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ بنادیاہے۔ [[ربیع الاول]] میں [[بعثت |بعثت رسالت]] کے موقع پر[[ہفتہ وحدت]] منانے کے ذریعہ استعمارکے خلاف عالمی اتحاد امت کیلئے گراں قدر خدمات لائق تقلید و ستائش ہیں۔مستحکم و پائیدار پاک- ایران تعلقات دونوں ممالک میں امن و استحکام ، اتحاد ، معاشی ترقی کیلئے سنگ میل ثابت ہوں گے۔پاک ایران تعلقات کی دشمن طاقتوں کے مذموم عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور امن و سلامتی پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ 
 
[[غزہ]] فلسطین پر تاحال روز بروز بڑھتی ہوئی خونی جارحیت اور  بمباری  کو اقوام متحدہ اور مسلم حکمرانوں کیلئے کھلا چیلنج و تازیانہ قرار دیتے ہوئے فی الفور جنگ بندی اور غذائی و طبی امداد پہنچانے کا مطالبہ کیاگیا۔ [[حماس]] و دیگر مقاومتی مجاہدین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یکجہتی کا اظہار کیاگیا۔سیمینار سے علامہ زاہد حسین ہاشمی مشہدی،مفتی وجیہہ الدین، علامہ مرتضیٰ خان رحمانی،علامہ ڈاکٹر شاہ فیروزالدین رحمانی ،مولانا محمد اظہر فاروقی،مولانا اقبال ڈھروی،نوجوان موٹیویشنل اسپیکرفضائل علی رانا، ڈاکٹر محمد یامین ،NPCIHکے مرکزی سیکریٹری جنرل سفیر امن و سلامتی برائے اقوام عالم پاکستان عمیر احمد آرائیں،سوشل اکٹیوسٹ غلام نبی ،تاجر رہنمامولانا فہیم الدین انصاری،علامہ علی سرکار نقوی،ہندو مذہبی اسکالر منوج چوہان، مولانا حافظ زہیر سلفی ،علامہ پروفیسر عزیز الرحمن صادق سلفی،انجینئر آفتاب عالم صدیقی، میڈیا کوآرڈینیٹر فاروق احمد ریحان ،تسنیم زیدی، مولانا رجب علی نوربخشی، مفتی وجیہہ کے نوعمر صاحبزادے حافظ نعمان نے خطاب کیا،مولانا پیر حافظ گل نواز خان ترک،حافظ محمد صہیب نے تلاوت [[قرآن]] پاک سے سیمینار کا آغاز کیاجبکہ معروف نعت و منقبت خواں خواجہ پیر سید معاذ علی نظامی ،حسین الدین شاہ رحمانی،کرامت علی نوربخشی نے بارگاہ رسالت ،اہل بیت اطہارو اصحاب رسول کی شان اقدس میں نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ علامہ مرزایوسف حسین نے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی فتح یابی، افواج پاکستان کی کامیابی ،ملکی امن و استحکام کیلئے خصوصی اختتامی دعا کرائی <ref>کراچی(راہ انصار نیوز15 فروری24)</ref>۔
== اسرائیل کو سخت سبق سکھایا جائے گا ==
ایرانی پارلیمنٹ کے سپیکر محمد باقر قالیباف نے پارلیمنٹ کے اجلاس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کے دوران [[شام]] میں ایرانی سفارتخانے پر صہیونی حملے پر شدیدردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صہیونی حکومت جرائم کی تمام حدیں پار کرچکی ہے۔ غاصب حکومت کی جنایات بڑھنے کے ساتھ دنیا میں اس سے نفرت کی لہر میں تیزی آرہی ہے۔
 
انہوں نے کہا کہ صہیونی حکومت کی جنایتوں میں اضافے سے وہ مزید کمزور اور مقاومت کا عزم مزید بڑھ جائے گا۔ خطے میں امریکہ اور اسرائیل کی غنڈہ گردی کا زمانہ گزر گیا ہے۔ حالیہ دہشت گرد حملے [[طوفان الاقصی]] کے بعد صہیونی حکومت کی تباہی کے آثار ہیں۔
 
