شام پر حملہ 2004ء
شام پر حملہ 2004ء | |
---|---|
واقعہ کی معلومات | |
واقعہ کا نام | شام پر حملہ 2024 |
واقعہ کی تاریخ | 2024ء |
واقعہ کا دن | 29 نومبر |
واقعہ کا مقام |
|
عوامل | اسرائیل امریکہ اور تحریر الشام |
نتائج |
|
شام پر حملہ 2024 سے مراد وہ جھڑپیں ہیں جو 29 نومبر 2024ء کو ابو محمد جولانی کی قیادت میں تحریرالشام بورڈ کے حلب شہر میں داخل ہونے کے بعد شروع ہوئی تھیں جو شامی عرب فوج کے زیر کنٹرول تھا۔ یہ لڑائی تکفیری دہشت گرد باغیوں کے زبردست حملے کے تیسرے دن شروع ہوئی۔ 2016ء میں ختم ہونے والی پچھلی طویل لڑائی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ شہر میں لڑائی شروع ہوئی ہے۔
پس منظر
مارچ 2020ء میں ادلب میں جنگ بندی کے معاہدے کے بعد سے، شمال مغربی شام میں حزب اختلاف اور حکومت کی حامی فورسز کے درمیان بڑے پیمانے پر کارروائیاں رک گئی تھی۔ 2022 ء کے اواخر سے تحریر الشام کی فورسز نے سرکاری فورسز کے خلاف دراندازی اور سنائپر حملوں کا سلسلہ شروع کیا جس کی وجہ سے یہ حملہ ہوا۔ حلب 2016ء میں حلب پر حملے کے بعد سے بشار الاسد کی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔
اکتوبر 2024ء میں، حلب کے مضافات میں شامی ادارتی بورڈ اور حکومتی افواج کی طرف سے ایک بڑی نقل و حرکت شروع کی گئی۔ شامی باغیوں نے اطلاع دی ہے کہ وہ کئی مہینوں سے حلب شہر میں سرکاری افواج کے خلاف بڑے پیمانے پر حملے کی تیاری کر رہے تھے۔ 26 نومبر 2024ء کو حکومتی فورسز کے توپ خانے نے اپوزیشن کے زیر کنٹرول شہر حلب کو نشانہ بنایا جس کے دوران 16 شہری ہلاک اور زخمی ہوئے۔
زمان اور مکان
2 نومبر 2024ء کو الشام کے ادارتی بورڈ نے اعلان کیا کہ اس نے صوبہ حلب کے مغرب میں حکومت کی حامی افواج کے خلاف جارحیت کو روکنے کے نام پر ایک حملہ شروع کیا ہے۔ شامی اپوزیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملہ ادلب کے خلاف بشار الاسد کی حکومت کی حالیہ مزاحمت کے جواب میں کیا گیا، جو دہشت گرد باغیوں کے کنٹرول میں ہے اور اس کے نتیجے میں کم از کم 30 شہری مارے گئے ہیں۔
حملے کے ابتدائی اوقات میں، شام کے ادارتی بورڈ نے 20 شہروں اور دیہاتوں کے بشمول آورم الکبری، انجاره، آورم الصغری، شیخ عقیل، باره، عجیل، آویجیل، الحوطہ، تل الدبعہ، حیر درکل، قُبطان الجبل، السلوم، القاسمیہ، کفرباسین، حور، عناز و بصراطون پر قبضہ کر لیا، جو حکومت کی حامی افواج کے ہاتھ میں تھے۔ اس کے علاوہ سرکاری فوج کی 46ویں رجمنٹ کے اڈے کو شامی ادارتی بورڈ نے گھیرے میں لے لیا اور چند گھنٹوں بعد اس پر قبضہ کر لیا گیا۔
ہلاکتوں کی تعداد کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے۔ اس کے جواب میں شامی اور روسی افواج نے باغی گروپوں کے زیر کنٹرول علاقوں پر فضائی حملے شروع کر دیئے۔ جہاں حکومتی فورسز نے باغیوں کے زیرکنٹرول صوبہ ادلب کے جنوب میں ادلب، اریحا، سرمدا اور دیگر علاقوں پر بمباری کی، وہیں روسی جنگجوؤں نے اتارب، دارة عزة اور آس پاس کے دیہاتوں پر فضائی حملے بھی کیے۔
28 نومبر 2024ء کو تحریر الشام نے ادلب کے مشرقی مضافات پر حملہ کیا اور دادیخ، کفر بطیخ و شیخ علی کے دیہاتوں کے ساتھ ساتھ سراقب شہر کے ایک محلے پر بھی قبضہ کر لیا۔ یہ پیش قدمی انہیں M5 ہائی وے کے 2 کلومیٹر تک لے آئی جسے 2020ء میں حکومت کی حامی قوتوں نے ایک اسٹریٹجک راستے کے طور پر محفوظ کیا تھا۔ شام کے ادارتی بورڈ نے مشرقی حلب کے النیرب ہوائی اڈے پر بھی حملہ کیا۔
