حسن البنا کا شمار امت اسلامیہ کے اتحاد کے علمبردار اور اپنے دور کے سماجی اور اجتماعی مصلحین میں ہوتا ہے۔ آپ اسلامی تنظیم اخوان المسلمون کے بانی اور مصر میں 1928 میں اس کے پہلے مذہبی راہنا اور مبلغ تھے۔ انہیں 1949 میں مصری حکومت کے ایجنٹوں نے قتل کر دیا تھا۔ حسن البنا پہلے عرب رہنما ہیں جنہوں نے باضابطہ طور پر اسلامی حکومت کے قیام کے مسئلے پر توجہ دی ہے اور اس میدان میں اپنی کوششیں بروئے کار لائی۔ 20ویں صدی میں اسلامی فکر پر ان کے گہرے اثرات کی وجہ سے انہیں امام شہید کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اخوان المسلمین کا قیام

دہی علاقوں کی نسبت شہروں میں زیادہ اخلاقی انحطاط اور برائیاں ہوتی ہیں۔ شہر قاہر کی بھی یہی صورت حال تھی۔ البنا جب اپنے گاؤں سے شہر قاہرہ پہنچے تو اس شہر کے غیر اسلامی اور دینی رحجانات نے ان کو پریشان کیا۔ حسن البنا نے مشاہدہ کیا کہ مصر کو یورپ بنایا جا رہا ہے اور فرعوں کے دور کی طرف پلٹنے کی دعوت دی رہی ہے۔ آپ نے سوچا اگر علماء دین صرف امر بالمعروف اور نہی از منکر کرتے رہے لیکن ان برائیوں کی روک تھام کے لیے کوئی منظم تنظیم اور تحریک نہ ہو تو کوئی خاص نتیجہ نہیں دے گا۔آپ کی باتیں لوگوں کے دلوں پر گھر کر گئی،اس طرح چھ مزدور پیشہ با ہمت افراد کے ساتھ مارچ 1928 میں آپ نے مشرقی وسطی کا نقشہ بدل دینے والی تحریک اخوان المسلمون کی بنیاد ڈالی۔ان کی اس تنظیم کے خلاف بہت سے فتنے کھڑے ہوے لیکن صبر ،ضبطِ نفس اور اچھے کردار جیسے ہتھیاروں سے لیس حسن البنّا نے چومکھی لڑائی لڑی۔ 1933ء کو صدر دفتر اسماعیلیہ سے قاہرہ منتقل ہوا [1]۔

سوانح عمری

حسن البنّا نے اکتوبر 1906ء کو آنکھیں کھولی۔ ان کی جائے پیدائش وجائے پناہ محمودیہ ہے جو سرِدست مصر کے نام سے شہرت یافتہ ہے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم والدِ محترم کے زیرِ نگرانی ہوئی، پھر مدرسہ تحفیظ القران میں داخل ہوئے جہاں روشن مستقبل آپ کا منتظر تھا۔ ابتدائی لمحاتِ زندگی سے ہی آپ کے ذہانت کے آثار عیاں تھے اور شاید تابناک مستقبل کے گواہ بھی۔ کم سنی میں تخلیقِ ارض و سما اور طلوعِ آفتاب سے متعلق سوالات ،آپ کے منفرد ہونے کا ثبوت تھے۔ آپ ہمیشہ کہتے زندگی ایک نمایاں کتاب ہے جس کی تفسیرہے قرآن دائرہ تعلیم کو وسعت دینے کے اس درانیے میں آپ دیگر اطفال کے مشابہ کھیل کود کو ترجیح نہ دیتے بلکہ اپنا وقت اصلاحِ معاشرہ و فروغِ اخلاق کے کاموں میں گذارتے۔

اسکولی تعلیم کے بعد عشاء تک والد سے گھڑی سازی کا ہنر سیکھتے، عشاء سے لیکر سونے تک وہ اسکول کے اسباق ذہن نشین کرتے پھر بعد از فجر حفظِ قرن کا فعل انجام دیتے۔اسکول میں قائم جمیعتِ اخلاقِ ادبیہ کے صدر کی حیثیت سے بھی آپ نے فرائض انجام دئیے جو طلبہ کی اصلاح کے افعال انجام دیتی تھی۔ کم سنی میںہی کچھ ایسے واقعات وقوع پذیر ہوئے جن سے ان کی خدا ترسی ظاہر ہوتی ہے۔محلے کی مساجد میں نمازیوں کی تعداد متاثر ہوتی تھی یہ صورتِ حال دیکھ کرحسن البنّا قبلِ فجر اٹھتے اور محلے کے ہر گھر پر دستک دیتے اس طرح کم سن کی ان مشقتوں کو دیکھ کر لوگوں کا ضمیر جواب دے گیا اور مساجد میں نمازیوں کی تعداد خراماں خراماں بڑھنے لگی ۔حسن البنّا دینی و عصری علوم میں بخوبی دلچسپی رکھتے تھے ،ٹیچرزٹریننگ اسکول سے عصری تعلیم حاصل کرتے ہوئے آپ نے اپنے اسکول میں اول اور پورے مصر میں پانچواں مقام حاصل کیا۔

