فلسطین

ویکی‌وحدت سے
فلسطین
فلسطین 4.jpg
سرکاری نامفلسطین
طرز حکمرانیجہوریہ
دارالحکومتبیت المقدس
آبادی3۔14میلین
مذہباسلام
سرکاری زبانعربی
کرنسیروپیہ

فلسطین مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے جہاں مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد اقصیٰ ہے ۔اس پر 1948 سے اسرائیل کا قبضہ ہے۔ اس ملک کا دارالحکومت بیت المقدس ہے۔

تاریخ میں فلسطین کی سرزمین مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں سے آباد رہی ہے ۔ فلسطین میں اسلام، عمر بن خطاب کے دور خلافت میں آیا۔ فلسطین میں اسلام کی آمد کے بعد امویوں، عباسیوں، فاطمیوں اور عثمانیوں نے اس سرزمین پر غلبہ حاصل کیا۔ صلیبی جنگوں میں مسلمانوں پر عیسائیوں کی فتح کے بعد فلسطین کی حکومت کچھ وقت کے لیے عیسائیوں کے پاس چلی گئی۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد مسلمانوں نے فلسطین واپس لے لیا۔ پہلے یہ سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا اور پہلی جنگ عظیم تک اس کی یہی حیثيت رہی۔

فلسطین پر 1948 سے اسرائیلی حکومت کا قبضہ ہے اور اس کے بعد سے اسرائیل کی جانب سے اس پر کئی جنگیں اور قتل عام مسلط کئے گئے۔

اس ملک میں شیعہ بھی رہتے ہیں۔ لیکن ان کی آبادی کے متعلق درست اعداد و شمار موجود نہیں ہے۔ تحریک جہاد اسلامی صابرین موومنٹ کو شیعوں سے متاثر فلسطینی گروپ سمجھا جاتا ہے ۔ حماس اور الفتح اس ملک کی دوسری جماعتیں ہیں۔

جغرافیہ

فلسطین کا رقبہ 10419 مربع میل ہے جو بحر متوسط کے مشرق میں واقع ہے۔ اس کی سرحدیں اردن، شام، مصر اور لبنان سے ملتی ہیں [1]۔

1917 میں انگریزوں کے فلسطین پر قبضے سے پہلے شام کا جنوب مغربی علاقہ فلسطین کہلاتا تھا۔ اس کے علاوہ، ماضی میں، سرزمین فلسطین کو شام کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے عربوں میں اسے "جنوبی شام" کے نام سے یادکیا جاتا تھا۔ فلسطین کا رقبہ 27 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے۔

عالم اسلام میں فلسطین کا مقام

فلسطین کی سرزمین مسلمانوں کے درمیان مختلف وجوہات کی بنا پر ایک خاص مقام رکھتی ہے۔جن میں سے ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اس ملک میں مسجد اقصیٰ (مسلمانوں کا قبلہ اول) ہے۔ سرزمین فلسطین کو قرآن میں "مقدس سرزمین" اور "مبارک سرزمین" کہا گیا ہے۔

فلسطین میں بہت سے انبیاء مدفون ہیں۔ مثال کے طور پر، حضرت مریم کی قبر شہر ناصرہ میں ہے اور حضرت یحیی سامریہ اور حضرت ابراہیم شہر الخلیل میں دفن ہے۔ فلسطین کے دارالحکومت بیت المقدس سے ہی یہودیت اور عیسائیت کا ظہور ہوا ۔ مختلف انبیاء کی قبروں کے علاوہ مقام حضرت موسیٰ، مسجد اقصیٰ، مسجد صخرہ بھی اسی شہر میں واقع ہیں۔اریحا اور غزہ کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ چار سنی فقہاء میں سے ایک محمد بن ادریس شافعی، فلسطین کے شہر غزہ میں پیدا ہوئے۔

اسلام سے پہلے فلسطین کی تاریخ

مؤرخین کے مطابق فلسطین پتھر کے زمانے سے بنی نوع انسانی سے آباد رہا ہے۔ فلسطین کا قدیم ترین نام " سرزمین کنعان" ہے جو کنعانی عربوں سے لیا گیا ہے جو فلسطین میں مہاجرین کا پہلا گروہ تھا۔ اس گروہ نے 3500 قبل مسیح میں ہجرت کے لیے فلسطین کا انتخاب کیا۔ فلسطین کا نام مہاجر قبائل سے لیا گیا ہے جو 1200 قبل مسیح کے آس پاس مغربی ایشیا سے اس سرزمین کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ فلسطین کے زیادہ تر باشندے کنعانی عرب تھے جو آہستہ آہستہ دوسرے عرب قبائل کے ساتھ گھل مل گئے۔ اس کے علاوہ،مختلف ادوار میں فلسطین کے بعض علاقوں میں یہودیوں نےبھی حکومت قائم کی۔ لیکن 63 قبل مسیح میں رومیوں نے فلسطین پر غلبہ حاصل کیا اور یہودیوں کو اپنے زیر تسلط کر لیا۔ سن 30 عیسوی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا آغاز ہوا ۔ انہوں نے اپنی تعلیمات کی تبلیغ کا کام شہر بیت المقدس سے شروع کیا۔

استاد شہید مرتضی مطہری کے مطابق ، فلسطین کی سرزمین اپنی تاریخ میں کبھی بھی یہودیوں کی نہیں رہی، نہ اسلام سے پہلے اور نہ اسلام کے بعد۔ صرف ایک عارضی دور میں، جناب داؤد (ع) اور جناب سلیمان (ع) نے وہاں حکومت کی۔ جب مسلمانوں نے فلسطین کو فتح کیا تو فلسطین عیسائیوں کے قبضے میں تھا اور مسلمانوں نے عیسائیوں سے صلح کر لی۔ امن معاہدے کی ایک شق یہ تھی کہ عیسائیوں نے کہا کہ فلسطین یہودیوں کو نہ دیا جائے۔

اسلامی دور میں فلسطین

یوں تو فلسطین میں اسلام ابو بکر کے دور میں آچکا تھا تاہم یہ سرزمین سنہ 13 ہجری میں عمر بن خطاب کے دور خلافت میں خالد بن ولید کی قیادت میں اجنادین کی جنگ سمیت کئی لڑائیوں کے دوران فتح ہوئی ۔

عمر بن خطاب کے دور خلافت میں فلسطین اسلامی سرزمین کا حصہ بن گیا۔اس کے بعد اس سرزمین پر اموی اور عباسی خلفاء نے حکومت کی۔ 358 ھ میں فاطمیوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ فلسطین پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے فاطمیوں نے مقامی انقلابات ، قرامطہ اور سلجوقی ترکوں کا مقابلہ کیا۔ اس عرصے کے دوران، فلسطین پر تنازعہ جاری رہا، اس طرح کہ فلسطین کی حکومت منگولوں ، مصر کے مملوکوں، اور عثمانیوں کے درمیان تبدیل ہوتی رہی یہاں تک کہ عثمانیوں نے 1516 عیسوی میں فلسطین پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔

صلیبی جنگوں اور تقریباً ستر ہزار مسلمانوں کے قتل کے بعد 1099 ء میں یورپی عیسائیوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ صلیبی جنگوں کے بعد 88 سال تک عیسائیوں کی حکمرانی جاری رہی۔ جنگ حطین کے بعد صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں مسلمانوں نے فلسطین واپس لے لیا۔ فلسطین پر عثمانی حکومت 1917 میں برطانیہ کے قبضے تک جاری رہی ۔ فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ 1948 تک جاری رہا، حالانکہ برطانیہ نے 1922 میں قبضے کے عنوان کو ایک محافظ ریاست میں تبدیل کر دیا تھا۔

فلسطین کو یہودیانے کی پالیسی اور یہودیوں کے معاشی اور سیاسی اثر و رسوخ میں اضافے کا مقابلہ کرنے کے لیے 1931 (1310ھ) میں القدس اسلامی کانگریس کے نام سے ایک کانفرنس فلسطین کے مفتی اعظم محمد امین الحسینی نے بیت المقدس میں منعقد کی ۔ اس کانگریس کے نائب صدر اور سیکرٹریٹ کے سربراہ سید ضیاء الدین طباطبائی (وفات: 1348)، ایک ایرانی سیاست دان تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کے باہمی اتحاد کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے ہر ملت کی قومیت کے تحفظ پر زور دیا۔ اس کانفرنس میں اقبال لاہوری جیسی شخصیات نے بھی خطاب کیا۔

1936 میں فلسطینی عوام نے برطانوی حکومت کے خلاف انقلاب برپا کیا۔ لیکن اس انقلاب کو برطانوی اور صیہونی رکاوٹوں نے شکست دی۔ کہا جاتا ہے کہ اس بغاوت کی ناکامی کے ساتھ ہی برطانوی حکام نے امین الحسینی کو جلاوطن کر دیا اور دوسری قدس کانگریس کے انعقاد کو روک دیا۔

یہودی وطن کے لیے انگریزوں کی حمایت

پہلی عالمی جنگ (1914-1919ء) میں سلطنت عثمانیہ برطانیہ(اتحادیوں) کے خلاف جرمن(محوریوں) کی حمایتی تھی۔ برطانوی حکومت نے عرب ممالک کی امداد اور حمایت حاصل کرنے کے لیے مکہ کے شریف حسین سے گفت و شنید کی۔ شریف مکہ نے دوسرے عرب سرداروں اور حمکرانوں سے مشورہ کرنے کے بعد برطانوی حکومت کو مطلع کیا کہ عرب ممالک صرف اسی صورت میں برطانوی حکومت کی امداد کرسکتے ہیں کہ جنگ کے بعد ان کے آزادی اور خود مختاری کے اعلان کا وعدہ کیا جا‎ئے۔ برطانوی حکومت نے جنگ جیتنے کے لیے عربوں کی یہ شرط منظور کرلی اور کچھ عرصہ بعد عرب ممالک کی سرحدوں کا تعین کردیا۔

عربوں سے آزادی کا وعدہ کرنے کے بعد برطانوی حکومت نے دو خفیہ معاہدے کئے جس سے عربوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی۔ پہلا خفیہ معاہدہ سائیکس پیکٹ(Sykes Pact) 1916ء میں طے پایا۔ جس کے تحت عرب علاقوں کو برطانیہ اور فرانس کے مابین تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔دوسرا خفیہ معاہدہ 1917ء کا اعلان بالفور (Balfour Declaration) تھا۔ بالفور اس خط کا متن ہے جو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمس بالفور نے برطانوی حکومت کی جانب سے برطانیہ میں مقیم یہودیوں کے فاؤنڈیشن کے چیئرمین لارڈراتھس چائلد کو لکھا تھا۔ اس خط میں وعدہ کیا گیا تھا کہ حکومت برطانیہ فلسطین میں یہودیوں کی کے لیے ایک قومی وطن (National Home) قائم کرنے میں مدد دے گی۔ یہ اعلان یہودی مملکت کے مطالبے کو بین الاقوامی پیمانے پر تسلیم کئے جانے کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اتحادی طاقتوں نے اعلان بالفور کی تائید کی [2]۔

فلسطین پر یہودیت اور اسرائیل کے قبضے کی پالیسی

1799 میں نپولین بوناپارٹ پہلا یورپی رہنما تھا جس نے یہودیوں کو فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی دعوت دی۔ برسوں بعد 1897 میں سوئٹزرلینڈ میں پہلی صہیونی کانفرنس منعقد ہوئی اور اس میں فیصلہ کیا گیا کہ فلسطین کو یہودیانے کے لیے ایک بنیادی پالیسی پر عمل ہونا چاہے۔ مسئلے کی حساسیت کو کم کرنے کے لیے انہوں نے یہودی ریاست کے بجائے یہودیوں کے وطن کی اصطلاح استعمال کی ۔ تاہم، 30 سال بعد اور پہلی جنگ عظیم کے آغاز میں، صرف 1 فیصدیہودیوں نے اس منصوبے کی حمایت کی اور یہ عملی طور پر ناکام رہا۔ اس وقت فلسطین کی آبادی کا صرف 8 فیصد یہودیوں کے لیے مختص تھا اور رقبے کے لحاظ سے پورے فلسطین کا صرف 2 فیصد ان کے اختیار میں تھا۔

پہلی جنگ عظیم کے واقعات 1917 میں بالفور اعلامیہ کے اجراء کا باعث بنے۔ اس بیان میں برطانیہ نے فلسطین میں یہودیوں کا وطن بنانے کا مطالبہ کیا۔ اسی وجہ سے فلسطین پر برطانوی حکومت کے دوران صیہونیوں کی ایک بڑی آبادی نے سرزمین فلسطین کی طرف ہجرت کی۔ اس عرصے میں یہودیوں کی تعداد میں چھ گنا اضافہ ہوا۔

15مئی 1948ء کی رات فلسطین کے سینے میں صہیونیت نے اپنا خنجر گاڑ دیا [3]۔ اس وقت یہودیوں کا فلسطین کی 78 فیصد زمین پر قبضہ تھا۔ مقبوضہ علاقوں میں فلسطین کے شمال میں واقع الخلیل، بحر متوسط کا ساحل، صحرائے نقب اور فلسطین کا وسطی علاقہ شامل تھا۔ چونکہ مغربی کنارہ اردن کے زیر انتظام تھا اور غزہ بھی مصری حکومت کے زیر انتظام تھا اس لیے یہ دونوں علاقے صیہونیوں کے قبضے سے بچ گئے تھے۔ تاہم، 1967 سے 1995 تک، اسرائیل مغربی کنارے کے 60 فیصد اور غزہ کے 40 فیصد حصے پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہا۔ نیز اس عرصے میں اسرائیل نے فلسطین کے 97 فیصد حصے پر قبضہ کر لیا۔

