اسرائیل

ویکی‌وحدت سے
پرچم اسرائیل.png

اسرائیل جغرافیائی اعتبار سے بحیرۂ روم کے جنوب مشرقی کنارے پر مغربی ایشیا میں واقع ہے۔ اس کے شمال مشرق میں شام، مشرق میں اردن، مشرق اور جنوب میں فلسطین، جنوب میں مصر، خلیج عقبہ اور بحیرہ احمر اور شمال میں لبنان واقع ہیں۔ اسرائیل خود کو یہودی جمہوریہ کہلاتا ہے اور دنیا میں واحد یہود اکثریتی ملک ہے۔

تاریخی پس منظر

لفظ اسرا‏ئیل کا مفہوم

تاریخی اعتبار سے لفظ اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے۔ اس کے بعد آپ علیہ السلام کی قوم کو بنی اسرائیل یا اسرائیلی کہا جانے لگا۔ جدید ریاست اسرائیل کے شہریوں کو بھی اسرائیلی کہا جاتا ہے۔

ارض موعودہ

بائبل کے مطابق خداوند نے ”ارض اسرائیل“ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام،حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اسی وجہ سے اسے ارض موعود ہ کہا جاتا ہے۔

ارض اسرائیل کا محل وقوع

” تناکا“ یعنی عبرانی بائبل میں ارض اسرائیل کی حدود کے حوالے سے متعدد بیانات ملتے ہیں، تاہم ان کے مطابق ارض اسرائیل مصر کے دریائے نیل سے دریائے فرات تک کے علاقے پر محیط ہے۔ گویا اس میں موجودہ دور کی ریاست اسرائیل غربی کنارہ، غزہ کی پٹی، شام اور لبنان شامل ہیں۔ ان علاقوں کے علاوہ جزیرہ نما سینائی(Sinai Peninsula) کو بھی ارض اسرائیل میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ مصر سے بنی اسرائیل کی ملک بدری اسی راستے سے ہوئی تھی۔ یہودی مقدس صحائف کے مطابق دریائے اردن کے مشرقی جانب کا علاقہ بھی، جس میں بیشتر اردن شامل ہے، ارض اسرائیل کا حصہ ہے۔ یہودی مقدس صحا‏ئف کے مطابق خداوند نے مصر سے نکلتے والے بنی اسرائیل کو ''ارض کنعان'' عطا کردی تھی [1]۔

ارض اسرائیل اور ریاست اسرائیل

29نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس کی رو سے فلسطین کے برطانوی انتداب(British Mandate of Palestine) کو ریاست اسرائیل قرار دیا گیا۔ عبرانی زبان میں ریاست اسرا‏ئیل کو مدینات یسرایئل کہا جاتا ہے، جبکہ عربی زبان میں دولۃالاسرائیل کہتے ہیں۔

ریاست اسرائیل جغرافیائی اعتبار سے بحیرۂ روم کے جنوب مشرقی کنارے پر مغربی ایشیا میں واقع ہے۔ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا گیا ہے لیکن اس کی حیثیت متنازعہ ہے چنانچہ بہت سے ملکوں نے اپنے سفارت خانے تل ابیب میں قائم کئے ہوئے ہیں۔ نظام حکومت کے اعتبار سے ریاست اسرائیل ایک پارلیمانی جمہوریہ ہے۔ یہ دنیا کی واحد یہودی ریاست ہے، تاہم اس کی آبادی مختلف نسلی اور مذہبی پس منظروں کی حامل ہے۔

ایلیاہ اور اسرائیل

یہودی دنیا کے مختلف حصوں میں آباد تھے۔ سب سے پہلے 1881ء میں وہ عیسائیوں کے مذہبی تشدد سے بچنے کے لیے ان علاقوں میں پناہ گزيں ہوئے جنہیں آج اسرائیل کہا جاتا ہے۔ یہودیوں کی اس نقل مکانی کو عبرانی میں ایلیاہ کہا جاتا ہے۔ ایلیاہ کی دوسری وجہ موشے ہیس کے سوشلسٹ صہیونی نظریات تھے۔ یہودیوں نے عثمانی حکومت کے کارپردازوں اور عرب زمینداروں سے اراضی خرید لی اور بستیاں بساکر کھیتی باڑی کرنے لگے۔ جس کے بعد مقامی عربوں کے ساتھ ان کی کشیدگی بھی رونما ہوئی۔

