"اشرف علی تھانوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

 
(3 صارفین 29 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:
{{Infobox person
| title =  اشرف علی تھانوی
| image =
| name =  اشرف علی تھانوی
| other names = حکیم الامت
| brith year = 1280 ق
| brith date = 5 ربیع الاول
| birth place = ہندوستان
| death year = 1362 ق
| death date = 15 رجب
| death place = 
| teachers = آخون جی، حافظ حسین علی
| students = محمد رشید کانپوری، احمد علی فتحپوری
| religion = [[اسلام]]
| faith = [[سنی]]
| works = {{افقی باکس کی فہرست|تفسیر بیان القرآن|بہشتی زیور|اصلاح الرسوم|اشرف الجواب}}
| known for = {{افقی باکس کی فہرست |  خانقاہ امدادیہ| }}
}}
'''اشرف علی تھانوی''' کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جنھوں نے تحریک [[پاکستان]] میں نمایاں کردار ادا کیا اور ان کی تصنیفات کی تعداد1400 سے زائد ہے۔ ان ہی کے بارے میں قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ میرے پاس ایک ایسا عالم دین ہے کہ اگر اس کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور پورے ہندوستان کے بقیہ علماء کا علم دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو ان کا پلڑا بھاری ہو گا۔ آج ملک بھر کی امن کمیٹیاں اور علماء کرام مولانا اشرف علی تھا نوی کے اس سنہرے اصول اورخوبصورت امن فارمولے "اپنے مسلک کو چھوڑو نہیں اور دوسرے کے مسلک کو چھیڑو نہیں" پر عمل پیر ا ہیں۔
== پیدائش وطن اور خاندان ==
== پیدائش وطن اور خاندان ==
مولانا شاہ اشرف علی تھانوی کا وطن مالوف و مقام پیدائش تھانہ بھون ضلع مظفرنگر یوپی ہندوستان تھا ۔ آپ کا یوم ولادت چہار شنبہ 5 ربیع الاول 1280 ھجری ہے۔ قصبہ میں آپ کے آباؤ اجداد کا خاندان نہایت معزز وممتاز تھا ۔ آپ کے والد منشی عبدالحق بڑے صاحب وجاھت، صاحب منصب اور صاحب جائیداد رئیس تھے اور بڑے اہل دل بزرگ بھی تھے اور آپ حکیم الامت سے معروف تھا <ref>سیف الرحمن، مولانا اشرف علی تھانوی کی علمی خدمات، ص1</ref>۔
مولانا شاہ اشرف علی تھانوی کا وطن مالوف و مقام پیدائش تھانہ بھون ضلع مظفرنگر یوپی ہندوستان تھا ۔ آپ کا یوم ولادت بڈھ 5 ربیع الاول 1280 ھجری ہے۔ قصبہ میں آپ کے آباؤ اجداد کا خاندان نہایت معزز وممتاز تھا ۔ آپ کے والد منشی عبدالحق بڑے صاحب وجاھت، صاحب منصب اور صاحب جائیداد رئیس تھے اور بڑے اہل دل بزرگ بھی تھے اور آپ حکیم الامت کے نام  سے معروف تھے <ref>سیف الرحمن، مولانا اشرف علی تھانوی کی علمی خدمات، ص1</ref>۔
اور ۱۵/ رجب ۱۳۶۲ھ مطابق ۳۰/ جولائی ۱۹۴۳ء میں وفات پائی۔ ان کی قبر شریف تھانہ بھون (ضلع مظفرنگر، یوپی، ہند) میں ایک کنارے ان کے ذاتی باغ میں ہے <ref>[https://darulifta-deoband.com/home/ur/history-biography/8105 darulifta-deoband.com]