ایرانی سپریم لیڈر نے کہا کہ [[عالمی یوم القدس]] کے موقع پر عوام کی کثیر تعداد میں ریلیوں میں شرکت سے دنیا میں عدالت خواہوں اور حریت پسندوں کو مزید حوصلہ ملا ہے۔ جمہوری اسلامی ایران نے ہمیشہ دنیا کے مظلوموں کا ساتھ دیا ہے جن میں فلسطینی عوام سرفہرست ہیں۔ ان شاء اللہ کے فضل و کرم اور عوام کی کوششوں کے نتیجے میں بیت المقدس کی آزادی کا خواب پورا ہوجائے گا <ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1923163/ اسرائیل کو سخت سبق سکھائیں گے، ایرانی پارلیمنٹ اسپیکر]mehrnews.com-شائع شدہ: 7اپریل2024ء- اخذ شدہ: 7اپریل 2024ء۔</ref>۔
== ایرانی صدر کا ترکی صدر سے ٹیلیفونک رابطہ ==
جمہوری اسلامی ایران کے  صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی نے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان سے ٹیلیفونک رابطہ کرکے [[عید فطر]] کے موقع پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے دو  طرفہ تعلقات اور علاقائی و عالمی مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔
انہوں نے ایران اور ترکی کے درمیان مشترکہ تعاون کمیشن کو مزید فعال کرنے کے لئے نشستوں کے انعقاد پر زور دیا۔
 
ایرانی صدر نے [[غزہ]] میں صہیونی جارحیت پر ترکی کی جانب سے احتجاج پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی سفارت خانے پر صہیونی حملے کا ہر حال میں جواب دیا جائے گا۔
 
رئیسی نے کہا کہ صہیونی حکومت کو غزہ میں فلسطینیوں پر جارحیت سے روکنے کی موثر ترین حکمت عملی یہ ہے کہ اسلامی ممالک [[اسرائیل]] سے سیاسی اور اقتصادی روابط منقطع کریں۔
 
ایرانی صدر نے کہا ہے کہ عالمی اداروں اور مغربی ممالک کی شرمناک خاموشی سے ان اداروں اور ممالک کی عالمی سطح پر مزید رسوائی ہوئی ہے۔
 
ترکی صدر نے دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر صہیونی حملے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ [[فلسطین]] اور خطے میں دہشت گرد حملوں اور انسانیت سوز مظالم کی وجہ سے اسرائیل کے خلاف نفرت میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوا ہے <ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1923233/ اسرائیل سے اقتصادی تعلقات منقطع کرنا غزہ پر جارحیت روکنے کی بہترین حکمت عملی ہے] mehrnews.com-شائع شدہ:11اپریل 2024ء-اخذ شدہ:11اپریل 2024ء۔</ref>۔
== پاسداران انقلاب کی بحریہ نے صیہونی حکومت سے وابستہ ایک مال بردار جہاز کو قبضے میں لے لیا ==
 
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی بحریہ نے آج دوپہر کے وقت خلیج فارس کے علاقے میں صیہونی حکومت سے متعلق ایک مال بردار جہاز کو اپنے قبضے میں لے لیا۔
 
خبری ذرائع نے دعویٰ کیا ہے: کہ اس کارگو جہاز کو ’’ایم ایس سی ایریز‘‘ کہا جاتا ہے جس پرتگالی پرچم نزب ہے اور اس کا تعلق لندن میں قائم ’’زوڈیک میری ٹائم‘‘ کمپنی سے ہے، جو ’’ایئل اوفر‘‘ نامی اسرائیلی ارب پتی کی ملکیت ہے۔
 
