"حدیث کساء" کے نسخوں کے درمیان فرق
(←حدیث) |
|||
سطر 7: | سطر 7: | ||
صحیح مسلم یوں نقل ہوئی ہے: عائشہ کہتی ہیں: "ایک دن رسول خداؐ باہر آئے جبکہ ایک سیاہ اون سے بُنی ہوئی منقش عبا کندھوں پر ڈالے ہوئے تھے۔ سب سے پہلے حسن آئے اور آپؐ نے انہیں عبا میں جگہ دی اور پھر حسین آئے اور آپؐ نے انہیں بھی عبا میں جگہ دی؛ بعدازاں فاطمہ(س) آئیں اور عبا میں چلی گئیں اور آخر میں امام علی(ع) آئے اور آپؐ نے انہیں بھی اپنی عبا میں جگہ دی اور فرمایا: إنّما یُریدُ اللّهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُم الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُم تَطْهِیراً <ref>مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج15، ص190</ref> | صحیح مسلم یوں نقل ہوئی ہے: عائشہ کہتی ہیں: "ایک دن رسول خداؐ باہر آئے جبکہ ایک سیاہ اون سے بُنی ہوئی منقش عبا کندھوں پر ڈالے ہوئے تھے۔ سب سے پہلے حسن آئے اور آپؐ نے انہیں عبا میں جگہ دی اور پھر حسین آئے اور آپؐ نے انہیں بھی عبا میں جگہ دی؛ بعدازاں فاطمہ(س) آئیں اور عبا میں چلی گئیں اور آخر میں امام علی(ع) آئے اور آپؐ نے انہیں بھی اپنی عبا میں جگہ دی اور فرمایا: إنّما یُریدُ اللّهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُم الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُم تَطْهِیراً <ref>مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج15، ص190</ref> | ||
جابر بن عبد اللہ انصاری نے حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا سے روایت کی ہے کہ ایک دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لائے۔ وہ ایک بڑی یمنی چادر اوڑھ کر آرام فرمانے لگے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے روایت کی ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح نورانی تھا۔ تھوڑی دیر میں نواسہ رسول حضرت حسن بن علی گھر آئے تو انہوں نے اپنی والدہ سے کہا کہ مجھے اپنے نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ بعد میں انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سلام کیا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا اور انہیں اپنے ساتھ چادر اوڑھا دی۔ کچھ دیر بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوسرے نواسے حضرت حسین بن علی آئے۔ انہوں نے بھی نانا کی موجودگی محسوس کی سلام کیا اور چادر اوڑھ لی۔ کچھ دیر کے بعد حضرت علی ابن ابوطالب کرم اللہ وجہہ تشریف لائے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سلام کیا جنھوں نے انہیں اپنے ساتھ چادر اوڑھا دی۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ میں بھی اجازت لے کر چادر میں داخل ہو گئی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے چادر پکڑی اور دائیں ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اے خدا یہ ہیں میرے اہل بیت ہیں، یہ میرے خاص لوگ ہیں، ان کا گوشت میرا گوشت اور ان کا خون میرا خون ہے۔ جو انہیں ستائے وہ مجھے ستاتا ہے اور جو انہیں رنجیدہ کرے وہ مجھے رنجیدہ کرتا ہے۔ جو ان سے لڑے میں بھی ان سے لڑوں گا اور جو ان سے صلح کرے میں ان سے صلح کروں گا۔ میں ان کے دشمن کا دشمن اور ان کے دوست کا دوست ہوں کیونکہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔ پس اے خدا تو اپنی عنائتیں اور اپنی برکتیں اور اپنی رحمتیں اور اپنی بخشش اور اپنی خوشنودی میرے لیے اور ان کے لیے قرار دے۔ ان سے رجس کو دور رکھ اور ان کو پاک کر بہت ہی پاک | جابر بن عبد اللہ انصاری نے حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا سے روایت کی ہے کہ ایک دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لائے۔ وہ ایک بڑی یمنی چادر اوڑھ کر آرام فرمانے لگے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے روایت کی ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح نورانی تھا۔ تھوڑی دیر میں نواسہ رسول حضرت حسن بن علی گھر آئے تو انہوں نے اپنی والدہ سے کہا کہ مجھے اپنے نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ بعد میں انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سلام کیا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا اور انہیں اپنے ساتھ چادر اوڑھا دی۔ کچھ دیر بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوسرے نواسے حضرت حسین بن علی آئے۔ انہوں نے بھی نانا کی موجودگی محسوس کی سلام کیا اور چادر اوڑھ لی۔ کچھ دیر کے بعد حضرت علی ابن ابوطالب کرم اللہ وجہہ تشریف لائے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سلام کیا جنھوں نے انہیں اپنے ساتھ چادر اوڑھا دی۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ میں بھی اجازت لے کر چادر میں داخل ہو گئی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے چادر پکڑی اور دائیں ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اے خدا یہ ہیں میرے اہل بیت ہیں، یہ میرے خاص لوگ ہیں، ان کا گوشت میرا گوشت اور ان کا خون میرا خون ہے۔ جو انہیں ستائے وہ مجھے ستاتا ہے اور جو انہیں رنجیدہ کرے وہ مجھے رنجیدہ کرتا ہے۔ جو ان سے لڑے میں بھی ان سے لڑوں گا اور جو ان سے صلح کرے میں ان سے صلح کروں گا۔ میں ان کے دشمن کا دشمن اور ان کے دوست کا دوست ہوں کیونکہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔ پس اے خدا تو اپنی عنائتیں اور اپنی برکتیں اور اپنی رحمتیں اور اپنی بخشش اور اپنی خوشنودی میرے لیے اور ان کے لیے قرار دے۔ ان سے رجس کو دور رکھ اور ان کو پاک کر بہت ہی پاک <ref>حدیث 5595 صحیح مسلم</ref>.<ref>مسند احمد بن حنبل۔ حافظ ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل شیبانی۔ جلد اول صفحہ 331 مطبوعہ مصر</ref>. <ref>الخصائص (نسائی) صفحہ 4۔ علامہ ابو عبد الرحمان احمد ابن شعیبون نسائی</ref>. <ref>تفسیر طبری جلد 22 صفحہ 5۔ مطبوعہ مصر۔ حافظ محمد ابن جریر طبری</ref> | ||
== حوالہ جات == | == حوالہ جات == | ||
{{حوالہ جات}} | {{حوالہ جات}} | ||
[[زمرہ:اسلامی تصورات]] | [[زمرہ:اسلامی تصورات]] |
نسخہ بمطابق 08:52، 18 جولائی 2023ء
حدیث کساء (حديث الكساء) حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک مشہور حدیث ہے جس کی مستند روایات بے شمار کتابوں میں موجود ہیں۔ یہ حدیث حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے روایت کی ہے اور بے شمار لوگوں نے اسے مزید روایت کیا ہے جن میں جابر بن عبد اللہ انصاری نمایاں ہیں۔ یہ حدیث صحیح مسلم، صحیح ترمذی، مسند احمد بن حنبل، تفسیر طبری، طبرانی، خصائص نسائی اور دیگر کتابوں میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ اسے ابن حبان، حافظ ابن حجر عسقلانی اور ابن تیمیہ وغیرہ نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔ یہ حدیث قرآن کی ایک آیت کی وجہ نزول بھی بتاتی ہے جسے آیہ تطہیر کہتے ہیں۔ تمام حوالوں کی فہرست نیچے درج کی جائے گی۔ پیغمبر خدا، علی، فاطمہ، حسن و حسین علیہم السلام کی فضیلت میں وارد ہونے والی حدیث کو کہا جاتا ہے۔ یہ واقعہ زوجۂ رسول ام المؤمنین ام سلمہ کے گھر میں رونما ہوا۔ آیت تطہیر کے نزول کے وقت رسول اللہؐ اونی چادر اوڑھے ہوئے تھے اور حضرت امام علی ،حضرت فاطمہ ، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام بھی اس چادر تلے موجود تھے ۔ اس چادر کو "کساء" کہا جاتا تھا۔ ائمۂ شیعہ نے بارہا اپنی فضیلت اور امت مسلمہ پر ان کے حق خلافت کے اثبات کے لئے اس حدیث کا حوالہ دیا ہے۔
واقعۂ کساء
علامہ حلی کہتے ہیں: آیت تطہیر کا ام سلمہ کے گھر میں نزول، ایسے مسائل میں سے ہے جس پر امت اسلام کا اجماع ہے اور یہ حدیث تواتر کے ساتھ ائمہ اطہار(ع) اور متعدد صحابہ سے نقل ہوئی ہے [1].