تبلیغ

آپ نے قاہرہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا، اس زمانے میں قاہرہ اپنی دینی و اسلامی شناخت کھوتا جارہا تھا گویا یہ ابتذال کی شروعات تھی اس طرح مغربی تہذیب کا سیلاب اخلاقی قدروں کے لیے موت کا پیغام بن کر آیا تھا۔ انہوں نے اپنی وسیع النظری سے اسے بھانپ لیا او ر سارے آسائش، برگ و ساز ترک کرتے ہوئے از برائے خدا ان اجل رسیدہ افراد کے حق میں کوششیں کرنے لگے۔احباب کے احتباس و انکار کے باوجود آپ نے مسجدوں کے بر عکس قہوہ خانوں کو وعظ کے لئے ترجیح دی،یہ تجربہ کامیاب ثابت ہوا۔اس طرح ابتذال کی طرف کوچ کررہے معاشرہ نے اپنا رخ تبدیل کر دیا [2]۔

ایک دفعہ جب حسن البنّا قہوہ خانے میں وعظ دے رہے تھے تو اپنی بات لوگوں کے ضمیر تک پہچانے کے لیے کوئلے جو انگاروں کی مانند شباب پر تھے لوگوں کی طرف پھینک دیے اور سامعین کی اضطرابی حالت کو دیکھتے ہوے کہا کہ جب ہم ان حقیر شعلوں کی گرماہٹ برداشت نہیں کرسکتے تو نار جہنم کے استبداد کا مقابلہ کس قدر کر سکیں گے۔

اجتماعی اور ثقافتی سرگرمیاں

حسن البنا نے صرف اصلاحی جماعت نہیں بنائی بلکہ بچوں کے تربیتی مراکز، مدارس اور تعلیم بالغان کے لیے اقدامات بھی کیے ،اقتصادی میدان میں مختلف کمپنیاں کھلوائی ،مساجد واسپتال قائم کیے، اسلام کے حرکی و کلی پیغام کے لیے آپ نے سات ہزار سے زائد مصری شہروں اور دیہاتوں کا سفر کیا۔جوں جوں اخوان المسلمون بجانبِ عروج بڑھتی گئی آپ کی قربانیاں بھی بڑھتی گئی،اسی تنظیم کی خاطر آپ نے ۱۹ سالہ استادگی کو بھی ترک کر دیا۔آپ کا سب سے بڑا بین لاقوامی اقدام جہادِ فلسطین میں شرکت کا فیصلہ تھا ۔1938ء کے جہادِ فلسطین میں مصر کے اخوانی مجاہدوں نے اسرائیل کے پیروں تلے زمین کھسکادی۔جہاں عظیم دستوں کے قدم لرزتے تھے وہاں اخوان تکبیر کے نعرے لگاتے ہوئے پہنچے اور کشتوں کے پشتے لگا دیے ۔

علمی آثار

آپ اربابِ قلم کی فہرست میں بھی شانہ بشانہ رہے ،پیشہ ورانہ و تحریکی مصروفیات کے با وجود آپ نے ایک بیش بہا تحریری ذخیرہ اپنے رسائل و مقائل کی شکل میں چھوڑا ہے۔جن میں مجاہد کی اذاں نامی رسالہ اردو ترجمہ کی صورت میں دستیاب ہے۔ قرآن آپ کی تحریروں کا خصوصی موضوع رہا ،اکثر آپ اپنے رسائل و جرائد میں قرآنی آیا ت کی تفسیر کرتے یہ تفسیری خزینے ضخیم جلدوں کی صورت میں موجود ہے۔آپ کا مشہور ترین قول ہے کہ ” وہ امت جو جینے کا عزم کر لے اسکے مٹنے کا کیا سوال۔۔۔! اس سے تو موت بھی دور بھاگتی ہے۔” جہادِ فلسطین میں اخوانی مجاہدین کے کارناموں نے حکومت کی نیند اڑادی ،آزمائشوں کی چکی حرکت میں آگئی اور اخوان تحتِ جبر چورچور ہوتے چلے گئے۔جیل کی سلاخیں ہو یا آزمائشِ تختہ دار اخوان اور ان کے اس عظیم قائد نے اپنے ایمان اور عزم کے نا قابلِ تسخیر ہونے کا ثبوتِ بہم دیا۔

شہادت

اسی اثنائے استبداد میں ۱۲فروری1939ء کو قاہرہ کی سب سے بڑی شاہراہ پر آپ کو دھوکے سے بلایا گیا،آپ کا جسم سات گولیوں کی تاب نا لا سکا اور آپ جامِ شہادت پی گئے۔اس موقع پر بھی آپ کے چہرے پر کسی قسم کے آثارِ حزن موجود نہ تھے گویا اک نمایاں ابتسام ظاہر تھی رب سے ملاقات کی۔۔۔۔۴۳ برس کی عمر میں آپ حیاتِ جاودانی پاگئے۔مطلق العنانیت کا یہ عالم تھا کہ ایک بوڑھے باپ کے علاوہ کسی کو آخری ملاقات کا شرف تک حاصل نہ ہوا۔

  1. انور الجندی، امام حسن البنا، ترجمہ، مصطفی اربابی، نشر احسان، 1389ش، ص71۔
  2. انور الجندی، امام حسن البنا، ترجمہ، مصطفی اربابی، نشر احسان، 1389ش، ص51۔