مؤرخین کا قرآن

ویکی‌وحدت سے


مؤرخین کا قرآن یا تاریخ نویسوں کا قرآن - مغرب کے 30 محققین کے تحقیقات کا ماحصل 4جلد اور 4هزار سے زائد صفحات پر مشتمل کتاب کا عنوان هے جو محمد علی امیر معزی اور گیلوم ڈی کی زیر نگرانی لکھی گئی هے اور سنه 2019ء کو فرانس میں شایع هوئی ۔ 9 مارچ 2019 ‏ءکو « نئے نظریات کا حلقه» کے عنوان سےمنعقده تعارفی نشست میں ڈاکٹر محمد علی امیرمعزی نے اس کا تعارف کرایا۔ یه کتاب تاریخی اور تنقیدی انداز میں لکھی گئی هے اور اس میں مستشرقین کے پچھلی دو صدیوں کے تازہ ترین قرآنی تحقیقی مضامین مرتب کیے گئے ہیں۔ اس کتاب کا نتقیدی جائزه لینے کی ضرورت هےاس لئے عالمی مجمع برای تقریب مذاهب اسلامی سے منسلک تحقیقی مرکز برای تقریبی مطالعات نے مذهبی ماهرین کے اجلاس اور آزاد اندیشی کی کرسیاں منعقد کرنے کے ذریعے اس کتاب کی جانچ پرتال اور تنقیدی جائزه شروع کی هے۔ اور ملکی اور غیر ملکی قرآنی علوم میں ماهر ممتاز اساتذه کے تعاون سے اس منصوبے کے پشت پرده اهداف کی وضاحت اور اس کتاب پر علمی تنقید کرنے کی کوشش کی جارهی هے۔[1]

کتاب کے چیف ایڈیٹر کا مختصر تعارف

محمد علی امیر معزی "مورخین کا قرآن " نامی کتاب کے 28 مصنفین میں سے ایک ہیں۔ وه 1334ھ ش کو تہران میں مذہبی رجحانات کے حامل ایک متمدن گھرانے میں پیدا ہوئے اور اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم اسی شہر میں رازی فرانسیسی زبان اسکول میں مکمل کی۔ ان کے خاندان خصوصاً ان کے والد مذہبی اورالهی موضوعات میں دلچسپی رکھتے تھے اور ایسے ماحول میں ان کی توجہ ایران اور اسلام کی ثقافت بالخصوص اسلام کے عرفانی اور فلسفیانہ پہلوؤں کی طرف مبذول ہوئی۔ ہائی اسکول کے آخری سال میں، ایک خاندانی دوست کے ساتھ، اس کی پہلی بار ہینری کوربن سے ملاقات ہوئی۔ جب ہینری کوربن نے نوجوان طالب علم کی فلسفیانہ، مذہبی اور صوفیانہ مسائل میں دلچسپی دیکھی، تو اس نے اسے فرانس آنے اور پیرس میں اسلامیات کے شعبے میں اپنی تعلیم جاری رکھنے کی ترغیب دی۔ 1974 ‏ءمیں اپنا ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد، امیر معزی اپنے خاندان کی رضامندی سے اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے پیرس گئے اور سوربون اعلی تعلیم سکول میں تعلیم حاصل کی۔ اس نے دو سال تک کوربن کے درس میں شرکت کی اور کوربن نے اسے شیعیت خاص کر شیعه مذهب کے ابتدائی تحریروں کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دی۔ اسلامی علوم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انهوں نے مشرقی زبان لینگویج سنٹر میں عربی سیکھنا شروع کی اور تھوڑا بهت پہلوی، یونانی اور لاطینی بھی سیکھا۔ برسوں بعد، امیر معزی نے ڈینیئل جیماره اور جین جولیوه کی رہنمائی میں( ابتدائی شیعہ متون میں امام کا چهره )کے موضوع پر اپنا تھیسز مکمل کیا اور عجیب اتفاق تھا کہ اس نے ہنری کاربن ہال میں اپنے علمی مقالے کا دفاع کیا۔ 1988 ءمیں اپنے پروفیسر کی ریٹائر کے بعد وہ پہلے اسسٹنٹ پروفیسر بنے اور پھر 1994 ءمیں اپنے استاد کا عہده سنبھالا.

