"مجلس وحدت المسلمین پاکستان" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
ٹیگ: بصری ترمیم موبائل ترمیم موبائل ویب ترمیم
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
ٹیگ: بصری ترمیم موبائل ترمیم موبائل ویب ترمیم
سطر 10: سطر 10:
'''مجلس وحدت المسلمین پاکستان''' (MWM [[پاکستان]] میں ایک [[شیعہ]] مذہبی و سیاسی تنظیم ہے۔ راجہ ناصر عباس جعفری اس کے موجودہ سیکرٹری جنرل ہیں۔ پاکستان کے چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاوہ دنیا کے کئی ملکوں میں اس تنظیم کی شاخیں قائم ہیں۔اس وقت یہ تنظیم سیاسی، اجتماعی اور ثقافتی طور پر فعال ہے اور 2013ء کے عام انتخابات میں شرکت کرکے بلوچستان سے صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ جیت چکی ہے اور 2024ء عام انتخابات میں بھی شرکت کرکے قومی اسمبلی میں دو سٹیں حاصل کرلی ہے۔  [[طاهر القادری|طاہر القادری]] کے لانگ مارچ میں اس تنظیم  نے ساتھ دیا تھا۔ وحدت المسلمین شیعہ سنی اتحاد کی داعی ہے۔ یہ تنظیم، پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کے مظلوموں کے حق میں ہمیشہ آواز اٹھاتی رہتی ہے۔ سیاسی میدان میں یہ تنظیم نے شیعہ ووٹ بنک کو اپنی طرف متوجہ کر چکی ہے جس کی واضح مثال گلگت بلتستان کے الیکشن ہیں جس میں مجلس کا ووٹ بنک تیسرے نمبر پر آیا ہے اور اس نے دو سیٹیں جیتیں جو پاکستان [[پاکستان پیپلز پارٹی|پیپلز پارٹی]] اور [[پاکستان تحریک انصاف|تحریک انصاف]] سے زیادہ ہے جو صرف ایک ایک سیٹ جیت سکیں جبکہ [[پاکستان مسلم لیگ نواز|پاکستان مسلم لیگ (ن)]] اور اسلامی تحریک پاکستان گلگت بلتستان الیکشن میں بالترتیب پہلی اور دوسری پوزیشن میں رہیں۔مجلس کشمیر اور [[فلسطین]] کے لیے واضح موقف رکھتی ہے اور آزادی ہی اس کا حل ہے اسی وجہ سے تنظیم واضح طور پر ہندوستان اور [[اسرائیل]] مخالف ہے۔
'''مجلس وحدت المسلمین پاکستان''' (MWM [[پاکستان]] میں ایک [[شیعہ]] مذہبی و سیاسی تنظیم ہے۔ راجہ ناصر عباس جعفری اس کے موجودہ سیکرٹری جنرل ہیں۔ پاکستان کے چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاوہ دنیا کے کئی ملکوں میں اس تنظیم کی شاخیں قائم ہیں۔اس وقت یہ تنظیم سیاسی، اجتماعی اور ثقافتی طور پر فعال ہے اور 2013ء کے عام انتخابات میں شرکت کرکے بلوچستان سے صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ جیت چکی ہے اور 2024ء عام انتخابات میں بھی شرکت کرکے قومی اسمبلی میں دو سٹیں حاصل کرلی ہے۔  [[طاهر القادری|طاہر القادری]] کے لانگ مارچ میں اس تنظیم  نے ساتھ دیا تھا۔ وحدت المسلمین شیعہ سنی اتحاد کی داعی ہے۔ یہ تنظیم، پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کے مظلوموں کے حق میں ہمیشہ آواز اٹھاتی رہتی ہے۔ سیاسی میدان میں یہ تنظیم نے شیعہ ووٹ بنک کو اپنی طرف متوجہ کر چکی ہے جس کی واضح مثال گلگت بلتستان کے الیکشن ہیں جس میں مجلس کا ووٹ بنک تیسرے نمبر پر آیا ہے اور اس نے دو سیٹیں جیتیں جو پاکستان [[پاکستان پیپلز پارٹی|پیپلز پارٹی]] اور [[پاکستان تحریک انصاف|تحریک انصاف]] سے زیادہ ہے جو صرف ایک ایک سیٹ جیت سکیں جبکہ [[پاکستان مسلم لیگ نواز|پاکستان مسلم لیگ (ن)]] اور اسلامی تحریک پاکستان گلگت بلتستان الیکشن میں بالترتیب پہلی اور دوسری پوزیشن میں رہیں۔مجلس کشمیر اور [[فلسطین]] کے لیے واضح موقف رکھتی ہے اور آزادی ہی اس کا حل ہے اسی وجہ سے تنظیم واضح طور پر ہندوستان اور [[اسرائیل]] مخالف ہے۔
== تاریخی پس منظر ==
== تاریخی پس منظر ==
یہ تنظیم اگست 2009ء میں وجود میں آئی۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد پاکستان میں شیعہ حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے ساتھ  شیعہ [[اہل السنۃ والجماعت|سنی]] اتحاد کے لیے کام کرنا تھا۔ اسی لیے  اس تنظیم نے ہر دہشت گردی کے واقع کی کھل کر مذمت کرتی ہے اور قاتلوں اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے حکومت وقت پر ہمیشہ زور دیتی ہے وہ چاہے احتجاج ہو یا دھرنے۔تنظیمی سیٹ اپ میں اس کا سیکرٹری جنرل ہی تنظیم کو چلاتا ہے اور اس کے نیچے دو ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہوتے ہیں <ref>سائٹ، مجلس وحدت المسلمین، [http://www.mwmpak.org/2015-04-23-09-07-19/2015-04-23-09-07-54/search?searchword=%D8%AA%D9%86%D8%B8%DB%8C%D9%85%DB%8C+%DA%88%DA%BE%D8%A7%D9%86%DA%86%DB%81&categories= mwmpak.org]</ref>۔
