اہل بیت

ویکی‌وحدت سے

اہلِ بیت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی "گھر والوں " کے ہیں۔

انہیں پنج تن پاک بھی کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عسائیوں سے مباہلہ کرنے کے لیے نکلے تو یہی حضرات آپ کے ساتھ تھے۔ ایک دفعہ آپ نے ان حضرات کو اپنی چادر میں لے کر فرمایا :"اے اللہ، یہ میرے اہل بیت ہیں۔"

لفظ اہل نسبی رشتے داری کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور ایمانی تعلق کے لیے بھی۔ نسبی رشتے داری مراد ہو تو دیگر رشتے داروں کے ساتھ ساتھ اس سے مراد بیوی بھی ہوتی ہے۔ بلکہ بیوی سب سے پہلے اہل میں آتی ہے۔

شیعہ نقطہ نظر سے

12 خلیفه.png

شیعہ نقطہ نظر سے اہل بیت میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمۃ الزھراء آپ کے چچا زاد بھائی اور داماد حضرت علی اور ان کے صاحبزادے حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہم السلام شامل ہیں۔ یہ تمام افراد اصحاب کساء کے نام سے بھی مشہور ہیں۔

ربانی گلپائیگانی کے مطابق شیعہ کتب میں جب لفظ اہل بیت کو بغیر حوالہ کے استعمال کیاجاتا ہے تو اس سے مراد پیغمبر اکرم (ص) کے رشتہ داروں کا ایک خاص گروہ ہوتاہے جو عصمت کی خصوصیت رکھتا ہے اور ان کی تعداد چودہ ہے۔

بعض احادیث میں تمام ائمہ شیعہ کو اہل بیت کے مصداق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ایک روایت میں، رسول اللہ (ص) سے پوچھا گیا: "آپ کے اہل بیت کون ہیں؟" پیغمبر نے جواب دیا: "علی، میرے دو بیٹے حسن اور حسین اور نو امام جو حسین (ع) کی نسل سے ہیں [1]

محمد محمدی ری شہری کا خیال ہے کہ آیت تطہیر کے سیاق و سباق اور مضمون اور اہل بیت کا تعارف کرانے میں پیغمبر اکرم (ص) کے طرز عمل اور دیگر شواہد کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خاندان کا ایک خاص گروہ مراد ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد امت کی رہنمائی اور قیادت انہیں کے سپرد ہوئی ہے۔ [2]

ائمه معصومین(ع) کی احادیث

اہل بیت کے عام معنی میں تمام سچے مؤمنین شامل ہیں جیسا کہ امام صادقؑ نے فرمایا ہے: من اتقى منكم وأصلح فھومنا أهل البيت( تم میں سے جو بھی صالح اور پرہیزگار ہو وہ ہم اہل بیت میں سے ہے)۔ امامؑ نے اپنے اس قول کے اثبات کے لئے قرآن کریم کی دو آیتوں سے استناد و استشہاد کیا ہے [3]

وَمَن يَتَوَلَّھم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ( تم میں سے جو ان سے دوستی [اور محبت] کرے وہ ان ہی میں سے ہے)[4]

فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي( پس جو بھی میری پیروی کرے بے شک وہ مجھ سے ہے)[5]

اہل سنت کے نقطہ نظر سے

اہل سنت کے نکتہ نظر سے اہل بیت میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج مطہرات، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صاحبزادی فاطمۃ الزھراء ، آپ کے چچا زاد بھائی اور داماد حضرت علی اور ان کے صاحبزادے حضرت امام حسن اورحضرت امام حسین علیہم السلام شامل ہیں۔

بعض سنی علما خلفائے عباسی کے مورث اعلی حضرت عباس بن عبدالمطلب کی اولاد کو بھی اہل بیت میں شمار کرتے ہیں۔

ابن عباس نے کہا کہ نبی کریم (ص) نے فرمایا: "اے اولاد عبد المطلب، میں نے تمہارے لیے پروردگار سے تین چیزوں کا سوال کیا ہے، تمہیں ثبات قدم عنایت کرے، تمہارے گمراہوں کو ہدایت دے اور تمہارے جاہلوں کو علم عطا فرمائے اور یہ بھی دعا کی ہے کہ وہ تمہیں سخی، کریم اور رحم دل قرار دے ۔اگر کوئی شخص رکن و مقام کے درمیان کھڑا رہے نماز، روزہ، ادا کرتا رہے اور ہم اہل بیت کی عداوت کے ساتھ روز قیامت حاضر ہو تو یقیناً داخل جہنم ہوگا۔ [6]