اور ۱۵/ رجب ۱۳۶۲ھ مطابق ۳۰/ جولائی ۱۹۴۳ء میں وفات پائی۔ ان کی قبر شریف تھانہ بھون (ضلع مظفرنگر، یوپی، ہند) میں ایک کنارے ان کے ذاتی باغ میں ہے <ref>[https://darulifta-deoband.com/home/ur/history-biography/8105 darulifta-deoband.com]
</ref>۔
</ref>۔
سطر 6: سطر 25:
تھانوی نسباً فاروقی، مذھباً حنفی تھے اور مسلکاً سلسلہ امدادیہ صابریہ چشتیہ سے وابستہ ہوکر منصب خلافت و رشد وہدایت پر فائز ہوئے۔ آپ کا بچپن وطن میں ہی گزرا اور آپ کی تعلیم کا آغاز [[قرآن|قرآن کریم]] کی تعلیم سے ہوا۔ ابتدائی چند پارے تو کھتولی ضلع میرٹھ کے رہنے والے آخون جی سے پڑھے اس کے بعد میرٹھ کے رہنے والے حافظ حسین علی سے میرٹھ میں ہی پورا قرآن کریم حفظ کیا<ref>سیف الرحمن، مولانا اشرف علی تھانوی کی علمی خدمات، ص16</ref>۔  
تھانوی نسباً فاروقی، مذھباً حنفی تھے اور مسلکاً سلسلہ امدادیہ صابریہ چشتیہ سے وابستہ ہوکر منصب خلافت و رشد وہدایت پر فائز ہوئے۔ آپ کا بچپن وطن میں ہی گزرا اور آپ کی تعلیم کا آغاز [[قرآن|قرآن کریم]] کی تعلیم سے ہوا۔ ابتدائی چند پارے تو کھتولی ضلع میرٹھ کے رہنے والے آخون جی سے پڑھے اس کے بعد میرٹھ کے رہنے والے حافظ حسین علی سے میرٹھ میں ہی پورا قرآن کریم حفظ کیا<ref>سیف الرحمن، مولانا اشرف علی تھانوی کی علمی خدمات، ص16</ref>۔  


اس کے بعد فارسی کی ابتدائی کتب بھی میرٹھ میں مختلف استادوں سے پڑھیں اس کے بعد آپ نے دار العلوم دیوبند میں داخلہ لے لیا جہاں فارسی کی انتہائی کتب پنج رقعہ، قصائد عرفی اور سکندر نامہ وغیرہ مولانا منفعت علی دیوبندی سے پڑھ کر فارسی کی تکمیل کی اور عربی کتب مشکوۂ شریف، مختصر المعانی، نور الانوار اور ملا حسن وغیرہ سے باقاعدہ تعلیم شروع کی۔ پھر پانچ سال تک دارالعلوم دیوبند میں زیر تعلیم حاصل کی۔ اور علوم دینیہ کی تکمیل کے لئے ایک ہزار دو سو پچانوے ہجری میں [[دارالعلوم دیوبند]] میں تشریف لے گئے اور جید علماء اور مدرسین سے فیضان علوم حاصل کرکے ایک ہزار تین سو ایک ہجری میں فارغ التحصیل ہوئے ۔ گویا اُدھر چودھویں صدی کا آغاز ہورہا تھا اور اِدھر احیاء وتجدید دین مبین کے لئے یہ مجدد العصر تیار ہورہا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فضل عظیم تھا کہ آپ کو مدرسہ دارالعلوم دیوبند ایسی شہرہ آفاق اور مستند درس گاہ میں تحصیل علوم اور تکمیل درسیات کا موقع نصیب ہوا جہاں خوش قسمتی سے اُس وقت بڑے منتخب اور یگانہ عصر وجامع کمالات وصفات اہل اللہ اور اساتذہ کا مجمع تھا جن کے فیوض و برکات علمی وایمانی کا آج بھی عالم اسلام معترف ہے ۔ ان میں سے اکثر حضرات حاجی امداد اللہ شاہ مہاجر مکی کے سلسلہ سے وابستہ اور بعد انکے خلفائے راشدین میں تھے  ایسے نورانی ماحول میں اور اُن حضرات کے فیض صحبت سے آپ کی باطنی صلاحیت واستعداد بھی تربیت پذیر ہوتی رہی ۔