دن کے دوسرے نصف حصے میں تحریر الشام نے حلب کے مغربی مضافات میں کفرباسین، ارناز اور الغرباء کے دیہات پر قبضہ کر لیا اور M5 ہائی وے کو کاٹ دیا۔ دن کے اختتام تک شامی باغیوں نے کل 40 شہروں اور دیہاتوں پر قبضہ کر لیا۔ روسی فضائی حملے میں حلب کے مغربی مضافات میں واقع عطراب میں 15 شہری مارے گئے۔ درہ عزہ میں ایک فضائی حملے میں چار دیگر بھی مارے گئے۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے بریگیڈیئر جنرل کیومرث پورہاشمی جو شام میں اعلیٰ فوجی مشیر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے، حلب میں تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔
29 نومبر 2024 کو تحریر الشام نے حلب کے مضافات میں ادلب اور المنصورہ ، جب کاس و البوابیہ کے مضافات میں تل کراتبن، ابو قنسہ اور الطلیہ کے دیہات پر قبضہ کر لیا۔ سراقب شہر کے اطراف میں شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ حلب شہر کے الحمدانیہ محلے میں تحریر الشام کی گولہ باری سے 4 شہری جاں بحق اور 2 زخمی ہوگئے۔
شام کی بگڑتی صورت حال
مشرق وسطیٰ میں اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف جنگ جاری رکھی ہوئی ہے، اس نے جنگ کا دائرہ جنوبی لبنان اور شام تک پھیلا دیا ہے اور اسرائیلی فورسز روزانہ کی بنیاد پر ان علاقوں میں کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسی دوران شام میں جاری خانہ جنگی نے نئی شکل اختیار کر لی ہے۔ لڑائی شدت اختیارکر گئی، باغی فوجیں شام کے کئی شہروں پر قابض ہو چکی ہیں جن میں شام کا دوسرا سب سے بڑا شہر ادلب بھی شامل ہے۔ یوں شام میں صدر بشارالاسد کا اقتدار خطرے میں پڑ گیا ہے، صدر بشار الاسد کی حمایت یافتہ فوج کا الرقہ اور دیر الزور سے بھی انخلاء شروع ہو گیا ہے۔
شام کے باغی فوجیوں کی مسلسل پیش قدمی جاری ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق باغیوں کی جانب سے ایک ہفتے کے دوران پانچویں شہر درعا پر بھی قبضے کا دعویٰ سامنے آ گیا ہے۔ امریکی ذرایع ابلاغ کے مطابق ایران کی قدس فورس کے افسران نے علاقے سے انخلاء شروع کر دیا ہے جب کہ روسی افواج نے بھی طرطوس پورٹ سے انخلاء شروع کر دیا ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ حالات خاصے خراب ہیں۔
شام کی سرکاری فوجیں مسلسل پسپائی اختیار کر رہی ہیں۔ میڈیا کی رپورٹس کے مطابق شام کے باغی شام کے شمالی شہر حلب اور حما پر قبضہ کر چکے ہیں جب کہ السویدا شہر میں بھی باغی فوجی داخل ہو گئے ہیں۔ حالات کا جائزہ یہی بتاتا ہے کہ بشار الاسد انتہائی کمزور پوزیشن پر چلے گئے ہیں اور ان کے پاس صرف دمش کا کنٹرول باقی رہ گیا ہے۔ ترک صدر طیب اردوان نے بھی کہا ہے کہ شام کے مسلح گروپوں کا ہدف دمشق ہے۔ رجب طیب اردوان نے شامی ہم منصب صدر بشارالاسد کو ملاقات کی دعوت دی مگر مثبت جواب نہیں ملا۔ شامی صدر نے ملاقات سے پہلے شمال میں ترک فوج کے زیرکنٹرول علاقے سے انخلاء کی ضمانت طلب کی۔
شام کی تنظیم ’’ھیئہ تحریر الشام‘‘ اور اس کے اتحادی مسلح دھڑوں نے حالات سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ اسرائیل کی شام کے خلاف کارروائیوں کی وجہ سے بھی بشار الاسد حکومت کی رٹ کو نقصان پہنچا ہے جب کہ امریکا میں بائیڈن حکومت کا بھی چل چلاؤ ہے جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی تک حلف نہیں اٹھایا۔ ان حالات کا فائدہ شام کے باغی گروپوں کو پہنچا ہے اور انھوں نے اس درمیانی عرصے میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جنگ شروع کر دی ہے جس میں انھیں کسی حد تک کامیابی ملتی نظر آ رہی ہے۔
بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہے
’’ھیئہ تحریر الشام‘‘ کے سربراہ ابو محمد الجولانی ( احمد الشرع) نے سی این این کو انٹرویو میں کہا کہ ان کی جدوجہد کا مقصد ملک سے بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہے۔ اپنے اس ہدف کے حصول کے لیے ہم ہر طریقے، ذرایع اور دستیاب وسائل کو اپنائیں گے۔ بشار الاسد کی گرتی ہوئی حکومت کو ایران اور روس نے سہارا دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی موت واقع ہوچکی ہے۔ حکومت گرنے کے بعد غیرملکی فوجیوں کی شام میں موجودگی کا جواز نہیں رہے گا۔
شام کئی برس سے عدم استحکام کا شکار چلا آرہا ہے۔ اس ملک میں کئی گروہ برسرپیکار ہیں اور موجودہ حالات میں سب گروپ حکومت کے خلاف صف آراء ہیں۔ شامی کردوں کا گروپ الگ ہے جب کہ داعش کے لوگ بھی لڑائی میں حصہ لے رہے ہیں جب کہ موجودہ لڑائی کو تحریر الشام نامی تنظیم لیڈ کر رہی ہے۔ موجودہ بحران کس کروٹ بیٹھتا ہے اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن قرائن یہی نظر آتے ہیں کہ بشار الاسد کا اقتدار ڈانواں ڈول ہے۔ ایران اور روس کی امداد بھی ناکافی ہو رہی ہے۔ اسرائیل نے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف جو کارروائیاں کی ہیں، اس کی وجہ سے حزب اللہ کی فوجی طاقت میں بھی کمی آئی ہے۔
شام میں سرکاری فوجوں کی سب سے بڑی مددگار حزب اللہ ہی تھی۔ جیسے ہی حزب اللہ کی فوجی طاقت میں کمزوری آئی ہے، اس خلاء کو تحریر الشام اور اس کے اتحادی مسلح گروپوں نے پر کر دیا ہے۔ ادھر اسرائیلی فوج نے غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھا ہوا ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز بھی اسرائیلی فورسز نے شمالی غزہ میں ایک اسپتال پر بمباری کی ہے۔
مشرقی وسطیٰ میں جو تباہی
حماس نے اعلان کیا ہے کہ حماس اور فتح کے وفود نے قاہرہ میں اپنی مشاورت ختم کر دی ہے۔ اگر حماس اور فتح کسی نکتے پر متفق ہو گئے ہیں تو یہ اچھی بات ہے کیونکہ اس سے غزہ میں جنگ بندی ہو سکتی ہے جس سے اس علاقے میں قیام امن کی کوئی راہ نکل آئے گی۔ اس خطے میں سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر چونکہ فلسطینی ہیں، جب کہ حماس اور الفتح بھی فلسطینیوں کی تنظیمیں ہیں، اگر یہ کسی نکتے پر متفق ہوتی ہیں تو معاملات آگے بڑھنے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔
یرغمالیوں کا مسئلہ انتہائی حساس ہو چکا ہے۔ امریکا کے نومنتخب صدر بھی اس حوالے سے بیان دے چکے ہیں لیکن اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بدستور ہٹ دھرمی پر قائم ہیں البتہ یہ امر خوش آیند ہے کہ فلسطینیوں کی تنظیمیں غزہ میں مل کر کام کرنے پر آمادہ ہو رہی ہیں۔ یمن کی مزاحمتی تحریک ’’ انصار اللہ‘‘ کے رہ نما عبدالمالک الحوثی نے کہا اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی کے لوگوں کے خلاف نئے امریکی ہتھیاروں کا استعمال شروع کر دیا ہے۔