کتاب کا ڈھانچه

اس مجموعہ میں درج ذیل موضوعات شامل ہیں: پہلی جلد ! قرآن کی تدوین اور قرآن کے مضامین اور تعلیمات سے متعلق ہے۔ اس جلد میں قرآن پاک کے سیاق و سباق اور ماخذ کے بارے میں بھی تحقیقات ہیں جن میں 20 تاریخی تحقیقات شامل ہیں۔ دوسری اور تیسری جلد میں قرآن کی 114 سورتوں کی تفسیر اور تجزیہ کیا گیا ہے اوریه مجلد اس مجموعہ کا سب سے طویل حصه هے جو (تقریباً 2400 کاغذی صفحات) پر مشتمل هے اس جلد میں قرآن کریم کی سورتوں کی مسلسل تفسیر پیش کی گئی ہے، جن میں سے کچھ بہت مختصر ہیں اور بعض اوقات تفصیل سے بحث کی ہیں۔ چوتھی جلد میں قرآنی مطالعات کی کتابیات پیش کی گئی ہیں اور اس کتاب کی تدوین پر علمی حوالے سے نگرانی کرنے والوں کی رائے کے مطابق اس جلد میں حد الامکان قرآنی تعلیمات سے متعلق مقالات، مضامین، کتابیں اور محققین کی گروهی فعالیتوں ) کی ایک مکمل فہرست تیار کی گئی هے جو 19ویں صدی سے لے کر آج تک کے محققین کی آراء سے ماخوذ ہے ۔ اور آن لائن اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔

کتا ب کے مضامین

ڈاکٹر امیر معزی کا خیال ہے کہ یہ کام منطقی قیاس پر مبنی ہے۔ پہلا مقدمه : رسول اللہ (ص) کی ذمه داری بنیادی طور پر آخرالزمان کا اعلان تھی ۔ ان کے نزدیک قرآن کے آخری تیس سورے اور دیگر درجنوں آیات رسول اللہ(ص) کے اسی مشن اور نقطہ نظر کو ظاہر کرتی ہیں۔ دوسرا مقدمه: قرآن اور رسول اللہ (ص) دونوں کا تعلق ایک یہودی عیسائی (مسیهودی) ثقافت سے ہے جو ابھی تک موعود کا منتظر ہیں۔ فطری طور پر ایسے ماحول میں تشکیل پانے والے قرآن سے مسیح موعود کا اعلان متوقع تھا۔ یہ مسیح موعود، جس کا اعلان قرآن کر رہا ہے، علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔ امیر معزی کو مغرب کے شیعہ محققین میں سے ایک کے طور پر جانا جاتا ہے۔ لیکن ان کے شیعہ تحقیقی نظریات کا نتیجہ غالی شیعوں کا نظریہ ہے جسے پوری تاریخ میں اهل تشیع کی طرف سے رد کیا گیا هے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اصل شیعہ جس کی ائمہ علیہم السلام نے تائید کی هیں وہی شیعیت ہے جس کو شیعہ علماء کے هاں غلو کے نام پر یاد کیا جاتا هے اور اگر ائمہ علیہم السلام کے بیان میں بھی اس کی مذمت ملتی هے تو اصل نظر یے کی وجه سے نهیں بلکہ راز سے پردہ اٹھانے کی وجه سے اس فکر کی مذمت کی گئی۔ ان کا خیال ہے کہ اسماعیلی نقطہ نظر میں امام کے لیے ہر لحاظ سے اعلیٰ اقدار کا خیال رکھا گیا هے اور وہ شیعہ کے تعارف میں اسماعیلی کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ پہلی صدیوں میں اس شیعیت کی تعلیمات میں سے ایک- قرآن کی تحریف کا عقیدہ تھا۔ ڈاکٹر امیر معزی اور ان کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ ہمارے پاس موجود قرآن عبدالملک مروان کے دور میں (65 سے 86 ہجری تک)مرتب کیا گیا هے۔ اس دور میں قرآن مختلف نصوص کی بنیاد پر جمع آوری هوئی اور موجودہ قرآن کی شکل میں پیش کیا گیا هے ۔ موجوده دور کے قرآن میں آخر الزمانی نقطہ نظر نمایاں نہیں ہے اور اس کا مقصد عیسائی یہودی اور آخر الزمانی نقطہ نظر کو تحت شعاع قرار دینا ہے۔ محمد علی امیر معزی "مؤزخین کا قرآن " نامی پراجیکٹ میں کی گئی تحقیق کے نتائج کے بارے میں کہتے ہیں: ان تحقیقوں سے ثابت ہوا ہے کہ اسلام کی ابتدا اور قرآن کی ابتدا کے بارے میں جو کچھ اسلامی نصوص کہتی ہیں وہ قابل اعتبار نہیں ہیں، اور اب تک جو کچھ کیا گیا ہے اس سے کہیں زیادہ تنقیدی نظر سے دیکھنا چاهئے۔ ہم جانتے ہیں کہ اسلام کی پیدائش کے زمانے یعنی نبی (ص) اور ان کے معاصرین کی زندگی اور قرآن کی پیدائش کے بارے میں اسلامی نصوص قابل اعتماد نہیں ہیں۔ مورخین کا قرآن نامی کتاب کے مصنفین یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قرآن کا موجودہ متن قدیم دور سے تعلق رکھتا ہے - قرون وسطی سے تھوڑا پہلے - اور بیک وقت بازنطینی (مشرقی رومی) یہودیت، عیسائیت اور ساسانی سے متاثر هے۔ اور ان کے نقطہ نظر سے موجودہ قرآن کا ایک حصہ پچھلی کتابوں سے متاثر هے اور اس کا بڑا حصہ رسول اللہ (ص) کے بعد حکمرانوں کی حمایت اور خواہش سے مرتب کیا گیا هے لهذا موجودہ قرآن میں تاریخی صداقت کا فقدان ہے۔

