طارق مسعوددیوبندی مکتب فکر سے وابستہ پاکستانی عالمِ دین ہیں۔ آپ تبلیغی جماعت سے بھی وابستہ ہیں۔ طارق مسعود بطور مہمان اکثر پاکستانی ٹیلیوژن چینلز پر بطور اسکالر مدعو کیے جاتے ہیں اور اپنی خوش اخلاقی کی وجہ سے سوشل میڈیا پر بھی کافی مقبول ہیں۔

سوانح عمری

آپ 4 مارچ 1975ء کو سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے اس کے بعد کراچی منتقل ہو گئے جہاں وہ پاکستان نیوی میں ملازمت کرتے تھے۔ ان کی پہلی شادی 2005ء میں ہوئی اس کے بعد 2008ء میں انہوں نے دوسری شادی کی جب کہ ان کی تیسری شادی 2018ء میں ہوئی اور ان کے 12 بچے ہیں۔

اس کے بعد نارتھ کراچی کی مشہور جامع مسجد الفلاحیہ میں گذشتہ دس سال سے امامت کروا رہے ہیں اس کے علاوہ جمعہ کے خطبات اور اتوار کو عشا کی نماز کے بعد درس دیتے ہیں۔

تعلیم

طارق مسعود نے ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی اس کے بعد سندھ مسلم سائنس کالج میں داخلہ لیا مگر انٹر کی تعلیم مکمل کرنے سے قبل ہی جامعۂ الرشید کراچی سے دینی تعلیم حاصل کی جہاں انہوں نے آٹھ سال درس نظامی کی تعلیم حاصل کی اس کے بعد دو سال حدیث کی تعلیم مکمل کی۔

اساتذہ

  • مفتی ابولبابہ شاہ منصور
  • رشید احمد لدھیانوی

علمی آثار

  • ایک سے زائد شادیوں کی ضرورت کیوں؟ (پارٹ 1)
  • ایک سے زائد شادیوں کی ضرورت کیوں؟ (پارٹ 2)
  • فیملی پلاننگ

عازمین حج کے گروپ سے خطاب

معروف مبلغ اور عالم دین مولانا مفتی طارق مسعود نے عازمین حج کے گروپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب اللّٰہ تعالی کا حکم آجائے تو عقل و دلیل کی کوئی اہمیت نہیں، صرف اطاعت کی اہمیت ہے اور حکم بھی یہی ہے۔ مولانا مفتی طارق مسعود نے کہا کہ حج دین اسلام کا اہم رکن اور حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی سنت ہے جس میں انہوں نے شیطان کے بہکاوے اور اس کی تمام دلیلوں کو رد کرتے ہوئے اللّٰہ کے حکم پر لبیک کہا اور اپنی اکلوتی اولاد حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی اپنے رب کے حضور پیش کی، اللّٰہ تعالی کو اپنے پیغمبر کی قربانی اتنی پسند آئی کہ اللّٰہ تعالی نے اس قربانی کو قیامت تک کے لیے حج جیسی بڑی عبادت میں لازم کر دیا۔

انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ تمام عازمین حج اپنے سفر حج کے بعد اپنی زندگی کا نیا سفر شروع کریں، اپنے کاروبار میں مزید ایمانداری پیدا کریں، لوگوں سے نرمی سے پیش آئیں، اپنی خواتین ماں، بیوی، بہن اور بیٹیوں کے ساتھ خصوصی شفقت کا سلوک کریں یعنی پوری دنیا کو حج کی سعادت کے حصول کے بعد آپ کے اندر ایمانی تبدیلی نظر آئے، کوشش کریں دکھاوے سے بچیں، والدین کے ساتھ نرمی اور فرمانبرداری کا مظاہرہ کریں[1]۔

کیا اسلام میں ٹیٹو بنوانا جائز ہے؟

معروف عالم دین طارق مسعود نے جِلد پر ٹیٹو بنوانے کی مذمت کرتے ہوئے اس اقدام کو حرام اورگمراہ کن قرار دیا ہے۔ آج نیوز کے مطابق ایک پوڈکاسٹ کے دوران میزبان کی جانب سے ٹیٹو بنوانے سے متعلق سوال کیے جانے پر مفتی طارق مسعود نے ایسا کرنے والوں پر شدید تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ :" حدیث کے مطابق آپﷺ نے جسم گنوانے پر لعنت فرمائی ہے۔ قرآن میں بھی اللہ نے فرمایا ہے کہ شیطان نے کہا تھا کہ میں انسانوں کو ایسا گمراہ کروں گا کہ وہ اللہ کی تخلیق میں ردوبدل کریں گے"۔