امریکا کے صدر جوبائیڈن نے اسرائیل کی کھل کر حمایت کی ہے۔ ان کے اقتدار میں یوکرائن اور روس کے درمیان جنگ شروع ہوئی جب کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف غزہ میں کارروائی کا آغاز کیا۔ اب صدر بائیڈن کا اقتدار چن دنوں کا مہمان ہے لیکن اس دوران مشرقی وسطیٰ میں جو تباہی ہوئی، اس کا سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا۔ اس تباہی کا اگلامرحلہ شام میں شروع ہو گیا ہے۔
شام کی باغی فوجوں کے سامنے صرف دمشق پر قبضہ کرنا رہ گیا ہے، اگر وہ دمشق پر قبضہ کر لیتے ہیں تو بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ صدربائیڈن کے دور کی یہ یادگار جنگیں تاریخ کا حصہ رہیں گی۔ غور کیا جائے تو پچھلے دس پندرہ برسوں میں مشرق وسطیٰ مسلسل جنگ وجدل کا شکار چلا آ رہا ہے۔
ایران اور امریکا کی چپقلش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ عراق میں جو کچھ ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اس خطے کا یہ سب سے ترقی یافتہ ملک اب غریب اور پسماندہ ملکوں میں شامل ہوتا ہے۔ اسی طرح شام بھی مشرق وسطیٰ کا ایک اوسط آمدنی کا پرسکون اور مستحکم ملک ہوا کرتا تھا لیکن اسرائیلی کارروائیوں، امریکا کی ترجیحات اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں کی اشرافیہ کے باہمی اختلافات کے نتیجے میں یہ ملک بھی تباہی وبربادی کا منظر پیش کر رہا ہے۔
اس ملک کے لاکھوں لوگ دربدر ہو چکے ہیں جب کہ تباہی وبربادی کا یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں ہے۔ اسی طرح یمن میں بھی تاحال لڑائی جاری ہے۔ یمن میں بھی کوئی مستحکم حکومت نہیں ہے۔ اس ملک پر بھی امریکا، برطانیہ اور نیٹو کی فورسز گاہے بگاہے فضائی کارروائی کرتی رہتی ہیں۔ آنے والے دنوں میںنومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے کیا پالیسی اختیار کرتی ہے، اس کا پتہ بھی چل جائے گا[1]۔
شامی باغی فورسز نےمرکزی شہر حمص کاکنٹرول
واضح رہے کہ گزشتہ رات شامی باغی فورسز نےمرکزی شہر حمص کاکنٹرول سنبھال لیا تھا، حمص شام کا تیسرابڑا شہراور دمشق اورشام کے ساحلی صوبوں کے درمیان اہم علاقہ ہے۔ عوام باغیوں کی من گھڑت افواہوں پر کان نہ دھرے، شامی آرمی چیف۔
عرب میڈیا کے مطابق شامی آرمی چیف جنرل عبدالکریم محمد ابراہیم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ شامی عوام باغیوں کی من گھڑت افواہوں پر کان نہ دھرے، شامی فوج بغاوت پرقابو پانےکے لیےکوششیں جاری رکھے ہوئے ہے، فوج نے باغیوں پر شدید حملے کرکے بڑی تعداد میں دہشت گردوں کا صفایا کیا۔ جنرل عبدالکریم محمدابراہیم نے کہا کہ باغیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے دیہی علاقوں میں فوج کے دستے موجود ہیں، عوام کے تعاون سے جلد بغاوت پر قابو پا لیا جائے گا[2]۔
دمشق پر دہشت گردوں کا قبضہ، صہیونی ٹینک شامی سرحدوں میں داخل
ذرائع ابلاغ کے مطابق صیہونی فوج کے ٹینک مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں میں سرحد عبور کرکے شام میں داخل ہوگئے ہیں۔ مہر خبررساں ایجنسی المنار کے حوالے سے کہا ہے کہ صیہونی فوج نے جنوبی شام پر زمینی حملے کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔ صیہونی حکومت کے ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی ہے کہ صبح سویرے حکومت کے فوجی ٹینکوں نے گولان کی پہاڑیوں میں سرحدی باڑ عبور کی ہے۔
شام کی سرزمین پر صیہونی حکومت کی یہ جارحیت شام کے داخلی بحران اور دمشق میں دہشت گردوں کے داخلے کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔ ذرائع کے مطابق شام میں تکفیری دہشت گردوں اور کردوں کو امریکہ اور اسرائیل کی حمایت حاصل ہے۔سوشل میڈیا میں شامی دہشت گردوں کی جانب سے صہیونی حکومت کو شام میں داخل ہونے کی ویڈیوز وائرل ہورہی ہیں[3]۔