صہیونیت کی ابتداء

ایک آسٹریائی یہودی تھیوڈور ہرزل(Theodor HerzL) ویانا کا شہری اور یہودی صحافی تھا۔ 1895ء میں ایک فوجی رسم میں شرکت نے اسے انقلابی سوج دی۔ اس رسم میں ایک یہودی کیٹین الفریڈڈریفس کو بطور سزا قتل کیا جانے والا تھا۔ مجمع نے جب بلند آواز میں کہا، اس غدارو کو مار دو تو ہرزل کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اس نے صہیونی تحریک کی بنیاد رکھی جو صہیون نامی مقدس پہاڑ سے منسوب ہے۔ سو صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ لکھا جس کا عنوان تھا” یہودی ریاست“ ۔صہیونیت کی پہلی بین الاقوامی کانفرنس سوئزرلینڈ کے ایک کاسینو (قمار خانے) میں منعقد ہوئی جس میں ہرزل کو لیڈر منتخب کیا گیا۔ اس نے یہودی نیشنل فنڈ اور ایک بینک قائم کیا تاکہ فلسطین میں زمین خریدی جاسکے۔ سفید اور نیلے رنگ کا ایک قومی جھنٹدا بھی بنایا گیا۔ سوویت روس میں یہودیوں کے قتل عام نے فلسطین کی طرف یہودیوں کی ہجرت کو بڑھاوادیا اور یہی لوگ صہیونیت کے پہلے علمبردار بنے۔ [2]۔1897 میں اس نے پہلی عالمی صہیونی کانگرس منعقد کی۔ صہیونی تحریک کے نتیجے میں 1904ء سے 1914ء کے دوران ایلیاہ کی دوسری لہر امڈی اور تقریبا چالیس ہزار یہودی ان علاقوں میں جا بسے جنہیں آج ریاست اسرائیل کہا جاتا ہے۔

اسرائیل کا رقبہ

اسرائیل کا کل رقبہ بشمول مقبوضہ علاقوں کے 22145 مربع کلومیٹر ہے ۔ یہ دنیا کا 149واں بڑا ملک ہے۔

بالفور اعلامیہ

1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمس بالفور نے بالفور اعلامیہ پیش کیا، جس میں یہودی عوام کے لیے فلسطین میں ایک الگ قومی وطن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 1920ء میں فلسطین کو لیگ آف نیشنز کا برطانیہ کے زیر انتظام انتداب بنا دیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد 1919ء تا 1923ء اور 1924ء تا 1929ء میں ایلیاہ کی تیسری اور چوتھی لہر امڈی۔ اس دوران مقامی آبادی اور یہودیوں کے مابین تصادم بھی ہوئے۔ 1933ء میں نازي ازم کے ابھار کے نتیجے میں ایلیاہ کی پانچویں لہر امڈي۔1922ء میں علاقے کی آبادی میں یہودیوں کا تناسب 11 فی صد تھا، جو 1940ء تک بڑھ کر 30 فی صد ہو گیا۔اس وقت تک علاقے کی 28 فیصد ارا ضی صہیونی تنظیموں اور یہودیوں کی انفرادی ملکیت میں آ چکی تھی۔ ہولوکاسٹ کے نتیجے میں یورپ کے مختلف حصوں میں آباد یہودی فلسطین آبسے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام تک فلسطین میں آباد ہونے والے یہودیوں کی تعداد چھ لاکھ ہو چکی تھی۔ عربوں نے ابتدائی مدت کے دوران انتداب اور اعلان بالفور کے خلاف سخت مہم جاری رکھی۔ عربوں کا پہلا ملک گیر احتجاج اپریل 1920ء کو ہوا اسی طرح دوسرا 1921ء اور تیسرا 1929ء کو ہوا۔ پھر 1936ء اور 1939ء کے دوران بغاوت رونما ہوئی۔ جس کے تحت چھ ماہ کی ہڑتال کی گئی۔ عربوں نے تین مطالبات پر زور طریقے سے پیش کئے: یہودیوں کی فلسطین آمد فوری روکی جائے عرب زمین یہودیوں کو الاٹ نہ کی جائے جمہوری حکومت کا قیام، جس میں عربوں کو آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی جائے [3]۔

