"ایران" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 54: سطر 54:


== ایران ترقی کے راستے پر ==
== ایران ترقی کے راستے پر ==
یہ ملک مشرق وسطی میں واقع ہے۔ اس کے شمال میں آرمینیا، آذربائیجان، ترکمانستان اور بحیرہ قزوین، مشرق میں افغانستان اور پاکستان، جنوب میں خلیج فارس اور خلیج عمان  جبکہ مغرب میں عراق اور ترکی واقع ہیں۔ ملک کا وسطی و مشرقی علاقہ وسیع بے آب و گیاہ صحراؤں پر مشتمل ہے جن میں کہیں کہیں نخلستان ہیں۔ مغرب میں ترکی اور عراق کے ساتھ سرحدوں پر پہاڑی سلسلے ہیں۔ شمال میں بھی بحیرہ قزوین کے اردگرد زرخیز پٹی کے ساتھ ساتھ کوہ البرز واقع ہیں۔
یہ ملک مشرق وسطی میں واقع ہے۔ اس کے شمال میں آرمینیا، آذربائیجان، ترکمانستان اور بحیرہ قزوین، مشرق میں افغانستان اور پاکستان، جنوب میں خلیج فارس اور خلیج عمان  جبکہ مغرب میں عراق اور ترکی واقع ہیں۔ ملک کا وسطی و مشرقی علاقہ وسیع بے آب و گیاہ صحراؤں پر مشتمل ہے جن میں کہیں کہیں نخلستان ہے۔ مغرب میں ترکی اور عراق کے ساتھ سرحدوں پر پہاڑی سلسلے ہیں۔ شمال میں بھی بحیرہ قزوین کے اردگرد زرخیز پٹی کے ساتھ ساتھ کوہ البرز واقع ہے۔
 
8 اپریل کی تاریخ ایران میں جوہری ٹیکنالوجی کے قومی دن کے نام سے منائی جاتی ہے۔ اس دن  کو مقامی ٹیکنا لوجی کی بنیاد پر یورینیم کی افزودگی کی سرگرمیاں شروع کیے جانےکی  مناسبت سے منایا جاتا ہے ۔ اس بڑی سائنسی کامیابی کے اعلان کے بعد  ملک  کے ثقافتی انقلاب کی اعلیٰ کونسل کی منظوری سے ایران کے جوان دانشوروں کی قابل افتخار کوششوں کی قدردانی کے مقصد سے 8 اپریل کی تاریخ کو ایران میں جوہری ٹیکنالوجی کے قومی دن سے موسوم کیا گیا۔ جوہری ٹیکنالوجی کا اطلاق، ایٹم کے شگاف اور انھیں جوڑنے کی توانائی کے ذریعے قدرتی یورینیم کو افزودہ یورینیم میں تبدیل کرنے کی توانائی پر ہوتا ہے۔


8 اپریل کی تاریخ ایران میں جوہری ٹیکنالوجی کے قومی دن سے مناسبت رکھتی ہے۔ اس دن  کو مقامی ٹیکنا لوجی کی بنیاد پر یورینیم کی افزودگی کی سرگرمیاں شروع کیے جانےکی  مناسبت سے منایا جاتا ہے ۔ اس بڑی سائنسی کامیابی کے اعلان کے بعد اس ملک  کے ثقافتی انقلاب کی اعلیٰ کونسل کی منظوری اور ایران کے جوان دانشوروں کی قابل افتخار کوششوں کی قدردانی کے مقصد سے 8 اپریل کی تاریخ کو ایران میں جوہری ٹیکنالوجی کے قومی دن سے موسوم کیا گیا۔ جوہری ٹیکنالوجی کا اطلاق، ایٹم کے شگاف اور انھیں جوڑنے کی توانائی کے ذریعے قدرتی یورینیم کو افزودہ یورینیم میں تبدیل کرنے کی توانائی پر ہوتا ہے۔
پرامن استعمال کے لیے مقامی جوہری ٹیکنالوجی، سائنسی اور صنعتی اعتبار سے قابل ذکر اہمیت کی حامل ہے اور یہ اس بنا پر ہے کہ جوہری ٹیکنالوجی کا استعمال صرف توانائی کی فراہمی تک محدود نہیں ہے بلکہ اسے ایرانی ماہرین کی جانب سے طبی اور تحقیقاتی امور میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔
پرامن استعمال کے لیے مقامی جوہری ٹیکنالوجی، سائنسی اور صنعتی اعتبار سے قابل ذکر اہمیت کی حامل ہے اور یہ اس بنا پر ہے کہ جوہری ٹیکنالوجی کا استعمال صرف توانائی کی فراہمی تک محدود نہیں ہے بلکہ اسے ایرانی ماہرین کی جانب سے طبی اور تحقیقاتی امور میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔
ایران سنہ 1958ء میں آئی اے ای اے کا رکن بنا اور سنہ 1968ء میں اس نے جوہری ہتھیاروں کی پیداوار اور پھیلاؤ پر پابندی کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کیے۔ حالیہ برسوں میں جوہری شعبے میں ایران کی ترقی و پیش رفت اہم کامیابیوں کے ہمراہ رہی ہے۔ اس وقت ایران تیس سے زائد ریڈیو دواؤں کی پیداوار کے ساتھہ جوہری اور طبی تحقیقاتی مراکز میں خاص بیماروں کے استعمال کے لیے 90 سے 95 فی صد تک دوائیں بنا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایران کی ایک اور کامیابی تہران کے طبی تحقیقاتی ری ایکٹر کے ایندھن کی فراہمی کے لیے یورینیم کو 20 فیصد تک افزودہ بنانا ہے۔
 
ایران 1958ء میں IAEA کا رکن بنا اور 1968ء میں اس نے جوہری ہتھیاروں کی پیداوار اور پھیلاؤ پر پابندی کے معاہدےNPT  پر دستخط کیے۔ حالیہ برسوں میں جوہری شعبے میں ایران کی ترقی و پیش رفت اہم کامیابیوں کے ہمراہ رہی ہے۔ اس وقت ایران تیس سے زائد ریڈیو دواؤں کی پیداوار کے ساتھہ جوہری اور طبی تحقیقاتی مراکز میں خاص بیماروں کے استعمال کے لیے 90 سے 95 فی صد تک دوائیں بنا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایران کی ایک اور کامیابی تہران کے طبی تحقیقاتی ری ایکٹر کے ایندھن کی فراہمی کے لیے یورینیم کو 20 فیصد تک افزودہ بنانا ہے۔
== سیاست ==
== سیاست ==
محمد رضا شاہ پہلوی، ایران میں اسلامی انقلاب سے پہلےاس ملک کے بادشاہ تھے۔
محمد رضا شاہ پہلوی، ایران میں اسلامی انقلاب سے پہلےاس ملک کا  بادشاہ تھے۔  
ایران کے موجودہ آئین 1979ء کے انقلاب کے بعد منظور کیا گیا جس کے مطابق ایران کو ایک اسلامی جمہوریہ اور اسلامی تعلیمات کو تمام سیاسی، سماجی اور معاشی تعلقات کی بنیاد قرار دیا گیا۔ مجموعی اختیارات رہبر انقلاب (سپریم لیڈر) کے پاس ہوتے ہیں۔ آج کل آیت اللہ علی خامنہ ای اس ملک کے سپریم لیڈر ہیں۔ رہبر کا انتخاب ماہرین کی ایک مجلس (مجلس خبرگان رہبری) کرتی ہے جس میں پورے ایران سے 86 علما منتخب کیے جاتے ہیں۔ رہبر معظم مسلح افواج کا کمانڈر انچیف بھی ہوتا ہے۔
 
حکومت کا سربراہ صدر ہوتا ہے اور صدر کو پورے ملک سے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخاب کیا جاتا ہے۔ آئین کے تحت کوئی فرد دو سے زیادہ مرتبہ صدر نہیں بن سکتا۔ قانون سازی کے اختیارات مجلس کے پاس ہیں جو 290 منتخب اراکین پر مشتمل اور 4 سال کے لیے علاقوں اور مذہبی برادریوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ مسیحیوں، زرتشتوں اور یہودیوں کے اپنے نمائندے مجلس میں شامل ہیں۔ مجلس کے منظور شدہ قوانین منظوری کے لیے شوریٰ نگہبان کے پاس بھیجے جاتے ہیں۔  
ایران کا موجودہ آئین 1979ء میں انقلاب کی کامیابی کے بعد منظور کیا گیا جس کے مطابق ایران کو ایک اسلامی جمہوریہ اور اسلامی تعلیمات کو تمام سیاسی، سماجی اور معاشی تعلقات کی بنیاد قرار دیا گیا۔ مجموعی اختیارات رہبر انقلاب (سپریم لیڈر) کے پاس ہوتے ہیں۔ آج کل آیت اللہ علی خامنہ ای اس ملک کے سپریم لیڈر ہیں۔ رہبر کا انتخاب ماہرین کی ایک مجلس ،مجلس خبرگان رہبری کرتی ہے جس میں پورے ایران سے 86 علما کا انتخاب کیا جاتاہے۔ سپریم لیڈر مسلح افواج کا کمانڈر انچیف بھی ہوتا ہے۔  
 
حکومت کا سربراہ صدر ہوتا ہے اور صدر کو پورے ملک سے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخاب کیا جاتا ہے۔ آئین کے تحت کوئی فرد دو سے زیادہ مرتبہ صدر نہیں بن سکتا۔ قانون سازی کے اختیارات مجلس کے پاس ہیں جو 290 منتخب اراکین پر مشتمل اور 4 سال کے لیے علاقوں اور مذہبی برادریوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ مسیحیوں، زرتشتوں اور یہودیوں کے اپنے نمائندے مجلس میں شامل ہیں۔ مجلس کے منظور شدہ قوانین منظوری کے لیے شورائے  نگہبان کے پاس بھیجے جاتے ہیں۔  
 
شورائے نگہبان اس لحاظ سے مجلس کے منظور کردہ قوانین کا جائزہ لیتی ہے کہ وہ آئین اور اسلامی قوانین کے مطابق ہیں یا نہیں۔ اس میں رہبر کی جانب سے نامزد کردہ 6 مذہبی رہنما اور عدلیہ کے نامزد کردہ 6 قانونی ماہرین شامل ہوتے ہیں جن کی منظوری مجلس دیتی ہے۔ شورائے نگہبان کو مجلس، مقامی کونسلوں، صدارت اور مجلس خبرگان کے امیدواروں کو  رد کردینے کا اختیار  ہوتا ہے۔
 
قانون سازی کے حوالے سے مجلس شورائے اسلامی اور شورائے نگہبان کے درمیان  پیدا ہونے والے تنازعات کے حل کے لیے 1988ء میں "مجمع تشخیص مصلحت نظام" (ایکسپیڈیئنسی کونسل) قائم کی گئی۔ اگست 1989ء سے یہ قومی پالیسی اور آئینی امور پر رہبر کا مشیر ادارہ بن گئی ہے۔ اس میں حکومت کے تینوں شعبوں کے سربراہ اور شورائے نگہبان کے مذہبی ارکان شامل ہیں۔ سپریم لیڈر تین سال کے لیے ارکان نامزد کرتا ہے۔


