جمعیۃ علماء ہند بھارتی مسلمانوں کی ایک متحرک و فعال تنظیم ہے، جس میں دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھنے علماء عمومی طور پر زیادہ فعال ہیں۔ نومبر 1919ء میں اس کی بنیاد عبد الباری فرنگی محلی، ابو المحاسن محمد سجاد کفایت اللہ دہلوی، عبد القادر بدایونی، سلامت اللہ فرنگی محلی، انیس نگرامی، احمد سعید دہلوی، ابراہیم دربھنگوی، محمد اکرام خان کلکتوی، محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اور ثناء اللہ امرتسری سمیت علمائے کرام کی ایک جماعت نے رکھی تھی۔ جمعیۃ نے انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ مل کر تحریک خلافت میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ اس نے متحدہ قومیت کا موقف اختیار کرتے ہوئے تقسیم ہند کی مخالفت کی کہ مسلمان اور غیر مسلم ایک ہی قوم کی تشکیل کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اس تنظیم کا ایک مختصر حصہ جمعیۃ علماء اسلام کے نام سے علاحدہ ہو گیا، جس نے تحریک پاکستان کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا۔ جمعیۃ کے آئین کا مسودہ کفایت اللہ دہلوی نے تیار کیا تھا۔ 2021ء تک یہ بھارت کی متعدد ریاستوں میں پھیل چکی ہے اور اس نے ادارہ مباحث فقہیہ، جمعیۃ علما لیگل سیل، جمعیۃ نیشنل اوپن اسکول، جمعیۃ علماء ہند حلال ٹرسٹ اور جمعیۃ یوتھ کلب جیسے ادارے اور شعبےقائم کیے۔ سید ارشد مدنی اپنے بھائی سید اسعد مدنی کے بعد فروری 2006ء میں صدر منتخب کیے گئے، تاہم یہ تنظیم مارچ 2008ء میں حلقۂ ارشد اور حلقۂ محمود میں تقسیم ہوگئی۔ عثمان منصورپوری حلقۂ میم کے صدر بنائے گئے اور تا وفات یعنی مئی 2021ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ ان کے بعد محمود مدنی عبوری صدر، پھر مستقل صدر بنائے گئے۔ سید ارشد مدنی حلقۂ الف کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

جمعیۃ علماء ہند

آغاز اور ترقی

23 نومبر 1919ء کو تحریک خلافت کمیٹی نے دہلی میں اپنی پہلی کانفرنس منعقد کی، جس میں بھارت بھر سے مسلم علماء نے شرکت کی۔ [1] اس کے بعد ان میں سے پچیس مسلم علما کی ایک جماعت نے دہلی کے کرشنا تھیٹر ہال میں ایک الگ کانفرنس منعقد کی اور اس میں جمعیۃ علماء ہند کی تشکیل دی۔ ان علما میں عبدالباری فرنگی محلی، احمد سعید دہلوی، کفایت اللہ دہلوی، منیر الزماں خان، محمد اکرم خان، محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اور ثناء اللہ امرتسری شامل تھے. [2]

جمعیۃ علماء ہند کا پہلا عام اجلاس امرتسر میں ثناء اللہ امرتسری کی درخواست پر 28 دسمبر 1919ء کو منعقد ہوا، جس میں کفایت اللہ دہلوی نے جمعیت کے آئین کا مسودہ پیش کیا۔ ابو المحاسن محمد سجاد اور مظہر الدین کا نام بھی بانیوں میں آتا ہے۔ ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ جمعیۃ کی بنیاد محمود حسن دیوبندی اور حسین احمد مدنی سمیت ان کے دیگر ساتھیوں نے رکھی تھی، تاہم یہ درست نہیں ہے؛ کیوں کہ جس وقت تنظیم کی بنیاد رکھی گئی تھی یہ حضرات اس وقت مالٹا کی جیل میں قید تھے [3]۔