زیر زمین یہودی گروپ

جب مقامی عربوں اور باہر سے آکر آباد ہونے والے یہودیوں میں کشیدگی بڑھی اور انگریزوں کی حمایت میں قدرے کمی آئی تو یہودیوں نے ہگاناہ (Haganah)کے نام سے دفاعی گروپ بنا لیا۔ بعد از اں ہگاناہ کے چند اراکین نے عسکری گروپ ارگن(Irgun) بنالیا۔ اس کے بعد اوراہام سٹرن نے ارگن سے الگ ہو کر ایک زیادہ انتہا پسند گروپ لیہی(Lehi) بنالیا، جسے عرف عام میں ”سٹرن گینگ“(Stern Gang) کہا جاتا تھا۔ 1948ء کی عرب اسرائیلی جنگ چھڑنے میں ان گروپوں کا بڑا اہم کردار تھا۔ اس کے علاوہ یورپ سے یہودیوں کی نقل مکانی، اسرائیلی دفاعی افواج کی تشکیل، فلسطین سے برطانیہ کے انخلاء اور اسرائیل کی بہت سی موجودہ سیاسی پارٹیوں کے قیام میں بھی ان زیر زمین یہودی گروپوں نے اساسی کردار ادا کیا ہے۔

ریاست اسرائیل کی تشکیل

بڑھتے ہو‎‎ۓ تشدد اور یہودیوں اور عربوں میں مفاہمت کروانے میں ناکام ہونے کے بعد برطانوی حکومت نے 1947ء میں فلسطینی انتداب سے دست برداری کا فیصلہ کیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1947ء کا یو این پارٹیشن پلان منظور کیا، جس کے تحت علاقے کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی گئی۔ یہودیوں کو 55 فی صد جبکہ عربوں کو 45 فی صد دینا منظور کیا گیا۔ اس منصوبے کے مطابق یروشلم کو بین الاقوامی علاقہ قرار دیا گیا تھا، جس کا انتظام اقوام متحدہ کے پاس ہوta۔ 29 نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے تقسیم کے منصوبے کی منظوری کے فوری بعد ڈیوڈ بن گوریان نے اسے تسلیم کرلیا جبکہ عرب لیگ نے اسے مسترد کردیا۔

ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ

14مئی 1948ء کو جاری کیا جانے والا ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ اس امر کا باقاعدہ اعلان تھا کہ فلسطین کے برطانوی انتداب(British Mandate of Palestine) میں ایک نئی یہودی ریاست قائم کردی گئی ہے۔ یہ اعلامیہ برطانوی انتداب کے خاتمے سے ایک دن پہلے تل ابیب میں واقع تل ابیب میوزیم آف آرٹ میں منعقدہ واد لیومی (یہودی قومی کونسل) کے اجلاس میں پڑھ کر سنایا اور منظور کیا گیا۔ منظوری سے پہلے اس کی تیاری پر کئی ماہ غور و غوض کیا گیا تھا۔ 12 مئی 1948ء کو یہودی قومی انتظامیہ کا اجلاس ہوا جس میں غور کیا گیا کہ امن معاہدے کی امریکی تجویز قبول کی جائے یا نئی ریاست کا قیام کا اعلان کیا جائے۔ کونسل کے دس میں سے چھ اراکین نے نئی ریاست کے قیام کے حق میں ووٹ دیا۔ اس اعلان کے بعد چند منٹوں میں نئی ریاست اور اس کی حکومت کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے تسلیم کرلیا۔ تین دن بعد سوویت یونین کے صدر سٹالن نے بھی اسرائیل کو قبول کر لیا۔ جبکہ عرب ریاستوں اور فلسطینوں نے اس کی مخالفت کی۔