اسرائیل کے قیام کے دن کو "یوم نکبۃ" یا تباہی کا دن کہا جاتا ہے اور سال 1948 کو نکبت کا سال کہا جاتا ہے۔ نیز اسرائیل سے عرب ممالک (مصر، شام، اردن اور عراق) کی شکست کی وجہ سے سنہ 1967 کو "نکسہ" کا سال کہا جاتا ہے۔ یہ جنگ 6 دن تک جاری رہی اور عرب ممالک کی شکست کے بعد مغربی کنارے، غزہ اور فلسطین کے ہمسایہ ممالک کے کچھ علاقے اسرائیل کے قبضے میں آگئے۔

10 نومبر 1972 کو اسرائیل کی غاصب حکومت کے خطرے کے بارے میں امام خمینی نےکہا: اسرائیل کی تشکیل کے پیچھے عظیم استعماری حکومتوں کا مقصد صرف فلسطین پر قبضہ کرنا نہیں ہے بلکہ اگر انہیں مل گیا گیا تو تمام عرب ممالک کا حشر فلسطین جیساہوگا۔

رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم قدس کا نام دینا

امام خمینی، رہبر اسلامی جمہوریہ ایران نے 1358 میں اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینی عوام کی حمایت میں رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم قدس کا نام دیا۔ ہر سال دنیا کے کئی ممالک جیسے عراق ، ایران ، ہندوستان اور ملائیشیا میں یوم قدس کے موقع پر فلسطینی عوام کی حمایت میں بڑے مظاہرے ہوتے ہیں۔

اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کا قتل عام

1948 میں اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے بعد سے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان ہمیشہ تنازعات ہوتے رہے ہیں۔ اسرائیل نے کئی بار فلسطینیوں کا قتل عام کیا ہے۔ 1948 میں اسرائیل نے 34 قتل عام کیے جن میں دیر یاسین کا سب سے مشہور قتل عام ہے۔ اس قتل عام میں 254 افراد بے دردی سے شہید کئے گئے۔ اسرائیل کا ایک اور جرم 1956 میں "خان یونس" کا قتل عام ہے جس میں 250 فلسطینی مارے گئے۔ تاریخ کے سب سے بڑے جرائم میں سے ایک صبرہ اور شتیلا کا قتل عام ہے ۔ یہ واقعہ 1982 میں پیش آیا تھا جس میں 3297 فلسطینی خواتین اور بچے شہید ہو گئے تھے۔

غزہ کی پٹی

اکتوبر 2023 میں، اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر بارہ روزہ حملے کے دوران 135,000 سے زیادہ رہائشی عمارتوں کو تباہ اور متعدد مکانات کو مسمار کر دیا ۔ ان حملوں کے نتیجے میں 3200 سے زائد فلسطینی شہید اور 11000 زخمی ہوئے۔

فلسطینی وزارت صحت کے اعدادوشمار کے مطابق اسرائیلی حملے کے گیارہویں دن تک پانچ سو خواتین اور تقریباً سات سو بچے اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ 17 اکتوبر کو اس حکومت نے غزہ کی پٹی کے سب سے اہم اسپتالوں میں سے ایک معمدانی اسپتال (الاھلی العربی) کو زمین بوس کردیا، جس میں 500 سے زائد افراد شہید ہوگئے۔

اسرائیل کے خلاف فلسطینی انتفاضہ

فلسطین پر قبضے کے دوران اس سرزمین نے فلسطینی عوام کی بے شمار بغاوتیں دیکھی ہیں۔ فلسطینی عوام کی پہلی منظم بغاوت 1976 میں یوم الارض انتفاضہ کے نام سے ہوئی تھی۔ دوسرا انتفاضہ 1987 میں مغربی کنارے اور غزہ میں ہوا جو " پہلا انتفاضہ" یا "فلسطینی عوام کا اتفاضہ" کے نام سے مشہور ہوا ۔ 2000 میں، ایک اور انتفاضہ، جسے الاقصیٰ انتفاضہ کے نام سے جانا جاتا ہے، اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون کے مسجداقصیٰ میں داخل ہونے کی وجہ سے شروع ہوا۔ الاقصیٰ انتفاضہ کے سب سے اہم نعروں میں سے ایک فلسطینی ریاست کا قیام اور مغربی کنارے سے قابضین کا انخلاء تھا۔ 1987 کے انتفاضہ میں، جو چھ سال تک جاری رہا، 1540 افراد شہید اور 130,000 زخمی ہوئے۔ 2000 کے انتفاضہ میں 2800 افراد مارے گئے۔

2021 میں اسرائیل کے خلاف میزائل حملے

2021 میں مزاحمتی گروپوں اور اسرائیل کے درمیان تصادم ہوا جو 11 دن تک جاری رہا۔ اس تنازع میں حماس اور اسلامی جہاد تحریک نے راکٹوں کا استعمال کرتے ہوئے تل ابیب سمیت اسرائیل کے زیر قبضہ مختلف فلسطینی شہروں کو نشانہ بنایا۔ یہ تنازعہ فلسطینی مظاہرین کی سرکوبی کے ردعمل میں پیش آیا جو اسرائیلی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کررہے تھے کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو شیخ جراح کا علاقہ چھوڑ کر اپنے گھر صہیونیوں کے حوالے کر دینے چاہئے۔ اگرچہ غزہ پر اسرائیل کے حملوں میں بہت زیادہ نقصان ہوا اور متعدد مزاحمتی جوان اور شہری شہید اور زخمی ہوئے لیکن فلسطینیوں نے بھی جنگ بندی کے بعد اپنی فتح کا جشن منایا۔

فلسطینی باشندے

تاریخی ذرائع کے مطابق فلسطین کے باشندے دو گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، عرب اور یہودی۔ عرب بھی مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر گروہوں میں تقسیم ہیں۔

عرب

اعداد و شمار کے مطابق 1948 میں فلسطین میں رہنے والے عربوں کی تعداد تقریباً ایک ملین چھ لاکھ تھی جن میں سے 88.5 فیصد مسلمان ، 10.4فیصد عیسائی اور 1.1فیصد دیگر گروہ تھے۔ 1949 میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد فلسطینی عرب چار گروہوں میں تقسیم ہو گئے:

  • جنہوں نے 1948 کے قبضے کے خلاف مزاحمت کی۔ اس گروہ کو گرین لائن کے رہائشیوں کا نام دیا گیا
  • دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ کے رہائشی ۔
  • گرین لائن، مغربی کنارے، غزہ، اردن، شام اور لبنان کے پناہ گزین جنہوں نے آباد کاری کے لیے ان علاقوں کا انتخاب کیا۔
  • فلسطینی مہاجرین جو دوسرے عرب اور غیر عرب ممالک میں ہجرت کر گئے تھے۔

