رہبرِ معظم فقط شیعانِ علیؑ کے رہبر نہیں، بلکہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن(نوٹس اور تجزیے)
رہبرِ معظم فقط شیعانِ علیؑ کے رہبر نہیں، بلکہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن
ایک طویل عرصے تک ہم اہلِ سنت کو اس الٰہی رہبر سے دور رکھنے کی شعوری کوشش کی گئی۔ ہمارے درمیان فقہی، مسلکی اور تاریخی دیواریں کھڑی کی گئیں، ہمیں اس عظیم شخصیت سے اجتناب پر آمادہ کیا گیا جس کا ہر بول قرآن کی ترجمانی، ہر فعل رسول اللہ (ص) کے اخلاق کی عکاسی، اور ہر خاموشی مظلوم کی چیخ سننے کی مثال بن چکی ہے۔ مگر اب وقت کا دھارا بدل چکا ہے۔
سید علی خامنہ ای استکبار زمانہ کے سامنے سیسہ پلائی دیوار
اب ہم اہلِ سنت، خصوصاً شعور یافتہ نوجوان نسل، اب اس بات کے برملا اظہار میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے کہ رہبرِ معظم فقط شیعوں کے نہیں، بلکہ ہم سب کے دلوں کی دھڑکن بن چکے ہیں آج ان کی قیادت میں امت کو وہ سچائی، غیرت، حریت اور وحدت کا پیغام ملا ہے جس کی تلاش صدیوں سے جاری تھی۔
آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی شخصیت کوئی معمولی دینی رہنمائی نہیں، وہ ایک الٰہی رہبر، ایک حکیم امت، ایک مردِ بصیرت اور ایک نظریاتی قلعہ ہیں جو استکبارِ زمانہ کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے کھڑے ہیں۔ اُن کی ولایت فقط فقہی دائرہ کار تک محدود نہیں، بلکہ اُن کا اثر امت کے ہر اس حصے پر ہے جہاں مظلوم کی آہ، یتیم کا آنسو، شہید کا لہو، یا بیدار دلوں کی تڑپ موجود ہے۔ انہوں نے ایران کو تو نظام ولایت کے تحت محفوظ کیا ہی، لیکن ساتھ ہی ساتھ فلسطین، لبنان، شام، یمن، افغانستان، بحرین، کشمیر، اور حتیٰ کہ پاکستان میں بھی مزاحمت، حریت اور بیداری کی وہ آگ روشن کی جس نے ہر بااحساس انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ انہوں نے ہمیں بھی متاثر کیا ہم جو دیوبندی مکتب فکر کے پیروکار ہیں، ہم جو سچائی کے متلاشی، سنتِ نبوی (ص) کے فدائی، اور باطل کے خلاف ہمیشہ صف اول میں کھڑے رہے ہیں ہم نے اس رہبر کی آنکھوں میں علیؑ کی جرأت، سجادؑ کا صبر، زینبؑ کی حکمت، اور عباسؑ کی وفا کو محسوس کیا ہے۔ ہمیں ان کے لہجے میں تقویٰ کی گرمی، ان کی تقریر میں اخلاص کی روشنی، اور ان کی خاموشی میں نورِ ولایت کی چمک دکھائی دیتی ہے۔
پوری ملت اسلامیہ کا ضمیر
جب فلسطین پر بم گرتے ہیں، جب یمن میں بھوک سے بچے تڑپتے ہیں، جب بحرین میں صدائے احتجاج کو دبایا جاتا ہے، جب شام میں تکفیری دہشت گرد مساجد اڑاتے ہیں، جب کشمیر میں حریت کے متوالے شہید ہوتے ہیں تو دنیا کی اکثر زبانیں خاموش ہوتی ہیں، مگر ایک آواز ضرور گونجتی ہے تہران سے، حرمِ رضوی کے قریب سے، ایک ایسی زبان سے جو فقط فتوے نہیں دیتی، فقط تحلیل نہیں کرتی، بلکہ خونِ دل سے نکلا ہوا کلمہ بولتی ہے: یہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی آواز ہے جو نہ فقط شیعہ بلکہ سنی، نہ فقط ایرانی بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا ضمیر ہے۔
انہوں نے صرف شیعہ سنی اتحاد کا درس نہیں دیا بلکہ عملاً اُس پر عمل کر کے دکھایا۔ ان کا فرمان “جو زبان شیعہ سنی فساد پھیلائے وہ نہ شیعہ ہے نہ سنی بلکہ دشمن کا ایجنٹ ہے” ایک ایسی فکری ضرب ہے جو فرقہ پرستی کے ایوانوں کو ہلا دینے کے لیے کافی ہے۔ آج ایران میں لاکھوں اہل سنت بھائی مکمل دینی و معاشی آزادی کے ساتھ رہ رہے ہیں، جبکہ خود رہبر معظم ہر ہفتہ وحدت، ہر بین الاقوامی کانفرنس میں وحدت کا پرچم بلند کرتے نظر آتے ہیں۔