قیام اسرائیل کے اسباب اور نقصانات

انسانی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ بیسویں صدی کے وسط سے قبل دنیا کے نقشے پر کوئی ایسی مملکت موجود نہ تھی جو کسی مذہبی نظر‏ئیے یا تفریق کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی ہو۔ دنیا میں موجود ممالک نسل، زبان اور علاقائی ثقافت اور رسوم و رواج کی بنیاد پر قائم ہوئے ۔ بیسویں صدی کے وسط میں جب دنیا دوسری عالمگیر جنگ سے نبرد آزما ہوکر زندہ رہنے کے نئے اصول مرتب کر رہی تھی تو اسی وقت ایک ایسی سازش نے جنم لیا جو اب تک عالم انسانیت اور بالخصوص عرب دنیا کو بے چین کیے ہو‎ئے ہے۔ کیونکہ یہ بے چینی ایک ایسے خطہ زمین کے تقدس کے حوالے سے ہے جو انبیاء کی سرزمین کہلاتی ہے۔ اس لحاظ سے پوری امت مسلمہ مضظرب ہے اور وہ مسئلہ ہے اسرائیلی ریاست جو خالصتا مذہبی تفریق کی بنیاد پر قائم ہوئی اور اس کا کوئی قوی پہلو دنیا کے سامنے موجود نہیں۔ اسرائیل اپنے قیام سے لے کر آج تک مسلسل اپنی سرحدی حدبندیوں ( جو تسلیم شدہ نہیں) کو بڑھا رہا ہے۔ اس کے لیے ظلم اور بربریت کے سب ہتکھنڈوں کو استعمال کر رہا ہے۔ عرب علاقے میں قا‏ئم حزب اللہ میلیشیا جو ایک عسکری تنظیم ہے۔یہ بھی مذہب کی بنیاد پہ نہیں بلکہ اپنی سرزمین کے تحفظ اور اس کے حصول کے لیے جس پر اسرا‏ئیل نے قبضہ کر رکھا ہے، اسرائیل سے بر سر پیکار ہے [4]۔

امریکی اسرائیلی تعلقات

امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات کی کہانی بہت پرانی ہے۔ کئی ذہنوں میں سوال اٹھتا ہے کہ آخر امریکہ اسرائیل کی حمایت کیوں کرتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ امریکہ ہر معاملے میں اسرائیل کی حمایت کرتا ہے؟ یا امریکیوں کے دلوں میں اسرائیل کے لیے انتہائی نرم گوشہ کیوں ہے؟

سیاسی حمایت

امریکہ وہ پہلا ملک ہے جس نے اسرائیل کو 1948ء میں تشکیل کے چند منٹ بعد ہی تسلیم کرلیا۔ اس وقت سے آج تک دونوں ممالک کے تعلقات چٹان کی طرج مظبوط رہے ہیں۔ امریکہ یا اسرائیل میں حکومت کوئی بھی ہو، ان تعلقات میں کبھی فرق نہیں آیا۔ حالانکہ یہ تعلقات نشیب و فراز سے بھی گزرے مگر بنیادی تعلق میں کوئی فرق نہیں رہا۔ اسرائیل مشرق وسطی کا واحد ملک ہے جو اس خطے میں امریکی مفادات کی حفاظت کے لیے امریکہ کے بھروسے کے قابل ہے۔ دونوں ممالک کو یقین ہے کہ عوام کی فلاح ، بہبود، عالمی امن، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی اس وقت ممکن ہے کہ جب امریکہ اسرائیل کا بھرپور ساتھ دے۔

فوجی حمایت

اسرا‏ئیل کی تشکیل کے بعد امریکہ اسرائیل کو فوجی اسلحہ کی فروخت کے معاہدہ کا حصہ بن گیا۔ گو کہ 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں امریکہ نے کئی ملین ڈالرز میں کا فوجی اسلحہ عرب ممالک کو بھی فروخت کیا مگر 1962ء تک اسرائیل کو باک ہاک اینٹی ائیر کرافٹ میزائل فروخت کیے اور امریکہ کی طرف اسرائیل کو فوجی حمایت ابھی تک جاری ہے۔

معاشی تعاون

1951ء میں امریکہ نے پہلی بار اسرائیل کو یہودیوں کی آبادکاری کے لیے 65 ملین ڈالر کی امداد دی۔ تین سال میں 650000 آبادی کے اسرائیل میں پوری دنیا اور یورپ سے مزید 6 لاکھ یہودی آبادکار منتقل ہوئے جس کے بعد مختلف شکلوں میں یہ امداد تعلقات میں بڑھنے والی گرمجوشی کے ساتھ بڑھتی رہی۔