عالم اسلام میں کتاب کی اشاعت کا رد عمل

قاہرہ یونیورسٹی میں فرانسیسی تہذیب کی پروفیسر محترمہ زینب عبدالعزیز اس کتاب کے بارے میں کہتی ہیں: "یہ قرآن پاک، اسلام اور دنیا بھر کے مسلمانوں پر، خاص طور پر مصر، الازہر اور اس کے ممتاز محققین پر فرانس کا سب سے بڑا اور بزدلانہ طمانچہ ہے۔ فرانس کی یونیورسٹیوں میں شیعہ پروفیسر جناب محمد علی امیر معزی اور فری یونیورسٹی آف برسلز میں اسلام کے پروفیسر مسٹر گیلوم ڈی نے اسلام کے نام پر علمی ، درست اور دیانت دار ی کے ساتھ علمی تحقیق سرانجام دینے کے ادعا کے ساتھ ، اس مجرمانه اقدام کی نگرانی کی هیں ۔ جناب اسامہ نبیل مورخین کے قرآن کے بارے میں کہتے ہیں: "کتاب کے تعارف میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ کوئی آسمانی کتاب نہیں ہے، بلکہ ایک تاریخی کتاب ہے جو حضور (ص) نے اپنی طرف سے لکھی هے۔ اس کتاب میں یہودی نژاد ایک جرمن مستشرق نے قرآن اور سنت نبوی کی اصالت کو مشکوک بنایا هے۔ فرانس کی سیکولر طبقے نے اس کتاب کا خیرمقدم کیا اور اسے ایک عظیم کام سمجھا جبکه یه کتاب ، قرآن کی حرمت اور تقدس کو رد کرتی هے اور اس کے نزول مشکوک بناتی ہے۔ یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ کتاب ایک متعصبانہ مہم کی تحت چلائی گئی ہے جس میں اسلام کا ایک ایسا نسخہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کا اس اسلام سے کوئی تعلق نهیں جسے اسلامی ممالک کے مسلمان ماضی اور حال میں جانتے ہیں۔ فرانسیسی اور عربی دونوں زبانوں میں اپنے مضمون میں پیرس جیو پولیٹیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر سریل سان برو نے کہا کہ : یہ کام نویں صدی سے لے کر اب تک مقدس متون کو ہم آہنگ کرنے پر مشتمل ہے، جو کہ اسلام کے ساتھ ناانصافی ہے، کیونکه اس کتاب میں قرآنی مضامین کو یهودیت اور عیسائیت سے ماخوذ سمجھنے کی کوشش کی هے ۔ اس منصوبے کے منتظمین نے یہ ثابت کرنے کی پوری کوشش کی ہے کہ عربوں نے قرآن کے روحانی مواد کو تباہ کیا اور اسے سیاسی، فوجی اور سامراجی متن میں تبدیل کر دیا۔ انهوں نےاس کتاب کا یه ادعا که قرآن آسمانی نهیں بلکه بشری هے )کے مقابل میں کچھ مستشرقین کا ذکر کیا جنہوں نے اعتراف کیا ہے کہ قرآن بشری نهیں بلکه آسمانی اور الهی کتاب ہے، جن میں : ( Marcel Baltazard ، Jacques Augustin Berque ، Martin Smith ، Eickelman ، و...)شامل هیں۔ اس کتاب نے اسلام پر جمود کا الزام لگایا ہے۔ آخر میں، جناب اسامہ نبیل نے اس منصوبے کو شیعہ نقطہ نظر کے ساتھ ایک نظریاتی منصوبہ سمجھا هے۔