رہبر معظم کی بین الاقوامی اپیل محض عقیدت کی مرہون منت نہیں بلکہ اُن کی فکری، علمی، انقلابی، اور روحانی گہرائیوں کی وجہ سے ہے۔ اُن کی تقاریر کا ہر جملہ ایک پیغام، ہر فقرہ ایک راہ، اور ہر سکوت ایک درس ہوتا ہے۔ جب انہوں نے امریکہ کو “استکبار” کہا، تو یہ فقط سیاسی اصطلاح نہیں تھی بلکہ یہ تو قرآن کا وہ مفہوم تھا جو فرعون، نمرود اور ابو جہل کے کرداروں کو زندہ کر دیتا ہے۔ جب وہ کہتے ہیں کہ “امریکہ سے دشمنی ہماری پالیسی نہیں بلکہ ہمارا اصول ہے” تو یہ بات ہر غیرتمند مسلمان کے دل کی آواز بن جاتی ہے۔
میں بحیثیت ایک فاضل دیوبند اس امر کا معترف ہوں کہ رہبرِ معظم کی فکر علامہ اقبالؒ کی فکر سے مکمل ہم آہنگ ہے۔ دونوں شخصیات نے امت کو خودی، غیرت، بیداری اور قرآن کی طرف بلایا ہے۔ جہاں اقبال کہتا ہے "خودی کو کر بلند اتنا..." وہیں رہبرِ معظم نوجوانوں سے کہتے ہیں: "اگر نوجوان جاگ جائے تو امت کا مقدر بدل سکتا ہے۔" ان کی نوجوان نسل پر توجہ، ان کی تحریک علم و تحقیق، ان کا استعماری ذہنیت کے خلاف مزاحمتی شعور یہ سب امت مسلمہ کے لیے حیات نو کی علامت بن چکا ہے۔
پاکستان کے حوالے سے بھی اُن کی دلی محبت اور فکری وابستگی ہمیں حیران کن محسوس ہوتی ہے۔ وہ بارہا علامہ اقبال کو "اسلامی بیداری کا مفکر" کہتے ہیں، اور پاکستان کو "اسلامی دنیا کے لیے مرکزِ ثقل" سمجھتے ہیں۔ جب پاکستان میں دہشت گردی ہو، فرقہ واریت ہو، یا قومی بحران ہو، تو اُن کی رہنمائی ہمیشہ عدل، انصاف، اور وحدت پر مبنی ہوتی ہے۔ ہمیں یاد ہے جب کوئٹہ میں معصوم زائرین کے جنازے اُٹھے تو اُنہوں نے وہ مذمتی بیان دیا جس نے ہمارے دلوں کو حوصلہ دیا اور پاکستانی حکمرانوں کو جھنجھوڑا۔
اس وقت عالمی استعمار، سامراجی قوتیں، صہیونیت اور تکفیریت سب ایک ہو کر اسلام کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں، اور افسوس کہ بیشتر مسلم حکمران یا تو خاموش ہیں یا خود اُن سازشوں کا حصہ بن چکے ہیں۔ ایسے میں ایک ہی شخصیت ہے جو صف شکن ہے، جو اکیلا مگر خدا پر یقین رکھتا ہوا پوری دنیا کے ظلم کے سامنے کھڑا ہے، اور جو ہمیں یہ حوصلہ دیتا ہے کہ “اگر حق پر ہو تو تنہا بھی اکثریت پر غالب آسکتا ہے”۔
مجھے فخر ہے، شرم نہیں، کہ میں ایک دیوبندی ہونے کے باوجود رہبرِ معظم آیت اللہ خامنہ ای کو اپنا پیشوا، اپنی روح کی آواز، اور امت کی قیادت کے لائق ترین شخص مانتا ہوں۔ میں اپنے اہل سنت بھائیوں سے کہتا ہوں کہ آئیے، خلوص کے ساتھ اس شخصیت کو پہچانیے، ان کی فکر کو سنیے، اور جان لیجیے کہ وقت کا امام فقط فرقے کا نہیں ہوتا، وہ امت کا ہوتا ہے۔
اور آج، اس دور فتن میں، اگر کوئی رہبر ایسا ہے جو حق، تقویٰ، عدل، حریت، وحدت، اور مزاحمت کا حسین امتزاج ہے، تو وہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای ہیں جو اب صرف ایران یا تشیع کے نہیں، بلکہ ہم سب کے، تمام امت کے دل کی دھڑکن بن چکے ہیں۔
شکریہ رہبر انقلاب دلبرمن آیةاللّٰه العظمٰی السید علی حسینی خامنہ ائ حفظہ اللّٰه[1]۔
حوالہ جات
- ↑ تحریر: رانا فاروقی، فاضل دیوبند، رہبرِ معظم فقط شیعانِ علیؑ کے رہبر نہیں، بلکہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن- شائع شدہ از: 1 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 جولائی 2025ء