مندرجات کا رخ کریں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا 42 کھرب ڈالر کے قرضے سے نجات حاصل کرنے کیلئے ریاض میں لوٹ مار پر مبنی دورہ

ویکی‌وحدت سے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا 42 کھرب ڈالر کے قرضے سے نجات حاصل کرنے کیلئے ریاض میں لوٹ مار پر مبنی دورہ ڈونلڈ ٹرمپ کا تین عرب ممالک (سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات) کے دورے کے حوالے سے ایک تجزیاتی عنوان ہے۔ وہ اس خطے کا دورہ اس حال میں کر رہا ہے کہ وہ امریکہ کے اقتصادی بحران کو روکنے کیلئے ان ممالک کے وسائل کو زیادہ سے زیادہ "لوٹنے" کی کوشش میں ہیں۔ امریکہ کا قرضہ 42 کھرب ڈالر سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔ میڈیا نے امریکی صدر کے اس دورے کو بے مثال میڈیا ہنگامے کے درمیان بار بار "تاریخی سفر" قرار دیا ہے۔

شور و غل کا سفر

پہلا نکتہ: اس میڈیا ہنگامے کے بارے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ ریاض کا یہ ٹرمپ کا پہلا دورہ نہیں ہے، اور نہ ہی ٹرمپ پہلے امریکی صدر ہیں جو سعودی عرب کے دارالحکومت کا دورہ کر رہے ہیں۔ پھر اتنا شور و غل کیوں؟ دوسرا نکتہ: ٹرمپ اور اس کے اسٹریٹجک اتحادی، قابض صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے درمیان “تعلقات کی خرابی” کی وضاحت میں بھی مبالغہ آرائی کی گئی ہے۔ جب کہ ان دنوں ہم اسرائیلی نژاد امریکی قیدی “عیدان الیگزینڈر” کی رہائی دیکھ رہے ہیں جس کی کوئی سیاسی اور فوجی اہمیت نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان “تعلقات کی یہ خرابی” اصل کہانی کیا ہے؟ ان دونوں کے درمیان رابطے نہ صرف رکے نہیں ہیں بلکہ ٹرمپ کا اگلا دورہ تل ابیب تقریباً یقینی ہے، کیونکہ یہ “اسرائیلی” رہنما ہیں جو امریکہ پر حکومت کرتے ہیں، نہ کہ اس کے برعکس۔ ٹرمپ اس خطے کا دورہ اس لیے کر رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ اسے لوٹ سکیں اور اپنی قوم کے معاشی زوال کو روک سکیں۔ واشنگٹن پر 42 ٹریلین ڈالر سے زیادہ کا قرض ہے اور صرف خلیج فارس کا علاقہ ٹرمپ کو اس مقصد کو حاصل کرنے کے قابل بنا سکتا ہے، نہ کہ یورپ میں اس کے اتحادی!

دوسری جانب، "اسرائیل" صرف امریکہ سے اربوں ڈالر لیتا ہے اور کبھی واپس نہیں کرتا، جیسا کہ دنیا نے بار بار دیکھا ہے کہ صیہونی حکومت نے امریکہ سے بڑے بمبار طیارے، فوجی ٹیکنالوجی، تحفظ اور دو ہزار پونڈ کے میزائل لیے اور اس سے غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کو نشانہ بنایا، یہاں تک کہ یمن پر بھی حملہ کیا۔ لہذا، ٹرمپ کے دورے، خاص طور پر سعودی عرب کے دورے کو ملتوی کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی؛ مذکورہ مقاصد کو جلد از جلد حاصل کرنا ضروری تھا۔

حالانکہ اگر ٹرمپ نے غزہ کی پٹی میں نسل کشی کی جنگ کو فوری طور پر روکنے کا حکم نیتن یاہو کو دیا ہوتا یا اسے دھمکی دی ہوتی کہ اس کی درخواست مسترد کرنے کی صورت میں وہ طاقت کا استعمال کرے گا، تو یہ ملاقات "تاریخی" ہو سکتی تھی، جیسا کہ سابق امریکی صدر "ڈوائٹ آئزن ہاور" نے 1956 ءمیں مصر پر تین طرفہ جارحیت کے دوران ایسا ہی کیا تھا۔