شوری نگہبان اس لحاظ سے مجلس کے منظور کردہ قوانین کا جائزہ لیتی ہے کہ وہ آئین اور اسلامی قوانین کے مطابق ہیں۔ اس میں رہبر کی جانب سے نامزد کردہ 6 مذہبی رہنما اور عدلیہ کے نامزد کردہ 6 قانونی ماہرین شامل ہوتے ہیں جن کی منظوری مجلس دیتی ہے۔ شوری نگہبان کو مجلس، مقامی کونسلوں، صدارت اور مجلس خبرگان کے امیدواروں کو ویٹو کردینے کا اختیار ہوتا ہے۔
مجلس کی دو بڑی جماعتوں کو عموما اصلاح طلب (اصلاح پسند) اور اصول گرا(قدامت پرست) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔  
قانون سازی کے حوالے سے مجلس شورای اسلامی اور شوری نگہبان کے درمیان میں پیدا ہونے والے تنازعات کے حل کے لیے 1988ء میں "مجمع تشخیص مصلحت نظام" (ایکسپیڈیئنسی کونسل) قائم کی گئی۔ اگست 1989ء سے یہ قومی پالیسی اور آئینی امور پر رہبر کا مشیر ادارہ بن گئی ہے اور اس کے سربراہ سابق صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی ہیں اور اس میں حکومت کے تینوں شعبوں کے سربراہ اور شوری نگہبان کے مذہبی ارکان شامل ہیں۔ رہبر تین سال کے لیے ارکان نامزد کرتا ہے۔
مجلس کے بڑے گروہوں کو عموما اصلاح طلب "اصلاح پسند" اور اصول گرا "قدامت پرست" کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ اس وقت مجلس میں "آبادگران" کا اتحاد غالب ہے۔ یہ قدامت پرست ہیں۔
== یورینییم کی افزدوگی ==
== یورینییم کی افزدوگی ==
تہران کا یہ ایٹمی ری ایکٹر کینسر کی بیماری میں مبتلا بیماروں کے لیے دوائیں تیار کرنے میں سرگرم عمل ہے جسے 20 فیصد افزودہ یورینییم کے ایندھن کی ضرورت ہے جو دو سال قبل تک بیرون ملک سے درآمد کیا جاتا تھا مگر مغرب نے ایران کے خلاف پابندیوں اور ایران میں یورینیم کی افزودگی کی مخالفت کے بہانے 20 فیصد افزودہ یورینییم کا ایندھن دینے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے نے ایندھن کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قم کے فردو ایٹمی ری ایکٹر میں جوہری ایندھن کی ری سائیکلنگ کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے جس کی ساری سرگرمیاں اٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کی نگرانی میں جاری ہیں، یورینیم کی 20 فیصد افزودگی کے عمل میں کامیابی حاصل کی۔
تہران کا ایٹمی ری ایکٹر کینسر کے مریضوں کے لیے دوائیں تیار کرنے میں سرگرم عمل ہے جسے 20 فیصد افزودہ یورینییم کے ایندھن کی ضرورت ہے جو دو سال قبل تک بیرون ملک سے درآمد کیا جاتا تھا ۔مگر مغرب نے ایران کے خلاف پابندیوں اور ایران میں یورینیم کی افزودگی کی مخالفت کے بہانے 20 فیصد افزودہ یورینییم کا ایندھن دینے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے نے ایندھن کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قم کے فردو ایٹمی ری ایکٹر میں جوہری ایندھن کی ری سائیکلنگ کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے جس کی ساری سرگرمیاں ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کی نگرانی میں جاری ہیں، یورینیم کی 20 فیصد افزودگی کے عمل میں کامیابی حاصل کی۔
== جوہری شعبے میں ایران کی ایک اور کامیابی ==
== جوہری شعبے میں ایران کی ایک اور کامیابی ==
جوہری شعبے میں ایران کی ایک اور کامیابی، فیوز یعنی پگھلانے والی مشین تیار کرنا ہے۔ ایران اس وقت اس حوالے سے ٹیکنالوجی رکھنے والے دنیا کے پانچ ملکوں میں شامل ہے اور ایران مشرق وسطی کا واحد ملک ہے کہ اس سلسلے میں جس کی سرگرمیاں آئی اے ای اے کی نگرانی میں جاری ہیں۔
جوہری شعبے میں ایران کی ایک اور کامیابی، فیوز یعنی پگھلانے والی مشین تیار کرنا ہے۔ ایران اس وقت اس ٹیکنالوجی کے حامل  دنیا کے پانچ ملکوں میں شامل ہے ۔ ایران اس سلسلے میں  مشرق وسطی کا واحد ملک ہے جس کی سرگرمیاں آئی اے ای اے کی نگرانی میں جاری ہیں۔
 
امید کی جاتی ہے کہ آئندہ دس سے پندرہ سالوں میں جوہری دنیا، توانائی کی پیداوار میں جوہری شگاف سے اسے پگھلانے کے مرحلے میں داخل ہو جائے گی۔ جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایران اس وقت اس منزل پر پہنچ گیا ہے کہ دنیا کے دیگر ملکوں کے ساتھہ مشترکہ جوہری منصوبوں منجملہ یورینیم کی افزودگی اور ایٹمی فیوز کے منصوبوں پر عملدرآمد کرنے کی توانائی رکھتا ہے اور اس نے یہ ٹیکنالوجی آئی اے ای اے کی زیر نگرانی ہی حاصل کی ہے مگر پھر بھی امریکا اور گنتی کے چند دیگر ممالک کہ جن سے ایران کی ترقی و پیشرفت برداشت نہیں ہوپا رہی ہے۔


ایران کی ترقی کی راہ میں مختلف طرح کی رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ ایران کے خلاف پابندیاں۔ ایران کا بائیکاٹ۔ نفسیاتی جنگ۔ سیاسی دباؤ۔ فوجی حملے کی دھمکی۔ یہان تک کہ جوہری دانشوروں کا قتل نیز کمپیوٹروائرس کے ذریعے رخنہ اندازی کی کوشش ایسے ہتھکنڈے ہیں جو ایرانی قوم کے دشمنوں نے استعمال کیے ہیں تاکہ ایران میں پرامن جوہری پروگرام اور اس سلسلے میں حاصل ہونے والی ترقی و پیشرفت میں رکاوٹ پیدا کی جاسکے۔ تاہم مغرب کی ان تمام تر خلاف ورزیوں کے باوجود جوہری ٹیکنالوجی اس وقت ایرانی قوم کی ایک اہم ترین قابل افتخار سائنسی ترقی میں تبدیل ہوچکی ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ آئندہ دس سے پندرہ سالوں میں جوہری دنیا، توانائی کی پیداوار میں جوہری شگاف سے اسے پگھلانے کے مرحلے میں داخل ہو جائے گی۔ جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایران اس وقت اس منزل پر پہنچ گیا ہے کہ دنیا کے دیگر ملکوں کے ساتھہ مشترکہ جوہری منصوبوں منجملہ یورینیم کی افزودگی اور ایٹمی فیوز کے منصوبوں پر عملدرآمد کرنے کی توانائی رکھتا ہے اور اس نے یہ ٹیکنالوجی آئی اے ای اے کی زیر نگرانی ہی حاصل کی ہے مگر پھر بھی امریکا اور گنتی کے چند دیگر ممالک  جن سے ایران کی ترقی و پیشرفت برداشت نہیں ہوپا رہی ہے،ایران کی ترقی کی راہ میں مختلف طرح کی رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ ایران کے خلاف پابندیاں، ایران کا بائیکاٹ، نفسیاتی جنگ، سیاسی دباؤ،فوجی حملے کی دھمکی یہاں  تک کہ جوہری دانشوروں کا قتل نیز کمپیوٹروائرس کے ذریعے رخنہ اندازی کی کوشش ایسے ہتھکنڈے ہیں جو ایرانی قوم کے دشمنوں نے استعمال کیے ہیں تاکہ ایران میں پرامن جوہری پروگرام اور اس سلسلے میں حاصل ہونے والی ترقی و پیشرفت میں رکاوٹ پیدا کی جاسکے۔ تاہم مغرب کی ان تمام تر مخالفتوں کے باوجود جوہری ٹیکنالوجی اس وقت ایرانی قوم کی ایک اہم ترین قابل افتخار سائنسی ترقی میں تبدیل ہوچکی ہے۔


== بین الاقوامی تعلقات ==
== بین الاقوامی تعلقات ==
1997ء میں صدر سید محمد خاتمی کے منتخب ہونے کے بعد ایران کے زیادہ تر ممالک سے تعلقات بہتر ہوئے۔ 1998ء میں برطانیہ اور ایران کے تعلقات اس یقین دہانی پر بحال ہوئے کہ ایرانی حکومت کا [[سلمان رشدی]] کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ 1999ء میں برطانیہ اور ایران نے سفارتکاروں کا تبادلہ کیا۔
1997ء میں صدر سید محمد خاتمی کے منتخب ہونے کے بعد ایران کے زیادہ تر ممالک سے تعلقات بہتر ہوئے۔ 1998ء میں برطانیہ اور ایران کے تعلقات اس یقین دہانی پر بحال ہوئے کہ ایرانی حکومت کا [[سلمان رشدی]] کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ 1999ء میں برطانیہ اور ایران نے سفارتکاروں کا تبادلہ کیا۔


ایران اور امریکا کے تعلقات 1980ء میں ٹوٹے اور آج تک بحال نہیں ہوئے ہے ۔ جولائی 2001ء میں امریکا نے ایران اور لیبیا پر پابندیوں کے قانون میں مزید 5 سال کے لیے توسیع کردی۔ جنوری 2002ء میں صدر بش نے ایران کو "بدی کے محور" (Axis of Evil) کا حصہ قرار دیا۔ اس وقت ایران مغربی طاقتوں کی جانب سے جوہری پروگرام، مبینہ دہشت گردی، مشرق وسطی کے امن کو خراب کرنے کے خواہش مند گروہوں کی مبینہ سرپرستی اور دیگر الزامات کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے مغرب کی ریشہ دوانیوں امریکی سازشوں اور عالمی سامراجی طاقتوں کی طرف سے ملت ایران کے خلاف مسلسل دھمکیوں کے بعد ہر سطح پر خود کفیل ہونے کا فیصلہ کیا اور ایٹمی ٹیکنالوجی، نانو ٹیکنا لوجی، کلوننگ اور میڈیکل کے ساتھ ساتھ ائرو اسپیس نیز دفاعی شعبوں میں بے پناہ ترقی کی ہے جس کے بارے میں اختصار کے ساتھ کچھ مطالب قارئین کی معلومات افزائی کے لیے ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں۔ ائرواسپیس ایٹمی ٹیکنالوجی نانو ٹیکنا لوجی کلوننگ میڈیکل دفاعی
ایران اور امریکا کے تعلقات 1980ء میں ٹوٹے اور آج تک بحال نہیں ہوئے ہے ۔ جولائی 2001ء میں امریکا نے ایران اور لیبیا پر پابندیوں کے قانون میں مزید 5 سال کی توسیع کردی۔ جنوری 2002ء میں صدر بش نے ایران کو "بدی کے محور" (Axis of Evil) کا حصہ قرار دیا۔ اس وقت ایران مغربی طاقتوں کی جانب سے جوہری پروگرام، مبینہ دہشت گردی، مشرق وسطی کے امن کو خراب کرنے کے خواہش مند گروہوں کی مبینہ سرپرستی اور دیگر الزامات کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے مغرب کی ریشہ دوانیوں، امریکی سازشوں اور عالمی سامراجی طاقتوں کی طرف سے ملت ایران کے خلاف مسلسل دھمکیوں کے بعد ہر سطح پر خود کفیل ہونے کا فیصلہ کیا اور ایٹمی ٹیکنالوجی، نینو ٹیکنا لوجی، کلوننگ اور میڈیکل کے ساتھ ساتھ ائرو اسپیس نیز دفاعی شعبوں میں بے پناہ ترقی کی ہے۔
== پاک ایران تعلقات ==
== پاک ایران تعلقات ==
=== پاک ایران تعلقات میں بہتری کا سنہری موقع ===
=== پاک ایران تعلقات میں بہتری کا سنہری موقع ===
گذشتہ ماہ خطہ میں چند اہم سیاسی تبدیلیاں رونماء ہوئیں، جن میں قابل ذکر ایران کے اہم صدارتی انتخابات اور دوسرا پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے امریکہ کو افغانستان کیخلاف پاکستانی سرزمین کا استعمال کرنے سے واضح انکار ہے۔ یہاں سب سے پہلے برادر اسلامی ملک ایران کے صدارتی انتخابات کا جائزہ لیتے ہیں، خطہ کے تیزی کیساتھ بدلتے حالات کے تناظر، خاص طور پر مشرق وسطیٰ کی صورتحال میں ایران کے حالیہ صدارتی انتخابات خاصی اہمیت اختیار کرگئے تھے۔ ایرانی قوم نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے ایران کی ایک اہم اور مضبوط شخصیت آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کو ملک کی باگ دوڑ سونپی، جمہوری عمل سے ہونے والے اس انتقال اقتدار پر حسب توقع استعماری طاقتوں کو پریشانی لاحق ہوئی اور تہران کیخلاف نئی صف بندیاں بھی کرلی گئی ہیں۔ تاہم اگر ایران سمیت خطہ اور امت مسلمہ کے مفاد کی بات کی جائے تو سید ابراہیم رئیسی کا صدر منتخب ہونا کسی نیک شگون سے کم نہیں۔
گذشتہ ماہ خطہ میں چند اہم سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں، جن میں قابل ذکر ایران کے اہم صدارتی انتخابات اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے امریکہ کو افغانستان کےخلاف پاکستانی سرزمین کا استعمال کرنے سے واضح انکار ہے۔ یہاں سب سے پہلے برادر اسلامی ملک ایران کے صدارتی انتخابات کا جائزہ لیتے ہیں۔ خطہ کے تیزی کے ساتھ بدلتے حالات کے تناظر، خاص طور پر مشرق وسطیٰ کی صورتحال میں ایران کے حالیہ صدارتی انتخابات خاصی اہمیت اختیار کرگئے تھے۔ ایرانی قوم نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے ایران کی ایک اہم اور مضبوط شخصیت آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کو ملک کی باگ دوڑ سونپی۔ جمہوری عمل سے ہونے والی اس اقتدار منتقلی پر حسب توقع استعماری طاقتوں کو پریشانی لاحق ہوئی اور تہران کے خلاف نئی صف بندیاں بھی کرلی گئی ہیں۔ تاہم اگر ایران سمیت خطہ اور امت مسلمہ کے مفاد کی بات کی جائے تو سید ابراہیم رئیسی کا صدر منتخب ہونا کسی نیک شگون سے کم نہیں۔