کتاب کے کچھ مبادیات

  • قرآن تاریخی لحاظ سے قابل اعتماد نهیں هے
  • مسلم حکمرانوں کے توسط سے اسلامی فتوحات کی وجہ سے، مورخین نے تاریخی کتابیں ، حکومتوں کے فائدے کے لیے لکھے ہیں۔ اس لیے اسلامی تاریخی مآخذ قابل اعتماد نہیں ہیں۔
  • قرآن میں تناقض
  • قرآن کا سابقه کتابوں سے ماخوذ هونا
  • آیات میں تناسب اور هماهنگی کا فقدان
  • سامراجی مذہب کے طور پر اسلام کا اصل بانی عبد الملک ہے اور انهوں نے قرآن کو موجوده شکل میں لانے کی کوشش کی هے ۔
  • قرآن کے مضامین عهدین سے اخذ کیا گیا هے
  • اسلام کی بنیاد عبدالملک ابن مروان کے دور میں رکھی گئی هے
  • قرآن کی تحریف
  • قرآن ایک تاریخی کتاب ہے جو دو صدیوں میں لکھی گئی۔
  • قرآن مسائل اور پیچیدگیوں پر مشتمل کتاب هے جس کی وجه تین عامل هے ۔الف: مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگیاں ب: فتوحات ج: عرب سلطنت کا ظہور
  • شیعوں میں قرآن صامت اور قرآن ناطق کے دو عنوان ، ابتدائی شیعوں کی نظر میں قرآن کی تحریف کی علامت ہیں۔
  • آخر الزمان کی خبریں اور حضرت علی علیہ السلام کا بحیثیت مسیح موعود تعارف، پیغمبر (ص) کی بنیادی ذمه داری تھی ۔
  • حضور اکر م (ص) کی کائنات کے خاتمے کے حوالے سے ڈرانے کی ذمه داری ، لوگوں کو مسیح موعود یعنی حضرت علی (ع) کی هدایت کی طرف دعوت کے سوا کچھ نهیں تھی۔
  • قریب‌الوقوع آخرالزمان کے آنے اور حضرت علی (ع) کا بحثیت مسیح موعود ظهور کے حوالے سے رسول اکرم(ص) کی پیشگوئی محقق نهیں هوئی اور دونوں کچھ عرصه بعد فوت هوگئے تو بعد کے اموی حکمرانوں بالخصوص عبد الملک بن مروان نے قرآن میں سنگین تبدیلیاں کیں۔ جس کے نتیجه میں آخر الزمان کا پهلو جو پیغمبر(ص) کی رسالت کا اصلی پهلو تھا ) پر توجه نهیں دی گئی ۔