اس کے بعد فارسی کی ابتدائی کتب بھی میرٹھ میں مختلف استادوں سے پڑھیں۔ اس کے بعد آپ نے دار العلوم دیوبند میں داخلہ لے لیا جہاں فارسی کی انتہائی اہم  کتب پنج رقعہ، قصائد عرفی اور سکندر نامہ وغیرہ مولانا منفعت علی دیوبندی سے پڑھ کر فارسی کی تکمیل کی اور عربی کتب مشکوۂ شریف، مختصر المعانی، نور الانوار اور ملا حسن وغیرہ سے باقاعدہ تعلیم شروع کی۔ پھر پانچ سال تک دارالعلوم دیوبند میں زیر تعلیم رہے۔ اور علوم دینیہ کی تکمیل کے لئے 1295 ہجری میں [[دارالعلوم دیوبند]] میں تشریف لے گئے اور جید علماء اور مدرسین سے فیضان علوم حاصل کرکے ایک ہزار تین سو ایک ہجری میں فارغ التحصیل ہوئے ۔ گویا اُدھر چودھویں صدی کا آغاز ہورہا تھا اور اِدھر احیاء وتجدید دین مبین کے لئے یہ مجدد العصر تیار ہورہا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فضل عظیم تھا کہ آپ کو مدرسہ دارالعلوم دیوبند ایسی شہرہ آفاق اور مستند درس گاہ میں تحصیل علوم اور تکمیل درسیات کا موقع نصیب ہوا جہاں خوش قسمتی سے اُس وقت بڑے منتخب اور یگانہ عصر وجامع کمالات وصفات اہل اللہ اور اساتذہ کا مجمع تھا جن کے فیوض و برکات علمی وایمانی کا آج بھی عالم اسلام معترف ہے ۔ ان میں سے اکثر حضرات حاجی امداد اللہ شاہ مہاجر مکی کے سلسلہ سے وابستہ اور بعد انکے خلفائے راشدین میں تھے  ایسے نورانی ماحول میں اور اُن حضرات کے فیض صحبت سے آپ کی باطنی صلاحیت واستعداد بھی تربیت پذیر ہوتی رہی ۔
== روحانی تربیت ==
== روحانی تربیت ==
زمانہ طالب علمی میں ہی آپ کا رحجان روحانیت اور تصوف کی طرف ہو گیا تھا اور تصوف کی کتابوں کا مطالعہ شروع کردیا تھا۔ آپ کا ذکر و فکر، مساوات حسنہ اور اخلاق عالیہ دیکھ کر آپ کے لیے کسی خاص مربی کی ضرورت پیش نہ آئی بلکہ آپ کی خداداد فطری صلاحیتیں خود بخود آپ کی تربیت کر رہی تھیں حکیم الامت تھانوی نے 12 سال کی عمر ہی سے رات کو اٹھ کر تہجد پڑھنے کا معمول بنایا تھا <ref>مولانا خلیل احمد تھانوی، ایام زندگانی سیدنا اشرف در آیات قرآنی، بیاد حکیم الامۂ مولانا اشرف علی تھانوی، ص22</ref>۔
زمانہ طالب علمی میں ہی آپ کا رحجان روحانیت اور تصوف کی طرف ہو گیا تھا اور تصوف کی کتابوں کا مطالعہ شروع کردیا تھا۔ آپ کا ذکر و فکر، مساوات حسنہ اور اخلاق عالیہ دیکھ کر آپ کے لیے کسی خاص مربی کی ضرورت پیش نہ آئی بلکہ آپ کی خداداد فطری صلاحیتیں خود بخود آپ کی تربیت کر رہی تھیں حکیم الامت تھانوی نے 12 سال کی عمر ہی سے رات کو اٹھ کر تہجد پڑھنے کا معمول بنایا تھا <ref>مولانا خلیل احمد تھانوی، ایام زندگانی سیدنا اشرف در آیات قرآنی، بیاد حکیم الامۂ مولانا اشرف علی تھانوی، ص22</ref>۔
سطر 16: سطر 35:
یہ سن کر مولانا کو جوش آگیا اور فرمایا تمہارا یہ خیال بالکل غلط ہے یہاں چونکہ تمہارے اساتذہ موجود ہیں انکے سامنے تمہیں اپنی ہستی کچھ نظر نہیں آتی اور ایسا ہی ہونا چاہئے ۔ باہر جاؤ گے تب تمہیں اپنی قدر معلوم ہوگی۔
