محمد بن حسن المهدی

ویکی‌وحدت سے
جمکران.jpg

محمد بن حسن (عج) (ولادت 255 ھ)، امام مہدی، امام زمانہ اور حجت بن الحسن جیسے القاب سے مشہور شیعوں کے آخری اور بارہویں امام ہیں۔ 260ھ کو امام حسن عسکریؑ کی شہادت کے بعد آپؑ کی امامت شروع ہوئی جو آپ کے ظہور کے بعد تک جارے رہے گی۔ شیعوں کے مطابق آپ وہی مہدی موعود ہیں جو ایک طولانی عرصے تک غیبت میں رہنے کے بعد ظہور کریں گے۔ شیعہ مآخذ کے مطابق امام حسن عسکریؑ کے دور امامت میں عباسی حکومت کے کارندے آپؑ کے فرزند اور جانشین کی تلاش میں تھے اس لئے امام مہدیؑ کی ولادت خفیہ رکھی گئی یہاں تک کہ امام حسن عسکریؑ کے کچھ خاص اصحاب کے سوا کسی کو آپؑ کا دیدار نصیب نہیں ہوا۔ امام مہدیؑ کی خفیہ ولادت سبب بنی کہ بہت سے شیعہ آپؑ کی امامت کے سلسلے میں شک و تردید کے شکار ہوگئے اور شیعہ معاشرے میں مختلف قسم کے فرقے وجود میں آئے۔ یہی وجہ ہے کہ شیعوں کے ایک گروہ نے آپؑ کے چچا جعفر کذاب کی پیروی شروع کردی۔ لیکن اس دوران امام زمانہؑ کی توقیعات جو عام طور پر شیعیان اہل بیت کے نام لکھی جاتی تھیں اور خاص نائبین کے ذریعے لوگوں تک پہنچتی تھیں، مکتب تشیع کے استحکام کا سبب قرار پائیں۔ یہان تک کہ چوتھی صدی ہجری میں امام عسکریؑ کی شہادت کے بعد وجود میں آنے والے مذاہب میں صرف شیعہ اثنا عشریہ باقی رہے۔ شیعہ مفکرین نے ان کی طویل عمر کی وجوہات اور تفصیلات کے بارے میں مختلف وضاحتیں کی ہیں۔ مہدی موعود اپنے ساتھیوں کی مدد سے ایک عالمی حکومت قائم کرے گا اور دنیا کو انصاف سے بھرا ہوا دکھائے گا کیونکہ یہ ظلم سے بھری ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے اور شیعہ روایات کے مطابق امام کی موت کی حقیقی توقع بہترین عبادتوں میں سے ایک ہے ۔

نام، کنیت اور لقب

شیعہ احادیث میں بارہویں امام کے لئے محمد، احمد اور عبداللہ جیسے نام نقل ہوئے ہیں، لیکن آپؑ شیعیان اہل بیت کے درمیان مہدیؑ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں جو آپؑ کے القاب میں سے ایک ہے [1]۔ متعدد احادیث کے مطابق آپؑ، اپنے جد امجد رسول اللہؐ کے ہم نام ہیں۔ بعض شیعہ احادیث اور مکتوب مآخذ من جملہ کلینی رازی کی تالیف الکافی و شیخ صدوق کی کتاب کمال الدین، میں آپؑ کے نام کے حروف کو جداگانہ طور پر "م ح م د" لکھا ہوا ملتا ہے۔ اس ابہام نویسی کا سبب وہ متعدد احادیث ہیں جن میں آپؑ کا نام لینے سے منع کیا گیا ہے۔ [2]

ولادت امام زمان

امام زمانہؑ کی ولادت کے سال کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض متقدم مآخذ نے آپؑ کی تاریخ ولادت کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے اور اس کو خفیہ قرار دیا ہے۔ لیکن بہت سی شیعہ اور بعض سنی روایات میں ہے کہ امام دوازدہمؑ سنہ255ھ یا 256ھ ق میں متولّد ہوئے ہیں۔