امریکی رہنماؤں کا پُرتپاک استقبال میں مبالغہ آرائی

تحریر میں مزید کہا گیا ہے: ہم ایک ایسی قوم کی حیثیت سے جو امریکی اصطلاحات کو دہرانے کی عادی ہے، امریکی رہنماؤں اور ان کے دوروں کے پُرتپاک استقبال میں مبالغہ آرائی کرنے کے پابند ہیں۔ ٹرمپ یقیناً کھربوں ڈالر، تحائف اور اپنی کمپنیوں کے ساتھ بڑے معاہدوں کے ساتھ واشنگٹن واپس لوٹے گا اور امریکہ کے صدارتی طیارے کے واشنگٹن کی جانب روانہ ہوتے ہی نیتن یاہو غزہ کی پٹی پر دوبارہ مکمل حملہ شروع کر دےگا، اور امریکہ کی بے حد حمایت کے ساتھ غزہ، مغربی کنارے، یمن، لبنان اور شام میں صیہونی حکومت کی جانب سے تباہ کن جنگیں بدستور جاری رہیں گی۔

امریکی صدر اپنی دھمکیوں کی ناکامی سے واقف ہو چکے ہیں، جنھیں انھوں نے چین اور روس کے بارے میں "خوفناک صدمے اور دہشت" کا نام دیا تھا، بالکل اسی طرح جیسے وہ یمن اور ایران کے بارے میں اپنی دھمکیوں کی ناکامی کو سمجھ چکے ہیں۔ اسی وجہ سے، پسپائی اختیار کرتے ہوئے، وہ مذاکرات کی میز کی طرف لپکے اور اپنی موجودہ اور ممکنہ جنگوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ مصنف کا ماننا ہے کہ سفارت کاری ایک چیز ہے اور دلالوں کے سربراہ کے حکم اور سیاہ نمائی کے آگے ہتھیار ڈالنا ایک اور چیز! یہ کہنا کہ عرب امریکہ کو "نہیں" نہیں کہہ سکتے، بالکل درست نہیں ہے۔

سعودی عرب نے ایک وقت میں واشنگٹن سے منہ موڑ کر چین اور روس کا رخ کیا۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ کے اس وقت کے صدر جو بائیڈن کو ریاض مدعو کیا گیا اور تمام عرب رہنماؤں اور سربراہوں کو ایک غیر معمولی اجلاس میں اکٹھا کیا گیا۔ ریاض نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ اوپیک پلس کے معاہدے پر دستخط کیے، جو تاریخ کی سب سے بڑی اقتصادی کامیابی، تیل اور گیس کی دولت اور اس کی حقیقی قدر کا تحفظ تھا۔ اس سعودی اقدام نے بائیڈن کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا تاکہ وہ ذلت کے ساتھ ریاض کا سفر کریں۔

لیکن کھربوں ڈالر مختص کرنا ایک مہلک ہتھیار کے مترادف ہے جسے قوم، اس کے مقاصد اور اس کے نظریات کی خدمت میں استعمال کیا جانا چاہیے اور اسے ان لوگوں کے لیے آزاد نہیں ہونا چاہیے جو اس کے اہل نہیں ہیں۔ امریکہ کے لیے "حاتم" جیسی اخلاقیات اور مہمان نوازی کو ایک طرف رکھ دینا چاہیے؛ کیونکہ مغرب میں کوئی اخلاقیات نہیں ہے اور وہ صرف "مصلحت" اور "مفادات" کی زبان سمجھتا ہے۔ تو ہم اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیوں نہ کریں جیسا وہ ہمارے ساتھ کرتا ہے؟ جب امریکہ پہلے سے طے شدہ انعام کے بغیر کوئی رعایت نہیں دیتا، تو ہم واشنگٹن کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیوں نہ کریں؟

جبری نقل مکانی

اس تجزیہ کے اختتام پر بیان کیا گیا ہے کہ ٹرمپ واشنگٹن واپس نہ آئیں جب تک کہ غزہ، مغربی کنارے، لبنان اور یمن میں جنگ کا خاتمہ یقینی نہ ہو جائے۔ اس کے علاوہ، ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ علانیہ فلسطینیوں کے "جبری نقل مکانی" کی پالیسی کو مسترد کریں اور غزہ کو مشرق وسطیٰ میں اپنی املاک کے کاروبار کے لیے "ریویرا" نہ بنائیں۔ آخر میں، اس تجزیہ میں سعودی عرب کی جانب سے پیش کی جانے والی دو ریاستی حل کی مکمل تعمیل پر زور دیا گیا ہے، جو عرب پہل کے مطابق ہے، جس کا ایک منصوبہ بھی تیار ہے۔[1]

حوالہ جات

  1. تحلیل رای الیوم از حضور غارتگرانه ترامپ در ریاض برای رهایی از بدهی ۴۲ تریلیون دلاری (42 ٹریلین ڈالر کے قرض سے نجات کے لیے ریاض میں ٹرمپ کی لوٹ مار پر مبنی موجودگی پررائ الیوم کا تجزیہ به قلم: عبدالباری عطوان)-fa.alalam.ir (زبان فارسی)- تاریخ درج شده: 14/مئی/2025 ء تاریخ اخذ شده: 21/مئی/ 2025ء

زمره:نوٹس اور تجزیے