یہ سن کر مولانا کو جوش آگیا اور فرمایا تمہارا یہ خیال بالکل غلط ہے یہاں چونکہ تمہارے اساتذہ موجود ہیں انکے سامنے تمہیں اپنی ہستی کچھ نظر نہیں آتی اور ایسا ہی ہونا چاہئے ۔ باہر جاؤ گے تب تمہیں اپنی قدر معلوم ہوگی۔
خدا کی قسم جہاں جاؤ گے تم ہی تم ہوگے ۔ باقی سارا میدان صاف ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
خدا کی قسم جہاں جاؤ گے تم ہی تم ہوگے ۔ باقی سارا میدان صاف ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
== تحریک آزادی ==
مولانا اشرف علی تھانوی کا شمار ان ممتاز ہستیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا اور ان کی تصنیفات کی تعداد1400 سے زائد ہے۔ان ہی کے بارے میں قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ میرے پاس ایک ایسا عالم دین ہے کہ اگر اس کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور پورے ہندوستان کے بقیہ علماء کا علم دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو ان کا پلڑا بھاری ہو گا اور وہ ہیں مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ۔آج ملک بھر کی امن کمیٹیاں اور علماء کرام حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھا نوی ؒ کے اس سنہرے اصول اورخوبصورت امن فارمولے "اپنے مسلک کو چھوڑو نہیں اور دوسرے کے مسلک کو چھیڑو نہیں "  پر عمل پیر ا ہیں۔
تھانوی تو قیام پاکستان سے بھی پہلے اس ضرورت کی طرف علماء کو متوجہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا:”ہوا کا رخ بتا رہا ہے کہ [[پاکستان مسلم لیگ|مسلم لیگ]] والے کامیاب ہو جائیں گے اور بھائی جو سلطنت ملے گی وہ انہی لوگوں کو ملے گی۔ لہٰذا ہم کو یہ کوشش کرنا چاہیے کہ یہی لوگ دیندار ہو جائیں۔“قیامِ پاکستان میں مولانا اشرف علی تھانوی کی دعائیں کوششیں اور ان کے خلفاء و رفقاء کا بنیادی کردار ہے اسی وجہ سے مولانا اشرف علی تھانوی کے حکم پر بانی جامعہ اشرفیہ لاہور مفتی محمد حسن نے شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد عثمانی،مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع اور دیگر علمائے دیوبند کے ہمراہ تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا اور کئی جگہ مسلم لیگ کے امیدواروں کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کیا جس کے نتیجہ میں پاکستان بننے کے بعد مشرقی و مغربی پاکستان پر آزادی کا پرچم لہرانے کی سعادت ”بزم اشرف“ کے روشن چراغ اور دارالعلوم دیوبند کے قابل فخر سپوت حضرت مولانا علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اور مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کو حاصل ہوئی <ref>مولانا مجیب الرحمن انقلابی، مولانا اشرف علی تھانوی ؒایک ہمہ جہت شخصیت، [https://dailypakistan.com.pk/16-Jul-2021/1316544 dailypakistan.com.pk]</ref>۔
== تحریک خلافت اور مولانا اشرف علی تھانوی ==