1948 میں، تقریباً نصف فلسطینی عربوں (تقریباً 7لاکھ افراد) کو ان کی سرزمین سے بے دخل کر دیا گیا اور وہ مغربی کنارے، غزہ ، اردن ، شام ، لبنان ، مصر اور عراق کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ 2023 میں مذکورہ علاقوں میں پناہ گزینوں کی تعداد 56 لاکھ بتائی گئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس سال فلسطین میں باقی ماندہ عرب فلسطین کی کل آبادی کا 14فیصد تھے۔ یورونیوز کے مطابق آج فلسطین میں باقی ماندہ عرب مقبوضہ فلسطین کی آبادی کا 20 فیصد ہیں۔ 2002 کے اعدادوشمار کے مطابق فلسطینیوں کی کل آبادی 80 لاکھ تھی جن میں سے 52 فیصد دوسرے ممالک میں پناہ گزین تھے۔

یہودی

1914 میں، یہودی فلسطین کی کل آبادی کا تقریباً 8 فیصد تھے۔ لیکن یہ تناسب 1943 میں بڑھ کر 30 فیصد ہو گیا۔ 1948 میں اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے بعد اس سرزمین کی بیشتر آباد ی یہودیوں پر مشتمل ہو گئی۔

سیاسی جماعتیں

اخوان المسلمون

اخوان المسلمین فلسطین 1948 میں مصر اور اردن کی اخوان المسلمین کی شمولیت سے قائم ہوئی تھی ۔ 1967 میں دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ پر اسرائیل کے قبضے کے بعد مصر اور اردن کی اخوان المسلمون کا فلسطین سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ یہ فلسطینی اخوان المسلمین کی ترقی کا سبب بنا۔

اسلامی مزاحمتی تحریک حماس

فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس فلسطین کی سب سے نمایاں اسلامی مزاحمتی تحریک ہے۔ یہ تحریک اخوان المسلمون کی تحریک کا تسلسل ہے۔ تحریک حماس نے فلسطین میں اسلامی ریاست کے قیام کی زمین ہمورا کرنے کے لیے افراد، خاندانوں اور معاشرے کی تعلیم و تربیت کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا۔ اپنی تشکیل کے آغاز میں حماس کے پاس فلسطین پر قبضے کا مقابلہ کرنے کا کوئی خیال نہیں تھا۔ لیکن بعد میں وہ مسلح جدوجہد میں داخل ہو گئے۔

تحریک جہاد اسلامی

اس تحریک نے فلسطین -اسرائیل تنازع کو اپنا نظریہ بنایا ہے۔ یہ تحریک 1980 میں شروع ہوئی۔ تحریک جہاد اسلامی اخوان المسلمین سمیت دیگر روایتی اسلامی تحریکوں سے اختلافات رکھتی ہے۔

قومی تحریک برائے آزادی فلسطین (فتح)

تحریک فتح فلسطین کی سب سے پرانی سیاسی جماعت ہے۔ اس تحریک کی بنیاد 1965 میں یاسر عرفات نے رکھی تھی ۔ فلسطینی حکومت کے زیادہ تر عہدیدار اس جماعت کے رکن ہیں ۔

مذہب

بین الاقوامی اداروں کے اعدادوشمار کے مطابق 85فیصد فلسطینی (مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور مشرقی بیت المقدس میں رہنے والے عربوں سمیت) مسلمان ہیں ۔

مسلمانوں میں بھی اکثریت شافعی مذہب کی پیروکار ہے۔فلسطینیوں کی طرف ناصبیت کا انتساب یہودیوں کی شیطنت ہے جس کا مقصد اہل فلسطین کے ساتھ ہمدردی کو ختم کرنا ہے۔ اہل بیت (ع) کے نام سے مختلف مساجد کا وجود جیسے غزہ،رفح ،خان یونس اورنابلس میں مسجد علی بن ابی طالب اور غزہ ، رفح اور جنین جیسے شہروں میں حضرت زہرا (س) کے نام سے منسوب مساجد نیز بچوں کے نام اہل بیت (ع) کے نام پر رکھنا دلیل ہے کہ فلسطینی مسلمان نہ صرف ناصبی نہیں ہیں بلکہ اہل بیت ؑ سے محبت کرنے والے ہیں۔

فلسطین میں شیعہ

فلسطین میں شیعوں کی موجودگی کا پس منظر شام میں جناب ابوذر غفاری کی موجودگی سے ملتا ہے۔ مقدیسی نے اپنی کتاب "احسن التقاسیم" میں اور ناصر خسرو نے اپنے سفرنامے میں نقل کیا ہے کہ ایک زمانے میں فلسطین کی اکثریت شیعہ تھی ۔ شیعہ مذہب فلسطین میں چوتھی صدی میں فاطمیوں کے دور میں پروان چڑھا۔ فاطمیوں کے چھٹے حکمران الحاکم بامر اللہ نے بیت المقدس میں فاطمی دارالعلم قائم کیا ۔ اس دار العلم نے فلسطین میں شیعیت کی نشو ونماں میں نمایاں کردار ادا کیا اور یہ فلسطین پر صلیبیوں کے قبضے تک اپنی سرگرمیاں انجام دیتا رہا۔ صلیبی جنگوں اور اس کے بعد فلسطین اور شامات کے علاقوں پر سنی المذھب صلاح الدین ایوبی کے غلبہ کے باوجود فلسطین میں شیعوں کا وجود باقی رہا اور عثمانی دور میں فلسطینی شیعہ دوبارہ ابھرے۔ فلسطین میں شیعوں کو سب سے پہلے صلاح الدین ایوبی نے کچلا۔ عثمانی دور میں شیعوں کی خوشحالی کے بعد احمد پاشا نے تقریباً دس سال تک شیعوں کے خلاف جنگ کی اور ان کی کتابیں جلا دیں۔

21ویں صدی میں اور عصر حاضر میں لبنانی حزب اللہ کے ساتھ فلسطینی گروہوں کے تعلق کی وجہ سے فلسطین میں شیعوں کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے ۔ اسرائیل پر حزب اللہ کی فتوحات نے فلسطین میں شیعیت کی توسیع میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایسوسی ایشن آف ریلیجن اینڈ سوشل لائف "PEW Institute" کے شماریاتی مرکز نے فلسطین میں شیعوں کے وجود کی تصدیق کی ہے۔ تاہم، فلسطین میں بعض گروہ شیعوں کے خلاف سرگرم ہیں۔ غزہ میں "ابن بار الخیریہ الاسلامیہ" کی بنیادی سرگرمی شیعیت کے پھیلاؤ کے خلاف جد و جہد ہے۔ نیز سلفی جہاد کی تحریک بھی شیعوں سے لڑنے کے مقصد سے قائم کی گئی ہے۔