ریڈیو اور ٹیلی ویژن اور جیل کا کنٹرول
مسلح گروپوں سے وابستہ میڈیا کا کہنا تھا کہ وہ شامی ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی عمارت میں داخل ہوئے اور میڈیا کا کنٹرول سنبھال لیا۔ العربی الجدید نیوز سائٹ نے دمشق کی سب سے بڑی جیل شام میں مسلح حزب اختلاف نے 27 نومبر 2024 کی صبح 7 آزار 1403 کی صبح سے حلب کے شمال مغربی، مغربی اور جنوب مغربی علاقوں میں شامی فوج کے ٹھکانوں پر کچھ ممالک کی حمایت اور تازہ غیر ملکیوں کی آمد کے ساتھ زبردست حملہ کیا۔
افواج اس سلسلے میں شام کے وزیر دفاع جنرل عماد عباس نے جمعرات کی شب کہا کہ تکفیری گروہوں کو بعض ممالک اور علاقائی اور بین الاقوامی فریقوں کی حمایت حاصل ہے، جو کھل کر ان کی عسکری اور لاجسٹک حمایت کرتے ہیں۔ شامی فوج کی پوزیشنوں کے خلاف دہشت گردوں اور مسلح حزب اختلاف کی نقل و حرکت نے 2020 میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے کیونکہ یہ علاقہ آستانہ میں ترکی کی ضمانت سے طے پانے والے ڈی اسکیلیشن معاہدے میں شامل ہے جس میں ادلب کے مضافات کے علاقے بھی شامل ہیں۔ حلب اور حما کے کچھ حصے اور یہ بھی لاذقیہ ہے۔
دمشق کے ہوائی اڈے پر پروازیں منسوخ کر دی گئیں
الجزیرہ نیوز چینل نے دمشق کے ہوائی اڈے پر بشار الاسد کی مخالف مسلح افواج کی آمد کے بعد تمام پروازیں منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مقامی ذرائع نے الجزیرہ کو بتایا کہ دمشق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر تمام پروازیں معطل کر دی گئی ہیں اور شہر پر مسلح اپوزیشن کے قبضے کے بعد عملہ وہاں سے چلا گیا ہے۔
شام کی موجودہ صورتحال علاقائی اوربین الاقوامی سلامتی کیلئے خطرناک ہے
قطر،سعودی عرب،اردن،مصر،عراق،ایران، ترکیے اور روس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ شام کی موجودہ صورتحال علاقائی اوربین الاقوامی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔ قطر میں ہونے والے دوحہ فورم کا مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا جس میں شام میں فوجی آپریشنز روکنے اور شہریوں کی حفاظت کے لیے سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق روسی وزیرخارجہ نے کہا کہ باغی گروپ کے عسکری آپریشن کی منصوبہ بندی طویل عرصے پہلےکی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ طاقت کا توازن بگاڑنے اور گراؤنڈ پر صورتحال تبدیل کرنے کی کوشش ہے، روس باغی گروہ کی پیش قدمی کی مخالفت کرےگا۔ دوحہ فورم کے مشترکہ اعلامیے میں قطر،سعودی عرب،اردن،مصر،عراق،ایران، ترکیے اور روس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ شام کی موجودہ صورتحال علاقائی اوربین الاقوامی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔ دوسری جانب نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ شام امریکا کا دوست نہیں ،امریکا کا شام کے تنازع سے کوئی لینا دینا بھی نہیں ، امریکا کو اس میں شامل نہیں ہونا چاہیے ۔ واضح رہے کہ شام میں باغیوں نے پانچویں شہر درعا پر قبضےکے بعد اب حمص شہر پر بھی مکمل کنٹرول حاصل کرنے کا اعلان کر دیا جبکہ باغیوں کی دمشق کی طرف پیش قدمی بھی جاری ہے[4]۔
بشارالاسد کو لے جانے والے طیارے کو حادثہ
