یمن
یمن جزیرہ نما عرب کے جنوب میں ایک عرب اور ایشیائی اور ایک مسلم ملک ہے۔ اس ملک کے شمال اور مشرق میں سعودی عرب اور عمان، جنوب میں بحیرہ عرب ہے اور مغرب میں بحیرہ احمر واقع ہے۔ یمن کا دار الحکومت صنعاء ہے اور عربی اس کی قومی زبان ہے۔ یمن کی آبادی 2 کروڑ سے زائد ہے، جن میں سے بیشتر عربی بولتے ہیں۔ یمن کے لوگوں نے بغیر کسی جنگ کے پیغمبر اسلام اور امام علی علیہ السلام کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور اسلام قبول کر لیا۔ یمنی مسلمانوں نے واقعہ سقیفہ کے بعد شیعیت کو مضبوط کرنے اور عثمان بن عفان کے قتل کے بعد امام علی علیہ السلام کو خلافت کے لیے بلانے میں کردار ادا کیا۔ یمن کے لوگ معاویہ کے شدید ترین مخالفین میں سے تھے۔ کربلا کی جنگ میں یمن کے کچھ مسلمان امام حسین علیہ السلام کے دفاع میں پیش پیش تھے۔ موجودہ یمن کا دار الحکومت "صنعاء"ہے۔ یمن کو عرب تمدن کا سب سے قدیم اور متمدن خطہ قرار دیا جاتا ہے۔
یمن | |
---|---|
سرکاری نام | یمن |
طرز حکمرانی | جہوریہ |
دارالحکومت | صنعا |
آبادی | 29میلین |
مذہب | اسلام |
سرکاری زبان | عربی |
کرنسی | ریال |
جغرافیا
یمن، جزیرۃ العرب کا جنوبی وشرقی حصہ ہے اور عربستان میں اس سے زیادہ زرخیز، شاداب اور آباد کوئی خطہ نہیں تھا [1]۔ یہ عرب کا ایک قدیم اور اہم خطہ ہے اور یہ سرزمین عرب میں شروع سےہی ایک خاص مقام کا حامل رہا ہے۔ قبل از مسیح دور میں اس کا نام سبا اور اس کا دار الحکومت " مآرب " تھا۔ یہ نام کئی صدیوں تک رائج رہا لیکن پھر اس کا نام " یمن " پڑگیا۔ عہدِنبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کے بعد سے آج تک اس کا نام یمن ہی ہے [2]۔ یہ نجد سے شروع ہو کر جنوب کی طرف بحر ہند اور مغرب میں بحر احمر (Red Sea) کی طرف پھیلا ہواہے۔ مشرق کی طرف اس کی سرحد حضرموت، الشحر (Al-Shahr)اور عمان سے ملتی ہے جبکہ یاقوت حموی نے اصمعی کے حوالہ سے جزیرہ نما عرب کو چار(4) حصوں میں تقسیم کیا [3]۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: اصمعی نے کہا: جزیرہ عرب چار اقسام پر ہے یعنی یمن، نجد، حجاز اور غور نیز یہی تہامہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض علماء کے نزدیک ان میں عمان اور بحرین پہلے جزیرہ عرب سے علیحدہ تھے اور اسی وجہ سے یاقوت حموی کی طرح سمہودی بھی جزیرۃ العرب کے ذکر میں اس کا ذکر نہیں کرتے۔ سمہودی لکھتے ہی اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض علماء کے نزدیک ان میں عمان اور بحرین پہلے جزیرہ عرب سے علیحدہ تھے اور اسی وجہ سے یاقوت حموی کی طرح سمہودی بھی جزیرۃ العرب کے ذکر میں اس کا ذکر نہیں کرتے۔ سمہودی لکھتے ہیں: اس جزیرہ (عرب) میں چار مقام شامل ہیں، یمن، نجد، حجاز اور غور جسے تہامہ کہتے ہیں [4]۔ عرب مؤرخین اور تاریخ دانوں کے مطابق پورے جزیرہ نمائے عرب میں تہذیب وتمدن اور علوم وفنون میں کوئی خطہ اس کا مقابل نہیں تھا۔ قدیم تاریخوں میں اسے الیمن السعیدۃ یعنی خوش وخرم یمن یا زرخیز عرب بھی کہا جاتا رہا ہے [5]۔
وجہ تسمیہ
یمن کی وجہ تسمیہ سے متعلق بھی کئی اقوال منقول ہیں۔ مختلف روایات سے معلوم ہوتاہے کہ یمن کے کئی نام تھے جو مختلف زمانوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر رکھے گئے تھے۔ مؤرخین نے اس نام کی ایک وجہ تسمیہ یہ بیان کی ہے کہ بنو قحطان چونکہ کعبہ کے دائیں جانب آباد ہوئے تھے اسی لیے ان کے خطے کا نام یمن پڑ گیا تھا۔ ابن سعداس حوالہ سے لکھتے ہیں: یقطن بن عابر کی اولاد دیارِ یمن میں آباد ہوئی اور اسی وجہ سے اس کا نام یمن پڑا کیونکہ اس قوم نے اس طرف تیامن (دائیں جانب کا سفر)کیا تھا[6]۔ بنو قحطان (بنویقطن بن عابر) مکہ سے دائیں جانب سفر کرکے یمن آئے تھے اور یہاں آباد ہوئے تھے اس لیے اس علاقے کو یمن کہاجانے لگا [7]۔ یمین عربی زبان میں دائیں طرف کو کہتے ہیں اور دائیں سمت مبارک خیال کی جاتی ہے۔ جب مکّہ مکّرمہ میں آبادی زیادہ ہوگئی اور عرب یہاں سے ہجرت کرنے لگے تو جو لوگ اس سمت گئے یعنی بیت اﷲ شریف کے دائیں جانب تو اس دائیں جانب کا نا م یمن پڑگیا اور اسی طرح بائیں جانب کا نام شام پڑ گیا۔ اس حوالے سے یاقوت حموی ابن عباس سے نقل کرتے ہیں:
ابن عباس نے فرمايا كہ عرب اس جزیرہ نما کی مختلف سمتوں میں بکھر گئے پھر جو دائیں طرف گئے ان کے رخ کی مناسبت سے اس علاقے کا نام یمن رکھ دیا گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب مکّہ میں لوگوں کی کثرت ہوگئی اور وہاں مزید گنجائش نہ رہی تو دائیں طرف والے یمن کی طرف آباد ہوگئے اور یہ ارضِ مکّہ کے انتہائی دائیں جانب ہے لہٰذا اس کا یہ نام پڑا۔ حلبی یہی قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یمن کو یمن اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ کعبہ کے دائیں جانب ہے [8]۔ اسی مناسبت سے بیت اﷲ شریف کے ایک رکن کا نام بھی رکن یمانی ہے جو کہ یمن کی نسبت کی وجہ سے ہے [9]۔ یمن کی وجہ تسمیہ کے بارے میں دوسرا قول یہ ہے کہ یعرب بن قحطان کا ایک نام ایمن بھی تھا اور حضرت ہود نے اپنے اس پوتے کو اس لقب سے ملقب فرمایا تھااور اسی وجہ سے اس کے ہجرت کرنے کے بعد اس کے مقام سکونت کو یمن کہا گیا۔ حلبی یمن کی یہ وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اور اسی یعرب کوایمن بھی کہاگیا کیونکہ نبی اللہ ہود نے ان سےفرمایا: میرے بیٹے تم میرے بیٹوں میں سب سے زیادہ برکت والے ہو اور یمن میں آنےکی بناپروہ یمن کہلایانیز یہی پہلا آدمی ہے جس نے اشعار اور رجز کہے۔
رجز شاعری کی ايك قسم ہے جو جنگوں ميں پڑهی جاتی ہے [10]۔ اور اس کا مقصد سپاہیوں کو جنگ پر ابھارناہوتا ہےنیز ابن ہشام کی تحقیق سے اس قول کو مزید تقویت حاصل ہوتی ہے۔ السُہیلی نے ابن ہشام کے حوالہ سے لکھا ہے کہ یعرب کا نام اصل میں یمن تھا اور چونکہ یہی اس کو آباد کرنے والے تھے لہٰذا اس کا نام یمن پڑگیا۔ اس حوالہ سے سہیلی لکھتے ہیں ابن ہشام کہتے ہیں کہ یعرب بن قحطان کا نام یمن ہے کیونکہ حضرت ہود نے اس سے فرمایا تھا تو ازروئے نفس میری تمام اولاد سے بابرکت ہے [11]۔ یمن کے دیگر نام بھی کتب تاریخ میں منقول ہوئے ہیں۔ مورخین یمن کویمنِ خضراء کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں کیونکہ اس شہر میں کھیت و کھلیان اور باغات کی کثرت تھی۔ اس حوالہ سے یاقوت الحموی لکھتے ہیں: اسے یمن الخضراء اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں درختوں، پھلوں اور فصلوں کی بہتات ہے۔ سید محمود شکری یمن کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں [12]۔
مشہور مقامات
یمن کے قدیم و مشہور مقامات میں معین، مارب، ظفار، شیبان، اوزال، براقش، فشق، خولان، قرن شبوہ، عمران اورصنعاء وغیرہ شامل تھے جن میں سے اب اکثر مقامات ویران یا دریائے ریگ میں غرق ہوچکے ہیں تاہم بعض موجود بھی ہیں لیکن ان کے قدیم نام متروک ہو چکے ہیں۔ ملک کی کثرت آبادی اورشادابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ خطہ کئی ایک صوبوں میں منقسم تھا جنہیں اہل عرب مخلاف الیمن کہتے تھے۔ مورخ یعقوبی نے ان کا ذکر کرتے ہوئے چوراسی(84) صوبے بتائے ہیں جن میں سے بعض کے نام حسب ذیل ہیں: طمو، عیان، طمام، ھمل، قدم، خیوان، سنعان، ریحان، جرش، صعدۃ، ھوزن، حیران، مارب، زبید، ربع، بنی محید، حضر موت، الحلقین، عنس۔ نیز یعقوبی ساحلی علاقوں کے نام ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اور سواحل میں سے عدن ہے اور یہ صنعاء، المندب، غلافقۃ، الحردۃ، الشرجۃ، عثر، الحمضۃ، السرین اور جدہ كاساحل ہے [13]۔ یمن میں کئی ایک مشہور شہر اور مقامات تھے لیکن ان میں چار (4)مقامات بطور خاص تاریخ میں مذکور ہیں جن میں صنعاء، حضر موت، بلاد الاحقاف اورنجران شامل ہیں۔ ان کی تفصیل ذیل میں درج کی جارہی ہے۔
صنعاء
صنعاء یمن کا سب سے مشہو ر شہر تھاجویمن کے قلب اور بحر احمر کے سواحل پر عرب کے جنوبی اور مغربی گوشہ میں واقع ہے۔ یہ سطح سمند رسےاکیس سو چھیانوے(2196)میٹر بلند ہے اور یمن کا قدیم ترین شہر ہے حتی کہ اس کے متعلق مؤرخین کا بیان ہے کہ اس شہر کو سام بن نوح نے آباد کیا تھانیز صنعاء شہر کے کئی قدیم نام تھے جن کی تفصیل درج ذیل ہے: بعض مؤرخین نے صنعاء کی تعمیر کو سام بن نوح کی طرف منسوب کیا ہے اور یہ گمان کیا ہے کہ یہی وہ پہلا شہر تھا جو یمن میں بنایاگیا۔۔ ۔ ہماری معلومات کے مطابق صنعاء کا نام پہلی مرتبہ اس کتبہ میں وارد ہوا ہے جس کا زمانہ سبا اور ذی ریدان کے بادشاہ شاہ شرح یحضب کی طرف لوٹتا ہے اور اس میں اس شہر کو صنعو کے نام سے یاد کیاگیا ہے [14]۔
وجہ تسمیہ
صنعاء جویمن کا دارالخلافہ ہے اس کا قدیمی نام ازال تھا جو بعد میں صنعاء پڑگیا۔ اس حوالہ سے سید محمود شکری لکھتے ہیں: قدیم زمانہ میں اسے ازال نام سے موسوم کیا جاتا تھا [15]۔ ڈاکٹر جواد علی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: مؤرخین نے ذکر کیا ہے کہ یہ شہر ازال یا اوال کے نام سے بھی پہچاناجاتا ہے، یہ بظاہرانہوں نے اہل کتاب علماء جیسے کعب الاحبار اور وہب بن منبہ کےذریعہ تورات میں وارد لفظ ازال سےاخذ کیا ہے [16]۔ صنعاء کی وجہ تسمیہ کے حوالہ سے مؤرخین کے دو اقوال ملتے ہیں۔ مؤرخین نے اس حوالہ سے پہلا قول یہ نقل کیا ہے کہ یہ قدیم یمنی بادشاہ صنعاء کے نام پر رکھا گیا تھا جس کا نسب یاقوت حموی اس طرح نقل کرتے ہیں: صنعاء بن ازال بن یقطن بن عامر بن شالخ بن ارفخشد نے سب سے پہلے اسےبنایاپھر یہ اس کےبیٹے کےنام سےموسوم ہوا کیونکہ اس نے اسے اپنی ملکیت میں لیاتھااوربعد میں اس کانام اس پرغالب آگیا [17]۔ جبکہ مؤرخین نے جو صنعاء کی وجہ تسمیہ کے حوالہ سے دوسرا قول بیان کیا ہے وہ اس طرح ہے کہ جب اہل حبش صنعاء شہر میں وارد ہوئے تو وہ یہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ یہ شہر پتھروں سے بنایا گیا ہے۔ اس حوالہ سےعبد اللہ حمیری تحریر کرتے ہیں: یمن میں ایک شہر تھا جس کا نام زمانہ قدیم میں ازال تھا۔ جب اہلِ حبشہ اس میں آئے اوراس کوپتھروں کا بناہوا دیکھاتو کہا: یہ تو صنعۃ ہے۔ ان کی زبان میں اس کا معنی قلعہ تھا۔
کہا جاتا ہے کہ اسی وجہ سے اس شہر کا نام صنعاء پڑگیا تھا۔ اسی صنعاء کی سرزمین پر عربوں کی عظیم الشان سلطنتیں مثلاً معین، سبا اور حمیر قائم ہوئی تھیں اوران کے علاوہ سد مآرب یا سدعرم اسی کی وادیوں میں تعمیر ہوا تھا۔ ظفار، مآرب اور زوال یہیں کے پایہ تخت تھے اور ملکہ سبا اسی سرزمین کی حکمران تھی۔ قصر غمدان، قصر ناعط، قصر ربدہ، قصر صراوح اور قصر مدر اسی خطے میں تعمیر ہوئے تھے جن کے آثار چوتھی صدی ہجری میں ہمدانی نے بذاتِ خود مشاہدہ کیے تھے [18]۔
حضرموت اور اس کی وجہ تسمیہ
حضرموت یمن کا ایک مشہور اور قدیم شہر ہے جو ساحل بحر ہند پر واقع ہے جس کے جنوب میں الربع الخالی اور الاحقاف اور مغرب میں صنعائے یمن ہے۔ محمد بیومی اس کے محل وقوع کے بارے میں لکھتے ہیں: حضرموت یمن کی مشرقی جانب ساحل بحر عرب پر واقع ہے [19]۔ حضرموت یمن کے شہروں میں سے قدیم ترین شہر ہے۔ اس کےنام کی وضاحت کرتے ہوئے ملاعلی قاری لکھتے ہیں: (حضرموت) یمن میں ایک شہر کا نام ہے۔ یہ دو اسم ہیں جن سے ایک نام بنایا گیا ہےاورعلمیت و ترکیب کی وجہ سے یہ غیر منصرف ہے۔ حاء مہملہ، راء اور میم کے فتحہ اور ضاد معجمہ کے سکون کے ساتھ ہے۔ قاموس میں میم کے ضمہ کے ساتھ ایک شہر اور ایک قبیلہ کا نام ہے [20]۔ یاقوت حموی لکھتے ہیں کہ حضرموت بن قحطان اس مقام پرفروکش ہواتو یہ اسی کے نام سے موسوم ہوا۔ حضرموت کی وجہ تسمیہ کے حوالہ سے دوسرا قول یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ عامر بن قحطان پہلا شخص تھا جو احقاف میں داخل ہوا اوراس کی وجہ شہرت یہ تھی کہ وہ جس جنگ میں شریک ہوتا تھاکشتوں کے پشتے لگادیتا تھا۔ وہ جہاں بھی جاتا تو لوگ کہتے "حضرموت" (یعنی موت آگئی) لہذایہی اس کا لقب ٹھہرا جو اس قدر مشہور ہوگیا کہ لوگ اس خطہ زمین کو بھی حضرموت کہنے لگے جہاں اس کا قبیلہ رہتا تھا [21]۔
مرقد حضرت ہود
اس شہر کو ایک بڑی فضیلت یہ بھی حاصل ہے کہ اس شہریعنی حضرموت میں حضرت ہود کا مرقد مبارک موجود ہے جس کی زیارت کے لیے دور دور سے لوگ آیا کرتے تھے [22]۔ س حوالہ سے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے بھی ایک روایت مروی ہے۔ حاکم نیشاپوری اس روایت کو یوں نقل کرتے ہیں: حضرت ابو الطفیل عامر بن واثلہ کہتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب نے حضرموت کے ایک آدمی سے کہا: کیا تو نے سرخ رنگ کا ریت کا ٹیلہ دیکھا ہے جس میں سرخ رنگ کی مٹی ملی ہوئی ہواور جس کے اردگرد ایسے ایسے بہت ساری بیریاں ہیں؟ اس نے کہا: خدا کی قسم! اے امیر المؤمنین ! آ پ نے تو اس شخص کی طرح تمام اوصاف بیان کردیے ہیں جس نے اس کو دیکھا ہو۔ آپ نے فرمایا: نہیں! بلکہ مجھے تو اس کے متعلق بتایاگیاہے۔ حضرمی نے کہا: اے امیر المؤمنین ! اس کا معاملہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اس میں حضرت ہودکی قبر ہے [23]۔
وادی برہوت اور بئر برہوت
حضرموت میں برہوت نامی ایک کنواں بھی تھا جس کو دنیا کا سب سے برا کنواں کہا جاتا تھا۔ اس حوالہ سے عبد الرزاق اپنی مصنف میں حضرت علیسے ایک روایت یوں نقل کرتے ہیں: حضرت علیسے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: لوگوں میں خیر اور بھلائی کی دو وادیاں ہیں، ایک وادی مکّہ مکّرمہ میں اور دوسری سرزمین ہند میں جہاں حضرت آدماترےتھے، اس میں ہی یہ(عود ہندی) ہوتی ہےجو تم لگاتے ہو۔ لوگوں میں دو شر کی وادیاں ہیں، ایک وادی الاحقاف اور دوسری حضر موت میں جسے وادی برہوت کہا جاتا ہے۔ لوگوں میں سب سے اچھا اور بہترین کنواں زمزم ہے اور سب سے برا کنواں بلہوت ہے اور یہ اسی وادی برہوت میں ایک کنواں ہے جس میں کفار کی ارواح جمع کی جاتی ہیں [24]۔
نجران