شیعوں سے نزدیک جماعتیں اور گروہ

"تحریک جہاد اسلامی" کو فلسطین میں شیعیت کی علامت سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کے بانی فتحی شقاقی شیعوں سے متاثر تھے۔ نیز،تحریک صابرین جو تحریک جہاد اسلامی سے الگ ہوئی، شیعوں سے نزدیک ہے۔ یہ تحریک 2014 میں ہشام سالم کی قیادت میں شروع ہوئی۔ شقاقی ایسوسی ایشن ایک خیراتی اور غیر سیاسی انجمن ہے جو تمام اسلامی مذاہب کے بارے میں یکساں نظریہ رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔

فلسطین کے شیعہ اداروں میں سے کچھ یہ ہیں: اسلامی یوتھ ایسوسی ایشن، احسان خیری کلینک، نقاء اسکول،غدیر ایسو سی ایشن ، آل البیت ایسو سی ایشن۔ اس کے علاوہ ہفتہ وار اخبار "الاستقلال" اور ریڈیو چینل "وائس آف القدس" بھی فلسطینی شیعوں کے ہاتھ میں ہے۔

اسرا‏ئیل کے بارے میں پاکستان کا موقف

فلسطینی عوام کئی دہائیوں سے اپنی ہی سرزمین پر بے در ہیں۔اسرائیل فلسطینی سرزمین پر ناجائز قابض ہے۔ امریکہ اس ناجائز قبضہ گروپ کا پشت پناہ اور سہولت کار ہے۔ اسرائیل مشرق وسطیٰ کا وہ بدمعاش ہے جو کسی بھی بین الاقوامی قانون کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اسرائیل لاکھوں فلسطینیوں جن میں جوانوں کے علاوہ معصوم بچے،عورتیں اور بوڑھے افراد شامل ہیں، کا قاتل ہے۔ لیکن اس کوروکنے والا کوئی نہیں۔ بلکہ کئی مسلمان ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی قائم کررکھے ہیں اور بعض مسلمان ریاستوں نے تو اسرائیل کے ناپاک وناجائز وجود اور حکومت کو بطور ملک وریاست تسلیم بھی کیا ہے اور اس کے ساتھ تعلقات بھی قائم کرلئے ہیں۔

اپنی سرزمین کو ناجائز قابض اور غاصب سے آزاد کرانے کیلئے فلسطینی تنظیم ’’حماس‘‘ نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اسرائیل کو متنبہ کرنے کیلئےکارروائی کی تو اسرائیل کو نانی یاد آگئی۔ اسرائیل نے اپنے جنگی سازو سامان ، نگرانی کے نظام اور دہشت گرد خفیہ ادارے ’’ موساد‘‘ کا جو ہوا بنایا ہوا تھا وہ سب تصوراتی ثابت ہوا۔ دنیا حیران ہوگئی خود اسرائیل اس ناگہانی کارروائی سے ایسا پریشان ہوا کہ ابھی تک اس کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ یہ ہوا کیا۔ کیسے ہوا ۔ اسرائیل تو فلسطینیوں کو لاچار سمجھتا رہا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے ناجائز قبضے اور نہتے فلسطینیوں کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں تھا۔ پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک نے اسرائیل کے ساتھ نہ سفارتی ،تجارتی تعلقات قائم کئے نہ اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کیا۔لیکن بعض مواقع پر صرف مذمتی بیانات ہی جاری کرتےرہے۔ عملی طور پر فلسطینیوں کی مدد نہیں کی۔ جس سے اسرائیل کے حوصلے بڑھتے گئے اور وہ اپنے ہی ملک، اپنی ہی سرزمین اور اپنے ہی گھروں سے بزور طاقت وبندوق نہتے اور مظلوم فلسطینیوں کو بے دخل کرتا رہا۔ ہزاروں فلسطینی نوجوانوں ،جن میں خواتین بھی شامل ہیں کو غیر قانونی اور ناجائز طور پر پابند سلاسل کیا اور یہ سلسلہ جاری رکھا۔ لاکھوں بے گناہ فلسطینی معصوم بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو قتل کرتا رہا۔ ان مقتولوں میں وہ نہتے نوجوان بھی شامل ہیں جو ٹینک کے گولوں کا جواب پتھروں سے دیتے رہے۔ اگر فلسطینیوں کو دنیا کے باہمت اور بہادر عوام کہاجائے تو یہ بالکل درست ہوگا۔

آج فلسطین جل رہا ہے۔ نہتے فلسطینی اسرائیل کے بمبار جہازوں کے نشانے اور بموں کی زد میں ہیں۔ درندہ صفت اسرائیل فلسطینیوں پر ممنوعہ فاسفورس بم پر پھینک رہا ہے۔ اسرائیلی صہیونیوں نے غزہ کی ناکہ بندی کررکھی ہے۔ اسرائیل اسپتالوں اور اسکولوں تک کو اپنی بربریت کا نشانہ بنارہا ہے۔ناکہ بندی کرتے ہوئے کہیں سے بھی امدادی سامان فلسطینیوں تک پہنچنے نہیں دیا جارہا۔آج ایک طرف غزہ اور دیگر مسلم علاقوں میں نہ خوراک ہے نہ ہی پینے کا پانی ہے۔ غزہ کوبجلی کی فراہمی کا واحد پاور اسٹیشن بھی اسرائیلی بمباری کی وجہ سے تباہ ہوکر ناکارہ ہوچکا ہے۔ اسپتالوں میں ادویات اور علاج معالجے کی تمام سہولیات ناپید ہوچکی ہیں۔ اسرائیل اپنی ناجائز حکومت اور ناپاک وجود کو قائم رکھنے کیلئے فلسطینیوں کا قتل عام کررہا ہے۔ لیکن مسلم ممالک سمیت کئی مغربی ممالک صرف مذمتی بیانات اور فریقین کو صبروتحمل کی تلقین ہی کررہے ہیں۔ اقوام متحدہ جو واقعتاً ایک نام نہاد ادارہ ہے اور امریکہ کے آگے بے بس نظر آتا ہے اس اہم ترین معاملے میں بھی غیر فعال نظر آرہا ہے۔ اسرائیل دنیا اور اسلامی ممالک کے سامنے سرعام فلسطینیوں کو بمباری اور بھوک پیاس سے قتل کررہا ہے۔ لیکن ابھی تک دنیا کوتو چھوڑیں کسی اسلامی ملک نے سامنے آکر فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان نہیں کیا۔ اسلامی ممالک کے علاوہ بعض مغربی ممالک میں مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں نے فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف مظاہرے کیے ہیں اور کررہے ہیں، جبکہ دوسری جانب امریکہ نے کھلم کھلا نہ صرف اسرائیل کو حق بجانب قرار دیابلکہ اسرائیل کو ہر قسم کاجنگی سازو سامان مہیا کرکے حوصلہ بھی دے رہا ہے۔ امریکہ نے اپنا جنگی بحری بیڑہ بھی روانہ کردیا ہے۔ جس سے مشرق وسطیٰ میں صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ یورپی کمیشن نے بھی اسرائیل کو حق بجانب قرار دیا ہے۔ لیکن افسوس کہ مسلمان ممالک میں ابھی تک اسلامی جرات کا جذبہ نظر نہیں آرہا۔ کسی کو بھی بموں، گولیوں اور بھوک پیاس سے بلکتے اور پناہ کی تلاش میں بھاگتے پھرتے معصوم بچوں اور خواتین پرکوئی ترس نہیں آرہا ہے۔ فلسطینی یا تو اپنی سرزمین کو آزاد کرالیں گے چاہے مزید جتنی بھی قربانی دینی پڑے یا سب شہید ہو جائیں گے۔ لیکن دنیا کی اسرائیل کی مجرمانہ حمایت اور غفلت تاریخ کے اوراق پر ہٹلر کی طرح ہمیشہ زندہ رہے گی۔

