4,450
ترامیم
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
اسلامی شریعت کا پورا علم ہم کو بڑے ذرائع [[قرآن]] اور حدیث سے حاصل ہوتا ہے۔ | '''حدیث''' اسلامی شریعت کا پورا علم ہم کو بڑے ذرائع [[قرآن]] اور حدیث سے حاصل ہوتا ہے۔ | ||
== حدیث کے لغوی معنی == | == حدیث کے لغوی معنی == | ||
بات چیت، نئی چیز،بیان، ذکر، قصہ، کہانی، تاریخ یا سند ہے۔ | بات چیت، نئی چیز،بیان، ذکر، قصہ، کہانی، تاریخ یا سند ہے۔ | ||
سطر 10: | سطر 10: | ||
== حدیث کی تعریف == | == حدیث کی تعریف == | ||
حدیث کا لفظ تحدیث سے اسم ہے تحدیث کے معنی خبر دینا ہے۔ ظہور [[اسلام]] سے پہلے عرب حدیث کے لفظ کو اخبار کے معنی میں استعمال کرتے تھے مثلاً وہ اپنے مشہور ایام کو احادیث کے نام سے موسوم کرتے تھے ۔ اس لئے [[شیعہ]] نے اس روایت کو قائم کیا ہوا ہے اور اپنی حدیث کی کتابوں کو اخبار کہتے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|حضرت محمد ﷺ]] کے قول و فعل اور تقریر کا نام حدیث ہے اس کی جمع احادیث ہے۔ اصطلاحی معنی میں حضور کے وہ اقوال ہیں جو راویوں کے ذریعہ نسلاً بعد نسل تواتر کے ساتھ وہ عمل میں پہنچے ہیں۔ | حدیث کا لفظ تحدیث سے اسم ہے تحدیث کے معنی خبر دینا ہے۔ ظہور [[اسلام]] سے پہلے عرب حدیث کے لفظ کو اخبار کے معنی میں استعمال کرتے تھے مثلاً وہ اپنے مشہور ایام کو احادیث کے نام سے موسوم کرتے تھے ۔ اس لئے [[شیعہ]] نے اس روایت کو قائم کیا ہوا ہے اور اپنی حدیث کی کتابوں کو اخبار کہتے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|حضرت محمد ﷺ]] کے قول و فعل اور تقریر کا نام حدیث ہے اس کی جمع احادیث ہے۔ اصطلاحی معنی میں حضور کے وہ اقوال ہیں جو راویوں کے ذریعہ نسلاً بعد نسل تواتر کے ساتھ وہ عمل میں پہنچے ہیں۔ | ||
حدیث کے معنی اسلامی اصطلاح میں حضور کی وہ باتیں ہیں جن کو حضور نے [[قرآن]] کو سمجھانے کے لئے ہائی ہیں۔ جیسے قرآن کہتا ہے کہ [[نماز]] پڑھ مگر قرآن میں وقت کے متعلق نہیں لکھا کہ کسی وقت سے کسی وقت تک اور کس وقت کتنی رکعت پڑھنی چاہیے رکوع کے ہیے رکوع کیسے کرنا چاہیے اور سجدہ کیسے کرنا چاہیے۔ اور اس نماز میں کیا پڑھنا چاہیے یہ سب قرآن میں بیان نہیں ہوا ہے یہ سب باتیں حضور نے بتائی ہیں اور یہ سب باتیں حدیث سے ملتی | حدیث کے معنی اسلامی اصطلاح میں حضور کی وہ باتیں ہیں جن کو حضور نے [[قرآن]] کو سمجھانے کے لئے ہائی ہیں۔ جیسے قرآن کہتا ہے کہ [[نماز]] پڑھ مگر قرآن میں وقت کے متعلق نہیں لکھا کہ کسی وقت سے کسی وقت تک اور کس وقت کتنی رکعت پڑھنی چاہیے رکوع کے ہیے رکوع کیسے کرنا چاہیے اور سجدہ کیسے کرنا چاہیے۔ اور اس نماز میں کیا پڑھنا چاہیے یہ سب قرآن میں بیان نہیں ہوا ہے یہ سب باتیں حضور نے بتائی ہیں اور یہ سب باتیں حدیث سے ملتی ہیں <ref>مولانا مجیب اللہ ندوی، اسلامی فقه جلد اول،، غلام رسول پروگریسو بکس ۴۰ - بی اردو بازار لاہور</ref>۔ | ||
== حدیث کی قسمیں == | == حدیث کی قسمیں == | ||
