"محمد خان شیرانی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 74: سطر 74:
مدرسہ کے شیعہ علمائے کرام سے ملاقات کے دوران مولانا محمد خان شیرانی نے ملک کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور اس امر کی ضرورت پر زور دیا کہ استعمار کی کوششوں کے باوجود مسلمانوں کو اپنے اندر اتحاد و وحدت کو فروغ دینا ہوگا۔
مدرسہ کے شیعہ علمائے کرام سے ملاقات کے دوران مولانا محمد خان شیرانی نے ملک کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور اس امر کی ضرورت پر زور دیا کہ استعمار کی کوششوں کے باوجود مسلمانوں کو اپنے اندر اتحاد و وحدت کو فروغ دینا ہوگا۔
فرقہ واریت ہمارے مذہب اور پاکستان دونوں کیلئے زہر قاتل ہے۔ مدرسہ ہذا کے علمائے کرام نے مولانا محمد خان شیرانی کو کتابوں کا تحفہ بھی دیا <ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/362935/%D9%81%D8%B1%D9%82%DB%81-%D9%88%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AA-%DB%81%D9%85%D8%A7%D8%B1%DB%92-%D9%85%D8%B0%DB%81%D8%A8-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%AF%D9%88%D9%86%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C%D9%84%D8%A6%DB%92-%D8%B2%DB%81%D8%B1-%D9%82%D8%A7%D8%AA%D9%84-%DB%81%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%84%D8%A7%D9%86%D8%A7 فرقہ واریت ہمارے مذہب اور پاکستان دونوں کیلئے زہر قاتل ہے، مولانا محمد خان شیرانی]-ur.hawzahnews.com-شائع شدہ از:30ستمبر 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7جولائی 2020ء</ref>۔
فرقہ واریت ہمارے مذہب اور پاکستان دونوں کیلئے زہر قاتل ہے۔ مدرسہ ہذا کے علمائے کرام نے مولانا محمد خان شیرانی کو کتابوں کا تحفہ بھی دیا <ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/362935/%D9%81%D8%B1%D9%82%DB%81-%D9%88%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AA-%DB%81%D9%85%D8%A7%D8%B1%DB%92-%D9%85%D8%B0%DB%81%D8%A8-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%AF%D9%88%D9%86%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C%D9%84%D8%A6%DB%92-%D8%B2%DB%81%D8%B1-%D9%82%D8%A7%D8%AA%D9%84-%DB%81%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%84%D8%A7%D9%86%D8%A7 فرقہ واریت ہمارے مذہب اور پاکستان دونوں کیلئے زہر قاتل ہے، مولانا محمد خان شیرانی]-ur.hawzahnews.com-شائع شدہ از:30ستمبر 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7جولائی 2020ء</ref>۔
== دہشت گردی اور جہاد ==
دہشت گردی اور [[جہاد]] دو وہ باتیں ہیں جو میرے اور دوسرے مغربی ڈپلومیٹس کے ساتھ ملاقاتوں میں ہر وقت زیر بحث آتی ہیں۔ بدقسمتی سے مغرب کا تصور یہ ہے کہ جہاد ، [[اسلام]] اور مسلمان یہ تینوں کلمے دہشت گردی کے مساوی ہیں۔ ان کے خیال کے مطابق ہر مسلمان دہشت گرد ہے جو دنیا کو خودکش حملوں سے اڑانے پر تلا ہوا ہے لیکن وہ یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ آج ان کے بقول جو دہشت گردی ہے دراصل ان کی اپنی ہی پیدا کردہ ہے اور مسئلے سے نمٹنے کی اب یہ ناکافی کوششیں کر رہے ہیں۔
ہوا یوں کہ سوویت یونین کو شکست کے بعد 1992ء میں جب مجاہدین نے [[افغانستان]] میں ایک سپر طاقت کو دوسری سپر طاقت میں بدلنے سے انکار کیا تو انہیں مغربی ممالک نے جہاد کا غلط استعمال کرتے ہوئے مدرسوں کے نوجوان جذباتی طلباء کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ان کو مالی اور دوسری طرح کی امداد فراہم کرنا شروع کر دی۔ آج جسے مغرب القاعدہ کے نام سے پکارتی ہے سب سے پہلے مغرب نے ہی اس کی تخلیق کی۔