== تحریک خلافت اور مولانا اشرف علی تھانوی ==
مسلمانان برصغیر نے اپنی تاریخ میں کبھی بین المللی رشتۂ اخوت کی عالمگیر حقیقت کو اتنی اہمیت دی ہو جتنی تحریک خلافت کے دوران دی۔ جنگ عظیم اول کے بعد ہندوستانی سیاست میں شدید طوفان آیا جس میں بیرونی سیاست کی موجیں بھی مل گ‏ئیں۔ خلافت کے مس‏ئلے نے ہر ہندوستانی مسلمان کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ تحریک خلافت کے دوران میں تحریک کے مقاصد کے حصول کے لیے جو طریق کار اختیار کیے گئے اور اس تحریک پر گاندھی کے چھا جانے کے سبب مولانا اشرف علی تھانوی نے قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی مانند تحریک سے علیحدگی اختیار کی۔ مولانا تھانوی کو تحریک کے اغراض و مقاصد سے قطعا کوئی اختلاف نہیں تھا۔ آپ نے خلافت کو اجتماعی مسئلہ بتلایا جس سے اختلاف ممکن نہیں۔ مولانا تھانوی کو تحریک خلافت، ملت اسلامیہ کے تحفظ مقامات مقدسہ کے تحفظ اور امداد سے کوئی اختلاف نہ تھا۔ اختلاف صرف طریق کار سے تھا چنانچہ اسی بنا پر آپ نے تحریک خلافت میں شرکت نہیں کی <ref>پروفیسر احمد سعید، مولانا اشرف علی تھانوی اور تحریک آزادی، ص22-25</ref>۔
مسلمانان برصغیر نے اپنی تاریخ میں کبھی بین المللی رشتۂ اخوت کی عالمگیر حقیقت کو اتنی اہمیت دی ہو جتنی تحریک خلافت کے دوران دی۔ جنگ عظیم اول کے بعد ہندوستانی سیاست میں شدید طوفان آیا جس میں بیرونی سیاست کی موجیں بھی مل گ‏ئیں۔ خلافت کے مس‏ئلے نے ہر ہندوستانی مسلمان کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ تحریک خلافت کے دوران میں تحریک کے مقاصد کے حصول کے لیے جو طریق کار اختیار کیے گئے اور اس تحریک پر گاندھی کے چھا جانے کے سبب مولانا اشرف علی تھانوی نے قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی مانند تحریک سے علیحدگی اختیار کی۔ مولانا تھانوی کو تحریک کے اغراض و مقاصد سے قطعا کوئی اختلاف نہیں تھا۔ آپ نے خلافت کو اجتماعی مسئلہ بتلایا جس سے اختلاف ممکن نہیں۔ مولانا تھانوی کو تحریک خلافت، ملت اسلامیہ کے تحفظ مقامات مقدسہ کے تحفظ اور امداد سے کوئی اختلاف نہ تھا۔ اختلاف صرف طریق کار سے تھا چنانچہ اسی بنا پر آپ نے تحریک خلافت میں شرکت نہیں کی <ref>پروفیسر احمد سعید، مولانا اشرف علی تھانوی اور تحریک آزادی، ص22-25</ref>۔
سطر 27: سطر 51:
بالآخر ہر صورت سے مطمئن ہوکر اور اپنے ذوق و مسلک سے تمام تر ہم آہنگی کے آثار نمایاں دیکھ کر اپنا جانشین بنا لیا۔ اور باذن اللہ تعالیٰ خلعت خلافت اور منصب ارشاد و ہدایت سے سرفراز فرمایا اور خلق اللہ کی رہنمائی کے لئے تعلیم و تلقین کی اجازت مرحمت فرمائی ۔ جب حضرت کا وہاں سے واپسی کا وقت آیا تو بکمال محبت و شفقت گلے لگا کر فرمایا: میاں اشرف علی! میں دیکھتا ہوں کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے تم کو تمام معاصرین پر خاص فضیلت عطا فرمائی ذالک فضل اللہ ۔