حدیث کی دو قسمیں ہیں ایک الہی جسے قدسی کہتے ہیں اور دوسری نبوی ، قدسی حدیث میں حضور اپنے پروردگار سے روایت کرتے ہیں۔ حدیث قدسی اور دیگر احادیث میں نمایاں فرق یہ ہے کہ اس میں ( قال اللہ تعالی ) " اللہ تعالیٰ نے فرمایا" کے الفاظ ہوتے ہیں ویسے دیگر الہامات ربانی کی طرح یہ بھی ایک الہام ہوتا ہے ۔ حضور بسا اوقات کچھ چیزیں اللہ کی طرف منسوب کر کے فرمایا کرتے تھے مگر قرآن میں وہ موجود نہیں اس طرح کی احادیث کو حدیث قدسی کہا جاتا ہے۔ | حدیث کی دو قسمیں ہیں ایک الہی جسے قدسی کہتے ہیں اور دوسری نبوی ، قدسی حدیث میں حضور اپنے پروردگار سے روایت کرتے ہیں۔ حدیث قدسی اور دیگر احادیث میں نمایاں فرق یہ ہے کہ اس میں ( قال اللہ تعالی ) " اللہ تعالیٰ نے فرمایا" کے الفاظ ہوتے ہیں ویسے دیگر الہامات ربانی کی طرح یہ بھی ایک الہام ہوتا ہے ۔ حضور بسا اوقات کچھ چیزیں اللہ کی طرف منسوب کر کے فرمایا کرتے تھے مگر قرآن میں وہ موجود نہیں اس طرح کی احادیث کو حدیث قدسی کہا جاتا ہے۔ | ||
سطر 19: | سطر 19: | ||
== تقریری == | == تقریری == | ||
کوئی کام یا بات جو حضور کے سامنے واقعہ ہوا ہو اور حضور نے اُس کام کو دیکھا اور حضور نہ بولےنہ انہوں نے اُس کام کو غلط کہا اور نہ صحیح کہا اس پر اعتراض نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جائز اور درست ہے ورنہ حضور خاموش نہ رہتے۔ | کوئی کام یا بات جو حضور کے سامنے واقعہ ہوا ہو اور حضور نے اُس کام کو دیکھا اور حضور نہ بولےنہ انہوں نے اُس کام کو غلط کہا اور نہ صحیح کہا اس پر اعتراض نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جائز اور درست ہے ورنہ حضور خاموش نہ رہتے۔ | ||
صحابی کے کسی فعل پر حضور کا خاموش رہنا محدثین کی اصطلاح میں " تقریر کہلاتا ہے یہ حدیث کی تیسری قسم ہے جسے حدیث تقریری کہتے | صحابی کے کسی فعل پر حضور کا خاموش رہنا محدثین کی اصطلاح میں " تقریر کہلاتا ہے یہ حدیث کی تیسری قسم ہے جسے حدیث تقریری کہتے ہیں <ref>زاہد حسین مرزا، اظہار الحق جلد ۲، اہل حرم کے سومنات ، مجلس صوت الاسلام میر پور</ref>۔ | ||
== سنت == | == سنت == | ||
سنت کے لغوی معنی ہیں طریقہ یا قاعدہ یا کسی کا ڈھب یا زندگی کا اسلوب ہے۔ اسلام میں سنت سے مراد حضور کی فعلی روش ہے پس وہ عملی نمونہ جو حضور نے پیش کیا اس کا نام سنت ہے ۔ سُنت . کے لفظی معنی راستہ اور طریقہ کے ہیں اسلامی اصطلاح کے مطابق سنت کے ادا کرنے سے ثواب ملتا ہے سنت ادانہ کرنے میں عذاب نہیں ملتاسنت اُس کام کو کہتے ہیں جس کو رسول اللہ یا صحابہ کرام نے کیا ہو یا حکم فرمایا ہو ۔ جب بھی لفظ سنت آئے گا تو اُس کا تعلق حضور سے ہوگا ۔ اصول حدیث وفقہ کے علماء کے نزدیک حدیث و سنت" کے الفاظ ہم معنی ہیں یہ کہنا کہ سنت سے مراد حضور کا عملی طریق اور حدیث سے مراد حضور کے اقوال میں بالکل غلط اور فن سے نا واقف ہونے کی دلیل ہے ۔ سنت اور حدیث مترادف ہیں اور شرعاً یہ دونوں حجت ہیں سنت کا اطلاق زیادہ تر حضور کے اقوال وافعال اور تقریر پر کیا جاتا ہے لہٰذا یہ لفظ علمائے اصول کے نزدیک حدیث کا مترادف ہے حدیث و سنت“ کے الفاظ ہم صرف چند ایک سنتیں جو حضرت ابراہیم کی ہیں جن کو [[مسلمان]] مانتے ہیں مثلا حج کی چند رسومات اور قربانی کی عید اس کو سنت ابراہیمی بھی کہتے ہیں سنت کی قسمیں | سنت کے لغوی معنی ہیں طریقہ یا قاعدہ یا کسی کا ڈھب یا زندگی کا اسلوب ہے۔ اسلام میں سنت سے مراد حضور کی فعلی روش ہے پس وہ عملی نمونہ جو حضور نے پیش کیا اس کا نام سنت ہے ۔ سُنت . کے لفظی معنی راستہ اور طریقہ کے ہیں اسلامی اصطلاح کے مطابق سنت کے ادا کرنے سے ثواب ملتا ہے سنت ادانہ کرنے میں عذاب نہیں ملتاسنت اُس کام کو کہتے ہیں جس کو رسول اللہ یا صحابہ کرام نے کیا ہو یا حکم فرمایا ہو ۔ جب بھی لفظ سنت آئے گا تو اُس کا تعلق حضور سے ہوگا ۔ اصول حدیث وفقہ کے علماء کے نزدیک حدیث و سنت" کے الفاظ ہم معنی ہیں یہ کہنا کہ سنت سے مراد حضور کا عملی طریق اور حدیث سے مراد حضور کے اقوال میں بالکل غلط اور فن سے نا واقف ہونے کی دلیل ہے ۔ سنت اور حدیث مترادف ہیں اور شرعاً یہ دونوں حجت ہیں سنت کا اطلاق زیادہ تر حضور کے اقوال وافعال اور تقریر پر کیا جاتا ہے لہٰذا یہ لفظ علمائے اصول کے نزدیک حدیث کا مترادف ہے حدیث و سنت“ کے الفاظ ہم صرف چند ایک سنتیں جو حضرت ابراہیم کی ہیں جن کو [[مسلمان]] مانتے ہیں مثلا حج کی چند رسومات اور قربانی کی عید اس کو سنت ابراہیمی بھی کہتے ہیں سنت کی قسمیں ہیں | ||
سنت موکده 2۔ سنت غیر موکدہ سنت موکدہ اور سنت غیر موکدہ کا زیادہ ذکر نماز روں میں آئے گا۔ | سنت موکده 2۔ سنت غیر موکدہ سنت موکدہ اور سنت غیر موکدہ کا زیادہ ذکر نماز روں میں آئے گا۔ | ||
== سنت موکدہ == | == سنت موکدہ == | ||
سطر 75: | سطر 75: | ||
(۲) عزیز: جس حدیث کے راوی کسی زمانے میں کم سے کم دور ہے ہوں اس کو عزیز کہتے ہیں۔ | (۲) عزیز: جس حدیث کے راوی کسی زمانے میں کم سے کم دور ہے ہوں اس کو عزیز کہتے ہیں۔ | ||
(۳) غریب: جس حدیث کے راوی کسی زمانے میں ایک رہا ہو غریب“ کہلاتی ہے۔ حدیث کی کتابوں میں اکثر یہ دیکھنے میں آئے گا کہ یہ حدیث غریب ہے یہ حدیث مشہور ہے اور یہ حدیث عزیز ہے تو اُس وقت یہ پتہ چل جانا چاہیے کہ یہ حدیث کی کون کی قسم ہے ۔ مشہور حدیث کی آگے قسمیں ہے ہیں جن کا بہت دفعہ کر آئے گاصیح حدیث کی تین قسمیں ہیں۔ (۱) صبح (۲) حسن (۳) | (۳) غریب: جس حدیث کے راوی کسی زمانے میں ایک رہا ہو غریب“ کہلاتی ہے۔ حدیث کی کتابوں میں اکثر یہ دیکھنے میں آئے گا کہ یہ حدیث غریب ہے یہ حدیث مشہور ہے اور یہ حدیث عزیز ہے تو اُس وقت یہ پتہ چل جانا چاہیے کہ یہ حدیث کی کون کی قسم ہے ۔ مشہور حدیث کی آگے قسمیں ہے ہیں جن کا بہت دفعہ کر آئے گاصیح حدیث کی تین قسمیں ہیں۔ (۱) صبح (۲) حسن (۳) ضعیف <ref>سید عبد الصبور طارق، معلومات حدیث، مکتبہ تعمیر انسانیت اردو بازار لاہور</ref>۔ | ||
== صحیح حدیث == | == صحیح حدیث == | ||
(صحیح حدیث اس کو کہتے ہیں جن کی سند حسن ہو اور جس کے بارے میں راوی عادل ہوں مجروح ( بد نام ) اور مستور الحال ( گم نام ) نہ ہوں اور مصنف سے رسول اللہ تک سند متصل ہو ( متصل سے مراد یہ ہے کہ سند کہیں سے منقطع نہ ہو ) یعنی سلسلہ روایت کی کوئی کڑی درمیان سے غائب نہ ہو۔ اور دوسرے راویوں کی روایت سے نہ ٹکرائے اور اس میں کوئی پوشیدہ سبب موجود نہ ہو۔ صحیح حدیث شاذ نہیں ہوتی شاذ سے مراد ایک راوی اپنے سے بڑے راوی کی مخالفت نہ کرتا ہو۔ محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحیح ترین احادیث وہ ہیں جن کو اہل مدینہ نے روایت کیا اس کے بعد اہل بصرہ کا درجہ ہے پھر اہل شام کا صحیح ترین احادیث وہ ہیں جن کو اہل حرمین ( مکہ و مدینہ ) نے روایت کیا اور اس میں کوئی عیب چھپا ہوا نہ ہو اور نہ معتبر لوگوں نے مخالفت کی ہو۔ کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہو سکتی ۔ محمد ثین کا اصول ہے کہ جو روایت قرآن اور سنت مظہرہ کے خلاف ہو وہ قول رسول نہیں ہو سکتی ۔ امام بخاری ، مسلم اور دیگر ائمہ حدیث نے اصول حدیث کی روح سے جن احادیث کو صحیح کہا ہے یقینا وہ قرآن وسنت کے مطابق ہیں صحیح بخاری و مسلم میں صرف صحیح احادیث درج کی گئی ہیں۔ اس لئے ان میں کوئی روایت نہیں جو کتاب وسنت کے خلاف ہو: | (صحیح حدیث اس کو کہتے ہیں جن کی سند حسن ہو اور جس کے بارے میں راوی عادل ہوں مجروح ( بد نام ) اور مستور الحال ( گم نام ) نہ ہوں اور مصنف سے رسول اللہ تک سند متصل ہو ( متصل سے مراد یہ ہے کہ سند کہیں سے منقطع نہ ہو ) یعنی سلسلہ روایت کی کوئی کڑی درمیان سے غائب نہ ہو۔ اور دوسرے راویوں کی روایت سے نہ ٹکرائے اور اس میں کوئی پوشیدہ سبب موجود نہ ہو۔ صحیح حدیث شاذ نہیں ہوتی شاذ سے مراد ایک راوی اپنے سے بڑے راوی کی مخالفت نہ کرتا ہو۔ محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحیح ترین احادیث وہ ہیں جن کو اہل مدینہ نے روایت کیا اس کے بعد اہل بصرہ کا درجہ ہے پھر اہل شام کا صحیح ترین احادیث وہ ہیں جن کو اہل حرمین ( مکہ و مدینہ ) نے روایت کیا اور اس میں کوئی عیب چھپا ہوا نہ ہو اور نہ معتبر لوگوں نے مخالفت کی ہو۔ کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہو سکتی ۔ محمد ثین کا اصول ہے کہ جو روایت قرآن اور سنت مظہرہ کے خلاف ہو وہ قول رسول نہیں ہو سکتی ۔ امام بخاری ، مسلم اور دیگر ائمہ حدیث نے اصول حدیث کی روح سے جن احادیث کو صحیح کہا ہے یقینا وہ قرآن وسنت کے مطابق ہیں صحیح بخاری و مسلم میں صرف صحیح احادیث درج کی گئی ہیں۔ اس لئے ان میں کوئی روایت نہیں جو کتاب وسنت کے خلاف ہو: | ||
سطر 130: | سطر 130: | ||
صحابہ کے قول اور فعل کو اثر کہا جاتا ہے اس کی جمع آثار ہے۔ کسی چیز کے بقیہ اور نشان کو کہتے ہیں نقل کو اثر سے تعبیر کیا جاتا ہے جس بات میں تم بحث کر رہے ہو سننے والے نقل کرنے والے کی نگاہ میں برابر ہے صحابہ کرام اور تابعین سے جو مسائل معقول نہیں انہیں آثار کہا جاتا ہے اصطلاحاً حضور کے ارشادات پر بھی اثر بولا جاتا ہے۔ | صحابہ کے قول اور فعل کو اثر کہا جاتا ہے اس کی جمع آثار ہے۔ کسی چیز کے بقیہ اور نشان کو کہتے ہیں نقل کو اثر سے تعبیر کیا جاتا ہے جس بات میں تم بحث کر رہے ہو سننے والے نقل کرنے والے کی نگاہ میں برابر ہے صحابہ کرام اور تابعین سے جو مسائل معقول نہیں انہیں آثار کہا جاتا ہے اصطلاحاً حضور کے ارشادات پر بھی اثر بولا جاتا ہے۔ | ||
== اسناد == | == اسناد == | ||