امام زمانہؑ کی ولادت کے مہینے کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے لیکن قول مشہور شعبان المعظم پر تاکید کرتا ہے اور بہت سے قدیم شیعہ مآخذ میں بھی ماہ شعبان ہی کو آپؑ کی ولادت کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود بعض شیعہ اور سنی مآخذ کے مطابق آپؑ کی ولادت ماہ رمضان میں ہوئی ہے جبکہ اہل سنت کے بعض مآخذ نے ربیع الاول اور ربیع‌الثانی کو آپؑ کی ولادت کا مہینہ قرار دیا ہے۔

تاریخی مآخذ میں بارہویں امام کی تاریخی ولادت کے بارے میں گیارہ مختلف روایات نقل کی ہیں جن میں پندرہ شعبان والی تاریخ زیاده مشہور ہے۔ شیعہ علماء کے درمیان کلینی، مسعودی، شیخ صدوق، شیخ مفید، شیخ طوسی، فتال نیشابوری، امین الاسلام طبرسی، سید ابن طاؤس، ابن طقطقی، علامہ حلی، شہید اول، کفعمی، شیخ بہائی وغیرہ، اور اہل سنت کے علماء میں سے ابن خلکان، ابن صباغ مالکی، شعرانی حنفی، ابن طولون، اور دوسروں نے اسی قول کو نقل کیا ہے۔ نو ربیع الاول، 19 ربیع الاول، 9 ربیع الثانی، یکم رجب، 23 رمضان، 3 شعبان اور 8 شعبان کو سنی مآخذ نے نقل کیا ہے اور شب جمعہ یکم رمضان یا رمضان کی ایک شب جمعہ کو شیخ صدوق نے کمال الدین میں نقل کیا ہے [3]۔

امام زمانہؑ کی ولادت کے سلسلے میں مشہور روایت وہی ہے جو امام عسکریؑ کی پھوپھی جناب حکیمہ خاتون نے نقل کی ہے۔ شیخ صدوق حکیمہ خاتون کے حوالے سے لکھتے ہیں: امام حسن عسکریؑ نے مجھ [حکیمہ خاتون] کو بلوا کر فرمایا: پھوپھی جان! آج ہمارے یہاں قیام کریں کیونکہ نیمہ شعبان کی شب ہے اور خداوند متعال آج رات اپنی حجت کو ـ جو روئے زمین پر اس کی حجت ہے ـ ظاہر فرمائے گا۔ میں نے عرض کیا: ان کی ماں کون ہے؟ فرمایا: نرجس خاتون۔ میں نے عرض کیا: میں آپ پر قربان ہوجاؤں، ان میں حمل کا کوئی اثر نہیں ہے۔ فرمایا: بات وہی ہے جو میں آپ سے کہہ رہا ہوں۔

میں آئی ، سلام کیا اور بیٹھ گئی تو نرجس آئیں اور میرے جوتے اٹھا لئے اور مجھ سے کہا: اے میری سیدہ اور میرے خاندان کی سیدہ! آپ کا کیا حال ہے؟ میں نے کہا: تم میری اور میرے خاندان کی سیدہ ہو۔ نرجس میرے اس کلام سے ناراض ہوئیں اور کہنے لگیں: پھوپھی جان! یہ کیا بات ہوئی؟ میں نے کہا: میری بیٹی! خداوند متعال تمہیں ایسا فرزند عطا کرے گا جو دنیا اور آخرت کا سید و سردار ہے۔ نرجس شرما گئیں اور حیا کر گئیں۔ میں نے نماز ادا کی، روزہ افطار کیا اور اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ آدھی رات کو نماز (تہجد) کے لئے اٹھی اور نماز پڑھ لی؛ جبکہ نرجس سو رہی تھیں۔ میں نماز کے بعد کے اعمال کے لئے بیٹھ گئی اور پھر سو گئی اور خوفزدہ ہوکر جاگ اٹھی؛ وہ ابھی سو رہی تھیں؛ چنانچہ اٹھیں اور نماز (تہجد) بجا لا کر سوگئیں۔

جناب حکیمہ خاتون مزید کہتی ہیں: میں باہر آئی اور فجر کی تلاش میں آسمان کی طرف دیکھا؛ دیکھا کہ فجر اول طلوع کرچکی ہے اور وہ ابھی سو رہی ہیں۔ شک میرے دل پر عارض ہوا۔اچانک ابو محمد نے اپنے کمرے سے صدا دی: پھوپھی جان! عجلت سے کام مت لیں، کیونکہ امر قریب ہوچکا ہے۔