پاکستان بھی اس صورتحال سے باقی دنیا کی طرح متاثر ہوسکتا ہے۔ مغربی اور مشرقی سرحدوں پر صورتحال بھی غیرتسلی بخش ہے۔ ملکی معاشی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے۔ لیکن کسی کو ذرہ برابر بھی پروا نہیں ہے۔ ہر طرف الیکشن، چیئرمین پی ٹی آئی کو رہا کرو اور نواز شریف آ رہا ہے کا شور مچا ہوا ہے۔ اقتدار کے متلاشی دنیا، خطے اور ملکی حالات سے غافل ہو کر اپنے اپنے مقاصد کے حصول کیلئےسرگرداں ہیں۔ اور ہر ایک عوام کو ایک بار پھر بیوقوف بنانے میں مصروف ہے۔ اس تمام صورتحال کو کنٹرول کرنے والا بھی کوئی نظر نہیں آ رہا۔ یہ تو طے ہے کہ کوئی باہر آئے یا کوئی باہر سے آئے نہ ملک کی معاشی صورتحال میں بہتری آسکتی ہے نہ ملک کی بہتری ہو سکتی ہے۔ ملک کی بہتری نظام کی تبدیلی میں مضمر ہے اور یہ نیک کام،یعنی ملک وحالات کو کنٹرول، کوئی اللہ کا بندہ ہی کر سکتا ہے [4]۔

فلسطین اور پاکستان

پاکستان قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایٹمی قوت رکھنے والا واحد اسلامی ملک ہے۔ ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے جہاں دوست ممالک ہیں وہیں یہودی و عیسائی ممالک کی نظریں اسے تباہ و برباد کرنے پر مرکوز ہیں۔ امریکہ سمیت یورپی ممالک پوری دنیا کے ممالک پر بالعموم اسلامی ممالک پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ جس کے راستے میں پاکستان بڑی رکاوٹ ہے۔

ہٹلر کے یہودیوں کو نشان عبرت بنانے کے بعد یہودیوں نے بے یار و مددگار ہونے کے ناطے امریکہ کے کہنے پر فلسطین کے خطے میں آبادکاری شروع کی۔ جس کی بناء پر پوری دنیا کے کونے کونے سے یہودی جمع ہونے شروع ہوئے اور بعدازاں امریکہ نے اپنی ناجائز اولاد کے طور پر اسرائیل کے نام سے ایک ملک متعارف کروایا۔ یہ ملک اپنے قیام سے لے کر اب تک مسلمانوں بالخصوص فلسطین کے خلاف مزاحمتی کاروائیاں کر رہا ہے۔ اسکا مقصد بیت المقدس اور فلسطینی علاقوں پر قبضہ کرنا ہے اور اسے یورپی یونین سمیت امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ حالیہ دنوں میں اسرائیل کی جانب سے ماہ رمضان میں بیت المقدس میں نماز تراویح ادا کرنے والے مسلمانوں پر ظلم کی داستان رقم کی گئی۔ جس کے بعد مسلسل کئی روز تک اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی پر فضائی حملے کئے گئے۔

انٹرنیشنل میڈیا چینلز کی کوریج کو روکنے کے لئے بلند و بالا ٹاورز کو نشانہ بنایا گیا جہاں الجزیرہ سمیت متعدد انٹرنیشل میڈیا چینلز کے دفاتر موجود تھے۔اسرائیل کا ان ٹاورز کو تباہ کرنے کا مقصد اسرائیلی مظالم کو دنیا کے سامنے آنے سے روکنا تھا۔ حماس نے اسرائیلی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کی ٹھانی اور ہزاروں راکٹ فائر کئے گئے جن کو اسرائیلی حفاظتی آئرن ڈومز نے فضا میں تباہ کر دیا اور چند راکٹ اسرائیل پر گرے جس کو بنیاد بنا کر اسرائیل پوری دنیا کے سامنے مظلومیت کا واویلا کرتا نظر آیا۔

ہیومن رائٹس کے عالمی ٹھیکیدار امریکہ نے اسرائیل کا بھرپور ساتھ دیا اور فلسطینیوں کے قتل عام کو ذاتی دفاع قرار دیا۔ اسی اثناء میں سعودی عرب کی جانب سے او آئی سی کے رکن اسلامی ممالک کا اجلاس بلایا گیا جس میں صرف فالتو لفاظی اور مذمت کے علاوہ فلسطینی بہن بھائیوں کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔ عرب ممالک کے اسرائیل سے گہرے تعلقات ہیں۔ متحدہ عرب امارات پہلے ہی اسے تسلیم کر چکا ہے اور سعودی عرب بھی امریکی غلامی کا حق ادا کرتے ہوئے خوب نمک حلالی کرتا رہا۔

سوال یہ ہے کہ مسلم امت اگر ایک جسم کی مانند ہے اور ایک حصے کو تکلیف ہو تو سارا جسم محسوس کرتا ہے تو کیا فلسطینی عوام اس جسم کا حصہ نہیں؟ ہمارے حکمرانوں نے جب سے یورپ کو اپنا قبلہ منتخب کر لیا ہے تب سے وہ ذلت کا شکار ہیں۔ محض نوے لاکھ کی آبادی والا ملک اسرائیل کیسے ہر روز بم گرا کر ہمارے مسلمان بہن بھائیوں کو شہید کرتا رہا۔ سینکڑوں لوگ شہید ہو گئے 60 ہزار بے گھر اور ہزاروں زخمی ہیں۔ کون اسرائیل کے اس ظلم کا بدلہ لے گا؟ مسلم ممالک کو اس کے رد عمل میں کھوکھلی مذمت کرنے کے بجائے مردانہ وار آواز اٹھاتے ہوئے جہاد کا اعلان کرنا چاہئیے تھا۔

پاکستان آرمی دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک ہے۔ اگر ہمارے دستے UN امن مشن پر روانہ ہو سکتے ہیں تو قبلہ اول بیت المقدس جہاں ہمارے آقا علیہ السلام نے ایک لاھ چوبیس ہزار سے زائد انبیاء کی امامت کروائی وہاں اسکی حفاظت اور اسلام کی سربلندی کے لئے کیوں نہیں روانہ ہو سکے۔ اسلام امن کا درس ضرور دیتا ہے مگر جب حالات موزوں نہ ہوں تو ایک مسلم لڑکی کے خط پر محمد بن قاسم کی طرح سندھ پر حملہ کرنے کا درس بھی دیتا ہے۔

