"احمد وائلی" کے نسخوں کے درمیان فرق
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 21: | سطر 21: | ||
اس کے بعد آپ اصول فقہ، فقہ المقارن، فلسفہ اور منطق کی بنیادوں کے مطالعہ کے ساتھ اعلیٰ درجے کے مرحلے میں داخل ہوئے۔اس مرحلے پر ان کے اساتذہ میں سے: جناب علی مکی، محمد تقی الحکیم، شیخ علی کاشف الغطاء، شیخ محمد حسین مظفر، شیخ محمد رضا مظفر و۔۔۔ | اس کے بعد آپ اصول فقہ، فقہ المقارن، فلسفہ اور منطق کی بنیادوں کے مطالعہ کے ساتھ اعلیٰ درجے کے مرحلے میں داخل ہوئے۔اس مرحلے پر ان کے اساتذہ میں سے: جناب علی مکی، محمد تقی الحکیم، شیخ علی کاشف الغطاء، شیخ محمد حسین مظفر، شیخ محمد رضا مظفر و۔۔۔ | ||
اس کے بعد وائلی نے اپنی علمی تعلیم کو درس خارج کے مرحلے کے ساتھ مکمل کیا اور اس وقت کے فقہاء اور مجتہدین سے فقہ اور اصول فقہ کے کلاسوں میں شرکت کی۔ جیسے: آیت اللہ سید محسن حکیم، آیت اللہ شیخ محمد طاہر آل یاسین، آیت اللہ مرزا سید حسن البنجوردی، اور آیت اللہ سید محمد باقر الصدر اور آیت اللہ سید ابو القاسم خوئی۔ | اس کے بعد وائلی نے اپنی علمی تعلیم کو درس خارج کے مرحلے کے ساتھ مکمل کیا اور اس وقت کے فقہاء اور مجتہدین سے فقہ اور اصول فقہ کے کلاسوں میں شرکت کی۔ جیسے: آیت اللہ سید محسن حکیم، آیت اللہ شیخ محمد طاہر آل یاسین، آیت اللہ مرزا سید حسن البنجوردی، اور آیت اللہ سید محمد باقر الصدر اور آیت اللہ سید ابو القاسم خوئی۔ | ||
== | == ہجرت == | ||
وائلی | ستر کی دہائی کے آخر میں عراق میں حکومت کی وجہ سے پیدا ہونے والے مشکل سیاسی حالات کی وجہ سے شیخ وائلی 1979 میں شام کے دارالحکومت دمشق چلے گئے اور وہاں 24 سال تک مقیم رہے۔ آپ متعدد ممالک میں مجلس پڑھانے کے گئےجن میں مندرجہ ممالک ہیں: | ||
کویت، متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر، عمان، [[لبنان]اور برطانیہ۔ | |||
آپ پوسٹ گریجویٹ اور ڈاکٹریٹ کی تعلیم اور مزید اپنی علمی پیاس کو بجھانے کے لیے مصر گئے۔ | |||
آپ ساٹھ کی دہائی کے آخر میں شاہ کے دور حکومت میں صرف ایک بار [[ایران]] کا سفر کیا اور صرف تین رات ایران میں رہے۔ | |||
انہوں نے ستر کی دہائی کے اوائل میں صرف حج اور عمرہ کی بجاآوری کے لیے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ | |||
== ایواڑذ اور اعزازات == | |||
انہیں متعدد اداروں اور اعلیٰ حکام نے متعدد بار اعزاز سے نوازا، جیسے کہ قرآنی اسٹڈیز فاؤنڈیشن، لبنان کی سپریم اسلامک کونسل، [[حسین بن علی|الحسینی]] منبر مبلغین فاؤنڈیشن، اور [[جعفر بن محمد|امام صادق]] فاؤنڈیشن، قاہرہ، دمشق، بیروت میں، اور کویت، اور 1999 میں لندن میں مذہبی اتھارٹی کی نمائندگی، نجف الاشرف میں اعلیٰ ترین مذہبی ادارہ اور امام علی علیہ السلام فاؤنڈیشن۔ | |||
== قلمی آثار == | == قلمی آثار == | ||