کیا آپ میڈیکل گراؤنڈ پر بھی سزا معطلی کی درخواست کریں گے؟

جج افضل مجوکا کا بیرسٹر سلمان صفدر سے استفسار انہوں نے دو ٹوک گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ :" اس سے بڑی کوئی تبدیلی ہو نہیں سکتی کہ اللہ نے آپ کو بنایا ہو اور آپ نے اس کی بنائی ہوئی جلد میں کچھ کرواکر اس کی شکل تبدیل کردی ہو"۔ ان افراد کو مشورہ دیتے ہوئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ :"یہ اسلام میں حرام ہے اور ناجائز بھی ہے۔ اگر کسی نے یہ بنوالیا ہے تو ممکن ہو تو اس کو مٹادیں اور اگرنہیں مٹ رہا تو سوائے توبہ کے ان کے پاس اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے"۔[2]۔

ٹیٹو کندہ کرنے کے بارے میں مذہبی وضاحت

نئے پروگرام علم یا علیم میں شمولیت اختیار کی ہے جس میں انہوں نے ٹیٹو کندہ کرنے کے بارے میں مذہبی وضاحت پیش کی. میزبان کے سوال کا جواب دیتے ہوئے مفتی طارق مسعود نے کہا کہ اسلام میں سختی سے منع ہے کہ آپ اپنے جسم پر ٹیٹو کندہ کرائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹیٹو اپنے جسم پر ٹیٹو کندہ کرنے والا ملعون ہے، یہ حرام اور ناقابل قبول ہے۔ مفتی طارق مسعود کا کہنا تھا کہ ٹیٹو بنوانے کے لیے آپ کو جلد یا جسم کاٹنا پڑتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹیٹو بنوانے کے لیے جسم گدوانے کی اصطلاح استعمال کی اور یہ بھی کہا کہ اسے زندگی بھر نہیں ہٹایا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے اسے اپنی مرضی یا مرضی کے خلاف بنوایا ہے وہ اس کے ساتھ رہنے کے پابند ہوں گے اور وہ اسی حالت یعنی ٹیٹو کی موجودگی میں نماز پڑھ رہے ہوں گے۔ متعدد اسلامی اسکالرز نے بھی واضح کیا ہے کہ جسم پر ٹیٹو کے ساتھ وضو نہیں کیا ہوسکتا۔

عمران خان سے ملاقات

معروف دینی سکالراور سوشل میڈیا پر اپنے منفرد انداز سے شہرت حاصل کرنے والے مفتی طارق مسعود نے گذشتہ شب کراچی کے گورنر ہاؤس میں وزیراعظم عمران خان سے علماء و مشائخ کی ملاقات کا ایسا تفصیلی احوال بتا دیا کہ عمران خان کی مخالفت کرنے والےدینی حلقے بھی حیران و پریشان رہ جائیں ۔

تفصیلات کے مطابق یوٹیوب چینل سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مفتی طارق مسعود کا کہنا تھا کہ میری وزیراعظم عمران خان سے پہلی ملاقات تھی اس سے پہلے میری اُن سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی پہلے میں نے انہیں کبھی دور سے بھی نہیں دیکھا، گورنر ہاؤس جانے سے قبل ذہن میں تھا کہ بہت زیادہ سیکیورٹی اور وزیراعظم کا بہت زیادہ پروٹوکول ہو گا لیکن وہاں بہت سادگی دیکھنے میں آئی۔