نجران بھی یمن کا تاریخی اور قدیم ترین شہر ہے جو صنعاء سے تقریباً ڈھائی سو(250)کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ سید محمود شکری اس شہر کا محل وقوع بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ یمن کی سرزمین کا بہت بڑا ٹکڑا ہے جہاں نخلستان اور درخت پائے جاتے ہیں۔ یہ صنعاء کے قریب عدن اور حضر موت کے درمیان واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ یمن کے شمال سے صعدہ کے شمال تک کی پہاڑیوں پر واقع ہے۔ صنعاء تقریباً دس(10)مرحلوں کے فاصلے پر ہےاور کبھی یہ بلاد ہمدان میں شامل اور بستیوں، شہروں، آبادیوں اور پانیوں(چشموں) کے درمیان واقع تھا [25]۔
وجہ تسمیہ
نجران کی وجہ تسمیہ کےبارے میں مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ نجران بن زیدان بن سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان کے نام پر اس علاقے کو نجران کہا جاتا ہے کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے اس علاقہ کو آباد کیا تھا۔ اس حوالہ سے البلاذری ابن الکلبی کی روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: نجران بن زیدبن سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان کےنام سے یمن کا نجران موسوم ہوا [26]۔ اس حوالہ سے یاقوت حموی لکھتے ہیں: نجران بن زیدان بن سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان کے نام پر اس علاقے کو نجران کہا جاتا ہے کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے یہ علاقہ آباد کیااوراس میں فروکش ہوا [27]۔ نجران پرانے زمانے میں تجارتی قافلوں کی گزرگاہ تھا ان دنوں یہ سعودی عرب کی سرحد کے اندر واقع ہےاور یہ انتہائی سرسبز وشاداب خطہ ہے [28]۔
بلاد ِاحقاف
حضرموت کی طرح بلادِ احقاف بھی یمن کا ایک قدیم ترین شہر تھا جو حضرموت اور نجران کے مابین موجودہ ریگستان میں آباد تھا۔ اہل ِعرب ریت کے بل کھاتے ہوئے ٹیلے کو احقاف کہتے تھے [29]۔ یہ شہر اپنے دور میں خاصا مشہور اورسر سبزوشاداب شہر تھا لیکن موجودہ زمانے میں یہاں صرف ریت کے اونچے اونچے ٹیلےہی ہیں۔ یہ عہدِقدیم میں ایک بڑا شہر تھا اور اس میں بہت بڑی آبادی رہا کرتی تھی مگر اب یہاں دور دور تک کسی ذی روح کے نشان نہیں۔ اب اسے "الاحقاف" یعنی ریگستان کہتے ہیں اور یہ " الربع الخالی" نامی عرب کے سب سے بڑے ریگستان کا ایک کنارہ ہے [30]۔
یمن کی مشہور وادیاں
يمن ميں کئی ایک وادیاں تھیں جو یمن کی شادابی میں موثر کردار اد اکرتی تھیں۔ ان وادیوں میں وادی نجران، وادی حجر اور وادی حضرموت سر فہرست ہیں۔ وادی نجران یمن کے شمال کی طرف نجران میں بہتی تھی جس کا پانی جبل طویق کے جنوب میں الربع الخالی میں جذب ہوجاتا تھا۔ حضر موت کے جنوب میں واقع وادی حجر میں جزیرہ نمائے عرب کا واحد دریا تھا جو پورا سال بہتااور بحیرہ عرب میں گرتا لیکن اس کی لمبائی سو( 100)کلو میٹر سے زیادہ نہیں تھی۔ وادیِ حضر موت، حضرموت کے شمال مشرق میں واقع تھی جوشمال اور جنوب کی طرف سے آنے والی ندیوں سے مل کر "وادی المسیلہ"کہلاتی اور سیحوت کے قریب بحیرہ عرب میں جاگرتی۔ سیحوت یمن کے مشرقی صوبے مہرہ کا ایک شہر تھاجو بحیرہ عرب کے ساحل پر مکلا سے پانچ سو بائیس( 522)کلو میٹر اور صنعاء سے تیرہ سو اٹھارہ (1318) کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھااور یہاں کشتیاں بنانے کا کام بھی ہوتا تھا [31]۔
سیاست
2012 میں یمنی انقلاب کے بعد مرکزی حکومت کی طاقت بڑی حد تک ختم ہو چکی ہے اور ملک کے بیشتر حصے اس کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ انصار اللہ جو کہ زیدی شیعہ گروہ ہیں اور ان کا مرکز ملک کے شمال میں صوبہ صعدہ میں ہے، ان میں سب سے مضبوط گروہ ہیں، جو مارچ 2015 تک دارالحکومت صنعاء اور ملک کے سب سے بڑے شہر پر قابض ہیں۔ انصار الشریعہ جو کہ القاعدہ کی ایک شاخ ہے، اس ملک کا ایک اور طاقتور گروپ ہے۔ علی عبداللہ صالح 1978 سے شمالی یمن کے صدر اور 1990 سے متحدہ یمن کے صدر کی حیثیت سے اس ملک میں برسراقتدار ہیں۔ وہ 2012 میں بڑے پیمانے پر عوامی مظاہروں کی وجہ سے اقتدار سے دستبردار ہو گئے تھے، جسے یمنی انقلاب کے نام سے جانا جاتا تھا، لیکن وہ پھر بھی اس ملک کے سیاسی منظر نامے میں ایک بااثر افراد میں سے تھے، اور ان کی وفادار افواج نے مارچ میں انصار اللہ کے ساتھ اتحاد کر لیا۔
یمن کی جنگ
یمن میں فوجی مداخلت 25 مارچ 2015 کو شروع ہوئی، 6 اپریل 2015 کی مناسبت سے، یمن پر سعودی عرب کی قیادت میں علاقائی ممالک کے اتحاد کی طرف سے طوفان قاطعیت فیصلہ کن آپریشن طوفان کے نام سے ہوائی حملے کے ساتھ۔ اور یمن کے صدر کی درخواست پر، اور 2 مئی سے یہ آپریشن ریٹرن آف عرب عادۂ الآمل کے نام سے جاری رہا۔
اقتصاد