صحابہ کرام کے عہد میں کسی روایت کی توثیق کا قاعدہ یہ تھا کہ راوی سے شہادت طلب کی جاتی تھی۔ تابعین کے عہد میں صرف شہادت کافی نہیں ہو سکتی تھی ۔ اس لئے اسناد کا سلسلہ قائم کیا گیا یعنی جب بھی کوئی راوی روایت بیان کرتا تھا تو اُسے بتانا پڑتا تھا کہ اس نے وہ روایت کس سے سنی ہے اور اس روایت کا سلسلہ صحابہ تک پہنچ جاتا تھا اور پھر اُس روایت کا سلسلہ ثقہ راویوں کے ذریعہ حضور تک پہنچتا تھا جب طرح طرح کے فرقے پیدا ہو گئے تو عقائد باطلہ کو ثابت کرنے کے لئے احادیث وضع ہونا شروع ہوئیں تو سند حدیث کی روایت کے لئے ایک لازمی اور اہم شرط قرار دے دی گئی ۔ حدیث کے راویوں کے سلسلہ کو سند کہتے ہیں۔ عظیم محدت این مبارک کہتے ہیں جو شخص دین کو بغیر اسناد کے حاصل کرتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی بغیر سیڑھی کے چھت پر چڑھے اسناد کے بغیر حدیث کی کوئی وقعت نہیں ۔ (۱) اسناد بیان کرنا (۲) نسب بیان کرنا (۳) اعراب لگانا ۔ سند اور روایت کا علم اللہ کا وہ انعام ہے جس کے ساتھ اُمت محمدیہ کو خاص کیا گیا ہے۔ اور اسے درایت کا زینہ و وسیلہ بنایا سند کے ذریعے ضیعف کی سیدھی اور ٹیڑھی بات کی شناخت ہوتی ہے۔ احادیث نبویہ خواہ قولی ہو یا فعلی یا تقریری دو حصوں میں منقسم ہے۔ (۱) وہ جس میں مولف کتاب مثلاً بخاری و مسلم سے لے کر حضور تک راویان حدیث کے نام مذکور ہوتے ہیں اس کو اسناد کہتے ہیں۔ (۲) دوسرا حصہ جس میں حضور کا ارشاد گرامی مذکور ہوتا ہے اس کو متن حدیث کہتے ہیں صحابہ کرام نے براہ راست حضور سے حدیثیں سنی تھیں اس لئے صحابہ میں اسناد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ آگے چل کر راویان حدیث اور حضور کے درمیان واسطے بڑھے تو اسناد کی ضرورت پڑی ۔ | صحابہ کرام کے عہد میں کسی روایت کی توثیق کا قاعدہ یہ تھا کہ راوی سے شہادت طلب کی جاتی تھی۔ تابعین کے عہد میں صرف شہادت کافی نہیں ہو سکتی تھی ۔ اس لئے اسناد کا سلسلہ قائم کیا گیا یعنی جب بھی کوئی راوی روایت بیان کرتا تھا تو اُسے بتانا پڑتا تھا کہ اس نے وہ روایت کس سے سنی ہے اور اس روایت کا سلسلہ صحابہ تک پہنچ جاتا تھا اور پھر اُس روایت کا سلسلہ ثقہ راویوں کے ذریعہ حضور تک پہنچتا تھا جب طرح طرح کے فرقے پیدا ہو گئے تو عقائد باطلہ کو ثابت کرنے کے لئے احادیث وضع ہونا شروع ہوئیں تو سند حدیث کی روایت کے لئے ایک لازمی اور اہم شرط قرار دے دی گئی ۔ حدیث کے راویوں کے سلسلہ کو سند کہتے ہیں۔ عظیم محدت این مبارک کہتے ہیں جو شخص دین کو بغیر اسناد کے حاصل کرتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی بغیر سیڑھی کے چھت پر چڑھے اسناد کے بغیر حدیث کی کوئی وقعت نہیں ۔ (۱) اسناد بیان کرنا (۲) نسب بیان کرنا (۳) اعراب لگانا ۔ سند اور روایت کا علم اللہ کا وہ انعام ہے جس کے ساتھ اُمت محمدیہ کو خاص کیا گیا ہے۔ اور اسے درایت کا زینہ و وسیلہ بنایا سند کے ذریعے ضیعف کی سیدھی اور ٹیڑھی بات کی شناخت ہوتی ہے۔ احادیث نبویہ خواہ قولی ہو یا فعلی یا تقریری دو حصوں میں منقسم ہے۔ (۱) وہ جس میں مولف کتاب مثلاً بخاری و مسلم سے لے کر حضور تک راویان حدیث کے نام مذکور ہوتے ہیں اس کو اسناد کہتے ہیں۔ (۲) دوسرا حصہ جس میں حضور کا ارشاد گرامی مذکور ہوتا ہے اس کو متن حدیث کہتے ہیں صحابہ کرام نے براہ راست حضور سے حدیثیں سنی تھیں اس لئے صحابہ میں اسناد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ آگے چل کر راویان حدیث اور حضور کے درمیان واسطے بڑھے تو اسناد کی ضرورت پڑی <ref>سید و قاسم محمود، روح الحدیث ، یک مین الشجر بلڈنگ نیلا گنبد لا ہور</ref>۔ | ||