مرحوم شیخ نے اپنے پیچھے ہزاروں سمعی، بصری اور تحریری لیکچرز اور مختلف موضوعات پر سماجی علوم چھوڑے۔ جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں: | |||
{{کالم کی فہرست|2}} | |||
* حياة الأنبياء (عليهم السلام) | |||
* حياة النبي الأكرم محمد (صلى الله عليه وآله) | |||
* سيرة أهل البيت (عليهم السلام) | |||
* سيرة الصحابة والتابعين (رضي الله عنهم) | |||
* سيرة شهداء الطف (رضوان الله عليهم) | |||
* رجالات الإسلام | |||
* شواهد من التأريخ الاسلامي | |||
* سلسلة المواعظ والعبر المنبرية | |||
* المرأة في الإسلام | |||
* السيدة زينب الكبرى (ع) | |||
* هویة التشیع | * هویة التشیع | ||
* نحو تفسیر علمی للقرآن الکریم | * نحو تفسیر علمی للقرآن الکریم | ||
سطر 39: | سطر 55: | ||
* أحکام السجون بین الشریعة والقانون | * أحکام السجون بین الشریعة والقانون | ||
* استغلال الأجیر وموقف الإسلام منه | * استغلال الأجیر وموقف الإسلام منه | ||
* دیوان اشعار<ref>[http://al-waeli.com/books/ الدکتور شیخ احمد الوائلی] al-waeli.com (عربی)-شائع شدہ:23اپریل 2002ء- اخذ شدہ: 10اپریل 2024ء</ref>۔ | * دیوان اشعار {{اختتام}}<ref>[http://al-waeli.com/books/ الدکتور شیخ احمد الوائلی] al-waeli.com (عربی)-شائع شدہ:23اپریل 2002ء- اخذ شدہ: 10اپریل 2024ء</ref>۔ | ||
== خطی آثار == | |||
== وفات == | * الأوليات عند الإمام علي بن أبي طالب (ع) | ||
آپ | * الخلفية الحضارية لمدينة النجف الأشرف | ||
* مباحث في تفسير القرآن الكريم | |||
* منتجع الغيث في الصحابة والأعلام من بني ليث | |||
* جمعيات حماية الحيوان في الشريعة الإسلامية | |||
* الأدب في عصوره الثلاثة | |||
* رسالة الشيخ الشبيبي في الأدب | |||
* مقدمة كتاب الألفين للشيخ العلامة الحلي | |||
* حجية ظواهر القرآن | |||
* الصحيح والأعم في علم الأصول | |||
* مفهوم البداء | |||
== بیماری اور وفات == | |||
وائلی عراق سے باہر نکلنے کے آخری عرصے میں نظام ہاضمہ کے کینسر میں مبتلا ہو گئے تھے، پھر آپ 4 جولائی 2003 کو بعث حکومت کے خاتمے کے بعد عراق واپس آئے۔ آپ صرف 10 دن تک بغداد میں رہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ملک اور اس کے دار الحکومت بغداد کے حالات سے متاثر ہوکر انتقال کر گئے جو کہ دنیا میں موجود تھا اور جمعۃ الوداع کی دوپہر کو مقدس شہر کاظمیں میں اپنے گھر میں 14جمادی الاول 1424ھ بمطابق 14 جولائی 2003ء۔ کو انتقال کرگئے اور کامل بن زیاد کے مزار کے پاس (نجف میں) دفن ہوئے۔ |
نسخہ بمطابق 11:13، 10 اپريل 2024ء
شیخ احمد وائلی عراق کے مشہور خطیب اور شاعر تھے جو اپنے وقت کے حالات کے مطابق تقریر کرتے تھے اور مسلمانوں کے اتحاد کے حامیوں اور مبلغین میں سے تھے۔
پیدائش