جو حلقے سید ابراہیم رئیسی کی شخصیت کے حوالے سے آگاہی رکھتے ہیں، انہیں اچھی طرح معلوم ہوگا کہ آیت اللہ رئیسی کن خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں، وہ ملت اسلامیہ کے لئے کس قدر درد اور احساس رکھتے ہیں، اسلام و مسلم دشمن قوتوں کیخلاف کس قدر جراتمندانہ موقف اپناتے ہیں، بدلتے ہوئے عالمی حالات پر ان کی نظر کیسی ہے، اپنے وطن سمیت برادر مسلم ممالک کی ترقی و خوشحالی کیلئے کیا کچھ کرسکتے ہیں اور خاص طور پر مقاوومتی محاذ کو مضبوط کرنے میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے بھی نئے ایرانی صدر کیلئے جذبہ خیر سگالی کا اظہار کیا گیا اور انہیں مبارکباد پیش کی گئی۔ وزیراعظم عمران خان، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ایرانی صدارتی انتخابات کے نتائج کے اعلان کے صرف 24 گھنٹوں کے بعد ہی ایرانی حکومت اور عوام کو کامیاب انتخابات کے انعقاد پر مبارکباد دیتے ہوئے نومنختب ایرانی صدر کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
جو حلقے سید ابراہیم رئیسی کی شخصیت سے آگاہی رکھتے ہیں، انہیں اچھی طرح معلوم ہوگا کہ آیت اللہ رئیسی کن خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ وہ ملت اسلامیہ کے لئے کس قدر درد اور احساس رکھتے ہیں، اسلام اور مسلمان دشمن قوتوں کے خلاف کس قدر جراتمندانہ موقف اپناتے ہیں، بدلتے ہوئے عالمی حالات پر ان کی نظر کیسی ہے، اپنے وطن سمیت برادر مسلم ممالک کی ترقی و خوشحالی کیلئے کیا کچھ کرسکتے ہیں اور خاص طور پر مزاحمتی محاذ کو مضبوط کرنے میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے بھی نئے ایرانی صدر کیلئے جذبہ خیر سگالی کا اظہار کیا گیا اور انہیں مبارکباد پیش کی گئی۔ وزیراعظم عمران خان، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ایرانی صدارتی انتخابات کے نتائج کے اعلان کے صرف 24 گھنٹوں کے بعد ہی ایرانی حکومت اور عوام کو کامیاب انتخابات کے انعقاد پر مبارکباد دیتے ہوئے نومنختب ایرانی صدر کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔


[[عارف علوی|صدر عارف علوی]] نے آیت اللہ سید ابرہیم رئیسی کو انتخابات میں جیتنے پر مبارکباد دیتے ہوئے اس انتخاب کو امن، خوشحالی اور ترقی کے حصول کیلئے ابراہیم رئیسی پر عوام کے بھروسے کا نتیجہ قرار دیا۔ صدر مملکت کے ٹوئٹر اکاونٹ سے جاری ایک پیغام میں فارسی زبان میں ابراہیم رئیسی کو صدارتی انتخابات میں فتح پر مبارکباد پیش کی گئی، انہوں نے سید رئیسی کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا یقین ہے کہ ان کے دور صدارت میں ایران اور پاکستان کے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ وزیراعظم عمران خان نے بھی ایک پیغام میں آیت اللہ رئیسی کو  "بردار" کہتے ہوئے ان کو الیکشن میں کامیابی پر مبارکباد دی۔ انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں تعلقات کے فروغ و نیز علاقے میں قیام امن، استحکام اور سلامتی کے سلسلے میں نومنتخب ایرانی صدر سے تعاون کا سلسلہ جاری رکھنے میں دلچسبی کا اظہار کیا۔
[[عارف علوی|صدر عارف علوی]] نے آیت اللہ سید ابرہیم رئیسی کو انتخابات میں جیتنے پر مبارکباد دیتے ہوئے اس انتخاب کو امن، خوشحالی اور ترقی کے حصول کیلئے ابراہیم رئیسی پر عوام کے بھروسے کا نتیجہ قرار دیا۔ صدر مملکت کے ٹوئٹر اکاونٹ سے جاری ایک پیغام میں فارسی زبان میں ابراہیم رئیسی کو صدارتی انتخابات میں فتح پر مبارکباد پیش کی گئی۔ انہوں نے سید رئیسی کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا یقین ہے کہ ان کے دور صدارت میں ایران اور پاکستان کے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ وزیراعظم عمران خان نے بھی ایک پیغام میں آیت اللہ رئیسی کو  "برادر" کہتے ہوئے ان کو الیکشن میں کامیابی پر مبارکباد دی۔ انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں تعلقات کے فروغ و نیز علاقے میں قیام امن، استحکام اور سلامتی کے سلسلے میں نومنتخب ایرانی صدر سے تعاون کا سلسلہ جاری رکھنے میں دلچسبی کا اظہار کیا۔


اس کے علاوہ چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی نے بھی ایک پیغام میں اپنی، پاکستانی پارلیمنٹ اور حکومت کی طرف سے آیت اللہ رئیسی کو صدارتی انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد دی۔ انہوں نے اس بات کی یقیین دہائی کرائی کہ سید ابراہیم رئیسی کے دور صدرات میں تہران اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات میں مزید اضافہ ہوگا۔ سنجرانی نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان، اسلامی جمہوریہ ایران سے اپنے برادرانہ اور گہرے تعلقات پر فخر کرتا ہے، اسے انتہائی اہم سمجھتا ہے اور اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ علاقے میں امن اور سلامتی کے قیام کیلئے دونوں ممالک کے حکام کو ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نو منتخب ایرانی صدر کے بہت سارے تجربات ہیں اور ہمیں امید ہے کہ ان سے تعاون کیساتھ باہمی تعاون کی تقویت اور علاقائی تعلقات کی توسیع کیلئے راستہ مزید ہموار ہوگا۔ سینیٹ کے چیئرمین نے مزید کہا کہ ایران اور پاکستان کے مابین تاریخی، ثقافتی، مذہبی، معاشرتی اور جغرافیائی مشترکات دوطرفہ تعلقات اور تعاون کو مزید گہرا کرنے کے بہترین مواقع اور صلاحیتیں ہیں۔
اس کے علاوہ چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی نے بھی ایک پیغام میں اپنی طرف سے  اور پاکستانی پارلیمنٹ اور حکومت کی طرف سے آیت اللہ رئیسی کو صدارتی انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد دی۔ انہوں نے اس بات کی یقیین دہائی کرائی کہ سید ابراہیم رئیسی کے دور صدرات میں تہران اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات میں مزید اضافہ ہوگا۔ سنجرانی نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان، اسلامی جمہوریہ ایران سے اپنے برادرانہ اور گہرے تعلقات پر فخر کرتا ہے، اسے انتہائی اہم سمجھتا ہے اور اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ علاقے میں امن اور سلامتی کے قیام کیلئے دونوں ممالک کے حکام کو ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نو منتخب ایرانی صدر کے بہت سارے تجربات ہیں اور ہمیں امید ہے کہ ان کے ساتھ  تعاون سے باہمی تعاون کی تقویت اور علاقائی تعلقات کی توسیع کیلئے راستہ مزید ہموار ہوگا۔ سینیٹ کے چیئرمین نے مزید کہا کہ ایران اور پاکستان کے مابین تاریخی، ثقافتی، مذہبی، معاشرتی اور جغرافیائی مشترکات دوطرفہ تعلقات اور تعاون کو مزید گہرا کرنے کے بہترین مواقع اور صلاحیتیں ہیں۔


وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایرانی صدارتی انتخابات کے ایک دن بعد انطالیہ ڈپلومسی فارم کے موقع پر اپنے ایرانی ہم منصب محمد جواد ظریف سے ایک ملاقات کے دوران، ایران میں کامیاب صدارتی انتخابات پر مبارکباد دیتے ہوئے آیت اللہ ابراہیم رئیسی کی کامیابی کی دعا کی۔ انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان سے ملاقات میں بھی پاکستانی حکومت اور عوام کیجانب سے ان کو سید ابراہیم رئیسی کی فتح پر مبارکباد پیش کی۔ نیز پاکستان کی متعدد سیاسی اور مذہبی شخصیات نے بھی حالیہ دنوں میں الگ الگ پیغامات میں ایرانی صدارتی انتخابات میں سید رئیسی کی فتح پر مباردکباد دی۔ اسی طرح نئے ایرانی صدر کی جانب سے بھی اپنے برادر ملک پاکستان کیلئے خیر سگالی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا گیا ہے۔ تہران کے صدارتی انتخابات کے بعد خطہ میں ہونے والی سب سے اہم پیش رفت وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ایک اہم انٹرویو کے دوران امریکہ کو کیا جانے والا وہ واضح انکار ہے، جو عالمی میڈیا کی زینت بنا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایرانی صدارتی انتخابات کے ایک دن بعد انطالیہ ڈپلومسی فورم کے موقع پر اپنے ایرانی ہم منصب محمد جواد ظریف سے ایک ملاقات کے دوران، ایران میں کامیاب صدارتی انتخابات پر مبارکباد دیتے ہوئے آیت اللہ ابراہیم رئیسی کی کامیابی کی دعا کی۔ انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان سے ملاقات میں بھی پاکستانی حکومت اور عوام کی جانب سے ان کو سید ابراہیم رئیسی کی فتح پر مبارکباد پیش کی۔ نیز پاکستان کی متعدد سیاسی اور مذہبی شخصیات نے بھی حالیہ دنوں میں الگ الگ پیغامات میں ایرانی صدارتی انتخابات میں سید رئیسی کی فتح پر مباردکباد دی۔ اسی طرح نئے ایرانی صدر کی جانب سے بھی اپنے برادر ملک پاکستان کیلئے خیر سگالی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا گیا ہے۔ تہران کے صدارتی انتخابات کے بعد خطہ میں ہونے والی سب سے اہم پیش رفت وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ایک اہم انٹرویو کے دوران امریکہ کو کیا جانے والا وہ واضح انکار ہے، جو عالمی میڈیا کی زینت بنا۔
 