بنیاد

جب بنیاد رکھی گئی تو کفایت اللہ دہلوی کو عبوری صدر اور احمد سعید دہلوی کو عبوری ناظم عمومی بنایا گیا۔ جمعیۃ نے امرتسر میں منعقدہ اجلاسِ عام میں اپنی پہلی مجلس منتظمہ تشکیل دی تھی۔ جمعیۃ کا دوسرا اجلاسِ عام نومبر 1920ء کو دہلی میں منعقد ہوا تھا، جس میں محمود حسن دیوبندی کو صدر اور کفایت اللہ دہلوی کو نائب صدر منتخب کیا گیا تھا۔ چند دنوں کے بعد (30 نومبر کو) محمود حسن دیوبندی کا انتقال ہو گیا اور کفایت اللہ دہلوی بیک وقت نائب صدر اور عبوری صدر دونوں حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے؛ یہاں تک کہ 6 ستمبر 1921ء کو انھیں جمعیۃ کا مستقل صدر بنایا گیا۔ جس اجتماع میں جمعیۃ کی تاسیس عمل میں آئی تھی، وہاں محمود حسن دیوبندی موجود نہیں تھے؛ بلکہ اسیر مالٹا تھے اور اس وقت دار العلوم دیوبند کی کوئی دیگر شخصیت بھی جمعیۃ سے وابستہ نہ تھی۔ اب یہ علمائے دیوبند سے تعلق رکھنے والی ایک بڑی تنظیم سمجھی جاتی ہے [4]۔

نظم و نسق

جمعیۃ کے ابتدائی اصول اور آئین کفایت اللہ دہلوی نے لکھے تھے۔ جمعیۃ کے امرتسر میں منعقدہ اجلاسِ عام میں یہ طے پایا تھا کہ ان کو شائع کرکے علماء کی ایک جماعت کی آراء جمع کی جائے اور پھر اس پر اگلے اجلاس میں دوبارہ بحث کی جائے۔ محمود حسن دیوبندی کے زیر صدارت دہلی میں منعقد جمعیت کے دوسرے اجلاس میں اصول و قوانین کی توثیق کی گئی۔ وہاں یہ طے پایا کہ اس تنظیم کو "جمعیۃ علمائے ہند" کہا جائے گا، اس کا صدر دفتر دہلی میں ہوگا اور اس کی مہر پر "الجماعۃ المرکزیۃ لعلماء الھند" ("علمائے ہند کی مرکزی کونسل") لکھا ہوا ہوگا۔ اس کا مقصد کسی بھی بیرونی یا اجنبی خطرے سے دفاع اسلام کرنا؛ سیاست میں اسلامی اصولوں کے ذریعہ عام لوگوں کی رہنمائی کرنا اور ایک اسلامی عدالت: دار القضا قائم کرنا تھا [5]۔

پہلی ورکنگ کمیٹی 9 اور 10 فروری 1922ء کو دہلی میں تشکیل دی گئی۔ جوان نو افراد پر مشتمل تھی: عبد الحلیم صدیقی، عبد المجید قادری بدایونی، عبد القادر قصوری، احمد اللہ پانی پتی، حکیم اجمل خان، حسرت موہانی، کفایت اللہ دہلوی، مظہر الدین اور شبیر احمد عثمانی۔ مارچ 1922ء میں یہ تعداد بڑھا کر بارہ کردی گئی اور عبدالقدیر بدایونی، آزاد سبحانی اور ابراہیم سیالکوٹی کو ورکنگ کمیٹی ممبران میں شامل کیا گیا۔ مرتضی حسن چاند پوری اور نثار احمد کانپوری 15 جنوری 1925ء کو جمعیۃ کے نائب صدور منتخب کیے گئے۔