بعض ذرائع ابلاغ نے کے مطابق فروری 2022 میں بھی خلیج فارس میں زوڈیاک شپنگ کمپنی سے تعلق رکھنے والے تجارتی جہاز کیمپو اسکوائر پر حملہ کیا گیا تھا <ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1923275/ ایران نے اسرائیلی بحری جہاز کو قبضے میں لے لیا] mehrnews.com-شا‏ئع شدہ:13اپریل 2024ء-اخذ شدہ:13اپریل 2024ء۔</ref>۔
== ایران نے اسرائیل کا بھرم توڑ دیا۔ مشاہد حسین سید ==
بین الاقوامی اور خارجہ امور کے ماہر اور سینئر سیاستدان مشاہد حسین سید نے ایران کے [[اسرائیل]] پر حملے کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ 50 سال بعد کسی مسلمان ملک نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیلی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔
 
ایران کے اسرائیل کے حملے کے بعد نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے مشاہد حسین سید نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں تیسری عالمی جنگ تو نہیں ہو گی لیکن آج بہت تاریخی دن ہے کیونکہ آج 50 سال بعد کسی مسلمان ملک نے اتنی ہمت اور جرات ہوئی کہ انہوں نے اسرائیلی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا۔
 
مشاہد حسین سید نے کہا کہ یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب اسرائیل نے دمشق نے ایرانی سفارتخانے پر حملہ کیاتھا، یہ دوہری جارحیت تھی کیونکہ ایران اور [[شام]] دونوں کے خلاف اشتعال انگریزی کا مظاہرہ کیا گیا اور دوسری طرف فلسطینیوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے جو اس وقت بنیادی مسئلہ ہے۔
 
انہوں نے کہا: ایران کے اس حملے سے اسرائیل کا یہ بھرم ٹوٹ گیا کہ اسرائیل کو کوئی چھو تک نہیں سکتا، ان کے پاس آئرن ڈوم ہے، امریکہ نے کئی دہائیوں سے امداد جاری رکھی ہوئی ہیں اور 50 دفعہ ان کا سیکیورٹی کونسل میں دفاع بھی کیا ہے جبکہ اس کارروائی سے مسلم دنیا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔
 
مشاہد حسین  نے کہا کہ 50 سال قبل عرب اسرائیل جنگ میں شام اور [[مصر]] نے 1973 میں اسرائیل کے خلاف رمضان میں جوابی کارروائی کی تھی، اس وقت وزیراعظم [[ذوالفقار علی بھٹو|ذوالفقار علی]] بھٹو نے دو پائلٹ بھیجے تھے اور ہم شامی ایئرفورس کے ساتھ مل کر لڑے تھے۔
 
جب  سینیئر سیاستدان سے سوال کیا گیا کہ یہ صورتحال کہاں جا کر رکے گی تو انہوں نے کہا کہ اب دو اہم پیشرفت ہوئی ہیں، پہلی یہ کہ صدر جو بائیڈن اور نیتن یاہو کی 25 منٹ کی گفتگو ہوئی ہے اور بائیڈن نے انہیں پہلی مرتبہ الٹی میٹم دیا ہے کہ آپ ایران پر حملہ نہیں کریں گے، اگر کوئی کارروائی کرتے ہیں تو ہم سے پوچھیں اور اگر آپ نے حملہ کیا تو ہم آپ کا ساتھ نہیں دیں گے۔
 
سید کا کہناتھا کہ دوسرا پیغام ایران کی طرف سے امریکہ کو گیا ہے کہ اگر اسرائیل نے حملہ کرنے کی کوشش کی اور امریکہ اس میں شامل ہوا تو مشرق وسطیٰ میں امریکی اڈوں پر ہم حملہ کریں گے، میرے خیال میں امریکہ نہیں چاہتا کہ کوئی بڑی جنگ ہو کیونکہ وہ کنٹرول نہیں کی جا سکے گی<ref>[https://siasiyat.com/ ایران نے اسرائیل کا بھرم توڑ دیا۔ مشاہد حسین سید] siasiyat.com-شائع شدہ: 15اپریل 2024ء-اخذ شدہ:15اپریل 2024ء۔</ref>۔
 