آپ کی ولادت 1342ھ میں نجف کے مقدس شہر میں ہوئی۔ان کے والد مصنف اور مبلغ شیخ حسون الوائلی (1892-1963) تھے جو 1950 اور 1960کی دہائیوں میں شہر نجف اور مشرقِ فرات کے عراقی شہروں میں ایک شاعر، مصنف، اور صاحب منبر اور مبلغ تھے۔
تعلیم
شیخ وائلی نے عراق کے شہر نجف میں پرورش پائی اور تعلیم حاصل کی، جو اسلامی علوم کے مراکز میں ایک ہے، چونکہ امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام نے اسے اپنے دارالحکومت کے طور پر منتخب کیا تھا۔ آج بھی یہ شہر اسلامی علوم کے اہم مراکز میں شمار ہوتا ہے۔وہاں ان کی پرورش نے ان کی زندگی پر سب سے زیادہ اثر ڈالا، کیونکہ آپ دینی اور مروجہ تعلیم دونوں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ آپ نے سرکاری سکولوں میں تعلیم جاری رکھی۔ اس کے بعد آپ نے مدرسے میں داخلہ لیا اور اسی وقت نجف فیکلٹی آف فقہ سے بیچلر کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جو بغداد یونیورسٹی سے منسلک تھی۔ شیخ احمد وائلی اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے بغداد چلے گئے اور انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک سائنسز سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی، پھر آپ قاہرہ چلے گئے جہاں انھوں نے اسلامی علوم میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
مروجہ تعلیم
آپ نے اپنی باضابطہ تعلیم کا آغاز نجف شہر کے امیر غازی پرائمری اسکول سے کیا، پھر ثانوی تعلیم منتدی النشر ہائی اسکول سے مکمل کی، وہاں سے 1952 میں گریجویشن کیا۔ اس کے بعد آپ نے اپنی یونیورسٹی کی تعلیم فقہ کالج (1957 میں قائم شدہ اور بغداد یونیورسٹی سے وابستہ) سے مکمل کی، جہاں سے انہوں نے 1962 میں عربی زبان اور اسلامی علوم میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔
اس کے بعد وائلی نے پوسٹ گریجویٹ تعلیم میں آگے بڑھنے کے لیے سخت محنت کی، اس لیے آپ عراقی دارالحکومت بغداد گئے، جہاں سے وہ عراق کی سب سے مشہور یونیورسٹیوں اور مادر یونیورسٹی، بغداد یونیورسٹی (جس کی پہلی بنیاد 1908 سے شروع ہوئی) میں تعلیم حاصل کی۔ جس میں انہوں نے 1968 میں انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز سے اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹر ڈگری حاصل کی تھی جس کا عنوان تھا (أحكام السجون بين الشريعة والقانون)شریعت اور قانون کے درمیان جیل کی دفعات پھر آپ نے فیصلہ کیا کہ عرب اور بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں سے ایک تعلیم حاصل کریں جس کے لیے آپ نے قاہرہ یونیورسٹی کا رخ کیا جو (1892 میں قائم ہوئی اور جامعہ الازہر کے بعد دوسری قدیم ترین عرب یونیورسٹی ہے، اور دنیا کی پہلی 500 یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے)۔ وہاں شیخ الولی نے علمی لحاظ سے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیکلٹی آف سائنس سے اسلامی علوم میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ دارالعلوم، قاہرہ یونیورسٹی سے 1972ء میں اپنے مقالے کے عنوان سے (مزدور کا استحصال اور اس پر اسلام کا موقف)۔ یہ ڈاکٹریٹ کی پہلی ڈگری ہے جو اپنے وقت میں نجف شہر اور جمہوریہ عراق کے پہلے منبر مبلغ کو دی گئی تھی۔ آپ اس سے بھی مطمئن نہیں تھے، اس لیے انھوں نے اپنی پوسٹ ڈاکٹریٹ سائنسی فروغ کی تحقیق مکمل کی، معاشیات کی تعلیم حاصل کی، اور 1975 میں انھوں نے اس میں اعلیٰ ڈپلومے حاصل کیے، جس میں مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے انسٹی ٹیوٹ آف عرب اسٹڈیز اینڈ ریسرچ سے ایک اعلیٰ ڈپلومہ بھی شامل ہے۔ جو (1952 میں قائم کیا گیا اور لیگ آف عرب اسٹیٹس سے وابستہ)۔
تدریس
انہیں اسلامی علوم اور اسلامی معاشیات کا پروفیسر مقرر کیا گیا اور انہوں نے لندن میں انٹرنیشنل یونیورسٹی آف اسلامک سائنسز (ICIS) (1987 میں قائم) میں قرآنی علوم اور اس کی تفسیر کے میدان میں یونیورسٹی کی تعلیمی تدریس کا آغاز کیا اور کئی گریجویشن ریسرچز، مقالہ جات، اور ڈاکٹریٹ کے مقالےکی نگرانی کی۔
دینی تعلیم
شیخ وائلی نے اسلامی اور علمی علوم کی تعلیم اس وقت حاصل کی جب انہوں نے قرآن کریم کے علوم کا مطالعہ شروع کیا اور اس کی آیات کو شہر نجف کے اساتذ کے پاس حفظ کرنا شروع کیا، جن میں ان کے استاد شیخ عبدالکریم قفطان بھی شامل تھے۔ پھر آپ نے عربی اور اسلامی علوم جیسے عربی زبان اور اس کے علوم، فقہ، عقائد، اخلاقیات اور کچھ خالص علوم کے مقدماتی مرحلے کی تعلیم حاصل کی۔اس مرحلے پر ان کے اساتذہ یہ تھے: شیخ علی ثامر، شیخ عبدالمہدی مطر، شیخ ہادی شریف القرشی، شیخ علی محمود سماکہ و۔۔۔
اس کے بعد آپ اصول فقہ، فقہ المقارن، فلسفہ اور منطق کی بنیادوں کے مطالعہ کے ساتھ اعلیٰ درجے کے مرحلے میں داخل ہوئے۔اس مرحلے پر ان کے اساتذہ میں سے: جناب علی مکی، محمد تقی الحکیم، شیخ علی کاشف الغطاء، شیخ محمد حسین مظفر، شیخ محمد رضا مظفر و۔۔۔ اس کے بعد وائلی نے اپنی علمی تعلیم کو درس خارج کے مرحلے کے ساتھ مکمل کیا اور اس وقت کے فقہاء اور مجتہدین سے فقہ اور اصول فقہ کے کلاسوں میں شرکت کی۔ جیسے: آیت اللہ سید محسن حکیم، آیت اللہ شیخ محمد طاہر آل یاسین، آیت اللہ مرزا سید حسن البنجوردی، اور آیت اللہ سید محمد باقر الصدر اور آیت اللہ سید ابو القاسم خوئی۔
ہجرت
ستر کی دہائی کے آخر میں عراق میں حکومت کی وجہ سے پیدا ہونے والے مشکل سیاسی حالات کی وجہ سے شیخ وائلی 1979 میں شام کے دارالحکومت دمشق چلے گئے اور وہاں 24 سال تک مقیم رہے۔ آپ متعدد ممالک میں مجلس پڑھانے کے گئےجن میں مندرجہ ممالک ہیں: کویت، متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر، عمان، [[لبنان]اور برطانیہ۔ آپ پوسٹ گریجویٹ اور ڈاکٹریٹ کی تعلیم اور مزید اپنی علمی پیاس کو بجھانے کے لیے مصر گئے۔ آپ ساٹھ کی دہائی کے آخر میں شاہ کے دور حکومت میں صرف ایک بار ایران کا سفر کیا اور صرف تین رات ایران میں رہے۔ انہوں نے ستر کی دہائی کے اوائل میں صرف حج اور عمرہ کی بجاآوری کے لیے سعودی عرب کا دورہ کیا۔