یزید بن حیان تمیمی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حصین بن سبرہ اور عمر بن مسلم کے ساتھ زید بن ارقم کی خدمت میں حاضر ہوا۔حضرت زید بن ارقم رضی اللہ نے کہا کہ آپ (ص)نے فرمایا: "اے لوگو بلاشبہ میں ایک بشر اور انسان ہوں قریب ہے کہ میرے پاس میرے رب کا بھیجا ہوا آجائے تو میں اس کی دعوت قبول کرلوں (موت کی طرف اشارہ ہے) اور یقینا میں تم میں دو اشیاء چھوڑ کر جا رہا ہوں ان میں سے پہلی اللہ عزوجل کی کتاب جس میں نور و ہدایت ہے، اللہ تعالی کی کتاب کو تھام لو اور اس پر مضبوطی اختیار کرو،اور دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں، میں تمہیں اہل بیت کے بارے میں اللہ کا خوف دلاتا ہوں، میں تمہیں اہل بیت کے بارے میں اللہ کا خوف دلاتا ہوں، میں تمہیں اہل بیت کے بارے میں اللہ کا خوف دلاتا ہوں۔

حصین نے پوچھا کہ اے زید! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے کون لوگ مراد ہیں؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اہل بیت میں شامل نہیں ہیں؟؟؟ انہوں نے فرمایا نبی کی ازواج مطہرات بھی نبی کے اہل بیت میں سے ہیں لیکن یہاں مراد وہ لوگ ہیں جن پر نبیؐ کے بعد صدقہ حرام ہے۔ حصین نے پوچھا وہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے فرمایا آل عقیل، آل علی، آل عباس، آل جعفر۔ حصین نے پوچھا ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں صدقہ حرام ہے [7]

قرآن میں لفظ اہل بیت

لفظ اہل بیت قرآن میں تین مرتبہ استعمال ہوا ہے:

  • سورہ ہود کی آیت 73 جس کا تعلق ابراہیمؑ اور ان کی زوجہ سے ہے: "قَالُواْ أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللّہِ رَحْمَتُ اللّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ۔
  • سورہ قصص کی آیت 12، جس کا تعلق خاندان موسیؑ سے ہے: "وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِن قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى أَهْلِ بَيْتٍ يَكْفُلُونَهُ لَكُمْ وَهُمْ لَهُ نَاصِحُونَ
  • سورہ احزاب کی آیت نمبر 33 جو آیت تطہیر کے نام سے معروف ہے جس میں خداوند عالم پیغمبر اکرمؐ کے اہل خانہ سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں "إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً

احادیثِ نبوی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہت سی احادیث ہیں کہ اہلبیت میں علی،فاطمہ،حسن اور حسین شامل ہیں؛

حدیث کساء

یہ واقعہ سند کے لحاظ سے کسی صورت بھی خدشہ پزیر نہیں ہے۔ بزرگ اور نامور محدثین نے اس واقعے کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔یہ حدیث اصطلاحاً مستفیض ہے یہاں تک کہ وسیع پیمانے پر تحقیق کرکے اس کے بارے میں تواتر کا دعوی کیا جاسکتا ہے۔ یہ واقعہ اسلامی معاشرے میں اس قدر معروف و مشہور ہے کہ اس کے رونما ہونے کے دن کو "یوم کساء" کا نام دیا گیا اور خمسۂ طیبہ ـ جو اس دن اللہ کی عنایت خاصہ سے بہرہ ور ہوئے اصحاب کساء کہلائے۔

طبری اپنی کتاب دلائل الإمامۃ میں لکھتے ہیں: "مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آیت تطہیر کے نزول کے وقت پیغمبر(ص) نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین (علیہم السلام) کو مدعو کیا اور انہیں یمانی کساء اوڑھا دی اور یوں دعا فرمائی:

اَللهُمَّ هٰؤُلاِ أهلي فَأذهِب عَنهُم الرِّجسَ وَطَهِّرهُم تَطهِیراً۔ بار خدایا! یہ میرے اہل بیت (اور میرے اہل خانہ) ہیں پس تو ہر قسم کی پلیدی کو ان سے دور رکھ اور انہیں پاک رکھ جس طرح کہ پاک رکھنے کا حق ہے [8]۔

رسول کے اہلبیت

ام سلمہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم (ص)نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کو جمع فرما کر ان کو اپنی چادر میں لے لیا اور فرمایا: پروردگار! یہ میرے اہلبیت ہیں۔ [9]

انس بن مالک فرماتے ہیں نبی اکرم(ص) سے عرض کیا گیا: آپ کو اہلبیت میں سب سے زیادہ کس سے محبت ہے؟ آپ نے فرمایا حسن اور حسین سے ۔ [10]

حوالہ جات

  1. خزاز رازی، کفایة الاثر، ۱۴۰۱ق، ص۱۷۱
  2. محمدی رے شہری، اہل بیت علیہم السلام قرآن و حدیث میں، ص 13
  3. القاضي النعمان المغربي، دعائم الإسلام، ج1، ص62
  4. سورہ مائدہ آیت 51
  5. سورہ ابراہیم آیت 36
  6. مستدرک 3 ص 161 / ح 4712
  7. مسند امام احمد،جلد 8، حدیث نمبر19479
  8. طبری، دلائل الإمامۃ، ص21
  9. (طبرانی؛ العجم الکبیر ج 3 - طبری جامع البیان فی تفسیر القراآن ج 22)
  10. (ترمذی - ابولمناقب - درالسحابة فی مناقب القرابة و الصحابة)