اسرائیل [[فلسطین|فلسطینیوں]] کے خلاف اخلاقی، سیاسی، سفارتی اور قانونی لحاظ سے جنگ ہار چکا ہے اور ایسی صورت میں وہ ایران سے جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
 
سید نے مزید کہا کہ جس طرح امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی سیکیورٹی کونسل اور جی سیون ممالک کا اجلاس طلب کیا ہے، اسی طرح پاکستان کو چاہیے کہ وہ اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس بلائے اور اس میں کہے کہ ہم حق، انصاف اور عالمی قوانین کے ساتھ کھڑے ہیں۔
 
اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس طلب کر کے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی جائے، [[غزہ]] میں سیز فائر کا مطالبہ کیا جائے اور اقوام متحدہ کے ذریعے مذاکرات کر کے اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
 
مشاہد حسین سید کا مزید کہنا تھا کہ 35 ہزار فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، 75 ہزار سے زائد زخمی ہیں، لاکھوں بے گھر ہو گئے ہیں اور آج ایک ملک نے ثابت کردیا کہ اگر ہم اکٹھے ہوتے تو یہ نوبت نہ آتی، ہمیں اس معاملے میں کھڑا ہونا چاہیے جس سے جنگ کے منڈلاتے بادل چھٹ جائیں گے۔
== پاک-ایران تعلقات کا نیا دور ==
صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی کے تین روزہ دورۂ پاکستان کے موقع پر حکومتی و عوامی سطح پر تاریخی اور والہانہ استقبال پاک ایران دوستی اور گہرے تعلقات کی واضح علامت ہے۔
موجودہ حکومت سے اختلافات اپنی جگہ، مگر ایرانی سرکاری وفد کا جس انداز میں استقبال صدر، وزیراعظم اور دیگر سیاسی شخصیات کی جانب سے ہوا، جو پروٹوکول دیا گیا، وہ مستقبل میں پاک ایران تعلقات کے ساتھ دونوں ملکوں کے عوام کے روابط میں استحکام کاسبب بنے گا۔
 
وزیراعظم پاکستان نے خصوصی طور پر [[فلسطین]] کے حوالے سے ایران کے جرأت مندانہ مؤقف کی تائید کی اور صدر ایران نے پاکستان کی سرزمین پر فلسطین کے مظلومین کی حمایت کی، اس سے یقیناً بانی پاکستان [[ محمد علی جناح|قائد اعظم محمد علی جناح]] کی روح کو سکون ملا ہوگا، کیونکہ بانی پاکستان نے ہی اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیا تھا اور فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کی تھی۔
 
آیت اللہ ر‏ئیسی نے حکومتی ارکان سے گفتگو، علماء سے ملاقات اور پاکستان کے نام جو پیغام دیا اور مملکت عزیز پاکستان کے ساتھ رہبر اور ایرانی عوام کے پرخلوص روابط اور تعلقات کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کیا جو پاک - ایران تعلقات میں ایک نئی نوید ہے۔
 
صدر ایران کے ساتھ ان کی اہلیہ کی مختلف پروگراموں میں شرکت اور خواتین سےخطاب بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے، چونکہ جمیلہ علم الھدیٰ خود ایک پی ایچ ڈی اسکالر، ماہر تعلیم، سینکڑوں کتب کی مصنف اور ایک یونیورسٹی کی سربراہ بھی ہیں۔
 
جمہوریہ اسلامی ایران کے نظام تعلیم میں ان کے فلسفی و اسلامی نظریات کو بنیادی مقام واہمیت حاصل ہے اور عصر حاضر کی [[مسلمان]] خواتین کے لیے ایک رول ماڈل بھی ہیں۔ ایک خاتون حجاب کی پابندی، اسلامی اقدار وروایات کی رعایت کے ساتھ خواتین کے حقوق کی علمبردار اور تعلیم، تربیت اور ثقافتی و قومی امور میں حصہ لے سکتی ہے
 