گورنر ہاؤس میں بہت عام اور سادہ سا ماحول تھا ،دیگر علماء بھی وہاں موجود تھے،وزیراعظم کی فزیکل فٹنس سے میں بہت متاثر ہوا ،بعض لوگ ویڈیوز میں اچھے لگتے ہیں لیکن جب حقیقت میں دیکھا جائے تو اچھے نہیں لگتے ،بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ویڈیو میں اچھے نہیں لگتے لیکن حقیقت میں وہ زیادہ اچھے لگتے ہیں ،وزیراعظم کی فٹنس کا جو میرے دماغ میں تصور تھا 70 سال کی عمر میں اس سے زیادہ فٹنس مجھے نظر آئی۔ معروف عالم دین مفتی طارق مسعود کا کہنا ہے کہ جاپان میں مقیم پاکستانیوں میں فرقہ واریت سے پاک ماحول دیکھ کر خوشی ہوئی ہے، پاکستان میں بھی علمائے کرام کو فروعی اختلافات بھلا کر امت کو متحد کرنے پر کام کرنا چاہیے۔

جاپان کی ترقی سے پاکستان کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے

طارق مسعود اپنے دورہ جاپان کے دوران ان دنوں شہر ہانیو میں موجود ہیں۔ روزنامہ جنگ کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے مفتی طارق مسعود نے کہا کہ جاپان کے بارے میں جیسا سوچا تھا بالکل ویسا ہی پایا، یہاں کے عوام کم گو اور کام سے کام رکھنے والے امن پسند، ایماندار اور ایک دوسرے کا احترام کرنے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جاپان کی ترقی سے پاکستان کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ مفتی طارق مسعود کا کہنا ہے کہ جاپان کا یہ پہلا دورہ ہے، اس دوران مختلف مساجد میں خطابات کیے ہیں۔ یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ تمام مساجد میں مختلف فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد باجماعت نماز پڑھتے ہیں، یہاں اختلافات کم اور اتحاد زیادہ ہے۔

طارق مسعود نے جاپان کے ریلوے نظام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جاپان کا ریلوے نظام دنیا کا بہترین ریلوے نظام ہے۔ خاص طور پر یہاں کی بلٹ ٹرین کا سفر شاندار رہا۔ مفتی طارق مسعود نے کہا کہ وقت کی کمی کی وجہ سے وہ بہت زیادہ لوگوں سے ملاقات نہیں کرسکے لیکن ان شاء اللہ وہ عنقریب دوبارہ جاپان آئیں گے۔ دوران گفتگو انہوں نے اپنے میزبان ارشاد خان کی بھی تعریف کی جو انہیں جاپان کے مختلف شہروں کا دورہ کرارہے ہیں۔ واضح رہے کہ مفتی طارق مسعود عنقریب جاپان سے آسٹریلیا کے دورے پر روانہ ہونگے[3]۔

مفتی طارق مسعود مقلد حنفی دیوبندی کے شیخ کفایت اللہ سنابلی کوجوابات اور اعتراضات کا جائزہ

ایک سنابلی صاحب ہیں اہل حدیث عالم، انہوں نے میرے خلاف ایک کلپ بنایا ہے۔ ﴿بس یہ بات کر کے میں یہ بات ختم کر رہا ہوں۔﴾ انہوں نے کلپ میں یہ کہا ہے کہ مفتی صاحب نے نا! میرا نام لے کے کہا ہے کہ مفتی صاحب نے کہا ہے کہ تراویح کا لفظ ہی آٹھ رکعتوں پہ فٹ نہیں بیٹھتا، اسلاف نے اس نماز کو نام دیا ہے تراویح کا، ترویحہ چار رکعتوں کو کہتے ہیں، تراویح اس کی جمع کثرت ہے، یعنی کئی مجموعے چار رکعتوں کے، تو آٹھ رکعتیں اگر ہوتیں، تو ترويحتين کہا جاتا، تروایح، بولو! اسلاف اس کو تراویح نہیں کہتے، ترویحتین کہتے۔

دو ترویحے، پھر میں نے کہا کہ ہمارے ہاں جو لوگ اس کا جواب دیتے ہیں نا! جواب میں باتوں کو گھماتے ہیں، تو انہوں نے، سنابلی صاحب ہیں کوئی، انہوں نے کہا کہ میں گھما نہیں رہا، میں صحیح جواب دے رہا ہوں، حالآنکہ اس میں گھمایا ہے۔