ابن حجر کہتے ہیں: یہ آیت (آیت تطہیر) ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے [2]
حدیث
صحیح مسلم یوں نقل ہوئی ہے: عائشہ کہتی ہیں: "ایک دن رسول خداؐ باہر آئے جبکہ ایک سیاہ اون سے بُنی ہوئی منقش عبا کندھوں پر ڈالے ہوئے تھے۔ سب سے پہلے حسن آئے اور آپؐ نے انہیں عبا میں جگہ دی اور پھر حسین آئے اور آپؐ نے انہیں بھی عبا میں جگہ دی؛ بعدازاں فاطمہ(س) آئیں اور عبا میں چلی گئیں اور آخر میں امام علی(ع) آئے اور آپؐ نے انہیں بھی اپنی عبا میں جگہ دی اور فرمایا: إنّما یُریدُ اللّهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُم الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُم تَطْهِیراً [3]
جابر بن عبد اللہ انصاری نے حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا سے روایت کی ہے کہ ایک دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لائے۔ وہ ایک بڑی یمنی چادر اوڑھ کر آرام فرمانے لگے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے روایت کی ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح نورانی تھا۔ تھوڑی دیر میں نواسہ رسول حضرت حسن بن علی گھر آئے تو انہوں نے اپنی والدہ سے کہا کہ مجھے اپنے نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ بعد میں انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سلام کیا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا اور انہیں اپنے ساتھ چادر اوڑھا دی۔ کچھ دیر بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوسرے نواسے حضرت حسین بن علی آئے۔ انہوں نے بھی نانا کی موجودگی محسوس کی سلام کیا اور چادر اوڑھ لی۔ کچھ دیر کے بعد حضرت علی ابن ابوطالب کرم اللہ وجہہ تشریف لائے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سلام کیا جنھوں نے انہیں اپنے ساتھ چادر اوڑھا دی۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ میں بھی اجازت لے کر چادر میں داخل ہو گئی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے چادر پکڑی اور دائیں ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اے خدا یہ ہیں میرے اہل بیت ہیں، یہ میرے خاص لوگ ہیں، ان کا گوشت میرا گوشت اور ان کا خون میرا خون ہے۔ جو انہیں ستائے وہ مجھے ستاتا ہے اور جو انہیں رنجیدہ کرے وہ مجھے رنجیدہ کرتا ہے۔ جو ان سے لڑے میں بھی ان سے لڑوں گا اور جو ان سے صلح کرے میں ان سے صلح کروں گا۔ میں ان کے دشمن کا دشمن اور ان کے دوست کا دوست ہوں کیونکہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔ پس اے خدا تو اپنی عنائتیں اور اپنی برکتیں اور اپنی رحمتیں اور اپنی بخشش اور اپنی خوشنودی میرے لیے اور ان کے لیے قرار دے۔ ان سے رجس کو دور رکھ اور ان کو پاک کر بہت ہی پاک [4].[5]. [6]. [7]
حوالہ جات
- ↑ علامہ حلی، نہج الحق وکشف الصدق، ص 174
- ↑ ابن حجر، صواعق المحرقہ، ص 144
- ↑ مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج15، ص190
- ↑ حدیث 5595 صحیح مسلم
- ↑ مسند احمد بن حنبل۔ حافظ ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل شیبانی۔ جلد اول صفحہ 331 مطبوعہ مصر
- ↑ الخصائص (نسائی) صفحہ 4۔ علامہ ابو عبد الرحمان احمد ابن شعیبون نسائی
- ↑ تفسیر طبری جلد 22 صفحہ 5۔ مطبوعہ مصر۔ حافظ محمد ابن جریر طبری