[[عمران خان]] نے واضح الفاظ میں کہا کہ ’’پاکستان ہرگز امریکہ کو افغانستان کے خلاف پاکستانی سرزمین کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔‘‘ وزیراعظم نے اس اہم بیان کے بعد گذشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھی بڑا جرات مندانہ خطاب کیا اور پاکستان کی مسئلہ افغانستان اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پالیسی واضح الفاظ میں بیان کی۔ اس صورتحال میں کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان ماضی کے مقابلہ میں اس مرتبہ امریکہ کے ساتھ تعلقات ’’آقا و غلام‘‘ کے بجائے برابری اور قومی مفاد کی سطح پر چاہتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا امریکہ مخالف بیان اور ایران میں ابراہیم رئیسی کا اقتدار سنبھالنا پاکستان اور ایران کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اگر ایک جانب امریکہ کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں پاکستان کا کوئی متوقع پالیسی شفٹ ہوتا ہے تو تہران کی کوشش ہوگی کہ اسلام آباد کو قریب کرکے امریکہ مخالف بیانیہ کو تقویت دی جائے۔ دوسری جانب پاکستان بھی امریکہ کی مخالفت کی صورت میں ایران کو اپنے ساتھ کھڑا ہوا دیکھنا پسند کرے گا، لہذا یہ صورتحال دونوں برادر اسلامی ممالک کو ایک دوسرے کے مزید نزدیک لانے اور تعلقات کی مضبوطی کے نئے دور کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے <ref>سید عدیل زیدی، پاک ایران تعلقات میں بہتری کا سنہری موقع، [http://ur.imam-khomeini.ir/ur/n42644/%D9%BE%D8%A7%DA%A9-%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82%D8%A7%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DB%81%D8%AA%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D8%B3%D9%86%DB%81%D8%B1%DB%8C-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9 mam-khomeini.ir]</ref>۔


[[عمران خان]] نے واضح الفاظ میں کہا کہ ’’پاکستان ہرگز امریکہ کو افغانستان کیخلاف پاکستانی سرزمین نہیں دے گا۔‘‘ وزیراعظم نے اس اہم بیان کے بعد گذشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھی بڑا جرات مندانہ خطاب کیا اور پاکستان کی مسئلہ افغانستان اور امریکہ کیساتھ تعلقات کے حوالے سے پالیسی واضح الفاظ میں بیان کی۔ اس صورتحال میں کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان ماضی کے مقابلہ میں اس مرتبہ امریکہ کیساتھ تعلقات ’’آقا و غلام‘‘ کی بجائے برابری اور قومی مفاد کی سطح پر چاہتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا امریکہ مخالف بیان اور ایران میں ابراہیم رئیسی کا اقتدار سنبھالنا پاکستان اور ایران کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ اگر ایک جانب امریکہ کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں پاکستان کا کوئی متوقع پالیسی شفٹ ہوتا ہے تو تہران کی کوشش ہوگی کہ اسلام آباد کو قریب کرکے امریکہ مخالف بیانیہ کو تقویت دی جائے، دوسری جانب پاکستان بھی امریکہ کی مخالفت کی صورت میں ایران کو اپنے ساتھ کھڑا ہوا دیکھنا پسند کرے گا، لہذا یہ صورتحال دونوں برادر اسلامی ممالک کو ایک دوسرے کے مزید نزدیک لانے اور تعلقات کی مضبوطی کے نئے دور کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے <ref>سید عدیل زیدی، پاک ایران تعلقات میں بہتری کا سنہری موقع، [http://ur.imam-khomeini.ir/ur/n42644/%D9%BE%D8%A7%DA%A9-%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82%D8%A7%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DB%81%D8%AA%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D8%B3%D9%86%DB%81%D8%B1%DB%8C-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9 mam-khomeini.ir]</ref>۔
=== پاک ایران تعلقات اور بھارت ===
=== پاک ایران تعلقات اور بھارت ===
بلوچستان کے ضلع پنجگور کے ایرانی سرحد سے قریب ایک گاؤں پر ایران کے اچانک حملے کا پاکستان نے جواب دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی بیرونی جارحیت کو برداشت نہیں کر سکتا۔
بلوچستان کے ضلع پنجگور کے ایرانی سرحد کے قریب ایک گاؤں پر ایران کے اچانک حملے کا پاکستان نے جواب دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی بیرونی جارحیت کو برداشت نہیں کر سکتا۔جب پاکستان کسی ملک کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا تو کسی ملک کو ہماری سرزمین سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرنا چاہیے اور کسی بھی قسم کی جارحیت سے باز رہنا چاہیے۔
جب پاکستان کسی ملک کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا تو کسی ملک کو ہماری سرزمین سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرنا چاہیے اور کسی بھی قسم کی جارحیت سے باز رہنا چاہیے۔


پاکستانی حملے دراصل ترکی بہ ترکی جواب تھا جسے پاکستان کے تمام ہی حلقوں کی جانب سے سراہا گیا اور ملکی دفاع پر گہری نظر رکھنے اور فرض کی ادائیگی کو احسن طریقے سے انجام دینے پر تعریف کی گئی مگر بدقسمتی سے اس حملے کو کچھ لوگوں نے غلط انداز سے لیا کہ اس جوابی حملے کا مطلب ہے کہ اب 8 فروری کو منعقد ہونے والے انتخابات ملتوی ہونے والے ہیں۔
پاکستانی حملہ دراصل ترکی بہ ترکی جواب تھا جسے پاکستان کے تمام ہی حلقوں کی جانب سے سراہا گیا اور ملکی دفاع پر گہری نظر رکھنے اور فرض کی ادائیگی کو احسن طریقے سے انجام دینے پر تعریف کی گئی ۔مگر بدقسمتی سے اس حملے کو کچھ لوگوں نے غلط انداز سے لیا کہ اس جوابی حملے کا مطلب ہے کہ اب 8 فروری کو منعقد ہونے والے انتخابات ملتوی ہونے والے ہیں۔


کچھ لوگوں نے اس سے بھی آگے بڑھ کر کہنا شروع کردیا کہ اب انتخابات ہی ختم نہیں ہوں گے بلکہ ملک سے جمہوریت بھی ڈی ریل ہونے والی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک مخصوص طبقے سے منسلک سوشل میڈیا نے تو باقاعدہ یہ مہم چلانا شروع کردی کہ پاکستان نے ایران کو جوابی حملہ کرکے ایران کو تو ضرور منہ توڑ جواب دیا ہے مگر ساتھ ہی ملک میں مارشل لا کے لیے راہ ہموار کردی ہے یوں اب ملک سے جمہوریت کے بجائے پہلے کی طرح آمریت کا دور دورہ ہونے والا ہے۔
کچھ لوگوں نے اس سے بھی آگے بڑھ کر کہنا شروع کردیا کہ اب انتخابات ہی ختم نہیں ہوں گے بلکہ ملک سے جمہوریت بھی ڈی ریل ہونے والی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک مخصوص طبقے سے منسلک سوشل میڈیا نے تو باقاعدہ یہ مہم چلانا شروع کردی کہ پاکستان نے ایران کو جوابی حملہ کرکے ایران کو تو ضرور منہ توڑ جواب دیا ہے مگر ساتھ ہی ملک میں مارشل لا کے لیے راہ ہموار کردی ہے۔ یوں اب ملک سے جمہوریت کے بجائے پہلے کی طرح آمریت کا دور دورہ ہونے والا ہے۔


ایک اینکر نے تو باقاعدہ ٹویٹ کرکے مارشل لا کا خدشہ ظاہر کیا تھا مگر شکر ہے کہ ایسا کچھ ہوا اور نہ ہونے والا تھا۔ حکومت کی جانب سے ان افواہوں کو ختم کرنے اور عوام کو صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے اعلان کیا گیا کہ انتخابات وقت مقررہ پر ہی ہوں گے اور ملک میں جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔  ایران پاکستان کا پرانا اور آزمودہ دوست ملک ہے۔ ایران وہ پہلا ملک ہے جس نے پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا اور اس نوزائیدہ مملکت سے اپنے سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔
ایک اینکر نے تو باقاعدہ ٹویٹ کرکے مارشل لا کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ مگر شکر ہے کہ ایسا کچھ ہوا اور نہ ہونے والا تھا۔ حکومت کی جانب سے ان افواہوں کو ختم کرنے اور عوام کو صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے اعلان کیا گیا کہ انتخابات وقت مقررہ پر ہی ہوں گے اور ملک میں جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔  ایران پاکستان کا پرانا اور آزمودہ دوست ملک ہے۔ ایران وہ پہلا ملک ہے جس نے پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا اور اس نوزائیدہ مملکت سے اپنے سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔


پاکستان میں سب سے پہلے کسی غیر ملک کے سربراہ کا دورہ ایرانی سابق بادشاہ رضا شاہ پہلوی نے کیا تھا۔ دونوں ممالک کے ہمیشہ ہی اچھے مثالی تعلقات قائم رہے ہیں۔ ایرانی حکومت نے 1965 اور 1971 کی جنگوں میں پاکستان کو ضروری اسلحہ بھی فراہم کیا تھا۔ پاکستان نے امام خمینی کی حکومت کے قائم ہونے کے بعد ایران سے اپنے تعلقات بحال رکھے تھے اور ان میں مسلسل بہتری آئی تھی۔
پاکستان میں سب سے پہلے کسی غیر ملک کے سربراہ کا دورہ ایرانی سابق بادشاہ رضا شاہ پہلوی نے کیا تھا۔ دونوں ممالک کے ہمیشہ ہی اچھے مثالی تعلقات قائم رہے ہیں۔ ایرانی حکومت نے 1965 اور 1971 کی جنگوں میں پاکستان کو ضروری اسلحہ بھی فراہم کیا تھا۔ پاکستان نے امام خمینی کی حکومت کے قائم ہونے کے بعد ایران سے اپنے تعلقات بحال رکھے تھے اور ان میں مسلسل بہتری آئی تھی۔


ایران کی اسلامی حکومت کا پاکستان بہت مداح تھا اس لیے کہ پاکستان خود ایک اسلامی نظام پر مبنی حکومتی ڈھانچہ اور معاشرہ تشکیل دینے پر غور کر رہا تھا۔ گو کہ پاکستان کے امریکا اور یورپی ممالک سے گہرے تعلقات قائم ہیں مگر پاکستان نے بلا جھجک ایرانی اسلامی حکومت سے بھی ہمیشہ دوستانہ ہی نہیں بلکہ برادرانہ تعلقات قائم رکھے اور امریکا کی پابندیوں کے باوجود بھی ایران سے کسی نہ کسی سطح پر تجارت بھی جاری رکھی۔
ایران کی اسلامی حکومت کا پاکستان بہت مداح تھا۔ اس لیے کہ پاکستان خود ایک اسلامی نظام پر مبنی حکومتی ڈھانچہ اور معاشرہ تشکیل دینے پر غور کر رہا تھا۔ گو کہ پاکستان کے امریکا اور یورپی ممالک سے گہرے تعلقات قائم ہیں مگر پاکستان نے بلا جھجک ایرانی اسلامی حکومت سے بھی ہمیشہ دوستانہ ہی نہیں بلکہ برادرانہ تعلقات قائم رکھے اور امریکا کی پابندیوں کے باوجود بھی ایران سے کسی نہ کسی سطح پر تجارت بھی جاری رکھی۔


پاکستان تو اب بھی ایران سے گیس حاصل کرنے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہا ہے مگر اسے امریکی اور بھارتی حکومت کی ملی بھگت کی وجہ سے کامیابی نہ مل سکی۔ ایران پاکستان مسلمانوں کے لیے مذہبی طور پر بھی کافی کشش رکھتا ہے کیونکہ وہاں کئی برگزیدہ ہستیوں کے مزارات موجود ہیں جن کی زیارت کرنے کے لیے سال بھر ہی پاکستانی ایران جاتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر محرم کے ایام میں ہزاروں پاکستانی ایران جاتے ہیں اور ایرانیوں کے ساتھ مل کر غم [[حسین بن علی|حسینؓ]] مناتے ہیں۔
پاکستان تو اب بھی ایران سے گیس حاصل کرنے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہا ہے مگر اسے امریکی اور بھارتی حکومت کی ملی بھگت کی وجہ سے کامیابی نہ مل سکی۔ ایران پاکستانی مسلمانوں کے لیے مذہبی طور پر بھی کافی کشش رکھتا ہے کیونکہ وہاں کئی برگزیدہ ہستیوں کے مزارات موجود ہیں جن کی زیارت کرنے کے لیے سال بھر پاکستانی ایران جاتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر محرم کے ایام میں ہزاروں پاکستانی ایران جاتے ہیں اور ایرانیوں کے ساتھ مل کر غم [[حسین بن علی|حسینؓ]] مناتے ہیں۔