2013 میں یمن کی مجموعی گھریلو پیداوار (GDP PPP) 61 بلین ڈالر سے زیادہ تھی اور فی کس آمدنی تقریباً 2500 ڈالر تھی۔ خدمات ملکی معیشت کا سب سے اہم شعبہ ہے، جس کا جی ڈی پی کا 61 فیصد حصہ ہے، اس کے بعد صنعت 31 فیصد اور زراعت 7.7 فیصد ہے۔ حکومت کی آمدنی کا 63 فیصد تیل کی پیداوار ہے۔ زراعت ماضی میں زیادہ اہم تھی اور اس میں ملک کی پیداوار کا 18-27% حصہ شامل تھا۔ ملک کی زرعی مصنوعات میں اناج، پھل، سبزیاں، کپاس، کافی، کپاس، دودھ کی مصنوعات، مچھلی، مویشی (بھیڑ، بکریاں، گائے اور اونٹ) اور پولٹری شامل ہیں۔ سورغم (مکئی) ملک کی اہم فصل ہے اور آم ملک کا سب سے اہم پھل ہے۔ ملک کے مسائل میں سے ایک کھٹ کی کاشت ہے، یہ ایک نشہ آور پودا ہے جس کے چبانے کا اثر محرک ہوتا ہے۔ صنعاء کے آبی علاقے میں تقریباً 40 فیصد پانی اس پودے کی کاشت کے لیے وقف ہے جس کی وجہ سے کھیتوں کے خشک ہونے اور خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک کے صنعتی شعبے میں تیل کی پیداوار اور ریفائننگ، کھانے کی صنعتیں، دستکاری، چھوٹے ٹیکسٹائل اور چمڑے کی ورکشاپس، ایلومینیم کی پیداوار، جہاز کی مرمت اور قدرتی گیس کی پیداوار بھی شامل ہے۔ 2013 میں بے روزگاری کی شرح 35 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
طبی صورتحال
ریڈ کراس اور اقوام متحدہ کے ہنگامی امدادی ادارے کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق 13 جولائی 2017 تک یمن میں 320 اس بیماری سے 1700 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ شائع شدہ معلومات کے مطابق یمن کے 23 میں سے 22 صوبوں میں بھوک اور ہیضے کی وباء پھیلی ہوئی ہے۔ سلامتی کے مسائل کی وجہ سے اقوام متحدہ کے حفاظتی ٹیکوں کا پروگرام بھی نافذ نہیں ہو سکا۔ دریں اثناء یمن کے 55 فیصد سے زیادہ ہسپتال بمباری سے تباہ یا مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ ملک کا طبی اور صحت کا نظام درہم برہم ہے اور آلودگی کی وجہ سے ہیضے جیسی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ یمن کے صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں کام کرنے والے 30 پانی کے پمپ، سیوریج ٹریٹمنٹ، اور نہ ہی ہسپتالوں کی مرمت اور تعمیر کے لیے پیسے ہیں۔دسمبر 2017 کو ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے اعلان کیا کہ یمن میں ہیضے کے مشتبہ مریضوں کی تعداد دس لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ اس سے قبل یمن میں سرگرم کچھ غیر سرکاری تنظیموں نے بھی یمن میں ہیضے کے مشتبہ کیسوں کی تعداد کے لیے اس اعداد و شمار کا اعلان کیا تھا۔ عالمی ادارہ صحت نے 27 اپریل (7 مئی) سے 8 نومبر (17 نومبر) تک یمن میں ہیضے کے مشتبہ افراد کی تعداد 91 اس تنظیم نے اس جنگ زدہ ملک میں ہیضے کی وجہ سے 1962 افراد فوت بوچکے ہیں یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں میں متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پہلے خبردار کیا ہے کہ اگر انسانی امداد بھیجنے سے روکا گیا تو یمن میں ہیضے سے نمٹنے کے عمل کو کافی نقصان پہنچے گا یمن میں انسانی امداد کی ترسیل کو روکنا یا امداد کی کمی اس ملک میں قحط کی بنیادی وجہ ہے۔ اس ملک میں تقریباً 80 لاکھ 400 ہزار یمنی قحط کے خطرے سے دوچار ہیں۔ دریں اثنا، ملکی ذرائع بین الاقوامی تنظیموں کے دو گنا اعدادوشمار دیتے ہیں۔ یمن میں جنگ نے ملک کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی کو خوراک، ایندھن، پینے کے پانی اور طبی خدمات تک رسائی میں رکاوٹ پیدا کر دی ہے۔ اقوام متحدہ نے یمن میں انسانی بحران کو دنیا کا سب سے سنگین انسانی بحران قرار دیا ہے۔
یمن کی آبادی
یمن کی آبادی جولائی 2020 کے CIA انسائیکلوپیڈیا کے اندازے کے مطابق 29.9 ملین کے قریب ہے (دنیا میں 48 ویں نمبر پر ہے)۔ ان میں سے 99/1سے زیادہ مسلمان ہیں۔ ملک کی آبادی میں اضافہ بہت زیادہ ہے (02.4%) اور شرح پیدائش 2.3 بچے فی عورت ہے۔ 1978 میں ملک کے دارالحکومت صنعاء کی آبادی صرف 55 ہزار افراد تھے۔لیکن اب یہ تعداد 30 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ یمن کا دوسرا بڑا شہر عدن ہے جس کی آبادی تقریباً ایک ملین ہے۔ یمن کے تقریباً 38% لوگ شہری باشندے ہیں، اور شہری کاری کی ترقی کی شرح 06.4% بتائی گئی ہے۔ آئین کے مطابق اسلام ملک کا سرکاری مذہب اور تمام قوانین کی بنیاد ہے۔ آئین مذہبی اقلیتوں کو مذہبی تقریبات منعقد کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن اسلام چھوڑنا منع ہے۔ زیادہ تر یمنی عرب ہیں، اور افریقی عرب، جنوبی ایشیائی اور یورپی ملک کی نسلی اقلیتیں ہیں۔ یمن بنیادی طور پر ایک قبائلی ملک ہے، اور ملک کے شمال کے پہاڑی علاقوں میں تقریباً 400 زیدی قبائل آباد ہیں۔