تحریک آزادی

8 ستمبر 1920ء کو جمعیۃ نے ایک مذہبی فتوٰی جاری کیا، جسے فتوائے ترکِ موالات کہا جاتا ہے، جس کے ذریعے برطانوی سامان کا بائیکاٹ کیا گیا۔ یہ فتوی ابو المحاسن محمد سجاد نے دیا تھا، جس پر 500 علما کے دستخط تھے۔ برطانوی راج کے دوران میں جمعیۃ نے بھارت میں برطانوی راج کی مخالفت کی اور ہندوستان چھوڑ دو تحریک میں حصہ لیا۔ 1919ء میں اپنے قیام کے بعد سے جمعیۃ کا مقصد انگریزوں سے آزاد - ہندوستان تھا۔ اس نے سول نافرمانی کی تحریک کے دوران میں "ادارہ حربیہ" کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دیا [6]

جمعیۃ کے علما کو بار بار گرفتار کیا گیا اور اس کے جنرل سیکرٹری احمد سعید دہلوی نے اپنی زندگی کے پندرہ سال جیل میں گزارے۔ جمعیۃ نے مسلم کمیونٹی سے وعدے حاصل کیے کہ وہ برطانوی کپڑے کے استعمال سے گریز کریں گے اور نمک مارچ میں حصہ لینے کے لیے تقریباً پندرہ ہزار رضاکاروں کا اندراج کیا۔ جمعیۃ کے شریک بانی کفایت اللہ دہلوی کو سول نافرمانی کی تحریک میں حصہ لینے پر 1930ء میں گجرات جیل میں چھ ماہ قید میں رکھا گیا تھا۔ 31 مارچ 1932ء کو وہ ایک لاکھ سے زائد لوگوں کے جلوس کی قیادت کرنے پر گرفتار ہوئے اور اٹھارہ ماہ تک ملتان جیل میں قید رہے۔ جمعیۃ کے جنرل سکریٹری محمد میاں دیوبندی کو پانچ مرتبہ گرفتار کیا گیا اور مسلم حکمرانوں بشمول برطانوی راج کے خلاف مسلم علماء کی جدوجہد پر بحث کرنے کے لیے ان کی کتاب "علمائے ہند کا شاندار ماضی" ضبط کی گئی۔ جمعیۃ کے ایک اور عالم حفظ الرحمن سیوہاروی برطانوی استعمار کے خلاف مہم چلانے پر کئی بار گرفتار ہوئے۔ انھوں نے آٹھ سال قید میں گزارے [7]۔

تقسیم ہند

دار العلوم دیوبند کے صدر المدرسین (1927ء - 1957ء) اور اس وقت کے معروف دیوبندی عالم حسین احمد مدنی نے کہا کہ مسلمان بلا شبہ ایک متحدہ ہندوستان کا حصہ ہیں اور ہندو مسلم اتحاد ملک کی آزادی کے لیے ضروری تھا۔ انھوں نے انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ مل کر کام کیا یہاں تک کہ تقسیم ہند ہو گئی۔ 1945ء میں جمعیۃ علماء ہند کے اندر ایک جماعت کھڑی ہوئی، جس نے تحریک پاکستان اور آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت کی۔ اس جماعت کی قیادت جمعیۃ کے ایک بانی رکن شبیر احمد عثمانی نے کی۔ جمعیۃ علماء ہند آل انڈیا آزاد مسلم کانفرنس کا رکن تھا، جس میں کئی اسلامی تنظیمیں شامل تھیں، جو متحدہ ہندوستان کے لیے کھڑی تھیں [8].

اشتیاق احمد بیان کرتے ہیں کہ ان کی حمایت کے بدلہ میں جمعیۃ علماء ہند نے بھارتی قیادت سے یہ عہد لیا کہ ریاست مسلم پرسنل لا میں مداخلت نہیں کرے گی۔ بھارت کے سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اس عہد سے اتفاق کیا، تاہم ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو پہلے ان قوانین میں اصلاح کرنی چاہیے۔ ان مراعات کے باوجود؛ تقسیم ہند کے دوران میں ملک میں فسادات پھوٹ پڑے اور کشت و خون کا بازار گرم ہوگیا، جس کے نتیجہ میں فسادات بپا ہوئے اور بے شمار مسلمان شہید کر دیے گئے۔ جمعیۃ علماء ہند نے مسلمانوں کی جان و مال کے تحفظ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ [9]