کہتی ہیں: میں بیٹھ گئی اور سورہ سجدہ اور سورہ یس کی تلاوت میں مصروف ہوئی۔ اسی اثناء میں نرجس ہراساں سی ہوکر اٹھیں اور میں فورا ان کے پاس پہنچی اور ان سے کہا: آپ پر اللہ کی رحمت ہو، کیا کچھ محسوس ہورہا ہے؟ کہنے لگیں: پھوپھی جان! ہاں محسوس کررہی ہوں۔ میں نے کہا: اپنے پر قابو کرو اور دل مضبوط رکھیں کیونکہ وہی ہونے جارہا ہے جو میں نے کہا تھا۔ جناب حکیمہ کہتی ہیں: مجھ پر بھی اور نرجس پر بھی ضعف طاری ہوا اور اپنے سید و سردار (امام عسکریؑ) کی آواز پر میری جان میں جان آئی اور کپڑا ان کے چہرے سے اٹھایا اور اچانک میں نے اپنے سید و سرور (نرجس کے فرزند) کو دیکھا جو حالت سجدہ میں تھے اور آپؑ کے سجدہ کے ساتوں اعضاء [پیشانی، ہتھیلیاں، گھٹنے اور پاؤں کے انگوٹھے) زمین پر تھے]۔ میں نے آپؑ کو آغوش میں لیا اور دیکھا کہ پاک و پاکیزہ ہیں۔

ابو محمد نے فرمایا: پھوپھی جان! میرا فرزند میرے پاس لائیں، میں آپؑ کو امامؑ کے پاس لے گیی؛ امامؑ نے اپنے پاؤں کو پھیلایا اور فرزند کو پاوں کے درمیان قرار دیا اور آپؑ کے پیروں کو اپنے سینے پر رکھا اور پھر اپنی زبان مبارک ان کے منہ میں رکھ دی اور اپنا ایک ہاتھ آپؑ کی آنکھوں، کانوں اور بدن کے جوڑوں پر پھیرا ؛

اور فرمایا: اے میرے فرزند! بولو۔ چنانچہ آپؑ نے کہا: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللہِ بعدازاں امیرالمؤمنینؑ اور دوسرے ائمہ معصومینؑ کو درود و سلام کا ہدیہ بھیجا، حتی کہ آپؑ کے والد کی باری آئی تو زبان روک لی[4]۔

امام مہدی مالکی علماء کی نظر میں

مالکی فرقہ کے علماء نے بھی دیگر اسلامی مکاتب فکر کے علماء کی طرح امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے عقیدہ کو اپنے عقیدوں میں شمار کیا ہے اور اس پر تاکید کی ہے۔ یہ حقیقت ان کی تحریروں اور کاموں میں واضح طور پر نظر آتی ہے۔ مختلف ادوار میں اس رائے کی وضاحت بہت سی کتابوں اور ان کی تحریروں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اب مثال کے طور پر اس فرقہ کے چند ممتاز علماء کی تحریروں اور اقوال کی ایک رپورٹ پیش کی جائے گی:

قرطبی مالکی

وہ جو کہ مشہور و معروف سنی علماء اور مصنفین میں سے ہیں، نے اپنی سائنسی اور مشہور تصانیف چھوڑی ہیں، جن میں سب سے اہم "الجامع لہکم القرآن" کی تفسیر ہے۔ انہوں نے اپنی دوسری کتاب "موت کی حالت اور بعد کی زندگی کے معاملات کی یاد" میں ابواب اور ابواب امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں بحث کے لیے مختص کیے ہیں اور اس موضوع پر سنی منابع سے متعدد احادیث نقل کی ہیں، اور ان میں سے بعض احادیث کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں کچھ باتیں بیان کی ہیں۔ البتہ مصنف نے اپنی کتاب تفسیر میں سورہ توبہ کی آیت نمبر 33 کی تفسیر میں اس آیت کے مندرجات پر غور کیا ہے جو کہ دین اسلام پر غالب آنے کا خدا کا وعدہ ہے، ایک قول کے مطابق جو زمانہ سے مطابقت رکھتا ہے۔ امام مہدی علیہ السلام کا زمانہ