یہ تنظیم اگست 2009ء میں وجود میں آئی۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد پاکستان میں شیعہ حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے ساتھ  شیعہ [[اہل السنۃ والجماعت|سنی]] اتحاد کے لیے کام کرنا تھا۔ اسی لیے  اس تنظیم نے ہر دہشت گردی کے واقعہ کی کھل کر مذمت کی ہے اور قاتلوں اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے حکومت وقت پر ہمیشہ زور ڈالتی رہی ہے وہ چاہے احتجاج ہو یا دھرنے کی صورت میں۔تنظیمی سیٹ اپ میں اس کا یہ ہے کہ سیکرٹری جنرل تنظیم کو چلاتا ہے اور اس کے نیچے دو ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہوتے ہیں <ref>سائٹ، مجلس وحدت المسلمین، [http://www.mwmpak.org/2015-04-23-09-07-19/2015-04-23-09-07-54/search?searchword=%D8%AA%D9%86%D8%B8%DB%8C%D9%85%DB%8C+%DA%88%DA%BE%D8%A7%D9%86%DA%86%DB%81&categories= mwmpak.org]</ref>۔
=== تنظیم کی ابتداء ===
=== تنظیم کی ابتداء ===
جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو حکومت کے ایوانوں تک آواز پہنچی، مختلف علاقوں میں مظاہرے ہونا شروع ہو گئے، لوگوں میں بیداری بڑھنا شروع ہو گئی، پاراچنار کے لوگوں کو بھی تسلی ملنا شروع ہو گئی۔ انہوں نے خود مجھے بتایا کہ اب جب حکومت کے ساتھ ہمارے مذاکرات ہوتے ہیں تو اس پر ان چیزوں کا اثر دیکھنے میں آتا ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم تنہا نہیں ہیں۔ اس کے بعد ہم نے سوچا کہ یہ 40 یا 50 دوستوں کا کام نہیں ہے اور دوسرے علماء کو بھی شامل کرنا چاہیئے لہذا ہم نے پورے پنجاب سے تمام علماء کو پھر دعوت دی اور تقریبا 140 کے قریب دوستوں نے دو دن 11 اور 12 اپریل 2008ء کو جامعۃ الحجت اسلام آباد میں اجتماع کیا۔ اس اجتماع میں دوستوں کے مشورے سے یہ طے پایا کہ علماء کا ایک سیٹ اپ ہونا چاہیئے جس کا نام '''مجلس وحدت مسلمین''' رکھا جائے۔ اگر ہم یہ کام پورے ملک کی سطح پر کرتے تو کافی وقت درکار تھا لہذا ہم نے سوچا کہ چونکہ پنجاب میں ہم دوست آپس میں رابطے میں ہیں اس لئے پنجاب کی سطح پر ہی کام شروع کیا جائے۔ اسی اجتماع میں ایک شورای عالی اور ایک شورای مرکزی کا انتخاب کیا گیا۔ شورای مرکزی 37 منتخب علماء پر مشتمل تھی اور شورای عالی 12 افراد پر مشتمل تھی۔ شورای عالی کے جنرل سیکرٹری کے طور پر مجھے منتخب کیا گیا۔ 6 افراد پر مشتمل منتخب کابینہ بھی بنائی گئی۔ کابینہ بننے کے بعد
جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو حکومت کے ایوانوں تک آواز پہنچی، مختلف علاقوں میں مظاہرے ہونا شروع ہو گئے، لوگوں میں بیداری بڑھنا شروع ہو گئی، پاراچنار کے لوگوں کو بھی تسلی ملنا شروع ہو گئی۔ انہوں نے خود مجھے بتایا کہ اب جب حکومت کے ساتھ ہمارے مذاکرات ہوتے ہیں تو اس پر ان چیزوں کا اثر دیکھنے میں آتا ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم تنہا نہیں ہیں۔ اس کے بعد ہم نے سوچا کہ یہ 40 یا 50 دوستوں کا کام نہیں ہے اور دوسرے علماء کو بھی شامل کرنا چاہیئے لہذا ہم نے پورے پنجاب سے تمام علماء کو پھر دعوت دی اور تقریبا 140 کے قریب دوستوں نے دو دن 11 اور 12 اپریل 2008ء کو جامعۃ الحجت اسلام آباد میں اجتماع کیا۔ اس اجتماع میں دوستوں کے مشورے سے یہ طے پایا کہ علماء کا ایک سیٹ اپ ہونا چاہیئے جس کا نام '''مجلس وحدت مسلمین''' رکھا جائے۔ اگر ہم یہ کام پورے ملک کی سطح پر کرتے تو کافی وقت درکار تھا لہذا ہم نے سوچا کہ چونکہ پنجاب میں ہم دوست آپس میں رابطے میں ہیں اس لئے پنجاب کی سطح پر ہی کام شروع کیا جائے۔ اسی اجتماع میں ایک شورائے عالی اور ایک شورائے مرکزی کا انتخاب کیا گیا۔ شورائے مرکزی 37 منتخب علماء پر مشتمل تھی اور شورائے  عالی 12 افراد پر مشتمل تھی۔ شورائے عالی کے جنرل سیکرٹری کے طور پر مجھے منتخب کیا گیا۔ 6 افراد پر مشتمل منتخب کابینہ بھی بنائی گئی۔ کابینہ بننے کے بعد