پاکستان کے ایران سے تعلقات کے خراب کرنے میں بھارت کا اہم کردار رہا ہے۔ جب پاکستان نے اپنی گوادر بندرگاہ کو ترقی دینا چاہا تو بھارت کے لیے یہ منصوبہ ایک بارگراں ثابت ہوا کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان کی کوئی بندرگاہ عالمی توجہ کا مرکز بن جائے اور اس کے سہارے پاکستان کی ترقی میں اضافہ ہو۔ گوادر بندرگاہ کو ناکام بنانے کے لیے بھارت نے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کو اپنی تجارتی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے گود لے لیا۔ بھارت نے گوادر کے مقابلے پر اسے ترقی دینے کے لیے کام شروع کردیا۔
پاکستان کے ایران سے تعلقات کے خراب کرنے میں بھارت کا اہم کردار رہا ہے۔ جب پاکستان نے اپنی گوادر بندرگاہ کو ترقی دینا چاہا تو بھارت کے لیے یہ منصوبہ ایک بارگراں ثابت ہوا کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان کی کوئی بندرگاہ عالمی توجہ کا مرکز بن جائے اور اس کے سہارے پاکستان کی ترقی میں اضافہ ہو۔ گوادر بندرگاہ کو ناکام بنانے کے لیے بھارت نے ایران کی چا بہار بندرگاہ کو اپنی تجارتی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے گود لے لیا۔ بھارت نے گوادر کے مقابلے پر اسے ترقی دینے کے لیے کام شروع کردیا۔اس بندرگاہ کے ذریعے بھارت اپنی تجارت کو وسطی ایشیائی ممالک تک دراز کرنا چاہتا تھا مگر بدقسمتی سے اس نے اس بندرگاہ کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا۔ بھارتی جاسوس وہاں سے بلوچستان کا رخ کرتے اور وہاں دہشتگردی کا نیٹ ورک پاکستان کے خلاف منظم کرنے کے لیے بلوچ نوجوانوں کو استعمال کرتے۔ یہ دہشتگردی ایک زمانے تک بڑے پیمانے پر جاری رہی مگر پھر پاکستانی ایجنسیوں نے بھارتی ایجنٹ کلبھوشن کو گرفتار کرکے بھارتی دہشتگردی کو بڑی حد تک ختم کردیا۔


اس بندرگاہ کے ذریعے بھارت اپنی تجارت کو وسطی ایشیائی ممالک تک دراز کرنا چاہتا تھا مگر بدقسمتی سے اس نے اس بندرگاہ کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا۔ بھارتی جاسوس وہاں سے بلوچستان کا رخ کرتے اور وہاں دہشتگردی کا نیٹ ورک پاکستان کے خلاف منظم کرنے کے لیے بلوچ نوجوانوں کو استعمال کرتے۔ یہ دہشتگردی ایک زمانے تک بڑے پیمانے پر جاری رہی مگر پھر پاکستانی ایجنسیوں نے بھارتی ایجنٹ کلبھوشن کو گرفتار کرکے بھارتی دہشتگردی کو بڑی حد تک ختم کردیا۔
بھارت کی ہی کوششوں سے بلوچستان میں وطن عزیز کے خلاف دہشت گردی کو دائمی بنانے کے لیے بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسی کئی دہشتگرد تنظیمیں قائم کی گئیں۔ ان کی باقاعدہ فنڈنگ بھی کی گئی جو ابھی بھی جاری ہے۔ پہلے یہ دہشتگرد تنظیمیں بلوچستان میں ہی موجود تھیں مگر پاکستانی فوج کی ان کے خلاف مہم جوئی کی وجہ سے پہلے وہ افغانستان منتقل ہو گئیں بعد میں [[طالبان]] حکومت کے قیام کے بعد ایران میں پاکستان سے ملحق سرحدی علاقوں میں ڈیرے جما لیے۔


بھارت کی ہی کوششوں سے بلوچستان میں وطن عزیز کے خلاف دہشت گردی کو دائمی بنانے کے لیے بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسی کئی دہشتگرد تنظیمیں قائم کی گئیں ان کی باقاعدہ فنڈنگ بھی کی گئی جو ابھی بھی جاری ہے۔ پہلے یہ دہشتگرد تنظیمیں بلوچستان میں ہی موجود تھیں مگر پاکستانی فوج کی ان کے خلاف مہم جوئی کی وجہ سے پہلے وہ افغانستان منتقل ہو گئیں بعد میں [[طالبان]] حکومت کے قیام کے بعد ایران میں پاکستان سے ملحق سرحدی علاقوں میں ڈیرے جما لیے۔
پاکستان ایران سے متعدد دفعہ ان کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کر چکا ہے مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جاتا رہا کہ [[جیش العدل]] نامی دہشتگرد تنظیم بلوچستان میں موجود ہے جو ایران پر حملہ آور ہوتی رہتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک ایران میں محمود احمدی نژاد صدر رہے پاکستان کے ایران سے تعلقات شک و شبے کے دائرے میں رہے۔ چا بہار بندرگاہ جسے بھارت پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا تھا ان ہی کے دور میں اسے حاصل ہوئی تھی۔ پھر جب ایران میں صدارتی انتخابات ہوئے تو حسن روحانی صدر منتخب ہوگئے اس کے بعد سے پاکستان اور ایران کے تعلقات میں بہتری آئی اور گرمجوشی کا آغاز ہوا۔جن دنوں طالبان افغانستان میں  پیشی قدمی کر رہے تھے ، ایران میں محمود احمدی نژاد نے پاکستان کے خلاف بیانات دیے تھ۔ے اس سے قبل بھی وہ پاکستانی سرحد پر ایرانی پاسداران کی فائرنگ کی حمایت کرتے رہے تھے۔ جب یہ معاملہ زیادہ ہی بڑھا تو بانی تحریک انصاف اور سابق پاکستانی وزیر اعظم نے ایران جا کرآیت اللہ  [[سید علی خامنہ ای|خامنہ ای]] سے ملاقات میں یہ معاملہ اٹھایا تھا جس کے بعد ایرانی سرحد پر متعین کمانڈر کو ہٹا دیا گیا تھا جس کے بعد سرحد پر معاملات بہتر ہوگئے تھے۔


پاکستان ایران سے متعدد دفعہ ان کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کر چکا ہے مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جاتا رہا کہ [[جیش العدل]] نامی دہشتگرد تنظیم بلوچستان میں موجود ہے جو ایران پر حملہ آور ہوتی رہتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک ایران میں محمود احمدی نژاد صدر رہے پاکستان کے ایران سے تعلقات شک و شبے کے دائرے میں رہے۔ چاہ بہار بندرگاہ جسے بھارت پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا تھا ان ہی کے دور میں اسے حاصل ہوئی تھی۔ پھر جب ایران میں صدارتی انتخابات ہوئے تو حسن روحانی صدر منتخب ہوگئے اس کے بعد سے پاکستان اور ایران کے تعلقات میں بہتری آئی اور گرمجوشی کا آغاز ہوا۔
پاکستانی سرزمین پر حالیہ ایرانی حملہ اس وقت کیا گیا ہے جب بھارتی وزیر خارجہ جے ایس شنکر ایرانی دورے پر آئے ہوئے تھے۔ وہ 15 جنوری کو امریکی حکومت کا پیغام لے کر تہران پہنچے تھے اور اس کے دوسرے ہی دن یعنی 16 جنوری کو ایران کی جانب سے پاکستانی سرحدی گاؤں پر حملہ کیا گیا۔اب پاکستانی جوابی حملے کے بعد ایرانی حکومت نے پاکستان کو کوئی دھمکی نہیں دی بلکہ اچھے تعلقات قائم رکھنے پر زور دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ آیندہ دونوں حکومتیں مل کر ایرانی اور پاکستانی سرحد کے اندر موجود دہشتگردوں کا قلع قمع کریں گی۔ اس طرح ثابت ہوا کہ ایرانی حکومت میں اب بھی پاکستان سے اچھے تعلقات قائم رکھنے کی خواہش موجود ہے۔


جن دنوں طالبان افغانستان پر اپنی پیشی قدمی کر رہے تھے ، ایران میں محمود احمدی نژاد نے پاکستان کے خلاف بیانات دیے تھے اس سے قبل بھی وہ پاکستانی سرحد پر ایرانی پاسداران کی فائرنگ کی حمایت کرتے رہے تھے جب یہ معاملہ زیادہ ہی بڑھا تو بانی تحریک انصاف اور سابق پاکستانی وزیر اعظم نے ایران جا کر [[سید علی خامنہ ای|خامنہ ای]] سے ملاقات میں یہ معاملہ اٹھایا تھا جس کے بعد ایرانی سرحد پر متعین کمانڈر کو ہٹا دیا گیا تھا جس کے بعد سرحد پر معاملات بہتر ہوگئے تھے۔
ایرانی حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے عناصر کا پتہ لگائے جو پاک ایران تعلقات کو سبوتاژ کرکے اپنا الّو سیدھا کرنا چاہتے ہیں اور انھیں ضرور قانون کے دائرے میں لانا چاہیے تاکہ مستقبل میں دونوں ممالک کی دوستی میں خلل نہ پڑ سکے <ref>عثمان دموہی، پاک ایران تعلقات اور بھارت، [https://www.express.pk/story/2597000/268/ express.pk]</ref>۔


پاکستانی سرزمین پر حالیہ ایرانی حملہ اس وقت کیا گیا ہے جب بھارتی وزیر خارجہ جے ایس شنکر ایرانی دورے پر آئے ہوئے تھے۔ وہ 15 جنوری کو امریکی حکومت کا پیغام لے کر تہران پہنچے تھے اور اس کے دوسرے ہی دن یعنی 16 جنوری کو ایران کی جانب سے پاکستانی سرحدی گاؤں پر حملہ کیا گیا۔
=== پاک ایران تعلقات اور ہبر انقلاب ===
[[سید علی خامنہ ای|قائد اسلامی انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای]] نے [[پاکستان]] کے وزیر اعظم کے ساتھ ایک ملاقات میں دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان مجبت پر مبنی گہرے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمنوں کی خواہش کے برعکس پاک ایران تعلقات میں مزید اضافہ کرنا ہوگا۔
ہونے والی ملاقات میں ایرانی سپرم لیڈر نے ایران اور پاکستان کے عوام کے درمیان مشترکہ تاریخی اور ثقافتی تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بر صغیر کا عروج اسی وقت تھا جب مسلمانوں نے اس پر حکمرانی کی تھی اور برطانوی سامراج کی جانب سے اس اہم خطے  کا سب سے بڑا نقصان  وہاں کی اسلامی تہذیب کی تباہی  تھا۔


اب پاکستانی جوابی حملے کے بعد ایرانی حکومت نے پاکستان کو کوئی دھمکی نہیں دی بلکہ اچھے تعلقات قائم رکھنے پر زور دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ آیندہ دونوں حکومتیں مل کر ایرانی اور پاکستانی سرحد کے اندر موجود دہشتگردوں کا قلع قمع کریں گی۔ اس طرح ثابت ہوا کہ ایرانی حکومت میں اب بھی پاکستان سے اچھے تعلقات قائم رکھنے کی خواہش موجود ہے۔
قائد اسلامی انقلاب نے پاکستان کے عظیم شخصیتوں جیسے علامہ اقبال لاہوری اور [[محمد علی جناح]] کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان اچھے تعلقات، دونوں ملکوں کےمفادات میں ہیں۔ لیکن بعض دشمن عناصر پاک ایران تعلقات میں دراڑیں ڈالنا چاہتے ہیں تا ہم ان کی خواہشوں کے برعکس باہمی تعلقات میں مزید اضافہ کرنا ہوگا۔