انہوں نے خواتین کی تقریبات میں یہ اہم پیغام دیا کہ ایک عورت کا اسلامی کردار کیسا ہونا چاہیے۔
 
امت مسلمہ خصوصا مسئلہ فلسطین اور پاک ایران تعلقات کے بارے میں جن امور پر دونوں حکومتی سربراہان کے درمیان بات چیت ہوئی اور دو طرفہ جن یادداشتوں پر اتفاق کیا گیا، اگر حکومت پاکستان بیرونی و اندرونی دباؤ کے مقابلے میں استقامت دکھائے اور ایران کے ساتھ ملکر مسائل کو حل کرنے کے لیے عملی اقدام کرے تو یہ مملکت پاکستان کے استحکام کا باعث ہوگا، کیونکہ ایران نے تمام تر سامراجی طاقتوں کی مزاحمت اور مخالفت کے باوجود اپنے دوستوں کاساتھ دیا۔وہ سب کے سامنے واضح ہے، جیسے فلسطین، لبنان، شام، عراق، یمن اور دیگر دوست ممالک کے ساتھ ہمیشہ وفاداری کو نبھایا ہے<ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/398394/ ایرانی صدر کا دورۂ پاکستان؛ اثرات اور توقعات]-ur.hawzahnews.com-شائع شدہ از:24اپریل 2024ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:24اپریل 2024ء۔</ref>۔
== ایران و پاکستان کی مسلح افواج کا تعاون، امن و پائیداری کا باعث ==
پاک فوج کے سپہ سالار نے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حجت الاسلام والمسلمین سید ابراہیم رئیسی کے دورۂ پاکستان کے موقع پر ان سے ملاقات کی ہے۔
 
رپورٹ کے مطابق جنرل سید عاصم منیر کی صدر سید ابراہیم رئیسی سے ہونے والی اس ملاقات میں فریقین نے باہمی دلچسپی کے امور خاص طور پر علاقے میں امن و پائیداری نیز سرحدوں پر سیکورٹی کے موضوع پر گفتگو کی۔
 
فریقین نے دو طرفہ تعاون میں فروغ اور اس کے ساتھ ہی علاقے میں امن و پائيداری نیز معاشی ترقی کے لئے کوششیں جاری رکھنے پر اتفاق بھی کیا ہے۔


جس میں مختلف مکاتب فکر کے جید علماء مشائخ ، سیاسی زعماء سمیت مہمانا ن خصوصی ممتاز محقق و دانشور مباہلہ ونر علامہ الیاس ستار، مرکزی چیئرمین علامہ عبدالخالق فریدی سلفی، فلسطین فائونڈیشن پاکستان کے بانی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابومریم، محاذ کراچی کے صدر شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد دائود، جے یو آئی (ف) کے رہنماشیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان ترک، علامہ حسن شریفی، علامہ شیخ سکندر حسین نوربخشی،علامہ سید طاہر جمال تھانوی،مولانا منظرالحق تھانوی،علامہ سید سجادشبیر رضوی ودیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ ایران کی طرح اسلامی انقلاب پاکستان کا مقدر ہے،امام خمینی نے فلسطین ،وحدت امت وجذبہ حریت کیلئے بیداری پیداکی،اسلامی انقلاب ایران نے دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں میں حریت و بیداری کا جذبہ پیدا کیا۔بانی انقلاب امام خمینی نے قبلہ اول [[بیت المقدس]] کی جدوجہد آزادی کو تقویت دینے کیلئے یوم القدس کا جرأت مندانہ اعلان کرکے اب دنیائے انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ بنادیاہے۔ [[ربیع الاول]] میں [[بعثت |بعثت رسالت]] کے موقع پر[[ہفتہ وحدت]] منانے کے ذریعہ استعمارکے خلاف عالمی اتحاد امت کیلئے گراں قدر خدمات لائق تقلید و ستائش ہیں۔مستحکم و پائیدار پاک ایران تعلقات دونوں ممالک میں امن و استحکام ، اتحاد ، معاشی ترقی کیلئے سنگ میل ثابت ہوں گے۔پاک ایران تعلقات کی دشمن طاقتوں کے مذموم عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیںگے۔پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور امن و سلامتی پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔
آیت اللہ سید ابراہیم رئيسی نے اس ملاقات ميں زور دیا ہے کہ ایران و پاکستان، مسلح افواج کے تعاون سے دونوں ملکوں اور علاقے کے امن و امان و پائیداری کو مضبوط کر سکتے ہیں۔