در اصل مفتی طارق مسعود، شیخ کفایت اللہ سنابلی کے جواب سے چکرا گئے ہیں، کہ مفتی طارق مسعود صاحب نے دعوے تو بڑے بڑے کیئے تھے، ان کے یہ دعوے شیخ کفایت اللہ سنابلی کے مدلل جواب سے چکنا چور ہو گئے، اس لیئے مفتی طارق مسعود صاحب کا چکرانا تو بنتا ہے، مگر مفتی طارق مسعود صاحب کا شیخ کفایت اللہ سنابلی پر یہ الزام لگانا کہ انہوں نے گھمایا ہے، درست نہیں۔ مفتی طارق مسعود صاحب ضرور چکرا گئے ہیں، مگر شیخ کفایت اللہ سنابلی نے گھمایا نہیں ہے۔ ان دونوں أمور یعنی، مفتی طارق مسعود صاحب کے چکرانے، اور شیخ کفایت اللہ سنابلی کہ نہ گھمانے کا بیان آگے آئے گا۔

تراویح کا لفظ ہی آٹھ رکعتوں پہ فٹ نہیں بیٹھتا

نہیں، یہ بلکل بھی گھمانہ نہیں ہے، وجہ اس کی یہ ہے، کہ مفتی طارق مسعود صاحب نے ابھی خود اپنا مدعا بیان کیا کہ تراویح کا لفظ ہی آٹھ رکعتوں پہ فٹ نہیں بیٹھتا ، اور شیخ کفایت اللہ سنابلی کا مدعا ہے کہ قیام اللیل فی رمضان آٹھ رکعت سنت نبوی ہے، اور اگر مفتی طارق مسعود کی بات تسلیم کی جائے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیام اللیل فی رمضان پر تراویح کا لفظ صادق نہیں آتا۔ لہٰذا، بجائے اس کے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیام اللیل کی تعداد کا انکار کیا جائے، قیام اللیل فی رمضان کے بعد میں دیئے گئے نام کو چھوڑ دیا جائے۔ اور یہ بصورت تسلیمِ مدعائے مفتی طارق مسعود صاحب کے ہے۔

جبکہ شیخ کفایت اللہ سنابلی، مفتی طارق مسعود کے اس دعوے کے قائل نہیں، کہ آٹھ رکعت قیام اللیل فی رمضان پر تراویح کا اطلاق نہیں ہوتا۔ شیخ کفایت اللہ سنابلی نے اس پر دلیل بھی پیش کی ہے، کہ عربی لغت کے لحاظ سے، آٹھ رکعات تراویح پر بھی تراویح کے نام کا اطلاق ہوتا ہے، جس کا ذکر مفتی طارق مسعود صاحب نے کیا بھی ہے۔ لہٰذا شیخ کفایت اللہ سنابلی کی بات کو مفتی طارق مسعود صاحب نے گھمایا ہے، نہ کہ شیخ کفایت اللہ سنابلی نے مفتی طارق مسعود صاحب کی بات کو، فتدبر! یہاں شیخ کفایت اللہ سنابلی نے جو نکتہ بیان کیا ہے، وہ یہ ہے کہ؛ اقبال سے معذرت کے ساتھ؛

اور پھر یہ بھی کہا ہے کہ قرآن میں إِخْوَةٌ جمع کا لفظ ہے جو اخ کے معنی میں استعمال ہوا ہے، حالآنکہ وہ جمع کا لفظ، ہم عرض کرتے ہیں: یہ دیکھیئے! مفتی طارق مسعود چکرا گئے، چکرا کر گرنے ہی والے تھے، کہ خود کو سنبھال لیا! حالآنکہ وہ جمع کا لفظ ، إِخْوَةٌکے لفظ کا جمع کا لفظ ہونے کا انکار کرنے ہی والے تھے، مگر شکر ہے، کہ انہوں نے خود کو سنبھال لیا۔ مفتی طارق مسعود صاحب، آپ فریق مخالف کی بات دھیان سے سنا اور پڑھا کیجیئے، اور اس پر غور و فکر کرکے سمجھا کیجیئے، اس کے بعد فریق مخالف کی بات پر تبصرہ و نقد کیا کیجیئے!