شامی صدر بشار الاسد شام سے نکلنے کے ارادے سے دمشق کے ہوائی اڈے کے راستے گزشتہ رات ایک طیارے میں سوار ہوئے تاہم چند منٹوں کے بعد ان کا طیارہ ریڈار اسکرین سے غائب ہو گیا۔ حمص کے آس پاس ان کے طیارے کے گرنے کی خبریں نشر کی جا رہی ہیں۔ ابھی تک ان کے اور ان کے ساتھیوں کے انجام کی کوئی خبر نہیں ہے۔
رد عمل
قصی الضحاک
اقوام متحدہ میں شام کے مستقل نمائندے قصی الضحاک دہشت گردانہ حملے کے سائے میں اس ملک میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے سلامتی کونسل کے اجلاس میں اس فتنہ میں صیہونی حکومت کے کردار کی طرف اشارہ کیا اور کہا۔ انہوں نے کہا: شمالی شام پر دہشت گردانہ حملے کے طول و عرض اور دائرہ کار سے ظاہر ہوتا ہے کہ فریقین کی حمایت علاقائی اور بین الاقوامی ان حملوں میں سے ہے جو دہشت گردی کو اپنی خارجہ پالیسی کو نافذ کرنے اور شامی حکومت کو نشانہ بنانے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: شمالی شام پر دہشت گردوں کا حملہ ان کے لیے بھاری اور اعلیٰ معیار کے سازوسامان اور ہتھیاروں کے ساتھ غیر ملکی حمایت میں اضافے کے ساتھ تھا جس کی وجہ سے وہ حلب کے بڑے حصوں میں داخل ہو گئے۔ یہ حملہ گرین لائٹ اور ترکی اور اسرائیل کے درمیان مشترکہ آپریشن کے حکم کے بغیر ممکن نہیں تھا، اور بار بار اسرائیلی حملوں کے لیے زمین فراہم کی گئی۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ حلب پر دہشت گردوں کا حملہ شمالی سرحدوں سے دہشت گردوں کے حملے اور ان کے لیے غیر ملکی حمایت میں شدت کے ساتھ ہی ہوا جس میں فوجی سازوسامان، بھاری ہتھیار، کاریں، ڈرون، جدید مواصلاتی ٹیکنالوجی اور فوجی اور لاجسٹک سپلائی کی حفاظت شامل ہے۔
احمد بن حمد الخلیلی
احمد بن حمد الخلیلی، عمان کے مفتی: شام میں بھائیوں کے درمیان جو کچھ ہو رہا ہے وہ افسوسناک ہے اور یہ اس وقت ہوا جب نفرت انگیز صیہونی غاصب حکومت نے مسجد الاقصی سمیت ان زمینوں پر قبضہ کر لیا۔ یہ وقت نہ صرف ایک قوم کے درمیان حساب کتاب کرنے کا ہے بلکہ قابض دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے دلوں کو متحد اور یکجا کرنے کا بھی وقت ہے۔
بلاشبہ مسئلہ کا واحد حل تقویٰ اختیار کرنا، ہر قسم کے ظلم و ستم سے بچنا، گناہوں سے اجتناب اور شریعتِ الٰہی پر قائم رہنا اور نفسانی خواہشات پر اس کی اطاعت کو ترجیح دینا ہے۔ اس لیے میں ہر طرف سے خدا سے تقویٰ مانگتا ہوں اور اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتا ہوں، کیونکہ تمام اچھی چیزیں اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ہیں۔
سردار کوثری
مجلس کے قومی سلامتی کمیشن کے رکن سردار کوثری نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ شام میں ایران کی مشاورتی فورسز بھیجے جانے کا امکان ہے، کہا: تکفیری دہشت گرد گروہ شام میں امریکہ اور اسرائیل کے ڈیزائن سے سرگرم ہوئے ہیں اور صہیونی حکومت ایران کے ذریعے لبنان کی حزب اللہ کی حمایت کا راستہ تلاش کر رہی ہے، اسے بند کیا جائے۔ اس لیے مزاحمتی محاذ کو کوشش کرنی چاہیے کہ تکفیری گروہوں کو شہر حلب اور شمالی شام کے دیگر علاقوں میں آباد ہونے کی اجازت نہ دی جائے اور ان گروہوں کو محتاط منصوبہ بندی کے ساتھ اس طرح دبانا چاہیے کہ یہ گروہ مزید غرور نہ کر سکیں اور امریکہ اور اسرائیل اپنے مقاصد کے حصول میں مایوس ہو گا۔
بشار الاسد نے ملک چھوڑ دیا ہے