اور اسے توانا کیا پھر 11ستمبر کو ایسا موڑ آیا جب مغرب کو سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد نیٹو اتحاد رکھنے کے لئے ایک نئے دشمن اور جواز کی تلاش کی ضرورت پڑی اس لئے نائن الیون کے بعد تہذیبی اورثقافتی جنگ کے آغاز کا دور شروع ہونے کا عندیہ دیا حتیٰ کہ بہت سے مفکرین نے واشگاف الفاظ میں اسے اسلام اور مغرب کی لڑائی کا نام دیا۔ نیٹو اتحاد نے ایک بار پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے بہت سے گروپ بنائیں اور نام نہاد جنگ شروع کی اور اسکی ہر جگہ حمایت کی۔
لیکن بدقسمتی سے اسے اپنے بقول وہ دہشت گردی کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوگئے۔ میں اس دہشت گردی کو خانہ جنگی کا نام دیتا ہوں جو عراق، افغانستان اور لیبیا میں شروع کی گئی۔ مغرب کے ہاتھوں ان ممالک کی تباہی ہمارے سامنے زندہ مثالیں ہیں، دوسری بات ہمارے ملک پاکستان میں بھی اس نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے، معصوم شہری، خواتین، بچے اور بوڑھے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
=== ذمہ دار کون ===
تاہم خطے میں تباہی کا ذمہ دار مغرب کو ٹھہرانا بے جا نہیں۔ ہر انسان کے لئے اپنے خالق، بزرگوں، ہم عمر لوگوں کا احترام اور بچوں کے ساتھ شفقت کا جو رشتہ ہے وہ بہت اہم ہے اور کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اب اگر کوئی بیرونی طاقت ان رشتوں کے درمیان توہین، عداوت یا بغاوت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے میں دہشت گرد سمجھتا ہوں اور ان رشتوں کے دفاع کو جہاد سمجھتا ہوں۔
اس تعریف سے ایک عام قاری کو پتہ چلتا ہے کہ جہاد اسلام میں ایک مقدس فریضہ ہے جس کو ایک آلے کے طور پر مغرب استعمال کر رہا ہے۔ بدقسمتی سے آج مغرب میں جہاں نو عمر حاملہ لڑکیوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے ہمارے خاندانی نظام اور سماجی رشتوں پر دباؤ بڑھا رہا ہے جس کی مثال اسلام آباد میں ہم جنس پرستوں کی شادیوں کی حالیہ تقریب کا انعقاد ہے۔
اگر مغرب دنیا میں امن، آشتی اور بھائی چارے کی فضا دیکھنا چاہتا ہے تو مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل پیرا ہونا چاہئے سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ وہ اپنے لئے جو پسند کرے وہی دوسروں کیلئے بھی پسند کرے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق مذہبی آزادی کو حقیقی طور پر یقینی بنائے۔ ایسی کوششیں نہ کرے جو عقیدوں پر مبنی معاشروں کو غیر مذہبی طرز معاشرت کی جانب مجبور کرے۔
با الفاظ دیگر ایک فرد یا افراد پر مشتمل ادارے اگر اپنی سیاسی معاشی اور معاشرتی طرز زندگی کو اپنے مذہبی عقیدوں کے مطابق استوار کرنا چاہتے ہیں تو ان کا راستہ روکا جائے ۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ اسلام میں ہمارے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہ صرف مذہبی تعلیمات اور ان کے عملی اقدامات مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ہے بلکہ ان کی طرز حکمرانی کا تجربہ بھی ایک بہترین مثال ہے۔
مغرب کو بین الاقوامی سطح پر ایک ایسی کوشش کرنی چاہئے جس سے عقیدوں کے پیروکار اپنے مذاہب سے دوری کی بجاے مذہب کے قریب آسکیں کیونکہ تمام مذاہب ہمدردی اور روا داری کی تلقین کرتے ہیں اور جھوٹ و دغا بازی سے پرہیز کا درس دیتے ہیں اور اچھی باتوں کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اس خطے میں ایسی تنظیموں کی مدد کی جائے جو لوگوں کے عقیدوں اور اجتماعی طرز زندگی پر قدغن لگاتے ہیں یہ وہ تمام باتیں ہیں اگر حقیقی طور انہیں عملی جامہ پہنایاجائے تو امن، رواداری، انصاف اور رشتوں کی اقتدار کا تحفظ یقینی ہوجائے گا اور نام نہاد دہشت گردی بھی خود بخود ختم ہوجائیگی<ref>[https://jang.com.pk/news/6802 دہشت گردی اور جہاد...مولانا محمد خان شیرانی…چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ]-jang.com.pk/news-شائع شدہ از: 14فروری 2013ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7جولائی 2024ء۔</ref>۔
confirmed
2,853

ترامیم