"علی عبد الرازق" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
م (Mahdipor نے صفحہ علی عبد الرازق کو مسودہ:علی عبد الرازق کی جانب بدون رجوع مکرر منتقل کیا)
(کوئی فرق نہیں)

نسخہ بمطابق 11:49، 24 اپريل 2024ء

علی عبد الرزاق جن کا پورا نام علی حسن احمد عبد الرزاق اور اسلام اور اصول حکمرانی نامی کتاب کے مصنف ہیں۔ آپ منیا صوبے کے گاؤں ابو جرج میں ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوا۔ انہوں نے گاؤں میں قرآن حفظ کیا، اس کے الازہر چلے گئے، جہاں سے انہوں نے بین الاقوامی ڈگری حاصل کی۔ پھر وہ آکسفورڈ کی برٹش یونیورسٹی گئے۔ واپسی پر انہیں شرعی جج مقرر کر دیا گیا۔

سوانح عمری

شیخ علی عبد الرازق 1888ء میں مصر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حسن عبد الرزاق امہ پارٹی سے تعلق رکھتے تھے اور مجلس قانون ساز کے رکن بھی تھے اور مفتی محمد عبدہ، کے ہم عصروں میں سے تھے۔

تعلیم

شیخ علی دس سال کی عمر میں جامعہ ازہر میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجے گئے اور خوش قسمتی سے انہیں مفتی محمد عبدہ جیسا قابل استاد میسر آیا۔ شیخ علی نے کچھ عرصہ قدیم مصری یونیورٹی میں بھی (جو اب ختم ہو چکی ہے اور جس کی جگہ امریکن یونیورسٹی لے چکی ہے) تعلیم حاصل کی اور یورپ کے مشہور مستشرقین مثلا پروفیسر نالینو وغیرہ سے استفادہ کیا۔ جامعہ ازہر سے انہیں پہلی سند 1911ء میں 22 سال کی عمر میں ملی اور وہیں آپ نے علم بیان پر لیکچروں کا سلسلہ شروع کیا۔ اسی دوران میں آپ نے اس موضوع پر ایک کتاب امالی عبد الرزاق فی علم البیان و تاریخہتحریر کی۔

کچھ عرصہ بعد آپ تعلیم حاصل کرنے آکسفورڈ روانہ ہوئے۔ لیکن جلد ہی پہلی جنگ عظیم کے چھڑ جانے کے باعث واپس آگئے ۔ 1915ء میں آپ کو محاکم شرعیہ (شرعی عدالتوں) کا قاضی مقرر کیا گیا اس عہدے پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ آپ اسکندریہ میں ادب عربی میں لیچکر بھی دیتے رہے۔ فلسفہ و تاریخ قانون سے بھی آپ کو دل چسپی رہی، اور اسی دلچسپی نے آپ کو خلافت کی ماہیت کی تحقیق پر اکسایا اپنی تحقیقات کو آپ نے 1925ء میں الاسلام و اصول الحکم کے نام سے شائع کیا۔

اسلام اور حکمرانی کے اصول

1925 میں، آپ نے اسلام اور حکمرانی کے اصول نامی کتاب شائع کی، جس میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کتاب مذہب کو سیاست سے الگ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جب کہ بعض کا خیال ہے کہ آپ نے قانون اور مذہب کی صداقت کو ثابت کر دیا، کہ کسی مخصوص شکل کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اسلام میں ریاست کی بجائے، خدا نے اپنی کتاب میں مسلمانوں کو ریاست کا ڈھانچہ قائم کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا تھا، اور اس کتاب نے اسلام میں خلافت کے موقف کے بارے میں ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا۔ جیسا کہ یہ کتاب خلافت عثمانیہ کے زوال اور اتاترک ریاست کے آغاز کے اسی دور میں شائع ہوئی تھی، جب کہ عرب بادشاہ خلیفہ کے عنوان کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔

بہت سے علماء اور محقیقن نے اس کا جواب دیا، جن میں سے سب سے اہم شیخ محمد الخضر حسین تھے، جنہوں نے نقد کتاب الاسلام واصول الحکم لکھ کر اسلام اور اصول حکمرانی پر تنقید کی تھی، پھر جامعۂ الازہر نے ان سے ڈگری واپس لے لی۔ جسے بہت سے مفکرین نے شاہ فواد اول (اس وقت کے مصر کے بادشاہ) کی طرف سے سیاسی ردعمل قرار دے دیا تھا اور اس کی رائے کے خلاف مہم چلائی۔ امام محمد الغزالی کے کہنے کے مطابق شیخ علی عبدالرزاق اپنے آخری ایام میں اپنی رائے سے مکر گئے تھے۔

اسلام اور اصول حکمرانی کے پس منظر

کتاب اسلام اور حکمرانی کے اصولوں کو ایک فکری آزادی کے عمل کا تسلسل سمجھا جاتا ہے جس کا آغاز امام محمد عبدہ نے اپنی کتاب لاسلام والنصرانیہ بین العلم و المدنیہ اسلام اور عیسائیت کے درمیان علم اور تہذیب میں کیا ہے، قاسم امین اور شیخ عبدالرحمن کوکیبی نے اپنی کتاب طبائع الاستبداداستبداد کی فطرت اس کے بعد عبد الوہاب المسیری نے اپنی کتاب العلمانیۂ الجزئیۂ و العلمانیۂ الشاملۂ (جزوی سیکولرازم اور جامع سیکولرازم) میں اور آخر میں راشد غنوشی نے اپنی تصانیف جیسے مقاربات فی العلمانیۂ والمجتمع المدنی (اپروچز ان سیکولرازم اور سول سوسائٹی میں) شامل ہیں۔

عہدے

اپنے بھائی شیخ مصطفیٰ عبدالرزاق پاشا کے بعد 1945ء میں الازہر کی صدارت سنبھالی۔ اس کے بعد آپ 28 دسمبر 1948ء سے 25 جولائی 1949ء کے درمیان وزارت اوقاف کے وزیر کے طور پرمنتخب ہوا ابراہیم عبدالہادی پاشا کی سربراہی میں 1316ء تا 1401ھ ایوان نمائندگان اور سینیٹ کا رکن عربی زبان اکیڈمی کا رکن مقرر کیا گیا۔ آپ کی وفات جمادی الآخرۃ 1386ھ بمطابق 23 ستمبر 1966ء کو ہوئی۔

اسلام اور اصول حکمرانی پر تبصرے

دین اسلام ایک کامل دین اورمکمل دستور حیات ہے، جو زندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے، دین اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فرد کی اصلاح پر زوردیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اصول وضع کرتاہے، اسلامی نظامِ حیات میں، جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاشرت، معاملات اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کاجس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہے، دین اسلام کا نظامِ سیاست وحکم رانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔

دین اسلام میں سیاست شجرِ ممنوعہ نہیں ہے، یہ ایسا کامل ضابطہٴ حیات ہے جو نہ صرف انسان کو معیشت ومعاشرت کے اصول وآداب سے انسان کو آگاہ کرتا ہے، بلکہ زمین کے کسی حصہ میں اگراس کے پیرو کاروں کواقتدار حاصل ہو جائے تووہ انہیں شفاف حکم رانی کے طریقے بھی سکھاتا ہے، عیسائیت کی طرح اسلام کلیسا اور ریاست کی تفریق کاکوئی تصورپیش نہیں کرتا، بقول ڈاکٹرمحمود احمدغازی کے:"اسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چناں چہ ماوردی نے یہ بات لکھی ہے کہ جب دین کم زورپڑتاہے تو حکومت بھی کم زورپڑجاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہو تی ہے تودین بھی کم زورپڑجاتاہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔“ [1]۔

کتاب کا محتوا

زیر تبصرہ کتاب" اسلام اور اصول حکومت"مصر کے معروف عالم دین شیخ علی عبد الرازق کی عربی تصنیف"الاسلام اصول الحکم "کا اردو ترجمہ ہے۔ترجمہ محترم راجا محمد فخر ماجد نے کیا ہے۔ مولف نے اس کتاب میں اسلامی حکومت کے بنیادی اصول وتصورات بیان فرمائے ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوران کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔

  1. محاضراتِ شریعت :ص287