ابومحمد جولانی

ویکی‌وحدت سے
ابومحمد جولانی
ابومحمد جولانی.jpg
دوسرے ناماحمد حسین شرع
ذاتی معلومات
پیدائش1982 ء، 1360 ش، 1401 ق
پیدائش کی جگہریاض سعودی عرب
مذہباسلام، سنی
مناصبامیر تحریر الشام اور جبھۂ النصرۂ

ابو محمد جولانی احمد حسین شرع (عربی: أحمد حسين الشرع) جو جبہۃ النصرہ کے بانی ہیں۔ اس کا عرفی نام الجولانی ہے۔ گولان کی پہاڑیوں سے مراد وہ علاقہ ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ اس سے اس کے اسرائیل سے تعلق کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہو گئی ہیں۔ اپنے جنگی نام ابو محمد جولانی (عربی: أبو محمد الجولاني) سے معروف ہیں، ایک شامی (سوری) عسکریت پسند راہنما ہیں جو حال میں جنگجو گروہ تحریر الشام کے سپہ سالار (امیر) ہے. 2016ء میں القاعدہ سے اعلانِ بر‏‏ات کرنے سے قبل جولانی القاعدہ کی شامی شاخ جبہۃ النصرہ (شام کی فتح کے لیے محاذ) کا امیر رہ چکا ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ نے مئی 2013ء میں جولانی کو عالمی دہشت گرد قرار دیا۔ چار سال بعد ان کو پکڑنے کے لیے معلومات فراہم کرنے والے کو دس ملین امریکی ڈالر انعام دینے کا اعلان کیا۔ "جولانی" کی نسبت مرتفعاتِ جولان کی طرف ہے، جو ان کے جنگی نام کا حصہ ہے۔ 1967ء میں مرتفعاتِ جولان کے اکثر حصہ پر اسرائیل نے چھ روزہ جنگ میں قبضہ کر لیا تھا۔ جولانی نے 28 ستمبر 2014ء کو ایک آڈیو بیان جاری کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ وہ "امریکا اور اس کے اتحادیوں" سے لڑے گا اور اپنے جنگجوؤں پر زور دیا کہ وہ داعش کے خلاف جنگ میں مغرب کی مدد قبول نہ کریں۔ بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وہ شام کی جنگ سے پہلے عراق میں موجود تھا اور امریکی افواج کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا تھا۔ جولانی ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی شخصیت کے مالک ہے۔ وہ ایک ہی وقت میں ایک فوجی کمانڈر، ایک مذہبی رہنما اور ایک سیاست دان کے طور پر کام کرتا ہے۔

سوانح عمری

ابو محمد الجولانی 1982ء میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پیدا ہوا۔ ان کے والد اسد خاندان کے معاشی مشیر تھے اور اسی وجہ سے ابو محمد اور ان کا خاندان دمشق چلے گئے جب وہ بچپن میں تھا۔ وہ وہاں آرام دہ زندگی گزارتا رہا اور سرمایہ داروں کے محلے میں رہنے لگا۔ جولانی خاندان سیکولر تھا۔ جب وہ جوان تھا تو اسے شام میں ایک علوی لڑکی سے محبت ہو گئی۔

اس لڑکی کے ساتھ جولانی کی شادی کی اس کے گھر والوں نے سخت مخالفت کی اور جولانی کے ذہن پر منفی تاثر چھوڑا۔ اس مسئلے کا ایک ایسے وقت میں ہونا جب الجولانی کی شخصیت پروان چڑھ رہی تھی،  نے ان پر بہت برا اثر ڈالا اور اس کی وجہ سے وہ فرقہ وارانہ تقسیم کے مسئلے پر خاصی توجہ مرکوز کرنے لگے۔ اس نے 11 ستمبر کے واقعے کے بعد القاعدہ میں شمولیت اختیار کی۔ وہ کئی سالوں تک اسامہ بن لادن کا شاگرد اور عاشق رہا۔ 