حالآنکہ شیخ کفایت اللہ سنابلی نے یہ نہیں کہا کہ قرآن میں إِخْوَةٌ کا لفظ اخ کے معنی ميں استعمال ہوا ہے، بلکہ شیخ کفایت اللہ سنبالی نے یہ کہا ہے کہ إِخْوَةٌ جو کہ جمع کا اسم ہے، جمع کا لفظ ہے، اس کا اطلاق اس کی تثنیہ یعنی دو بھائیوں پر بھی ہوتا ہے، مطلب تثنیہ یعنی دو کے لیئے بھی جمع کے اسم کا اطلاق عربی میں ہو سکتا ہے، اور ایسا قرآن ميں بھی ہے، جس کی ایک مثال شیخ کفایت اللہ سنابلی نے إِخْوَةٌکے تثنیہ پر بھی اطلاق ہونے کی پیش کی۔ قرآن میں موجود اس مثال نے مفتی طارق مسعود صاحب کو چکرا دیا، اب آگے ان کے چکرانے کا حال دیکھیئے۔

فقہ حنفی اور وراثت

قرآن نے بھائیوں کی وراثت بیان کی ہے، حالآنکہ ایک بھائی کی بھی وہ وراثت ہے، جس کو اخ خيفی کہتے ہیں، تو وہ جو ایک بھائی کی بھی وہ وراثت ہے نا! وہ اس لیئے نہیں کہ بھائیوں کا لفظ اخ پر صادق آرہا ہے، وہ دلالت النص سے یا اجماع سے ثابت ہے، مفتی طارق مسعود صاحب اب بلکل چکرا چکے ہیں، اور ایک ایسی بات پر بحث کر رہے ہیں، جس کا شیخ کفایت اللہ سنابلی نے ذکر بھی نہیں کیا۔ شیخ کفایت اللہ سنابلی نے یہ نہیں کیا، کہ ایک بھائی کا کتنا حصہ ہے، اور دو بھائیوں کا کتنا حصہ ہے، اور دو سے زائد بھائیوں کا کتنا حصہ ہے، کہ یہاں دو سے زائد بھائیوں کا جتنا حصہ ہے، اتنا ہی دو کا بھی ہے، ایسا کچھ بھی شیخ کفایت اللہ سنابلی نے نہیں کہا۔

شیخ کفایت اللہ سنابلی نے یہ کہا تھا کہ اس آیت میں جمع کے صیغے سے کہا گیا ہے کہ اگر میت کی أولاد نہ ہو، اور میت کے إِخْوَةٌ (بھائی کی جمع) ہوں، تو میت کی والدہ کا سدس یعنی چھٹا حصہ ہے، اس پر شیخ کفایت اللہ سنابلی نے مفتی طارق مسعود سے تعریضاً یہ سوال کیا، کہ کیا انہوں نے ایسی صورت میں کہ میت کی أولاد نہ ہو، اور میت کے دو بھائی ہوں، تو کیا مفتی طارق مسعود قرآن کے اس حکم کا اطلاق نہیں کریں گے، کہ قرآن میں بھائیوں کی جمع کے صيغے کے ساتھ وارد ہوا ہے، کیا مفتی طارق مسعود کے مطابق؛ دو بھائیوں پر بھائی کی جمع کا اطلاق نہیں ہوگا، اور میت کی والدہ کو ایک تہائی حصہ کا فتوی صادر فرمائیں گے؟ جبکہ فقہ حنفی مطابق بھی ایسا فتوی درست نہ ہوگا۔

مسئلہ یہاں وراثت کا زیر بحث نہیں، وگرنہ ہم بتلاتے کہ مفتی طارق مسعود صاحب کو علم وراثت کو دہرانے کی حاجت ہے، وہ شاید بھول گئے ہیں کہ والدین کی موجودگی میں بھائی بہن محجوب ہوتے ہیں، اور انہیں وراثت ميں کوئی حصہ نہیں ملتا! کیونکہ والد بھائیوں کے حق میں حاجب ہے۔ مفتی طارق مسعود صاحب کو چاہیئے، کہ وہ شیخ کفایت اللہ سنابلی کی کتاب تفہیم الفرائض کا مطالعہ کریں [4]۔

محبت نامہ

طارق مسعود نے اچھی بات کی ہے کہ اہل حدیث دیگر لوگوں سے بہتر ہیں۔ لیکن انہیں مزید خود کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی مفتی کو جزائے خیر عطا فرمائے اور توفیق بھی دے کہ جو چیزیں اہل حدیث میں درست ہیں، ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں۔ اختلاف صرف اہل حدیث کا ہی آپس میں نہیں ہے، ہر مسالک میں ایسے صاحبان علم ہوتے ہیں جو دلائل کی رو سے اپنے مکتب فکر میں رائج اقوال سے اختلاف کرتے ہیں، اس کی تازہ ترین مثال انڈیا کے حنفی حضرات کی ہے، جنہوں نے حنفی ہونے کے باوجود تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی دیا ہے۔

