سید علی فضل الله

سید علی فضل اللہ امام جماعت اور لبنان میں امام حسنین علیہ السلام کی مسجد کے مبلغ۔، اپنے مرحوم والد محمد حسین فضل اللہ کے اداروں کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے چیئرمین، مسلم سکالرز کی عالمی یونین کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن، لبنان میں مسلم علماء کی انجمن کی مرکزی کونسل کے رکن اور اسلامی شریعہ انسٹی ٹیوٹ میں فقہ، اصول، حدیث اور اخلاقیات کے استاد ہیں۔

سید علی فضل الله
سید علی فضل‌الله.jpg
ذاتی معلومات
پیدائش کی جگہلبنان
مذہباسلام، شیعہ
اثرات
  • كتاب الجهاد
  • أمناء الرسالة ومنارات الإنسانية
  • مدرسة البلاء في القرآن الكريم
مناصبامام جماعت اور خطیب

آبا و اجداد

سید علی فضل اللہ، محمد حسین کے بیٹے، جناب عبدالرؤف کے بیٹے، نجیب الدین کے بیٹے، سید محی الدین کے بیٹے، سید نصر اللہ کے بیٹے، محمد بن فضل اللہ کے بیٹے (جن سے۔ اہل بیت مشہور ہیں اور جن کی طرف منسوب ہیں)، محمد بن محمد بن یوسف بن بدر الدین بن علی بن جعفر بن یوسف بن محمد بن الحسن بن عیسیٰ بن فضیل بن یحییٰ بن حُوبین بن آل -حسن بن زیاب بن عبداللہ بن محمد بن یحییٰ۔ ابن محمد ابن داؤد ابن ادریس ابن داؤد ابن احمد ابن عبداللہ ابن موسیٰ ابن عبداللہ ابن الحسن المثانی ابن امام حسن ابن امام علی ابن ابی طالب کے شاگرد۔

باپ

محمد حسین فضل اللہ (2 نومبر، 1935 - 4 جولائی، 2010) جبل آمل کے مشہور مذہبی علماء میں سے ایک تھے۔ ایک لبنانی شیعہ مراجع میں سے ایک جو نجف شہر کے جنوب میں واقع شہر عیناتہ سے ہے، عراق میں پیدا ہوا اور لبنان میں فوت ہوگئے۔ جناب محمد حسین فضل اللہ 19 شعبان 1354ھ کو نجف عراق میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 9 سال کی عمر میں بہت کم عمری میں حوزہ میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا اور جب وہ 16 سال کی عمر کو پہنچے تو ان کا شمار شیعہ مراجع میں ہوتا تھا۔

سوانح عمری

سید علی فضل اللہ 1378 میں عراق کے مقدس شہر نجف اشرف میں پیدا ہوئے۔ آپ ایک اسلامی اسکالر اور مصنف، امام جماعت اور لبنان میں امام حسین علیہ السلام کی مسجد کے مبلغ ہیں۔

تعلیم

  • انہوں نے اپنے والد سے حوزوی تعلیم حاصل کی، جو شیعہ مراجع میں سے تھے۔
  • اسلامی شریعہ انسٹی ٹیوٹ میں فقہ، اصول، حدیث اور اخلاقیات کے استاد
  • فقہ اور دینی علوم کے استاد اور محقق۔
  • انہوں نے بیروت کی لبنانی یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی ہے۔۔

ذمہ داریاں

  • امام جماعت اور لبنان میں امام حسنین علیہ السلام کی مسجد کے مبلغ۔
  • اپنے مرحوم والد کے قائم کردہ اداروں کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے چیئرمین۔
  • مسلم سکالرز کی عالمی یونین کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن۔
  • لبنان میں مسلم علماء کی انجمن کی مرکزی کونسل کے رکن۔
  • اہل بیت کی عالمی اسمبلی کی کونسل کے رکن۔
  • Isesco تنظیم میں تقریب مذاہب اسلامی کے لیے مشاورتی کونسل کے رکن۔
  • عالمی کونسل برائے تقریب مذاہب اسلامی