ایرانی حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے عناصر کا پتا لگائے جو پاک ایران تعلقات کو سبوتاژ کرکے اپنا الّو سیدھا کرنا چاہتے ہیں اور انھیں ضرور قانون کے دائرے میں لانا چاہیے تاکہ مستقبل میں دونوں ممالک کی دوستی میں خلل نہ پڑ سکے <ref>عثمان دموہی، پاک ایران تعلقات اور بھارت، [https://www.express.pk/story/2597000/268/ express.pk]</ref>۔
انہوں نے ایران اور پاکستان کے درمیان سرحدی مسائل کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا کہ وہ دہشتگرد عناصر جو مشترکہ سرحدوں میں بدامنی پھیلاتے ہیں وہ دشمنوں کے حمایت یافتہ ہیں اور ان کے مقاصد میں سے ایک، پاک ایران تعلقات کو خراب کرنا ہے۔


== دشمنوں کی خواہش کے برعکس پاک ایران تعلقات میں مزید اضافہ کرنا ہوگا ==
[[سید علی خامنہ ای|قائد اسلامی انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای]] نے [[پاکستان]] کے وزیر اعظم کیساتھ ایک ملاقات میں دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان مجبت پر مبنی گہرے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمنوں کی خواہش کے برعکس پاک ایران تعلقات میں مزید اضافہ کرنا ہوگا۔
ہونے والی ملاقات میں ایرانی سپرم لیڈر نے ایران اور پاکستان کے عوام کے درمیان مشترکہ تاریخی اور ثقافتی تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بر صغیر کا عروج اسی وقت تھا جب مسلمانوں نے اس پر حکمرانی کی تھی اور برطانوی سامراجیوں کی جانب سے اس اہم خطے پر سب سے بڑا نقصان، وہاں کے اسلامی تہذیب کو تباہ کرنے کا تھا۔
قائد اسلامی انقلاب نے پاکستان کے عظیم شخصیتوں جیسے علامہ اقبال لاہوری اور [[محمد علی جناح|محمد علی جناج]] سے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان اچھے تعلقات، دونوں ملکوں کےمفادات میں ہیں لیکن بعض دشمن عناصر پاک ایران تعلقات میں ڈراریں ڈالنا چاہتے ہیں تا ہم ان کی خواہشوں کے برعکس باہمی تعلقات میں مزید اضافہ کرنا ہوگا۔
انہوں نے ایران اور پاکستان کے درمیان سرحدی مسائل کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا کہ وہ دہشتگرد عناصر جو مشترکہ سرحدوں میں بدامنی پھیلاتے ہیں وہ دشمنوں کی حمایت یافتہ ہیں اور ان کے مقاصد میں سے ایک، پاک ایران تعلقات کو خراب کرنے کا ہے۔
ایرانی سپریم لیڈر نے پاکستان کی جانب سے ایران میں سیلاب متاثرین کیلئے امدادی سامان بھیجنے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے [[عمران خان]] کے دورہ ایران اور [[علی بن موسی|امام رضا (ع)]] کے روضہ پاک کی زیارت کو ایک اچھی بات قرار دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کردیا کہ امام رضا (ع) کی عنایات سے یہ دورہ، دونوں ملکوں کیلئے مثبت اور تعمیری ہوگا۔
ایرانی سپریم لیڈر نے پاکستان کی جانب سے ایران میں سیلاب متاثرین کیلئے امدادی سامان بھیجنے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے [[عمران خان]] کے دورہ ایران اور [[علی بن موسی|امام رضا (ع)]] کے روضہ پاک کی زیارت کو ایک اچھی بات قرار دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کردیا کہ امام رضا (ع) کی عنایات سے یہ دورہ، دونوں ملکوں کیلئے مثبت اور تعمیری ہوگا۔
ہونے والی ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی بھی شریک تھے۔
 
اس  ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اس وقت کے صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی بھی شریک تھے۔
 
اس موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ان کے ایرانی حکام کے ساتھ تعمیری مذاکرات ہوئے اور بہت سارے مسائل بھی حل ہوگئے جبکہ ان کے وفد میں شامل پاکستانی وزرا نے بھی اپنے ایرانی ہم منصبوں سے مثبت مذاکرات کیے۔
اس موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ان کے ایرانی حکام کے ساتھ تعمیری مذاکرات ہوئے اور بہت سارے مسائل بھی حل ہوگئے جبکہ ان کے وفد میں شامل پاکستانی وزرا نے بھی اپنے ایرانی ہم منصبوں سے مثبت مذاکرات کیے۔
عمران خان نے ایران اور بھارت کے درمیان تاریخی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں نے 600 سال بھارت پر حکمرانی کی اور اس کے نتیجے میں بھارت کی سرکاری زبان فارسی مقرر ہوئی۔
 
انہوں نے کہا کہ برطانیہ نے بھارت پر حکمرانی کے زمانے میں اس ملک کے سارے مال و دولت اور ذخائر کا یرغمال کیا اور وہاں کی تعلیمی نظام کو تباہ کرکے آخر کار بھارت کو اپنے قیمتی مستعمرہ کا نام دے دیا۔
عمران خان نے ایران اور بھارت کے درمیان تاریخی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں نے 600 سال بھارت پر حکمرانی کی اور اس کے نتیجے میں بھارت کی سرکاری زبان فارسی مقرر ہوئی۔انہوں نے کہا کہ برطانیہ نے بھارت پر حکمرانی کے زمانے میں اس ملک کے سارے مال و دولت اور ذخائر کو یرغمال کیا اور وہاں کی تعلیمی نظام کو تباہ کرکے آخر کار بھارت کو اپنے قیمتی مستعمرہ کا نام دے دیا۔پاکستانی وزیر اعظم نے دشمنوں کی جانب سے ایران اور پاکستان کے دوستانہ تعلقات میں خلل ڈالنے کی کوششوں کا ذکر کر تے ہوئے کہا کہ ان کے عزائم کے برعکس ہم دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں مزید اضافہ کرنے کی کسی کوشش سے دریغ نہیں کریں گے <ref>اسلامی جمہوریہ ایران کیساتھ بدستور رابطے میں ہیں دشمنوں کی خواہش کے برعکس پاک ایران تعلقات میں مزید اضافہ کرنا ہوگا: ایرانی سپریم لیڈر، [https://pakistan.mfa.gov.ir/ur/newsview/547362/%D8%AF%D8%B4%D9%85%D9%86%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D8%AE%D9%88%D8%A7%DB%81%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D8%B1%D8%B9%DA%A9%D8%B3-%D9%BE%D8%A7%DA%A9-%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82%D8%A7%D8 mfa.gov.ir]</ref>۔
پاکستانی وزیر اعظم نے دشمنوں کی جانب سے ایران اور پاکستان کے دوستانہ تعلقات میں خلل ڈالنے کی کوششوں کا ذکر کر تے ہوئے کہا کہ ان کے عزائم کے برعکس ہم دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں مزید اضافہ کرنے کی کسی کوشش سے دریغ نہیں کریں گے <ref>اسلامی جمہوریہ ایران کیساتھ بدستور رابطے میں ہیں دشمنوں کی خواہش کے برعکس پاک ایران تعلقات میں مزید اضافہ کرنا ہوگا: ایرانی سپریم لیڈر، [https://pakistan.mfa.gov.ir/ur/newsview/547362/%D8%AF%D8%B4%D9%85%D9%86%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D8%AE%D9%88%D8%A7%DB%81%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D8%B1%D8%B9%DA%A9%D8%B3-%D9%BE%D8%A7%DA%A9-%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82%D8%A7%D8 mfa.gov.ir]</ref>۔
=== پاک ایران تعلقات بہتری کی طرف ===   
=== پاک ایران تعلقات بہتری کی طرف ===   
ایران کے صدر [[سید ابراہیم رئیسی]] نے  تہران میں پاکستان کے سفیر محمد مدثر ٹیپو سے سفارتی اسناد قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی کو تہران اور اسلام آباد کے تعلقات خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کی مشترکہ سرحدیں معاشی اور سلامتی فروغ کا بہترین موقع ہیں جنہیں ہر طرح کی بدامنی سے محفوظ رکھنا چاہیے،ایران اور پاکستان کے تعلقات گہرے اور مضبوط ہیں جس کی بنیاد مشترکہ، دین، فرہنگ اور تمدن پر استوار ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ ایران کی پالیسی ہمسایہ ممالک کے ساتھ اتحاد پر مبنی ہے اور وہ پاکستان کی سلامتی کو اپنی سلامتی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے امریکی حمایت یافتہ دہشت گردوں کو علاقے کے لئے انتہائی خطرناک قرار دیا۔اس موقع پر پاکستان کے سفیر محمد مدثر ٹیپو نے بھی تہران اور اسلام آباد کے گہرے تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان دشمنوں کو مشترکہ سرحدوں کا غلط استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دے گا، پاکستان، ایران کے ساتھ برادرانہ تعلقات کا نیا باب کھولنے کے لئے تیار ہے۔ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے ایرانی حدود کے اندر 9 پاکستانیوں کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا کہ پاکستان کے ساتھ ”تناؤ بھڑکانے“کی کوششوں کا مقابلہ کیا جائے۔اتوار کو ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان بھی ایک روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے، پاکستانی ہم منصب جلیل عباس جیلانی نے ان کے ساتھ اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاک ایران تعلقات کئی صدیوں پر محیط ہیں اور اگر دونوں ممالک کے برادرانہ تعلقات کو کسی نے بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو اسے ناکام بنا دیا جائے گا۔ اْنہوں نے کہا کہ تمام چیلنجوں سے نبٹنے کے لئے سفارتی اور عسکری سطح سمیت ہر طرح کے رابطے بحال ہیں۔ دونوں وزرائے خارجہ کا موقف تھا کہ پاک ایران سرحد پر موجود دہشت گرد دونوں ممالک کی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں اور اْن کا قلع قمع کیا جانا ضروری ہے <ref>پاک ایران تعلقات بہتری کی طرف، [https://dailypakistan.com.pk/30-Jan-2024/1674389 dailypakistan.com.pk]</ref>۔
ایران کے صدر [[سید ابراہیم رئیسی]] نے  تہران میں پاکستان کے سفیر محمد مدثر ٹیپو سے سفارتی اسناد قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی کو تہران اور اسلام آباد کے تعلقات خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کی مشترکہ سرحدیں معاشی اور سلامتی فروغ کا بہترین موقع ہیں جنہیں ہر طرح کی بدامنی سے محفوظ رکھنا چاہیے۔ایران اور پاکستان کے تعلقات گہرے اور مضبوط ہیں جس کی بنیاد مشترکہ دین، فرہنگ اور تمدن پر استوار ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ ایران کی پالیسی ہمسایہ ممالک کے ساتھ اتحاد پر مبنی ہے اور وہ پاکستان کی سلامتی کو اپنی سلامتی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے امریکی حمایت یافتہ دہشت گردوں کو علاقے کے لئے انتہائی خطرناک قرار دیا۔اس موقع پر پاکستان کے سفیر محمد مدثر ٹیپو نے بھی تہران اور اسلام آباد کے گہرے تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان دشمنوں کو مشترکہ سرحدوں کا غلط استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دے گا۔ پاکستان، ایران کے ساتھ برادرانہ تعلقات کا نیا باب کھولنے کے لئے تیار ہے۔ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے ایرانی حدود کے اندر 9 پاکستانیوں کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا کہ پاکستان کے ساتھ ”تناؤ بھڑکانے“کی کوششوں کا مقابلہ کیا جائے۔اتوار کو ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان بھی ایک روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے۔ پاکستانی ہم منصب جلیل عباس جیلانی نے ان کے ساتھ اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاک ایران تعلقات کئی صدیوں پر محیط ہیں اور اگر دونوں ممالک کے برادرانہ تعلقات کو کسی نے بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو اسے ناکام بنا دیا جائے گا۔ اْنہوں نے کہا کہ تمام چیلنجوں سے نبٹنے کے لئے سفارتی اور عسکری سطح سمیت ہر طرح کے رابطے بحال ہیں۔ دونوں وزرائے خارجہ کا موقف تھا کہ پاک ایران سرحد پر موجود دہشت گرد دونوں ممالک کی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں اور اْن کا قلع قمع کیا جانا ضروری ہے <ref>پاک ایران تعلقات بہتری کی طرف، [https://dailypakistan.com.pk/30-Jan-2024/1674389 dailypakistan.com.pk]</ref>۔
=== گیس لائن منصوبہ، ایران نے ڈیڈ لائن بڑھادی ===
گیس لائن منصوبہ، ایران نے ڈیڈ لائن بڑھادی، پاکستان پرسنجیدگی دکھانے کیلئے زور، پاکستانی میڈیا
پاکستان نے مثبت جواب نہ دیا تو ایران پیرس میں قائم بین الاقوامی ثالثی فورم میں پاکستان کیخلاف 18؍ ارب ڈالرز ہرجانے کا دعویٰ دائر کرے گا۔
مہر خبررساں ایجنسی نے جیو نیوز کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ سینئر سرکاری افسران نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ ایران نے انتہائی زیادہ تاخیر کا شکار ایران پاکستان (آئی پی) گیس لائن منصوبے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے پر پاکستان کو 180؍ دن کی ڈیڈ لائن ستمبر 2024 تک بڑھا دی ہے اور اگر پاکستان نے مثبت جواب نہ دیا تو ایران پیرس میں قائم بین الاقوامی ثالثی فورم میں پاکستان کیخلاف 18؍ ارب ڈالرز ہرجانے کا دعویٰ دائر کرے گا۔
تاہم، ایران نے پاکستان کو اپنی تکنیکی اور قانونی مہارت فراہم کرنے کی بھی پیشکش کی ہے تاکہ دونوں فریقین کیلئے مشترکہ کامیابی کی حکمت عملی اختیار کی جا سکے اور معاملہ انٹرنیشنل آربریٹریشن میں لیجانے سے گریز کیا جا سکے، ساتھ ہی پاکستان کو ایران پر عائد امریکی پابندیوں کے اثرات سے بھی بچایا جا سکے <ref>گیس لائن منصوبہ، ایران نے ڈیڈ لائن بڑھادی، [https://ur.mehrnews.com/news/1921555/%DA%AF%DB%8C%D8%B3-%D9%84%D8%A7%D8%A6%D9%86-%D9%85%D9%86%D8%B5%D9%88%D8%A8%DB%81-%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D9%86%DB%92-%DA%88%DB%8C%DA%88-%D9%84%D8%A7%D8%A6%D9%86-%D8%A8%DA%91%DA%BE%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%D9%BE%D8%A7 mehrnews.com]
</ref>.
=== ایران اور پاکستانی وزرائے خارجہ کی مشترکہ پریس کانفرنس ===
=== ایران اور پاکستانی وزرائے خارجہ کی مشترکہ پریس کانفرنس ===
ہم پاکستان کی سلامتی کو ایران اور خطے کی سلامتی سمجھتے ہیں، ایرانی وزیر خارجہ
ایرانی وزیر خارجہ:ہم پاکستان کی سلامتی کو ایران اور خطے کی سلامتی سمجھتے ہیں،۔
پاکستانی ہم منصب کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ دہشت گردوں کو مشترکہ سلامتی کو نقصان پہنچانے نہیں دیں گے، ایران اور پاکستان کے درمیان تعمیری اور مضبوط تعلقات ہیں۔
 