یہ ضرورت محسوس کی جاتی تھی کہ ایسے علمی اور دینی مراکز کا وجود میں آنا لازمی ہے جو اس فکر کے حامل ہوں اور اس کو طلباء کے ذریعے عوام اور لوگوں تک منتقل کریں۔
یہ ضرورت محسوس کی جاتی تھی کہ ایسے علمی اور دینی مراکز کا وجود میں آنا لازمی ہے جو اس فکر کے حامل ہوں اور اس کو طلباء کے ذریعے عوام اور لوگوں تک منتقل کریں۔
ہم نے آئی ایس او اور آئی او کے دوستوں سے ان کاموں کے حوالے سے رابطہ کیا، اور ایک 15 رکنی رابطہ کمیٹی بنائی، 5 علماء مجلس وحدت مسلمین سے، 5 آئی ایس او کے دوست، موجودہ اور سابقین اور 5 آئی او کے دوست، یہ مل کر پلاننگ کریں گے اور پاراچنار اور مختلف حوالوں سے یہ فیصلہ کریں گے اور پھر اس فیصلہ کا اجراء کیا جائے گا۔ پھر پتا چلا کہ ڈی آئی خان کے حالات بہت خراب ہیں۔
ہم نے آئی ایس او اور آئی او کے دوستوں سے ان کاموں کے حوالے سے رابطہ کیا، اور ایک 15 رکنی رابطہ کمیٹی بنائی، 5 علماء مجلس وحدت مسلمین سے، 5 آئی ایس او کے دوست، موجودہ اور سابقین اور 5 آئی او کے دوست، یہ مل کر پلاننگ کریں گے اور پاراچنار اور مختلف حوالوں سے یہ فیصلہ کریں گے اور پھر اس فیصلہ کا اجراء کیا جائے گا۔ پھر پتا چلا کہ ڈی آئی خان کے حالات بہت خراب ہیں۔
پروگرام بنایا اور وہاں چلے گئے، کیونکہ جب ہم نے دیکھا کہ اگر ڈی آئی خان فعال نہ ہو تو حالات بدتر ہو جائیں گے۔ ہم نے وہاں دیکھا کہ لوگ خوفزدہ ہیں، فرار کر رہے ہیں، مایوس ہیں، ناامید ہیں، ہمت ہارچکے ہیں۔  
پروگرام بنایا اور وہاں چلے گئے، کیونکہ جب ہم نے دیکھا کہ اگر ڈی آئی خان فعال نہ ہو تو حالات بدتر ہو جائیں گے۔ ہم نے وہاں دیکھا کہ لوگ خوفزدہ ہیں، فرار کر رہے ہیں، مایوس ہیں، ناامید ہیں، ہمت ہارچکے ہیں۔  
=== پہلا پروگرام ===
=== پہلا پروگرام ===
پہلا پروگرام جو 20 جون 2008ء کا تھا اس کے لئے ھم 90 فیصد لوگ باہر سے لے کر گئے تھے، وہاں سے 10 فیصد لوگوں نے شرکت کے تھی۔ جب لوگ ہمت ہارے ہوئے ہوں، حوصلہ ہارے ہوئے ہوں، ناامید ہو چکے ہوں تو ان کو کھڑا کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ الحمدللہ! 20 جون کے پروگرام کے بعد ہمت بھی بڑھی، حوصلہ بھی ہوا، اور پھرانہوں نے مقاومت بھی کی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، پھر پاراچنار میں دوائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہم نے اسلام آباد میں مارگلہ ہوٹل کے اندر سابقہ و موجودہ بیوروکریٹس، ریٹائرڈ جنرلز، بریگیڈیئرز، آرمی کے لوگ، وکلاء، بزنس مین اور دوسرے لوگوں کا اجتماع کیا، اور ان کو باقاعدہ بریفنگ دی پارا چنار کے بارے میں، موثر قسم کے 66 لوگوں کو بلایا ان میں سابقہ و موجودہ بیوروکریٹس، ریٹائرڈ جنرلز، بریگیڈیئرز، آرمی کے لوگ، وکلاء، بزنس مین اور بڑے مخیر اور موثر لوگ بھی تھے۔ ہم نے ان کو بلایا، پارا چنار کے بارے میں مکمل بریفنگ دی، کہ در اصل کیا صورت حال ہے، اس کا پس منظر کیا ہے، خطرات کیا ہیں، اور اس حوالے سے ان سے مشاورت بھی کی اور وہیں پر فنڈز کمیٹی بھی بنائی گئی، فوج کے لوگوں سے رابطہ کرنے کے لئے 3 افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی، میڈیا میں مسئلے کو اٹھانے کے لئے ایک الگ کمیٹی بنائی گئی، ایک وکلاء کی کمیٹی بنائی گئی کہ اگر کوئی قانونی مسئلہ ہو تو دیکھ لیں، یعنی جو اس قضیہ کے مختلف پہلو بنتے ہیں، اس پہلو سے ہم اقدامات کریں۔ آہستہ آہستہ ملک میں اسی تناظر میں مظاہرے ہونا شروع ہو گئے، رابطہ مہم شروع ہو گئی، اور سنسر ٹوٹنا شروع ہو گیا، اخباروں میں، میڈیا میں آنا شروع ہو گیا، دہلی میں مظاہرے ہوئے، لندن، امریکہ میں مظاہرے ہوئے، پاکستان کے دوسرے شہروں میں مظاہرے شروع ہو گئے، باہر کے ملکوں میں لوگ جمع ہو کے جاتے اور پاکستان کی سفراء کو یاد داشتیں دیتے کہ پاکستان میں یہ ظلم ہو رہا ہے، اسکو روکا جائے، امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کے پاس دو تین مرتبہ لوگ گئے، مختلف ملکوں کے اندر اسی طرح سے، تو ایک بیداری شروع ہو گئی، جب بیداری شروع ہو گئی تو لوگوں کو ریلیف اور مدد پہنچنا بھی شروع ہو گئِی، اور حکومت پر بھی دبائو بڑھنا شروع ہو گیا۔ اسی تناظر میں فیصلہ کیا گیا کہ اسلام آباد میں بھرپور کوشش کر کے پاراچنار کے حوالے سے آواز بلند کی جائے، وہاں جو ظلم ہو رہا ہے اس کو ایوانوں تک پہنچایا جاِئے،