جمعیۃ علمائے ہند الف اور جمعیۃ علمائے ہند میم

مارچ 2008ء میں جمعیۃ کے سابق صدر اسعد مدنی کی وفات کے بعد؛ جمعیۃ علمائے ہند دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ تقسیم ارشد مدنی اور ان کے بھتیجے محمود مدنی کے درمیان میں نظریاتی اختلافات کی وجہ سے ہوئی، جب ارشد مدنی پر جمعیۃ مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا۔ ہندوستان ٹائمز کی ایک ہم رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ ارشد نے "اپنی ذاتی حکمرانی قائم کرنے کے لیے منتخب یونٹس کو تحلیل کر دیا ہے اور اس کے جمہوری ڈھانچہ کو ختم کر دیا ہے۔" چناں چہ 5 مارچ 2006ء کو ارشد مدنی کو متحدہ جمعیۃ کے صدر کے عہدے سے برخاست کر دیا گیا، جس کی وجہ سے ایک نئی ایگزیکٹو کمیٹی کی تشکیل؛ عمل میں آئی، جس کے حقیقی جمعیۃ ہونے کا دعوی کیا گیا. جمعیۃ کے بقیہ حصہ؛ محمود مدنی کی زیرِ قیادت آیا اور 5 اپریل 2008ء کو اس حصہ نے عثمان منصورپوری کو اپنا پہلا صدر مقرر کیا [10].ارشد گروپ کے پہلے ناظم عمومی عبد العلیم فاروقی تھے، جنھوں نے 1995ء سے 2001ء تک متحدہ جمعیۃ علمائے ہند کے دسویں ناظم عمومی کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

انسداد دہشت گردی کا فتوی

نومبر 2008ء میں 6000 علما نے حیدرآباد، دکن میں جمعیۃ علمائے ہند کی 29 ویں مجلس منتظمہ میٹنگ میں انسداد دہشت گردی کے فتوی کی توثیق کی۔مئی 2008ء میں یہ فتوٰی دار العلوم دیوبند نے جاری کیا اور اس کے صدر مفتی حبیب الرحمن خیرآبادی نے اس پر دستخط کیا۔ اجلاسِ عام میں محمود مدنی نے کہا کہ "یہ اس ایمان کا مظہر ہے کہ علمائے دین اس فتوٰی کی اہمیت اور وقتی ضرورت پر توجہ دے رہے ہیں۔ جب یہ مندوبین اپنے گھروں کو واپس جائیں گے تو وہ دستخط شدہ حیدرآباد اعلامیہ لیں گے، جو دار العلوم کے دہشت گردی کے خلاف موقف کی تائید کرتا ہے۔ اس میٹنگ میں روی شنکر اور سوامی اگنیویش نے شرکت کی تھی۔ اس فتوی میں کہا گیا تھا کہ اسلام ہر قسم کے بلاجواز تشدد، امن کی خلاف ورزی، خوں ریزی، قتل اور لوٹ مار کو مسترد کرتا ہے اور کسی بھی شکل میں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ اسلام کا بنیادی اصول ہے کہ آپ اچھے نیک مقاصد کے حصول میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور کسی کے ساتھ گناہ یا ظلم کے لیے تعاون نہیں کرتے۔ قرآن پاک میں دی گئی واضح ہدایات میں واضح ہے کہ اسلام جیسے مذہب کے خلاف دہشت گردی کا الزام جو عالمی امن کا حکم دیتا ہے، جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ درحقیقت اسلام ہر قسم کی دہشت گردی کا صفایا کرنے اور عالمی امن کے پیغام کو پھیلانے کے لیے پیدا ہوا ہے [11].