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستانی نگران وزیر خارجہ کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب میں ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ ایران اور پاکستان میں مقیم افراد کو ایک ہی قوم سمجھتے ہیں، پاکستان کے ساتھ اہم برادرانہ تعلقات ہیں۔
پاکستانی ہم منصب کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ دہشت گردوں کو مشترکہ سلامتی کو نقصان پہنچانے نہیں دیں گے۔ ایران اور پاکستان کے درمیان تعمیری اور مضبوط تعلقات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک نے حالیہ برسوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں۔
 
انہوں نے مزید کہا کہ ایران اور پاکستان کی سرحدوں پر دہشت گردوں کو تیسرے گروہ کی حمایت حاصل ہے جو کبھی بھی ہمارے تعلقات کے خیر خواہ نہیں رہا ہے۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستانی نگران وزیر خارجہ کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب میں ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ ہم  ایران اور پاکستان میں مقیم افراد کو ایک ہی قوم سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ اہم برادرانہ تعلقات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ جغرافیائی تعلقات بھی اہمیت کے حامل ہیں، پاکستان کی سیکیورٹی ہمارے لیے مقدم ہے۔
 
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک نے حالیہ برسوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ایران اور پاکستان کی سرحدوں پر دہشت گردوں کو تیسرے گروہ کی حمایت حاصل ہے جو کبھی بھی ہمارے تعلقات کے خیر خواہ نہیں رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ جغرافیائی تعلقات بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان کی سیکیورٹی ہمارے لیے مقدم ہے۔
 
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور ایران دہشت گردوں کو کوئی موقع نہیں دیں گے۔ دہشت گردوں نے ایران کوبہت نقصان پہنچایا۔ بارڈر پر موجود دہشت گرد دونوں ممالک کی سلامتی کےلیے خطرہ ہیں۔ایرانی وزیرخارجہ نے کہا کہ مذاکرات کے دوران دہشت گردی کے خلاف اقدامات پر گفتگو ہوئی، بارڈر پر موجود تجارتی مراکز کو فعال کرنے پر بھی بات چیت ہوئی۔انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردوں کومشترکہ سلامتی کونقصان پہنچانے نہیں دیں گے۔


انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور ایران دہشت گردوں کو کوئی موقع نہیں دیں گے، دہشت گردوں نے ایران کوبہت نقصان پہنچایا، بارڈر پر موجود دہشت گرد دونوں ممالک کی سلامتی کےلیے خطرہ ہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان کسی بھی قسم کا سرحدی تنازع نہیں۔انہوں نے اعلان کیا کہ ہمیں پاکستانی حکومت کی طرف سے آیت اللہ رئیسی کے دورے کی باضابطہ دعوت موصول ہوئی ہے، اور ہم مل کر پوری طرح کوشش کریں گے کہ ایرانی صدر جلد پاکستان کا دورہ کریں۔
ایرانی وزیرخارجہ نے کہا کہ مذاکرات کے دوران دہشت گردی کے خلاف اقدامات پر گفتگو ہوئی، بارڈر پر موجود تجارتی مراکز کو فعال کرنے پر بھی بات چیت ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردوں کومشترکہ سلامتی کونقصان پہنچانے نہیں دیں گے، ایران اور پاکستان کے درمیان تعمیری اور مضبوط تعلقات ہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان کسی بھی قسم کا سرحدی تنازع نہیں، پاکستان کی سیکیورٹی ہمارے لیے مقدم ہے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ ہمیں پاکستانی حکومت کی طرف سے آیت اللہ رئیسی کے دورے کی باضابطہ دعوت موصول ہوئی ہے، اور ہم مل کر پوری طرح کوشش کریں گے کہ ایرانی صدر جلد پاکستان کا دورہ کریں۔


پاکستان اور ایران کے درمیان مضبوط تعلقات دونوں کی ترقی کیلئے اہم ہیں، پاکستانی نگران وزیر خارجہ
پاکستان اور ایران کے درمیان مضبوط تعلقات دونوں کی ترقی کیلئے اہم ہیں۔ پاکستانی نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا ہے کہ ایران اور پاکستان دوست ہمسایہ ملک ہیں۔ ایران سے دیرینہ ثقافتی، مذہبی اور برادرانہ تعلقات ہیں۔ مضبوط تعلقات دونوں ممالک کی ترقی کے لیے اہم ہیں۔ ہم ایران سے تعلقات اور مختلف شعبوں میں تعاون کو وسعت دینےکے خواہاں ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کارروائی کی ضرورت ہے۔ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ دونوں ممالک سیاسی اور سیکیورٹی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ دہشت گردی دونوں ممالک کے لیے ایک خطرہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ملکی سلامتی اور خودمختاری کا احترام اولین ترجیح ہے۔ ہم سرحدوں پر معاشی مواقع پیدا کرنے کے خواہاں ہیں، پاکستان اور ایران کے درمیان گہرا اور مضبوط سفارتی تعلق ہے <ref>ہم پاکستان کی سلامتی کو ایران اور خطے کی سلامتی سمجھتے ہیں، ایرانی وزیر خارجہ، [https://ur.mehrnews.com/news/1921556/%DB%81%D9%85-%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%D8%AA%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AE%D8%B7%DB%92-%DA%A9%DB%8C-%D8%B3%D9%84%D8%A mehrnews.com]</ref>۔
نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا ہے کہ ایران اور پاکستان دوست ہمسایہ ملک ہیں، ایران سے دیرینہ ثقافتی، مذہبی اور برادرانہ تعلقات ہیں، مضبوط تعلقات دونوں ممالک کی ترقی کے لیے اہم ہیں۔
=== ایرانی وزیر خارجہ کی پاکستانی آرمی چیف سے ملاقات ===
انہوں نے کہا کہ مضبوط تعلقات دونوں ممالک کی ترقی کے لیے اہم ہیں، ایران سے تعلقات اور مختلف شعبوں میں تعاون کو وسعت دینےکے خواہاں ہیں، دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کارروائی کی ضرورت ہے۔ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ دونوں ممالک سیاسی اور سیکیورٹی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہیں، دہشت گردی دونوں ممالک کے لیے ایک خطرہ ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کی پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات ہوئی جہاں پاک-ایران دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے پر زور دیا گیا ہے۔مہر خبررساں ایجنسی نے پاکستانی میڈیا کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی میں ہونے والی ملاقات میں باہمی تعلقات کو فروغ دینے اور ساتھ ہی ایک دوسرے کی تشویش کو سمجھنے کی ضرورت پر اتفاق کیا گیا۔اس موقع پر پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ خودمختاری اور جغرافیائی سرحدوں کا احترام کیا جانا چاہیے۔دونوں جانب سے اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ دہشت گردی دونوں ممالک کے لیے مشترکہ خطرہ ہے <ref>ایرانی وزیر خارجہ کی پاکستانی آرمی چیف سے ملاقات، [https://ur.mehrnews.com/news/1921558/%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%AE%D8%A7%D8%B1%D8%AC%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%A2%D8%B1%D9%85%DB%8C-%DA%86%DB%8C%D9%81-%D8%B3%DB%92-%D9%85 mehrnews.com]</ref>۔
انہوں نے کہا کہ ملکی سلامتی اور خودمختاری کا احترام اولین ترجیح ہے، ہم سرحدوں پر معاشی مواقع پیدا کرنے کے خواہاں ہیں، پاکستان اور ایران کے درمیان گہرا اور مضبوط سفارتی تعلق ہے <ref>ہم پاکستان کی سلامتی کو ایران اور خطے کی سلامتی سمجھتے ہیں، ایرانی وزیر خارجہ، [https://ur.mehrnews.com/news/1921556/%DB%81%D9%85-%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%D8%AA%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AE%D8%B7%DB%92-%DA%A9%DB%8C-%D8%B3%D9%84%D8%A mehrnews.com]</ref>۔
=== ایرانی وزیر خارجہ کی پاکستانی آرمی چیف سے ملاقات، باہمی تعلقات کو مزید فروغ دینے پر زور ===
ایرانی وزیر خارجہ کی پاکستانی آرمی چیف سے ملاقات، باہمی تعلقات کو مزید فروغ دینے پر زور
ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کی پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات ہوئی جہاں پاک-ایران دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
مہر خبررساں ایجنسی نے پاکستانی میڈیا کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی میں ہونے والی ملاقات میں باہمی تعلقات کو فروغ دینے اور ساتھ ہی ایک دوسرے کی تشویش کو سمجھنے کی ضرورت پر اتفاق کیا گیا۔
اس موقع پر پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ خودمختاری اور جغرافیائی سرحدوں کا احترام کیا جانا چاہیے۔
دونوں جانب سے اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ دہشت گردی دونوں ممالک کے لیے مشترکہ خطرہ ہے <ref>ایرانی وزیر خارجہ کی پاکستانی آرمی چیف سے ملاقات، [https://ur.mehrnews.com/news/1921558/%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%AE%D8%A7%D8%B1%D8%AC%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%A2%D8%B1%D9%85%DB%8C-%DA%86%DB%8C%D9%81-%D8%B3%DB%92-%D9%85 mehrnews.com]</ref>۔