کچھ یمنی بھی ایرانی نژاد ہیں۔ مقدیسی کی تحریروں کے مطابق دسویں صدی میں عدن کے زیادہ تر باشندے ایرانی تھے۔ ماضی میں یمنی یہودیوں کی بھی خاصی آبادی تھی لیکن ان میں سے زیادہ تر 20ویں صدی میں اسرائیل ہجرت کر گئے۔ ملک کے جنوب میں تقریباً ایک لاکھ ہندوستانی رہتے ہیں۔ ایرانیوں نے یمن میں پہلی شیعہ حکومت قائم کی۔ ایرانیوں نے یمنی عوام کو اسلام کی طرف لانے اور شیعہ مذہب کی طرف ان کا رجحان بڑھانے میں موثر اور نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ وہ ایرانی جو پرانے زمانے میں سفر کی تکلیف برداشت کرتے تھے اور بغیر کسی سہولت کے جزیرہ نما کے جنوب میں اتنی لمبی مسافت طے کر کے اس ملک کی تاریخ بدل کر رکھ دیتے تھے۔ ہجری کی پہلی صدی میں دو یمنی قبائل نے ایران کی طرف ہجرت کی (ایران میں شیعیت کی تاریخ پر کتاب جو کہ رسول جعفریان کی تصنیف ہے) فارسی ادب میں عقیق یمنی، سہیل یمنی، نگر یمنی وغیرہ کے تاثرات اکثر نظر آتے ہیں۔ لیکن ایرانیوں کی یمن کی تاریخ میں دو بار اثر انگیز موجودگی رہی ہے۔ کچھ ایرانی شخصیات نے بھی انفرادی طور پر اس سرزمین کا سفر کیا ہے جن میں ایرانی سائنسدان فیروز آبادی قاموس المحیط کا مصنف جو آٹھوین عیسوی صدی میں یمن گئے تھے اور دس سال کے بعد وہاں پر وفات پا گئے۔ یمن رہ جانے والے یہودیوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تقریباً پچاس یہودی یمن میں رہ گئے ہیں اور یمنی وزیر اطلاعات کے مطابق خاص طور پر حوثیوں کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کے انجام کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہے۔
مذہب
اسلام یمن کا سرکاری مذہب ہے، فریڈم آف ریلیجنز انٹرنیشنل کے مطابق، یمن کی مسلم آبادی کا ایک بڑا حصہ دو اہم گروہوں پر مشتمل ہے: سنی 55% اور شیعہ 45%۔ یمن میں زیادہ تر سنی شافعی ہیں۔ بلکہ ان میں مالکی اور حنبلی مذاہب کے ماننے والے بھی نظر آتے ہیں۔ یمنی شیعہ آبادی کے بڑے حصے میں زیدی شامل ہیں، اور دوسرا، اسماعیلی اور شیعہ اثناعشری اس آبادی کو تشکیل دیتے ہیں۔ سنیوں کی ایک بڑی تعداد یمن کے جنوب اور جنوب مشرق میں رہتی ہے، اسماعیلیوں کا بڑا حصہ شمال اور شمال مغرب میں بھی رہتا ہے، جبکہ اسماعیلی یمن کے مرکز صنعاء اور ماریب کے شہری ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد بڑے شہروں میں مخلوط برادریوں میں بھی رہتی ہے۔ 5فیصد آس پاس، یمن کے لوگ غیر مسلم ہیں جن میں مذاہب جیسے بدھ مت، ہندو مت، یا کوئی مشترکہ مذہب شامل نہیں ہے۔ یمن میں عیسائیوں کی تعداد 25 ہزار سے 41 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یمن میں کم از کم 50 یہودی رہ گئے ہیں۔ یہودی ایجنسی نے 2016 میں کم از کم 200 یمنی یہودیوں کو اسرائیل لایا۔
تعلیم
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 2004 میں پندرہ سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں خواندگی کی شرح 54/1% تھی لیکن اس کے بعد سے اس تنظیم نے نئے اعدادوشمار شائع نہیں کیے۔ یمن کی قدیم ترین یونیورسٹیوں میں صنعاء اور عدن کی یونیورسٹیاں شامل ہیں جو بالترتیب 1970 اور 1975 میں کھولی گئیں۔ اس ملک کی دیگر یونیورسٹیوں میں اب، طائز، ذمار، حدیدہ، مکلہ، حجہ اور کی یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ عمران یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، جو صنعاء میں واقع ہے، 4icu ویب سائٹ کے مطابق 3066 ویں نمبر پر ہے، جو یمن کی دیگر تمام یونیورسٹیوں سے زیادہ ہے۔
یمن کے شیعے
یمن کی آبادی کی اکثریت سنی شافعی ہے۔ دوسرے درجے میں، زیدی شیعوں کی آبادی ہے، جو یمن کی کل آبادی کا تقریباً 25 فیصد ہیں۔ اس کے بعد اسماعیلی شیعہ اور آخر میں شیعہ اثناعشری کی آبادی ہیں۔ اس لیے اس ملک میں اثناعشری شیعوں کا شمار اس ملک کی اقلیتوں میں ہوتا ہے۔اسلامی انقلاب کی کامیابی تک یمن میں بارہ اماموں کے شیعوں کی ایک قلیل تعداد پائی جاتی تھی اور وہ بہت بکھر چکے تھے لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد انقلاب، اس میدان میں ایک حرکت پیدا ہوئی اور انہوں نے اپنے لیے پلیٹ فارم فراہم کیا۔ یمن کے شیعوں میں سے زیادہ تر شیعہ مذہب تبدیل کرنے والے ہیں جو پہلے دوسرے مذہب کے حامل تھے اور کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، اس لیے وہاں کے کئی خاندانوں میں کم از کم ایک مبصر موجود ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کی بدولت یمن میں شیعوں کی صورتحال بدل گئی۔ مثال کے طور پر اس تاریخی واقعہ سے پہلے یمن میں شیعوں کے لیے کوئی حسینیہ بھی نہیں تھا۔ لیکن اس واقعے کے بعد یمن کے مختلف علاقوں میں کئی حسینیہ تعمیر کیے گئے اور شیعوں نے اپنی مساجد اور خاص مقامات کو وسعت دی ہیں۔ یمن میں شیعوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کے باوجود، ان کے کوئی درست اعداد و شمار نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ واقعہ یمن میں ایک نیا واقعہ ہے اور اس کے درست اعدادوشمار حاصل کرنا مشکل ہے۔ تاہم، بعض شیعوں کی طرف سے کئے گئے غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، شیعیہ اب بھی اس ملک کی نصف سے زیادہ آبادی پر مشتمل ہیں۔ البتہ یہ قلیل آبادی زیادہ اہم نہیں ہے، کیونکہ جو لوگ اہل بیت علیہم السلام کے دین کی طرف مائل ہیں، وہ معیار کے اعتبار سے عموماً اس ملک کے بڑے لکھے لوگوں میں سے ہیں۔ یونیورسٹی کے پروفیسرز، ڈاکٹرز اور بحرین کی بااثر شخصیات مذبب تبدیل کرنے والوں میں شامل ہیں اور اس اعلیٰ معیار کی کیفیت نے تعداد کی کمی کو پورا کیا ہے۔ تشیع کی ترویج میں ان کا بڑا اثر ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ان بڑھے لکھے افراد میں سے ایک کے ہاتھوں 2000 لوگ شیعہ ہو گئے ہیں ۔ لہٰذا، اگرچہ اس ملک میں شیعوں کی آبادی کے صحیح اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، لیکن بہت زیادہ امید ہے کہ مکتب تشیع کے متعارف ہونے سے زیادہ لوگ اس کی طرف مائل ہوں گے۔ اس وقت بھی اثناعشری شیعوں اور زیدی شیعوں کے درمیان ایک خاص ہم آہنگی اور اتحاد ہے، کیونکہ ان دو گروہوں کو دو مشترکہ خطرات لاحق ہیں۔ پہلا خطرہ وہابیت سے ہے، جو انہیں خطرہ میں ڈالتا ہے، اور دوسرا عام خطرہ وہ خطرہ ہے جو ان پر عالمی استکبار سے ہے، جس کی قیادت امریکہ کر رہی ہے۔ یہ خطرہ ان دونوں گروہوں کے درمیان قربت کا باعث بنا ہے، تاکہ اثناعشری شیعہ اور زیدی شیعہ ایک دوسرے کی مساجد اور مجالس میں شرکت کریں۔ یہ ہم آہنگی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ مثال کے طور پر اثناعشری شیعوں سے تعلق رکھنے والا ایک اخبار زیدیوں کی حمایت کرتا ہے اور زیدی شیعوں سے تعلق رکھنے والا اخبار اثناعشری شیعوں کے بارے میں پیدا ہونے والے شبہات کا جواب دیتا ہے۔ اس وقت یمن میں یمن کے شیعوں کے لیے ایک سنگین خطرہ یہ ہے کہ اس ملک کی حکومت امریکہ پر منحصر حکومت ہے اور شیعوں کے مختلف گروہوں کے ساتھ ساتھ شیعوں اور شافعی سنیوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ اثناعشری شیعوں کو دوسرے مذاہب کے لیے خطرہ کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یمن کی حکومت شافعی علاقوں میں شافعی مخالف کتابیں تقسیم کرتی ہے اور دعوی کرتی ہے کہ یہ کتاب زیدی شیعوں نے لکھی ہے، اور زیدی علاقوں میں شافعی مخالف کتابیں تقسیم کرتی ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ شافعیوں نے یہ کتابیں لکھی ہیں۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ مسلمانوں نے اس منصوبے کو بھانپ لیا ہے اور اب تک ان کا منصوبہ ناکام بنا دیا گیا ہے۔ یمن میں مستقبل شیعوں کا ہو گا اور یہاں تک کہ یمن کے مشہور شیعہ مخالف جنونی مصنفین میں سے ایک نے پیشین گوئی کی ہے کہ اگر حالات شیعہ کی طرف مائل ہو گئے۔ اگر یمن میں اسی طرح جاری رہا تو 20 سالوں میں اس ملک میں بھی ایران جیسی صورتحال پیدا ہو جائے گی اور شیعہ اکثریت میں ہوں گے، وہ اپنی اشاعتوں میں اہل بیت (ع) کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ شیعہ ثقافت یمن میں زندہ ہے اور وہابیت اس کے خلاف لڑنے کی کوشش کرتی ہے۔ لہٰذا اس حساس صورتحال میں علماء اور حکام کو یمن کے شیعوں کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ وہاں رہنے والے شیعہ فکری طور پر سیر ہو سکیں، اس صورت میں مستقبل انہی شیعوں کا ہو گا، لیکن اگر انہیں تنہا چھوڑ دیا جائے تو اہل تشیع کا ہاتھ ہو گا۔ اگر اکیلے چھوڑ دیا جائے تو حالات الٹ جائیں گے اور ان کی موجودہ آبادی کم ہو جائے گی۔ ایران کے شیعوں، خاص طور پر اس کے حکام سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ شیعہ مذہب کو ان لوگوں تک متعارف کرانے کی کوشش کریں گے جن کی حقیقت تک رسائی نہیں ہے۔ بارہ امامی، اسماعیلی اور زیدی شیعوں کے لیے دلچسپی رکھنے والی کتاب شائع کرکے اس ثقافت کی مدد کرنا بھی ممکن ہے۔ ہمیں نہج البلاغہ جیسی کتابیں شائع کرکے اس مشترکہ ثقافت کی حفاظت کرنی چاہیے۔ وہابیت ان کتابوں کو تباہ کرنے یا یمن کے شیعوں میں اس کے فروغ کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے [32]۔
حوالہ جات
- ↑ ڈاکٹر گستاؤلی بان، تمدن عرب (مترجم: سید علی بلگرامی)، مطبوعہ: الفیصل ناشران وتاجران کتب، لاہور، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص11
- ↑ ڈاکٹر شوقی خلیل، اٹلس سیرت نبوی ﷺ، مطبوعہ: دار السلام، لاہور، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص31