مسلمان اپنے دین کے معاملہ میں بہت غیرت مند ہے۔ چاہے کوئی بے نمازی ہی کیوں نہ ہو مگر جب میرے آقا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس اور اسلام کی سربلندی کی بات آئے تو دنیا نے دیکھا کہ کیسے عاشاقانِ مصطفی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے مہینے میں حکومت پاکستان کے مظالم کو برداشت کیا۔پچیس افراد کو شہید کر دیا گیا مگر فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے معاملہ میں حکومت وقت نے تاحال کوئی اقدامات نہیں کئے۔ کیا یہ حکومت فقط مدینہ کو دورہ کر کے خود کو عاشق رسول کا سرٹیفیکیٹ دینے کے لئے ہے۔ دنیا میں ہمارے نبی کی شان میں گستاخیاں ہوں اور فلسطینی مسلمانوں پر بموں کی بارش کی جائے اور حکمرانوں کا خون نہ کھولے تو ان کو اپنے ایمان کا ٹیسٹ کروانے کی اشد ضرورت ہے۔

چاہئیے تو یہ تھا کہ پاکستان اسرائیل کو شاہین تھری کی دھمکی دیتا۔ جس کی رینج میں اسرائیل موجود ہے اور یہ ایٹمی وار ہیڈ ساتھ لے جانے کی صلاحیت سے لیس ہے۔ مگر غیرت ایمانی رکھنے والے حماس اور القسام بریگیڈ کی عظمت کو سلام کہ انہوں نے اس ایٹمی ملک کی فوج سے بہتر کارکردگی دکھائی۔ محدود وسائل کے باوجود اسرائیل کے دل تل ابیب اور دیگر شہروں پر راکٹ برسائے اور یہ ثابت کر دیا کہ مسلمان جہاد کے نام پر جان دینے سے نہیں ڈرتا۔

51 مسلم ممالک کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئیے کہ ہم قاتل اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں یا اپنے فلیسطینی بہن بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر تے ہوئے عملی اقدامات کے ذریعے فلسطین کو اسرائیل کے قبضہ سے چھڑوائیں گے۔ تمام اسلامی ممالک قدرتی وسائل کی دولت سے مالامال ہیں۔ اگر اپنی مصنوعات بشمول تیل دنیا کو دینا بند کر دیں اور یورپ کی مصنوعات کا کچھ عرصہ بائیکاٹ کر دیں تو اسرائیل سمیت کئی یورپی ممالک کی معیشت دیوالیہ ہو سکتی ہے۔ مگر افسوس صد افسوس ہمارے حکمران آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے غلام ہیں۔ فقط لفظی مذمت پر ہی اکتفاء کرتے ہیں۔ اسرائیل نے اب اتنی تباہی کے بعد جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ مگر ان سینکڑوں شہادتوں کی دیت کون دے گا؟کونسا اسلامی ملک اس ناقابل تلافی نقصان کی وجہ سے اسرائیل کا محاسبہ کرے گا۔ حکومت پاکستان کو چاہئیےکہ عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے جہاد کا اعلان کرے کیوں کہ یہود و نصٰریٰ قرآن کریم کی رو سے کبھی ہمارے دوست نہیں ہو سکتے۔ لہذا دوستی کی امید رکھنے کے بجائے یہ وقت امت کو جوڑنے اور غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرنے کا ہے۔ جس دن پاکستان ایٹمی طاقت بنا اس دن فلسطینی بچے نے اسرائیلی فوجی کو کہا تھا کہ اب ہم ایٹمی طاقت ہیں۔ ایٹم بم کو اسلامی بم سمجھا جاتا تھا کہ یہ پورے عالم اسلام میں جہاں کہیں ظلم ہوگا اسکے خلاف استعمال کیا جائے گا۔

پاکستان کو ایٹمی قوت ہونے کے ناطے مسلم دنیا کی قیادت کرتے ہوئے اسرائیل کے خلاف موثر آواز بننا ہوگا۔ کیوں کہ مشہور محاورہ ہے لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے [5]۔

مسجد الحرام میں فلسطینی پرچم لہرانے پر پابندی /مزاحمتی علماء یونین کے سربراہ سخت برہم

شیخ ماهر حمود رئیس اتحادیه جهانی علمای مقاومت

مزاحمتی علماء یونین کے سربراہ شیخ ماہر حمود نےمسجد الحرام میں فلسطینی پرچم لہرانے پر پابندی کے خلاف سخت برہمی کا اظہار کیا۔

مزاحمتی علماء یونین (انٹرنیشنل یونین آف ریزسٹنس اسکالرز) کے سربراہ شیخ ماہر حمود نے عیدالفطر کی استقبالیہ تقریب کی منسوخی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ پروگرام صیہونیت کے خلاف متحدہ موقف اور فلسطینیوں کی حمایت کا ذریعہ ہو سکتا تھا۔

انہوں نے نماز عید فطر کے لئے مسجد الحرام میں موجود نمازیوں اور زائرین کی بڑی تعداد کا ذکر کرتے ہوئے کہا: نماز عید فطر میں شرکت کرنے والوں کی تعداد توقع سے کہیں زیادہ تھی، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ انہیں فلسطینی پرچم بلند کرنے یا غزہ میں قتل عام اور غارت گری کے خلاف بولنے یا فلسطین اور مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی اجازت نہیں دی گئی۔

انہوں نے کہا: اگر چہ کہ اہل مزاحمت دنیا میں موجود مسلمانوں کی تعداد کے مقابلے کم ہیں لیکن صرف وہی راہ حق پر ہیں اور دوسرے غلط راہ پر، وہی سیدھے راستے پر ہیں اور دوسرے گمراہی کے راستے پر ہیں، جو لوگ مقاومت اور مزاحمت کی حمایت نہیں کرتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قیامت کے دن بارگاہ الہی میں ان کی شکایت کریں گے۔

مزاحمتی علماء یونین کے سربراہ نے سورہ فرقان کی آیت 30 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:قرآن مجید کہتا ہے: وَقَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا، جب کہ ٹیلی ویژن چینلز وغیرہ پر قرآن مجید کی چوبیس گھنٹے تلاوت ہوتی رہتی ہے اور دنیا کی تمام زبانوں میں اس کے مفت نسخے تقسیم کئے گئے پھر بھی اسے ترک ’’مہجور‘‘کر دیا گیا ، اب آپ خود ہی سوچیں کہ جہاد اور اسلامی اخوت اور بھائی چارہ کو اسلامی ممالک میں بالکل ہی معطل کر دیا گیا، لہذا اب وقت ہے کہ مسلمان اپنے اندر ایسے اوصاف اور ایجاد کریں اور اس درجے پر پہنچ جائیں کہ لوگ خود کہیں کہ یہ بہترین امت ہے، ایک ایسی امت جو اب تک روئے زمیں پر پیدا ہی نہیں ہوئی تھی [6]۔