انتظامیہ

کفایت اللہ دہلوی جمعیۃ علمائے ہند کے پہلے صدر تھے اور سید حسین احمد مدنی 1940ء میں دوسرے صدر بنائے گئے تھے۔ سید اسعد مدنی نے فروری 2006ء تک پانچویں صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور 8 فروری 2006ء کو ان کے بھائی ارشد مدنی نے ان کی جگہ لی۔ جمعیۃ مارچ 2008ء میں ارشد گروپ اور محمود گروپ کی پہچان سے دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ محمود مدنی اپنے سابق صدر عثمان منصورپوری کی وفات کے بعد 27 مئی 2021ء کو محمود گروپ کے عبوری صدر؛ پھر 18 ستمبر 2021ء کو مستقل صدر بنائے گئے اور ارشد مدنی؛ ارشد گروپ کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں [12].

جمعیۃ علمائے ہند کا ایک جنرل سیکرٹری ہوتا ہے؛ پہلے احمد سعید دہلوی تھے اور متحدہ جمعیۃ کے آخری جنرل سیکرٹری محمود مدنی تھے، جو بعد میں اس کے محمود گروپ کے پہلے جنرل سیکرٹری بنائے گئے۔ محمود گروپ کے موجودہ جنرل سیکرٹری حکیم الدین قاسمی ہیں۔ دسمبر 2020ء میں معصوم ثاقب قاسمی کو ارشد گروپ کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا۔

1920ء کے دوران میں جمعیۃ علمائے ہند کے شریک بانی محمد صادق کراچوی نے کراچی میں جماعت کی ایک ریاستی یونٹ قائم کی اور زندگی بھر اس کے صدر رہے۔ جمعیۃ کی اب پورے ہندوستان میں ریاستی اکائیاں ہیں۔ ان میں جمعیۃ علمائے آسام، جمعیۃ علمائے بہار، جمعیۃ علمائے جھارکھنڈ، جمعیۃ علمائے کرناٹک، جمعیۃ علمائے مدھیہ پردیش، جمعیۃ علمائے مہاراشٹر، جمعیۃ علمائے راجستھان، جمعیۃ علمائے اترپردیش، جمعیۃ علمائے اتراکھنڈ، جمعیۃ علمائے تلنگانہ، جمعیۃ علمائے مغربی بنگال اور جمعیۃ علمائے اڈیشا بھی شامل ہیں۔ مشہور عالم اور آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے بانی بدر الدین اجمل جمعیۃ علمائے آسام کے ریاستی صدر ہیں۔

حوالہ جات

  1. میاں دیوبندی، محمد. علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے. 1. دیوبند: فیصل پبلیکیشنز. صفحہ 140.
  2. واصف دہلوی 1970، ص: 45
  3. واصف دہلوی 1970، ص: 69
  4. واصف دہلوی 1970، ص: 47-49
  5. واصف دہلوی 1970، ص: 56
  6. منصورپوری 2014، ص: 189
  7. ادروی 2016، ص: 81
  8. قاسمی، علی عثمان؛ روب، میگن ایٹن، ویکی نویس (2017). Muslims against the Muslim League: Critiques of the Idea of Pakistan (بزبان انگریزی). کیمبرج یونیورسٹی پریس. صفحہ 2
  9. اشتیاق احمد، The Pathology of Partition آرکائیو شدہ 14 جولا‎ئی 2021 بذریعہ وے بیک مشین دی فرائڈے ٹائمز (اخبار)، شائع کردہ: 6 نومبر 2015، بازیافت 22 اگست 2019
  10. Jamiat-Ulama-E-Hind splits" [تقسیم جمعیت علمائے ہند]. ہندوستان ٹائمز. 5 اپریل 2008. 14 جولائی 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 13 جولائی 2021
  11. Ulama endorse fatwa against terror" [علما؛ دہشت گردی کے خلاف فتوٰی کی تائید کرتے ہیں]. ٹائمز آف انڈیا. 8 نومبر 2008. اخذ شدہ بتاریخ 14 جولائی 2021
  12. Arshad Madani elected President of Jamiat Ulama-i-Hind" [ارشد مدنی جمعیت علمائے ہند کے صدر منتخب]. رہنما. 9 مارچ 2021. اخذ شدہ بتاریخ 23 جولائی 2021