لیکن کچھ عرصے بعد اسے ابو مصعب الزرقاوی سے دلچسپی پیدا ہوگئی۔ عراق امریکہ جنگ شروع ہوتے ہی وہ موصل چلا گیا۔ وہاں، اس نے سرایا المجاہدین گروپ میں شمولیت اختیار کی، جو عراق کے صوبے موصل میں ایک چھوٹا اور فعال شدت پسند گروپ تھا۔ انہیں 2004ء میں قید کیا گیا تھا۔ جیل میں ان کی تکفیری گروہوں کے عمائدین سے ملاقات ہوئی اور جیل سے رہائی کے بعد اس نے سلفی تکفیری تحریک کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا۔

یہ خاندان 1967ء میں چھ روزہ جنگ کے دوران گولان کے علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے بعد بے گھر ہو گیا۔ جولانی کے والد ایک عرب قوم پرست طالب علم تھا جو شام میں ناصریت پسندوں کے لیے سرگرم تھا۔ انہیں 1961ء اور 1963ء کی بغاوتوں کے بعد شروع ہونے والی ناصریت مخالف کارروائیوں کے دوران شامی بعثیوں نے قید کیا، جو میں متحدہ عرب جمہوریہ میں ٹوٹ گئی اور عرب سوشلسٹ بعث پارٹی کا قیام عمل میں آیا۔

ان کے والد بعد میں 1971ء میں عراق میں اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے لیے جیل سے فرار ہو گئے۔ اس عرصے کے دوران، انہوں نے تنظیم آزادی فلسطین کی فدائی فلسطینیون کے ساتھ تعاون کے لیے اردن کا سفر بھی کیا تھا۔ 1970ء کی دہائی میں شام واپس آئے تو جولانی کے والد کو دوبارہ قید کر دیا گیا۔

سرگرمیاں

شام کی جنگ میں کلیدی کردار؛ جولانی شام کی خانہ جنگی کے اہم ترین اداکاروں میں سے ایک رہا ہے اور ان کے فیصلوں کا اس جنگ کے دوران براہ راست اثر رہا ہے۔ مبہم اور متنازعہ شناخت؛ جولانی کی مبہم شناخت اور متنازعہ کردار نے انہیں شام کی جنگ کی سب سے پرکشش اور متنازعہ شخصیات میں سے ایک بنا دیا ہے۔ ایک طاقتور گروپ کی قیادت؛ جولانی کی قیادت میں تحریر الشام، شام میں سب سے طاقتور باغی گروپ بن چکی ہے۔

جبہۃ النصرہ کا قیام

ابومحمد جولانی 2.jpg

2011ء میں الجولانی نے شام میں داعش کی شاخ قائم کرنے کی منصوبہ بندی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس نے جبہۃ النصرہ کے نام سے ایک گروپ کی تشکیل کی نگرانی کی۔ یہ گروپ ابوبکر البغدادی کی قیادت میں داعش کی شامی شاخ کے طور پر کام کرتا تھا، اور البغدادی نے جنگجو، ہتھیار اور رقم فراہم کرکے الجولانی کی مدد کی۔ جنوری 2012ء میں الجولانی کو النصرہ فرنٹ کا سربراہ مقرر کیا گیا۔

اس کے ساتھ ہی امریکی محکمہ خارجہ نے جبہۃ النصرہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے اسے عراق میں القاعدہ کے لیے ایک نیا عرفی نام سمجھا، جسے اسلامک اسٹیٹ آف عراق یا آئی ایس آئی ایس بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے 2012ء میں جبہۃ النصرہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام کے سب سے طاقتور باغی اور تکفیری گروہوں میں سے ایک بن گیا اور اسے اس ملک میں القاعدہ کی سرکاری شاخ کے طور پر تسلیم کیا گیا۔

جبہۃ النصرہ نے شامی حکومتی فورسز کے خلاف وسیع فوجی آپریشن کیا اور بڑے علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ 2016ء میں جبہۃ النصرہ نے باضابطہ طور پر القاعدہ سے علیحدگی اختیار کر لی اور اپنا نام تبدیل کر کے تحریر الشام رکھ لیا۔ یہ علیحدگی بین الاقوامی دباؤ کو کم کرنے اور کچھ سلفی اور بنیاد پرست گروہوں کی مزید حمایت حاصل کرنے کے مقصد سے کی گئی۔ الجولانی کی قیادت میں تحریر الشام ایک پیچیدہ اور طاقتور تنظیم بن گئی جو فوجی کارروائیوں کے علاوہ سیاسی، سیکورٹی اور اقتصادی شعبوں میں بھی سرگرم تھی۔ ایک متوازی حکومتی ڈھانچہ بنا کر، اس گروپ نے باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں شامی حکومت کی جگہ لینے کی کوشش کی۔