بالآخر ہر صورت سے مطمئن ہوکر اور اپنے ذوق و مسلک سے تمام تر ہم آہنگی کے آثار نمایاں دیکھ کر اپنا جانشین بنا لیا۔ اور باذن اللہ تعالیٰ خلعت خلافت اور منصب ارشاد و ہدایت سے سرفراز فرمایا اور خلق اللہ کی رہنمائی کے لئے تعلیم و تلقین کی اجازت مرحمت فرمائی ۔ جب حضرت کا وہاں سے واپسی کا وقت آیا تو بکمال محبت و شفقت گلے لگا کر فرمایا: میاں اشرف علی! میں دیکھتا ہوں کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے تم کو تمام معاصرین پر خاص فضیلت عطا فرمائی ذالک فضل اللہ ۔
پھر ان دو وصیتوں کے ساتھ رخصت فرمایا:دیکھو! وطن پہنچ کر تم کو باطنی کیفیات میں ایک حالت پیش آئے گی ۔ گھبرانا نہیں ۔ مجھ کو مطلع کرتے رہنا ۔ دوسرا یہ کہ جب مدرسہ کی ملازمت سے دلبرداشتہ ہو تو پھر وطن پہنچ کر ہماری خانقاہ اور مدرسہ میں توکلاً علی اللہ مقیم ہوجانا، تم سے ان شاء اللہ تعالیٰ خلق کثیر کو نفع پہنچے گا <ref>غلام محمد، سوانح عمری، حیات اشرف، ص51</ref>۔
پھر ان دو وصیتوں کے ساتھ رخصت فرمایا:دیکھو! وطن پہنچ کر تم کو باطنی کیفیات میں ایک حالت پیش آئے گی ۔ گھبرانا نہیں ۔ مجھ کو مطلع کرتے رہنا ۔ دوسرا یہ کہ جب مدرسہ کی ملازمت سے دلبرداشتہ ہو تو پھر وطن پہنچ کر ہماری خانقاہ اور مدرسہ میں توکلاً علی اللہ مقیم ہوجانا، تم سے ان شاء اللہ تعالیٰ خلق کثیر کو نفع پہنچے گا <ref>غلام محمد، سوانح عمری، حیات اشرف، ص51</ref>۔
== تبلیغ، وعظ اور تصنیف و تالیف ==  
== تالیف و تصنیف ==
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کے علمی و دینی فیوض و برکات مختلف النوع ہیں کہ ان سب کا احاطہ ممکن نہیں ہے <ref>غلام محمد، حیات اشرف، ص 112</ref>۔
ان کی علمی اور دینی تصانیف کی تفصیل یہ ہے:
=== قرآن ===
* تجوید و قرآئت و متعلقات قرآنی دس تصانیف۔
* ترجمہ و تفسیر قرآن
* سلیس و بامحاورہ ترجمۂ قرآن کریم
* تفسیر بیان القرآن
* اصلاح ترجمہ دہلویہ
* اصلاح ترجمہ حیرت
* خواص فرقانی وغیرہ
 
=== علوم القرآن ===
* سبق الغایات فی نسخ الآیات
* اشرف البیان لما فی علوم الحدیث و القرآن
* دلائل القرآن علی مسائل النعمان وغیرہ
 
=== علم الحدیث ===
* حقیقۂ الطریقۂ
* التشرف
* جامع آلاثار
* تابع آلاثار
* احیا السنن
* الاستدارک الحسن وغیرہ۔
 
=== علوم الفقہ ===
* حوادث الفتاوی
* بہشتی زیور
* ترجیح الراحج
* فتاوی اشرفیہ
* بہشتی گوہر۔
 
=== علم الکلام ===
* المصالح العقلیہ
* الانتبھات المفیدۂ
* اشرف الجواب
 
=== علم سلوک و تصوف ===
* قصد السبیل
* مسا‏ئل السلوک من کلام ملک الملوک
* تائید الحقیقۂ بالآیات العتیفۂ
* التکشف عن مہمات التصوف
* کلید مثنوی
* عرفان حافظ
* تربیت السالک وغیرہ۔
 
=== اصلاحیات ===
* اصلاح الرسوم
* اصلاح الامت
* اصلاح انقلاب امت
* حیاۂ المسلمین <ref>محمد اکرم کاشمیری، حکیم الامۂ مولانا اشرف علی تھانوی، ص118-121</ref>۔
 