== متن == | == متن == | ||
حدیث کی عبارت کو متن کہتے ہیں۔ | حدیث کی عبارت کو متن کہتے ہیں۔ | ||
سطر 159: | سطر 159: | ||
سنن ابن ماجہ: ابو عبد الله حمد بن یزید ابن ماجد القروہی (ف۲۷۳)۔ | سنن ابن ماجہ: ابو عبد الله حمد بن یزید ابن ماجد القروہی (ف۲۷۳)۔ | ||
{{اختتام}} | {{اختتام}} | ||
حدیث کی یہ چھ کتامیں مل کر صحاح ستہ کے نام سے مشہور ہوگئیں اسلام کے آغاز ہی سے نصف صدی کے اندر احادیث اور روایات بکثرت رائج ہوگئیں تھیں۔ لیکن دوسری صدی ہجری تک ان کی اشاعت زبانی ہوتی رہی تھیں ان حدیثوں میں اکثر ایک راوی کے مختلف مضمون کو ایک ہی جگہ نقل کیا گیا ہے۔ صحاح ستہ میں صحیح اور غیر صحیح ضعیف اور قومی احادیث کی تمیز و تفریق کا خاص خیال رکھا گیا ہے ۔ حضور کے زمانہ اور ان حدیث کی کتابوں کی ترتیب میں دوسو سال کا عرصہ ہے یعنی حضور کے دو سو سال بعد ان کتابوں کو ترتیب دیا گیا۔ اور بھی بہت کی حدیث کی کتابیں حدیث قدسی اور حدیث مرسل کے نام سے دوسری اور تیسری صدی ہجری میں لکھی گئیں ۔ | حدیث کی یہ چھ کتامیں مل کر صحاح ستہ کے نام سے مشہور ہوگئیں اسلام کے آغاز ہی سے نصف صدی کے اندر احادیث اور روایات بکثرت رائج ہوگئیں تھیں۔ لیکن دوسری صدی ہجری تک ان کی اشاعت زبانی ہوتی رہی تھیں ان حدیثوں میں اکثر ایک راوی کے مختلف مضمون کو ایک ہی جگہ نقل کیا گیا ہے۔ صحاح ستہ میں صحیح اور غیر صحیح ضعیف اور قومی احادیث کی تمیز و تفریق کا خاص خیال رکھا گیا ہے ۔ حضور کے زمانہ اور ان حدیث کی کتابوں کی ترتیب میں دوسو سال کا عرصہ ہے یعنی حضور کے دو سو سال بعد ان کتابوں کو ترتیب دیا گیا۔ اور بھی بہت کی حدیث کی کتابیں حدیث قدسی اور حدیث مرسل کے نام سے دوسری اور تیسری صدی ہجری میں لکھی گئیں <ref>مرز امحمد سید، مسلمانوں کی خفیہ باطنی ، دوست ایسوسی ایٹس اردو بازار لاہور</ref>۔ | ||
== بخاری == | == بخاری == | ||
بخاری کا نام محمد بن اسمعیل بخاری ہے 11 شوال ۱۹۴ہجری (۲۱) جولائی ۸۱۰ ) کو جمعہ کی نماز کے بعد پیدا ہوئے بچپن ہی میں والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ | بخاری کا نام محمد بن اسمعیل بخاری ہے 11 شوال ۱۹۴ہجری (۲۱) جولائی ۸۱۰ ) کو جمعہ کی نماز کے بعد پیدا ہوئے بچپن ہی میں والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ | ||
سطر 169: | سطر 169: | ||
== ابوداؤد == | == ابوداؤد == | ||
سنن ابو داؤد کا اصل نام ابو داؤد سلیمان بن الاشعث الجستانی ہیں اور اس کنیت کی طرف کتاب منسوب ہو گئی ہے یہ سیستان کے رہنے والے تھے جو سندھ اور ہرات کے درمیان قندھار کے قریب آباد تھا اس کے قریب چشت کا علاقہ تھا جس کی طرف ہندوستان کا مشہور گروہ صوفیاء چشتی منسوب ہے۔ ابوداؤد ۲۰۲ ہجری میں پیدا ہوئے اور ۲۷۵ ہجری میں وفات پائی ۔ سنن ابوداؤد کی مشہور اور المنيل ابراہیم الخطابی اور کتابیں معالم معالم السفن . مصنفہ ابوسلیمان احمد بن ابراہیم الخطابی اور المنیل العزب | سنن ابو داؤد کا اصل نام ابو داؤد سلیمان بن الاشعث الجستانی ہیں اور اس کنیت کی طرف کتاب منسوب ہو گئی ہے یہ سیستان کے رہنے والے تھے جو سندھ اور ہرات کے درمیان قندھار کے قریب آباد تھا اس کے قریب چشت کا علاقہ تھا جس کی طرف ہندوستان کا مشہور گروہ صوفیاء چشتی منسوب ہے۔ ابوداؤد ۲۰۲ ہجری میں پیدا ہوئے اور ۲۷۵ ہجری میں وفات پائی ۔ سنن ابوداؤد کی مشہور اور المنيل ابراہیم الخطابی اور کتابیں معالم معالم السفن . مصنفہ ابوسلیمان احمد بن ابراہیم الخطابی اور المنیل العزب | ||
المورود فی شرح سنن ابوداور مصنفہ شیخ محمود حمد الخطاب سبکی مصری | المورود فی شرح سنن ابوداور مصنفہ شیخ محمود حمد الخطاب سبکی مصری ہیں <ref>مفتی احمد یار خان نعیمی، جا الحق ، مکتبہ اسلامیہ غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور</ref>۔ | ||
== نسائی == | == نسائی == | ||
صحاح ستہ میں پانچویں کتاب نسائی شریف ہے اس حدیث کی کتاب کے مولف ابو عبد الرحمن بن شعیب ہیں جن کی کنیت ابو عبد الرحمن ہے یہ نساء کے رہنے والے تھے جو خراسان کا ایک مشہور شہر تھا۔ ۲۱۴ ہجری میں پیدا ہوئے ۳۰۳ میں فوت ہوئے۔ انہوں نے پہلے سنن صغری نام رکھا اور یہی وہ حدیث کی کتاب ہے جس کو نسائی شریف کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ نسائی میں بخاری اور مسلم کے بعد سب سے کم ضعیف حدیثیں پائی جاتی ہیں نسائی کی مشہور کتا میں شرح ابن ملقن اور زہر الر بی مصنفہ علامہ جلال الدین سیوطی کی ہیں۔ | صحاح ستہ میں پانچویں کتاب نسائی شریف ہے اس حدیث کی کتاب کے مولف ابو عبد الرحمن بن شعیب ہیں جن کی کنیت ابو عبد الرحمن ہے یہ نساء کے رہنے والے تھے جو خراسان کا ایک مشہور شہر تھا۔ ۲۱۴ ہجری میں پیدا ہوئے ۳۰۳ میں فوت ہوئے۔ انہوں نے پہلے سنن صغری نام رکھا اور یہی وہ حدیث کی کتاب ہے جس کو نسائی شریف کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ نسائی میں بخاری اور مسلم کے بعد سب سے کم ضعیف حدیثیں پائی جاتی ہیں نسائی کی مشہور کتا میں شرح ابن ملقن اور زہر الر بی مصنفہ علامہ جلال الدین سیوطی کی ہیں۔ | ||
== ابن ماجہ == | == ابن ماجہ == | ||
صحاح ستہ کی چھٹی کتاب ابن ماجہ ہے اس کے مولف کا نام ابو عبد الله محمد بن یزید بن عبداللہ ابن ماجہ ہے ماں کا نام ماجہ تھا گویا وہ اپنی ماں کے نام سے مشہور ہوئے ۔ جب صحاح ستہ کا نام لیا جاتا ہے تو عام طور پر جن چھ کتابوں کا ذکر آتا ہے ۔ اُن میں ابن ماجہ بھی شامل ہے اس مسئلے پر اہل علم میں اختلاف ہے بعض علماء ان کو صحاح ستہ سے خارج سمجھتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ دہلوی صحاح ستہ میں ۔ (1) موطا امام مالک (۲) بخاری شریف (۳) مسلم (۴) ترندی (۵) ابو داود (۶) نسائی کو شامل کرتے ہیں لیکن ابن ماجہ کو صحاح ستہ سے نکال دیتے ہیں دوسری جماعت ابن ماجہ کو صحاح ستہ میں شامل کرتی ہیں ہر عربی مدرسہ میں اس حدیث کا درس دیا جاتا | صحاح ستہ کی چھٹی کتاب ابن ماجہ ہے اس کے مولف کا نام ابو عبد الله محمد بن یزید بن عبداللہ ابن ماجہ ہے ماں کا نام ماجہ تھا گویا وہ اپنی ماں کے نام سے مشہور ہوئے ۔ جب صحاح ستہ کا نام لیا جاتا ہے تو عام طور پر جن چھ کتابوں کا ذکر آتا ہے ۔ اُن میں ابن ماجہ بھی شامل ہے اس مسئلے پر اہل علم میں اختلاف ہے بعض علماء ان کو صحاح ستہ سے خارج سمجھتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ دہلوی صحاح ستہ میں ۔ (1) موطا امام مالک (۲) بخاری شریف (۳) مسلم (۴) ترندی (۵) ابو داود (۶) نسائی کو شامل کرتے ہیں لیکن ابن ماجہ کو صحاح ستہ سے نکال دیتے ہیں دوسری جماعت ابن ماجہ کو صحاح ستہ میں شامل کرتی ہیں ہر عربی مدرسہ میں اس حدیث کا درس دیا جاتا ہے <ref>چوہدری غلام رسول ایم ۔ اے ، مذاہب عالم تقابلی،علمی کتاب خانہ کبیر سٹریٹ اردو بازار لاہور</ref>۔ | ||
== صحابہ == | == صحابہ == | ||
صحابہ کی تعریف جن لوگوں نے حضور کی خدمت میں رہ کر حضور کی باتیں سنیں حضور کو دیکھا۔ حضور کی خدمت کی ان سب نزد یک رہنے والے لوگوں کو صحابہ کہتے | صحابہ کی تعریف جن لوگوں نے حضور کی خدمت میں رہ کر حضور کی باتیں سنیں حضور کو دیکھا۔ حضور کی خدمت کی ان سب نزد یک رہنے والے لوگوں کو صحابہ کہتے | ||
سطر 185: | سطر 185: | ||
(۲) صحابہ کے دیکھنے والوں اور خدمت کرنے والوں کو تابعی کہتے ہیں ۔ | (۲) صحابہ کے دیکھنے والوں اور خدمت کرنے والوں کو تابعی کہتے ہیں ۔ | ||
(۳) اور تابعین سے تعلیم حاصل کرنے والوں کو تبع تابعین کہتے ہیں تو جب بھی اسلامی کتب کو سٹڈی کرتے ہیں یہ الفاظ اکثر پڑھنے میں آتے ہیں راوی ، صحابہ ، تابعین، تبع تابعین لکھا | (۳) اور تابعین سے تعلیم حاصل کرنے والوں کو تبع تابعین کہتے ہیں تو جب بھی اسلامی کتب کو سٹڈی کرتے ہیں یہ الفاظ اکثر پڑھنے میں آتے ہیں راوی ، صحابہ ، تابعین، تبع تابعین لکھا ہوگا چوہدری غلام رسول ایم ۔ اےمذاہب عالم تقابلی، علمی کتاب خانہ کبیر سٹریٹ اردو بازار لاہور | ||
== چہل حدیث == | == چہل حدیث == | ||
چالیس حدیثیں ، کسی ایک ایک م موضوع پر اکٹھی کر پر اکٹھی کر کے پیش کرنے کو چہل حدیث کہتے ہیں ۔ | چالیس حدیثیں ، کسی ایک ایک م موضوع پر اکٹھی کر پر اکٹھی کر کے پیش کرنے کو چہل حدیث کہتے ہیں ۔ | ||
== اہل تشیع کی حدیثیں == | == اہل تشیع کی حدیثیں == | ||
اہل تشیع کی حدیثیں اہلِ سنت سے الگ ہیں اور اہلِ تشیع کے الگ ہر فرقے نے اپنے مسلک کی تعمیر اپنے حسب منشاء روایات سے کیں ہیں وہ صرف اپنی ہی حدیثوں کو صیح سمجھتا ہے اور دوسروں کی نفی کرتا ہے۔ شیعوں نے احادیث میں ایک شرط کا اضافہ کیا ہے کہ صحیح حدیث وہ ہو گی جو ان کے کسی نہ کسی امام سے منقول | اہل تشیع کی حدیثیں اہلِ سنت سے الگ ہیں اور اہلِ تشیع کے الگ ہر فرقے نے اپنے مسلک کی تعمیر اپنے حسب منشاء روایات سے کیں ہیں وہ صرف اپنی ہی حدیثوں کو صیح سمجھتا ہے اور دوسروں کی نفی کرتا ہے۔ شیعوں نے احادیث میں ایک شرط کا اضافہ کیا ہے کہ صحیح حدیث وہ ہو گی جو ان کے کسی نہ کسی امام سے منقول ہو <ref>غلام احمد حریری، علوم الحدیث ، ملک سنز پبلشر کارخانه بازار فیصل آباد</ref>۔ | ||
== حضرت علی کی شان میں مشہور احادیث == | == حضرت علی کی شان میں مشہور احادیث == | ||
{{کالم کی فہرست|3}} | {{کالم کی فہرست|3}} |