== عراق سے تعلقات ==
== عراق سے تعلقات ==
1980ء کی دہائی میں ایران عراق جنگ کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات کبھی معمول پر نہیں آسکے تاہم عراق کے تنازعے پر ایران نے غیر جانبدار ہونے کا اعلان کر دیا اگرچہ اس نے فوجی کارروائی پر تنقید کی لیکن اس نے اعلان کیا کہ وہ تنازعے سے باہر رہے گا۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ ایک مستحکم اور متحد عراق کے لیے کام کرنا چاہتا ہے۔ ایران کا عراق کی عبوری حکومت کے ساتھ براہ راست دو طرف معاہدہ ہے۔ ایران بجلی کی فراہمی کے سلسلے میں عراق کی مدد کر رہا ہے۔ 30 نومبر 2004ء کو عراق میں سلامتی، عام انتخابات کے بروقت انعقاد اور بیرونی عناصر کی مداخلت روکنے پر غور کے لیے ایران میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس کی میزبانی ایرانی وزارت داخلہ نے کی۔ اس کانفرنس میں عراق، سعودی عرب، کویت، ترکی، اردن اور مصر کے وزرائے داخلہ اور سیکورٹی حکام نے شرکت کی۔
1980ء کی دہائی میں ایران عراق جنگ کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات کبھی معمول پر نہیں آسکے تاہم عراق کے تنازعے پر ایران نے غیر جانبدار ہونے کا اعلان کر دیا۔ اگرچہ اس نے فوجی کارروائی پر تنقید کی لیکن ساتھ ہی اعلان کیا کہ وہ تنازعے سے باہر رہے گا۔ ایران کا کہنا ہے کہ وہ ایک مستحکم اور متحد عراق کے لیے کام کرنا چاہتا ہے۔ ایران کا عراق کی عبوری حکومت کے ساتھ براہ راست دو طرفہ معاہدہ ہے۔ ایران بجلی کی فراہمی کے سلسلے میں عراق کی مدد کر رہا ہے۔ 30 نومبر 2004ء کو عراق میں سلامتی، عام انتخابات کے بروقت انعقاد اور بیرونی عناصر کی مداخلت روکنے پر غور کے لیے ایران میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس کی میزبانی ایرانی وزارت داخلہ نے کی۔ اس کانفرنس میں عراق، سعودی عرب، کویت، ترکی، اردن اور مصر کے وزرائے داخلہ اور سیکورٹی حکام نے شرکت کی۔
== افغانستان ==
== افغانستان ==
ایران افغان خانہ جنگی سے بھی متاثر ہو رہا ہے اور وہاں استحکام کے فروغ کا خواہاں نظر آ رہا ہے۔ ایران نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے 5 سالوں میں 560 ملین ڈالرز دینے کا وعدہ کیا ہے۔ دونوں ملکوں نے منشیات کے خلاف ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کیا ہے۔ ایران میں لاکھوں افغان مہاجرین رہائش پزیر ہیں جن کی وطن واپسی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
ایران افغان خانہ جنگی سے بھی متاثر ہو رہا ہے اور وہاں استحکام کے فروغ کا خواہاں نظر آ رہا ہے۔ ایران نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے 5 سالوں میں 560 ملین ڈالرز دینے کا وعدہ کیا ہے۔ دونوں ملکوں نے منشیات کے خلاف ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کیا ہے۔ ایران میں لاکھوں افغان مہاجرین رہائش پزیر ہیں جن کی وطن واپسی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
== اسرائیل ==
== اسرائیل ==
1979ء میں انقلابِ اسلامی کے بعد سے ایران کا موقف یہ رہا ہے کہ [[اسرائیل]] کا وجود غیر قانونی ہے۔ ایران اب بھی اسرائیل کی پرجوش مخالفت پر قائم ہے۔ وہ مشرق وسطی میں امن قائم کرنے کے اقدامات پر بھی اعتراضات کرتا رہتا ہے اور مبینہ طور پر [[فلسطین]] اور [[لبنان]] کے ان اسرائیل مخالف گروہوں کی مدد کرتا رہتا ہے۔ 2002ء میں ایرانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ اگر اسرائیل اور فلسطین کو کوئی معاہدہ قابل قبول ہو تو ایران ایسے دو طرفہ معاہدے کو رد نہیں کرے گا۔
1979ء میں انقلابِ اسلامی کے بعد سے ایران کا موقف یہ رہا ہے کہ [[اسرائیل]] کا وجود غیر قانونی ہے۔ ایران اب بھی اسرائیل کی پرجوش مخالفت پر قائم ہے۔ایران  مبینہ طور پر [[فلسطین]] اور [[لبنان]] کے اسرائیل مخالف گروہوں کی مدد کرتا رہتا ہے۔ 2002ء میں ایرانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ اگر اسرائیل اور فلسطین کو کوئی معاہدہ قابل قبول ہو تو ایران ایسے دو طرفہ معاہدے کو رد نہیں کرے گا۔


== آبادیات ==
== آبادی ==
ایران ایک متنوع ملک ہے جہاں بہت سے نسلی گروہ پائے جاتے ہیں، ان میں فارسی بولنے والے سب سے زیادہ ہیں۔ بیسویں صدی کے اواخر میں ایران کی آبادی تیزی سے بڑھی، 1956ء میں ایران کی آبادی صرف 19 ملین تھی جو 2009ء تک 79 ملین تک جاپہنچی۔ تاہم حالیہ چند سالوں میں ایران کی شرح پیدائش میں نمایا کمی آئی ہے 2012ء میں لیے گئے اندازے کے مطابق ایران کی شرح پیدائش 1.29 فیصد رہی۔
ایران ایک متنوع ملک ہے جہاں بہت سے نسلی گروہ پائے جاتے ہیں، ان میں فارسی بولنے والے سب سے زیادہ ہیں۔ بیسویں صدی کے اواخر میں ایران کی آبادی تیزی سے بڑھی۔ 1956ء میں ایران کی آبادی صرف 19 ملین تھی جو 2009ء تک 79 ملین تک جاپہنچی۔ تاہم حالیہ چند سالوں میں ایران کی شرح پیدائش میں نمایاں کمی آئی ہے ۔2012ء میں لیے گئے اندازے کے مطابق ایران کی شرح پیدائش 1.29 فیصد رہی۔


ایران دنیا کے چند ممالک میں سے ایک ہیں جہاں پناہ گزینوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے جو زیادہ تر افغانستان اور عراق میں جاری جنگوں کے باعث ایران آئے ہیں۔ ایرانی آئین کے مطابق حکومتِ وقت پر ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کریں جن میں جان و مال کا تحفظ، طبی سہولیات، معزور افراد کی دیگ بال، وغیرہ شامل ہیں اور ان چیزوں پر خرچہ بجٹ کے ذریعے حاصل کردہ ریونیو (سالانہ آمدنی) سے کیا جاتا ہے۔
ایران دنیا کے چند ممالک میں سے ایک ہیں جہاں پناہ گزینوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے جو زیادہ تر افغانستان اور عراق میں جاری جنگوں کے باعث ایران آئے ہیں۔ ایرانی آئین کے مطابق حکومتِ وقت پر ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کریں جن میں جان و مال کا تحفظ، طبی سہولیات، معزور افراد کی دیکھ بھال، وغیرہ شامل ہیں اور ان چیزوں پر خرچہ بجٹ کے ذریعے حاصل کردہ ریونیو (سالانہ آمدنی) سے کیا جاتا ہے۔
== زبانیں ==
== زبانیں ==
ملک کی اکثریت باشندے فارسی زبان بولتے ہیں جو اکثریتی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ ایران کی سرکاری زبان بھی ہے۔ ایران میں بولے جانے والے زبانیں اکثر ہند-ایرانی زبانیں ہیں۔ اقلیتی زبانوں کی بات کی جائے تو ایران کے شمال مغرب میں آذربائجانی، شمال میں ترکمن اور مشرق میں پاکستانی سرحدوں کے قریب علاقے میں بلوچی زبان بولی جاتی ہے۔
ملک کے اکثرباشندے فارسی زبان بولتے ہیں جو اکثریتی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ ایران کی سرکاری زبان بھی ہے۔ ایران میں بولے جانے والی زبانیں اکثر ہند-ایرانی زبانیں ہیں۔ اقلیتی زبانوں کی بات کی جائے تو ایران کے شمال مغرب میں آذربائجانی، شمال میں ترکمن اور مشرق میں پاکستانی سرحدوں کے قریب علاقے میں بلوچی زبان بولی جاتی ہے۔


ایران میں 53 فیصد افراد کی فارسی، 16 فیصد کی آذربائجانی، 10 فیصد کی کردی، 7 کی فیصد گیلکی اور مزدارین، 7 فیصد کی لوری، 2 فیصد کی عربی اور 2 فیصد کی بلوچی مادری زبان ہے۔ تاہم ان تمام مادری زبانوں کا استعمال صرف بطور علاقائی زبان کیا جاتا ہے باقی ملک بحر میں فارسی ہی استعمال ہوتی ہے۔
ایران میں 53 فیصد افراد کی فارسی، 16 فیصد کی آذربائجانی، 10 فیصد کی کردی، 7 کی فیصد گیلکی اور مزدارین، 7 فیصد کی لوری، 2 فیصد کی عربی اور 2 فیصد کی بلوچی مادری زبان ہے۔ تاہم ان تمام مادری زبانوں کا استعمال صرف بطور علاقائی زبان کیا جاتا ہے باقی ملک بھر میں فارسی ہی استعمال ہوتی ہے۔


== مذہب ==
== مذہب ==
تاریخی طور پر زرتشتیت ایران کا قدیم مذہب تھا خاص کر ہخامنشی سلطنت، سلطنت اشکانیان اور ساسانی سلطنت کے ادوار میں زرتشتیت ہی ایران کا سب سے بڑا مذہب تھا۔ 651ء کے لگ بگ مسلمانوں نے ایران کو فتح کیا اور یہاں سے آتش پرست ساسانی سلطنت کا سقوط ہو گیا، مسلم فتح کے بعد دھیرے دھیرے اسلام پھیلتا گیا۔ ایران میں لوگ 15ویں صدی تک سنی اسلام کے پیروکار تھے، تاہم 1501ء میں صفوی سلطنت قائم ہو گیا جس نے 16ویں صدی میں مقامی سنی مسلم آبادی کو دباؤ کے ذریعے اثنا عشریہ اہل تشیع مسلم میں تبدیل کیا۔
تاریخی طور پر زرتشتیت ایران کا قدیم مذہب تھا۔ خاص کر ہخامنشی سلطنت، سلطنت اشکانیان اور ساسانی سلطنت کے ادوار میں زرتشتیت ہی ایران کا سب سے بڑا مذہب تھا۔ 651ء کے لگ بھگ مسلمانوں نے ایران کو فتح کیا اور یہاں آتش پرست ساسانی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا، مسلم فتح کے بعد دھیرے دھیرے اسلام پھیلتا گیا۔ آج اسلام ایران کا سرکاری مذہب ہے۔ایران کی 90 فیصد آبادی شیعہ اسلام کی پیروکار ہے، 8 فیصد سنی اسلام اور باقی 2 فیصد غیر مسلم ہیں۔
آج اثنا عشرہ شیعہ اسلام ایران کا سرکاری مذہب ہے۔ ایران کی 90 فیصد آبادی شیعہ اسلام کے پیروکار ہے، 8 فیصد سنی اسلام اور باقی کے 2 فیصد غیر مسلم ہیں۔
== امام خمینیؒ اور انقلاب اسلامی کی جمہوری بنیادیں ==
== امام خمینیؒ اور انقلاب اسلامی کی جمہوری بنیادیں ==
امام خمینی نےاسلامی انقلاب کو ایران میں کامیابی سے ہمکنار کیا بلکہ پورے عالم اسلام میں اسلامی حریت کا بیج چھڑک دیا ور مسلمانوں میں ایک نئی امن اور ولولہ بیداری و آگاہی کی انقلابی کیفیت پیدا کر دی۔
امام خمینی نےاسلامی انقلاب کو ایران میں کامیابی سے ہمکنار کیا بلکہ پورے عالم اسلام میں اسلامی حریت کا بیج چھڑک دیا ور مسلمانوں میں ایک نئی امن اور ولولہ بیداری و آگاہی کی انقلابی کیفیت پیدا کر دی۔
confirmed
821

ترامیم