مسئلہ فلسطین کب اور کیسے شروع ہوا؟

جنوری 1915 میں لبرل پارٹی کے سیاست دان ہربرٹ سیموئل نے اپنا خفیہ میمو ’دی فیوچر آف فلسطین‘ تیار کیا، جسے کابینہ میں تقسیم کیا گیا اور جس میں انہوں نے الحاق اور سلطنت برطانوی کی بتدریج سرپرستی میں ایک خودمختار یہودی ریاست بنانے کی حمایت کی۔ 1907 تک برطانیہ مشرق وسطیٰ میں اپنے غلبے کو مضبوط کرنے کے لیے بفرسٹیٹ کی ضرورت پر غور کر رہا تھا۔ برطانوی صہیونی رہنما چائم ویزمین، جو ایک حیاتیاتی کیمیا دان تھے، نے اس وقت مقبوضہ بیت المقدس جا کر جافا کے قریب زمین خرید کر ایک کمپنی قائم بنائی۔ تین سال کے اندراندر شمالی فلسطین کے علاقے مرج بن عامر میں تقریبا 10 ہزاردونم زمین حاصل کی گئی، جو ایکڑ کے برابر زمین کی پیمائش ہے، جس کی وجہ سے 60 ہزار مقامی کسانوں کو یورپ اور یمن سے آنے والے یہودیوں کو مجبوراً جگہ دینی پڑی۔ 14 مئی 1948 کو برطانوی مینڈیٹ ختم ہوتے ہی وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریون کی قیادت میں اسرائیل کی ریاست قائم کی گئی، جس کو امریکہ اور سوویت یونین سے فوری طور پر تسلیم کرلیا۔

لیکن خونی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ جس میں تین ہزار مزاحمتی جنگجو نئی قوم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور سات لاکھ فلسطینی عوام کو لڑائی سے بھاگ کر اردن، لبنان، شام، مغربی کنارے اور غزہ میں پناہ لینی پڑی۔

یوم نکبہ

اس تاریخ کو فلسطینی عوام کی نقل مکانی، اب بھی ہر سال ’یوم نکبہ‘ کے طور پر منائی جاتی ہے، جسے عربی میں ’تباہی‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور جس دن فلسطینی تقاریر کرتے ہیں، ریلیاں نکالتے ہیں اور ان گھروں کی چابیاں لہراتے ہیں جنہیں وہ پیچھے چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے اور اب بھی واپسی کی امید رکھتے ہیں۔ دسمبر 1948 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد 194 منظور کی جس میں تسلیم کیا گیا کہ فلسطینی عوام ’جو اپنے گھروں کو واپس جانا اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہتے ہیں انہیں جلد از جلد ایسا کرنے کا حق دیا جانا چاہیے۔‘ اسرائیل نے اس قرارداد کو نئی ریاست، خاص طور پر یہودی آبادی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا [5]۔

فلسطین پر اسرائیلی حملوں کی داستان

اسرائیل نے کب اور کیسے فلسطین پر قبضہ کیا، کتنی زندگیاں ختم کیں؟ صیہونی حملوں میں 7 مئی سے 18 مئی کی سہ پر تک 85 بچوں سمیت 200 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوچکے تھے۔ صیہونی ریاست اسرائیل نے مسلمانوں کے لیے اہم مہینے رمضان المبارک میں مقدس ترین رات ليلۃ القدر کے موقع پر فلسطینیوں پر مظالم اور حملوں کا آغاز کیا۔ اسرائیل فوج نے اس مرتبہ ليلۃ القدر کے موقع پر مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کے علاقے شیخ جراح سے فلسطینیوں کو زبردستی نکالے جانے کے دوران حملے شروع کیے جو دیکھتے ہی دیکھتے پرتشدد ہوگئے۔ اسرائیلی کارروائیوں سے 7 سے 18 مئی کی سہ پہر تک 58 بچوں اور 34 خواتین سمیت 201 افراد جاں بحق ہوچکے تھے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ اسرائیلی فوج نے اتنے کم عرصے میں پرتشدد کارروائیاں کرکے اتنی بڑی تعداد میں فلسطینیوں کی زندگیاں ختم کی ہوں۔

اسرائیل گزشتہ 73 برس سے وقتاً بوقتاً فلسطینیوں پر حملے کرتا آ رہا ہے، جس میں ہزاروں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور لاکھوں نقل مکانی پر مجبور کیے گئے۔ اگرچہ گزشتہ 73 سال کا مستند ڈیٹا دستیاب نہیں ہے تاہم مختلف رپورٹس کے مطابق اسرائیلی قبضے کے بعد فلسطینی سرزمین پر ہونے والے حملوں میں ایک سے ڈھائی لاکھ تک فلسطینی افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔

اقوام متحدہ (یو این) کے فلسطینی سرزمین پر نظر رکھنے والے خصوصی ادارے (او سی ایچ اے) کے اعداد و شمار کے مطابق صرف آخری 20 سال میں ہی اسرائیلی حملوں میں 10 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے۔

اقوام متحدہ سمیت دنیا کے تمام ادارے فلسطینی سرزمین ہر ہونے والی دہشت گردی کو اسرائیل - فلسطین تنازعے کے طور پر رپورٹ کرتے ہیں، جس پر پوری مسلم دنیا سمیت دنیا کے 135 سے زائد ممالک کو اعتراض رہتا ہے۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2008 سے 2020 کے اختتام تک اسرائیلی حملوں سے 5 ہزار 590 فلسطینی جاں بحق جب کہ فلسطینیوں کی جوابی کارروائیوں سے محض 251 اسرائیلی ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر تعداد اسرائیلی فوجیوں کی تھی۔

اقوام متحدہ اپنی رپورٹس میں متعدد مرتبہ تسلیم کرچکا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے کی تعداد جوابی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے اسرائیلیوں سے کہیں زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود عالمی ادارے نے کبھی بھی اسرائیلی جارحیت کو دہشت گردی یا حملے قرار نہیں دیا۔

اقوام متحدہ کو چھوڑ کر اگر یہودیوں کی جانب سے بنائی گئی ورچوئل لائبریری کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کے ہلاک ہونے کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔

یہودیوں کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 1948 سے 2014 تک اسرائیلی حملوں میں 91 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے جب کہ اسی عرصے کے دوران 24 ہزار اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے۔

ووکس میڈیا کی 2014 کی ایک رپورٹ کے مطابق فلسطینی سرزمین پر ہونے والے حملوں میں ہونے والی ہر 24 اموات میں سے 23 اموات فلسطینیوں کی ہوتی ہیں جب کہ وہاں ہونے والے ہر طرح کے دہشت گردانہ حملوں میں اسرائیلیوں کے مقابلے میں فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے کے امکانات 15 فیصد بڑھ جاتے ہیں۔

اسی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 2000 سے 2014 تک فلسطینیوں پر کیے جانے والے حملوں میں 7 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے جب کہ ان حملوں کے رد عمل میں کیے جانے والی کارروائیوں میں 1100 اسرائیلی ہلاک ہوئے۔

عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر قبضہ کیے جانے کے ابتدائی دو سال میں ہی صیہونی فوج نے 70 قتل عام کے واقعات میں 15 ہزار فلسطینیوں کو قتل کیا۔

رونگٹے کھڑے کردینے والی مذکورہ رپورٹ کے مطابق صیہونی ریاست کو بنائے جانے کے وقت میں اسرائیلی مظالم کے دوران فسلطینیوں کی 10 فیصد مرد آبادی کو قتل کیا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیلی ریاست کے باضابطہ قیام سے بھی 6 ماہ قبل اسرائیلی فوج نے برطانوی و مغربی ممالک کے تعاون سے فلسطینیوں کے 220 گاؤں پر حملے کرکے وہاں سے ساڑھے 4 لاکھ کے قریب فلسطینیوں کو نکال دیا اور صیہونی ریاست بننے سے قبل ہی متعدد قتل عام کے واقعات میں معصوم فلسطینی بچوں اور خواتین سمیت دیگر افراد کو قتل کردیا گیا جب کہ 9 اپریل 1948 کو 110 فلسطینی افراد کو ذبح بھی کیا گیا۔

الجزیرہ کے مطابق اسرائیلی ریاست کے قیام کے فوری بعد ساڑھے 7 لاکھ فلسطینیوں کو اپنی آبائی سرزمین چھوڑ کر قریبی ممالک مصر، اردن، عراق، لبنان اور شام جانے پر مجبور کیا گیا جب کہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب فلسطینی اس وقت بنائی گئی اسرائیلی ریاست میں رہ گئے، جن کے ساتھ آج تک مظالم جاری ہیں۔

اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد 3 لاکھ کے قریب فلسطینی اپنی ہی سرزمین پر گھروں سے محروم ہوگئے اور ایک سے دوسری جگہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔

مذکورہ 2017 کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ غرب ارد (مغربی پٹی) میں 30 لاکھ کے قریب فلسطینی افراد گھروں کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، کیوں کہ ان کے گھر صیہونی ریاست کی جانب سے مسمار کرکے وہاں 100 سے زائد یہودی بستیاں قائم کی جا چکی ہیں۔

غزہ کی پٹی میں بھی 20 لاکھ کے قریب فلسطینی صیہونیوں کے ظلم و جبر کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جب کہ اس وقت اسرائیلی ریاست میں 18 لاکھ کے قریب فلسطینی اقلیتی برادری کے طور پر سخت قوانین کے تحت انتہائی کسم پرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

تین سال قبل 2017 تک 75 لاکھ سے زائد فلسطینی افراد دنیا کے مختلف ممالک میں مہاجرین کی زندگی گزار رہے تھے، جن میں سے زیادہ تر فلسطینی اقوام متحدہ کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں بنائے گئے 50 ریلیف کیمپس میں مقیم ہیں۔

گزشتہ 73 برس میں اسرائیلی فوج نے 10 لاکھ فلسطینیوں کو گرفتار کرکے انہیں سزائیں دیں جب کہ حملوں میں ایک لاکھ سے زائد گھروں کو مسمار کیا اور بدقسمتی سے 7 دہائیوں سے اسرائیل اور فلسطین کی سرحد کے قریب کوئی فلسطینی بستی تعمیر نہیں ہوئی جب کہ درجنوں یہودی بستیاں قائم کی جا چکی ہیں۔ اسرائیل کا قیام کیسے ہوا؟

اگرچہ اسرائیل کے وجود کو 73 برس ہی گزرے ہیں لیکن اسے فلسطینی سرزمین پر بنائے جانے کی کوششیں 200 سال پرانی ہیں اور یہودیوں کو صیہونی ریاست بنانے کی پہلی پیش کش فرانسیسی ڈکٹیٹر نیپولین بونا پارٹ نے 1799 میں کی تھی۔

اس کے بعد 1882 میں فلسطینی سرزمین پر پہلی یہودی بستی قائم کی گئی اور گزرتے سالوں میں فلسطینی سرزمین پر دنیا کے مختلف ممالک اور کونوں سے یہودیوں کو لاکر آباد کیا جانے لگا اور اس عمل میں جنگ عظیم اول کے بعد تیزی دیکھی گئی۔

جنگ عظیم اول کے خاتمے کے بعد برطانیہ اور فرانس نے مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک اور خطوں پر کنٹرول حاصل کیا اور فلسطین انگریزوں کے حصے میں آیا۔ اقوام متحدہ نے 23 ستمبر 1947 کو ریزولیشن 181 کے تحت فلسطین کو یہودیوں اور عرب قوم میں تقسیم کرکے ’بیت المقدس‘ کو ایک الگ اور خودمختار حیثیت دے دی، جس کے بعد فلسطینی سرزمین پر برطانیہ اور دیگر ممالک کے تعاون سے یہودیوں نے خونریزی شروع کردی [6]۔ خود اسرائیلی حکومتی ویب سائٹس میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ صیہونی ریاست کا عمل مختلف ممالک اور اداروں کے تعاون کے بعد 1948 میں عمل میں آیا۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اقوام متحدہ، امریکا، برطانیہ، اس وقت کے سوویت یونین اور حالیہ روس سمیت دیگر بڑے ممالک نے صیہونی ریاست کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تو وہ کس طرح اب صیہونیوں کے حملوں کو دہشت گردی قرار دیں گے؟ [7]۔

حوالہ جات

  1. محمد حسن بٹ، جدید اسرائیل کی تاریخ، لاہور علی فرید پرنٹرز، 2007م، ص9-10
  2. منور رضوی، قیام اسرائیل، 2015ء، ص6-7
  3. محمد اعظم چوہدری، بین الاقوامی تعلقات، کراچی، قمر کتاب گھر، 2004ء، ص618-619
  4. محمد اسلم لودھی، اسرائیل ناقابل شکست کیوں؟ وفا پبلی کیشنز، 2007ء، ص77-87
  5. مسئلہ فلسطین کب اور کیسے شروع ہوا؟independenturdu.com
  6. یوسف ظفر، یہودیت، جنگ پبلشرز، 1997ء، ص267
  7. اسرائیل نے کب اور کیسے فلسطین پر قبضہ کیا، کتنی زندگیاں ختم کیں؟ dawnnews.tv