"رشید ترابی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
ٹیگ: بصری ترمیم موبائل ترمیم موبائل ویب ترمیم
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
ٹیگ: بصری ترمیم موبائل ترمیم موبائل ویب ترمیم
سطر 46: سطر 46:
=== پاکستان آمد ===
=== پاکستان آمد ===
1949ء میں علامہ رشید ترابی پاکستان آگئے یہاں انہوں نے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرکے خود کو ذکرِ حسین ع کے لیے وقف کردیا۔ انہوں نے 1951ء سے 1953ء تک کراچی سے روزنامہ المنتظرکا اجرا کیا۔ اس سے قبل انہوں نے حیدرآباد دکن سے بھی ایک ہفت روزہ انیس جاری کیا تھا۔ 1957ء میں ان کی مساعی سے کراچی میں 1400 سالہ جشن مرتضوی بھی منعقد ہوا۔
1949ء میں علامہ رشید ترابی پاکستان آگئے یہاں انہوں نے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرکے خود کو ذکرِ حسین ع کے لیے وقف کردیا۔ انہوں نے 1951ء سے 1953ء تک کراچی سے روزنامہ المنتظرکا اجرا کیا۔ اس سے قبل انہوں نے حیدرآباد دکن سے بھی ایک ہفت روزہ انیس جاری کیا تھا۔ 1957ء میں ان کی مساعی سے کراچی میں 1400 سالہ جشن مرتضوی بھی منعقد ہوا۔
1956ء میں 1400 سالہ یادگارِ مرتضویٰ کا پروگرام ایک ہفتہ کے لئے منعقد کیا اس میں پہلی اور شا ید آخری بار صدر پاکستان اسکندر مرزا اور وزیر اعظم حسین شہید سروردی نے شرکت کی ۔
1956ء میں 1400 سالہ یادگارِ مرتضویٰ کا پروگرام ایک ہفتہ کے لئے منعقد کیا اس میں پہلی اور شا ید آخری بار صدر پاکستان اسکندر مرزا اور وزیر اعظم حسین شہید سہروردی نے شرکت کی ۔
علامہ رشید ترابی نے اپنی زندگی میں 2مجلس میں حدیث کا شجرہ پڑھا جس میں جناب سعید الملت ہندوستان سے آئے ہوئے تھے یہ تقریر مارٹن روڈ کے امام بارگاہ میں پڑھی تھی ۔ دوسری مجلس رضویہ کالونی میں [[آیتہ اللہ محسن حکیم]] کے صاحبزادے آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں دو تقریریں تقریباً ڈھائی گھنٹہ کی پڑھیں۔ پہلی تقریر لکھنو میں 1942 ء میں جس میں تمام بزرگ علماء موجود تھے اور اس تقریر کے بعد علماء نے رشید ترابی کو علامہ کا خطاب دیا تھا۔
علامہ رشید ترابی نے اپنی زندگی میں 2مجلس میں حدیث کا شجرہ پڑھا جس میں جناب سعید الملت ہندوستان سے آئے ہوئے تھے یہ تقریر مارٹن روڈ کے امام بارگاہ میں پڑھی تھی ۔ دوسری مجلس رضویہ کالونی میں [[آیتہ اللہ محسن حکیم]] کے صاحبزادے آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں دو تقریریں تقریباً ڈھائی گھنٹہ کی پڑھیں۔ پہلی تقریر لکھنو میں 1942 ء میں جس میں تمام بزرگ علماء موجود تھے اور اس تقریر کے بعد علماء نے رشید ترابی کو علامہ کا خطاب دیا تھا۔
دوسری تقریر لاہور میں کی، اس تقریر کے بعد جناب شورش کاشمیری صاحب ایڈیٹر چٹان اخبار نے علامہ رشید ترابی کے بارے میں لکھا کہ ’’عالم کو اپنی حد کا پتہ ہوتا ہے اور اس حد میں رہتے ہوئے اپنی بات کو کہتا ہے جس کی وجہ سے وہ حکومت کی گرفت میں نہیں آتا”۔
دوسری تقریر لاہور میں کی، اس تقریر کے بعد جناب شورش کاشمیری صاحب ایڈیٹر چٹان اخبار نے علامہ رشید ترابی کے بارے میں لکھا کہ ’’عالم کو اپنی حد کا پتہ ہوتا ہے اور اس حد میں رہتے ہوئے اپنی بات کو کہتا ہے جس کی وجہ سے وہ حکومت کی گرفت میں نہیں آتا”۔
یہ خوبی تمام تر علامہ رشید ترابی  کی موجود تھی جس کی وجہ سے وہ کبھی بھی جیل نہیں گئے ، جناب مولانا احتشام الحق تھانوی ، جناب مولانا شفیع اکاڑوی اور دوسرے علماء پاکستان کے ہر سربراہ نے جب بھی اقتدار میں آئے انہوں نے علامہ  سے خاص تعلق رکھا اور ہر ایک نے کچھ نہ کچھ دینا چاہا مگر علامہ رشید ترابی نے کبھی بھی کسی سے کوئی استفادہ نہیں لیا۔
یہ خوبی تمام تر علامہ رشید ترابی  میں موجود تھی جس کی وجہ سے وہ کبھی بھی جیل نہیں گئے ۔ جناب مولانا احتشام الحق تھانوی ، جناب مولانا شفیع اکاڑوی اور دوسرے علماء پاکستان کے ہر سربراہ نے جب بھی اقتدار میں آئے انہوں نے علامہ  سے خاص تعلق رکھا اور ہر ایک نے کچھ نہ کچھ دینا چاہا مگر علامہ رشید ترابی نے کبھی بھی کسی سے کوئی استفادہ نہیں لیا۔
=== نامور شعراء کے ساتھ ===
=== نامور شعراء کے ساتھ ===
استاد قمر جلا لوی کی چہلم کی مجلس مرکزی امام بارگاہ لیاقت آباد میں ہوئی اس میں کراچی کے تمام اہم [[شیعہ]] و غیر شیعہ شعراء شریک تھے اس مجلس میں علامہ رشید ترابی نے شعراء کے بارے میں تقریر کی۔ بعد مجلس کے تمام سنی شعراء جو پہلی بار شریک ہوئے وہ بڑے شوق سے علامہ رشید ترابی سے ہاتھ ملاتے اور تعریف کرتے رہے۔
استاد قمر جلا لوی کی چہلم کی مجلس مرکزی امام بارگاہ لیاقت آباد میں ہوئی اس میں کراچی کے تمام اہم [[شیعہ]] و غیر شیعہ شعراء شریک تھے اس مجلس میں علامہ رشید ترابی نے شعراء کے بارے میں تقریر کی۔ بعد مجلس کے تمام سنی شعراء جو پہلی بار شریک ہوئے وہ بڑے شوق سے علامہ رشید ترابی سے ہاتھ ملاتے اور تعریف کرتے رہے۔
confirmed
821

ترامیم