- ↑ پیر محمد کرم شاہ الازہری، ضیاء النبی، ج-1، مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 1415ھ، ص: 246-248
- ↑ ابو الحسن علی بن عبداﷲ السمہودی، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ج- 4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1419ھ، ص: 49
- ↑ ول دیورانت، قصۃ الحضارۃ، ج-11، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1988م، ص116
- ↑ ابو عبداﷲ محمد بن سعد بصری، الطبقات الکبریٰ(مترجم: علامہ عبداللہ العمادی)، ج-1، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص54
- ↑ ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ الرسل والملوک، ج-1، دار التراث العربی، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص209
- ↑ ابو الفرج علی بن ابراہیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ھ، ص115
- ↑ ابو البقاء محمد بن موسی الدَّمِیری، النجم الوہاج فی شرح المنہاج، ج-3، مطبوعۃ: دار المنہاج، جدۃ، السعودیۃ، 2004م، ص 486
- ↑ لویس معلوف، المنجد، مطبوعہ: دار الاشاعت، کراچی، پاکستان، 1994ء، ص317
- ↑ ابو القاسم عبد الرحمن بن عبداﷲ السہیلی، الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج-1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000م، ص51
- ↑ ابو عبد اللہ یاقوت بن عبداﷲ الحموی، معجم البلدان، ج-5، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1995م، ص447
- ↑ احمد بن اسحاق ابن واضح الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی (مترجم: مولانا اختر فتح پوری)، ج-1، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان، (سن اشاعت اندارد)، ص289
- ↑ الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-6، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص 221
- ↑ السید محمود الشکری الآلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتاب المصری، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص205
- ↑ الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-6، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص221
- ↑ ابو عبد اللہ یاقوت بن عبداﷲ الحموی، معجم البلدان، ج-1، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1995م، ص: 167-
- ↑ سید سلیمان ندوی، تاریخ ارض القرآن، ج-1، مطبوعہ: معارف پریس دار المصنفین، اعظم گڑھ، ہند، 1916ء، ص95
- ↑ محمد بیومی مھران، دراسات فی تاریخ العرب القدیم، مطبوعۃ: دار المعرفۃ الجامعیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص209
- ↑ ابو الحسن علی بن سلطان القاری، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، ج-5، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 2002م، ص 1999
- ↑ عبد المالک مجاہد، سیرت انسائیکلو پیڈیا، ج-1، مطبوعہ: دار السلام، لاہور، پاکستان، 1433ھ، ص 165
- ↑ زکریا بن محمد القزوینی، آثار البلاد واخبار العباد، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص 37
- ↑ ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ الحاکم النیسابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج-2، حدیث: 4062، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص 615
- ↑ ابو بکر عبد الرزاق بن ھمام الصنعانی، مصنف عبد الرزاق، حدیث: 9118، ج-5، مطبوعۃ: المجلس العلمی، الھند، 1403ھ، ص 115
- ↑ سید محمود شکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب (مترجم: ڈاکٹر پیر محمد حسن)، ج-1، مطبوعہ: اردو سائنس بورڈ، لاہور، پاکستان، 2011ء، ص 450
- ↑ احمد بن یحییٰ البلاذری، فتوح البلدان، مطبوعۃ: مکتبۃ الھلال، بیروت، لبنان، 1988م، ص 74
- ↑ ابو عبد اللہ یاقوت بن عبداﷲ الحموی، معجم البلدان، ج-5، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1995م، ص: 266
- ↑ علامہ جاوید اورنگزیب، مفتی سید شاہ رفیع الدین ہمدانی، ڈاکٹر مفتی عمران خان، سیرۃ النبی ﷺ انسائکلوپیڈیا، جلد 5، مقالہ، عرب کا جغرافیہ، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان،2022ء، ص 90-218، muhammadencyclopedia.com
- ↑ ابو عبد اللہ یاقوت بن عبداﷲ الحموی، معجم البلدان، ج-5، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1995م، ص: 266
- ↑ پیر محمد کرم شاہ الازہری، تفسیر ضیاء القرآن، ج-4، مطبوعہ: ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 1399ھ، ص: 490
- ↑ عبد المالک مجاہد، سیرت انسائیکلو پیڈیا، ج-1، مطبوعہ: دار السلام، لاہور، پاکستان، 1433ھ، ص: 168
- ↑ استاد عصام العماد، شيعيان يمن: فرصتها و چالشها، isca.ac.ir