محمود احمد غازی
محمود احمد غازی | |
---|---|
پورا نام | محمود احمد غازی |
دوسرے نام | ڈاکٹر محمود احمد فاروقی |
ذاتی معلومات | |
پیدائش | 1950 ء، 1328 ش، 1368 ق |
یوم پیدائش | ۱۸؍ ستمبر |
پیدائش کی جگہ | پاکستان |
اساتذہ | مولانا عبد الرحمن المینویؒ، مولانا غلام اللہ خانؒ |
مذہب | اسلام، سنی |
مناصب | رکن مجمع تقریب مذاهب اسلامی |
محمود احمد غازی برصغیر کی معروف عالم دین ، سنکڑوں کتابوں کے مصنف اور عالم اسلام کی جانی پهچانی شخصیت تھے۔صدر،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، وفاقی وزیربرائے مذہبی امورحکومت پاکستان، ممبر،اسلامی نظریاتی کونسل،ڈائریکٹر جنرل ،شریعہ اکیڈمی ،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد اور ڈائریکٹر جنرل،دعوۃ اکیڈمی ،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ان کی منصبی ذمه داریوں میں سے چند ایک هیں۔ التجمع العالمی للعلوم المسلمین مکہ،سعودی عربیہ، الاتحاد العالمی للعلماء المسلمین (سرپرست شیخ یوسف القرضاوی) قاہرہ ،مصر،عرب اکیڈمی ،دمشق ، شام اور مجمع تقریب مذاهب اسلامی ، عالم اسلام کے علمی اور اجتماعی ادارے هیں جن کے آپ ممبر رهے هیں۔
سوانح زندگی
ڈاکٹر محمود احمد غازی (فاروقی) ۱۳؍ ستمبر ۱۹۵۰ء کوکاندھلہ مظفرنگر(ہندوستان )میں پیدا ہوئے۔ (۱) ان کے والد محمد احمد فاروقی مولانا شیخ الحدیث محمدزکریاکاندہلوی کے خلیفہ تھے۔ (۲) خاندانی تعلق مولاناتھانوی سے تھا۔ اصلاً تووہ تھانہ بھون ضلع مظفرنگرکے رہنے والے تھے، مگران کی شادی کاندھلہ کے ایک بزرگ حکیم قمرالحسن کی دخترسے ہوئی جو کہ سابق امیرتبلیغ مولانا محمداظہارالحسن کاندھلویؒ کے بڑے بھائی تھے۔ اس رشتہ کے بعد وہ کاندھلہ جاکررہنے لگے تھے۔ جب محموداحمدغازی ۶، ۷ سال کے تھے تو یہ کنبہ کراچی چلاگیا جہاں محموداحمدکو بنوری ٹاؤن کے مدرسہ میں داخل کرایاگیا۔ قرآن پاک حفظ کرنے کے بعد انھوں نے مروجہ طرز پراسلامی علوم کی تحصیل شروع کی۔ اس طرح علامہ محمدیوسف بنوریؒ سے انہوں نے پڑھا۔ کچھ عرصہ کے بعد ان کے والد راولپنڈی منتقل ہوئے توانہوں نے وہاں کے مدرسہ تعلیم القرآن میں تعلیم جاری رکھی۔ ۱۹۶۲ء میں عربی کامل کا امتحان پاس کیا اور ۱۹۶۶ء میں درس نظامی کا پورا کورس مکمل کرلیا۔ ۱۹۷۲ء میں عربی زبان میں ایم اے کیا۔ اسی کے ساتھ فارسی اور فرنچ میں ڈگریاں حاصل کیں۔ انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی جس کا موضوع شاہ ولی اللہ سے متعلق تھا۔
تدریسی خدمات
تعلیم کی تکمیل کے بعدڈاکٹر غازی صاحب نے راولپندی کے مدرسہ فاروقیہ اور مدرسہ ملیہ میں پڑھا یا۔ اس کے بعد ادار ہ تحقیقات اسلامی میں یہ خدمت انجام دی، پھر قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں اسلام کے سیاسی فکر کے ارتقا پر لیکچر دیے ۔ اس کے بعد بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں برسوں تک تدریس کی جہاں وہ شریعہ فیکلٹی میں پروفیسر، ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ اوریونی ورسٹی کے نائب صدر سے لے کر وائس چانسلر تک رہے۔ نیز قطر فاؤنڈیشن دوحہ میں بھی فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