جبہۃ النصرہ کے ساتھ عہد کو توڑنا اور القاعدہ سے وفاداری

اپریل 2013ء میں، البغدادی نے جبہۃ النصرہ کو تحلیل کرنے اور ISIS حکومت میں ایک ذیلی گروپ کے طور پر اس کی حیثیت کو کم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس اقدام نے جبہۃ النصرہ کے تمام رہنماؤں اور فیصلوں کو ابوبکر البغدائی کے کنٹرول میں کر دیا۔ الجولانی نے اختلاف کیا اور القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری سے بیعت کی، جس نے الجولانی کے اپنے گروپ کو ایک آزاد ادارے کے طور پر رکھنے کی درخواست منظور کر لی۔

تحریر الشام کی قیادت

ابو محمد الجولانی معروف شخصیت اور تحریر الشام کے سرکاری رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ لیکن اس گروپ کا ڈھانچہ پیچیدہ ہے اور اس میں کئی لیڈر شپ کونسلز اور فوجی کمانڈر شامل ہیں۔ یہ کونسلیں میکرو اور اسٹریٹجک فیصلوں میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر اہم افراد بھی مختلف مقامات پر تحریر الشام کی قیادت میں شامل ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

  • شریعہ کونسل: یہ کونسل اسلامی قوانین کی تشریح اور فتوے جاری کرنے کی ذمہ دار ہے۔
  • ملٹری کونسل: یہ کونسل فوجی کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور نفاذ کی ذمہ دار ہے۔
  • اعلیٰ فوجی کمانڈر: یہ کمانڈر تحریر الشام کے زیر کنٹرول مختلف علاقوں میں کام کرتے ہیں اور ان علاقوں میں فوجی کارروائیوں کے ذمہ دار ہیں۔

حلب واپسی

29 نومبر 2024ءکو، تحریر الشام کی افواج نے حلب پر حملہ کیا جب کہ نئے آلات جیسے خود مختار ڈرون اور یہاں تک کہ ان کے کپڑے بھی پہلے سے مختلف تھے، اور وہ حلب کے بہت سے حصوں پر دوبارہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس پر قبضہ کرنا یہ حملہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے چند روز بعد ہوا ہے اور تحریر الشام کے لیے اسرائیل کی حمایت کے شکوک و شبہات کو تقویت ملی ہے۔

جولانی فورسز کو 8 سال قبل شامی فوج، ایرانی فوج، روسی فضائیہ، حزب اللہ فورسز اور مزاحمتی محاذ کی دیگر فورسز نے حلب سے باہر دھکیل کر ادلب میں محصور کیا تھا۔ تاہم، حلب میں تحریر الشام فورسز کی موجودگی کے چند گھنٹے بعد، وہ 9 دسمبر کی شام کو ایک کار میں حلب میں داخل ہوا تاکہ جنگ کو قریب سے آگے بڑھا سکے۔

شام پر حملہ

ابو محمد جولانی کی قیادت میں شامی وفد کی آمد کے بعد شام پر حملہ 29 نومبر 2024 کو حلب شہر سے شروع ہوا جو شامی عرب فوج کے زیر کنٹرول تھا۔ یہ لڑائی باغیوں کے زبردست حملے کے تیسرے دن شروع ہوئی۔

شام میں تکفیری فتنہ پھر سر اٹھانے لگا

ابو محمد جولانی.jpg

تکفیری دہشت گرد گروہ تحریر الشام نے چند ماہ پہلے سے حلب شہر کے مضافات میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کا آغاز کر رکھا ہے۔ مقامی اور خطے کے ذرائع ابلاغ اب تک ان مضافاتی علاقوں میں تکفیری دہشت گرد عناصر کی موجودگی اور فعالیت کے بارے میں متعدد رپورٹیں شائع کر چکے ہیں۔ انہی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی وجہ سے شام آرمی نے بھی تقریباً ایک ماہ پہلے اپنی فوج کا کچھ حصہ حلب شہر کے شمالی اور مغربی حصوں میں تعینات کر دیا ہے۔