علمی آثار

کتاب الجہاد (کتاب جہاد)

  • سلسلة مفاهيم إسلامية صدر منها 30 عنواناً وتحت الطبع 20 عنواناً (اسلامی مفاہیم اور افکار کا سلسلہ جس میں 30 عنوانات منظر عام پر آچکی ہیں اور 20 عنوانات منظر عام پر آنے والی ہیں)
  • أمناء الرسالة ومنارات الإنسانية(انسانیت کے پیغام اور روشنیوں کے امین)
  • مناسباتنا.. محطات وعي الزمن (ہمارے واقعات... وقت کی آگہی کے اسٹیشن)
  • مدرسة البلاء في القرآن الكريم( قرآن پاک میں بلا اور امتحان

میرے والد اور ایران کے اعلیٰ عہدے داروں کی محبت اور مسلسل رابطے

آیت اللہ فضل اللہ کے فرزند نے کہا: اسلامی جمہوریہ ہمیشہ علامہ فضل اللہ کے دل میں جگہ رکھتا تھا اور ان کی نگاہیں اسی پر جمی تھیں۔ سید علی فضل اللہ نے وحدت اسلامی کے حوالے سے علامہ فضل اللہ کی سرتوڑ دلچسپی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا: ایک ملاقات میں انہوں نے ایک عہدیدار سے کہا کہ اگر معاملہ اس مقام پر پہنچ گیا کہ ہر کوئی مجھ پر پتھر برسائے گا یا میری بے عزتی اور توہین کی جائے گی تو میں میں اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوں گا۔

کیونکہ ایران اسلام کا نمائندہ اور اہل بیت رسول اللہ کی صف اور عالمی استکبار کے خلاف جنگ کی صف اول ہے۔ علامہ فضل اللہ کی وصیت اسلام کی حفاظت، اہل بیت (ع) کی صف میں چلنا، اہل بیت کے فکری اور نظریاتی ورثے کی حفاظت اور انہیں دنیا میں متعارف کروانا تھی، لیکن انہوں نے ہمیشہ تحفظ کے مسئلے پر زور دیا۔ لبنان میں اسلامی مزاحمت علامہ فضل اللہ اور ایرانی حکام کے درمیان تنازعہ کے بارے میں کچھ نیوز چینلز جیسے کہ بی بی سی، العربیہ اور سی این این کی رپورٹ کے حوالے سے، میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ یہ الزامات کسی بھی طرح درست نہیں ہیں

کیونکہ علامہ فضل اللہ کو ایرانی حکام کے درمیان شدید اور گہری دلچسپی تھی۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور ان کے تعلقات ایران کے ساتھ معمول کے تعلقات نہیں تھے، لیکن ایران اور ایرانی حکام کے ساتھ ان کی دلچسپی اور رشتہ مضبوط اور جڑا تھا۔ کچھ عرصہ قبل میں نے آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کی تھی اور آپ نے علامہ فضل اللہ سے اپنے جذبات اور محبت کا اظہار کیا تھا اور میں نے ان کی توجہ ان کی طرف علامہ فضل اللہ کے جذبات اور محبت کو بھی دلائی تھی۔ دونوں فریقوں کے درمیان ہمیشہ رابطہ رہتا تھا اور اس میں کبھی خلل نہیں پڑتا تھا۔ ان میڈیا کے دعووں کے برعکس علامہ فضل اللہ کو اسلامی جمہوریہ ایران سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اگر فقہی مسائل میں بعض دیگر مراجع سے اختلاف ہو تو یہ فطری ہے، کیونکہ مختلف مراجع نے مختلف مقامات پر مختلف فتوے جاری کیے ہیں، اور فتاویٰ میں اختلاف بھی ظاہر ہے۔