== تبلیغ اور وعظ  ==  
آپ نے خانقاہ میں مقیم ہوکر شروع ہی سے اپنی آئندہ زندگی کے انضباط اور اہم خدمات دین کے انصرام کے لئے اپنے مذاق فطری اور نصب العین کے موافق ایک لائحہ عمل مقرر فرمایا اور اسی کے مطابق اپنے پیش نظر کام سرانجام دینے میں مشغول ہوگئے ۔ اس وقت آپکی عمر تخمیناً 35 سال تھی ۔ اس کے بعد یہ مجدد وقت اپنی مسند رشد وہدایت پر ایک نسخہ اکسیر اصلاح امت لے کر بیٹھا ۔
آپ نے خانقاہ میں مقیم ہوکر شروع ہی سے اپنی آئندہ زندگی کے انضباط اور اہم خدمات دین کے انصرام کے لئے اپنے مذاق فطری اور نصب العین کے موافق ایک لائحہ عمل مقرر فرمایا اور اسی کے مطابق اپنے پیش نظر کام سرانجام دینے میں مشغول ہوگئے ۔ اس وقت آپکی عمر تخمیناً 35 سال تھی ۔ اس کے بعد یہ مجدد وقت اپنی مسند رشد وہدایت پر ایک نسخہ اکسیر اصلاح امت لے کر بیٹھا ۔
خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون میں توکلاً علی اللہ قیام پذیر ہونے کے بعد آپ کی ساری زندگی تقریباً نصف صدی سے زائد تک تصنیف و تالیف میں اور مواعظ و ملفوظات ہی میں بسر ہوئی۔ ملک اور بیرون ملک ہزاروں طالبین حق وسالکین طریق تعلیم و تربیت باطنی اور تزکیہ نفس سے فیض یاب اور بہرہ اندوز ہو کر بحمداللہ تعالیٰ امت مسلمہ کے رہبر و مرشد بن گئے جن کا فیضان روحانی اب تک جاری و ساری ہے ۔
خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون میں توکلاً علی اللہ قیام پذیر ہونے کے بعد آپ کی ساری زندگی تقریباً نصف صدی سے زائد تک تصنیف و تالیف میں اور مواعظ و ملفوظات ہی میں بسر ہوئی۔ ملک اور بیرون ملک ہزاروں طالبین حق وسالکین طریق تعلیم و تربیت باطنی اور تزکیہ نفس سے فیض یاب اور بہرہ اندوز ہو کر بحمداللہ تعالیٰ امت مسلمہ کے رہبر و مرشد بن گئے جن کا فیضان روحانی اب تک جاری و ساری ہے ۔


اسی زمانہ میں تقریباً چالیس سال تک حضرت کا ملک کے طول و عرض میں بڑی کثرت سے تبلیغی دوروں کا سلسلہ جاری رہا ۔ بڑے بڑے شہروں میں مشہور دینی درسگاہوں انگریزی تعلیم گاہوں اور اسلامی انجمنوں کے شاندار جلسوں میں بار بار حضرت کے کثرت سے بڑے انقلاب انگیز اصلاحی وعظ ہوئے ۔ بعض وقت وعظ کا یہ سلسلہ چار چار گھنٹوں تک جاری رہتا ہزاروں کی تعداد میں لوگ والہانہ انداز میں جمع ہوتے تھے اور دینی ودنیوی تقاضوں سے آگاہ ہو کر ایمانی تقویت حاصل کرتے ۔
اسی زمانہ میں تقریباً چالیس سال تک حضرت کا ملک کے طول و عرض میں بڑی کثرت سے تبلیغی دوروں کا سلسلہ جاری رہا ۔ بڑے بڑے شہروں میں مشہور دینی درسگاہوں انگریزی تعلیم گاہوں اور اسلامی انجمنوں کے شاندار جلسوں میں بار بار آپ کے کثرت سے بڑے انقلاب انگیز اصلاحی وعظ ہوئے ۔ بعض وقت وعظ کا یہ سلسلہ چار چار گھنٹوں تک جاری رہتا ہزاروں کی تعداد میں لوگ والہانہ انداز میں جمع ہوتے تھے اور دینی ودنیوی تقاضوں سے آگاہ ہو کر ایمانی تقویت حاصل کرتے <ref>سیف الرحمن، مولانا اشرف علی تھانوی کی علمی خدمات، ص316</ref>۔
 