اہم بات ان تکفیری دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کا خطے سے متعلق امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کی پالیسیوں سے ہم آہنگ ہونا ہے۔ جب 2011ء میں پہلی بار شام میں تکفیری فتنے کا آغاز ہوا تھا تب بھی ان تکفیری عناصر کو غاصب صیہونی رژیم کی خاص حمایت حاصل تھی اور مختلف ذرائع ابلاغ میں حتی مقبوضہ فلسطین کے اسپتالوں میں زخمی تکفیری دہشت گردوں کے علاج معالجے کی تصاویر بھی شائع ہو چکی ہیں۔

بدھ 27 نومبر 2024ء کے دن ایک طرف لبنان اور غاصب صیہونی رژیم میں جنگ بندی کا اعلان ہو تو دوسری طرف شام میں تکفیری دہشت گرد گروہوں نے حلب پر بڑے حملے کا اعلان کر دیا۔ یہ دہشت گرد گروہ ترکی کی سرحد سے ملحقہ شام کے صوبے ادلب میں موجود ہیں۔ تکفیری دہشت گرد گروہ تحریر الشام اس فتنے میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے جبکہ اسے دیگر تکفیری گروہوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔

تمام تکفیری گروہ 2016ء میں حلب شہر کی آزادی کے بعد شام حکومت سے جنگ بندی معاہدے کے تحت صوبہ ادلب میں رہائش پذیر ہیں اور اب انہوں نے کھل کر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی شروع کر دی ہے۔ تحریر الشام اس وقت شام کے شمال میں سب سے بڑا تکفیری دہشت گرد گروہ بن چکا ہے اور حالیہ فتنے میں جو دیگر تکفیری گروہ اس کا ساتھ دے رہے ہیں ان میں صقور الشام، جیش الشمال، حزب اسلامی ترکستان، اجناد قوقاز، کتیبہ الرحمان اور جیش العزہ شام ہیں۔

تکفیری دہشت گرد گروہ تحریر الشام نے چند ماہ پہلے سے حلب شہر کے مضافات میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کا آغاز کر رکھا ہے۔ مقامی اور خطے کے ذرائع ابلاغ اب تک ان مضافاتی علاقوں میں تکفیری دہشت گرد عناصر کی موجودگی اور فعالیت کے بارے میں متعدد رپورٹیں شائع کر چکے ہیں۔ انہی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی وجہ سے شام آرمی نے بھی تقریباً ایک ماہ پہلے اپنی فوج کا کچھ حصہ حلب شہر کے شمالی اور مغربی حصوں میں تعینات کر دیا ہے۔ سب سے اہم بات ان تکفیری دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کا خطے سے متعلق امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کی پالیسیوں سے ہم آہنگ ہونا ہے۔

جب 2011ء میں پہلی بار شام میں تکفیری فتنے کا آغاز ہوا تھا تب بھی ان تکفیری عناصر کو غاصب صیہونی رژیم کی خاص حمایت حاصل تھی اور مختلف ذرائع ابلاغ میں حتی مقبوضہ فلسطین کے اسپتالوں میں زخمی تکفیری دہشت گردوں کے علاج معالجے کی تصاویر بھی شائع ہو چکی ہیں۔ گذشتہ ایک ماہ سے شام اپنے اتحادی ملک روس کے تعاون سے حلب کے اردگرد تکفیری دہشت گرد عناصر کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تکفیری دہشت گرد گروہ تحریر الشام دراصل شام مین سرگرم دہشت گرد گروہ القاعدہ کی ترقی یافتہ شکل ہے.