[[غزہ]] فلسطین پر تاحال روز بروز بڑھتی ہوئی خونی جارحیت، بمباری اقوام متحدہ اور مسلم حکمرانوں کیلئے کھلا چیلنج و تازیانہ قرار دیتے ہوئے فی الفور جنگ بندی غذائی و طبی امداد پہنچانے کا مطالبہ کیاگیا۔ [[حماس]] و دیگر مقاومتی مجاہدین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یکجہتی کا اظہار کیاگیا۔سیمینار سے علامہ زاہد حسین ہاشمی مشہدی،مفتی وجیہہ الدین، علامہ مرتضیٰ خان رحمانی ،علامہ ڈاکٹر شاہ فیروزالدین رحمانی ،مولانا محمد اظہر فاروقی،مولانا اقبال ڈھروی،نوجوان موٹیویشنل اسپیکرفضائل علی رانا، ڈاکٹر محمد یامین ،NPCIHکے مرکزی سیکریٹری جنرل سفیر امن و سلامتی برائے اقوام عالم پاکستان عمیر احمد آرائیں،سوشل اکٹیوسٹ غلام نبی ،تاجر رہنمامولانا فہیم الدین انصاری،علامہ علی سرکار نقوی،ہندو مذہبی اسکالر منوج چوہان، مولانا حافظ زہیر سلفی ،علامہ پروفیسر عزیز الرحمن صادق سلفی،انجینئر آفتاب عالم صدیقی، میڈیا کوآرڈینیٹر فاروق احمد ریحان ،تسنیم زیدی، مولانا رجب علی نوربخشی، مفتی وجیہہ کے نوعمر صاحبزادے حافظ نعمان نے خطاب کیا،مولانا پیر حافظ گل نواز خان ترک،حافظ محمد صہیب نے تلاوت [[قرآن]] پاک سے سیمینار کا آغاز کیاجبکہ معروف نعت و منقبت خواں خواجہ پیر سید معاذ علی نظامی ،حسین الدین شاہ رحمانی،کرامت علی نوربخشی نے بارگاہ رسالت ،اہل بیت اطہارو اصحاب رسول کی شان اقدس میںنذرانہ عقیدت پیش کیا۔ علامہ مرزایوسف حسین نے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی فتح یابی ، افواج پاکستان کی کامیابی ،ملکی امن و استحکام کیلئے خصوصی اختتامی دعا کرائی <ref>کراچی(راہ انصار نیوز15 فروری24)</ref>۔
اس ملاقات میں پاکستانی فوج کے سربراہ نے ایران و پاکستان کی سرحدوں کو امن و دوستی کی سرحد قرار دیا اور سرحدی امور پر دونوں ملکوں کے درمیان ہم آہنگی پر زور دیا تاکہ دہشت گرد دونوں ملکوں کے بردارانہ و دیرینہ تعلقات کو خطرے سے دوچار نہ کر سکيں <ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/398380/%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D9%88-%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D8%B3%D9%84%D8%AD-%D8%A7%D9%81%D9%88%D8%A7%D8%AC-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D8%B9%D8%A7%D9%88%D9%86-%D8%A7%D9%85%D9%86-%D9%88-%D9%BE%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D8%A8%D8%A7    ایران و پاکستان کی مسلح افواج کا تعاون، امن و پائیداری کا باعث]- ur.hawzahnews.com-شا‏ئع شدہ از:24اپریل 2024ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:24اپریل 2024ء۔</ref>۔


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
confirmed
2,506

ترامیم