پہلا پروگرام جو 20 جون 2008ء کا تھا اس کے لئے ھم 90 فیصد لوگ باہر سے لے کر گئے تھے، وہاں سے 10 فیصد لوگوں نے شرکت کے تھی۔ جب لوگ ہمت ہارے ہوئے ہوں، حوصلہ ہارے ہوئے ہوں، ناامید ہو چکے ہوں تو ان کو کھڑا کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ الحمدللہ! 20 جون کے پروگرام کے بعد ہمت بھی بڑھی، حوصلہ بھی ہوا، اور پھرانہوں نے مقاومت بھی کی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، پھر پاراچنار میں دوائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہم نے اسلام آباد میں مارگلہ ہوٹل کے اندر موثر قسم کے 66 لوگوں کو بلایا ان میں سابقہ و موجودہ بیوروکریٹس، ریٹائرڈ جنرلز، بریگیڈیئرز، آرمی کے لوگ، وکلاء، بزنس مین اور بڑے مخیر اور موثر لوگ بھی تھے۔ ہم نے ان کو بلایا، پارا چنار کے بارے میں مکمل بریفنگ دی، کہ در اصل کیا صورت حال ہے، اس کا پس منظر کیا ہے، خطرات کیا ہیں، اور اس حوالے سے ان سے مشاورت بھی کی اور وہیں پر فنڈز کمیٹی بھی بنائی گئی، فوج کے لوگوں سے رابطہ کرنے کے لئے 3 افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی، میڈیا میں مسئلے کو اٹھانے کے لئے ایک الگ کمیٹی بنائی گئی، ایک وکلاء کی کمیٹی بنائی گئی کہ اگر کوئی قانونی مسئلہ ہو تو دیکھ لیں، یعنی جو اس قضیہ کے مختلف پہلو بنتے ہیں، اس پہلو سے ہم اقدامات کریں۔ آہستہ آہستہ ملک میں اسی تناظر میں مظاہرے ہونا شروع ہو گئے، رابطہ مہم شروع ہو گئی، اور سنسر ٹوٹنا شروع ہو گیا، اخباروں میں، میڈیا میں آنا شروع ہو گیا، دہلی میں مظاہرے ہوئے، لندن، امریکہ میں مظاہرے ہوئے، پاکستان کے دوسرے شہروں میں مظاہرے شروع ہو گئے، باہر کے ملکوں میں لوگ جمع ہو کے جاتے اور پاکستان کی سفراء کے سامنے  احتجاج کیا پاکستان میں یہ ظلم ہو رہا ہے، اسکو روکا جائے، امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کے پاس دو تین مرتبہ لوگ گئے، مختلف ملکوں کے اندر اسی طرح سے، تو ایک بیداری شروع ہو گئی، جب بیداری شروع ہو گئی تو لوگوں کو ریلیف اور مدد پہنچنا بھی شروع ہو گئِی، اور حکومت پر بھی دبائو بڑھنا شروع ہو گیا۔ اسی تناظر میں فیصلہ کیا گیا کہ اسلام آباد میں بھرپور کوشش کر کے پاراچنار کے حوالے سے آواز بلند کی جائے، وہاں جو ظلم ہو رہا ہے اس کو ایوانوں تک پہنچایا جاِئے،
پچھلے سال 12، 13 جولائی کو ہم نے طے کیا کہ 2 اگست 2008ء کو ہم پروگرام کریں گے، اتنے شارٹ نوٹس پر 1980ء کے بعد شاید پہلا اجتماع تھا جس میں ہزاروں لوگ آئے اور ریلی بھی نکالی گئی، حکومت کی طرف سے دباو تھا، ناامنی بہت زیادہ تھی، احتمال تھا کہ کچھ ہو جائے، حکومت نے اعلان کر دیا تھا کہ یہاں کوئی اجتماع نہیں ہو سکتا، 4 سے زیادہ لوگ جمع نہیں ہو سکتے، ٹیلیویژن پر باقاعدہ مہم چلائی گئی کہ کوئی اجتماع نہیں ہو سکتا، حکومت نے بہت ہتھکنڈے استعمال کئے، لیکن دوستوں کی استقامت کی وجہ سے بھرپور پروگرام ہوا، خواتین نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی، بچے بھے تھے، بڑے بھے تھے، اس پروگرام میں اکثر دوست اپنے گھر والوں کے ساتھ آئے تھے، یہ ایک عجیب موقع تھا، یعنی دوستوں کے اندر یہ احساس تھا کہ اگر لوگوں کو خطرہ ہے تو وہ بھی اپنے بچوں اور گھر والوں کے ساتھ جائیں، یہ لوگوں کی طرف سے صداقت تھی اپنے مقصد اور ہدف کی جانب، بالکل اسی طرح جیسے حضرت رسول خدا ص مباہلہ میں اپنےگھر والوں کے ساتھ گئے تھے کیونکہ ان کو اپنے مقصد پر یقین تھا۔ خیر بہت بڑا اجتماع ہوا، اس نے لوگوں کو بڑا حوصلہ دیا اور ان کی بڑی ہمت بندھائِی، 2 سے لے کر 31 اگست تک پھر مسلسل مظاہرے شروع ہو گئے، سارے ملک میں، ہم نے تقسیم کیا ہوا تھا، کہیں شبیر بخاری صاحب جا رہے تھے، کہیں عبدالخالق اسدی کو بھیج رہے ہیں، کہیں امین شہیدی جا رہے ہیں، کہیں میں جا رہا ہوں، کہیں دوسرے دوست جا رہے ہیں، ہم تقسیم ہو گئے تھے تا کہ 31 اگست تک مظاہرے رہیں، اور ہم نے 3 اگست کو اعلان کیا تھا کہ پارا چنار کے جو راستے بند ہیں، ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کی لئے ہم یکم ستمبر کو ملک کے تمام شاہراہوں کو 3 گھنٹوں کے لئے بند کریں گے، تاکہ لوگوں کو بھی پتہ چلے اور حکومت پر بھی پریشر پڑے کہ سڑکیں بند ہونے سے کتنی تکلیفیں اٹھانی پڑتی ہیں اور لوگ اس حوالے سے آواز اٹھائیں۔ پچھلے سال تقریبا 28 مقامات پر گلگت سے لے کر کراچی تک اور خیبر سے لے کر بلوچستان تک اہم شاہراہیں بند کی گئیں، جو کہ 4 بجے سے لے کر شام 7 بجے تک بند رہیں، اور بڑا منظم احتجاج تھا، پورے ملک میں نہ 4 بجے سے پہلے یا بعد میں سڑکیں بند ہوئیں، نہ 7 بجے سے پہلے یا بعد میں کھولی گئیں، اسلام آباد سارا بند تھا، کراچی لاڑکانہ سکھر کوئٹہ، سرگودھا اور جو موٹروے کی طرف راستے آتے ہیں، سارے بند تھے، اسی طرح سیالکوٹ ، لیہ ،بھکر اور لاہور بھی بند تھا، جوں جوں بیداری کے لئے کام ہو رہا تھا، ان اقدامات کے ذریعے لوگ آرگنائز ہو رہے تھے، آپس میں اعتماد بڑھ رہا تھا۔ فیصلہ ہم اسلام آباد میں کرتے تھے لیکن تعاون پورا پاکستان کرتا تھا، کوئٹہ، سرحد، سندھ اور شمالی علاقہ جات کے لوگ۔ اس کے بعد یہ ڈیمانڈ ہونا شروع ہو گئی کہ آپ جو فیصلے کرتے ہیں ان میں ہمیں بھی شریک کریں، ہم آپ کے ساتھ تعاون تو کرتے ہی ہیں لہذا ہمیں ان فیصلوں میں بھی شریک ہونا چاہیئے۔ دوسرے علاقوں کے علماء اور غیر علماء بھی اس میں آنے چاہیئیں۔ کیونکہ وہ نظری اور فکری لوگ جو شہید کے ساتھ رہے تھے یا شہید کے ساتھ محبت کرتے تھے اور رہبر کے پیروکار تھے انہیں ایک پلیٹ فارم نظر آنا شروع ہو گیا، ایک سسٹم بنتا نظر آ گیا جس کو اگر اچھی طرح بنائیں تو ہم اس پرچم کو جو شہید کے ہاتھ سے گرا تھا مل کر تھام سکتے ہیں، ہم اپنے مظلوموں اور محروموں کو ظلم سے نجات دلا سکتے ہیں، انکے حقوق کیلئے جدوجہد کر سکتے ہیں اور بالاخر پاکستان کیلئے کام کر سکتے ہیں اور اپنے وطن کیلئے کام کر سکتے ہیں۔ لہذا پھر دوستوں کی میٹنگز شروع ہو گئیں، رابطہ مہم شروع ہو گئی، پورے ملک میں رابطے ہوئے اور پچھلے سال 2 اور 3 مئی 2008ء کو رجوعہ سادات جامعہ بعثت چنیوٹ میں اجتماع ہوا جس میں 160 کے قریب علماء اور اس کے علاوہ بڑی تعداد میں غیرعلماء نے بھی شرکت کی اور فیصلہ کیا گیا کہ ہم اس سسٹم کو وسعت دیں گے۔ اس اجتماع میں دو اھم اعلان کئے گئے، ایک تو مجلس وحدت مسلمین کو وسعت دینے کا اور دوسرا یہ کہ 2 اگست کو اسلام آباد میں گذشتہ سال کی طرح ایک مرکزی اجتماع کیا جائے گا۔ جس میں دفاع وطن کے حوالے سے پروگرام کروایا جائے گا۔ پھر 3 مئی سے لے کر جون کے آخر تک مجلس وحدت مسلمین کا تشکیلاتی کام شروع ہو گیا۔ پنجاب کے اکثر اضلاع میں 5 جولائی تک ہم نے تشکیلاتی کام انجام دیا، 25 اضلاع میں تنظیم سازی کا کام مکمل کر لیا تھا۔ بلوچستان میں بھی 5 جولائی کو تنظیمی اجتماع ہوا تھا، وہاں پر بھی اکثر اضلاع میں پنجاب کی طرح ہم نے ابتدائی تشکیلاتی سیٹ اپ بنا لیا تھا۔ پنجاب میں بھی صوبائی سیکرٹری جنرل بن گیا تھا اور بلوچستان میں بھی بن چکا تھا۔ پھر اس کام کو ہم نے روک دیا، صوبہ سندھ کے دورے بھی ہم نے کئے، کراچی کی دورے کئے دوسرے علاقوں میں بھی گئے اور صوبہ سرحد کے جو علاقے پنجاب سے ملتے ہیں مثلا ہری پور اور دوسرے، وہاں بھی تنظیم سازی کر دی گئی۔ باقی علاقوں کے بارے میں طے تھا کہ 2 اگست کے بعد ان کو آگے لے کر چلیں گے۔ 2 اگست کے پروگرام کے لئے بھرپور کوششیں کی گئیں تاکہ زیادہ سے زیادہ شرکت کو ممکن بنایا جائے۔ 