جس نے شام میں تکفیری فتنے کے آغاز کے بعد اپنا نام تبدیل کر کے "النصرہ فرنٹ" یا جبھہ النصرہ رکھ لیا تھا۔ اس کے بعد دیگر کئی تکفیری دہشت گرد گروہ بھی اس سے ملحق ہو گئے اور انہوں نے "ھیئت تحریر الشام" کا نیا نام چن لیا۔ نام کی تبدیلی کا اصل مقصد خود کو القاعدہ جیسے لیبل سے بچانا تھا جو علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر شدید بدنام ہو چکا تھا۔ تحریر الشام کا سربراہ محمد الجولانی ہے جو اس وقت ترکی کی سرحد کے ساتھ ملحقہ شام کے شمالی صوبے ادلب میں رہائش پذیر ہے۔

گذشتہ برس 17 اکتوبر کے دن فلسطین میں اسلامی مزاحمتی تنظیم حماس نے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف بے مثال اور کامیاب طوفان الاقصی آپریشن انجام دیا جس کے ردعمل میں صیہونی رژیم نے غزہ پر فوجی چڑھائی کر دی اور فلسطینیوں کی نسل کشی کا آغاز کر دیا۔ طوفان الاقصی کے آغاز سے ہی لبنان میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ نے بھی غزہ میں اہل سنت فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے مقبوضہ فلسطین کے شمال میں صیہونی رژیم کے خلاف ایک نیا محاذ کھول دیا تھا۔

ایسے حالات میں تکفیری دہشت گرد گروہ تحریر الشام نے حلب پر دوبارہ قبضے کا خواب دیکھنا شروع کر دیا۔ اس کی نظر میں حزب اللہ لبنان کی توجہ فلسطین پر مرکوز ہو چکی تھی لہذا وہ سمجھنے لگے کہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے انہیں سنہری موقع ہاتھ آ چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں اسلام دشمن طاقتوں جیسے امریکہ اور صیہونی رژیم کی طرف سے بھی سبز جھنڈی دکھا دی گئی۔

تقریباً ایک سال پہلے شام حکومت اور ترکی کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا تھا جن کا مقصد دہشت گرد گروہوں کی حمایت ختم کرنا تھا۔ اس وقت بھی تحریر الشام ان مذاکرات کا سب سے بڑا مخالف بن کر سامنے آیا تھا۔ ترکی اور شام میں مذاکرات روس کی ثالثی میں انجام پا رہے تھے۔ گذشتہ تقریباً 6 ماہ سے اگرچہ ادلب اور حلب کے مضافاتی علاقوں میں شام فوج اور تکفیری دہشت گردوں کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں لیکن حلب شہر مکمل طور پر پرامن تھا اور اس بدامنی سے بچا ہوا تھا۔

تحریر الشام کی سربراہی میں تکفیری دہشت گرد گروہوں کا دوبارہ سرگرم ہو جانا امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کے مفادات کے عین مطابق ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کو اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ اسلامی مزاحمتی بلاک کی طاقت کا ایک حصہ شام میں تکفیری فتنے کا مقابلہ کرنے میں مصروف ہو جائے گا۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران شام کے شمالی صوبے ادلب میں موجود ان تکفیری دہشت گرد عناصر کو یوکرین فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیز کی حمایت بھی حاصل ہو چکی ہے۔

چونکہ روس شام کا اتحادی ملک ہے لہذا یوکرین شام میں موجود حکومت مخالف تکفیری دہشت گرد عناصر کے ذریعے روس اور شام آرمی کو دھچکہ پہنچانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ شام کے تکفیری دہشت گرد عناصر یوکرین جنگ میں بھی شامل ہو چکے ہیں جبکہ یوکرین فوج شام میں تکفیری دہشت گردوں کی تکنیکی مدد کرنے میں مصروف ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ وسطی ایشیائی ممالک سے آئے تکفیری دہشت گردوں کی تعداد میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ شام میں سرگرم تکفیری گروہ حزب اسلامی ترکستان میں سرگرم عناصر کا تعلق چین کے علاقے ایغور سے ہے[1].