== ہمہ گیر مصلحانہ تبلیغ کے اثرات ==
اس ہمہ گیر مصلحانہ تبلیغ کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں میں دینی شعور اور اسلامی شعائر کی طرف رجحان پیدا ہونے لگا ۔ ہر طبقہ کے اکثر وبیشتر انگریزی تعلیم یافتہ لوگ خصوصاً بڑے بڑے سرکاری محکموں کے وکیل، بیرسٹر، جج، منصف، مجسٹریٹ کثرت سے آپ  کی تعلیمات سے متاثر ہوئے اور بعض تو حلقہ بگوش عقیدت ہوگئے اور بعض کی باطنی تعلیم و تربیت سے دینی حالت میں ایسی تبدیلی پیدا ہوگئی تھی کہ آپ نے اُنکو اپنے خلفائےمجازین صحبت میں شامل فرمایا تھا۔ اس طرح تھانوی نے اس دور میں ایسی زندہ مثال قائم فرمادی کہ [[مسلمان]] خواہ کسی بھی مسئلہ زندگی میں ہو اگر وہ چاہے تو پکا دیندار بن سکتا ہے ۔ یہ ان کی ایسی کرامت اور ایسا کارنامہ تبلیغ دین ہے جو ہر اعتبار سے انفرادیت کا درجہ رکھتا ہے <ref>حکیم محمود و احمد ظفر، چودھوین صدی کا مصلح اعظم، بیاد حکیم الامۂ مولانا اشرف علی تھانوی ص289</ref>۔
 
== تصوف میں آنے والی بدعات کا قلع قمع ==
دوسری اہم چیز جو اشرف تھانوی کے دل و دماغ میں کاوش و اضطراب پیدا کررہی تھی وہ دورحاضر کی خانقاہی فقیری و درویشی کی ہیئت تھی۔ جہاں کتاب و سنت سے بالکل بے گانہ اور بے نیاز ہو کر چند جوگیانہ رسوم اور طریقہ نفس کشی ہی کو واصل حق ہونے کا ذریعہ اور چند ہی ملحدانہ عقائد کو حاصل تصوف و سلوگ سمجھ لیا گیا تھا۔ یہ ایک عالمگیر فتنہ تھا جس میں اکثر دینی رجحان رکھنے والے نادان عوام بھی مبتلا ہورہے تھے الا ماشاء اللہ ۔ آپ نے اپنی تمام مصلحانہ توجہ اور مجددانہ تبلیغ کی جد و جہد اسی طبقہ کے لئے بھی خاص طور پر مبذول فرمائی اور اس موضوع پر عقائد و اعمال کی اصلاح کے لئے متعدد کتابیں بھی تصنیف و تالیف فرمائیں ۔ سینکڑوں مواعظ و ملفوظات قلمبند کروا کر شائع فرمائے ۔ اور [[قرآن]] و [[حدیث]] کی غیر متزلزل سند کے ساتھ تمام باطل عقائد کا رد اور تمام غیر اسلامی رسم و روایات اور غیر معقول اور ملحدانہ رموز واسرار باطنی اور گمراہ کن اصلاحات کی تردید فرمائی اور نہایت نمایاں طور پر واضح کردیا کہ طریقت یعنی تصوف و سلوک یا دوسرے الفاظ میں تہذیب اخلاق وتزکیہ نفس دین مبین کا ایک اہم رکن ہے اور اس پر شریعت وسنت کے مطابق عمل کرنا ایک درجہ میں ہر مسلمان پر فرض وواجب ہے <ref>مولانا اشرف علی تھانوی کا تعارف،[https://kitabfarosh.com/%D9%85%D9%88%D9%84%D8%A7%D9%86%D8%A7-%D8%A7%D8%B4%D8%B1%D9%81-%D8%B9%D9%84%DB%8C-%D8%AA%DA%BE%D8%A7%D9%86%D9%88%DB%8C%D8%92-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D8%B9%D8%A7%D8%B1%D9%81/ kitabfarosh.com]</ref>۔


== حوالہ جات==  
== حوالہ جات==  
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
{{ہندوستانی علماء}}
[[زمرہ:شخصیات]]
[[زمرہ:شخصیات]]
[[زمرہ:ہندوستان]]
[[زمرہ:ہندوستان]]