2 اگست کو اسلام آباد میں مرکزی اجتماع ہوا، دفاع وطن کے نام سے، ہم چاہتے تھے کہ اس انداز سے نئے فیز میں داخل ہوں کہ ہم فقط اپنے لئے نہیں سوچتے ہیں بلکہ اپنے وطن کے لِئے بھی سوچتے ہیں، ان مشکل ترین حالات میں جب ہر طرف سے ملک کو توڑنے کی سازشیں ہو رہی ہیں، ملک کو ناامن کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں، ملک کے اندرونی اور بیرونی دشمن چاروں طرف سے اس پر حملہ آور ہیں، ہمارے اجداد نے اس وطن کو بنایا تھا، ہم اٹھیں اور وطن کے دفاع کے لئے شہید کی برسی کا نام رکھ دیں "دفاع وطن کنونشن" اور الحمدللہ اسلام آباد میں ایک نیا فیز تھا جس میں ہم داخل ہوئے، دفاع وطن کنوینشن کے حوالے سے اسلام آباد میں تقریبا ایک لاکھ افراد اکٹھے ہوئے، جو "پاکستان بنایا تھا، پاکستان بچائیں گے" کے نعرے لگا رہے تھے، اور ہاتھوں میں پاکستان کے پرچم تھے اور اپنی ھویت کو بھی نہیں چھپاتے تھے، ہم رہبر کے پیرو ہیں، ایک ہاتھ میں پاکستان کا پرچم تھا اور لبوں پر "خامنہ ای رہبر" کے نعرے تھے، الحمدللہ اس طرح انہوں نے اپنی ھویت کا اظہار بھی کیا کہ ہم کس رستے کے راہی ہیں اور ہاتھوں میں پاکستان کے پرچم لے کر اس بات کا بھی اعلان کیا کہ پاکستان ہمارا ہے اور ہم اس کو ہر مشکل سے بچانے کی لئے اٹھ کھڑے ہوں گے، ہم ہر قربانی دینے کی لئے تیار ہیں اور ان خطرناک ترین حالات میں جب اسلام آباد کی انتظامیہ کہہ رہی تھی کہ خودکش حملے ہو سکتے ہیں آپ نہیں کریں، ہم آئے، ہماری عورتیں آئیں، ہمارے بچے آئے، ہمارے بڑے آئے، بوڑھے آئے اور ملک کے کونے کونے سے آئے، الحمدللہ۔۔ بالکل یہ کہہ سکتے ہیں کہ شہید حسینی رہ کی شہادت کے بعد یہ ایک اہم موڑ تھا۔، شہید کے افکار، راستوں، سوچ کے حوالے سے اور شیعیان پاکستان کا ایک بدلتا ہوا کردار اور رول جو شہید چاہتے تھے کہ ہم ادا کریں اس کے حوالے سے الحمدللہ یہ ایک اہم موڑ تھا اور پھر جب پروگرام ختم ہو گیا۔
12، 13 جولائی 2018 کو ہم نے طے کیا کہ 2 اگست 2008ء کو ہم پروگرام کریں گے، اتنے شارٹ نوٹس پر 1980ء کے بعد شاید پہلا اجتماع تھا جس میں ہزاروں لوگ آئے اور ریلی بھی نکالی گئی، حکومت کی طرف سے دباو تھا، ناامنی بہت زیادہ تھی، احتمال تھا کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے، حکومت نے اعلان کر دیا تھا کہ یہاں کوئی اجتماع نہیں ہو سکتا، 4 سے زیادہ لوگ جمع نہیں ہو سکتے، ٹیلیویژن پر باقاعدہ مہم چلائی گئی کہ کوئی اجتماع نہیں ہو سکتا، حکومت نے بہت ہتھکنڈے استعمال کئے، لیکن دوستوں کی استقامت کی وجہ سے بھرپور پروگرام ہوا، خواتین نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی، بچے بھے تھے، بڑے بھے تھے، اس پروگرام میں اکثر دوست اپنے گھر والوں کے ساتھ آئے تھے، یہ ایک عجیب موقع تھا، یعنی دوستوں کے اندر یہ احساس تھا کہ اگر لوگوں کو خطرہ ہے تو وہ بھی اپنے بچوں اور گھر والوں کے ساتھ جائیں، یہ لوگوں کی طرف سے صداقت تھی اپنے مقصد اور ہدف کی جانب، بالکل اسی طرح جیسے حضرت رسول خدا ص مباہلہ میں اپنےگھر والوں کے ساتھ گئے تھے کیونکہ ان کو اپنے مقصد پر یقین تھا۔ خیر بہت بڑا اجتماع ہوا، اس نے لوگوں کو بڑا حوصلہ دیا اور ان کی بڑی ہمت بندھائِی، 2 سے 31 اگست تک پھر مسلسل مظاہرے شروع ہو گئے، سارے ملک میں، ہم نے تقسیم کیا ہوا تھا، کہیں شبیر بخاری صاحب جا رہے تھے، کہیں عبدالخالق اسدی کو بھیج رہے ہیں، کہیں امین شہیدی جا رہے ہیں، کہیں میں جا رہا ہوں، کہیں دوسرے دوست جا رہے ہیں، ہم تقسیم ہو گئے تھے تا کہ 31 اگست تک مظاہرے رہیں، اور ہم نے 3 اگست کو اعلان کیا تھا کہ پارا چنار کے جو راستے بند ہیں، ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کی لئے ہم یکم ستمبر کو ملک کے تمام شاہراہوں کو 3 گھنٹوں کے لئے بند کریں گے، تاکہ لوگوں کو بھی پتہ چلے اور حکومت پر بھی پریشر پڑے کہ سڑکیں بند ہونے سے کتنی تکلیفیں اٹھانی پڑتی ہیں اور لوگ اس حوالے سے آواز اٹھائیں۔ پچھلے سال تقریبا 28 مقامات پر گلگت سے لے کر کراچی تک اور خیبر سے لے کر بلوچستان تک اہم شاہراہیں بند کی گئیں، جو کہ 4 بجے سے لے کر شام 7 بجے تک بند رہیں، اور بڑا منظم احتجاج تھا، پورے ملک میں نہ 4 بجے سے پہلے یا بعد میں سڑکیں بند ہوئیں، نہ 7 بجے سے پہلے یا بعد میں کھولی گئیں، اسلام آباد سارا بند تھا، کراچی لاڑکانہ سکھر کوئٹہ، سرگودھا اور جو موٹروے کی طرف راستے آتے ہیں، سارے بند تھے، اسی طرح سیالکوٹ ، لیہ ،بھکر اور لاہور بھی بند تھا، جوں جوں بیداری کے لئے کام ہو رہا تھا، ان اقدامات کے ذریعے لوگ آرگنائز ہو رہے تھے، آپس میں اعتماد بڑھ رہا تھا۔ فیصلہ ہم اسلام آباد میں کرتے تھے لیکن تعاون پورا پاکستان کرتا تھا، کوئٹہ، سرحد، سندھ اور شمالی علاقہ جات کے لوگ۔ اس کے بعد یہ ڈیمانڈ ہونا شروع ہو گئی کہ آپ جو فیصلے کرتے ہیں ان میں ہمیں بھی شریک کریں، ہم آپ کے ساتھ تعاون تو کرتے ہی ہیں لہذا ہمیں ان فیصلوں میں بھی شریک ہونا چاہیئے۔ دوسرے علاقوں کے علماء اور غیر علماء بھی اس میں آنے چاہیئیں۔ کیونکہ وہ نظری اور فکری لوگ جو شہید کے ساتھ رہے تھے یا شہید کے ساتھ محبت کرتے تھے اور رہبر کے پیروکار تھے انہیں ایک پلیٹ فارم نظر آنا شروع ہو گیا، ایک سسٹم بنتا نظر آ گیا جس کو اگر اچھی طرح بنائیں تو ہم اس پرچم کو جو شہید کے ہاتھ سے گرا تھا مل کر تھام سکتے ہیں، ہم اپنے مظلوموں اور محروموں کو ظلم سے نجات دلا سکتے ہیں، انکے حقوق کیلئے جدوجہد کر سکتے ہیں اور بالاخر پاکستان کیلئے کام کر سکتے ہیں اور اپنے وطن کیلئے کام کر سکتے ہیں۔ لہذا پھر دوستوں کی میٹنگز شروع ہو گئیں، رابطہ مہم شروع ہو گئی، پورے ملک میں رابطے ہوئے اور پچھلے سال 2 اور 3 مئی 2008ء کو رجوعہ سادات جامعہ بعثت چنیوٹ میں اجتماع ہوا جس میں 160 کے قریب علماء اور اس کے علاوہ بڑی تعداد میں غیرعلماء نے بھی شرکت کی اور فیصلہ کیا گیا کہ ہم اس سسٹم کو وسعت دیں گے۔ اس اجتماع میں دو اھم اعلان کئے گئے، ایک تو مجلس وحدت مسلمین کو وسعت دینے کا اور دوسرا یہ کہ 2 اگست کو اسلام آباد میں گذشتہ سال کی طرح ایک مرکزی اجتماع کیا جائے گا۔ جس میں دفاع وطن کے حوالے سے پروگرام کروایا جائے گا۔ پھر 3 مئی سے لے کر جون کے آخر تک مجلس وحدت مسلمین کا تشکیلاتی کام شروع ہو گیا۔ پنجاب کے اکثر اضلاع میں 5 جولائی تک ہم نے تشکیلاتی کام انجام دیا، 25 اضلاع میں تنظیم سازی کا کام مکمل کر لیا تھا۔ بلوچستان میں بھی 5 جولائی کو تنظیمی اجتماع ہوا تھا، وہاں پر بھی اکثر اضلاع میں پنجاب کی طرح ہم نے ابتدائی تشکیلاتی سیٹ اپ بنا لیا تھا۔ پنجاب میں بھی صوبائی سیکرٹری جنرل بن گیا تھا اور بلوچستان میں بھی بن چکا تھا۔ پھر اس کام کو ہم نے روک دیا، صوبہ سندھ کے دورے بھی ہم نے کئے، کراچی کی دورے کئے دوسرے علاقوں میں بھی گئے اور صوبہ سرحد کے جو علاقے پنجاب سے ملتے ہیں مثلا ہری پور اور دوسرے، وہاں بھی تنظیم سازی کر دی گئی۔ باقی علاقوں کے بارے میں طے تھا کہ 2 اگست کے بعد ان کو آگے لے کر چلیں گے۔ 2 اگست کے پروگرام کے لئے بھرپور کوششیں کی گئیں تاکہ زیادہ سے زیادہ شرکت کو ممکن بنایا جائے۔ 2 اگست کو اسلام آباد میں مرکزی اجتماع ہوا، دفاع وطن کے نام سے، ہم چاہتے تھے کہ اس انداز سے نئے فیز میں داخل ہوں کہ ہم فقط اپنے لئے نہیں سوچتے ہیں بلکہ اپنے وطن کے لِئے بھی سوچتے ہیں، ان مشکل ترین حالات میں جب ہر طرف سے ملک کو توڑنے کی سازشیں ہو رہی ہیں، ملک کو ناامن کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں، ملک کے اندرونی اور بیرونی دشمن چاروں طرف سے اس پر حملہ آور ہیں، ہمارے اجداد نے اس وطن کو بنایا تھا، ہم اٹھیں اور وطن کے دفاع کے لئے شہید کی برسی کا نام رکھ دیں "دفاع وطن کنونشن" اور الحمدللہ اسلام آباد میں ایک نیا فیز تھا جس میں ہم داخل ہوئے، دفاع وطن کنوینشن کے حوالے سے اسلام آباد میں تقریبا ایک لاکھ افراد اکٹھے ہوئے، جو "پاکستان بنایا تھا، پاکستان بچائیں گے" کے نعرے لگا رہے تھے، اور ہاتھوں میں پاکستان کے پرچم تھے اور اپنی ھویت کو بھی نہیں چھپاتے تھے، ہم رہبر کے پیرو ہیں، ایک ہاتھ میں پاکستان کا پرچم تھا اور لبوں پر "خامنہ ای رہبر" کے نعرے تھے، الحمدللہ اس طرح انہوں نے اپنی ھویت کا اظہار بھی کیا کہ ہم کس رستے کے راہی ہیں اور ہاتھوں میں پاکستان کے پرچم لے کر اس بات کا بھی اعلان کیا کہ پاکستان ہمارا ہے اور ہم اس کو ہر مشکل سے بچانے کی لئے اٹھ کھڑے ہوں گے، ہم ہر قربانی دینے کی لئے تیار ہیں اور ان خطرناک ترین حالات میں جب اسلام آباد کی انتظامیہ کہہ رہی تھی کہ خودکش حملے ہو سکتے ہیں آپ نہیں کریں، ہم آئے، ہماری عورتیں آئیں، ہمارے بچے آئے، ہمارے بڑے آئے، بوڑھے آئے اور ملک کے کونے کونے سے آئے، الحمدللہ۔۔ بالکل یہ کہہ سکتے ہیں کہ شہید حسینی رہ کی شہادت کے بعد یہ ایک اہم موڑ تھا۔، شہید کے افکار، راستوں، سوچ کے حوالے سے اور شیعیان پاکستان کا ایک بدلتا ہوا کردار اور رول جو شہید چاہتے تھے کہ ہم ادا کریں اس کے حوالے سے الحمدللہ یہ ایک اہم موڑ تھا اور پھر جب پروگرام ختم ہو گیا