نظریہ

سلفی جہادی نظریہ: الجولانی اور تحریر الشام سلفی جہادی نظریہ پر کاربند ہیں۔ یہ نظریہ اسلام کی ظاہری اور سخت تشریح پر زور دیتا ہے، اور اس کا ہدف پوری دنیا میں اسلامی حکومت کا قیام ہے۔ اسلام کے دشمنوں کے خلاف جہاد پر تاکید: جولانی اور تحریر الشام مغربی حکومتوں اور سیکولر عرب حکومتوں سمیت اسلام کے دشمنوں کے خلاف جہاد کو فرض سمجھتے ہیں۔

اسلامی ریاست کے قیام کی کوششیں: الجولانی کی قیادت میں تحریر الشام نے اپنے زیر تسلط علاقوں میں اسلامی شریعت کے قوانین کی بنیاد پر ایک اسلامی ریاست بنانے کی کوشش کی ہے۔ عہدوں میں تبدیلیاں: جولانی نے اپنی سالوں کی سرگرمی کے دوران بعض اوقات اپنے عہدوں اور انداز میں تبدیلیاں کی ہیں۔ یہ تبدیلیاں میدان میں ہونے والی پیش رفت، بین الاقوامی دباؤ، یا اندرونی گروہی وجوہات کی وجہ سے ہو سکتی ہیں۔ شخصیت کی پیچیدگی: جولانی ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ ایک ہی وقت میں ایک فوجی کمانڈر، ایک مذہبی رہنما، اور ایک سیاست دان کے طور پر کام کرتا ہے، اور اپنے پیروکاروں کے لیے ایک دلچسپ رہنما ہے۔

مارے جانے کی خبریں پر ردعمل

  1. فلسطینی خبر رساں ایجنسی ساما نے اسرائیلی میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ روسی جنگجوؤں کے حملے میں تحریر الشام گروپ (النصرہ فرنٹ) کے سربراہ ابو محمد الجولانی کی ہلاکت کی خبر کی تصدیق کر دی گئی ہے۔
  2. بقول عصر ایران؛ قبل ازیں عراق کے احد ٹی وی سمیت بعض مزاحمتی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ تحریر الشام گروپ کے کمانڈر ابو محمد الجولانی کے گھر پر روسی اور شامی فوج کے جنگجوؤں کے حملے کی اطلاعات ہیں۔
  3. بعض میڈیا نے ایک غیر مصدقہ رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ جولانی کے ساتھ ترکی اور یوکرین کے سینئر انٹیلی جنس افسران بھی بم دھماکے کی جگہ پر موجود تھے۔
  4. دوسری جانب خصوصی خبر رساں ذرائع نے روسی خبر رساں ایجنسی سپوتنک کو بتایا ہے کہ ادلب میں النصرہ فرنٹ کے ہیڈ کوارٹر جہاں ابو محمد الجولانی کو اس کا لیڈر مانا جاتا ہے، پر بمباری کی گئی۔
  5. اس نیوز چینل نے مزید کہا: تحریر الشام کمیٹی کے سیکورٹی دفتر نے تباہ شدہ ہیڈکوارٹر کے گرد ایک مضبوط حفاظتی پٹی بنائی ہے اور اس گروہ کے عناصر اور عام شہریوں کو اس جگہ میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے۔
  6. عراقی النجباء نیٹ ورک نے دمشق کے ایک اعلیٰ سیکورٹی اہلکار کا بھی حوالہ دیا جس نے اپنا نام نہیں بتایا اور مزید کہا: چند منٹ قبل احرار الشام گروپ کے سربراہ ابو محمد الجولانی کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی تھی۔

تحریر الشام کا بیان

تحریر الشام کے سرکاری میڈیا نے اعلان کیا: جبہت النصرہ اور تحریر الشام کی عسکری افواج کے کمانڈر انچیف ابو محمد الجولانی کو کل رات روسی فوج کے پہلے سخوئی 34 سکواڈرن نے ہلاک کر دیا۔ فضائیہ مارٹر بموں کا استعمال کر رہی ہے۔

شام میں باغی گروہ جبھۃ النصرہ کا رہنما ہلاک

جبھۃ النصرہ نہایت انتھا پسند گروہ ہے جو القاعدہ سے وابستہ ہے۔ اس گروہ کو سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے۔ شام کے ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق جبھۃ النصرہ کےسرغنہ ابو محمد جولانی کو جمعے کے دن مغربی شہر لاذقیہ کے مضافات میں ہلاک کردیا گيا۔ ادھر دمشق کے مضافاتی میں العتیبہ جھیل کے قریب فوج کی کاروائيوں میں چالیس دہشتگرد مارے گئے ہیں۔