ابن سباغ مالکی

وہ جو اپنے عہد اور زمانے میں مالکی فرقے کے بزرگوں میں سے تھے، انہوں نے "الفصول المشتہ فی معرفۃ الائمہ علیہ السلام" کے نام سے ایک کتاب لکھی جس کے مصنف کا مقصد تھا۔ بارہ اماموں کی تاریخ اور حکام کو بیان کرنے کے لیے، اور اس تحریر کو اپنے ہم عصروں میں سے بعض کی درخواست پر متعارف کرایا۔ اس کتاب کے بارہویں باب میں انہوں نے امام مہدی علیہ السلام کی سیرت اور خصوصیات کو بیان کیا ہے اور اس میں امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں مختلف موضوعات اور احادیث بیان کی ہیں۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وعدے کو ثابت کیا کہ وہ ظاہر ہوں گے اور اس بزرگ کے نسب کے بارے میں بات کریں گے۔ اس مصنف کی تحریروں میں قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ بعض دوسرے سنی علماء کی طرح وہ بھی امام مہدی علیہ السلام کی ولادت پر یقین رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اب زندہ ہیں۔

محمد بن جعفر بن ادریس الکتانی المالکی

کتاب "نظم المطنطر من الحدیث المتواتر" میں جس میں انہوں نے متواترہ احادیث کو جمع کیا ہے، ان میں سے امام مہدی علیہ السلام سے متعلق احادیث کو شمار کیا ہے اور مشہور لوگوں کے الفاظ و بیانات کو نقل کیا ہے۔ اور مشہور سنی علماء نے ان احادیث کی تعدد پر زور دیا اور ان کا عقیدہ ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کا ظہور اور ظہور ان احادیث اور ان میں کئے گئے وعدوں کی بنیاد پر ضروری اور بعض چیزوں میں سے ایک ہے۔

علمائے حنبلی کی نظر میں امام مہدی علیہ السلام

احمد بن حنبل

وہ حنبلی فرقے کے سربراہ ہیں اور انہیں سب سے وسیع اور قدیم ترین سنی حدیث معاشروں میں سے ایک کا مصنف بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس احادیث کے مجموعے میں انہوں نے امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں متعدد اور متعدد احادیث ذکر کی ہیں۔ مدرسہ قم کے ایک معزز رکن نے امام مہدی علیہ السلام سے متعلق احادیث کو جمع کیا ہے جو اس حدیث کی کتاب میں شامل ہیں اور اسے.

احادیث المہدی علیہ السلام کے نام سے شائع کیا ہےمسند احمد بن حنبل۔ اس کتاب میں احمد کی مسند سے 136 احادیث کو نکال کر کئی حصوں میں ترتیب دیا گیا ہے جن میں امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں بہت سے اور مختلف موضوعات شامل ہیں۔ ان کے ظہور کے آثار سے لے کر ظہور کے زمانے کی حیثیت اور امام مہدی علیہ السلام سے متعلق دیگر مسائل۔ کہا جا سکتا ہے: چونکہ احمد بن حنبل کے پاس ان احادیث کے بارے میں کوئی خاص فیصلہ نہیں تھا، اس لیے ان احادیث کا ذکر کرنا اس معاملے میں ان کے نقطہ نظر اور رائے کو ثابت کرنے کا سبب نہیں بن سکتا۔ لیکن اس کے جواب میں یہ کہنا چاہیے: احادیث کی اس بڑی تعداد کو اس پرانے احادیث کے مجموعہ میں درج کرنے سے یقیناً مصنف کی ان احادیث پر قبولیت اور اعتماد ظاہر ہوتا ہے، اور اس کی طرف سے اس طرح کی کوشش اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان کا مواد اس کے لیے قابل قبول ہے۔ لہٰذا حنبلی مسلک کی سب سے اہم شخصیت جو کہ مہدیت کے موضوع پر واضح اور واضح نقطہ نظر رکھتے ہیں، ان کے امام احمد بن حنبل ہیں۔