اس سے پہلے جتنے بھی بڑے بڑے علمائے کرام گزرے ہیں، چاہے وہ کسی بھی مکتب فکر اور مسلک سے تعلق رکھتے ہوں، انہوں نے دلائل کی بنیاد پر رائج الوقت موقف سے اختلاف کیا ہے۔ مفتی نے فرمایا کہ آپ باقاعدہ اپنی فقہ کا اعلان کریں ورنہ امت تباہی کے راستے پر گامزن ہوجائے گی۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ اگر تو فقہ کا اعلان اس وجہ سے کرنا ہے کہ کوئی رائج موقف سے سر مو انحراف نہ کرے، تو یہ امر محمود نہیں ہے، یہ تعصب و جمود ہے، جسے خود اہل مذاہب اور ان کے سربراہ ائمہ کرام بھی پسند نہیں فرماتے تھے کہ واضح دلائل کے باوجود اپنے موقف سے صرف اس وجہ سے رجوع نہ کیا جائے کہ وہ مسلک کا نمائندہ موقف نہیں ہے۔

امام مالک کی کتاب بطور فقہ قانون

امام مالک کو کہا گیا کہ آپ کی کتاب کو بطور فقہی قانونی کے نافذ کردیا جاتا ہے، انہوں نے اس پر موافقت کا اظہار نہیں کیا تھا، کیونکہ بہرصورت کوئی بھی فقہ یا موقف یا کتاب یا عالم دین کو قرآن وسنت کی نصوص کا درجہ نہیں دیا جاسکتا کہ کوئی اس سے اختلاف نہ کرسکے۔ اور اگر باقاعدہ فقہ کی تدوین کا مطالبہ مفتی اس وجہ سے کر رہے ہیں کہ علمائے کرام کا آپس میں اختلاف نہ رہے، تو یہ تو ان کے ہاں بھی ممکن نہیں۔

حالانکہ ان کے باقاعدہ مذاہب مرتب و مدون موجود ہیں، جیسا کہ تازہ مثال پیش کی گئی ہے کہ بعض حنفی علمائے کرام نے اہل حدیث کی طرح تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی دیا ہے۔ مفتی ! ہماری یہی فقہ ہے کہ ہمارا قرآن وسنت کے علاوہ کوئی رائج دستور نہیں ہے کہ جس سے کوئی اختلاف نہ کرسکے۔ یہی ہمارا قانون ہے۔ جس طرح آپ کے پاس لوگ مسائل لے کر آتے ہیں اور آپ انہیں فقہی حنفی میں محصور ہو کر قرآن وسنت سے مسئلہ تلاش کرکے دیتے ہیں، اسی طرح جب ہمارے مفتیان کے پاس مسئلہ آتا ہے تو ہم اپنے منہج کے مطابق تمام مجتہدین و مذاہب کو سامنے رکھتے ہوئے براہ راست قرآن وسنت سے انہیں مسئلہ تلاش کرکے دیتے ہیں!! خطا در حوالہ: Closing </ref> missing for <ref> tag۔

  1. مولانا مفتی طارق مسعود کا عازمین حج کے گروپ سے خطاب-jang.com.pk- شائع شدہ از: 8 جولائی 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جون 2024ء۔
  2. کیا اسلام میں ٹیٹو بنوانا جائز ہے؟ مفتی طارق مسعود نے بتادیا-dailypakistan.com.pk- شائع شدہ از: 9 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جون 2024ء۔
  3. جاپان کی ترقی سے پاکستان کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے:مفتی طارق مسعود- jang.com.pk-شائع شدہ از: 6 جنوری 2024ء- اخذ شدہ از: 25جون 2024ء۔
  4. مفتی طارق مسعود مقلد حنفی دیوبندی کے شیخ کفایت اللہ سنابلی کوجوابات اور اعتراضات کا جائزہ-forum.mohaddis.com- شائع شدہ از: 6 اپریل 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 25 جون 2024ء۔