منصبی ذمه داریاں
تدریس کے علاوہ ڈاکٹر غازی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے چئرمین شریعہ بورڈ ، تکافل پاکستان کراچی کے شریعہ سپروائزری کمیٹی کے چیئرمین، مذہبی امور کے وفاقی وزیر (اگست ۲۰۰۲) سپریم کورٹ آف پاکستان کی شریعہ ایلپیٹ بنچ کے جج (۱۹۹۹-۱۹۹۸) اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر، شریعہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈائرکٹر نیز اسی یونیورسٹی کی دعوۃ اکیڈمی کے ڈائرکٹر وغیرہ جیسے اہم اور ذمہ دارانہ مناصب پر فائز رہے۔ قومی سلامتی کونسل کا رکن بھی ان کو بنایا گیا ۔ اسی طرح بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے نکلنے والے دو اہم علمی مجلات الدراسات الاسلامیہ (عربی)اور فکر ونظر (اردو) کاایڈیٹر بھی ان کومقررکیاگیا۔ اپنی علمی فکری اور عملی خدمات کے قومی اور بین الاقوامی سطح کے کتنے ہی اداروں کی ممبری، اور فقہی مشیر کی حیثیت سے بھی انھیں حاصل ہوئی جن میں پاکستان کے متعدد اداروں کے علاوہ ایران، شام، اسپین ، مصر اور سعودی عرب کے مؤقر و مقتدر ادارے شامل ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر غازی کی پوری زندگی عملی و علمی نشاط وسرگرمی سے عبارت تھی۔
کتب ، تصنیفات و تالیفات
- ادب القاضی، اسلام آباد، ۱۹۸۳ء
- مسودہ قانون قصاص ودیت، اسلام آباد، ۱۹۸۶
- احکام بلوغت، اسلام آباد ۱۹۸۷ء
- اسلام کا قانون بین الممالک، بہاولپور ۱۹۹۷، اسلام آباد ۲۰۰۷
- محاضرات قرآن، الفیصل۔ لاہور ۲۰۰۴
- محاضرات حدیث، الفیصل۔لاہور ۲۰۰۴
- محاضرات فقہ، الفیصل۔لاہور ۲۰۰۵
- محاضرات سیرۃ، الفیصل۔لاہور ۲۰۰۷
- محاضرات شریعت وتجارت، الفیصل۔لاہور ۲۰۰۹
- اسلامی شریعت اور عصر حاضر، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد، ۲۰۰۹
- قرآن ایک تعارف، اسلام آباد ۲۰۰۳
- محکمات عالم قرآنی، اسلام آباد ۲۰۰۲
- امربالمعروف ونہی عن المنکر، اسلام آباد ۱۹۹۲
- اصول الفقہ (ایک تعارف، حصہ اول ودوم)، اسلام آباد، ۲۰۰۴
- قواعدفقہیہ (ایک تاریخی جائزہ، حصہ اول و دوم)، اسلام آباد ۲۰۰۴
- تقنین الشریعہ، اسلام آباد ۲۰۰۵
- اسلام اور مغرب تعلقات، زوار اکیڈمی پبلی کیشنز،کراچی۔۲۰۰۹
- مسلمانوں کا دینی و عصری نظام تعلیم، الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ۔۲۰۰۹
- اسلامی بنکاری، ایک تعارف، زوار اکیڈمی پبلی کیشنز،کراچی۔۲۰۱۰
- فریضہ دعوت و تبلیغ، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد۔۲۰۰۴ (اشاعتِ سوم)
- اسلام اور مغرب، زوار اکیڈمی پبلی کیشنز،کراچی۔۲۰۰۷
عربی تصانیف
- تحقیق وتعلیق السیرہ الصغیرہ، امام محمد ابن حسن الشیبانی، اسلام آباد ۱۹۹۸ء
- القرآن الکریم، المعجزۃ العالیۃ الکبریٰ، اسلام آباد ۱۹۹۴ء