اہل بیت(ع) انٹرنیشنل یونیورسٹی کے سربراه کا توصیفی الفاظ میں اظهار خیال

اہل البیت(ع) انٹرنیشنل یونیورسٹی کے سربراه ڈاکٹر سعید جزاری، جو بصیرت اور خالص محمدی اسلام کو فروغ دینے کا قطب ہونا چاہئے؛ نہ صرف اس نے "مؤرین کا قرآن " پراجیکٹ پر تنقید نہیں کی ہے۔ بلکہ تعریف و توصیف کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے اس کتاب کی عظمت کا ذکر کیا اور اسے ایک قابل قدر اقدام قرار دیا۔ ایک مضمون میں جو اہل بیت(ع) یونیورسٹی کی ویب سائٹ اور بعض دیگر ویب سائٹس پر دستیاب ہے، انہوں نے کہا: "... مورخین کے قرآن کو تاریخ کے میدان میں ایک اہم اور علمی کام سمجھا جاتا ہے۔ قرآن کے حوالے سے تحقیق ، جو سوربون یونیورسٹی فرانس کے ممتاز پروفیسر اور شیعہ محقق محمد علی معزی اور گیلوم ڈے (برسلز یونیورسٹی) کے زیر نگرانی اور ممتاز مغربی پروفیسروں اور محققین کے گروپ کے تعاون سے پانچ سال سے زیادہ عرصے میں فرانس میں میں لکھی گئی اور اس سال نومبر میں سیرف پیرس میں شائع ہوئی۔ "... یہ اہم کام فرانس کی سیکولر یونیورسٹی کے علمی ماحول میں پروفیسر امیر معزی کی گراں قدر کوششوں سے انجام دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فرانس کا علمی و تحقیقی نظام، جس کی بنیاد "تحقیق اور تعلیم میں غیر جانبداری" کے اصول پر قائم ہے، مسلم اور غیر مسلم محققین کو اس قابل قدر کام میں متعصبانہ یا مخالفانہ انداز میں اپنی رائے کا اظہار کرنے سے گریز کرنا پڑتا ہے۔ بلاشبہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مصنفین کے باطنی خیالات کی نفی کی جائے، لیکن اس قسم کے نقطہ نظر اور تحقیقی اسلوب سے کام کی قدر و منزلت میں کوئی کمی نہیں آتی اور اس کی عظمت اور وسعت محققین کے لئے ضرور ظاہر ہو جاتی ہے۔

کتاب کا تنقیدی جائزه

عالمی اسمبلی برای تقریب مذاهب اسلامی سے منسلک تحقیقی مرکز( پژوهشگاه مطالعات تقریبی )کی کوششوں سے اس کتاب کا جائزہ لینے اور تنقید کرنے کے لیے ماہرین کے موجودگی میں علمی نشستوں کےانعقاد کا سلسلہ شروع کیے ہوئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے ۔ ملکی اور غیر ملکی ممتاز قرآنی اسکالرز کی مدد اور تعاون سے اس منصوبے اور اس کے زیر انتظام منظرنامے کی وضاحت اوراس پر علمی تنقید کی کوشش جاری هے۔ اس لیے کہ "مؤرخین کا قرآن نامی کتاب" کا ایک حتمی نتیجہ "مؤمنین کے قرآن " کے مقابلے میں موجودہ قرآن کے نزول اور آسمانی هونے کا انکار یا اس کو مشکوک بنانا اور اسلام اور مسلمانوں کی شناخت اور تشخص کو ختم کرنا ہے اور دوسری طرف، اس کام کے مرتب کرنے والے، مالی تعاون کرنے والے اور میڈیا اسپانسرز وسیع پروپیگنڈے کے ساتھ دنیا میں اس مجموعہ کو قرآن کی شناخت کے لئے اهم اور علمی ماخذ کے طور پر متعارف کروانا چاہتے هیں ۔ تحقیقی مرکز برائے تقریبی مطالعات کے شعبہ قرآن و حدیث نے مؤرخین کے قرآن کے مطالب اور مواد کو تجزیاتی انداز میں سمجھنے اور عالم اسلام کے مسلم مفکرین کے ذریعے اس کا تنقیدی جائزہ لینے کے غرض سے اس مهم کا آغاز کیا ہے۔

حوالہ جات

  1. روش‌های مطالعات مدرن کتاب مقدس با تاکید بر قرآن مورخان (کتاب مقدس خاص کر کتاب «مورخین کا قرآن» کی تحقیق کے جدیدطریقوں پر تنقید)-taqribstudies.ir (زبان فارسی)- تاریخ درج شده: 21/نومبر/2023 ء تاریخ اخذ شده:18/جولائی/ 2024ء