امریکہ نے اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت کی درخواست کو ویٹو کردیا

اس قرارداد کو امریکہ ویٹو کر دیا جس میں فلسطین کی اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

پندرہ رکنی سلامتی کونسل میں ریاست فلسطین کی اقوام متحدہ میں رکنیت کی قرارداد کے حق میں بارہ ووٹ پڑے جبکہ دو ارکان برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ امریکی ویٹو کے بعد اقوام متحدہ میں فلسطین کی باقاعدہ رکنیت کی قراردا۔ اب جنرل اسمبلی میں رائے شماری کے لیے پیش نہیں کی جا سکے گی۔

فلسطین کو اقوام متحدہ کی باقاعدہ رکنیت دینے کی قرارداد سلامتی کونسل میں الجزائر کی طرف سے پیش کی گئی تھی، قرارداد کا مسودہ سلامتی کونسل کی تاریخ کی مختصر ترین قراردادوں میں سے ایک تھا جس میں لکھا گیا تھا کہ سلامتی کونسل اقوام متحدہ کی رکنیت کی ریاست فلسطین کی درخواست کا جائزہ لینے کے بعد جنرل اسمبلی کو سفارش کرتی ہے کہ وہ اسے منظور کرے۔

الجزائر کے مستقل مندوب عمار بن جامع نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا:کہ فلسطین کو مستقل رکنیت دینے سے طویل ناانصافی کا خاتمہ ہوگا اور اس سے یہ واضح پیغام جائے گا کہ عالمی برادری فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے۔

اس قرارداد کے حق میں روس، چین، فرانس، الجزائر، مالٹا، موزمبیق، گیانا، ایکواڈور، جاپان، جنوبی کوریا، سری لیون، اور سلوینیا نے ووٹ دیا۔

پندرہ رکنی سلامتی کونسل میں کسی بھی قرارداد کی منظوری کے لیے کم از کم نو ووٹ درکار ہوتے ہیں جبکہ اسے پانچ مستقل ارکان امریکہ، روس، برطانیہ، چین، اور فرانس میں سے کسی ایک کی بھی مخالفت (ویٹو) کا سامنا بھی نہیں ہونا چاہیے۔

فلسطین کو اقوام متحدہ میں 'مستقل مشاہدہ کار ریاست' کا درجہ حاصل ہے۔ اس حیثیت سے وہ ادارے کے تمام اجلاسوں میں شرکت کر سکتا ہے لیکن اسے کسی قرارداد پر ووٹ دینے اور سلامتی کونسل، جنرل اسمبلی اور اس کی چھ مرکزی کمیٹیوں میں ہونے والی فیصلہ سازی میں حصہ لینے کا حق حاصل نہیں ہے۔

2 اپریل 2024 کو فلسطین نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ایک خط لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ ادارے کی مکمل رکنیت کے لیے اس کی درخواست پر دوبارہ غور کیا جائے جو ابتداً 2011 میں جمع کرائی گئی تھی۔


ریاست فلسطین کی باقاعدہ رکنیت کی قرارداد کو ویٹو کرنے کے بعد سلامتی کونسل میں اپنے خطاب میں امریکی نائب مستقل مندوب رابرٹ ووڈ کا کہنا تھا کہ قرارداد ویٹو کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکہ فلسطینی ریاست کے خلاف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کا ان کا ملک فلسطینی اتھارٹی کو ریاست کا درجہ حاصل کرنے کے لیے مطلوبہ اصلاحات کا کہتا آ رہا ہے اور دوسرا حماس، غزہ میں اثرورسوخ رکھتی ہے جو کہ قرارداد کے مطابق فلسطینی ریاست کا حصہ ہے۔

اقوام متحدہ میں روس کے مستقل نمائندہ ویزلے نبینزیا نے اپنے خطاب میں کہا: کہ غزہ کے موجودہ بحران کے دوران یہ پانچواں موقع ہے کہ امریکہ سلامتی کونسل میں قراردادوں کو ویٹو کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کا ویٹو ثابت کرتا ہے کہ امریکہ کی نظر میں فلسطینوں کو علیحدہ ریاست کا حق نہیں ملنا چاہیے۔ روسی سفیر کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کی غالب اکثریت فلسطینی ریاست اور اس کی اقوام متحدہ میں باقاعدہ رکنیت کے حق میں ہے اور امریکہ اس حوالے سے تنہائی کا شکار ہے۔

چین کے سفیر فو کانگ نے اپنے خطاب میں کہا کہ اقوام متحدہ کی باقاعدہ رکنیت کا فلسطینی خواب آج پھر چکناچور ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ تیرہ سالوں میں فلسطینی علاقوں پر جاری قبضوں کی وجہ سے صورتحال بدل چکی ہے اور ایسے میں فلسطینیوں کی عملدآری پر سوال اٹھانا قابل قبول نہیں۔ چینی سفیر نے کہا کہ فلسطین کو اقوام متحدہ کی باقاعدہ رکنیت دینے سے مسئلے کے دو ریاستی حل کے لیے اسرائیل سے مذاکرات کرنے میں مدد ملے گی۔

واشنگٹن کا دعویٰ ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کا فیصلہ کرنے کے لیے اقوام متحدہ صحیح جگہ نہیں ہے اور یہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ایک معاہدے کے ذریعے حاصل کیا جانا چاہیے، دوسری جانب، امریکہ نے سعودی عرب سے وعدہ کیا ہے کہ اگر سعودی اسرائیلی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے رضامندی ظاہر کرتا ہے تو امریکہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کی تشکیل کی کوشش کرے گا [7]۔

حوالہ جات

  1. محمد اعظم چوہدری، بین الاقوامی تعلقات نظریہ اور عمل، 2004ء، ص616
  2. محمد اعظم چوہدری، بین الاقوامی تعلقات نظریہ اور عمل، 2004ء،ص617-618
  3. یوسف ظفر، یہودیت، 1997ء، ص268
  4. پاکستان، فلسطین اور دنیا، jang.com.pk
  5. انجینئر محمد ابرار، فلسطین پر ظلم اور پاکستان کا کردار، jasarat.com
  6. [1] مسجد الحرام میں فلسطینی پرچم لہرانے پر پابندی /مزاحمتی علماء یونین کے سربراہ سخت برہم] hawzahnews.com-شا‏ئع شدہ:12اپریل 2024ء-اخذ شدہ:13اپریل 2024ء۔
  7. امریکہ نے اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت کی درخواست کو ویٹو کردیا-hawzahnews.com-شا‏‏ئع شدہ از:19اپریل 2024ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:20اپریل 2024ء۔