شام میں مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر بشار الاسد نے ملک چھوڑ دیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ شام کے وزیر اعظم محمد غازی الجلالی نے کہا ہے کہ وہ اپنا گھر چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ سرکاری ادارے کام کرتے رہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ اقتدار کی منتقلی کے لئے تیار ہیں۔ اتوار کی صبح عرب میڈیا اداروں نے ایک رپورٹ میں کہا کہ اسد ملک چھوڑ چکے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ شامی فوج کی کمان نے افسران کو بتایا ہے کہ بشار الاسد کی حکومت ختم ہو چکی ہے[5]۔
باغیوں کا دمشق پر قبضہ
شام کے باغیوں نے دمشق پر قبضہ اور صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ شامی باغیوں نے دمشق پر قبضے اور صدر بشار الاسد کا تختہ الٹنے کے بعد سرکاری ٹی وی پر پہلا خطاب کیا جس میں آزاد شام کی خود مختاری اور سالمیت کی یقین دہانی کرائی۔ شامی باغیوں نے کہا کہ شام میں سیاہ دور کا خاتمہ کرنے کے بعد نیا عہد شروع ہونے جارہا ہے، شام کی تمام سرکاری، غیر سرکاری املاک اور تنصیبات کا تحفظ کیا جائے گا اور جیلوں سے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کردیا جائیگا۔
برطانوی خبر ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ شامی صدر بشار الاسد طیارے پر سوار ہو کر نامعلوم مقام پر چلے گئے ہیں، دمشق کے امیہ چوک پر عوام جمع ہوئے جن میں سے سیکڑوں افراد فوج کے چھوڑے ہوئے ٹینکوں پر بھی چڑھ گئے۔ شام میں اسد خاندان کے سربراہ حافظ الاسد نے 1971ء سے2000ء تک حکومت کی اور پھر بشار الاسد نے والد حافظ الاسد کے انتقال کے بعد جولائی 2000ء سے اقتدار سنبھالا۔
ذرائع کے مطابق باغی فورسز کے پاس بشار الاسد کے مقام کے بارے میں کوئی ٹھوس انٹیلی جنس رپورٹ نہیں ہیں اور وہ انہیں تلاش کر رہے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے۔ قطری میڈیا کے مطابق شام کی افواج دمشق کے داخلی راستوں سے پیچھے ہٹ گئی تھی اور باغیوں کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں ہوا۔ شام میں فوج کے وزارت دفاع کا ہیڈ کوارٹرز بھی خالی کرنے کی اطلاعات ہیں جبکہ باغیوں نے سرکاری ٹی وی اور ریڈیو عمارتوں کا بھی کنٹرول حاصل کر لیا ہے[6]۔
حوالہ جات
- ↑ شام کی بگڑتی صورت حال- express.pk-شائع شدہ از: 8 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 دسمبر 2024ء۔
- ↑ شامی باغیوں کا دارالحکومت دمشق پر قبضے اور صدر بشار الاسد کے ملک سے فرار ہونیکا دعویٰ-urdu.geo.tv- شائع شدہ از: 8 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 دسمبر 2024ء۔
- ↑ دمشق پر دہشت گردوں کا قبضہ، صہیونی ٹینک شامی سرحدوں میں داخل-ur.mehrnews.com/news- شائع شدہ از: 8 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 دسمبر 2024ء-
- ↑ شام کی موجودہ صورتحال علاقائی اوربین الاقوامی سلامتی کیلئے خطرناک ہے، دوحہ فورم-urdu.geo.tv- شائع شدہ از: 8 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 دسمبر 2024ء۔
- ↑ بشار الاسد نے ملک چھوڑ دیا ہے، ذرائع-ur.mehrnews.com/news- شائع شدہ از: 8 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 دسمبر 2024ء۔
- ↑ شامی صدر نے ملک چھوڑ دیا، باغیوں کا دمشق پر قبضہ-jang.com.pk/news- شائع شدہ از: 8 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 دسمبر 2024ء۔