آبزرویٹری کے مطابق النصرہ کے دیگر ذرائع کا کہنا ہے الجولانی سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے اس کی ہلاکت کی تصدیق یا تردید نہیں کی جا سکتی۔ اے پی نے دمشق کے نواح میں باغیوں کے ایک کمانڈر سے رابطہ کیا، جس نے یقین ظاہر کیا کہ الجولانی ’زندہ‘ ہے۔

یہ رپورٹ ایسے وقت سامنے آئی ہے جب باغی دھڑے پھوٹ کا شکار ہیں اور انہیں لڑائی میں بھاری نقصانات اٹھانا پڑ رہے ہیں۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ جمعے کو ہی دمشق کے ایک نواحی علاقے میں فوج نے کم ازکم 40 باغیوں کو ہلاک کر دیا جن میں النصرہ کے ارکان بھی شامل ہیں۔

دارالحکومت دمشق کے مشرقی نواحی علاقوں میں بھی اسد کی فورسز نے باغیوں کے ایک سپلائی رُوٹ پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس کارروائی میں حکومتی فورسز کو لبنان کی حزب اللہ کی حمایت حاصل تھی۔

النصرہ فرنٹ کو باغی گروپوں میں سب سے مؤثر خیال کیا جاتا ہے۔ یہ گروہ حکومتی اہداف کے خلاف متعدد خود کش حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے القاعدہ سے تعلق کی بنیاد پر اس گروہ کو دہشت گرد تنظیموں کی اپنی فہرست میں شامل کر رکھا[2].

شام میں حالیہ بغاوت کا مقصد صدر بشار الاسد کی حکومت کو گرانا ہے

اس حکومت کی شکست کے بیج ہمیشہ سے اس کے اندر تھے: جولانی کا نامعلوم مقام سے امریکی میڈیا کو انٹرویو. شامی باغی گروہ حیات التحریر کے سربراہ نے کہا ہےکہ شام میں حالیہ بغاوت کا مقصد صدر بشار الاسد کی حکومت کو گرانا ہے۔ شام کے ایک نامعلوم مقام سے امریکی میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑنے والے باغی گروہ حیات التحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے کہا کہ ان کا مقصد صدر بشار الاسد کی حکومت کو گرانا ہے۔

جولانی نے کہا کہ اس حکومت کی شکست کے بیج ہمیشہ سے اس کے اندر تھے، ایران نے اس حکومت کو بحال کرنے اور اس کے لیے مزید وقت لینے کوشش کی جب کہ روس نے بھی اسے سہارا دینے کی کوششیں کی مگر حقیقت یہی ہے کہ اس حکومت کی موت ہوچکی ہے۔ باغی لیڈر نے ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلا کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرا خیال ہے جیسے ہی موجودہ حکومت گر ے گی تو غیر ملکی افواج کی شام میں ضرورت نہیں رہے گی۔

واضح رہےکہ ماضی میں القاعدہ سے منسلک اس شامی باغی گروپ نے کچھ دن قبل اپنی کارروائیاں تیز کرتےہوئے پہلے شام کے اہم اور تاریخی شہر حلب پر قبضہ کیا جب کہ گزشتہ روز حیات التحریر الشام کے جنگجو حماہ شہر میں داخل ہوئے اور صدر بشار کی فوج کو شہر چھوڑنے پر مجبور کیا[3].

حوالہ جات

  1. شام میں تکفیری فتنہ پھر سر اٹھانے لگا-islamtimes.com/ur/article-شائع شدہ از: 28نومبر 2024ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 دسمبر 2024ء.
  2. شام میں باغی گروہ جبھۃ النصرہ کا رہنما ہلاک-erfan.ir/urdu-اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 دسمبر 2024ء۔
  3. شام میں حالیہ بغاوت کا مقصد صدر بشار الاسد کی حکومت کو گرانا ہے: ابو محمد الجولانی-urdu.geo.tv-شائع شدہ از:6دسمبر2024ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 دسمبر 2024ء۔