یحییٰ بن محمد حنبلی

مہدیت کے دعویداروں اور اصول مہدیت کے منکروں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں آپ نے درج ذیل لکھا: "الحمدللہ کے واسطے، اے اللہ جب حق میں اختلاف ہو تو ہمیں بتا دے! مذکورہ بالا عقیدہ بلا شبہ باطل ہے۔ کیونکہ اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نازل ہونے والی صحیح احادیث کی مخالفت اور رد کی ضرورت ہے اور ان احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی علیہ السلام کے ظہور کا اعلان فرمایا۔ اس نے آخر وقت میں، اور مہدی علیہ السلام کی ذاتی خصوصیات اور ان کے ظہور کے وقت کے واقعات کا ذکر کیا۔ مہدی علیہ السلام کے ظہور کی ایک اہم نشانی جس کے بارے میں کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نزول اور آپ کا مہدی علیہ السلام کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ اور اس کے پیچھے اس کی نماز پڑھنا، نیز دجال کا ظہور اور اس کا قتل... اور جو شخص مہدی موعود کا انکار کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خبر دی ہے۔ اسے اپنے کفر کا... امام مہدی (ع) حنفی علماء کی نظر میں بارہویں امام مہدی (ع) کے بارے میں ایک مضمون کا عنوان ہے۔ رسول خدا کی اولاد کا ایک بچہ اور دنیا کے شیعوں کے بارہویں امام جو اپنے قول کے مطابق خدائی وعدہ کے دن تک غیبت میں رہیں گے۔ اس مضمون میں اس مسئلہ پر احناف کے مسلک کا جائزہ لیا گیا ہے۔

حنفی علماء اور امام مہدی علیہ السلام

ابن جوزی

انہوں نے اپنی مشہور کتاب "انبیاء علیہم السلام کی صفات میں قوم کی صفات کو یاد رکھنا" میں ایک الگ باب امام مہدی علیہ السلام کے لیے مختص کیا ہے اور اس کے بارے میں مختلف موضوعات اور عنوانات لکھے ہیں اور اس باب کے شروع میں ان کا ذکر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:

المہدی کی دلیل کے ذکر کا باب، وہ محمد بن الحسن ابن علی ابن محمد بن علی ابن موسی الرضا ہیں، اور ان کی کنیت ابو عبداللہ اور ابو القاسم ہے، اور وہ آل محمد کے جانشین ہیں۔ حجاج صاحب الزمان۔

اس کے بعد وہ سنی منابع سے روایات کا ذکر کرتے ہیں جن میں امام مہدی علیہ السلام سے متعلق مسائل اٹھائے گئے ہیں۔ اس کے بعد ابن جوزی نے امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے بارے میں امامیہ کے نظریہ کو بیان کیا اور اس سلسلے میں چند شیعہ وجوہات کا ذکر کیا۔ ابن جوزی کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں شیعوں کے عقیدہ کو قبول کیا اور اسے معقول اور قابل قبول سمجھا۔

سلیمان بن ابراہیم قندروزی

بلخ میں پیدا ہوئے، انہوں نے اپنی تعلیم کا بیشتر حصہ اسی ملک میں گزارا اور بخارا میں تعلیم جاری رکھی۔ اس کے بعد وہ تصوف اور تصوف کی طرف بھی متوجہ ہوئے اور عظیم صوفیاء میں شمار ہونے لگے۔ اس طرح وہ بیانیہ اور طریقی دونوں مسائل میں حکام کا مالک بن گیا۔ انہوں نے اہل بیت علیہم السلام کے فضائل و مناقب پر کتاب "ینابی المودہ" لکھی اور اس کا بڑا حصہ امام مہدی علیہ السلام سے متعلق موضوعات کے لیے مختص کیا اور اس کا تذکرہ کیا۔ ان کے بارے میں آیات کی تفسیر و تشریح کی گئی ہے، نیز ان کے بارے میں احادیث مختلف منابع سے نقل ہوئی ہیں۔ اسی طرح انہوں نے بارہ خلفاء کی احادیث اور ان کی دی گئی تشریحات کا ذکر کیا اور ان کی ولادت کے بارے میں روایات کا ذکر کیا، اسی طرح سنی علماء نے بھی ان کی پیدائش کی تصریح کی۔ دوسرے حصے میں انہوں نے اس نبی کے فضائل اور غیر معمولی عادات کو بیان کیا ہے اور غیبت کے دوران ان کی زیارت کرنے والوں کو یاد دلایا ہے۔ ان کی تمام تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں شیعہ کی طرح سوچتا ہے اور اس امام کی پیدائش اور وجود پر یقین رکھتا ہے۔