- یا امم الشرق (ترجمہ کلام اقبال)، دسمبر ۱۹۸۶ء
- تاریخ الحرکۃ المجددیہ، بیروت ۲۰۰۹ء
- العولمۃ،قاہرہ ۲۰۰۸ء
عالمی فقه کے فروغ میں ایرانی علما کا کردار محمود احمد غازی کی نظر میں
بیسویں صدی علوم اسلامی کی نشاۃ ثانیہ کی صدی ہے۔ اس میں حدیث، تفسیر اور فقہ پر نئے انداز و اسلوب میں زبردست کام ہوئے ہیں۔ خاص کر عالم عرب میں مختلف اسلامی ممالک نے اس سلسلہ میں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھایا اور نئی فقہ وجود پذیر ہونے لگی جس کا دائرہ ابھی فقہ کے ماہرین، اسکالروں اور طلبہ تک محدود ہے۔ عوام تک اس کے اثرات ابھی منتقل ہونے شروع ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر غازی لکھتے ہیں:
’’دنیائے اسلام کے لوگوں نے ایک دوسرے سے استفادہ شروع کیا۔ ایران کے تجربات سے پاکستان نے فائدہ اٹھایا۔ پاکستان سے سوڈان نے استفادہ کیا۔ سعودی عرب سے مصر نے استفادہ کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فقہی مسالک کی جو حدود تھیں، وہ ایک ایک کرکے دھندلانے لگیں۔ اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا ے اسلام میں باہمی مشاورت اور اشتراک عمل سے یہ اجتہادی کام کیا جارہا ہے۔ اسی اجتماعی اجتہاد کے نتیجہ میں فقہی مسالک کی حدود مٹ رہی ہیں۔ ایک نئی فقہ وجود میں آرہی ہے جس کو نہ حنفی فقہ کہ سکتے ہیں نہ مالکی، نہ حنبلی، نہ جعفری بلکہ اس کواسلامی فقہ ہی کہا جائے گا۔ میں اس کے لیے Cosmopolitan Fiqh یعنی عالمی یا ہر دیسی فقہ کی اصطلاح استعمال کرتا ہوں۔ اس کے بعد انھوں نے بینکاری اور مالیاتی اور بین الاقوامی تجارت و کاروبار کے حوالہ سے اپنے اس تصور کی مزید وضاحت کی ہے۔ ۱۹۸۰ء میں بینکاری کے اسلامی نظام کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک رپورٹ پیش کی جس میں شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور کوئی مسلک نہ رکھنے والے سب علما متفقہ طور پر شریک ہوئے تھے۔ اس پر وہ لکھتے ہیں کہ: ’’ظاہر ہے کہ یہ رپورٹ محض فقہ حنفی کی بنیاد پر نہیں ہے اور نہ اس دستاویز کو فقہ حنفی کے لٹریچرکا حصہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی نہیں کہاجاسکتا ہے کہ فقہ شافعی کی بنیاد پر تیار ہوئی ہے۔ یہ فقہ زیدی یا فقہ جعفری کی بنیاد پر بھی نہیں ہے۔ اس لیے تمام فقہا اور تما م فقہی مسالک کے ماننے والوں نے اس سے اتفاق کیا۔ اس کا عربی، ملائی ، بنگلہ اور اردو وغیر میں ترجمہ ہوا اور دنیا میں ہر جگہ اس سے استفادہ کیا گیا‘‘۔
وفات
ڈاکٹر محمود احمد غازی ایک عمر سینکڑوں جدید اسلامی موضوعات پر کتب اور مقالات کی تصنیف اور تالیف ، بے شمار دینی خدمات اور مختلف تعلیمی، ثقافتی، سماجی، قومی اور بین الاقوامی ادارات میں فرض منصبی سرانجام دینے کے بعد 26 ستمبر 2010ء کو وفات پا گئے. [1]
حوالہ جات
- ↑ محمود احمد غازیؒ ۔ فکر و نظر کے چند نمایاں پہلو - alsharia.org - شایع شده تاریخ جنوری/فروری /2011 ء درج شده تاریخ:20/ نومبر/ 2024ء