ایواڑذ اور اعزازات
انہیں متعدد اداروں اور اعلیٰ حکام نے متعدد بار اعزاز سے نوازا، جیسے کہ قرآنی اسٹڈیز فاؤنڈیشن، لبنان کی سپریم اسلامک کونسل، الحسینی منبر مبلغین فاؤنڈیشن، اور امام صادق فاؤنڈیشن، قاہرہ، دمشق، بیروت میں، اور کویت، اور 1999 میں لندن میں مذہبی اتھارٹی کی نمائندگی، نجف الاشرف میں اعلیٰ ترین مذہبی ادارہ اور امام علی علیہ السلام فاؤنڈیشن۔
قلمی آثار
مرحوم شیخ نے اپنے پیچھے ہزاروں سمعی، بصری اور تحریری لیکچرز اور مختلف موضوعات پر سماجی علوم چھوڑے۔ جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
- حياة الأنبياء (عليهم السلام)
- حياة النبي الأكرم محمد (صلى الله عليه وآله)
- سيرة أهل البيت (عليهم السلام)
- سيرة الصحابة والتابعين (رضي الله عنهم)
- سيرة شهداء الطف (رضوان الله عليهم)
- رجالات الإسلام
- شواهد من التأريخ الاسلامي
- سلسلة المواعظ والعبر المنبرية
- المرأة في الإسلام
- السيدة زينب الكبرى (ع)
- هویة التشیع
- نحو تفسیر علمی للقرآن الکریم
- دفاع عن الحقیقة
- المجالس الحسینیہ
- روائع محاضرات الوائلی
- ديوان الشعر الواله في النبي وآله
- محاضرات الوائلی
- الموسوعۂ المنبریۂ
- دفاع عن الحقيقة
- تجاربی من المنبر
- من فقه الجنس فی قنواته المذهبیة
- أحکام السجون بین الشریعة والقانون
- استغلال الأجیر وموقف الإسلام منه
- دیوان اشعار
[1]۔
خطی آثار
- الأوليات عند الإمام علي بن أبي طالب (ع)
- الخلفية الحضارية لمدينة النجف الأشرف
- مباحث في تفسير القرآن الكريم
- منتجع الغيث في الصحابة والأعلام من بني ليث
- جمعيات حماية الحيوان في الشريعة الإسلامية
- الأدب في عصوره الثلاثة
- رسالة الشيخ الشبيبي في الأدب
- مقدمة كتاب الألفين للشيخ العلامة الحلي
- حجية ظواهر القرآن
- الصحيح والأعم في علم الأصول
- مفهوم البداء
بیماری اور وفات
وائلی عراق سے باہر نکلنے کے آخری عرصے میں نظام ہاضمہ کے کینسر میں مبتلا ہو گئے تھے، پھر آپ 4 جولائی 2003 کو بعث حکومت کے خاتمے کے بعد عراق واپس آئے۔ آپ صرف 10 دن تک بغداد میں رہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ملک اور اس کے دار الحکومت بغداد کے حالات سے متاثر ہوکر انتقال کر گئے جو کہ دنیا میں موجود تھا اور جمعۃ الوداع کی دوپہر کو مقدس شہر کاظمیں میں اپنے گھر میں 14جمادی الاول 1424ھ بمطابق 14 جولائی 2003ء۔ کو انتقال کرگئے اور کامل بن زیاد کے مزار کے پاس (نجف میں) دفن ہوئے۔
- ↑ الدکتور شیخ احمد الوائلی al-waeli.com (عربی)-شائع شدہ:23اپریل 2002ء- اخذ شدہ: 10اپریل 2024ء