شیعہ فرقے

زیدیہ اور اسماعیلیہ جیسے شیعہ فرقے مہدویت کے اصول کو تسلیم کرتے ہوئے، امام زمانہؑ کے موعود ہونے اور موعود کے مصداق کے تعین میں امامیہ کے ساتھ اختلاف رائے رکھتے ہیں۔ زیدیہ کی بعض شاخوں سمیت کچھ شیعہ فرقے، ماضی میں امام مہدیؑ کی ولادت اور آپؑ کی غیبت کو نہیں مانتے اور ان کا صرف یہی عقیدہ ہے کہ امام زمانہؑ موعود ہیں اور آخر الزمان میں ظہور کریں گے چنانچہ وہ بارہویں امام یعنی محمد بن حسن عسکریؑ پر ـ امامیہ کی مانند ـ امام موعود اور امام منتظَر کے مصداق کی تطبیق کو یا تو سرے سے مسترد کرتے ہیں یا کم از کم اس کی تائید و تصدیق نہیں کرتے۔ ان کا صرف یہی عقیدہ ہے کہ امام منتظَر آخر الزمان میں پیدا ہونگے اور اٹھ کر قیام فرمائیں گے۔

بحیثیت مجموعی، زیدیہ میں مہدویت کا عقیدہ، مہدویتِ نوعیہ ہے۔ وہ سلسلۂ امامت کے آخری امام کو ـ جو پورے عالم کو عدل و انصاف سے پر کرے گا ـ مہدی موعود سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ہر سید جو لوگوں کو اپنی جانب بلائے اس کی پیروی کرنا لازمی ہے؛ ممکن ہے کہ وہی مہدی موعود ہو! اگر اس نے دنیا کو عدل و انصاف سے پر کیا تو اس کا موعود ہونا ثابت ہوجائے گا اور بصورت دیگر، امام منتظر کوئی دوسرا سید ہوگا۔

تاریخ اسلام کی ابتداء سے زیدیہ کی بعض جماعتیں، مختلف تحریکوں میں مارے جانے والے اپنے بعض ا‏ئمہ کی مہدویت کا دعوی کرتی تھیں اور ان کا خیال تھا کہ یہ کسی دن پلٹ آئیں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے۔ وہ زید بن علی، نفس زکیہ، محمد بن قاسم بن علی بن عُمر بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب (متوفیٰ 219ھ ق)، یحیی بن عمر بن یحیی بن حسین بن زید بن علی بن الحسین (متوفیٰ 250ھ ق)، اور حسین بن قاسم عیانی (متوفیٰ 404ھ ق) کی مہدویت [مہدی ہونے] کا دعوی کرتے ہیں [5]۔

حواله جات

  1. محمدی رے شہری، دانش نامہ امام مہدیؑ، 1393ھ ش، ج2، ص283
  2. محمدی رے شہری، دانش نامہ، 1393ھ ش، ج2، ص297-305
  3. یہ دو اقوال خادم "عقید" سے منسوب کئے گئے ہیں اور یہ دو اقوال کمال الدین کے الگ الگ نسخوں میں مندرج ہوئے ہیں:- مقدسی، بازپژوهی تاریخ ولادت و شہادت معصومان علیہم السلام، ص601؛ صدوق، کمال الدین، 1390ق، ج2، ص474۔
  4. سلیمیان، درسنامہ مہدویت (1)، ص183۔؛ صدوق، کمال الدین، 1395ھ، ج2، باب 42، ح1۔؛ نیز رجوع کریں: طوسی، کتاب الغیبہ، 1411ھ، ص238۔؛ اور، اربلی، کشف الغمہ، 1381ھ، ج2، ص449
  5. موسوی نژاد، سید علی، مہدویت اور حسینیہ زیدی فرقہ، حفت اسمان، جلد 27، زوال 2014، صفحہ 162-127