=== مرحلہ شروع ===
، جو 12، 13 دسمبر تک جاری رہے گا اور تب تک انشاء اللہ ہم پاکستان کے تمام علاقوں میں تنظیم سازی مکمل کر لیں گے جس پر کام شروع ہے اور اس کے بعد 12، 13 دسمبر کو تنظیمی اجتماع کریں گے انشاء اللہ، اور اس میں نئے مرکزی سیکرٹری جنرل کا ہم انتخاب کریں گے، اور اس دوران ہم نے اعلان کیا ہے کہ عوام کی مدد سے عوام کے کام کریں گے، ہم نے پاکستان میں تقریبا 10 اہم ریجن منتخب کئے ہیں، جن میں ہم ہر ریجن میں 10 ہزار افراد کو ممبر بنائیں گے، کل ایک لاکھ ممبر پہلے مرحلے میں بنا رہے ہیں، ہر ایک ممبر کم از کم 100 روپے ماھانہ ادا کرے گا، اس طرح عوام کے دیئے ہوئے سرمائے کے ساتھ ہم انتظام بھی چلائیں گے، اور عوام کے ضروریات بھی پوری کریں گے، اور کام بھی کرنے کی کوشش کریں گے، اور اسی طرح مختلف حوالوں سے امام بارگاہوں اور مساجد کے لئے سیکیورٹی سسٹم بنا رہے ہیں جو پاکستان کے قوانین کے مطابق ہو اور جس کی اپنی ایک قانونی حیثیت ہو اور الحمدللہ اس حوالے سے ایک پورا شعبہ بن چکا ہے۔ اس حوالے سے ہم پلاننگ کر رہے ہیں اور جلد ہی اعلان کر کے اس پر عمل شروع کر دیا جائے گا <ref>مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری حجۃ الاسلام و المسلمین راجہ ناصر عباس کا انٹرویو، [https://www.islamtimes.org/ur/interview/13388/%D9%85%D8%AC%D9%84%D8%B3-%D9%88%D8%AD%D8%AF%D8%AA-%D9%85%D8%B3%D9%84%D9%85%DB%8C%D9%86-%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%D8%AC%D9%86%D8%B1%D9%84-%D8%B3%DB% islamtimes.org]</ref>۔
پاکستان میں عوام متدین ہیں، دین سے محبت رکھتے ہیں اور یہ استحقاق رکھتے ہیں کہ ان پر ایک ایسی حکومت قائم ہو جو اسلام اور قرآن کے مطابق ہو، لھذا پاکستان میں ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ وہاں دین کی پابندی کی جائے اور لوگ اسلام کے پرچم تلے زندگی گزاریں۔
ہو گیا، جو 12، 13 دسمبر تک جاری رہے گا اور تب تک انشاء اللہ ہم پاکستان کے تمام علاقوں میں تنظیم سازی مکمل کر لیں گے جس پر کام شروع ہے اور اس کے بعد 12، 13 دسمبر کو تنظیمی اجتماع کریں گے انشاء اللہ، اور اس میں نئے مرکزی سیکرٹری جنرل کا ہم انتخاب کریں گے، اور اس دوران ہم نے اعلان کیا ہے کہ عوام کی مدد سے عوام کے کام کریں گے، ہم نے پاکستان میں تقریبا 10 اہم ریجن منتخب کئے ہیں، جن میں ہم ہر ریجن میں 10 ہزار افراد کو ممبر بنائیں گے، کل ایک لاکھ ممبر پہلے مرحلے میں بنا رہے ہیں، ہر ایک ممبر کم از کم 100 روپے ماھانہ ادا کرے گا، اس طرح عوام کے دیئے ہوئے سرمائے کے ساتھ ہم انتظام بھی چلائیں گے، اور عوام کے ضروریات بھی پوری کریں گے، اور کام بھی کرنے کی کوشش کریں گے، اور اسی طرح مختلف حوالوں سے امام بارگاہوں اور مساجد کے لئے سیکیورٹی سسٹم بنا رہے ہیں جو پاکستان کے قوانین کے مطابق ہو اور جس کی اپنی ایک قانونی حیثیت ہو اور الحمدللہ اس حوالے سے ایک پورا شعبہ بن چکا ہے۔ اس حوالے سے ہم پلاننگ کر رہے ہیں اور جلد ہی اعلان کر کے اس پر عمل شروع کر دیا جائے گا <ref>مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری حجۃ الاسلام و المسلمین راجہ ناصر عباس کا انٹرویو، [https://www.islamtimes.org/ur/interview/13388/%D9%85%D8%AC%D9%84%D8%B3-%D9%88%D8%AD%D8%AF%D8%AA-%D9%85%D8%B3%D9%84%D9%85%DB%8C%D9%86-%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%D8%AC%D9%86%D8%B1%D9%84-%D8%B3%DB% islamtimes.org]</ref>۔


== اغراض و مقاصد ==
== اغراض و مقاصد ==
confirmed
821

ترامیم